Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 49

سورة النمل

قَالُوۡا تَقَاسَمُوۡا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَ اَہۡلَہٗ ثُمَّ لَنَقُوۡلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَا شَہِدۡنَا مَہۡلِکَ اَہۡلِہٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ ﴿۴۹﴾

They said, "Take a mutual oath by Allah that we will kill him by night, he and his family. Then we will say to his executor, 'We did not witness the destruction of his family, and indeed, we are truthful.' "

انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کھاکر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ... They said: "Swear one to another by Allah that we shall make a secret night attack on him and his household..." They took a mutual oath, pledging that during the night, whoever met the Allah's Prophet Salih, peace be upon him, he would assassinate him. ... ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ and thereafter we will surely say to his near relatives: `We witnessed not the destruction of his household, and verily, we are telling the truth."' But Allah planned against them and caused their plot to backfire. Mujahid said, "They took a mutual oath pledging to kill him, but before they could reach him, they and their people were all destroyed." Abdur-Rahman bin Abi Hatim said: "When they killed the she-camel, Salih said to them: تَمَتَّعُواْ فِى دَارِكُمْ ثَلَـثَةَ أَيَّامٍ ذلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ "Enjoy yourselves in your homes for three days. This is a promise (i.e., a threat) that will not be belied." (11:65) They said: `Salih claims that he will finish with us in three days, but we will finish him and his family before the three days are over.' Salih had a place of worship in a rocky tract in a valley, where he used to pray. So they set out to go to a cave there one night, and said, `When he comes to pray, we will kill him, then we will return. When we have finished him off, we will go to his family and finish them off too.' Then Allah sent down a rock upon them from the mountains round about; they feared that it would crush them, so they ran into the cave and the rock covered the mouth of the cave while they were inside. Their people did not know where they were or what had happened to them. So Allah punished some of them here, and some of them there, and He saved Salih and the people who were with him. Then he recited: وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

491یعنی صالح (علیہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کردیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کا صفایا کردیں۔ 492یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انھیں قتل کر گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] جب ان لوگوں نے ملی بھگت سے قدار کو آگے لگا کر ناقہ ن اللہ کو زخمی کردیا۔ تو حضرت صالح نے ان لوگوں کو تین دن بعد عذاب آنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ اس الٹی میٹم کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے ہی ہم کیوں نہ صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ بھی تمام کردیں۔ چناچہ نو بدمعاشوں نے حصرت صالح (علیہ السلام) کو بھی ٹھکانے لگا دینے کی ویسی کی سکیم بناوی، جیسی قریش مکہ نے ہجرت سے پیشتر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصہ پاک کردینے کے لئے بنائی تھی۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے یہ سمجھا کہ اس طرح بلوا کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم آپس میں بانٹ لیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آتے کی بات سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب حضرت صالح کے ولی) جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولی حضرت ابو طالب تھے ( ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ تو موقع پر موجود ہی نہ تھے۔ ہمیں کیا خبر کہ کون ان کو قتل کر گیا ہے۔ اور دوسرا فرق یہ تھا کہ قریش مکہ نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا جبکہ ان بدمعاشوں نے حصرت صالح اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اپنے اس منصوبہ کے معاہدہ پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے اور دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہ کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا تَقَاسَمُوْا باللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ۔۔ : ” لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ “ ” بَیَّتَ یُبَیِّتُ تَبْیِیْتًا “ شب خون مارنا، رات کو اچانک حملہ کرنا۔ جب ان لوگوں نے باہمی مشورے سے اونٹنی کو ہلاک کردیا اور صالح (علیہ السلام) نے انھیں تین دن بعد عذاب آنے سے خبردار کردیا تو اس کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں، اس سے پہلے کیوں نہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ تمام کردیں۔ چناچہ ان نو بدمعاشوں نے صالح (علیہ السلام) کے قتل کا ویسا ہی منصوبہ بنایا جیسا قریش مکہ نے ہجرت سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا بنایا تھا۔ البتہ یہ فرق ضرور تھا کہ قریش نے سوچا تھا کہ بدلے کی صورت میں قتل کرنے پر ہم سے دیت کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ ہم سب مل کر اکٹھی کرکے دے دیں گے۔ لیکن یہ بدمعاش ان سے بھی چار ہاتھ آگے کی بات سوچ رہے تھے، انھوں نے طے کیا کہ جب صالح ( (علیہ السلام) ) کے ولی (جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولی بنو ہاشم تھے) ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو موقع پر موجود ہی نہ تھے، ہمیں کیا خبر انھیں کون قتل کر گیا ہے ؟ دوسرا فرق یہ تھا کہ قریش مکہ نے صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا، جب کہ ان بدمعاشوں نے صالح (علیہ السلام) اور ان کے پورے خاندان کو مار ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور اپنے اس منصوبے کے معاہدے پر سب نے ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھائیں کہ ایک تو اس کو اور اس کے خاندان کو قتل کرکے دم لیں گے، دوسرے اپنے جرم کا کبھی اعتراف نہیں کریں گے۔ (کیلانی) 3 مفسر شنقیطی نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کو ان کے اولیاء کے ذریعے سے بہت نفع پہنچایا، کیونکہ ظاہر ہے کہ ان نو (٩) بدمعاشوں نے شب خون مار کر صالح (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کو قتل کرنے اور اس کا اعتراف نہ کرنے کا منصوبہ اسی لیے بنایا کہ وہ ان کے اولیاء کے خوف سے علانیہ قتل کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے اور قتل کرنے کی صورت میں بھی انھیں ان کے اولیاء کا خوف تھا۔ “ جیسا کہ قریش ابوطالب اور بنو ہاشم کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر علانیہ ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ We shall attack him (Salih علیہ السلام) and his family at night, then will say to his heir, We did not witness the destruction of his family and we are really truthful - 27:49. The plan was that all of them together should attack him and his companions in the darkness of night, and kill them all. And when the claimant of the blood would make the claim, they would say that they did not kill him, and also they did not know who had killed him. In saying so they would have uttered the truth because no one could have known who had killed whom in the darkness of the night. The point to note here is that all the acts of infidelity, disbelief, killing and pillage were being performed by the infidels, rather than those among them who were hardened criminals. Yet they were careful that they don&t speak a lie or get blamed for falsehood. This shows how great the sin of falsehood is, that even the perpetrators of heinous crimes avoid it for the sake of their self-respect. The other thing worth noting in this verse is that the one whom these infidels had mentioned as the Wall or heir of Sayyidna Salili (علیہ السلام) was a man of his own family. So, why did they leave him out from being assassinated? The answer to this question is that he might have been the successor from the lineage point of view, but otherwise he could be an infidel and be a party with the infidels. There could have been the consideration that he might claim the compensation for the blood of Sayyidna Salih (علیہ السلام) because of his relationship with him. The other possibility is that he might have been a Muslim but enjoyed a prominent position and hence there could have been the risk of uprising and reprisal among the people. Only Allah knows best.

لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ، مطلب یہ تھا کہ ہم سب مل کر رات کے اندھیرے میں ان پر اور ان کے متعلقین پر چھاپہ ماریں، سب کو ہلاک کردیں، پھر ان کے خون کا دعویدار وارث تحقیق و تفتیش کے لئے کھڑا ہوگا تو ہم یہ کہہ دیں گے کہ ہم نے تو فلاں آدمی کو نہ مارا، نہ مارتے کسی کو دیکھا۔ اور ہم اپنے اس قول میں اس لئے سچے ہوں گے کہ رات کے اندھیرے میں یہ تعیین کہ کس نے کس کو مارا ہمیں معلوم نہیں ہوگی۔ اس میں ایک بات یہ قابل نظر ہے کہ یہ کفار اور ان میں سے بھی چیدہ بدمعاش جو فساد میں مصروف تھے یہ سارے کام شرک کفر اور قتل و غارتگری کے کر رہے ہیں اور کوئی فکر نہیں، مگر ان کو بھی یہ فکر لاحق ہوئی کہ ہم جھوٹ نہ بولیں یا جھوٹے قرار نہ دیئے جاویں۔ اس سے انداز لگایئے کہ جھوٹ کیسا بڑا گناہ ہے کہ سارے بڑے بڑے جرائم کے مرتکب بھی اپنی شرافت نفس اور عزت کی حفاظت کے لئے جھوٹ بولنے پر اقدام نہ کرتے تھے۔ دوسری بات اس آیت میں یہ قابل غور ہے کہ جس شخص کو ان لوگوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کا ولی قرار دیا ہے وہ تو انہی اہل صالح میں شامل تھا اس کو قتل کے ارادہ سے کیوں چھوڑ دیا۔ جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ ولی خاندانی اعتبار سے ولی ہو مگر کافر ہو کافروں کے ساتھ ملا ہوا ہو صالح (علیہ السلام) اور ان کے متعلقین کے قتل کے بعد وہ ان کے خون کا دعویٰ اپنے نسبی تعلق کی بناء پر کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمان ہی ہو مگر کوئی بڑا آدمی ہو جس کے قتل کرنے سے اپنی قوم میں اختلاف و انتشار کا خطرہ ہو اس لئے اس کو چھوڑ دیا۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللہِ لَـنُبَيِّتَـنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّہٖ مَا شَہِدْنَا مَہْلِكَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۝ ٤٩ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ بىيّوت والبَيَاتُ والتَّبْيِيتُ : قصد العدوّ ليلا . قال تعالی: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف/ 97] ، بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف/ 4] والبَيُّوت : ما يفعل باللیل، قال تعالی: بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء/ 81] . يقال لكلّ فعل دبّر فيه باللیل : بُيِّتَ ، قال تعالی: إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء/ 108] ، وعلی ذلک قوله عليه السلام : «لا صيام لمن لم يبيّت الصیام من اللیل» وبَاتَ فلان يفعل کذا عبارة موضوعة لما يفعل باللیل، كظلّ لما يفعل بالنهار، وهما من باب العبارات . البیات والتبیت کے معنی رات میں دشمن پر حملہ کرنے یعنی شبخون مارنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنا بَياتاً وَهُمْ نائِمُونَ [ الأعراف/ 97] کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بےخوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ ( بیخبر ) سو رہے ہوں ۔ بَياتاً أَوْ هُمْ قائِلُونَ [ الأعراف/ 4] رات کو آتا تھا جب کے وہ سوتے تھے یا ( دن کو ) جب وہ قیلو لہ ( یعنی دن کو آرام ) کرتے تھے ۔ البیوت وہ معاملہ جس پر رات بھر غور و خوض کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے ؛۔ بَيَّتَ طائِفَةٌ مِنْهُمْ [ النساء/ 81] ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں ۔ اور بیت الامر کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا ۔ چناچہ فرمایا ؛۔ إِذْ يُبَيِّتُونَ ما لا يَرْضى مِنَ الْقَوْلِ [ النساء/ 108] حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا اسی طرح ایک روایت ہے (48) لاصیام لمن لم یبیت الصیام من الیل کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا ۔ اور بات فلان یفعل کذا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیسا کہ ظل کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) انھوں نے آپس میں یہ گفتگو کی کہ سب مل کر اس چیز پر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاؤ کہ ہم رات کے وقت حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کریں گے اور نعوذ باللہ ان سب کو مار ڈالیں گے پھر ان کے وارثوں اور رشتہ داروں سے کہہ دیں گے ہم حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے مارے جانے کے وقت موجود نہ تھے اور ہم اپنی بات میں بالکل سچے ہیں اور پھر ہماری کوئی بھی تردید نہیں کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (قَالُوْا تَقَاسَمُوْا باللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ ) ” ان سب سرداروں نے مل کر حضرت صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ ان میں سے کوئی اکیلا یہ اقدام کر کے حضرت صالح (علیہ السلام) کے قبیلے کے ساتھ دشمنی مول نہیں لے سکتا تھا ‘ اس لیے انہوں نے حلف اٹھوا کر سب کو اس پر آمادہ کیا۔ سب کو اس طرح اس مہم میں شامل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان میں سے کوئی شخص راز فاش نہ کرسکے۔ قبائلی روایات و قوانین کے تحت پورا قبیلہ بحیثیت مجموعی اپنے تمام افراد کے جان و مال کے تحفظ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اپنے کسی فرد کو کوئی گزند پہنچنے کی صورت میں پورا قبیلہ یک جان ہو کر اس کے بدلے کا اہتمام کرتا ہے۔ سورة ہود ( علیہ السلام) میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بھی آپ ( علیہ السلام) کے خلاف ایسا ہی اقدام کرنا چاہتے تھے لیکن آپ ( علیہ السلام) کے قبیلے کے ڈر کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے۔ اپنی اس مجبوری کا اقرار انہوں نے ان الفاظ میں کیا تھا : (وَلَوْلاَ رَہْطُکَ لَرَجَمْنٰکَز) (آیت ٩١) ” اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کردیتے۔ “ خود محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بھی مکہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ سب مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے درپے ہوگئے ‘ مگر اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ان کا یہ اقدام ان کے قبائل کے درمیان کہیں خانہ جنگی کا باعث نہ بن جائے۔ چناچہ انہوں نے بھی بعینہٖ وہی منصوبہ بنایا جو حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بنایا تھا کہ ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان اس عمل میں شریک ہو اور سب مل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کریں۔ اس طرح نہ تو یہ پتا چل سکے گا کہ اصل قاتل کون ہے اور نہ ہی بنو ہاشم سب قبائل سے بدلہ لینے کی جرأت کرسکیں گے۔ بہر حال حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے ان نو سرداروں نے باہم حلف اٹھا کر منصوبہ بنایا کہ وہ سب مل کر رات کو آپ ( علیہ السلام) کے گھر پر دھاوا بول دیں گے اور :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 "The guardian": the chief of the Prophet Salih's tribe, who, according to the ancient tribal tradition and custom, could make a claim to blood vengeance. The same was the position in Makkah of the Holy Prophet's uncle, Abu Talib. The Quraish were hesitant that if they attacked and killed the Holy Prophet, Abu Talib, the chief of Bani Hashim, would come out with a claim to blood vengeance on behalf of his clan . 64 This precisely was the kind of plot which the Makkan chiefs of the clans were devising against the Holy Prophet, and they devised the same ultimately on the occasion of migration (Hijrah) to kill him. They decided that men from all the clans would attack him in a body so that the Bani Hashim could not hold any one of the clans as responsible for the murder, and, therefore, would fmd it impossible to fight all of them at one and the same time.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 63 یعنی حضرت صالح علیہ السلام کے قبیلے کے سردار سے جس کو قدیم قبائلی رسم و رواج کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا ، یہ وہی پوزیشن تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ کے چچا ابوطالب کو حاصل تھی ، کفار قریش بھی اسی اندیشے سے ہاتھ روکتے تھے کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں گے تو بنی ہاشم کے سردار ابو طالب اپنے قبیلے کی طرف سے خون کا دعوی لے کر اٹھیں گے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 64 یہ بعینہ اسی نوعیت کی سازش تھی جیسی مکہ کے قبائلی سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سوچتے رہتے تھے اور بالاخر یہی سازش انہوں نے ہجرت کے موقع پر حضور کو قتل کرنے کے لیے کی ، یعنی یہ کہ سب قبیلوں کے لوگ ملکر آپ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھہرا سکیں اور سب قبیلوں سے بیک وقت لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:49) قالوا۔ یعنی ان نو اشخاص نے کہا۔ تقاسموا : تقاسم یتقاسم تقاسم (تفاعل) سے امر کا صیغہ ۔ جمع مذکر حاضر ہے تم آپس کیں قسمیں کھاؤ۔ تم باہم قسم کھاؤ۔ لنبیتنہ۔ میں لام تاکید کے لئے ہے نبی تن مضارع تاکید بانون ثقیلہ جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب (حضرت صالح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے) بیت یبیت تبییت تفعیل رات میں کوئی کام کرنا۔ العدو دشمن پر شبخون مارنا۔ دشمن پر رات میں حملہ کرنا۔ لنبیتنہ کہ ہم ضرور صالح اور اہلہ اس کے اہل خانہ پر سب خون مار کر (ہلاک کردیں گے) ۔ لولیہ مضاف مضاف الیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع حضرت صالح ہیں۔ اس کے وارث کو۔ ماشھدنا۔ ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم موجود نہ تھے۔ مہلک اہلہ : اہلہ مضاف مضاف الیہ دونوں مل کر مہلک کا مضاف الیہ۔ مہلک مضاف۔ مہلک مصدر بھی ہوسکتا ہے اور ظرف مکان اور ظرف زمان بھی۔ ہلاک ہونا۔ مرنے کا وقت۔ مرنے کی جگہ ما شھدنا مہلک اہلہ۔ ہم نے دیکھا ہی نہیں ان کے متعلقین کی ہلاکت کو۔ یا ہم ان کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہ تھے ۔ یا ہم جائے ہلاکت پر موجود نہ تھے۔ یہاں اہلہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ولی ہے اور اہل ولی سے مراد حضرت صالح اور ان کے متعلقین ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) ان فسادیوں نے آپس میں کہا کہ سب اس پر اللہ کی قسم کھائو کہ ہم صالح (علیہ السلام) اور اس کے متعلقین پر شب خون ماریں گے پھر ہم اس کی طرف سے دعویٰ کرنیوالے ولی اور وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم تو ان لوگوں کے مارنے جانے کے وقت موجود ہی نہ تھے اور یقینا ہم بالکل ہی سچے اور راست گو ہیں۔ یعنی اس بات پر قسم کھا کر متفق ہو کہ ایک رات کو شب خون مار کر ان سب مسلمانوں اور صالح (علیہ السلام) کا صفایا کردو پھر اگر تحقیق کا معاملہ آئے اور ان لوگوں کا کوئی ولی کھڑا ہو اور پنچایت میں مقدمہ آئے تو خون کا دعویٰ کرنے والے وارث سے ہم کہہ دیں کہ مارنا تو کیسا ہم تو وہاں موجود بھی نہ تھے اور تاکیداً کہیں گے کہ ہم بالکل راست گو ہیں گویا قتل کا فیصلہ بھی کرلیا اور بیان بھی مرتب کرلئے اور یہ سمجھے کہ رات کا واقعہ ہوگا گواہ کوئی ملے گا نہیں ہم بری ہوجائیں گے۔