Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 58

سورة النمل

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۵۸﴾٪  19

And We rained upon them a rain [of stones], and evil was the rain of those who were warned.

اور ان پر ایک ( خاص قسم کی ) بارش برسادی پس ان دھمکائے ہوئے لوگوں پر بری بارش ہوئی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِم مَّطَرًا ... And We rained down on them a rain. means; stones of Sijjil, in a well-arranged manner one after another. Marked from your Lord; and they are not ever far from the evildoers. Allah said: ... فَسَاء مَطَرُ الْمُنذَرِينَ So, evil was the rain of those who were warned. meaning, those against whom proof was established and whom the warning reached, but they went against the Messenger and denied him, and resolved to drive him out from among them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

581ان پر عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور کھنگرو کی بارش ہوئی۔ 582یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کردی گئی لیکن وہ تکذیب وانکار سے باز نہیں آئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] لوط (علیہ السلام) کا قصہ اور اس قوم پر عذاب کی تفصیل پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے مثلاً سورة اعراف کی آیت نمبر ٨٣، ٨٤، سورة توبہ کی آیت نمبر ٧٠، سورة ہود کی آیت نمبر ٨٣، سورة حجر کی آیت نمبر ٧٣۔ وہاں سے حواشی ملاحظہ کر لئے جائیں۔ اس سورة میں تین انبیاء حضرت سلیمان، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہم السلام) کے حالات کا ژکر ہوا ہے۔ اور ان کے حالات میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات میں کوئی نہ کوئی مشابہت کا پہلو ضرور پایا جاتا ہے۔ مثلاً حصرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو یہ چیلنج کیا تھا کہ اگر تم مطیع فرمان بن کر حاضر ہوجاؤ تو بہتر ورنہ ہم ایسے لشکر سے تم پر حملہ کریں گے جس کے مقابلہ کی تم تاب نہ لاسکو گے۔ چناچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ پر ایسا ہی لشکر لائے تھے۔ جس کے مقابلہ کی ان میں تاب نہ تھی۔ حصرت صالح کو ان کی قوم نے بلوا کی صورت میں شبخون مار کر قتل کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ نے انھیں نجات دی۔ قریش مکہ نے بھی آپ سے یہی سلوک کرنا چاہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس سازش سے بال بال بچالیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے شہر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں۔ جبکہ قریش مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عملاً شہر مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمْطَرْنَا عَلَيْہِمْ مَّطَرًا۝ ٠ۚ فَسَاۗءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ۝ ٥٨ۧ مطر المَطَر : الماء المنسکب، ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. أي : مَمْطُورٌ ، يقال : مَطَرَتْنَا السماءُ وأَمْطَرَتْنَا، وما مطرت منه بخیر، وقیل : إنّ «مطر» يقال في الخیر، و «أمطر» في العذاب، قال تعالی: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] ( م ط ر ) المطر کے معنی بارش کے ہیں اور جس دن بارش بر سی ہوا سے ويومٌ مَطِيرٌ وماطرٌ ، ومُمْطِرٌ ، ووادٍ مَطِيرٌ. کہتے ہیں واد مطیر باراں رسیدہ وادی کے معنی بارش بر سنا کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مطر اچھی اور خوشگوار بارش کے لئے بولتے ہیں اور امطر عذاب کی بارش کیلئے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ [ الشعراء/ 173] اور ان پر ایک بارش بر سائی سو جو بارش ان ( لوگوں ) پر برسی جو ڈرائے گئے تھے بری تھی ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) چناچہ ہم نے ان سب پر خواہ مسافر ہوں یا مقیم پتھروں کا مینہ برسا دیا سو ان لوگوں کا کیا برا حال تھا جن کو حضرت لوط (علیہ السلام) نے عذاب الہی سے ڈرایا تھا پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًاج فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ ) ” یہاں پر اس سورت کا انباء الرسل کا حصہ بھی اختتام پذیر ہوا۔ اب اس کے بعد کچھ حصہ التذکیر بآلاء اللہ پر مشتمل ہے اور یہ اس سورت کا بالکل منفرد انداز ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: حضرت لوط (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود : 77 تا 83 اور سورۃ حجر : 58 تا 76 میں گذر چکا ہے، نیز پچھلی سور سورۃ شعراء 160 تا 175 بھی گذرا ہے اور ہم نے ان کا مختصر تعارف سورۂ اعراف 80 میں کرایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:58) فسائ : ساء یسوء (نصر) سوء مصدر۔ برا ہے (افعال ذم میں سے ہے) ماضی واحد مذکر غائب۔ المنذرین ۔ اسم مفعول۔ جمع مذکر۔ ڈرائے گئے۔ وہ لوگ جن کو سرکشی اور نافرمانی کی سزا سے ڈرایا گیا۔ انذر ینذر انذار (افعال) ڈرانا۔ نذر (بصورت اسم مصدر) خوف ۔ نذیر صفت مشبہ۔ ڈرانے والا منذر اسم فاعل۔ ڈرانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ وہ پتھروں کا مینہ تھا۔ 2۔ شروع سورت سے یہاں تک رسالت کی بحث تھی، آگے توحید کی بحث ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(58) اور ہم نے ان پر ایک عجیب قسم کا اور نئی طرح کا مینہ برسایا جو مینہ ان پر برسا جو ڈرائے جاچکے تھے وہ کیا برا مینہ تھا یعنی ان پر پتھرائو ہوا اور کھنگروں کا مینہ برسا ان لوگوں کو پہلے سے ڈرایا جاچکا تھا لیکن باز نہ آئے بالآخر بستیاں الٹ دی گئیں اور کھنگر برسائے گئے جیسا کہ سورة حجر میں گذرچکا ہے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قصے میں ہم لادیں گے لشکر جن سامنا نہ کرسکیں گے وہی بات ہوئی رسول میں اور مکہ والوں میں اور حضر ت صالح (علیہ السلام) پر نو شخص متفق ہوئے کہ رات کو پڑیں اللہ نے ان کو بچایا اور ان کو کھپایا ۔ مکہ کے لوگ بھی یہی چاہ چکے تھے لیکن نہ بنا جس رات حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی کئی کافر حضرت کے گھر کو گھیرے بیٹھے تھے کہ صبح کو اندھیرے میں نکلیں تو سب مل کر مارلیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکل گئے ان کو نہ سوجھا اور قوم لوط (علیہ السلام) نے چاہا کہ شہر سے نکال دیں یہ بھی چاہ چکے تھے اللہ نے آپ سے نکلنا بنادیا اور اسی میں کام بنا 12