Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 60

سورة النمل

اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ ۚ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُنۡۢبِتُوۡا شَجَرَہَا ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ یَّعۡدِلُوۡنَ ﴿ؕ۶۰﴾

[More precisely], is He [not best] who created the heavens and the earth and sent down for you rain from the sky, causing to grow thereby gardens of joyful beauty which you could not [otherwise] have grown the trees thereof? Is there a deity with Allah ? [No], but they are a people who ascribe equals [to Him].

بھلا بتاؤ تو؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمان سے بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگا دئیے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم ہرگز نہ اگا سکتے ، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے ہیں ( سیدھی راہ سے ) ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضَ ... Is not He Who created the heavens and the earth, meaning, He created those heavens which are so high and serene, with their shining stars and revolving planets. And He created the earth, with its varying heights and densities, and He created everything in it, mountains, hills, plains, rugged terrain, wildernesses, crops, trees, fruits, seas and animals of all different kinds and colors and shapes, etc. ... وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاء مَاء ... and sends down for you water from the sky, means, He sends it as a provision for His servants, ... فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَايِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ... whereby We cause to grow wonderful gardens full of beauty and delight means, beautiful and delightful to behold. ... مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ... It is not in your ability to cause the growth of their trees. meaning, `you are not able to cause their trees to grow. The One Who is able to do that is the Creator and Provider, Who is doing all this Alone and Independent of any idol and other rival.' The idolators themselves admitted this, as Allah says in another Ayah: وَلَيِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ And if you ask them: "Who has created them!" they will certainly say: "Allah." (31:25) وَلَيِن سَأَلْتَهُمْ مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَأءِ مَأءً فَأَحْيَا بِهِ الاٌّرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّه And if you were to ask them: "Who sends down water from the sky, and gives life therewith to the earth after its death!" they will surely reply: "Allah." (29:63) Meaning they will admit that He is the One Who does all these things, Alone, with no partner or associate, but then they worship others alongside Him, others who they admit cannot create or provide anything. But the Only One Who deserves to be worshipped is the Only One Who can create and provide, Allah says: ... أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ ... Is there any god with Allah, meaning, `is there any god that can be worshipped alongside Allah, when it is clear to you and anyone who with reason that He is the Creator and Provider, as you yourselves admit!' Then Allah says: ... بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ Nay, but they are a people who ascribe equals (to Him)! meaning, they describe others as being equal and comparable to Allah.

بیان کیا جارہاہے کہ کل کائنات کار چلانے والا ، سب کا پیدا کرنے والا ، سب کو روزیاں دینے والا ، سب کی حفاظتیں کرنے والا ، تمام جہان کی تدبیر کرنے والا ، صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان بلند آسمانوں کو چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے اس بھاری بوجھل زمین کو ان بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کو ان پھیلے ہوئے میدانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے ۔ کھیتیاں ، باغات ، پھل ، پھول ، دریا ، سمندر ، حیوانات ، جنات ، انسان ، خشکی اور تری کے عام جاندار اسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں ۔ آسمانوں سے پانی اتارنے والا وہی ہے ۔ اسے اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ اسی نے بنایا ، باغات کھیت سب وہی اگاتا ہے ۔ جو خوش منظر ہونے کے علاوہ بہت مفید ہیں ۔ خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ زندگی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ تم میں سے یا تمہارے معبودان باطل میں سے کوئی بھی نہ کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے نہ کسی درخت اگانے کی ۔ بس وہی خالق و رازق ہے اللہ کی خالقیت اور اس کی روزی پہنچانے کی صفت کو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ جیسے دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ آیت ( وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ 87؀ۙ ) 43- الزخرف:87 ) یعنی اگر تو ان سے دریافت کرے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یہی جواب دیں گے اللہ تعالیٰ نے الغرض یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ خالق کل صرف اللہ ہی ہے ۔ لیکن ان کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ عبادت کے وقت اوروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں ۔ باوجودیکہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پیدا کرتے ہیں اور نہ روزی دینے والے ۔ اور اس بات کا فیصلہ تو ہر عقلمند کرسکتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ہے جو خالق مالک اور رازق ہے ۔ اسی لئے یہاں اس آیت میں بھی سوال کیا گیا کہ معبود برحق کے ساتھ کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ مخلوق کو پیدا کرنے میں ، مخلوق کی روزی مہیا کرنے میں کوئی اور بھی شریک ہے؟ چونکہ وہ مشرک خالق رازق صرف اللہ ہی کو مانتے تھے ۔ اور عبادت اوروں کی کرتے تھے ۔ اس لئے ایک اور آیت میں فرمایا ۔ آیت ( اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 17۝ ) 16- النحل:17 ) خالق اور غیر خالق یکساں نہیں پھر تم خالق اور مخلوق کو کیسے ایک کررہے ہو؟ یہ یاد رہے کہ ان آیات میں امن جہاں جہاں ہے وہاں یہی معنی ہیں کہ ایک تو وہ جو ان تمام کاموں کو کرسکے اور ان پر قادر ہو دوسرا وہ جس نے ان میں سے نہ تو کسی کام کو کیا ہو اور نہ کرسکتا کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟گو دوسری شق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا لیکن طرز کلام اسے صاف کردیتا ہے ۔ اور آیت میں صاف صاف یہ بھی ہیکہ آیت ( ؤ اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ 59؀ۭ ) 27- النمل:59 ) کیا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک کرتے ہیں؟ آیت کے خاتمے پر فرمایا بلکہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں آیت ( اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَاۗىِٕمًا يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ ۭ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ Ḍ۝ۧ ) 39- الزمر:9 ) بھی اسی جیسی آیت ہے یعنی ایک وہ شخص جو اپنے دل میں آخرت کا ڈر رکھ کر اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو کر راتوں کو نماز میں گزارتا ہو ۔ یعنی وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا جس کے اعمال ایسے نہ ہوں ۔ ایک اور جگہ ہے عالم اور بےعلم برابر نہیں ۔ عقلمند ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اسلام کے لئے کھلا ہوا ہو ، اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور ہدایت لئے ہو اور وہ اس جیسا نہیں ۔ جس کے دل میں اسلام کی طرف سے کراہت ہو اور سخت دل ہو اللہ نے خود اپنی ذات کی نسبت فرمایا ۔ اللہ نے آیت ( اَفَمَنْ هُوَ قَاۗىِٕمٌ عَلٰي كُلِّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ ۚ وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ 33؁ ) 13- الرعد:33 ) یعنی وہ جو مخلوق کی تمام حرکات سکنات سے واقف ہو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہوں اس کی مانند ہے جو کچھ بھی نہ جانتا ہو؟ بلکہ جس کی آنکھیں اور کان نہ ہو جیسے تمہارے یہ بت ہیں ۔ فرمان ہے آیت ( وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَاۗءَ ۭ قُلْ سَمُّوْهُمْ ۭ اَمْ تُنَبِّــــــُٔـوْنَهٗ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْاَرْضِ 33؁ ) 13- الرعد:33 ) یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ان سے کہہ ذرا انکے نام تو مجھے بتاؤ پس ان سب آیتوں کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفیتں بیان فرمائی ہیں ۔ پھر خبر دی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

601یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں متفرد ہے۔ کوئی اسکا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے بارونق باغات اگانے والا کون ہے ؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے ؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :63) 602یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو ؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو ؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ امن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں ؟ (ابن کثیر) 603اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] اس آیت اور اس سے آگے تین چار آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدت کاملہ اور رحمت اور ربوبیت عامہ اور توحید پر چند ایسے دلائل کے انبار لگا دیا ہے جن میں سے اکثر دلائل کے مشرکین مکہ بھی معترف تھے۔ مثلاً سب سے پہلی دلیل تو یہی ہے کہ آسمانوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور زمین کا بھی۔ آسمان سے مینہ برستا ہے جسے زمین جذب کرتی ہے۔ تو اس کی قوت روئیدگی اپنا کام کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس سے فصلیں، غلے، پھل دار درخت، پھول اور مویشیوں کے گھاس اور چارہ اگتا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر جتنی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق بس رہی ہے سب کی غذا کا سامان فراہم ہوجاتا ہے۔ کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں صرف انسان ہیں جو صرف ایک نوع ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء کی انواع کی تعداد لاکھوں تک جاپہنچتی ہے کچھ پانی کی مخلوق ہے۔ کچھ خشکی کی اور کچھ ہوائی مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی روزی کا ایسا جامع اور مکمل انتطام فرما دیا ہے کہ سب جانداروں کو روزی مہیا ہو رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ اس پورے نظام ربوبیت عامہ میں کوئی فرشتہ، کوئی نبی، کوئی ولی، کوئی بزرگ یا کوئی دوسرا معبود شریک ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کی بھی عبادت کی جائے۔ عبادت تو انہتائی عاجزی اور تذلل کا نام ہے اور اسی کو سزاوار ہے۔ جو انتہائی درجہ میں کامل اور بااختیار ہو، ، کسی ناقض، عاجز یا محتاج مخلوق کی یہ مقام کیسے دیا جاسکتا ہے۔ [٦١] عدل کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی برابر ہوتا بھی اور برابر کا بدلہ بھی۔ پھر یہ لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ یعنی اس کا معنی انصاف کرنا بھی ہے اور بےانصافی کرنا بھی۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے کہ جب ربوبیت عامہ کا پورے کا پورا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہو تو عبادت میں دوسروں کو اس میں شامل کرلینا کس قدر بےانصافی اور ظلم کی بات ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس اعتراف حقیقت کے باوجود یہ لوگ اپنے معبودوں کو اللہ کے برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ راہ راست سے بڑھ جاتے ہیں یعنی اعتراف حقیقت کے باوجود اس کا نتیجہ غلط نکال رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : ” حَدَاۗىِٕقَ “ ” حَدِیْقَۃٌ“ کی جمع ہے، جو اصل میں وہ باغ ہے جس کے گرد دیوار ہو، پھر ہر باغ کو ” حَدِیْقَۃٌ“ کہا جانے لگا۔ ” اَمَّنْ “ کے ” أَمْ “ سے پہلے ہمزہ استفہام والا ایک جملہ مقدر ہے، جو عبارت کے تسلسل سے سمجھ میں آرہا ہے : ” أَيْ أَشُرَکَاءُ ھُمْ خَیْرٌ أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ “ ” یعنی کیا ان کے شریک بہتر ہیں یا وہ اللہ جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ؟ “ یہاں اللہ تعالیٰ نے پانچ آیات میں اپنی وہ صفات ذکر فرمائیں جو مشرکین مکہ بھی مانتے تھے کہ وہ اللہ کے سوا کسی میں نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ہر آیت میں چند صفات بیان کر کے فرماتے ہیں کہ جب یہ صفات صرف اللہ کی ہیں تو پھر کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہوسکتا ہے ؟ اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ صفات بیان فرمائیں کہ آسمانوں کا خالق وہ ہے اور زمین کا بھی، پھر آسمان سے بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ زمین سے خوش ذائقہ اور خوش منظر باغات اگانے والا بھی وہی ہے۔ مشرکین یہ تینوں باتیں مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ ) [ الزخرف : ٩ ] ” اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ضرور کہیں گے کہ انھیں سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے نے پیدا کیا ہے۔ “ آسمان و زمین ہی نہیں، خود ان کو پیدا کرنے والا بھی وہ اللہ ہی کو مانتے ہیں، فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ) [ الزخرف : ٨٧ ] ” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔ “ اور فرمایا : (وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ) [ العنکبوت : ٦٣ ] ” اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیاتو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ “ مطلب یہ ہے کہ تم مانتے ہو کہ یہ سب کچھ کرنے والا وہ اکیلا ہے، کائنات کے اس سارے نظام میں نہ کوئی فرشتہ شریک ہے، نہ کوئی نبی و ولی اور نہ کوئی اور معبود، پھر اس کے ساتھ ان کی عبادت کرتے ہو جن کے متعلق مانتے ہو کہ نہ پیدا کرتے ہیں، نہ رزق دیتے ہیں، تو بتاؤ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود ہوسکتا ہے جو نہ پیدا کرے نہ روزی دے ؟ اور فرمایا : (اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ) [ النحل : ١٧ ] ’ تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا ؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ “ عرب کے مشرکین ہی نہیں، دنیا بھر کے مشرکین مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور کائنات کے نظام کو چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا کوئی ہٹ دھرم سے ہٹ دھرم شخص برائے بحث بھی یہ جواب نہیں دے سکتا تھا کہ ان کاموں میں ہمارے معبود شریک ہیں، اگر کوئی ایسا کہتا تو اس کی قوم کے ہزاروں آدمی اسے جھٹلا دیتے اور کہہ دیتے کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَهَا : یہ اس خیال کی تردید ہے جو انسان کے ذہن میں آجاتا ہے کہ زمین کو ہم بناتے ہیں، بیج ہم ڈالتے ہیں، پانی ہم دیتے ہیں، غرض یہ باغ اور کھیتیاں اگانے والے ہم ہیں۔ فرمایا، تمہارے بس ہی میں نہ تھا کہ تم ان باغات کے درخت اگاتے، یہ ہم ہیں جنھوں نے رونق اور خوبی والے یہ باغ اگائے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ لَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنٰهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُوْنَ اِنَّا لَمُغْرَمُوْنَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ) [ الواقعۃ : ٦٣ تا ٦٧ ] ” پھر کیا تم نے دیکھا جو کچھ تم بوتے ہو ؟ کیا تم اسے اگاتے ہو، یا ہم ہی اگانے والے ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو ضرور اسے ریزہ ریزہ کردیں، پھر تم تعجب سے باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ بیشک ہم تو تاوان ڈال دیے گئے ہیں۔ بلکہ ہم بےنصیب ہیں۔ “ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ : نہیں، اللہ کی قسم ! نہیں۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ : ” يَّعْدِلُوْنَ “ ” عُدُوْلٌ“ سے ہے، جس کا معنی ہٹنا ہے، بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔ یا ” عَدْلٌ“ سے ہے، جس کا معنی برابر کرنا ہے، بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو (دوسروں کو) اللہ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ پہلے جنھیں مخاطب کیا گیا تھا، یعنی : (وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۔۔ ) (اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا۔۔ ) اب انھیں غائب کے صیغے کے ساتھ ذکر فرمایا : (ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ ) (بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں) اس سے ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے کہ یہ لوگ خطاب کے قابل نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر (پچھلی آیت کے آخر میں فرمایا تھا اٰۗللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی کیا اللہ بہتر ہے یا وہ بت وغیرہ جن کو یہ لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، یہ مشرکین کی بےوقوفی بلکہ کج فہمی پر نکیر تھی، آگے توحید کے دلائل کا بیان ہے، اے لوگو یہ بتلاؤ کہ) وہ ذات (بہتر ہے) جس نے آسمان اور زمین کو بنایا، اور اس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ ہم نے رونق دار باغ اگائے (ورنہ) تم سے تو ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغوں) کے درختوں کو اگا سکو (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (مگر مشرکین پھر بھی نہیں مانتے) بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ (دوسروں کو) خدا کی برابر ٹھہراتے ہیں (اچھا پھر اور کمالات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جس نے زمین کو (مخلوق کی) قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان درمیان نہریں بنائیں اور اس (زمین) کے (ٹھہرانے کے) لئے پہاڑ بنائے اور دو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنائی (جیسا سورة فرقان میں مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ آچکا ہے یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (خدائی کا شریک ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (مگر مشرکین نہیں مانتے) بلکہ ان میں زیادہ تو (اچھی طرح) سمجھتے بھی نہیں (اچھا پھر اور کمالات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جو بیقرار آدمی کی دعا سنتا ہے جب وہ اس کو پکارتا ہے اور (اس کی) مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرف بناتا ہے (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (مگر) تم لوگ بہت ہی کم یاد رکھتے ہو (اچھا پھر اور کمالات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جو تم کو خشکی اور دریا کی تاریکیوں میں رستہ سوجھاتا ہے اور جو ہواؤں کو بارش سے پہلے بھیجتا ہے جو (بارش کی امید دلا کر (دلون کو) خوش کردیتی ہیں (یہ سن کر اب بتلاؤ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (ہرگز نہیں) بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے برتر ہے (اچھا پھر دوسرے کمالات و احسانات سن کر بتلاؤ کہ یہ بت بہتر ہیں) یا وہ ذات جو مخلوقات کو اول بار پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کر دے گا اور جو آسمان اور زمین سے ( پانی برسا کر اور نباتات نکال کر) تم کو رزق دیتا ہے (یہ سن کر اب بتلاؤ کہ) کیا اللہ کے ساتھ (شریک عبادت ہونے کے لائق) کوئی اور معبود ہے (اور اگر وہ یہ سن کر بھی کہیں کہ ہاں اور معبود بھی مستحق عبادت ہیں تو) آپ کہئے کہ (اچھا) تم (ان کے استحقاق عبادت پر) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم (اس دعویٰ میں) سچے ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝ ٠ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِہٖ حَدَاۗىِٕقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ۝ ٠ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَـرَہَا۝ ٠ۭ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۝ ٠ۭ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَ۝ ٦٠ۭ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ حدق حَدائِقَ ذاتَ بَهْجَةٍ [ النمل/ 60] ، جمع حدیقة، وهي قطعة من الأرض ذات ماء، سمّيت تشبيها بحدقة العین في الهيئة و حصول الماء فيها، وجمع الحَدَقَة حِدَاق وأحداق، وحَدَّقَ تحدیقا : شدّد النظر، وحَدَقُوا به وأَحْدَقُوا : أحاطوا به، تشبيها بإدارة الحدقة . ( ح د ق ) الحدیقۃ ( مرغزار ) وہ قطعہ زمین جس میں پانی جمع ہو اور حیات و صورت اور پانی کے ہونے کی وجہ سے اسے حدقہ العین ( آنکھ کی پتلی ) کے ساتھ تشبیہ دے کر اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس کی جمع حدائق آتی ہے قرآن میں ہے فَجَعَلْناهُمْ أَحادِيثَ [ سبأ/ 19] سر سبز باغ ۔ اور حدقۃُ کی جمع حداق و احداق آتی ہے ۔ حدق النظر ۔ گھور دیکھنا نظر جما کر دیکھنا حدقوابہ واحدقوا ۔ انہوں نے اس کے گرد احاطہ کرلیا یہ معنی بھی حدقۃ العین کے گھمانے سے لئے گئے ہیں ۔ بهج البَهْجَة : حسن اللون وظهور السرور، وفيه قال عزّ وجل : حَدائِقَ ذاتَ بَهْجَةٍ [ النمل/ 60] ، وقد بَهُجَ فهو بَهِيج، قال : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ [ ق/ 7] ، ويقال : بَهِجٍ ، کقول الشاعر : ذات خلق بهج ولا يجيء منه بهوج، وقد ابْتَهَجَ بکذا، أي : سرّ به سرورا بان أثره علی وجهه، وأَبْهَجَهُ كذا . ( ب ھ ج ) البھجۃ ۔ خوش نمائی ۔ فرحت و سرور کا ظہور ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَدائِقَ ذاتَ بَهْجَةٍ [ النمل/ 60] سر سبز باغ ۔ ( ک ) خوشمنا اور تروتازہ ہونا ۔ اور خوشنما چیز کو بھیج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ [ ق/ 7] اور اس میں ہر طرح کی خوشنما چیزیں اگائیں ۔ اور بھیج بھی صیغہ صفت ہے شاعر نے کہا ہے ع ) اور اس سے بھوج بروزن فعول استعمال نہیں ہوتا ابتھج بکذا کسی چیز پر اس قدر خوش اور سرور ہونا کہ چہرہ پر خوشی کے آثار ظاہر ہوجائیں ۔ ابھجہ خوش کرنا ۔ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٠) آپ ان کفار مکہ سے فرمائیے کہ اچھا بتاؤ کیا ان بتوں کی جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو پرستش بہتر ہے یا اس ذات کی عبادت وفرمانبرداری بہتر ہے جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس پانی سے پھل دار باغ اگائے، جن کی باڑ کھجور کے درختوں اور دوسرے درختوں سے ہو رہی ہے تمہاری قدرت سے تو یہ چیز باہر ہے کہ تم ان باغوں کے درخت اگا سکو اب سوچ کر ذرا بتاؤ تو سہی کہ کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور معبود نے یہ چیزیں اگائی ہیں ؟ بلکہ ایسے بدتمیز ہیں کہ بتوں کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا ط) ” ّ متجسسانہ سوالات (searching questions) کا یہ انداز بہت مؤثر ہے۔ علامہ اقبالؔ ؔ نے اپنے ان اشعار میں یہی مضمون بالکل اسی انداز میں پیش کیا ہے : پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟ کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے ؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟ کہ اللہ ہی ہواؤں کو چلاتا ہے ‘ بارش برساتا ہے ‘ موسموں کو سازگار بناتا ہے ‘ اناج اگاتا ہے ‘ غرض تمام امور اسی کے حکم اور اسی کی قدرت سے انجام پاتے ہیں۔ اللہ کی قدرت کاملہ کے بیان کا یہی انداز سورة الواقعہ میں بھی ملتا ہے۔ (ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط) ” کیا ان سارے کاموں میں اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی شریک ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 No one from among the mushriks could answer that someone other than AIlah had done these works, or someone else was Allah's associate in doing these. The Qur'an at other places says with respect to the pagans of Makkah and the Arab mushrikin: "If you ask them, 'Who has created the heavens and the earth?' they will surely say: 'The All-Mighty, the All-Knowing One has created them'." (Az-Zukhruf: 9) "And if you ask them, Who has created them? they will surely say, 'AIIah'." (Az-Zukhruf: 87), "If you ask them, 'Who sent down rain water from the sky and thereby raised the dead earth back to life ?' They will surely say, 'Allah'." (Al-`Ankabut: 63). "Ask them: Who provides for you from the heavens and the earth? Who has power over these faculties of hearing and sight? Who brings forth the living from the dead and the dead from the living? Who controls and directs the system of the universe?' They will surely say, 'AIIah'." (Yunus: 31 ). Not only the polytheists of Arabia but of the whole world generally acknowledged, and acknowledge even today, that Allah is the Creator of the universe and He alone controls and directs its system. Therefore, none of them could answer this question even obstinately for the sake of the argument that their deities were Allah's associates in those works, for if he had done so, thousands of his own people would have belied him saying that, that was not their belief. This and the other questions that follow not only contain a refutation of the creed of shirk (polytheism) but of atheism as well. For example, in this first very question, it has been asked, "Who has sent down rainwater and caused to spring up by it beautiful gardens?" Just consider whether the presence of the substances essential for the growth of countless kinds of plant life, in the soil or near the soil, and the existence in water of those very qualities which are in accordance with the requirements of animal and vegetable life, and the evaporation of this water again and again from the seas, and its condensation and raining regularly in different parts of the earth from time to time, and the coordination between the soil and the air, the water, the temperature;.etc., conducive to proper growth of plant life and fulfilment of the countless requirements of every sort of animal life, could be just accidental, or the result of the wise scheming and planning the supreme power and will of an AlI-Wise Designer. And is it possible that this accident should continue to recur constantly for millions and millions of years on end? Only an obstinate person who has been blinded by prejudice will regard it as accidental, for no truthloving, sensible person can make such a senseless claim or accept it.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 73 مشرکوں میں سے کوئی بھی اس سوال کا یہ جواب نہ دے سکتا تھا کہ یہ کام اللہ کے سوا کسی اور کے ہیں ، یا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ان میں شریک ہے ، قرآن مجید دوسرے مقامات پر کفار مکہ اور مشرکین عرب کے متعلق کہتا ہے: وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ، اور اگر ان سے پوچھو کہ خود انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ( الزخرف ، آیت 87 ) وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ، اور اگر ان سے پوچھو کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلا اٹھایا تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ( العنکبوت ، آیت 63 ) قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ الی قولہ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ، ان سے پوچھو کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون جاندار کو بے جان میں سے اور بے جان کو جاندار میں سے نکالتا ہے؟ کون اس نظام عالم کی تدبیر کر رہا ہے ، وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ( یونس ، آیت 31 ) عرب کے مشرکین ہی نہیں ، دنیا بھر کے مشرکین بالعموم یہی مانتے تھے اور آج بھی مانتے ہیں کہ کائنات کا خالق اور نظام کائنات کا مدبر اللہ تعالی ہی ہے ، اس لیے قرآن مجید کے اس سوال کا یہ جواب ان میں سے کوئی شخص ہٹ دھرمی کی بنا پر برائے بحث بھی نہ دے سکتا تھا کہ ہمارے معبود خدا کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہیں ، کیونکہ اگر وہ ایسا کہتا تو اس کی اپنی ہی قوم کے ہزارہا آمی اس کو جھٹلا دیتے اور صاف کہتے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ۔ اس سوال اور اس کے بعد کے سوالات میں صرف مشرکین ہی کے شرک کا ابطال نہیں ہے بلکہ دہریوں کی دہریت کا ابطال بھی ہے ۔ مثلا اسی پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ یہ بارش برسانے والا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی نباتات اگانے والا کون ہے؟ اب غور کیجیے ، زمین میں اس مواد کا ٹھیک سطح پر یا سطح سے متصل موجود ہونا جو بے شمار مختلف اقسام کی نباتی زندگی کے لیے درکار ہے ، اور پانی کے اندر ٹھیک وہ اوصاف موجود ہونا جو حیوانی اور نباتی زندگی کی ضروریات کے مطابق ہیں اور اس پانی کا پے در پے سمندروں سے اٹھایا جانا اور زمین کے مختلف حصوں میں وقتا فوقتا ایک باقاعدگی کے ساتھ برسایا جانا ، اور زمین ، ہوا ، پانی اور درجہ حرارت وغیرہ مختلف قوتوں کے درمیان ایسا متناسب تعاون قائم کرنا کہ اس سے نباتی زندگی کو نشو ونما نصیب ہو اور وہ ہر طرح کی حیوانی زندگی کے لیے اس کی بے شمار ضروریات پوری کرے ، کیا یہ سب کچھ ایک حکیم کی منصوبہ بندی اور دانشمندانہ تدبیر اور غالب قدرت و ارادہ کے بغیر جو خود بخود اتفاقا ہوسکتا ہے ، اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہ اتفاق حادثہ مسلسل ہزار ہا برس بلکہ لاکھوں کروڑوں برس تک اسی باقاعدگی سے رونما ہوتا چلا جائے؟ صرف ایک ہٹ دھرم آدمی ہی جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو ، اسے ایک امر اتفاقی کہہ سکتا ہے ، کسی راستی پسند عاقل انسان کے لیے ایسا لغو دعوی کرنا اور ماننا ممکن نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: واضح رہے کہ کفار مکہ یہ بات مانتے تھے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی وہ کہتے تھے کہ اس نے کائنات کے انتظام کے بہت سے شعبے دوسرے خداؤں کو سونپ دئیے ہیں، اس لیے ان کی عبادت کرنی چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٠ تا ٦٩:۔ آسمان زمین آسمان میں سورج چاند تارے آسمان سے مینہ کا بر سنا زمین میں ندیاں نالے اور بڑے بڑے دریا انسان اور طرح طرح کے جانور چرند پرند باغ کھیتی کے لیے اور پانی یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور یہ بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ سوا اللہ تعالیٰ کے نہ کسی کو اس طرح کے آسمان کے پیدا کرنے کی قدرت ہے نہ زمین کے پیدا کرنے کی بارش کے لیے جو وقت مقرر ہے اگر اس وقت مقررہ پر مینہ نہ برسے تو سارے دنیا کے بارشاہ امیر غریب سب جمع ہوں تو پانی کا ایک قطرہ برسانے کی کسی میں قدرت نہیں چناچہ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکین مکہ کو اس کا پورا تجربہ ہوچکا ہے۔ انسان یا حیوانات میں سے مرتے کو سوا خدا کے نہ کوئی جلاسکتا ہے نہ بیمار کو بےمرضی الٰہی کوئی تندرست کرسکتا ہے یہ روز کی آنکھوں کے سامنے کی بات ہے اللہ کی مرضی جب نہیں ہوتی تو نہ دعا میں اثر باقی رہتا ہے نہ دوا میں حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا اور اس قدرت سے دنیا جو کچھ پیدا کیا ہے اس کا ذکر فرمایا دو مقصد اس ذکر سے نکالے ہیں ایک تو اللہ کی وحدانیت دوسرے حشر کا یقین چناچہ ان آیتوں میں اپنی قدرت سے پیدا کی ہوئی چند چیزوں کا ذکر فرما کر پھر فرمایا ہے یہ چیزیں خالص اللہ کی پیدا کی ہوئی دیکھ کر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی معبود دوسرا ہے پھر یہ فرمایا ہے کہ ایک دفعہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے پیدا ہوا دیکھ کر اور خود اپنے آپ کو پیدا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جو لوگ اس طرح کے دوسری دفع کے پیدا ہونے سے انکار کرتے ہیں یا دوسری دفع پیدا ہونے میں شک کرتے ہیں وہ آنکھوں کے اندھے ہیں کیونکہ آنکھوں والا آنکھوں کی دیکھی ہوئی چیز کا انکار یا اس میں شک نہیں کرتا سورة نحل میں اپنی قدرت سے پیدا کی ہوئی چند چیزیں ذکر کر کے فرمایا ہے امن یخلق کمن لا یخلق اور سورة روم میں فرمایا ہے وھو الذی بیدا الخلق ثم یعیدہٗ وھو اھون علیہ حاصل ان آیتوں کا یہ ہے کہ جب ان مشرک لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ان کو ان کی ہر طرح کی ضرورت کی چیزوں کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے تو پھر خدا کے ساتھ یہ لوگ اوروں کو کیوں اور کس استحقاق سے شریک ٹھہراتے ہیں علیٰ ہذا القیاس دنیا میں ہر شخص کا تجربہ ہے کہ جو شخص ایک دفعہ ایک کام کو کر چکتا ہے تو پھر دوسری دفع اس کو اس کام کا کرنا آسمان ہوجاتا ہے باوجود اس تجربے کے ایک دفعہ تمام دنیا کی آنکھوں سے دیکھ کر اسی طرح کے دوبارہ پیدا ہونے سے یہ لوگ کس سند سے انکار کرتے ہیں اور جب ان کا وہ شرک و انکار خود ان کے تجربے کے موافق ٹھیک نہیں ہے تو پھر رسول وقت کو سچا جاننے میں ان کو کیا تردد ہے رسول وقت اور کیا کہتے ہیں یہی تو کہتے ہیں کہ خدا کو ایک مانو آخرت کو حق جانو۔ ماکان لکم ان تنبتوا شجرھا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آسمان سے مینہ نہ برساوے تو باغ کھیتی سے نفع اٹھانا انسان کی قدرت سے باہر ہے بین البحرین حاجزا اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے نیچے دو طرح کا پانی ہے مگر میٹھا پانی کھاری پانی سے مل نہیں سکتا اسی طرح سے سمندر کا پانی میٹھے ندیوں کے پانی کو کھاری نہیں کرسکتا ویجعلکم خلفاء الارض اس کا مطلب یہ ہے کہ باغ کھیتی اور زمین کی سب چیزیں ایک زمانہ کے لوگوں کے قبضے سے نکال کر دوسرے زمانے کے لوگوں کے قبضے میں دے دیتا ہے مثلا خلافت بنی امیہ کے قبضے سے نکل کر عباسیہ کے قبضے میں آگئی جنگل میں پہاڑوں کی اور دریا میں تاروں کی علامتوں سے مسافروں کو راستہ کا پتہ جو لگ جاتا ہے یہ بھی قدرت الٰہی کا ایک نمونہ ہے تعالیٰ اللہ عما یشرکون اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر جن چیزوں کا ذکر ہوا جب وہ سب اللہ کے اختیار میں ہیں تو کوئی دوسرا اس کی تعظیم میں شریک نہیں قرار پاسکتا اسی مطلب کی تاکید کے لیے آگے فرمایا کہ اس کے سوا مشرکوں کا کچھ اور دعویٰ ہے تو وہ اس کی سند پیش کریں مشرکین مکہ قیامت کے منکر تھے اس واسطے مسخراپن کے طور پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے کہ جب دن کے حساب و کتاب اور سزا وجزا سے ہم کو ڈرایا جاتا ہے آخر وہ دن کب آوے گا اس کا کچھ وقت بھی مقرر ہے اسی کے جواب میں فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان قیامت کے منکروں سے کہہ دو کہ مثلا انسان کی موت کب آوے گی قیامت کب ہوگی یہ ایسی غیب کی باتیں ہیں کہ سوا اللہ تعالیٰ کے آسمان زمین میں اور کسی کون کا وقت معلوم نہیں پھر میں تم لوگوں کے مسخراپن کے جواب میں قیامت کے آنے کا ٹھیک وقت کیوں کر بتلا سکتا ہوں ہاں بغیر وقت کے ٹھہرانے کے قیامت سے جو میں تم کو ڈراتا ہوں اس کی ہر سمجھ دار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ بغیر نیکی وبدی کی جزا وسزا کے دنیا کا پیدا کرتا بےفائدہ ٹھہرتا ہے جو اللہ کی شان سے بہت بعید ہے سورة طہ میں گزر چکا ہے کہ قیامت کا وقت اللہ تعالیٰ نے اس لیے پوشیدہ رکھا ہے کہ اچانک وقت پر آنے والی چیز کا خوف ہر زمانے کے لوگوں کے دل میں رہے ورنہ وقت سے پہلے لوگ قیامت سے بالکل بےفکر ہوجاتے وما یشعرون ایان یبعثون کا یہی مطلب ہے۔ اِدّٓارَکَ عِلْمُھُمْ میں ادارک کا لفظ اصل میں تدارک ہے ت کو دال میں ادغام کر کے اول میں ہمزہ لگا دینے سے اِوَّارَک ہوگیا ہے جس کے معنیٰ کسی چیز کے پورے ہوجانے کے ہیں۔ حشر کے منکر لوگوں کی دریافت امور آخرت میں پوری ہوگئی اس کے دو مطلب ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے ایک قول کے موافق پہلا مطلب تو یہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ دنیا میں اندھے شخص کی طرح امور آخرت میں اس سبب سے شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے آخرت کی جو باتیں ان کو سمجھائی گئی ہیں ان کے تو یہ لوگ منکر ہیں اور فقط عقل سے وہ باتیں معلوم نہیں ہوسکتی ہیں ہاں آخرت میں جب وہ باتیں ان کے سامنے آجاویں گی تو اس بات میں ان کا علم ان کی دریافت سب کچھ پورا ہوجاوے گا دوسرا مطلب حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے دوسرے قول موافق یہ ہے کہ وحی کے انکار اور عقل کے کار آمد نہ ہونے کے سبب سے امور آخرت کی دریافت میں ان کے علم کا خاتمہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات میں ان لوگوں کے علم کے سب ذریعے بند اور ان کا علم اس باب میں تھکا ہوا ہے شاہ صاحب نے آیت کا ترجمہ جو کیا ہے بلکہ ہارگئی ان کی دریافت آخرت میں یہ ترجمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے دوسرے قول کے موافق ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا پہلا قول سورة قاف کی آیت لقدکنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک عظاء کہ فبصرک الیوم حدید کے بالکل مطابق ہے کیونکہ جو مطلب حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پہلے قول کا اوپر بیان کیا گیا ہے وہی مطلب سورة قاف کی اس آیت کا ہے اس لیے حافظ ابو جعفرابن جریر (رح) نے اپنی تفسیر میں اسی قوی قرار دیا ہے پچھلے انبیاء کے قصوں میں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حال کی نصیحت میں حشر کا حال سن کر مشرکین مکہ یہ کہتے تھے کہ یہ حشر کا ڈراوا تو وہی پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ان سے ہم کیا ڈرتے ہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے کہہ دو کہ ملک شام اور یمن کے سفر میں ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھو جن کے تباہ ہونے کا۔ “ پچھلے انبیاء ( علیہ السلام) کے قصوں میں ان لوگوں کو سنایا گیا ہے تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ حشر کے قائم ہونے کی نصیحت کہانیاں نہیں بلکہ ایسی سچی باتیں ہیں جن کے جھٹلانے والے طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہو کر تباہ اور برباد ہوچکے ہیں اس پر بھی اگر یہ نہ مانیں گے تو وہی انجام ان کا ہوگا جو ان سے پہلوں کا ہوا۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کا کلام سچا ہے مشرکین مکہ میں حشر کے بڑے بڑے جھٹلانے والوں کا جو انجام بدر کی لڑائی میں ہوا اس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک (رح) کی روایتوں کے حوالہ سے ایک جگہ گزر چکا ہے کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتانے کی غرض سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کو سچا پالیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:60) امن۔ مرکب ہے ام اور من موصولہ سے اور اس میں تقدیر کلام یوں ہےء الاصنام خیر ام الذی خلق السموت والارض کیا بت (جن کی یہ پوجا کرتے ہیں) بہتر ہیں یا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ماء : ای المطر۔ بارش۔ فانبتنا بہ۔ ف تعقیب کی ہے۔ انبتنا ماضی جمع متکلم انبات (افعال) مصدر۔ ہم نے اگایا۔ ب سببیہ ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ماء ہے۔ پھر ہم نے اس پانی کے ذریعے اگائے۔ حدائق : حدیقۃ کی جمع ہے بمعنی باغ جس کی چار دیواری ہو۔ ذات بھجۃ مضاف مضاف الیہ۔ ذات والی صاحب ۔ ذو کا مؤنث ہے۔ ذو ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے اور اسم ظاہر ہی کی طرف مضاف ہوتا ہے ضمیر کی طرف نہیں۔ نجھۃ رونق۔ نازگی۔ خوشنما۔ خوش منظر۔ ذات بھجۃ۔ بارونق ۔ خوش نما۔ مضاف مضاف الیہ مل کر حدائق کی صفت ہے۔ فانبتنا بہ حدائق ذات بھجۃ پھر ہم نے اس پانی کے ذریعہ خوشنما بارونق باغات اگائے۔ یہاں غیبت سے تکلم کی طرف التفات ہے اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ یہ فعل صرف ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے جیسا کہ آگے فرمایا ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا تمہاری طاقت نہ تھی کہ تم ان کے درخت اگاسکتے۔ تنبتوا مضارع منصوب (نون اعرابی بوجہ عمل ان ساقط ہوگیا) صیغہ جمع مذکر حاضر تم اگاؤ گے۔ تم اگا سکوگے۔ تم اگا سکو۔ شجرھا۔ مضاف مجاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث کا مرجع حدائق ہے۔ ء الہ مع اللہ۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ہے (جو اس کی اس کاریگری میں معاون و مدد گار ہو ؟ ) بل حرف اضراب ہے ماقبل کی تصحیح اور مابعد کے ابطال کے لئے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اس صناعی میں اس کا کوئی مدد گار نہیں ہے بلکہ یہ لوگ ہی راہ حق سے بھٹکے جا رہے ہیں۔ یعدون ۔ مضارع جمع مذکر غائب ۔ (1) العدل مصدر سے ہے تو اس میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں عدل یعدل فلانا بفلان (باب ضرب) ایک کو دوسرے کے ساتھ برابر گرداننا۔ قرآن مجید میں ہے اوعدل ذلک صیاما (5:95) یا اس کے برابر روزے رکھنا اس صورت میں معنی ہوں گے ای یسادون بہ غیرہ اس کے ساتھ غیر اللہ کو برابری دیتے ہیں۔ (2) اگر العدول مصدر سے ہے تو بمعنی انحراف کے ہے ای انحراف عن طریق الحق راہ راست سے بھٹکنا یا انحراف کرنا۔ اور بل ھم قوم یعدلون کا ترجمہ ہوگا : بلکہ یہ لوگ ہیں ہی حق سے انحراف کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ اب یہاں سے اثبات توحید کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے بعض صفات وشوئوں کا بیان ہو رہا ہے جن کو مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ مثلاً آسمان زمین اور اسباب رزق کا پیدا کرنا۔ (نیز دیکھئے : ذخرف 9، عنکبوت :63) 2 ۔ یعنی توحید کی راہ چھوڑ کر شرک کی ٹیڑھی راہ پر پڑجاتے ہیں۔ یا ترجمہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 60 تا 66 اسرار و معارف انہیں اللہ پر ایمان لانے میں عذر ہے تو ان سے پوچھیے کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کس نے کیا ہے کہ بت تو خود مخلوق ہیں اور اکثر کو تم خود گھڑتے ہو لہذا یہ ان کی صفت تو نہیں ہو سکتی پھر اس کی تخلیق میں کمال حکمت سے تسلسل رکھا ہے کہ آسمان سے بارشوں کو برساتا ہے سورج کی گرمی بادل کا بننا اور برسنا ہواؤں کا اسے چلانا پھر اسی ایک پانی سے زمین کے سینے سے رنگارنگ باغات اور پھول پھل اگائے ورنہ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ ایک پودا بھی پیدا کرسکے۔ بھلا کیا جو اس ساری تخلیق میں اللہ کا ہرگز حصے دار نہیں وہ عبادت میں اس کا شریک ہوسکتا ہے ؟ کبھی نہیں مگر یہ لوگ ایسا کرتے ہیں۔ بھلا زمین کو کس نے یوں فضا میں ٹھہرایا ہے اور مٹی کے درمیان شفاف پانی کی ندیاں جاری کردی ہیں اور اس پر بڑے بڑے پہاڑوں کا بوجھ لاد دیا ہے پھر ایک ہی زمین میں میٹھا اور کڑوا دونوں طرح کا پانی موجود ہے اسے کون الگ الگ رکھتا ہے کیا کوئی دوسرا ایسا کرسکتا کہ وہ اللہ کے ساتھ عبادت میں شریک ٹھہرایا جائے لیکن ان لوگوں کی جہالت نے اللہ کے ساتھ شرک ایجاد کرلیا ہے۔ بھلا بےبس اور مجبور کی دعا کون سنتا ہے اور اس کی مصیبت دور فرماتا ہے کہ مشرکین بھی جب انتہائی پریشانی میں گھر جاتے ہیں جیسے سمندری طوفانوں میں پھنستے تو پھر صرف اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ اور کس نے تمہیں اگلوں کا وارث اور زمین پر اللہ کی نعمتوں کا امین بنا دیا کوئی بھی تو نہیں جو اللہ کے برابر معبود بن سکے مگر بہت کم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ بھلا خشکی اور سمندر کی تاریکی میں کون تمہیں راہ دکھاتا ہے کہ صحرا میں بھی اور سمندر میں بھی کالی راتیں راستہ تلاش کرنے میں مدد کرتی ہیں اور ستارے واضح ہو کر سمت کا تعین آسان کردیتے ہیں اور بارش سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں کون چلاتا ہے بھلا کوئی ہے جو اللہ کے ساتھ عبادت کا مستحق ہو ہرگز نہیں بلکہ جتنے قسم کے شرک انہوں نے ایجاد کر رکھے ہیں اللہ سب سے پاک اور اس کی ذات ان سب باتوں سے بلند ہے۔ بھلا اس ساری مخلوق کو کون پیدا کرتا ہے اور بعد موت دوبارہ پھر پیدا کرے گا اور آسمانوں زمینوں سے رزق کون دیتا ہے کیا کوئی اور ہے جسے اللہ کی برا بری کا حق دیا جائے اگر تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل ہے تو ان دلائل کے مقابل پیش کرو کہ تمہاری صداقت کا پتہ چلے۔ اطلاع عن الغیب : اور انہیں یہ بھی فرما دیجیے کہ اپنے سارے کمالات اور ایجادات کے باوجود غیب کو جاننا صرف اللہ کا کام ہے کوئی نہیں جانتا کہ علم غیب اس کو کہا جائے گا جو بغیر کسی ذریعہ کے حاصل ہو حالانکہ وہ حوا سے غائب بھی ہو مگر مخلوق کسی نہ کسی واسطے ہی سے جانے گی حتی کہ انبیاء کو بھی غیب پر اطلاع دی جاتی ہے لہذا اسے اطلاع عن الغیب کہا جائے گا نہ کہ علم غیب اور مخلوق کو تو یہ بھی علم نہیں کہ موت کے بعد کب دوبارہ زندہ کر کے کھڑے کردیے جائیں گے بلکہ محض عقل سے تو یہ آخرت بھی نہ جان سکے اور ان کے سارے علوم عاجز آگئے۔ آخرت اور ذات وصفات کا علم صرف وحی سے ممکن ہے : بلکہ تھک ہار کر یہ آخرت کے واقع ہونے پر ہی شک کرنے لگے کہ یہ اس معاملہ میں بالکل اندھے ہیں کہ اللہ کی ذات وصفات اور آخرت کا علم صرف وحی سے ممکن ہے جو دل کو روشن کر کے یقین سے بھر دیتی ہے ورنہ وحی کا منکر اندھے پن کا شکار رہتا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 60 تا 66 : امن (کون ہے وہ ؟ ) انبتنا (ہم نے اگایا) ‘ حدائق (حدیقۃ) باغات ‘ ذات بھجۃ (رونق والے) ‘ ان تنبتوا (یہ کہ تم اگائو) ‘ یعدلون (وہ برابر کرتے ہیں) ‘ قرار (ٹھہرنے کی جگہ) ‘ خلل (درمیان) ‘ رواسی (بوجھ۔ پہاڑ) ‘ حاجز (آڑ ۔ رکاوٹ) ‘ یجیب (وہ قبول کرتا ہے) ‘ المضطر (بےقرار۔ بےچین) ‘ یکشف (وہ کھولتا ہے) ‘ ھاتوا (آئو۔ (لے آئو) ‘ برھان (دلیل) ‘ ایان (کب) ادرک (تھک گیا) عمون ( وہ اندھے بن رہے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 60 تا 66 : جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات اور قدرت میں دوسروں کو شریک کرتے اور ان کی عبادت و بندگی کرتے ہیں ان کے سامنے کائنات کی بیشمار نشانیوں کو رکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ سوال کیا ہے کہ کیا ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی ہے جس کے پیدا کرنے میں تمہارے یہ بت اور جن کی تم پیروی کرتے ہو وہ شریک ہوں ؟ فرمایا (1) عظیم الشان آسمان اور وسیع زمین جس کے لاتعداد فائدے ہیں ان کو کس نے بنا یا ؟ (2) پانی کو آسمان (بلندی) سے کس نے برسایا جس سے حسین اور خوبصورت باغات بنائے۔ کیا تم اور تمہارے معبود ان کے اگان میں شریک تھے۔ کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو اس کے برابر قرار دے رہے ہیں۔ (3) اس زمین کو کس نے ٹہرا رکھا ہے جس سے وہ کانپنے کے بجاء اپنے اوپرکروڑوں اربوں انسانوں اور ان کے وسائل اور بلڈنگوں کو سنھبالے ہوئے ہے ؟ (4) وہ کون ہے جس نے اس زمین کے اندر سے نہریں بہادیں ‘ اس کا تو ازن برقراررکھنے کے لئے (پہاڑوں کے) بوجھ رھ دیئے اور (کھارے ‘ میٹھے پانی کے) دو دریاؤں کے درمیان پر دے حائل کردیئے ۔ کیا ان کے پیدا کرنے اور بنانے میں کوئی دوسرا معبود بھی ہے (یقیناً نہیں ہے) اکثر لوگ وہ ہیں جو اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ (5) وہ کون ہے جو مصیبت کے وقت بیقرار اور بےجن کی پکار کو سنتا اور اس کی فریاد کو پہنچتا ہے۔ (6) وہ کون ہے جو لوگوں کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ہر طرح کی راحتوں کے سامان عطا کرتا ہے۔ (7) وہ کون ہے جو ایک کے بعد دوسرے کو اور ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو ابھارتا ہے اور یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے جاری ہے۔ یقیناً وہ اللہ کی شان اور قدرت ہے۔ کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود ہے جو یہ سب کچھ کرتا ہے۔ یقیناً اس حقیقت پر بہت کم لوگ توجہ کرتے ہیں۔ (8) وہ کون ہے جو تمہیں خشکی اور دریا و سمندر کے اندھیروں میں ستاروں کے ذریعہ راستہ دکھاتا ہے ؟ (9) وہ کون ہے جو بارش (برسنے سے) پہلے خوش خبری دینے والی ٹھنڈی ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ یقیناً یہ سب اسی ایک اللہ کی شان ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے بہت بلندو برتر ہے جن چیزوں کو وہ اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ (10) اللہ نے ان مشرکوں سے پوچھا ہے کہ بتائو وہ کون ہے جس نے اپنی ساری مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور پھر وہی قیامت کے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ (11) وہکون ہے جو آسمانوں اور زمین سے تمہیں رزق دیتا ہے۔ یقیناً وہ ایک اللہ ہے۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے جو یہ سب کچھ عطا کرتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ صاف اعلان کردیجئے کہا گر تم سچے ہو تو کوئی مضبوط دلیل لے کر آئو جس سے یہ ثابت کرسکو کہ تمہارے یہ جھوٹے معبود بھی کوئی حقیقت رکھتے ہیں۔ آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔ فرمایا کہ کہہ دیجئے مجھے اس کا عل نہیں ہے کہ وہ لوگ جو مرجائیں گے کب زندہ کئے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں وہ آخرت کی فکر سے اندھے بنے ہوئے ہیں اور وہ اس شک میں مبتلا ہیں کہ آخرت واقع ہوگی بھی یا نہیں ؟

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں سے کیے گئے سوال کا تفصیلی جواب۔ انیسویں پارے کا اختتام اس سوال پر ہوا کہ اے لوگو ! بتلاؤ کہ انسان کے لیے ہر حال میں ” اللہ “ بہتر ہے یا اس کے سوا دوسرے ؟ اب اس کا تفصیلی جواب دیا جاتا ہے۔ بتاؤ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا، کون آسمان سے بارش برساتا ہے اور کون اس کے ساتھ سبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے باغ پیدا کرتا ہے جن کے اگانے کی تم قدرت نہیں رکھتے۔ کیا ” اللہ “ کے ساتھ کوئی اور بھی یہ کام کرنے والا ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں یا وہ کرسکتا ہو۔ ہر دور کے مشرک اس حقیقت کو مانتے اور مانتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں نہ کوئی بارش برساسکتا ہے اور نہ ہی باغات اگا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کو ” اللہ “ کے شریک ٹھہراتے ہیں۔” یَعْدِلُوْنَ “ کا لفظ عدل سے نکلا ہے عدل کا معنی ہے انصاف کرنا، کسی کو کسی کے برابر ٹھہرانا اور ظلم کرنا۔ عدل ایسا لفظ ہے جس کا معنٰی اس کے سیاق وسباق سے متعین ہوتا ہے یہاں عدل کا معنٰی زیادتی کرنا اور کسی کو ” اللہ “ کے برابر ٹھہرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے دلائل اور توحید کے ثبوت مختلف الفاظ اور انداز میں انسان کے ذہن نشین کراتے ہیں۔ تاکہ انسان اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز آجائے۔ گویا کہ ربوبیت کے دلائل دینے کا مقصد الوہیت ثابت کرنا ہے۔” اللہ “ کی الوہیت کو بلاشرکت غیرے مانے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کیا ایک درخت بھی اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرسکتا ہے ؟ صرف ایک درخت کے لیے سب سے پہلے تو ایسی زمین ہونی چاہیے جس میں روئیدگی کی قوت ہو جہاں درخت اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ پھر اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے پھر روشنی اور اندھیرے کی ضرورت ہے پھر ہوا کی ضرورت ہے نہ معلوم ایک بیج کو نئے بیج تک پہنچنے کے لیے کس کس چیز کی ضرورت ہے۔” اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں کو ” اللہ “ ہی نے پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ ” اللہ “ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ ہی زمین میں باغ و بہار پیدا کرتا ہے۔ ٤۔ ان کاموں میں ” اللہ “ کا نہ کوئی شریک تھا نہ ہے اور نہ کوئی ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے رب کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا : ١۔ ” اللہ “ بارش نازل کرتا ہے۔ (النور : ٤٣) ٢۔ ” اللہ “ ہی پانی کے ذریعے باغات اور نباتات اگاتا ہے۔ (الانعام : ١٠٠) ٣۔ ” اللہ “ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٤۔ ” اللہ “ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ : ٢٩) ٥۔ ” اللہ “ نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ : ٢٩) ٦۔ ” اللہ “ نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٧۔ ” اللہ “ نے زمین و آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

امن خلق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم یعدلون۔ آیت نمبر 60 ” زمین و آسمان ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو ہمارے اردگرد قائم ہے۔ کوئی شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور نہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ جن الہوں کو وہ پکارتا ہے ان میں سے کسی نے ان کو پیدا کیا ہے ، کیونکہ یہ لوگ تو اصنام و اوثان اور مائک و شیاطین اور شجر و حجر کے پوجنے والے تھے یا پھر شمس و قمر کے پجاری تھے۔ لہٰذا یہ بات بدیہی ہے کہ ان چیزوں نے اس کائنات کو پیدا نہیں کیا ، بلکہ مشرکین میں ایسے بیوقوف بھی نہ تھے جو یہ دعویٰ کرتے ہوں کہ یہ کائنات خود اپنے وجود کی وجہ سے قائم ہے۔ بذات خود خالق و مخلوق ہے۔ اس قسم کے کم عقل صرف ہمارے ترقی یافتہ دور ہی میں پیدا ہوئے۔ لہٰذا صرف یہ بات ان کے لیے کافی تھی کہ ان کو اس کائنات کی طرف متوجہ کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ذرا اس کے بارے میں غوروفکر کرو۔ محض یہ توجہ ہی کافی دلیل ہے ، ردشرک کے لئے اور مشرکین کو لاجواب کرنے کے لیے ۔ اور یہ سوال انسان ، ایک سوچنے والے انسان کے سامنے ہمیشہ قائم رہتا ہے کیونکہ اس کائنات کی تخلیق ایسی ہے کہ اسے کسی ذات نے ایک منصوبے اور ارادے سے پیدا کیا ہے۔ اس کے اندر کسی مدبر کی تدبیر صاف نظر آتی ہے۔ اس کے اصولوں کے اندر اس قدر ہم آہنگی ہے کہ یہ محض اتفافی مخلوق معلوم نہیں ہوتی صرف معمولی غور کرنے ہی سے انسان اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کی خالق کوئی عظیم قدرت ہے۔ یہ واحد قوت ہے اور اس کی تخلیق کے آثار بتاتے ہیں کہ وہ وحدہ لاشریک ہے اور اس نے اس کائنات کو ایک زبردست منصوبے کے ساتھ بنایا ہے۔ اس کائنات کے اصولوں اور اس کے قوانین میں وحدت اور تناسق پایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا خالق بھی ایک ہے اور وہ ایسا خالق ہے کہ اس کا ارادہ اس کائنات کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں جاری وساری نظر آتا ہے۔ ذرا سوالات پر دوبارہ غور کریں۔ ” بھلا وہ کون ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ؟ “۔ ” وہ کون ہے جس نے تمہارے لیے پانی برسایا ؟ “۔ ” وہ کون ہے جس نے تمہارے لیے یہ رنگ برنگے دریچے بنائے ؟ “۔ ” کیا تم ایسے درخت اگا سکتے ہو ؟ “۔ پانی آسمانوں سے بارش کے ذریعہ اترتا ہے۔ کوئی شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور کسی کے پاس اس کے حقیقی اسباب کے لیے اس کے سوا اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ ایک خالق کائنات ہے جو اس کائنات کی تدبیر کر رہا ہے۔ وہی ہے جس نے اس کائنات اور اس کے اس فطری نظام کو جاری کیا ہے۔ اور اس کے جاری کردہ اس قانون قدرت کے مطابق ایک خاص مقدار میں بارش نازل ہوی ہے۔ پھر اس بارش کے ذریعہ اس کرہ ارض پر اس انداز اور مقدار کے مطابق زندگی پائی جاتی ہے لہٰذا یہ سب کچھ محض اتفاق کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ یہ اتفاقات ایک خاص پیچیدہ ترتیب کے مطابق ہوتے ہیں۔ نہایت ہی طے شدہ اور مضبوط تسلسل کے ساتھ۔ جس میں زندہ مخلوق کی تمام ضروریات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ خصوصا انسان کی تو تمام ضروریات کے مطابق اس کائنات کو بنایا گیا ہے۔ اس کی تخلیق میں انسانوں کی ضروریات کو مخصوص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے : وانزل لکم (27: 60) ” اور اس نے تمہارے لیے نازل کیا ہے “۔ قرآن کریم اس طرف بار بار اشارہ کرتا ہے کہ نازل ہونے والے اس پانی کے اندر زندہ کرنے والے اثرات ہیں۔ اس کے اندر انسان کے وجود ، اس کی ضروریات اور اس کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ قرآن انسانوں کو ان زندہ آثار کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ جو ان کے سامنے زندہ موجود ہیں لیکن یہ لوگ ان سے غافل ہیں۔ فانبتنا بہ حدآئق ذات بھجۃ (27: 60) ” پھر اسکے ذریعہ ہم نے وہ خوشنما باغ اگائے “۔ یعنی تروتازہ اور خوبصورت ، زندہ اور خوش منظر باغ اگائے۔ باغات کو دیکھ کر انسان کے دلوں میں زندگی ، خوشی اور نشاط کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس حسن و جمال اور تروتازگی پر غور کرنے سے مردہ دل بھی زندہ ہو سکتے ہیں۔ پانی سے پیدا ہونے والے اس حسن و جمال کے آثار پر غور کرکے ایک زندہ دل دماغ والا انسان صانع کائنات تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور اس کی تسبیح و تمجید کرسکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایک خوبصورت چیز کی ساخت پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ماہرین فن بھی جمع ہوجائیں تو وہ ایک خوبصورت پھول بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ اس کے اندر رنگوں کی لہریں اور امتزاج ، اس کے خطوط ، اس کی پتیوں کی ترتیب و تنظیم صرف ایک پھول کے اندر تخلیق و فن کا وہ کمال ہے جو معجز ہے۔ اسنان کے قدیم اور جدید ترقی یافتہ فن کے اندر اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ رہی پورے درخت کے اندر قوت نامیہ تو یہ ایک عظیم راز ہے۔ پھر درخت کے اندر سے اس کی نسل کا تسلسل یہ وہ راز ہیں جو انسان کے لیے تو معجزہ ہیں۔ ما کان لکم ان تنبتوا شجرھا (27: 60) ” جن کے درختوں کا اگانا تمہارے لیے ممکن نہ تھا “۔ اور زندگی تو ابھی تک علماء کے نزدیک ایک راز ہی ہے۔ خواہ بناتات کی ہو یا حیوانات کی۔ آج تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ زندگی کس طرح وجود میں آگئی یا زندہ انسان کے جسم ، حیوانات کے اجسام اور درختوں کے اجسام کے اندر پائے جانے والے میٹریل کے ساتھ کس طرح وابستہ ہوگئی۔ لہٰذا زندگی کی اس تخلیق کا مقصد کہیں اور تلاش کرنا ہوگا۔ نباتات کی زندگی ، اور اس کے آثار اور باغ و راغ کو پیش کرکے اور انسانی عقل کو دعوت غور وفکر دے کر اور انسان کے قوائے مدرکہ کو تحریک دے کر اب قارئین کے سامنے ایک سوال رکھا جاتا ہے۔ ء الہ مع اللہ (27: 60) ” کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ بھی ہے “۔ کون ہے جو اس سوال کے جواب میں ہاں کہہ سکتا ہے اقرار اور یقین اور نفی شرک کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے لیکن ایسے واضح حالات میں بھی لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ پھر بھی عجیب موقف اختیار کرتے ہیں اور وہ ایسے خالق کائنات کیساتھ اپنے نام نہاد معبودوں کو الٰہ سمجھتے ہیں ، ان کی بندگی کرتے ہیںٗ بل ھم قوم یعدلون (27: 60) ” بلکہ یہ لوگ راہ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں “۔ یعدلون کا معنی یا تو یہ ہے کہ وہ الٰہ سمجھتے ہیں اور یا اس کے معنی ہیں عدل عن الحق یعنی یہ لوگ سچے راستے سے ایک طرف ہو کر چلتے ہیں حالانکہ حق کا راستہ بالکل واضح ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ دیگر الٰہوں کو شریک کرکے وہ سچائی کے راستے سے ہٹ گئے جبکہ اللہ وحدہ خالق ہے۔ دونوں مفہوموں کے اعتبار سے ان کا موقف قابل تعجب ہے جو کسی عقل مند آدمی کے لائق نہیں ہے۔ اب ان کو ایک دوسری کائناتی حقیقت کی طرف منتقل کیا جاتا ہے۔ جس طرح پہلے تخلیق حیات اور اس کے مظاہر کی طرف متوجہ کیا گیا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ یہاں اور اسی طرح اگلی چاروں دلیلوں میں ام منقطعہ ہے بمعنی بل اور اس سے ایک دلیل ہے دوسری دلیل کی طرف انتقال مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اچھا اس کے علاوہ یہ بتاؤ تمہارے معبود اپنے پجاریوں کے حق میں اچھے ہیں یا اللہ تعالیٰ اپنے عابدین کے حق میں اچھا ہے۔ تم جن پیغمبروں اور ولیوں کو کارساز اور برکات دہندہ سمجھ کر پکارتے ہو وہ نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ تم سے ضرر دور کرسکتے ہیں اس لیے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر ہے۔ والمعنی اللہ خیر لمن عبدہ ام الاصنام لمن عبدھا فان اللہ خیر لمن عبدہ وامن بہ لا غنائہ من الھلاک والاصنام لم تغن عن عابد یھا شیئا عند نزول العذاب و لہذا السبب ذکر انواعا تدل علی وحدانیتہ و قدرتہ (خازن ج 5 ص 127) ۔ 52:۔ یہ خطاب مخصوص لوگوں سے نہیں بلکہ ساری جنس مخلوق سے ہے۔ ما کان لکم ای لجمیع جنسکم یعنی تمام جنس مخلوق کو یہ اختیار نہیں۔ جیسا کہ بنی اسرائیل رکوع 11 میں ہے۔ قللو انتم تملکون الخ اور سورة یسین رکوع 3 میں ہے وما عملتہ ایدیھم یہاں بھی جنس مخلوق مراد ہے۔ ء الہ مع اللہ ہر دلیل کے بعد یہ سوال دہرایا گیا ہے جس سے مشرکین کے لاجواب ہونے کا اظہار مقصود ہے۔ دلیل میں جن صفات کا ذکر کیا گیا ہے مشرکین بھی مانتے تھے کہ وہ اللہ کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتیں۔ اور الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو ان صفات سے متصف ہو۔ اب مشرکین سے سوال کیا گیا۔ ء الہ مع اللہ کیا یہ صفات اللہ کے سوا کسی اور میں پائی جاتی ہیں اور کیا اللہ کے سوا کوئی اور کارساز ہے ؟ بل ھم قوم یعدلون اس کا جواب وہ خوب جانتے ہیں کہ نفی میں ہے لیکن سرکشی اور ضد وعناد کی وجہ سے حق کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ حق یعنی توحید سے اعراض کرتے ہیں۔ یعدلون عن الحق الذی ھو التوحید (مدارک و روح) ۔ یا اس کے معنی برابر کرنے کے ہیں یعنی وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کو عبادت اور پکار میں اللہ کے برابر سمجھتے ہیں ای یساو ون بہ غیرہ تعالیٰ من الھتہم (روح ج 20 ص 50) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) بھلا کس نے آسمانوں کو اور زمین کو بنایا اور کس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی سے ہم نے خوش منظر اور پر رونق باغ اگائے یہ کام تمہارے بس کا نہ تھا کہ تم ان باغوں کے درخت اگا سکو کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کوئی نہیں بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ کج روی اختیار کرتے ہیں اور دوسروں کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتے ہیں یعنی زمین و آسمان کا بنانا پھر آسمان سے پانی نازل کرنا پر رونق اور پھول پھل سے لدے ہوئے باغ اگانا حالانکہ تم میں تو اتنی بھی طاقت اور سکت نہیں کہ ایک درخت بھی اگا سکو چہ جائے کہ پھول یا پھل کی رونق اور بہار پر کوئی تمہارا بس اور قابو ہو تو بتائو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے جو صنعت و خالقیت کا مالک ہو جب کوئی اور معبود ہی نہیں تو سوائے اس کے کیا ہے کہ یہ لوگ صحیح راہ سے مڑتے اور کج روی اختیار کر رہے ہیں اور دوسروں کو عبادت میں شریک کرکے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برابری کا درجہ دے رہے ہیں۔