Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 65

سورة النمل

قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۶۵﴾

Say, "None in the heavens and earth knows the unseen except Allah , and they do not perceive when they will be resurrected."

کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کئے جائیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The One Who knows the Unseen is Allah Allah says: قُل لاَّ يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ الْغَيْبَ ... Say: "None in the heavens and the earth knows the Unseen, Allah commands His Messenger to inform all of creation that no one among the dwellers of heaven and earth knows the Unseen, except Allah. ... إِلاَّ اللَّهُ ... except Allah, This is an absolute exception, meaning that no one knows this besides Allah, He is alone in that regard, having no partner in that knowledge. This is like the Ayat: وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَأ إِلاَّ هُوَ And with Him are the keys of the Unseen, none knows them but He. (6:59) إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ Verily, Allah, with Him is the knowledge of the Hour, He sends down the rain. (31:34). until the end of the Surah. And there are many Ayat which mention similar things. ... وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ nor can they perceive when they shall be resurrected. That is, the created beings who dwell in the heavens and on earth do not know when the Hour will occur, as Allah says: ثَقُلَتْ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ لاَ تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَةً Heavy is its burden through the heavens and the earth. It shall not come upon you except all of a sudden. (7: 187) meaning, it is a grave matter for the dwellers of heaven and earth.

اللہ کے سوا کوئی غیب داں نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ وہ سارے جہاں کو معلوم کرادیں کہ ساری مخلوق آسمان کی ہو یا زمین کی غیب کے علم سے خالی ہے بجز اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے کوئی اور غیب کا جاننے والا نہیں ۔ یہاں استثناء منقطع ہے یعنی سوائے اللہ کے کوئی انسان جن فرشتہ غیب دان نہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) یعنی غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہے جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ اور فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ 34؀ۧ ) 31- لقمان:34 ) اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش برساتا ہے وہی مادہ کے پیٹ کے بچے سے واقف ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا نہ کسی کو یہ خبر کہ وہ کہاں مرے گا ؟ علیم وخبیر صرف اللہ ہی ہے ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مخلوق تو یہ بھی نہیں جانتی کہ قیامت کب آئے گی ۔ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے ایک بھی واقف نہیں کہ قیامت کا دن کون سا ہے؟ جیسے فرمان ہے آیت ( ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ١٨٧؁ ) 7- الاعراف:187 ) سب پر یہ علم مشکل ہے اور بوجھل ہے وہ تو اچانک آجائے گی ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے جو کہے کہ حضور کل کائنات کی بات جانتے تھے اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا اس لئے کہ اللہ فرماتا ہے زمین وآسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ستاروں میں تین فائدے رکھے ہیں ۔ آسمان کی زینت بھولے بھٹکوں کی رہبری اور شیطانوں کی مار ۔ کسی اور بات کا ان کیساتھ عقیدہ رکھنا اپنی رائے سے بات بنانا اور خود ساختہ تکلیف اور اپنی عاقبت کے حصہ کو کھونا ہے ۔ جاہلوں نے ستاروں کے ساتھ علم نجوم کو معلق رکھ کر فضول باتیں بنائی ہیں کہ اس ستارے کے وقت جو نکاح کرے یوں ہوگا فلاں ستارے کے موقعہ پر سفر کرنے سے یہ ہوتا ہے فلاں ستارے کے وقت جو تولد ہوا وہ ایسا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب ڈھکو سلے ہیں انکی بکواس کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے ہر ستارے کے وقت کالا گورا ٹھنگنا لمبا خوبصورت بد شکل پیدا ہوتا ہی رہتا ہے ۔ نہ کوئی جانور غیب جانے نہ کسی پرند سے غیب حاصل ہوسکے نہ ستارے غیب کی رہنمائی کریں ۔ سنو اللہ کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ آسمان و زمیں کی کل مخلوق غیب سے بےخبر ہے ۔ انہیں تو اپنے جی اٹھنے کا وقت بھی نہیں معلوم ہے ( ابن ابی حاتم ) سبحان اللہ حضرت قتادہ کا یہ قول کتنا صحیح کس قدر مفید اور معلومات سے پر ہے ۔ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے علم آخرت کے وقت کے جاننے سے قاصر ہیں عاجز ہوگئے ہیں ۔ ایک قرأت میں بل ادرک ہے یعنی سب کے علم آخرت کا صحیح وقت نہ جاننے میں برابر ہیں ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرا اور تیرا دونوں کا علم اس کے جواب سے عاجز ہے ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ آخرت سے ان کے علم غائب ہیں ۔ چونکہ کفار اپنے رب سے جاہل ہیں اس لئے آخرت کے بھی منکر ہیں ۔ وہاں تک ان کے علم پہنچتے ہی نہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آخرت میں ان کو علم حاصل ہوگا لیکن بےسود ۔ جیسے اور جگہ بھی ہیں کہ جس دن یہ ہمارے پاس پہنچے گے بڑے ہی دانا وبینا ہوجائیں گے ۔ لیکن آج ظالم کھلی گمراہی میں ہونگے ۔ پھر فرماتا ہے کہ بلکہ یہ تو شک ہی میں ہیں اس سے مراد کافر ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَعُرِضُوْا عَلٰي رَبِّكَ صَفًّا 48؀ ) 18- الكهف:48 ) یعنی یہ لوگ اپنے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہم نے جس طرح تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب ہم تمہیں دوبارہ لے آئے ہیں لیکن تم تو یہ سمجھتے رہے کہ قیامت تو کوئی چیز ہی نہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم میں سے کافر یہ سمجھتے رہیں ۔ گو مندرجہ بالا آیات بھی گو ضمیر جنس کی طرف لوٹتی ہے لیکن مراد کفار ہی ہیں اسی لیے آخر میں فرمایا کہ یہ تو اس سے اندھاپے میں ہیں ، نابینا ہو رہے ہیں ، آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

651یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انھیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ' (صحیح بخاری) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بیخبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلا کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا۔ فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہوسکتا ہے ؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] غیب سے مراد ایک تو ایسی چیزیں ہیں جو کسی خاص انسان کے علم یا مشاہدہ میں نہ آئی ہوں۔ پھر جب وہ اس کے علم میں آجائیں گی تو اس کے لئے غیب نہ رہیں گی۔ مثلاً سڑک پر ایک بس اور کار کا حادثہ ہوگیا جس میں چار آدمی مرگئے۔ پھر جب اسے اس کا علم ہوجائے گا یا وہ خود مشاہدہ کرلے گا تو یہ واقعہ اس کے لئے غیب نہ رہا۔ ایسی خبریں ماضی کی بھی ہوسکتی ہیں۔ حال کی بھی جو کسی کو معلوم ہوتی ہیں اور کسی کے لئے غیب کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ مستقبل کی خبریں سب کے لئے غیب ہوتی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ جتنے علوم انسان دریافت کرچکا ہے یا جس حد تک دریافت کرچکا ہے۔ وہ سب انسان کے لئے علم الشہادۃ ہیں اور جن علوم تک انسان کی رسائی ہو ہی نہیں ہوسکتی یا نہیں ہوسکی۔ وہ اس کے لئے علم غیب ہیں۔ تیسری قسم ان اشیاء کا علم ہے جن تک انسان کی رسائی نہ پہلے کبھی ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوسکے گی اور کتاب و سنت کی تصریح کے مطابق یہ پانچ چیزیں ہیں۔ (١) کل کیا کچھ ہونے والا ہے اور فلاں شخص کل کیا کچھ کرے گا، (٢) موت کب آئے اور کہاں آئے گی۔ (٣) رحم مادر میں تغیرات کیونکر واقع ہوتے ہیں۔ (٤) نفع رساں بارش کب ہوگی اور (٥) قیامت کب آئے گی۔ (٣١: ٣٤) ان چیزوں کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ البتہ اس علم میں سے جتنا وہ انسانی ہدایت کے لئے ضروری سمجھتا ہے اس سے اپنے انبیاء کو مطلع کردیتا ہے۔ جیسے قیامت، بعث بعد الموت، جنت و دوزخ اور روز قیامت کے احوال اور ی سے ہی ماضی کے حالات جیسے شرعی اصطلاح میں تذکیر۔۔ اللہ کہتے ہیں۔ انبیاء و اقوام کے حالات اور بعض مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں اور بشارات۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاو کی زبان سے بار بار یہ اعلان کروایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ایک مقام پر فرمایا : && اے نبی کہہ دو کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں بہت بھلائیاں اکٹھی کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی && (٧: ١٨٨ ( اور انبیا پر چونکہ بموجب تصریح احادیث صحیحہ ابتلا کا دور آتا ہے تو جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء بھی اتنا ہی غیب کا علم جانتے ہیں۔ جتنا اللہ انھیں بتلا دیتا ہے۔ علم غیب کو اللہ تعالیٰ کا سے مخصوص رکھا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کی وجہ ہے کہ الوہیت اور علم غیب ماننے میں ایک گہرا تعلق ہے۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک انسان نے جس ہستی میں الوہیت کے کسی شائبہ کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ ضرور خیال کیا ہے ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس پر پوشیدہ نہیں رہتی۔ آپ نے اکثر اولیاء اللہ کے تذکروں میں پڑھا یا سنا ہوگا کہ پیر اپنے مریدوں کے حالات سے آگاہ ہوتا ہے۔ پھر ایسے بیشمار واقعات بھی ان تذکروں میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے سب قصے اس لئے گھڑے جاتے ہیں کہ ان پیروں میں الوہیت کی صفات کو تسلیم کیا جائے اگرچہ زبان سے ان کا اقرار نہ کیا جائے۔ گویا کسی کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا ہی شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ کوئی بزرگ یا پیر خواہ زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو کسی کی فریاد تو اسی صورت میں سن سکتا ہے اور اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی اسی صورت میں کرسکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے مریدوں کے احوال سے آگاہ ہو پھر اس کے بعد امور کائنات میں کچھ تصرف بھی رکھتا ہو۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی بعض دوسری صفات مثلاً خلاقیت اور رزاقیت ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ اس طرح علم غیب بھی ناقابل تقسیم و تجزیہ ہیں۔ یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں بزرگ اپنے تمام مریدوں کے حالات سے یا اپنے علاقہ یا شہر کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے اور ان کے غیب کے حالات بھی جانتا ہے۔ یا فلاں ہستی اس علاقہ کی زمین کے مدفوں خزانوں کو جانتی ہے، ایسی تمام باتیں شرک میں داخل ہیں۔ [٧٢] آیت کے اس جملہ سے یہ معلوم ہوا کہ اس آیت میں صرف ان ہستیوں کے علم غیب جاننے کی تردید مقصود ہے۔ جن پر بعث بعدالموت کا مرحلہ پشی آنے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس سے مراد نہ بت ہوسکتے ہیں نہ حجر و شجر نہ شمس و قمر اور نہ فرشتے۔ ان سے مراد صرف وہی بزرگ ہوسکتے ہیں جن میں کسی نہ کسشی رنگ الوہیت کی کوئی صفت اور بالخصوص علم الغیب تسلیم کیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : ” الْغَيْبَ “ ” غَابَ یَغِیْبُ “ کا مصدر ہے، اکثر غائب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مراد وہ چیزیں ہیں جو نہ حواس خمسہ سے معلوم ہو سکیں اور نہ عقل ان کا ادراک کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی معبود کی عبادت، اس سے فریاد کرنے اور اسے مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنے کی ابتدا اس بات سے ہوتی ہے کہ اسے عالم الغیب سمجھ لیا جاتا ہے۔ ورنہ اگر عقیدہ یہ ہو کہ میرے تمام احوال سے میرے مالک کے سوا کوئی واقف ہی نہیں، تو وہ کسی غیر کو کیوں پکارے گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ کوئی آسمان میں ہے یا زمین میں، اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔ 3 اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو غیب کی بعض باتوں کی اطلاع دیتا ہے، مگر اس سے وہ عالم الغیب نہیں بن جاتے، کیونکہ انھیں اتنی ہی بات معلوم ہوتی ہے جتنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتائی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا) [ الجن : ٢٦ تا ٢٨ ] ”(وہ) غیب کو جاننے والا ہے، پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر کوئی رسول، جسے وہ پسند کرلے تو بیشک وہ اس کے آگے اور اس کے پیچھے پہرا لگا دیتا ہے۔ تاکہ جان لے کہ انھوں نے واقعی اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں اور اس نے ان تمام چیزوں کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہیں اور ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔ “ یہی وجہ ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قمیص کی روانگی کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آگئی، مگر چند میل کے فاصلے پر کنویں میں پڑے ہوئے یوسف (علیہ السلام) کی خبر نہ ہوسکی اور سال ہا سال تک رونے کی وجہ سے آنکھیں سفید ہوگئیں، مگر علم اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے معراج کروا دیا، مگر جوتوں پر لگی گندگی کا علم اسی وقت ہوا جب جبریل (علیہ السلام) نے آکر نماز میں بتایا۔ اگر بعض باتیں معلوم ہونے سے کوئی عالم الغیب بن جاتا ہو تو ہم میں سے ہر شخص عالم الغیب ہوگا، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتانے سے ہمیں بھی غیب کی کئی باتوں کا علم ہے۔ 3 اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ سوال کے انداز میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ مشرکین بھی مانتے تھے کہ پیدا کرنا، بارش اتارنا، رزق دینا اور دوسری صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں۔ علم کے متعلق چونکہ مشرکین یہ نہیں مانتے تھے، بلکہ غیر اللہ کو پکارتے ہی اس لیے تھے کہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے حال سے واقف ہیں اور ہماری فریاد سن رہے ہیں، حالانکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کا مطلب یہی ہے کہ اپنی مخلوق کا پورا علم بھی وہی رکھتا ہے، فرمایا : (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) [ الملک : ١٤ ] ” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔ “ جس نے پیدا ہی نہیں کیا اسے اللہ کی مخلوق کے جملہ احوال کا علم کیسے ہوسکتا ہے ؟ مگر آج کل بھی بعض کلمہ گو حضرات انبیاء، اولیاء اور پیروں فقیروں کو اس عقیدے کے ساتھ پکارتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں، بلکہ صاف کہتے ہیں کہ وہ کون سی بات ہے جو ان سے مخفی ہے اور اس کے لیے انھوں نے بیشمار کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سوالیہ انداز کے بجائے صاف لفظوں میں کہہ دینے کا حکم فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ 3 جب انبیاء و اولیاء غیب نہیں جانتے تو کاہن، رمال، جفار، جوتشی، جعلی استخارے کر کے آئندہ کی خبریں بتانے والے اور چوریاں بتانے والے عالم الغیب کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ سب لوگ جھوٹے و دغا باز ہیں۔ آسمان سے سنی ہوئی کوئی بات سچی نکل آتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اپنے جھوٹ کا بازار چمکاتے رہتے ہیں۔ 3 اگر اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب ہوتا تو اس کے سب سے زیادہ لائق ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب عطائی تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” مَا کَانَ وَ مَا یَکُوْنُ “ کا علم عطا فر دیا تھا، فرق صرف ذاتی اور عطائی کا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی کسی صفت میں برابر کا شریک بنا لے۔ دیکھیے سورة روم (٢٨) اور سورة نحل (٧١) کی تفسیر۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس دعویٰ کے لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ” مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ ( جو ہوچکا اور جو ہوگا) کا سارا علم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا تھا، یہ واضح کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علم کب عطا فرمایا۔ اگر کہا جائے کہ نبوت ملنے سے پہلے یا وفات سے پہلے کسی وقت آپ کو یہ علم عطا ہوگیا تھا تو جبریل (علیہ السلام) کی آمد اور وحی کے نزول کا سلسلہ عبث ٹھہرتا ہے اور اگر کہا جائے کہ وفات سے پہلے تو آپ عالم الغیب نہیں تھے، البتہ وفات کے وقت عالم الغیب ہوگئے تھے، تو وہ احادیث اس کا رد کرتی ہیں جن میں فرشتوں کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہنے کا ذکر ہے کہ ( إِنَّکَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ ) [ بخاري : ٤٦٢٥ ] ” تم نہیں جانتے انھوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کیے تھے۔ “ اور جن میں شفاعت کے لیے عرش کے نیچے سجدے کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ محامد سکھانے کا ذکر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے پہلے معلوم نہیں ہوں گے۔ (دیکھیے بخاری : ٧٥١٠) 3 الغرض، یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے غیب کی کسی بات کی اطلاع دے دے، لیکن جمیع ” مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، چناچہ فرمایا : (وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ) [ الأنعام : ٥٩] ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ اور فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ) [ لقمان : ٣٤ ] ” بیشک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ “ اور فرمایا : (يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ) [ البقرۃ : ٢٥٥ ] ” وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔ “ قرآن مجید نے اللہ کے سوا کسی سے علم الغیب کی صرف مطلق اور عام نفی ہی نہیں فرمائی بلکہ انبیاء ( علیہ السلام) اور خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں صاف تصریح فرمائی ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں، انھیں غیب کا علم اتنا ہی دیا گیا ہے جس کی رسالت کے لیے ضرورت تھی۔ پہلے انبیاء کے متعلق دیکھیے، آدم (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ طٰہٰ : ١٢٠ تا ١٢٢ ] نوح (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ ھود : ٣١ تا ٣٦ اور ٤٥ تا ٤٧ ] ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ الشعراء : ٦٩ تا ٨٦ ] لوط (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ ھود : ٧٧ تا ٨٣ ] یعقوب (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ یوسف : ٨٣، ٨٤] سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ النمل : ٢٠ تا ٢٨] موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ الأعراف : ١٤٣۔ طٰہٰ : ٢١ اور ٦٤ تا ٦٨ اور ٨٣ تا ٨٦۔ النمل : ١٠۔ القصص : ٢٠] زکریا (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ مریم : ٢ تا ١٠۔ آل عمران : ٣٧ تا ٤٧ ] داؤد (علیہ السلام) کا قصہ۔ [ صٓ : ٢٢ تا ٢٥ ] فرشتے بھی غیب نہیں جانتے۔ [ البقرۃ : ٣١ تا ٣٣ ] اور جن بھی غیب نہیں جانتے ہیں۔ [ سبا : ١٢ تا ١٤ ] ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے تین زمانے ہیں، نبوت سے پہلے کا زمانہ۔ نبوت کا زمانہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کا زمانہ۔ نبوت سے پہلے زمانے کے متعلق قرآن مجید نے تصریح فرمائی کہ آپ کو ان باتوں کا علم نہ تھا۔ دیکھیے سورة شوریٰ (٥٢) ، قصص (٤٤ تا ٤٦، ٤٨) اور ہود (٤٩) ۔ نبی بننے سے فوت ہونے تک کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گزشتہ و آئندہ کے بیشمار واقعات اور علوم عطا فرمائے، مگر اللہ کے علم سے آپ کے علم کی کوئی نسبت نہیں، جیسا کہ خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے علم کی اللہ تعالیٰ کے علم سے نسبت کی مثال سمندر اور چڑیا کی چونچ کے قطرے کی مثال دے کر سمجھائی۔ [ دیکھیے بخاري : ٤٧٢٥ ] ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا : ( مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہُ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ : ( عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ أحدا ) ۔۔ : ٧٣٨٠، ٤٨٥٥ ] ” جو شخص تجھے یہ کہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے اس نے جھوٹ کہا۔ “ اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے چند واقعات اختصار کے ساتھ ملاحظہ ہوں جن سے آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے : 1 عائشہ (رض) سے متعلق واقعۂ افک۔ دیکھیے سورة نور (١٦ تا ٢٦) اور صحیح بخاری میں حدیث افک (٤١٤١) ۔ 2 شہد حرام کرنے کا واقعہ۔ دیکھیے سورة تحریم (١ تا ٤) اور صحیح بخاری (٤٩١٢) ۔ 3 اللہ نے آپ سے کچھ پیغمبروں کا حال بیان فرمایا، کچھ کا نہیں۔ دیکھیے سورة نساء (١٦٤) ۔ 4 آپ کو قیامت کے وقت کا علم نہیں۔ دیکھیے سورة احزاب (٦٣) ، شوریٰ (١٧) ، اعراف (١٨٧) ، طٰہٰ (١٥) ، نمل (٦٥) ، لقمان (٣٤) ، حٰم السجدہ (٤٧) ، زخرف (٨٥) اور ملک (٢٥، ٢٦) ۔ 5 اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دیکھیے مدثر (٣١) ۔ 6 عبداللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی کا واقعہ۔ دیکھیے سورة عبس (١ تا ١٢) ۔ 7 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مدینہ اور اس کے ارد گرد کچھ منافق ہیں، نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم انھیں جانتے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (١٠١) ۔ 8 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور جبریل (علیہ السلام) سے بار بار پوچھنا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمانا کہ سدرۃ المنتہیٰ کو ایسے رنگوں نے ڈھانپ لیا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے ؟ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء : ٣٤٩ ] 9 فتح مکہ کے موقع پر آپ پردے کے پیچھے غسل کر رہے تھے کہ ام ہانی (رض) حاضر ہوئیں، اس نے سلام کہا تو آپ نے فرمایا : ” کون ہے ؟ “ بتایا کہ ام ہانی ہوں۔ [ دیکھیے بخاري، الغسل، باب التستر فی الغسل عند الناس : ٢٨٠ ] 0 ایک سفر میں عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگ آپ کے ساتھ اس کی تلاش کے لیے ٹھہر گئے۔ بعد میں اس اونٹ کو کھڑا کیا جس پر عائشہ (رض) سو رہی تھیں تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔ [ دیکھیے بخاري، التیمم، باب : ٣٣٤ ] ! مرض الموت میں جب آپ کا مرض بڑھ گیا تو آپ بار بار بےہوش ہو کر ہوش میں آتے تو فرماتے : ” لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ “ عرض کیا جاتا، نہیں تین بار ایسا ہوا۔ [ دیکھیے بخاري، الأذان، باب أن جعل الإمام لیؤتم بہ : ٦٨٧ ] @ستر صحابہ کو مشرکین کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، انھوں نے ان کو شہید کردیا، آپ سخت غمگین ہوئے۔ [ دیکھیے بخاري، الوتر، باب القنوت قبل الرکوع و بعدہ : ١٠٠٢ ] # رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے رہے، ابوبکر و عمر (رض) اور دوسرے صحابہ بھی سوئے رہے، سورج پوری طرح نکل آیا تو صبح کی نماز بعد میں پڑھی۔ [ دیکھیے مسلم، المساجد، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔۔ : ٦٨٠ ] $ مسجد میں جھاڑو دینے والی عورت فوت ہوگئی اور جنازے کے بعد دفن کردی گئی، تو آپ نے فرمایا : ” تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ “ پھر آپ نے فرمایا : ” مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ “ [ دیکھیے بخاري، الصلاۃ، باب کنس المسجد : ٤٥٨ ] % رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں اپنے گھر جاتا ہوں، وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے، میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں، لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔ “ [ دیکھیے بخاري، اللقطۃ، باب إذا وجد تمرۃ ۔۔ : ٢٤٣١ ] ^آپ نے فرمایا : ” مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، پھر بھلا دی گئی۔ “ [ دیکھیے بخاري، فضل لیلۃ القدر، باب التماس لیلۃ القدر۔۔ : ٢٠١٦ ] & بنوعکل اور عرینہ کے لوگوں کا واقعہ جنھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹوں کے ساتھ رہ کر دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا اور وہ تندرست ہونے پر آپ کے چرواہے کو قتل کرکے اونٹنیاں ہانک کرلے گئے۔ [ دیکھیے بخاري، الجہاد والسیر، باب إذا حرق المشرک۔۔ : ٣٠١٨، ٢٣٣ ] * یہودی عورت کا بکری کے گوشت میں زہر ملانے کا واقعہ۔ [ دیکھیے بخاري، الھبۃ و فضلھا، باب قبول الھدیۃ من المشرکین : ٢٦١٧ ] ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے روانہ کیا، ان کا سردار عاصم بن ثابت انصاری (رض) کو بنایا۔ سات شہید ہوگئے، تین بچ گئے، انھوں نے دعا کی : ” یا اللہ ! ہماری خبر ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا دے۔ “ بعد میں باقی دو بھی شہید ہوگئے اور خبیب (رض) قیدی بن گئے، پھر ان کو بھی شہید کردیا گیا۔ [ دیکھیے بخاري، الجھاد والسیر، باب ھل یستأسر الرجل ؟۔۔ : ٣٠٤٥ ] مزید واقعات محترم ارشاد اللہ مان کی کتاب ” تلاشِ حق “ میں دیکھیں، انھوں نے یہاں اٹھتر (٧٨) واقعات نقل کیے ہیں۔ رہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کا زمانہ، تو کئی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ قیامت کے دن بھی عالم الغیب نہیں ہوں گے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَأَیُّھَا النَّاسُ ، إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَی اللّٰہِ حُفَاہً عُرَاۃً غُرْلًا، ثُمَّ قَالَ : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْن) إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ ثُمَّ قَالَ : أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَاءِقِ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاھِیْمُ ، أَلَا وَإِنَّہُ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِيْ فَیُؤْخَذُ بِھِمْ ذَات الشِّمَالِ فَأَقُوْلُ یَا رَبِّ ! أُصَیْحَابِيْ ، فَیُقَالُ ، إِنَّکَ لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَکَ ، فَأَقُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ) فَیُقَالُ : إِنَّ ھٰؤُلَاءِ لَمْ یَزَالُوْا مُرْتَدِّیْنَ عَلٰی أَعْقَابِھِمْ مُنْذُ فَارَقْتَھُمْ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( و کنت علیہم شھیدا ما دمت فیھم۔۔ ) : ٤٦٢٥ ] ” اے لوگو ! تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بےختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْن) [ الأنبیاء : ١٠٤ ] ” جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی (اسی طرح) ہم اسے لوٹائیں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، یقیناً ہم ہمیشہ (پورا) کرنے والے ہیں۔ “ پھر فرمایا : ” سنو ! سب سے پہلے قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سن لو ! میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، فرشتے ان کو پکڑ کر بائیں طرف والوں (یعنی دوزخیوں) میں لے جائیں گے۔ میں عرض کروں گا : ” اے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں۔ “ ارشاد ہوگا : ” تم نہیں جانتے، انھوں نے تمہارے بعد کیا کام کیے۔ “ تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : (وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ) [ المائدۃ : ١١٧ ] ” اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا۔ “ ارشاد ہوگا : ” یہ لوگ اپنی ایڑیوں کے بل اسلام سے پھرتے رہے جب تو ان سے جدا ہوا۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَأَسْتَأْذِنُ عَلٰی رَبِّيْ فَیُؤْذَنُ لِيْ فَأَقُوْمُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَأَحْمَدُہُ بِمَحَامِدَ لَا أَقْدِرُ عَلَیْہِ الْآنَ ، یُلْھِمُنِیْہِ اللّٰہُ تَعَالٰی ) [ مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ فیھا : ٣٢٦؍١٩٣ ] ”(قیامت کے روز جب سب لوگ میرے پاس آئیں گے تو) میں اپنے رب سے اجازت مانگوں گا، مجھے اجازت دے دی جائے گی تو میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوجاؤں گا اور اللہ کی ایسی حمدو ثنا کروں گا کہ آج میں اس پر قادر نہیں، اس وقت وہ حمد اللہ تعالیٰ مجھے القا کرے گا۔ “ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب کی نفی ان سے نہیں کی جا رہی جو قیامت کے دن اٹھائے نہیں جائیں گے، مثلاً بت یا حجر و شجر، یا شمس و قمر، یا فرشتے، بلکہ ان لوگوں سے کی جا رہی ہے جو قیامت کو اٹھائے جائیں گے، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا صدیق، یا شہداء، یا صالحین، فرمایا، علم غیب تو کجا انھیں یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللہُ۝ ٠ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۝ ٦٥ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔ أَيَّانَ عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف/ 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات/ 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي : أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و : ( ایان ) ایان ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف/ 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔{ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ } ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے { أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ } ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) آپ فرما دیجیے کہ فرشتے ہوں یا انسان سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی بھی غییب کی بات نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی اور ان کفار پر عذاب کس وقت نازل ہوگا اور ان مخلوقات کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ قبروں سے کس وقت دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ) ” یعنی وہ لوگ جو فوت ہوچکے ہیں ‘ چاہے وہ اولیاء اللہ ہوں یا کوئی اور ‘ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ عالم برزخ میں ہیں اور وہاں انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83 In the preceding verses, arguments have been given to prove that Allah is the One and only Deity when considered from the viewpoint of creation, design and provision of the means of sustenance. Now in this verse it is being told that from the viewpoint of knowledge too, which is an important attribute of Godhead, Allah is Unique and without associate. Whatever creations are therein the heavens and the earth, whether angels or jinns, prophets and saints, or other men and other creatures, they have only limited knowledge. Something is hidden from all of them. The All-Knowing One is only Allah, from Whom nothing whatever of this universe is hidden, and Who knows every thing of the past and the present and the future. The word ghaib means something hidden and covered. As a term it implies everything which is unknown, and beyond one's sphere of knowledge and information. There are many things in the world which individually are known to some human beings and. unknown to others. And there are many others which taken as a whole have never been known to any of mankind, nor are known at present; nor will be known in the future: The same is the case with the jinns and the angels and other kinds of creation: certain things are known to some of them and hidden from others, and many things hidden from all of them and known to none. All kinds of hidden things are only known to One Being, the All-Knowing Allah. For Him nothing is unknown everything is known and evident. In order to bring out this reality the method of the question as employed above with regard to creation, design and sustenance of the universe has not been adopted here. The reason is that the manifestations of those attributes are clear and evident which everyone sees, and which even the pagans and polytheists acknowledged, and do even today, that they are the works of Allah. So, the argument adopted above was: When all these works, as you admit, are being done by Allah, and no one else is His partner in these, why have you then made others His associates in Divinity, and in His worship? However, the attribute of knowledge . has no perceptible manifestation which may be referred to and pointed out. It can be comprehended only by thought and reflection. Therefore, it has been put forward as an assertion instead of a question. Now it is for every intelligent person to think and consider for himself whether it is reasonable to believe that there should be any other than Allah, who is all-knowing, i.e. who knows all those conditions and things and realities which existed in the universe in the past; or exist now; or will exist in the future. And if there is none other who is allknowing, and cannot be, then is it reasonable to believe that any of those who are not aware fully of the realities and conditions and circumstances can become the answerer of the people's prayers, fulfiller of their needs and remover of their hardships ? There is a subtle relationship between Divinity and the knowledge of the unseen and hidden. Since the earliest times in whatever being has man imagined the presence of an attribute of Godhead, he has taken it for granted that it knows everything and nothing is hidden from it. In other words, it is self-evident for man to believe that making or marring the destinies, answering the prayers, fulfilling the needs and helping everyone in need of help, can be the work of the being who knows everything and from whom nothing is hidden. That is why whomever man has regarded as possessor of the powers and authority of Godhead he has necessarily regarded him as the knower of all hidden things as well. For his intellect testifies rightly that knowledge and authority are inter-dependent. Now if it is a fact that none but God is the Creator and the Designer and the Answerer of the prayers and the Providence, as has been proved in the foregoing verses, then it is also a self-evident reality that none but God is the Knower of the hidden things. After all, who in his senses could imagine that an angel or a jinn or a prophet or a saint or any other creature would be knowing where and what kinds of animals existed in the oceans and in the atmosphere and under the layers of the earth and upon its surface? And what is the correct number of the planets in the heavens? And what kinds of creatures exist in each of them? And where is each one of these creatures living and what are its requirements? All this should necessarily be known to Allah, because He has created them and He alone has to watch over their conditions and control their affairs and arrange for their sustenance. But how can some one else with his limited self have this vast and all-embracing knowledge and what has he to do with the functions of creation and sustenance that he should know these things? Then this quality is also not divisible in the sense that a person, for instance, may be the knower of everything on the earth, or the knower of everything concerning human beings only, on the earth. It is in the same way indivisible as are God's Creativity and His Providence and His Self-Subsistence indivisible. After all, how can it be possible for one to know all the affairs and all the conditions and states of alI human beings who have been born in the world since the beginning of creation, and will be born till Resurrection, from the time their mothers conceived them till the time they will breath their last ? And how and why will he know all this ? Is he the creator of these countless multitudes ? Did he create their seed in their fathers' sperm-drop ? Did he mould and shape them in their mother's womb? Did he arrange for their normal birth'? Did he make the destiny of each one of them? Is he responsible for taking decisions with regard to their life and death, their health and ill-health, their prosperity and adversity, and their rise and fall in the world ? And since when did he become responsible for it? Since before his own birth or since after it ? And how can these responsibilities remain confined only to human beings? This is only a part of the universal administration of the heavens and the earth. The Being Who is controlling the whole universe is the Being Who alone can be responsible for the creation and death of men, for restricting and extending their provisions and for making and marring their destinies. That is why it is a fundamental article of Islam that none other than Allah is the Knower of the hidden and unseen things. Allah may disclose whatever of His information He wills to whomsoever of His servants He pleases and bless him with the knowledge of one or more of the hidden things as a whole. Being the Knower of alI hidden and unseen things is the attribute only of AIlah, Who is the Lord of aII creation "He alone has the keys of the `unseen' of which none has the knowledge but He." (AI-An`am: 59) "Allah alone has the knowledge of the Hour: He alone sends down the rain and He alone knows what is (taking shape) in the wombs of the mothers. No living being knows what he will earn the next day, nor does anybody know in what land he will die." (Luqman 34) "He knows what is before the people and also what is hidden from them; and they cannot comprehend anything of His knowledge save whatever He Himself may please to reveal." (AlBaqarah: 255). The Qur'an does not rest content with this general and absolute negation of the knowledge of the hidden and unseen for the different forms of creation, but about the Prophets in particular, and the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) himself it clearly says that they do not possess the knowledge of the hidden and unseen, and that they were given only that much knowledge of the hidden by Allah as was necessary to enable them to carry out the duties of Prophethood. Surah Al-An`am.: 50, Al-A'raf: 187, At-Taubah: 101, Hud: 31, AlAhzab: 63, Al-Ahqaf: 9, At-Tahrim: 3 and Al-Jinn: 26-28 do not leave any room for doubt in this regard. All these elucidations of the Qur'an support and explain the verse under discussion after which there remains no doubt that looking upon another than AIlah as the knower of the hidden and unseen and believing that someone else also possesses the knowledge of all the past and future events, is an absolutely un-Islamic belief. Bukhari, Muslim, Tirmidhi, Nasa'i, Imam Ahmad, Ibn Jarir and Ibn Abu Hatim have cited this saying of Hadrat `A'ishah. through authentic reporters: "Whoever claimed that the Holy Prophet (peace be upon him) knew what was going to happen the next day, accused Allah of lying, for Allah says: O Prophet, say, `None in the heavens and the earth has the knowledge of the hidden and unseen but Allah'." Ibn al-Mundhir has reported this on the authority of 'Ikrimah, the well-known pupil of Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas: "A person asked the Holy Prophet: O Muhammad, when will Resurrection be? And our territory is suffering from famine: when will it rain ? And my wife is pregnant: what will she deliver, a boy or a girl? And I know what I have earned today; but what shall I earn tomorrow? And I know where I was born, but where shall I die?" In reply, the Holy Prophet recited verse 34 of Surah Luqman as cited above. Then the well-known Tradition as reported in Bukhari; and Muslim and other works of Hadith also supports the same. According to it one of the questions asked by Angel Gabriel from the Holy Prophet when he sat among the Companions in human shape before him, was: "When will Resurrection be?" The Holy Prophet replied: "The one being questioned knows no better than the one questioning." Then added, "This is one of those five things whose knowledge is possessed by none but AIIah," and then he recited the above-cited verse of Surah Luqman . 84 That is "Those others about whom it is thought that they possess the knowledge of the hidden and, therefore, are regarded as partners in Divinity, are themselves unaware of their future. They do not know when will Resurrection be when Allah will raise them up again.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 83 اوپر تخلیق ، تدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ تعالی کے الہ واحد ( یعنی اکیلے خدا اور اکیلے مستحق عبادت ) ہونے پر استدلال کی گیا تھا ۔ اب خدائی کی ایک اور اہم صفت ، یعنی علم کے لحاظ سے بتایا جارہا ہے کہ اس میں بھی اللہ تعالی لاشریک ہے ، آسمان و زمین میں جو بھی مخلوقات ہیں ، خواہ فرشتے ہوں یا جن یا انبیاء اور اولیاء یا دوسرے انسان اور غیر انسان ، سب کا علم محدود ہے ، سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے ۔ سب کچھ جاننے والا اگر کوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالی ہے جس سے اس کائنات کی کوئی چیز اور کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جو ماضی و حال اور مستقبل سب کو جانتا ہے ۔ غیب کے معنی مخفی ، پوشیدہ اور مستور کے ہیں ۔ اصطلاحا اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو معلوم نہ ہو ، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو ۔ دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو فردا فردا بعض انسانوں کے علم میں ہیں اور بعض کے علم میں نہیں ہیں ، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بحیثیت مجموعی پوری نوع انسانی کے علم میں نہ کبھی تھیں نہ آج ہیں نہ آئندہ کبھی آئیں گی ، ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں اور دوسری مخلوقات کا ہے کہ بعض چیزیں ان میں سے کسی سے مخفی اور کسی کو معلوم نہیں ، اور بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو ان سب سے مخفی ہیں اور کسی کو بھی معلوم نہیں ۔ یہ تمام اقسام کے غیب صرف ایک ذات پر روشن ہیں اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے اس کے لیے کوئی چیز غیب نہیں ، سب شہادت ہی شہادت ہے ۔ اس حقیقت کو بیان کرنے میں سوال کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو اوپر تخلیق و تدبیر کائنات اور رزاقی کے بیان میں اختیار کیا گیا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صفات کے آثار تو بالکل نمایاں ہیں جنہیں ہر شخص دیکھ رہا ہے ، اور ان کے بارے میں کفار و مشرکین تک یہ مانتے تھے اور مانتے ہیں کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں ، اس لیے وہاں طرز استدلال ءیہ تھا کہ جب یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں اور کوئی ان میں اس کا شریک نہیں ہے تو پھر خدائی میں تم نے دوسروں کو کیسے شریک بنالیا اور عبادت کے مستحق وہ کس بنا پر ہوگئے؟ لیکن علم کی صفت اپنے اپنے کوئی محسوس آثار نہیں رکھتی جن کی طرف اشارہ کیا جاسکے ۔ یہ معاملہ صرف غور و فکر ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اس لیے اس کو سوال کے بجائے دعوے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے ، اب یہ ہر صاحب عقل کا کام ہے کہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام ان احوال اور اشیاء اور حقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں ، یا اب ہیں ، یا آئندہ ہوں گی ، اور اگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا تو پھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریاد رس اور حاجت روا اور مشکل کشا ہوسکے؟ الوہیت اور علم غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان نے جس ہستی میں بھی خدائی کے کسی شائبے کا گمان کیا ہے اس کے متعلق یہ خیال ضرور کیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہے اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ گویا انسان کا ذہن اس حقیقت سے بالکل بدیہی طور پر آگاہ ہے کہ قسمتوں کا بنانا اور بگاڑنا ، دعاؤں کا سننا ، حاجتیں پوری کرنا اور ہر طالب امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اسی ہستی کا کام ہوسکتا ہے جو سب کچھ جانتی ہو اور جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو ، اسی بنا پر تو انسان جس کو بھی خدائی اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اسے لازما عالم الغیب بھی سمجھتا ہے ، کیونکہ اس کی عقل بلا ریب شہادت دیتی ہے کہ علم اور اختیارات باہم لازم و ملزوم ہیں ۔ اب اگر یہ ھقیقت ہے کہ خالق اور مدبر اور مجیب الدعوات اور رازق خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے جیسا کہ اوپر کی آیات میں ثابت کیا گیا ہے تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ، آخر کون اپنے ہوش و حواس میں یہ تصور کرسکتا ہے کہ کسی فرشتے یا جن یا نبی یا ولی کو ، یا کسی مخلوق کو بھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میں اور ہوا میں اور زمین کی تہوں میں اور سطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اور عالم بالا کے بے حدو حساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟ اور ان مخلوقات کا ایک ایک فرد کہاں ہے اور کیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کو تو لازما معلوم ہونا چاہیے ۔ کیونکہ اس نے انہیں پیدا کیا ہے ، اور اسی کو ان کے معاملات کی تدبیر اور ان کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے اور وہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے ، لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود وجود میں یہ وسیع و محیط علم رکھ کیسے سکتا ہے اور اس کا کیا تعلق اس کار خلاقی و رزاقی سے کہ وہ ان چیزوں کو جانے؟ پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بندہ مثلا صرف زمین کی حد تک اور زمین میں بھی صرف انسانوں کی حد تک عالم الغیب ہو ، یہ اسی طرح قابل تجزیہ نہیں ہے جس طرح خدا کی خلاقی و رزاقی اور قیومی و پروردگاری قابل تجزیہ نہیں ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور قیامت تک پیدا ہوں گے ، رحم مادر میں استقرار کے وقت سے آخری ساعت حیات تک ان سب کے تمام حالات و کیفیات کو جاننا آخر کس بندے کا کام ہوسکتا ہے؟ اور وہ کیسے اور کیوں اس کو جانے گا ؟ کیا وہ اس بے حدو حساب خلقت کا خالق ہے؟ کیا اس نے ان کے باپوں کے نطفے میں ان کے جرثومے کو وجود بخشا تھا ؟ کیا اس نے ان کی ماؤں کے رحم میں ان کی صورت گری کی تھی؟ کیا اس نے ان کی زندہ ولادت کا انتظام کیا تھا ؟ کیا اس نے ان میں سے ایک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی؟ کیا وہ ان کی موت اور حیات ان کی صحت اور مرض ، ان کی خوشحالی اور بدحالی اور ان کے عروج اور زوال کے فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہے؟ اور آخر یہ کام کب سے اس کے ذمے ہوا ؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے اس کے بعد؟ اور صرف انسانوں کی حد تک یہ ذمہ داریاں محدود کیسے ہوسکتی ہیں؟ یہ کام تو لازما زمین اور آسمانوں کے عالمگیر انتظام کا ایک جز ہے ، جو ہستی ساری کائنات کی تدبیر کررہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش و موت اور ان کے رزق کی تنگی و کشادگی اور ان کی قسمتوں کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ دار ہوسکتی ہے ۔ اسی بنا پر یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالی کے سوا کو٤ی دوسرا نہیں ہے ، اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اور جس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے ، اور کسی غیب یا بعض غیوب کو اس پر روشن کردے ، لیکن علم غیب بحیثیت مجموعی کسی کو نصیب نہیں اور عالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ رب العالمین کے لیے مخصوص ہے ۔ وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ، انہیں کوئی نہیں جانتا اس کے سوا ( الانعام ، آیت 59 ) اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۔ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی بارش نازل کرنے والا ہے ، اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم میں کیا ( پرورش پارہا ) ہے اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا ، اور کسی متنفس کو خبر نہیں ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آئے گی ۔ ( لقمان ، آیت 34 ) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے ، اور اس کے علم میں سے کسی چیز پر بھی وہ احاطہ نہیں کرسکتے الا یہ کہ وہ جس چیز کا چاہے انہیں علم دے ۔ ( البقرہ ، آیت 255 ) قرآن مجید مخلوقات کے لیے علم غیب کی اس عام اور مطلق نفی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ خاص طور پر انبیاء علیہم السلام اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس امر کی صاف صاف تصریح کرتا ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں اور ان کو غیب کا صرف اتنا علم اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا ہے جو رسالت کی خدمت انجام دینے کے لیے درکار تھا ۔ سورہ انعام کی آیت 50 ، الاعراف آیت 187 ، التوبہ آیت 101 ، ہود آیت 31 ، احزاب آیت 63 ، الاحقاف آیت9 ، التحریم آیت 3 ، اور الجن آیات 26 تا 28 ، اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں چھوڑتیں ۔ قرآن کی یہ تمام تصریحات زیر بحث آیت کی تائید و تشریح کرتی ہیں جن کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ تعالی کے سوا کسی کو عالم الغیب سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بھی جمیع ماکان وما یکون کا علم رکھتا ہے ، قطعا ایک غٰر اسلامی عقیدہ ہے ۔ شیخین ، ترمذی ، نسائی ، امام احمد ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے صحیح سندوں کے ساتھ حضرت عائشہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ من زعم انہ رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلم ما یکون فی غد فقد اعظم علی اللہ الفریۃ واللہ یقول قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ ۔ یعنی جس نے یہ دعوی کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پر سخت جھوٹ کا الزام لگایا ، کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے اے نبی تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہے ۔ ابن المنذر حضرت عبداللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے محمد ، قیامت کب آئے گی؟ اور ہمارے علاقے میں قحط برپا ہے ، بارش کب ہوگی؟ اور میری بیوی حاملہ ہے ، وہ لڑکا جنے گی یا لڑکی؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے ، کل میں کیا کماؤں گا ؟ اور یہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیدا ہوا ہوں ، مروں گا کہاں؟ ان سوالات کے جواب میں سورہ لقمان کی وہ آیت حضور نے سنائی جو اوپر نقل کی ہے ۔ ان اللہ عندہ علم الساعۃ ۔ پھر بخاری و مسلم اور دوسری کتب حدیث کی وہ مشہور رواویت بھی اسی کی تائید کرتی ہے جس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبریل نے انسانی شکل میں آکر حضور سے جو سوالات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضور نے جواب دیا ما المسئول عنھا باعلم من السائل ۔ ( جس سے پوچھا جارہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا ) ۔ پھر فرمایا یہ ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور یہی مذکورہ بالا آیت حضور نے تلاوت فرمائی ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 84 یعنی دوسرے جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں ، اور اسی بنا پر جن کو تم لوگوں نے خدائی میں شریک ٹھہرا لیا ہے ، ان بیچاروں کو تو خود اپنے مستقبل کی بھی خبر نہیں ، وہ نہیں جانتے کہ کب قیامت کی وہ گھڑی آئے گی جب اللہ تعالی ان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

32: ﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو غیب کی بہت سی باتیں وحی کے ذریعے بتادیتے ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ غیب کی خبریں حضور سرورِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا فرمائی گئی تھیں، لیکن مکمل علمِ غیب اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اِس لئے اُس کے سوا کسی کو ’’عالم الغیب‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:65) قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ : ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ لایعلم مضارع منفی واحد مذکر غائب من۔ لایعلم کا فاعل فی السموت والارض فاعل کی صفت الغیب لایعلم کا مفعول۔ الا حرف استثناء منقطع۔ اللہ مستثنیٰ ۔ آسمانوں اور زمین میں جو (بھی مخلوق) ہے کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے۔ یشعرون۔ مضارع جمع مذکر غائب ضمیر جمع کفار و مشرکین کی طرف راجع ہے یعنی کفار و مشرکین نہیں جانتے۔ ان کو علم نہیں۔ شعور مصدر (باب نصر) ۔ ایان : ای اوان ہے اوان کے الف اول کو حذف کر کے واؤ کو یاء کیا گیا۔ پھر یاء کو ای کی یاء میں مدغم کیا گیا۔ ایان ہوگیا۔ کب ، کس وقت۔ یبعثون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ بعث مصدر (باب فتح) وہ (زندہ کرکے دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان تھا۔ اب یہاں اس کے علم محیط کا بیان ہے۔ یہ بات کہ کسی کو علم غیب نہیں بجز خدا کے۔ قرآن کی متعدد آیات میں بیان ہوتی ہے۔ سورة انعام :59 میں گزر چکا ہے کہ ” غیب کی کنجیاں “ اللہ ہی کے پاس ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جس نے گمان کیا کہ وہ (یعنی نبی ﷺ) کل ہونیوالی بات کو جانتے ہیں اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا بہتان باندھا کیونکہ اللہ فرماتا ہے۔ قل لا یعلم من… (ابن کثیر بحوالہ صحیحین)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تو بےبتلائے سب معلوم ہے، اور کسی کو بےبتلائے کچھ بھی معلوم نہیں، مگر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے امور جن کا پہلے سے علم نہیں ہوتا واقع ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوتا کہ عدم علم عدم وقوع کو مستلزم نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بعض علوم کا غیب رکھنا منظور ہے، سو قیامت کی تعین بھی ان ہی امور میں سے ہے، اسی لئے مخلوق کو اس کا علم نہیں دیا گیا، مگر اس سے عدم وقوع کیسے لازم آگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توحید کے دلائل کا تسلسل۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر چیز کا خالق اور رازق ہے بلکہ وہ اپنی مخلوق کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے یہ حقیقت سچائی کی انتہا کو پہنچ چکی اور اس کے خلاف کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہیں ہے جس بناء پر ہر دور کا مشرک یہ حقائق تسلیم کرتا رہا اور کرتا رہے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے سوا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا، آسمان سے بارش اتارنے والا، بارش سے نباتات اگانے والا، زمین کو ٹھہرانے اور جمانے والا، زمین میں نہریں جاری کرنے والا، زمین پر مضبوط پہاڑ ٹھہرانے والا، دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کرنے والا، معذور اور مجبور کی دعا میں قبول فرمانے والا، بیماری اور مصیبت کو دور کرنے والا، لوگوں کو دوسرے کا جانشین بنانے والا، بحر و بر میں مسافروں کی رہنمائی کرنے والا، بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا، مخلوق کو فی البدیع پیدا کرنے والا ‘ موت کے بعد اپنی طرف لوٹانے والا اور ذی روح کو رزق دینے والا۔ ایک ” اللہ “ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح زمین و آسمان کے غیب کو جاننے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ تو پھر کسی زندہ یا مردہ بزرگ کو اس کی خدائی میں شریک کرنے کا کیا معنٰی ؟ مشرک جن کو داتا، حاجت روا اور مشکل کشاء، دستگیر، غریب نواز کہتے ہیں ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ انھیں کب اٹھایا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والوں کا علم ختم ہوچکا ہے یعنی ان کے پاس علم ہے ہی نہیں۔ حقیقت ہے کہ مشرک آخرت کا منکر ہوتا اگر اسے یقین ہو کہ قیامت کو اس سے شرک کے بارے میں سوال ہوگا تو کبھی شرک نہ کرے، مگر اس کے باوجود آخرت کے منکر شک میں مبتلا ہیں جس بنا پر قیامت پر یقین کرنے کے بارے میں اندھے ہوچکے ہیں۔ جنہیں ” اللہ “ کے سوا یا اس کے ساتھ پکارتے ہیں انھیں علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے ؟ اللہ کے ہاں یہ درست نہیں کہ وہ ہر کسی کو اپنی تقدیر یعنی امور غائب سے مطلع کرتا رہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بھید پانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی اطلاع کے لیے پیغمبروں کو منتخب کر رکھا ہے۔ ان میں بھی جس پیغمبر کو جتنا چاہا امور غیب سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اگر کافر اور منافق بھی اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں تو مخلص ایمانداروں کی طرح یہ بھی اجر عظیم پائیں گے۔ بعض لوگ پیروں ‘ فقیروں اور علماء کے حوالے سے ایسے واقعات لکھتے اور بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ بھی غیب کے واقعات جانتے تھے۔ یہاں دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے ان کے بھی درجنوں واقعات ہیں کہ وہ غیب کا علم نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کرام خود تو غیب کا علم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں عطائی علم غیب ضرور تھا۔ عطائی کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا اور عطا کردہ علم۔ علم غیب کی یہ تعریف بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انبیاء یا کسی کو کوئی بات بتلا دے تو وہ غیب کس طرح رہا۔ یہ بات علم غیب کی تعریف میں نہیں آتی اس لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کئی بار یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ از خود یہ اعلان فرمائیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ مسائل ١۔ زمینوں، آسمانوں کا غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ مدفون بزرگوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ٣۔ عقیدۂ توحید اور آخرت کے بارے میں مشرک اندھے پن کا ثبوت دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کا علم کوئی نہیں جانتا : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود : ٣١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود : ٦٩) ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود : ٧٧) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٦۔ آپ فرما دیں کہ غیب کا علم اللہ ہی کو ہے۔ (یونس : ٢٠) ٧۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٨۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( الانعام : ٥٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل لا یعلم من فی السموت ۔۔۔۔۔۔ ایان یبعثون (65) بل ادرک علمھم ۔۔۔۔۔ بل ھم منھا عمون (66) (27: 65- 66) “۔ ابتدائے تخلیق سے انسان کو اس خفیہ غیب کا سامنا ہے۔ انسانی علم ایک حد سے آگے نہیں جاسکتا ۔ غیب کے آگے جو پردے لٹک رہے ہیں ان سے وہ آگے نہیں جھانک سکتا۔ یہ مغیبات میں سے صرف اسی قدر علم حاصل کرسکتا ہے جس قدر اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیتا ہے اور انسان کے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ اللہ نے اسے مستقبل کے علوم غیبیہ سے محروم رکھا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس میں انسان کے لیے کوئی خیر دیکھتا تو وہ ضرور اسے عالم غیب کے بارے میں پورا علم عطا کردیتا۔ اللہ نے انسان کو اس قدر قوت اور استعداد دی ہے جس نے ذریعے وہ اس دنیا میں اپنے فرائض بحیثیت خلیفہ اللہ فی الارض پورے کرسکے۔ یہ فرائض کوئی معمولی فرائض نہیں دیں۔ اس سے آگے اللہ نے انسان کو مزید غیبی قوتیں نہیں دیں ۔ اگر انسان کو ایسی قوت دے دی جاتی جس کے ذریعہ وہ مستقبل کے پردوں کو چاک کرکے معلومات حاصل کرسکتا تو اس کے ذریعہ اس کی ان قوتوں میں کوئی اضافہ ممکن نہ تھا۔ جن کے ذریعہ وہ یہاں بطور خلیفہ کام کر رہا ہے۔ بلکہ واقعات مستقطل کے سامنے پردوں کا نصب کرنا ہی دراصل اس شوق علم کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ یوں وہ اپنے طور پر غیوب مستقبل کے لیے نقب زنی کرنے اور کھوج لگانے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ زمین کے اندر پوشیدہ رازوں کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ سمندر کے سینے کو چیرتا ہے۔ وہ آسمان کی فضاؤں میں دور تک دوڑتا ہے۔ وہ اس کائنات کے پوشیدہ رازوں کا انکشاف کرتا ہے۔ اور انسانوں کے لیے بھلائی کے جو راز ہیں ، ان کو وہ دریافت کرتا رہتا ہے۔ وہ زمین سے مواد اور عناصر کی تحلیل کرتا ہے۔ اس کی ترکیب اور شکل و صورت میں کیمیاوی عمل کرتا ہے اور زندگی کی انواع و اقسام اور طرز و طریقوں میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ اور اس طرح اس زمین کی تعمیر و ترقی میں نہایت ہی اہم کردار ادا کررہا ہے اور جن ذمہ داریوں کے ساتھ اللہ نے انسان کو منصب خلافت دیا تھا انہیں پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہا ہے صرف انسان ہی کو علوم غیبہ سے محروم نہیں کیا گیا۔ زمین و آسمان میں جس قدر مخلوق بھی ہے اسے محروم کیا گیا ہے ، خواہ ملائکہ ہیں یا جن ہیں یا دوسری کوئی مخلوق ہے جو اللہ کے علم میں ہے۔ ان سب کو علم غیب نہیں دیا گیا اس لیے کہ ان کو اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس لیے تمام غیبی علوم اور واقع ہونے والے حوادث کا علم صرف اللہ کو ہے۔ قل لا یعلم ۔۔۔۔۔ الا اللہ (27: 65) ” کہو ، آسمان اور زمین میں کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا ، اللہ کے سوا “ یہ ایک قطعی نص ہے ، اور اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص علم غیب کا دعویٰ نہیں کرسکتا اور نہ اس سلسلے میں اوہان و خرافات پر یقین کرنے کی کوئی گنجائش رہتی ہے۔ غیب کی عمومی نفی کے بعد اب قیام قیامت کی خصوصی نفی کی جاتی ہے۔ کیونکہ عقیدہ توحید کے بعد اہل شرک کے ساتھ مسلمانوں کا بڑا نزاع یہی تھا۔ وما یشعرون ایان یبعثون (27: 65) ” اور وہ تو نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے “۔ یعنی وہ لوگ جن کی پوجا تم کرتے ہو ، ان کو تو قیامت کا شعور تک نہیں ہے۔ جب ان کو قیامت کا شعور ہی نہیں تو علم کیسے ہوگا تو قیام قیامت ان مغیبات مکیں سے ہے جن کا علم زمین و آسمان میں کسی کو نہیں ہے بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ہی بہت محدود ہے بل ادرک علمھم فی الاخرۃ (27: 66) ” بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان سے گم ہوگیا ہے “۔ یہ اپنے حدود میں بہت دور چلا گیا ہے اور لوگوں کا اس تک پہنچنا دور رہ گیا ہے۔ اور اس کے اور ان کے درمیان پردے حائل ہوگئے ہیں۔ بل ھم فی شک منھا (27: 66) ” بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں “۔ ان لوگوں کو اس قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ان کو اس کے آنے کے وقت کا کوئی علم ہو یا اسکے وقوع کے بارے میں وہ انتظار کر رہے ہیں بل ھم فی شک منھا (27: 66) ” بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں “۔ ان لوگوں کو اس قیامت کے آنے کا یقین نہیں ہے۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ان کو اسکے آنے کے وقت کا کوئی علم ہو یا اس کے وقوع کے بارے میں وہ انتظار کر رہے ہیں بل ھم منھا عمون (27: 66) ” بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں “۔ یعنی وہ تو اس کے بارے میں اندھے ہیں۔ قیامت کے حوالے سے ان کو کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ نہ اس کی نوعیت کے بارے میں وہ کچھ یاد کریں گے۔ ان کی یہ دوری پہلی اور دوسری دوری سے بھی زیادہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ) (آپ فرما دیجیے کہ آسمانوں میں اور زمین میں جتنی بھی مخلوق ہے ان میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا صرف اللہ ہی غیب کو جانتا ہے) اس میں منکرین قیامت کی تردید ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ بتا دیجیے قیامت کب آئے گی، یہ بات کہنے سے ان لوگوں کا مقصود و قوع قیامت کی نفی کرنا تھا، ارشاد فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی مخلوق ہے ان میں سے کوئی غیب کو نہیں جانتا غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس نے مجھے معین کر کے وقوع قیامت کا وقت نہیں بتایا لہٰذا میں اپنے پاس سے نہیں بتاسکتا لیکن مجھے اور تمہیں اس کا وقت معلوم نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ قیامت نہیں آئے گی (وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ) (اور اس کا علم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے) (بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍ مِّنْھَا) (بلکہ وہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں) ۔ (بَلْ ھُمْ مِّنْھَا عَمُوْنَ ) مطلب یہ ہے کہ جیسے اندھے کو راستہ نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ سے وہ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا اس طرح یہ لوگ عناد کی وجہ سے دلائل صحیحہ میں غور و تامل نہیں کرتے جو وضوح حق کا راستہ ہے اس سے انہیں عناد ہے اور شک والے سے بڑھ کر گمراہی میں مبتلا ہیں کیونکہ شک والا آدمی کبھی دلائل میں نظر کرتا ہے تو اس کا شک ختم ہوجاتا ہے اور یہ لوگ قصداً و ارادۃً دلائل میں غور ہی نہیں کرتے تفکر اور تامل سے دور بھاگتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ یہ پہلے دونوں قصوں کا ثمرہ ہے اور لف و نشر غیر مرتب کے طور پر پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ من فی السموات، فرشتے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ارواح انبیاء علیہم السلام، والارض یعنی انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا نہ آسمان والے نہ زمین والے بلکہ ان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ حشر و نشر کب ہوگا۔ جب اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں تو اس کے سوا برکات دہندہ بھی کوئی نہیں۔ یعنی ان من فی السموت وھم الملائکۃ و من فی الارض وھم بنو ادم لا یعلمون متی یبعثون واللہ تعالیٰ تفرد بعلم ذلک (خازن ج 5 ص 128) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(65) آپ کہہ دیجئے جس قدر مخلوقات آسمانوں میں اور زمین میں موجود ہے کوئی بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے غیب کی بات نہیں جانتا اور ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے پہلی آیتوں میں توحید و رسالت کی بحث تھی اب قیامت کا ذکر فرمایا جو عقائد میں اہم عقیدہ ہے مطلب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو قیامت کا وقت معین نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو قیامت کے وقت کا علم نہیں دیا گیا تو قیامتہی پر کیا موقوف ہے آسمان و زمین میں جس قدر مغیبات ہیں ان کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں اور مخلوقات کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ مرنے کے بعد کب اٹھائے جائیں گے یا اس آیت کا تعلق بھی توحید کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ معبود وہی ہوسکتا ہے جو قدرت کاملہ کے ساتھ علم بھی کامل اور محیط رکھتا ہو اور یہ وہ صفت ہے جو زمین و آسمان کی مخلوق میں نہیں پائی جاتی اور کسی کو یہ صفت حاصل نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ہی عبادت اور معبودیت کا مستحق ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا لائق پرستش نہیں۔