Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 56

سورة النمل

فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَخۡرِجُوۡۤا اٰلَ لُوۡطٍ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ ۚ اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ ﴿۵۶﴾

But the answer of his people was not except that they said, "Expel the family of Lot from your city. Indeed, they are people who keep themselves pure."

قوم کا جواب بجز اس کہنے کے اور کچھ نہ تھا کہ آل لوط کو اپنے شہر سے شہر بدر کر دو یہ تو بڑے پاکباز بن رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There was no other answer given by his people except that they said: "Drive out the family of Lut from your city. Verily, these are men who want to be clean and pure!" means, `they feel embarrassed because of the deeds you are doing, and because you approve of your actions, so expel them from among yourselves, for they are not fit to live among you in your city.' So, the people resolved to do that, and Allah destroyed them, and a similar end awaits the disbelievers. Allah says: فَأَنجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلاَّ امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

561بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] بجائے اس کے کہ وہ حصرت لوط (علیہ السلام) کی نصیحت پر کچھ اپنی اصلاح کرتے وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ لوط (علیہ السلام) اور ان کے متبین کو از راہ تمسخر پاکبازی کا طعنہ دین۔ پھر انھیں اپنے شہر سے نکال دینے کی دھمکی بھی دینے لگے کہ تم جیسے پاکباز ہم گندے لوگوں میں کیونکر رہ سکتے ہیں۔ لہذا تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ ۔۔ : لوط (علیہ السلام) کی بہترین نصیحت کا جواب ان کے پاس جہالت کے سوا کچھ نہ تھا اور انھوں نے ثابت کردیا کہ لوط (علیہ السلام) جو انھیں ” قَومٌ تَجْھَلُوْن “ کہہ رہے تھے، درست ہی کہہ رہے تھے۔ چناچہ انھوں نے اتنی سنجیدہ بات کا جواب استہزا اور تمسخر کے ساتھ دیا، جو جاہلوں کا کام ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : اَعُوْذُ باللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ) [ البقرۃ : ٦٧ ] ” میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں کہ میں جاہلوں سے ہوجاؤں۔ “ مزید دیکھیے سورة اعراف (٨٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْٓا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ۝ ٠ۚ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَہَّرُوْنَ۝ ٥٦ جوب والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ طهر والطَّهَارَةُ ضربان : طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] ، ( ط ھ ر ) طھرت طہارت دو قسم پر ہے ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) ان کی قوم کو سوائے اس کے اور کوئی جواب نہ بن پڑا کہ تم لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں صاحبزادیوں یعنی زعوراء اور ریثاء کو اس بستی سدوم سے نکال دو ، کیوں کہ یہ لوگ مردوں سے شہوت رانی کے بارے میں بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:56) الا الخ استثناء مفرغ (وہ استثناء جس کا مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو۔ جیسے ماجاءنی الا زید زید کے سوا کوئی میرے پاس نہیں آیا۔ ان والوا اخرجوا ال لوط ۔۔ الخ اسم کان اور جواب قومہ۔ کان کی خبر۔ اور اس کی قوم کا جواب بجز اس کے نہ تھا کہ انہوں نے کہا آل لوط کو اپنی بستی سے نکال دو ۔ ال لوط سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کے تابعین۔ من اتبع دینہ جنہوں نے ان کے دین کا اتباع کیا تھا۔ یتطھرون ۔ مضارع جمع مذکر غائب تطھر (تفعل مصدر۔ پاک صاف بنتے ہیں (باب تفعل کے خواص میں سے تکلف یعنی ماخذ میں تصنع ظاہر کرنا ہے) یعنی یہ بڑے پاک صاف بنے پھرتے ہیں (جو وہ ہیں نہیں) یا یہ انہوں نے طنزا اور استہزاء کہا کہ یہ بڑے پرہیزگار پاک صاف تو دیکھو) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فما کان ……یتطھرون (٦٥) انہوں نے بطور مزاح حضرت لوط اور مومنین کو ” پاکباز “ کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا یہ فعل گندہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ الٹا ان پاکبازوں کو گندے لوگ سمجھتے ہیں اور ان کو یہ بات بری لگتی ہو کہ مسلمان اپنے آپ کو پاک سمجھتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی فطرت کے اندر اس قدر انحراف پیدا ہوگیا تھا کہ اس فعل کو گندگی نہ سمجھ رہے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس فعل کو چھوڑنا وہ اپنے لئے گندہ فعل سمجھ رہے ہوں۔ بہرحال ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا اور پختہ ارداہ کرلیا کہ حضرت لوط کو ملک بدر کردیں لیکن اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔ اللہ نے ان کو دنیا بدر کردیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اس پر اس کی قوم کیپ اس سوائے اس کے اور کوئی جواب نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے کہ لوط (علیہ السلام) اور اس کے متعلقین کو اپنی بستی سے نکال دو کیونکہ یہ لوگ بہت ستھرے اور پاکیزہ بننا چاہتے ہیں یعنی ان کو پاک باز بننے کا بہت شوق ہے۔