Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 59

سورة النمل

قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیۡنَ اصۡطَفٰی ؕ آٰللّٰہُ خَیۡرٌ اَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ؕ۵۹﴾

Say, [O Muhammad], "Praise be to Allah , and peace upon His servants whom He has chosen. Is Allah better or what they associate with Him?"

تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے کیا اللہ تعالٰی بہتر ہے یا وہ جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to praise Allah and send Blessings on His Messengers Allah commands His Messenger to: قُلِ ... Say: ... الْحَمْدُ لِلَّهِ ... Praise and thanks be to Allah, meaning, for His innumerable blessings upon His servants and for His exalted Attributes and most beautiful Names. ... وَسَلَمٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى ... and peace be on His servants whom He has chosen! And He commands him to send peace upon the servants of Allah whom He chose and selected, i.e., His noble Messengers and Prophets, may the best of peace and blessings from Allah be upon them. This was the view of Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam and others;the meaning of the servants He has chose is the Prophets. He said, "This like He said in the Ayah; سُبْحَـنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَـمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ Glorified be your Lord, the Lord of honor and power! (He is free) from what they attribute unto Him! And peace be on the Messengers! And all the praises and thanks be to Allah, Lord of all that exists." (37:180-182) Ath-Thawri and As-Suddi said, "This refers to the Companions of Muhammad, may Allah be pleased with them all." Something similar was also narrated from Ibn Abbas, and there is no contradiction between the two views, because they were also among the servants of Allah whom He had chosen, although the description is more befitting of the Prophets. ... اللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ Is Allah better, or what they ascribe as partners (to Him)! This is a question aimed at denouncing the idolators for their worship of other gods besides Allah. Some more Proofs of Tawhid Then Allah begins to explain that He is the Only One Who creates, provides and controls, as He says:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ کہیں کہ ساری تعریفوں کے لائق فقط اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اسی نے اپنے بندوں کو اپنی بیشمار نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ۔ اس کی صفتیں عالی ہیں اس کے نام بلند اور پاک ہیں اور حکم ہوتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برگذیدہ بندوں پر سلام بھیجیں جیسے انبیاء اور رسول ۔ حمدوصلوٰۃ کا ساتھ ہی ذکر آیت ( سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ١٨٠؀ۚ ) 37- الصافات:180 ) ، میں بھی ہے ۔ ان کے تابعداروں کے بچالینے اور مخالفین کے غارت کردینے کی نعمت بیان فرما کر اپنی تعریفیں کرنے والے اور اپنے نیک بندوں پر سلام بھیجنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد بطور سوال کے مشرکوں کے اس فعل پر انکار کیا کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پاک اور بری ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

591جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کی رہنمائی کے لئے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ 592یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق رازق اور مالک یہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہوسکتا ہے جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک خیر اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے مطلق بہتر کے معنی میں ہے اس لیے کہ معبودان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] ویسے تو ہر حال میں اللہ کی تعریف بین کرنا چاہئے اور اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ لیکن اہل عرب اس جملہ کا استعمال عموماً اس وقت کرتے ہیں۔ جب فریق مخالف یا مخاطب پر دلائل کے ساتھ اتمام محبت کردی جائے۔ اور اس کے پاس ان دلائل کا کوئی معسول جواب نہ ہو یا اسے کوئی معقول جواب میسر نہ آئے۔ یہاں بھی تین انبیاء کا ذکر کرنے اور منکرین حق کا ایک ہی جیسا انجام بتلانے کے بعد یہ جملہ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ [٥٨] برگزیدہ لوگوں سے مراد انبیاء علیہم السلیم ہیں جن کے ساتھ ان کے ان متبعین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن کی اللؤہ تعالیٰ نے مدد فرمائی، انھیں کافروں کے مظالم سے نجات دلائی اور ان پر نازل کردہ عذاب سے انھیں بچا کر ان پر رحمت فرمائی۔ یہ مطلب تو ربط مضمون کے لحاظ سے ہے جملہ کا حکم عام ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں پر ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی رہتی ہے۔ [٥٩] یعنی اللہ تو وہ ہے جو مجرموں کو سزا دے کر اپنے بندوں کو ان کے مظالم سے بچا لیتا ہے اور ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ سوائے مشرکین مکہ یا اب تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ ایسی قورتوں والا اللہ بہتر ہے یا تمہارے وہ معبود جو دوسروں کو کوئی فائدہ یا نقصان تو کیا پہنچائیں گے۔ اپنی حفاظت تک کے لئے وہ تمہارے محتاج ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ : اس آیت کی پچھلی آیات کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ( علیہ السلام) کو جھٹلانے والی قوموں کے انجام بد کے اور انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو نجات دینے کے ذکر کے بعد فرمایا کہ اللہ کے اس احسان پر ” الحمد للہ “ کہو کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے منکروں کی جڑ کاٹ دی اور اپنے بندوں کو بچا لیا، جیسا کہ فرمایا : (فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ الأنعام : ٤٥ ] ” تو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنھوں نے ظلم کیا تھا اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ “ وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى : اس کا عطف ” الْحَمْدُ لِلّٰهِ “ پر بھی ہوسکتا ہے کہ کہو ” الْحَمْدُ لِلّٰهِ “ اور کہو ” َسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى“ اور ”ۧقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ “ پر بھی۔ اس صورت میں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے چنیدہ بندوں پر سلام ہے اور یہی راجح ہے۔ یعنی اللہ کے ان بندوں پر سلام ہے جنھیں اس نے نبوت کے لیے یا انبیاء پر ایمان لانے اور ان کی مدد کے لیے چن لیا اور جو اپنی اقوام کی شدید مخالفت اور بیشمار مصائب کے باوجود حق پر ڈٹے رہے اور حق کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اللہ کے ان بندوں میں انبیاء، ان کے صحابہ اور تمام مومن شامل ہیں، جیسا کہ تشہد میں ہے : ( اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ )” سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ “ اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ : یعنی اللہ تو وہ ہے جو مجرموں کو سزا دیتا ہے اور اپنے چنیدہ بندوں کو نجات دیتا ہے اور ان پر سلام بھیجتا ہے۔ اب بتاؤ وہ اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنھیں لوگوں نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، جو دوسروں کو نفع یا نقصان تو کجا اپنی حفاظت تک نہیں کرسکتے۔ 3 بعض مفسرین نے اس آیت کی پہلی آیات سے یہ مناسبت ذکر فرمائی کہ انبیاء کے قصص سے فارغ ہو کر ” اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ “ سے توحید کا بیان شروع فرمایا اور یہ الفاظ بطور خطبہ ارشاد فرمائے جو بیان شروع ہونے سے قبل کہنے چاہییں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اللہ کی تعریف اور پیغمبر پر سلام بھیج کر اگلی بات شروع کرنی لوگوں کو سکھلا دی۔ “ (موضح) چناچہ کلام کا یہی ادب علماء، خطباء اور واعظین کی تحریروں، تقریروں میں اور فتح کی خوش خبری اور کسی نعمت پر مبارکباد کے مکتوبات میں تورات سے چلا آتا ہے کہ ابتدا حمد وسلام سے کرتے ہیں۔ مگر اب اسے ملائیت سمجھا جانے لگا ہے اور موجودہ زمانے کے مسلمان مقررین اور مصنّفین اپنی گفتگو یا تحریر کا آغاز اس کلام سے کرنے کا تصور تک اپنے ذہن میں نہیں رکھتے، یا پھر اس میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ ” خَيْرٌ“ اسم تفضیل کا صیغہ ہے، جو اصل میں ” أَخْیَرُ “ تھا، زیادہ اچھا، یعنی کیا اللہ بہتر (زیادہ اچھا) ہے یا وہ جنھیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے معبودوں میں بھی کوئی خیر یا اچھائی ہے، کیونکہ ان میں تو کسی خیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ دراصل ان پر طنز ہے کہ تم جو ان باطل معبودوں کو پوجتے ہو تو یقیناً ان میں کوئی خیر سمجھ کر ہی پوجتے ہو، مگر یہ بتاؤ کہ تمہارے مطابق بھی بہتر اور زیادہ اچھا کون ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے کہ ضدی سے ضدی مشرک بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے معبود بہتر ہیں، اور یہ مان لینے کے بعد کہ بہتر اللہ تعالیٰ ہے، ان کے شرک کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے، اس لیے کہ یہ بات تو سراسر عقل کے خلاف ہے کہ بہتر کو چھوڑ کر کمتر کو اختیار کیا جائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This incident has been related at many places in the Qur&an, especially in Surah Al-A` raf, where its necessary details have been discussed and may be consulted if required. قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ (Say,|"Praise belongs to Allah - 27:59). After describing some events of the prophets and earlier people, and the episodes of torments they faced, this sentence is addressed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، that he should express his gratitude to Allah Ta’ ala, for his followers have been exempted from the punishment in this world. He is further asked to say salam to the earlier prophets and God-fearing persons. Majority of the commentators have adopted this explanation, but some feel that this sentence is also addressed to Sayyidna Lut (علیہ السلام) . It appears that the expression الَّذِينَ اصْطَفَىٰ (His slaves whom He has chosen - 27:59) is used in this verse for the prophets, like in another verse salam has been addressed to the prophets, وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿١٨١﴾ (And salam is on the messengers - 37:181). But Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) is of the opinion that it refers to the companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This explanation is also adopted by Sufyan Ath-Thauri. (Ibn Jarir) If the explanation of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) عنہما is adopted and the meaning of الَّذِينَ اصْطَفَىٰ - 27:59 is taken for the companions, then there will be a case for saying |"Alaihis Salam|" to non-prophets also. This subject will be discussed in detail Inshallah under Surah Al-Ahzab for the verse صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا (33:56). Ruling This verse also teaches the formalities of an address, a sermon or a lecture, that it should start with the praise of Allah and the salah (durood) and salam to the prophets. This had always been the practice of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم in his addresses. His companions also adopted the same practice by commencing not only their addresses but also all the important jobs by praising Allah Ta’ ala and then salah and salam on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) &. (Ruh).

معارف و مسائل اس قصے کے متعلق قرآن میں متعدد جگہ خصوصاً سورة اعراف میں ضروری مضامین بیان ہوچکے ہیں وہاں دیکھ لئے جاویں۔ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ، انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے کچھ حالات اور ان پر عذاب آنے کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ آپ کی امت کو دنیا کے عذاب عام سے مامون کردیا گیا ہے اور انبیاء سابقین اور اللہ کے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجئے۔ جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور بعض نے اس کا مخاطب بھی حضرت لوط (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ اس آیت میں الَّذِيْنَ اصْطَفٰى کے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ اور حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام امور حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام ہیں۔ سفیان ثوری نے اسی کو اختیار کیا ہے (اخرجہ عبد بن حمید و البزار و ابن جریر وغیرہم) اگر آیت میں الَّذِيْنَ اصْطَفٰى سے مراد صحابہ کرام لئے جائیں جیسا کہ ابن عباس کی روایت میں ہے تو اس آیت سے غیر انبیاء پر سلام بھیجنے کے لئے انہیں (علیہ السلام) کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی پوری تحقیق سورة احزاب میں آیت صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا کی تفسیر میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالی۔ مسئلہ : اس آیت سے خطبہ کے آداب بھی ثابت ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور انبیاء (علیہم السلام) پر درود وسلام سے شروع ہونا چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے تمام خطبات میں یہی معمول رہا ہے بلکہ ہر اہم کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود وسلام مسنون و مستحب ہے۔ (کذا فی الروح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلٰمٌ عَلٰي عِبَادِہِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى ۝ ٠ۭ اٰۗللہُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝ ٥٩ۭ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ اصْطِفَاءُ : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته . واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] ، إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران/ 33] ، اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران/ 42] ، اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف/ 144] ، وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص/ 47] ، واصْطَفَيْتُ كذا علی كذا، أي : اخترت . أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات/ 153] ، وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل/ 59] ، ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر/ 32] ، والصَّفِيُّ والصَّفِيَّةُ : ما يَصْطَفِيهِ الرّئيسُ لنفسه، قال الشاعر : لک المرباع منها والصَّفَايَا وقد يقالان للناقة الكثيرة اللّبن، والنّخلة الكثيرة الحمل، وأَصْفَتِ الدّجاجةُ : إذا انقطع بيضها كأنها صَفَتْ منه، وأَصْفَى الشاعرُ : إذا انقطع شعره تشبيها بذلک، من قولهم : أَصْفَى الحافرُ : إذا بلغ صَفًا، أي : صخرا منعه من الحفر، کقولهم : أكدى وأحجر «2» ، والصَّفْوَانُ کالصَّفَا، الواحدةُ : صَفْوَانَةٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] ، ويقال : يوم صَفْوَانٌ: صَافِي الشّمسِ ، شدید البرد . الاصطفا ء کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران/ 33] خدا نے آدم اور نوح ۔۔۔۔۔۔ کو ( تمام جمان کے لوگوں میں ) منتخب فرمایا تھا ۔ اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران/ 42] خدا نے تم کو برگزیدہ کیا اور پاک بنایا اور ۔۔۔۔۔ منتخب کیا ۔ اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف/ 144] میں نے تم کو ۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے ممتاز کیا ۔ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص/ 47] اور یہ لوگ ہمارے ہاں منتخب اور بہتر افراد تھے ۔ اصطفیت کذا علی کذا ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینا اور پسند کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات/ 153] کیا اس نے بیتوں کی نسبت بیٹیوں کو پسند کیا ۔ وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل/ 59] اس کے بندوں پر سلام جن کو اس نے منتخب فرمایا : ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر/ 32] پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ۔ الصفی والصفیۃ مال غنیمت کی وہ چیز جسے امیر اپنے لئے منتخب کرنے ( جمع صفایا ) شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (274) لک المریاع منھا والصفایا تمہارے لئے اس سے ربع اور منتخب کی ہوئی چیزیں ہیں ۔ نیز صفی وصفیۃ (1) بہت دودھ دینے والی اونٹنی (2) بہت پھلدار کھجور ۔ اصفت الدجاجۃ مرغی انڈے دینے سے رک گئی گویا وہ انڈوں سے خالص ہوگئی اس معنی کی مناسبت سے جب شاعر شعر کہنے سے رک جاے تو اس کی متعلق اصفی الشاعر کہاجاتا ہے اور یہ اصفی الحافر کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کنواں کھودنے والا صفا یعنی چٹان تک پہنچ گیا جس نے اسے آئندہ کھدائی سے روک دیا جیسا کہ اکدی واحجر کے محاورات اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اور الصفا کی طرح صفوان کے معنی بھی بڑا صاف اور چکنا پتھر کے ہیں اس کا واحد صفوانۃ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة/ 264] اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو ۔ یوم صفوان خنک دن میں سورج صاف ہو ( یعنی بادل اور غبارہ نہ ہو ) آللہ۔ اصل میں اللہ تھا۔ ہمزہ استفہام کو الف سے بدل کر مد کو لایا گیا ہے خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منکرین کی ہلاکت پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کیجیے اور اس کا شکر کیجیے اور اس کے بندوں پر جن کو اس نے نبوت کے ذریعے منتخب فرمایا ہے یا یہ کہ ان بندوں پر جن کو اس نے اسلام کی دولت سے سرفراز فرمایا ہے اور وہ امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ط) ” یعنی تمام انبیاء ورسل ( علیہ السلام) اللہ کے چنے ہوئے لوگ تھے ‘ جیسا کہ سورة آل عمران میں بھی فرمایا گیا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (ءٰٓ اللّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) ” ذرا سوچو کہ اللہ کے مقابلے میں تمہارے ان معبودوں کی کیا حیثیت ہے ؟ تم لوگ خود تسلیم کرتے ہو کہ تمام اختیارات کا مالک اللہ ہی ہے۔ تو پھر ان بےاختیار معبودوں کو تم کس حیثیت سے پوجتے ہو ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 From here starts the second discourse, and this is its introductory sentence. This introduction teaches how the Muslims should begin a speech. That is why the truly Islamic-minded people have always been starting their speeches and discourses with the praise of Allah and salutation on His righteous servants. But now this is looked upon as characteristic of bigotry, and the present-day Muslim speakers have no idea of starting their speech with these words, or feel shy of doing so. 72 Superficially the question whether Allah is better or the false deities appears to be odd. As a matter of fact, there can be no question of goodness in the false gods and, therefore, they cannot be compared to Allah. As for the polytheists, even they had no misconception that Allah could be compared to their gods. But they were asked this question in order to be warned against their error. For obviously none in the world would do anything unless he saw some good in it. Now if the polyltheists served their deities and implored them for their needs instead of Allah, and presented their offerings before them, this would be meaningless unless they perceived some good in them. That is why they have been explicitly asked to consider whether Allah is better or their deities, for they could not face and answer this forth-right question. Even the most hardened polytheist among them could not venture to say that their deities were better. But if they acknowledged that Allah is better it would demolish their whole creed, for then it would be unreasonable to adopt the inferior against the superior creed. The Meaning of the Qur'an Thus, the Qur'an at the very outset made the opponents helpless. After this, pointed questions have been asked, one after the other, about the manifestations of the power and creation of Allah to the effect: "Whose works are these? Is there besides Allah any other god also associated with these works'? If not, why have you then set up these others as your deities?" According to traditions, whenever the Holy Prophet recited this verse, he would immediately respond to it, saying: "Nay, but Allah is better, and He alone is the Everlasting and Exalted and High."

سورة النمل حاشیہ نمبر : 71 یہاں سے دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے اور یہ فقرہ اس کی تمہید ہے ، اس تمہید سے یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی تقریر کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے ۔ اسی بنا پر صحیح اسلامی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہمیشہ سے اپنی تقریریں اللہ کی حمد اور اس کے نیک بندوں پر سلام سے شروع کرتے رہے ہیں ۔ مگر اب اسے ملائیت سمجھا جانے لگا ہے اور موجودہ زمانے کے مسلمان مقررین اس سے کلام کی ابتدا کی ابتدا کرنے کا تصور تک اپنے ذہن میں نہیں رکھتے یا پھر اس میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 72 بظاہر یہ سوال بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ اللہ بہتر ہے یا یہ معبودان باطل حقیقت کے اعتبار سے تو معبودان باطل میں سرے سے کسی خیر کا سوال ہی نہیں ہے کہ اللہ سے ان کا مقابلہ کیا جائے ، رہے مشرکین تو وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے کہ اللہ کا اور ان کے معبودوں کا کوئی مقابلہ ہے ، لیکن یہ سوال ان کے سامنے اس لیے رکھا گیا کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہوں ، ظاہر ہے کہ کوئی شخص دنیا میں کوئی کام بھی اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ اپنے نزدیک اس میں کسی بھلائی یا فائدے کا خیال نہ رکھتا ہو ۔ اب اگر یہ مشرک لوگ اللہ کی عبادت کے بجائے ان معبودوں کی عبادت کرتے تھے ، اور اللہ کو چھوڑ کر ان سے اپنی حاجتیں طلب کرتے اور ان کے آگے نذر و نیاز پیش کرتے تھے ، تو یہ اس کے بغیر بالکل بے معنی تھا کہ ان معبودوں میں کوئی خیر ہو ، اسی بنا پر ان کے سامنے صاف الفاظ میں یہ سوال رکھا گیا کہ بتاؤ اللہ بہتر ہے یا تمہارے یہ معبود؟ کیونکہ اس دو ٹوک سوال کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہ تھی ، ان میں سے کوئی کٹے سے کٹا مشرک بھی یہ کہنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا کہ ہمارے معبود بہتر ہیں ، اور یہ مان لینے کے بعد کہ اللہ بہتر ہے ، ان کے پورے دین کی بنیاد ڈھے جاتی تھی ، اس لیے کہ پھر یہ بات سراسر نامعقول قرار پاتی تھی کہ بہتر کو چھوڑ کر بدتر کو اختیار کیا جائے ۔ اس طرح قرآن نے تقریر کے پہلے ہی فقرے میں مخالفین کو بے بس کردیا ، اس کے بعد اب پے در پے اللہ تعالی کی قدرت اور تخلیق کے ایک ایک کرشمے کی طرف انگلی اٹھا کر پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ یہ کام کس کے ہیں؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ان کاموں میں شریک ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر یہ دوسرے آخر کیا ہیں کہ انہیں تم نے معبود بنا رکھا ہے ۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فورا اس کے جواب میں فرماتے بل اللہ خیر و ابقی واجل و اکرم ، نہیں بلکہ اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا اور بزرگ و برتر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: مختلف پیغمبروں کے واقعات بیان فرمانے کے بعد اﷲ تعالیٰ عقیدۂ توحید کے دلائل بیان فرما رہے ہیں جو تمام پیغمبروں کا مشترک اور متفقہ عقیدہ تھا۔ کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر فرمایا جارہا ہے کہ جو ذات اس کائنات کی تخلیق کر کے اس کا محیّر العقول انتظام کر رہی ہے، کیا اُسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی اور مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے؟ یہ توحید کے بارے میں ایک انتہائی بلیغ خطبہ ہے جس کے زور بیان کو کسی ترجمے میں منتقل کرنا ممکن نہیں، تاہم مفہوم ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ یہ خطبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہی لوگوں تک پہنچنا تھا، اس لئے اس کے شروع میں آپ کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اِس کا آغاز اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اُس کے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیج کر کیا جائے، اور اِس طرح یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ جب کوئی تقریر کرنی ہو تو اُسے اﷲ تعالیٰ کی حمد اور اُس کے پیغمبروں پر درود وسلام بھیج کر کیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:59) اصطفی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے چن لیا۔ اس نے پسند کرلیا۔ اصطفی یصطفی اصطفاء (افتعال) مصدر۔ صفو مادہ۔ مصطفیٰ اسم مفعول ۔ برگزیدہ ۔ چنا ہوا۔ پسند کیا ہوا۔ الصفاء کے معنی کسی چیز کا ہر قسم کی آمیزش سے پاک اور صاف ہونا۔ اور الاصطفاء کے معنی صاف اور خالص چیز کا لے لینا کے ہیں جیسے الاختیار کے معنی بہتر (خیر) چیز لے لینا اور الاجتباء کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ہیں۔ آللہ۔ اصل میں اللہ تھا۔ ہمزہ استفہام کو الف سے بدل کر مد کو لایا گیا ہے۔ خیر۔ اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اسم تفضیل سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ صفت دونوں میں پائی جاتی ہے لیکن ایک میں زیادہ دوسرے میں کم۔ جیسے زید اعلم من عمرو کا معنی ہے کہ زید عمرو سے نہ زیادہ عالم ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمرو بالکل جاہل ہے لیکن یہاں تو بتوں میں واہمہ تک نہیں۔ اس لئے علماء نے تصریح کی ہے کہ یہ یہاں اسم تفضیل کے معنی میں استعمال نہیں بلکہ محض خیر و خوبی کے اظہار کے لئے ہے۔ یا اس لئے کہ کفار اپنے زعم باطل میں کچھ نہ کچھ خیر و بھلائی تو یقین کرتے تھے اسی لئے تو ان کی پوجا کرتے تھے ۔ (ضیاء القرآن) اما۔ مرکب ہے۔ ام اور ما موصولہ ہے۔ تقدیر کلام ہے : اعبادۃ اللہ تعالیٰ خیر ام عبادۃ ما یشرکون ۔ کیا اللہ تعالیٰ کی عبادت بہتر ہے یا (ان بتوں کی) جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ ان میں تمام انبیا اور ان پر ایمان لانے والے شامل ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ان سے صحابہ کرام (رض) مراد ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لئے چن لیا۔ (روح) یہاں انبیا کے واقعات ختم ہوئے اب اس کے بعد توحید کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس مناسبت پر شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اللہ کی تعریف اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیج کر اگلی بات شروع کرنی لوگوں کو سکھا دی۔ (موضح) چناچہ یہی آداب کلام علماء خطاب اور واعظین میں تو ارث سے چلے آتے ہیں کہ خطبہ کو حمد و صلوٰۃ سے شروع کرتے ہیں۔ 5 ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بت بھی بہت اچھے ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ سے کم۔ بتوں میں تو اچھائی کی پرچھائیں تک نہیں ہے اس لئے یہ بات دراصل بتوں سے تہکم (طنز) کے طور فرمائی گئی ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ظاہر اور مسلم ہے کہ اللہ ہی بہتر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بڑی بڑی اقوام کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد سورة کا اختتام ان الفاظ پر کیا جا رہا ہے کہ تمام تعریفات ” اللہ “ کے لیے ہیں اور اولولعزم انبیاء پر ان کے رب کی طرف سے سلام ہو۔ اس موقعہ پر رب ذوالجلال نے اپنی تعریف کے الفاظ اس لیے استعمال فرمائے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی ایسی طاقت تھی اور نہ ہے جو متکبر اور باغی اقوام کے وجود سے زمین کو پاک کرسکے۔ اقوام کی انتہا درجے کی مخالفت کے باوجود انبیاء نے اپنے کام کا حق ادا کیا جس پر اللہ کی رحمت کے حق دار قرار پائے لہٰذا ہمیشہ ہمیش کے لیے ان پر ” اللہ “ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے گا۔ سورۃ کے آخر میں قوم صالح اور قوم لوط کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں اور سلام ہے ان لوگوں پر جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کام کے لیے منتخب فرمایا اس کے بعد مشرکین سے استفسار فرمایا ہے کہ بتاؤ ہر حال میں اللہ بہتر ہے یا جن کو شریک بناتے ہو وہ بہتر ہیں ؟ قوموں کی تباہی کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الحمدللہ کہنے کا اس لیے حکم فرمایا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے اپنے منتخب بندوں یعنی انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کفار اور مشرکین کے مقابلے میں کامیابی عنایت فرمائی۔ دنیا کو ظلم وستم اور کفرو شرک کی غلاظت سے پاک کیا۔ اس میں سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخالفوں کے لیے پیغام ہے کہ بالآخر آپ اور آپ کے ساتھی کامیاب ہوں گے۔ کفار اور مشرکین ناکام اور نامراد ٹھہریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں توجہ دلائی ہے کہ سوچو اور غور کرو ! کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو انھیں کوئی بچانے اور چھڑانے والا تھا ؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا پھر سوچ لو ! تمہارے لیے ہر حال میں اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا جن کو اس کا شریک بناتے ہو وہ بہتر ہیں ؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری میں بہتری ہے یا بغاوت کی زندگی بہتر ہے۔ یہاں سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ خطبہ اور تقریر سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرنے کے ساتھ انبیاء کرام (علیہ السلام) پر درود وسلام پڑھنے کے ساتھ نیک لوگوں کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 175 ایک نظر میں یہ سبق سورة نمل کا خاتمہ ہے۔ درمیان میں حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہم السلام) کے قصص سے مختصر کڑیاں لائی گئیں۔ یہ خاتمہ سورت کے آغاز کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسی طرح سورت کے مضمون اور موضوع کے ساتھ بھی مربوط ہے۔ اس سورت میں قصص انبیاء میں سے جو کڑیاں لائی گئی ہیں وہ بھی سورت کے آغاذ ، اختتام اور موضوع و مضمون کے ساتھ مربوط ہیں۔ ہر قصہ اس مقصد کو ثابت کرتا ہے جو اس سورت کے پیش نظر ہے۔ یہ سبق اللہ کی حمد کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اور ان بندگان خدا پر سلامتی بھیجی جاتی ہے جو برگزیدہ ہیں۔ ان میں وہ انبیاء ورسل شامل ہیں جن کے قصے اس سورت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس حمد وسلام کے بعد پھر اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدے کا بیان شروع ہوتا ہے۔ اس میں اس کائنات کے دلائل توحید نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے وجدانی دلائل ، بعض غیبی امور اور علامات قیامت اور پھر مشاہد قیامت اور پھر حشر و نشر کے ہولناک لمحات بیان کئے گئے ہیں۔ جن کے اندر زمین و آسمان کی تمام مخلوق خوفزدہ ہوگی الا وہ شخص کہ جسے اللہ بچالے۔ اس سبق میں انسان کو نفس انسانی اور اس کائنات کے کچھ مشاہدات کرائے جاتے ہیں۔ کوئی انسان ان مشاہدات اور ان دلائل کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور کوئی شخص بھی ان کی کوئی تشریح اس کے سوا نہیں کرسکتا کہ ایک واحد خالق ذات موجود ہے جو نہایت مدبر اور صاحب قدرت ہے۔ یہ مشاہدات مسلسل اور نہایت موثر ضربات کی شکل میں آتے ہیں اور انسان پر حجت تمام کرتے ہیں ، اس کے شعور کو جگاتے ہیں ، مسلسل سوالات ہیں جن کا جواب حقیقی یہی ہے کہ اللہ کون ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ؟ کون ہے جس نے آسمانوں سے پانی اتارا جس کے ذریعہ ہم نے تروتازہ باغات پیدا کئے ؟ کون ہے جس نے اس زمین کو ٹھہرا رکھا ہے ؟ کون ہے جس نے زمین کے اندر دریا بہائے ؟ کون ہے جس نے زمین میں اونچے اونچے پہاڑ کھڑے کیے ؟ کون ہے جس نے دو دریاؤں اور سمندروں کے درمیان پر دے کھڑے کیے۔ کون ہے جو ایک مضطرب شخص کی پکار سنتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے ؟ کون ہے جو تمہیں زمین کے اندر اقتدار دے کر خلیفہ بناتا ہے ؟ یہ بحروبر کی ظلمات میں تمہیں راہ دکھانے والا کون ہے ؟ پھر اپنی رحمت (بارش) سے قبل ٹھنڈی ہوا کون بھیجتا ہے ؟ کون ہے جس نے یہ تخلیق کی اور پھر دوبارہ تخلیق کرے گا ؟ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سوالات مسلسل آتے ہیں اور ہر سوال کے بعد پھر ان کو جھنجھوڑا جاتا ہے کہ آیا ہے کوئی الٰہ اللہ کے سوا ؟ چناچہ کوئی معقول شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کوئی الٰہ اللہ کے ساتھ اور بھی ہے۔ کوئی ایسا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود ان کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا اور معبودوں کی بندگی کرتے ہیں۔ یہ ضربات جو براہ راست انسان کے دل پر پڑتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ اس کائنات کی کھلی کتاب کے صفحات ہیں اور یہ ان کا شعوری وجدان ہے جسے وہ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی آخرت کی تکذیب کرتے ہیں اور آخرت کے معاملے میں یہ لوگ نہایت التباس کا شکار ہیں۔ چناچہ ان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ امم سابقہ نے بھی اسی طرح تکذیب کی تھی تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا تھا۔ یہاں سے بات پھر حشرونشر کے ہولناک مناظر کی طرف لوٹ کر آتی ہے۔ دیکھئے ہر لمحے میں قارئین پھر دنیا کے اندر آجاتے ہیں اور دوبارہ مشاہد قیامت نہایت ہی خوفناک انداز میں آتے ہیں۔ یوں انسانی دلوں کو ہلا مارا جاتا ہے اور ان کو خوب جھنجھوڑا جاتا ہے۔ اس سبق کے آخر میں ایک زبردست چوٹ لگائی جاتی ہے ، جس طرح کوئی آخری بات کرتا ہے اور خوفناک نتائج سے خبردار کرکے اور آخری وارننگ دے کر اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا جاتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب ان مزاح کرنے والوں اور آخرت کا انکار کرنے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دلائل تکوینی کی طرف بھی متوجہ کردیا۔ قیامت کے ہولناک مناظر بھی پیش کر دئیے ۔ پس اب چھوڑ دئیے جائیں یہ لوگ تاکہ وہ اپنے فطری انجام تک پہنچ جائیں۔ کیونکہ انہوں نے اس انجام کو اپنے لیے خود پسند کیا ہے اور ان کو بتا دیا جاتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ جو کام ہے وہ محدود اور متعین ہے۔ اور رسول کے پاس جو ذرائع ہیں وہ محدود ہیں کیونکہ ڈرانے کے بعد اختیار ان کا ہے کہ وہ راہ راست کو اختیار کریں یا نہ۔ آیت نمبر 91 تا 92 ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہو مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لئے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کرنے والا ہوں “۔ اور یہ سبق اسی مضمون پر ختم ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی صرف اللہ کی حمد جس کا وہ اہل ہے۔ ان لوگوں کو اللہ کے سپرد کردیا جاتا ہے جو ان کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور جو ان کے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے خواہ ظاہر ہوں یا باطن۔ آیت نمبر 93 ” ان سے کہو تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ عنقریب تمہیں اپنی ۔۔۔۔۔ دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے اور تیرا رب بیخبر نہیں ہے ، ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو “۔ درس نمبر 175 تشریح آیات 60 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔ 93 آیت نمبر 59 اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ کلمات سکھاتا ہے جن کے ساتھ ہر مومن کو اپنے کلام کا آغاز کرنا بھی ایسے ہی کلمات پر ہونا چاہئے۔ وقل الحمد للہ سیریکم ” کہو سب تعریف اللہ کے لئے ہے عنقریب وہ تمہیں دکھائے گا۔۔۔ “۔ اللہ نے اپنے بندوں پر جو انعامات کیے ہیں ان کی وجہ سے اللہ مستحق ہے کہ وہ اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو صحیح راہ دکھائی۔ وہ نظام جس کے مطابق انسانوں نے زندگی گزارنی ہے۔ وسلم علی عبادہ الذین اصطفی (72: 59) ” اور سلام اس کے ان بندوں کے لیے جنہیں ان نے برگزیدہ کیا “۔ یعنی اپنی رسالت کے لیے دعوت کے لئے اور اسلامی نظام زندگی کی تبلیغ اور اقامت کے لیے۔ اس افتتاح کے بعد اب مشرکین پر حملے شروع ہوتے ہیں اور ان کو خوب ضربات لگائی جاتی ہیں۔ ان دلوں کو جھنجھوڑا جاتا ہے جو آیات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں۔ آغاز ایسے سوال سے کیا جاتا ہے جس کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ اس سو سال کے ذریعے ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ٹھہراتے ہیں۔ اللہ خیر اما یشرکون (27: 59) ” اللہ بہتر ہے یا وہ معبود جنہیں یہ لوگ اس کا شریک بناتے ہیں “۔ یہ جن لوگوں کو شریک بناتے ہیں وہ بت ہیں یا آستانے ہیں یا ملائکہ ہیں اور یا جن ہیں اور یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں یا ان کے علاوہ کسی اور مخلوق کو یہ شریک کرتے ہیں۔ بہر حال ان کے معبود ان باطل کسی حالت میں اللہ کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے ، چہ جائیکہ وہ اللہ سے بہتر ہوجائیں۔ کوئی عقلمند آدمی ان معبودوں اور اللہ کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کرسکتا ۔ یہ سوال اپنے ان الفاظ میں گویا ان کے ساتھ ایک خوبصورت مزاح ہے اور ایک طرح کی تہدید اور توبیخ بھی ہے ، کیونکہ کوئی شخص اس قسم کا سوال سنجیدگی سے نہیں کرسکتا۔ یہ اس سوال کا جواب طلب کیا جاسکتا ہے۔ چناچہ جواب کے انتظار سے بھی پہلے دوسرا سوال کردیا جاتا ہے اور یہ سوال انسانوں کے اردگرد پھیلی ہوئی اس کائنات کے بارے میں ہے ، جس کی بو قلمونیوں کو وہ رات دن مشاہدہ کرتے ہیں

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی صفات عظیمہ، مخلوقات میں اللہ تعالیٰ کے تصرفات، مشرکین کو توحید کی دعوت، شرک کی تردید یہ چند آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں اول تو اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان فرمائی ہے پھر جن بندوں کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرما لیا اپنی رضا مندی کے کاموں کے لیے اور اپنے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے چن لیا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ ان پر سلام ہو، پھر سوال فرمایا کہ یہ بتاؤ کہ اللہ کی ذات اقدس بہتر ہے یا وہ چیزیں بہتر ہیں جنہیں مشرکین اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں، ان چیزوں کو کچھ بھی قدرت نہیں اور اللہ کی بڑی قدرت ہے اس کی قدرت کے مظاہرے نظروں کے سامنے ہیں مشرکین بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی وجود میں ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہے اللہ کے علاوہ کسی بھی چیز کو کسی نے کچھ بھی وجود نہیں بخشا پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا حماقت نہیں تو کیا ہے ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت کے چند مظاہرے بیان فرمائے اول تو یہ فرمایا کہ جس پاک ذات نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا اور جس نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا اور جس نے اس پانی کے ذریعہ بارونق باغیچے پیدا فرمائے تمہارے بس کا کام نہیں تھا کہ تم اس کو پیدا کرتے کیا (ان چیزوں کی تخلیق میں) اس کا کوئی شریک ہے، اس کو تو سب مانتے ہیں کہ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں پھر عبادت میں اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ (اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ) (کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہے) یعنی اس کے علاوہ کوئی بھی معبود نہیں ہے۔ (بَلْ ھُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ ) اس کا ایک ترجمہ تو وہ ہی ہے جو اوپر لکھا گیا یعنی ان سب باتوں کو جانتے ہوئے یہ لوگ پھر بھی اللہ کی مخلوق میں سے اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ یعنی مخلوق کی عبادت کرتے ہیں، اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر راہ حق سے ہٹتے ہیں لفظ یَعْدِلُوْنَ میں دونوں طرح ترجمہ کرنے کی گنجائش ہے، اس کے بعد فرمایا کہ جس ذات نے زمین کو ٹھہرنے والی چیز بنا دیا جو خود بھی ٹھہری ہوئی ہے اور اس پر انسان اور حیوانات سب ٹھہرے ہوئے ہیں اس میں حرکت نہیں ہے اور جس نے اس کے درمیان نہریں بنا دیں اور اس کے لیے بھاری پہاڑ بنا دیئے اور جس نے دو سمندروں کے درمیان آڑ بنا دی ایک میٹھا ہے اور دوسرا نمکین ہے دونوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک دوسرے میں داخل نہیں ہوتے کیا ایسی پاک ذات کے ساتھ کوئی معبود ہے ؟ یعنی نہیں ہے، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے، یہاں جو زمین کو ٹھہرنے والی بتایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسی حرکت نہیں کرتی جس سے اوپر کی چیزیں حرکت کرنے لگیں یعنی اس میں عام حالت میں زلزلہ اور اضطراب کی کیفیت نہیں لہٰذا یہ اس کے معارض نہیں جو اہل سائنس کہتے ہیں کہ رات دن کے آگے پیچھے آنے میں زمین کی حرکت کو دخل ہے جیسے اوپر کے پاٹ پر ایک چیونٹی بیٹھی یا چلتی رہے اور پاٹ گھومتا رہے تو چیونٹی کے بیٹھے رہنے یا چلنے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ رہی یہ بات کہ اہل سائنس جو کہ کہتے ہیں کہ لیل و نہار کا آگے پیچھے آنا جانا زمین کی حرکت کی وجہ سے ہے ان کا یہ قول صحیح ہے یا نہیں ایک مستقل بحث ہے یہاں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اہل سائنس کا قول درست ہو تب بھی قرار ارض کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہے جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے زلزلہ والی حرکت بھی زمین میں پیدا ہوجاتی ہے اس وقت بھاری پہاڑ بھی زمین کے زلزلہ کو نہیں روک سکتے بلکہ وہ خود بھی چورہ چورہ ہوجاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ مجبور حال دعا کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرما دیتا ہے اور وہ تمہیں زمین میں خلفاء بناتا ہے یعنی گزشتہ لوگوں کا اس زمین پر جو تسلط تھا اس کے بعد تمہیں تسلط بخشا ہے کیا ایسی ذات کے ساتھ کوئی معبود ہے ؟ یعنی اس کے ساتھ کوئی معبود نہیں ہے تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ پھر فرمایا کیا جو ذات پاک خشکی اور سمندروں کی تاریکی میں راہ بتاتا ہے اور جو اپنی رحمت یعنی بارش سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے کیا اس کے ساتھ کوئی معبود ہے ؟ یعنی کوئی نہیں اللہ اس سے برتر ہے جو یہ لوگ شرک کرتے ہیں۔ پھر فرمایا جو ذات ابتداءً پیدا فرمائے پھر موت کے بعد اس مخلوق کو لوٹا دے یعنی دو بارہ زندہ فرما دے اور وہ ذات جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دے کیا اس کے ساتھ کوئی معبود ہے ؟ آپ فرما دیجیے کہ اپنی دلیل لے آؤ اگر تم سچے ہو ؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مخلوق میں حقیقی تصرف کرتا ہے جب یہ بات ہے تو شرک پر کیوں جمے ہوئے ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ یہ تیسرے اور چوتھے قصے کا ثمرہ ہے۔ ان دونوں قصوں سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو مصائب و عقوبات سے بچانا اور وہی معاندین کو ہلاک کرتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ تمام صفات کارسازی کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس وہی برکات دہندہ ہے کوئی پیغمبر یا ولی برکات دہندہ نہیں۔ وسلام علی عبادہ الخ، اللہ کے برگزیدہ بندے صفات کا رسازی کے مالک نہیں ہیں بلکہ انہیں مصائب و بلیات سے جو سلامتی اور امان نصیب ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ خیر اما یشرکون اپنے برگزیدہ بندون کو بچانے اور کافروں کو ہلاک کرنے کے بعد الزام اور اتمام حجت کے طور پر فرمایا کیا اللہ بہتر ہے جو سب کچھ کرسکتا ہے یا وہ معبودانِ باطلہ جن کے اختیار میں کچھ نہیں۔ فیہ تبکیت للمشرکین والزام الحجۃ علیھم بعد ہلاک الکفار الخ (خازن ج 5 ص 127) ۔ اما یشرکون میں ام متصلہ ہے اس کے بعد بطور تنویر دوسرے دعوے پر پانچ عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں علی سبیل الاعتراف من الخصم۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) اب تک رسالت پر گفتگو تھی اب توحید باری کے دلائل مذکور ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے اے پیغمبر یوں کہئے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سزوار اور اللہ تعالیٰ ہی کو لائق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ان بندوں پر سلامتی نازل ہوتی رہے جس کو اس نے منتخب فرمایا اور برگزیدہ کیا بھلا کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو یہ مشرک اس کا شریک ٹھہراتے ہیں سلامتی نازل ہو برگزیدہ بندوں پر یعنی انبیاء اولیاء صلحاء اور اتقیاء پر حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ کی تعریف اور پیغمبر پر سلام بھیج کر اگلی بات شروع کرنی لوگوں کو سکھادی 12 مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر کو خطبہ تعلیم کیا کہ ہماری طرف سے توحید کا ذکر شروع کرو گے تو اس سے پہلے خطبہ کے الفاظ ادا کرلو بعض لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات اور احسانات جو اوپر پیغمبروں پر مذکور ہوئے ہیں اس پر شکر بجا لانے کا حکم ہوا بہر حال یہ بھی ہوسکتا ہے اب آگے توحید الٰہی کا وعظ ہے اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا جن کو یہ لوگ شریک ٹھہراتے ہیں یعنی بت وغیرہ چونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے بہتر ہونے کا قول کرتے تھے لیکن باوجود اسکے کمزور مخلوق کو اسکی عبادت میں شریک کرتے تھے ۔