Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 69

سورة النمل

قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۶۹﴾

Say, [O Muhammad], "Travel through the land and observe how was the end of the criminals."

کہہ دیجئے کہ زمین میں چل پھر کر ذرا دیکھو تو سہی کہ گنہگاروں کا کیسا انجام ہوا ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ ... Say (`O Muhammad, to these people,') ... سِيرُوا فِي الاَْرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ Travel in the land and see how has been the end of the criminals. meaning, those who denied the Messengers and their message of the Resurrection and other matters. See how the punishment and vengeance of Allah struck them and how Allah saved from among them the noble Messengers and the believers who followed them. This will be an indication of the truth of the Message brought by the Messengers. Then, to comfort the Prophet, Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1 یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا ؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقینا سچ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] ان دو آیات میں کافروں کا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ مر کر مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ تو ہمارے آباء و اجداد کو بھی دیا گیا تھا پہلے لوگ بھی ایسی باتیں کرتے رہے اور آج بھی ایسی ہی باتیں ہو رہی ہیں حالانکہ جو مرگیا ان میں کوئی شخص بھی آج تک زندہ ہو کر نہیں آیا۔ یہ تو بس ایک افسانوی سی بات ہے جس میں حیقیقت کچھ نہیں۔ اور کافروں کے اس قول کا جواب یہ دیا جارہا ہے کہ زمین میں ذرا چل پھر کر تو دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا تھا ؟ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے اس قول اور اس کے جواب میں کوئی ربط نہیں۔ حالانکہ اس قول اور اس کے جواب میں گہرا ربط ہے اور ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو قومیں بھی اللہ کے عذاب سے تباہ ہوئیں سب کی سب قیامت اور بعث بعد الموت کی منکر تھیں۔ اور جو شخص یا جو قوم بھی آخرت کے دن اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کی باز پرس کی منکر ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کبھی راہ راست پر نہیں رہ سکتی۔ اور وہ دنیا میں شتر بےمہار کی طرح زندگی گزارتا ہے کہ جس کام میں اس نے اپنا فائدہ دیکھا اسی کو اپنا لیا۔ خواہ اس سے دوسروں کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔ ایسے ہی لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہو کر مجرمانہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ایسے مجرموں کو تباہ کردینا ہی اللہ کی سنت جاریہ ہے تاکہ باقی لوگ ایسے لوگ کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ دوسرا سبق ان واقعات سے یہ ملتا ہے کہ تاریخ انسانی میں یہ کوئی ایک ہی واقعہ نہیں۔ بلکہ بیشمار تاریخی شواہد سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ رسولوں کا انکار اور آخرت کا انکار کرنے والے مجرموں کا انجام ان کی تباہی اور ہلاکت کی صورت میں ہوا۔ جس سے از خود ایک اور حقیقت سامنے آتی ہے جو یہ ہے کہ کوئی ایسی مقتدر ہستی موجود ہے جو مجرموں کو ایک مقررہ حد سے آگے نکلنے سے روک دیتی ہے اور انھیں تباہ کردیتی ہے۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں کہ جس شخص کا جو جی چاہے کرتا پھرے اور اس پر گرفت کرنے والا کوئی نہ ہو۔ پھر جب یہ تجربہ حاصل ہوگیا کہ مجرمین کو ان کے کئے کی سزا مل کے رہتی ہے۔ تو اسی قانون مکافات کا تقاضا یہ ہے کہ جن مجرموں کو اس دنیا میں سزا نہیں ملی یا ان کے جرم سے بہت کم سزا ملی ہے ان سے باز پرس اور ان کی سزا کے لئے ایک دوسرا عالم قائم ہو۔ جس میں تمام مجرموں کو ان کے جرائم کی پوری پوری سزا دی جائے۔ مجرموں کو عذاب سے تباہ کردینا عدل سے سب تقاضے پورے نہیں کرتا۔ اس سے تو صرف یہ ہوتا ہے کہ مجرموں کو زائد جرائم کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ان کے جرائم کی سزا کے لئے تو یہ دنیا کی زندگی بہت ناکافی ہے۔ اسی طرح جن مظلوموں نے ان مجرموں کے مظالم برداشت کئے تھے۔ ان کی ہلاکت سے ان کو کیا ملا ؟ آخر ان لوگوں نے راہ حق میں جو مظالم و مصائب برداشت کئے ہیں۔ اس کا اجر بھی تو انھیں ملنا چاہئے۔ ان باتوں پر غور کرنے سے واضح طور ہر معلوم ہوجتا ہے کہ عدل و اصناف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آخرت کا قیام انتہائی ضروری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : یہ کفار کے اعتراض کا جواب ہے کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو مجرموں کا انجام کیا ہوا، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبروں نے ان نافرمانوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہو کر رہا اور پیغمبروں کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہوئی۔ اب جو ان پیغمبروں نے کہا ہے کہ ایک دن قیامت ضرور آئے گی اور اس میں لوگوں کو ان کے نیک اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے گی تو ان کی یہ بات بھی جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ : قیامت کے منکروں کو مجرم قرار دیا گیا ہے، کیونکہ انسان کو جرم اور ظلم و زیادتی سے روکنے والی چیز صرف اور صرف آخرت کا یقین ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی کو مجرم بننے سے کوئی چیز باز رکھ سکتی ہی نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ جب قیامت کے منکروں کے جرائم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو اس کا زبردست ہاتھ انھیں تباہ و برباد کر کے دنیا کو ان کے وجود اور ان کے جرائم سے نجات دیتا ہے، مگر ان کے جرائم کا پورا بدلا تو انھیں آخرت ہی میں دیا جائے گا۔ دنیا میں اگر کوئی بچ بھی گیا تو آخرت میں بچ کر کہاں جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِيْنَ۝ ٦٩ سير السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٩۔ ٧٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا اور اگر یہ ایمان نہیں لاتے یا یہ کہ یہ لوگ ہلاک ہوجائیں تو ان پر غم نہ کیجیے اور جو کچھ یہ شرارتیں اور بکواس کر رہے ہیں آپ اس سے تنگ نہ ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86 This brief sentence contains two strong arguments for the Hereafter as well as admonition: Firstly, those communities who rejected the Hereafter could not help becoming criminals: they lived irresponsibly; they committed cruelties and all kinds of sin; and ultimately their moral depravity led them to utter ruin. This continuous experience of human history which is testified by the doomed communities all over the world, clearly shows that belief and unbelief in the Hereafter has a deep relationship with the soundness or the unsoundness of human behaviour. Belief in it generates sound behaviour and denial of it unsound behaviour. This is a clear proof of the fact that belief in it is in accordance with the reality; that is why belief helps life to follow the right path. And rejection of it is against the reality; that is why rejection leads life into crooked alleys. Secondly, the destruction of the communities, which became criminals, one after the other, in the long experience of history is a clear pointer to the fact that this universe is not being ruled by the deaf and blind and senseless forces, but this is a wise system which is functioning according to the unalterable law of retribution, which is dealing with the human communities only on moral grounds, in which no community is given long enough rope to commit whatever evil it likes and continue to enjoy life and commit injustices after it has once risen to power and prosperity. But when a wicked community happens to reach a certain stage, a mighty hand topples it from power and hurls it into the abyss of ignominy. Anyone who realizes this fact can have no doubt that the same law of retribution calls for the establishment of a new world after this world, where all individuals and nations and the whole mankind collectively should be rewarded and punished for their deeds. For the requirements of justice cannot be fulfilled only by the destruction of a wicked nation; this dces not in any way redress the grievances of the oppressed people; this does not punish those who had enjoyed life and left the world before the coming down of the scourge; this dces not also take to task those wicked people who went on leaving behind them legacies of immoralities and deviations for the coming generations. The torment that visited the nation only put a stop to the further tyrannies of its last generation. The court has not yet started working, to punish every wicked person for the evil done, to compensate every oppressed person for the losses incurred, and to reward all those who stood by the right against the onslaught of evil, endeavoured to reform things and faced persecutions in this way throughout their lives. All this should necessarily happen at some time. For the continuous operation in the world of the law of retribution clearly points to the temperament and technique of the ruling government of the universe that it judges human deeds by moral standards and punishes and rewards them accordingly. Besides these two arguments, the aspect of admonition in this verse is: "Learn lessons from the fate of the guilty people of the past, and do not persist in the foolish belief of the denial of the Hereafter, which, in fact, was responsible for making them criminals. "

سورة النمل حاشیہ نمبر : 86 اس مختصر سے فقرے میں آخرت کی دو زبردست دلیلیں بھی ہیں اور نصیحت بھی ۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے بھی آخرت کو نظر انداز کیا ہے وہ مجرم بنے بغیر نہیں رہ سکی ہیں ، وہ غیر ذمہ دار بن کر رہیں ، انہوں نے ظلم و ستم ڈھائے ، وہ فسق و فجور میں غرق ہوگئیں ، اور اخلاق کی تباہی نے آخر کار ان کو برباد کرکے چھوڑا ۔ یہ تاریخ انسانی کا مسلسل تجربہ ، جس پر زمین میں ہر طرف تباہ شدہ قوموں کے آثار شہادت دے رہے ہیں ، صاف ظاہر کرتا ہے کہ آخرت کے ماننے اور نہ ماننے کا نہایت گہرا تعلق انسانی رویے کی صحت اور عدم صحت سے ہے ، اس کو مانا جائے تو رویہ درست رہتا ہے ، نہ مانا جائے تو رویہ غلط ہوجاتا ہے ، یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اس کا ماننا حقیقت کے مطابق ہے ، اسی لیے اس کے ماننے سے انسانی زندگی ٹھیک ڈگر پر چلتی ہے ، اور اس کا نہ ماننا حقیقت کے خلاف ہے ، اسی وجہ سے یہ گاڑی پٹڑی سے اتر جاتی ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل تجربے میں مجرم بن جانے والی قوموں کا مسلسل تباہ ہونا اس حقیقت پر صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ کائنات بے شعور طاقتوں کی اندھی بہری فرمانروائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حکیمانہ نظام ہے جس کے اندر ایک اٹل قانون مکافات کام کر رہا ہے ۔ جس کی حکومت انسانی قوموں کے ساتھ سراسر اخلاقی بنیادوں پر معاملہ کر رہی ہے ، جس میں کسی قوم کو بدکرداریوں کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ ایک دفعہ عروج پا جانے کے بعد وہ ابدالآباد تک داد عیش دیتی رہے اور ظلم و ستم کے ڈنکے بجائے چلی جائے ۔ بلکہ ایک خاص حد کو پہنچ کر ایک زبردست ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور اس کو بام عروج سے گرا کر قعر مذلت میں پھینک دیتا ہے ، اس حقیقت کو جو شخص سمجھ لے وہ کبھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ یہی قانون مکافات اس دنیوی زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم کا تقاضا کرتا ہے جہاں افراد کا اور قوموں کا اور بحیثیت مجموعہ پوری نوع انسانی کا انصاف چکایا جائے ۔ کیونکہ محض ایک ظالم قوم کے تباہ ہوجانے سے تو انصاف کے سارے تقاضے پورے نہیں ہوگئے ، اس سے ان مظلوموں کی تو کوئی دادرسی نہیں ہوئی جن کی لاشوں پر انہوں نے اپنی عظمت کا قصر بنایا تھا ، اس سے ان ظالموں کو تو کوئی سزا نہیں ملی جو تباہی کے آنے سے پہلے مزے اڑا کر جاچکے تھے ، اس سے ان بدکاروں پر بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوا جو پشت درپشت اپنے بعد آنے والی نسلوں کے لیے گمراہیوں اور بد اخلاقیوں کی میراث چھوڑتے چلے گئے تھے ، دنیا میں عذاب بھیج کر تو صرف ان کی آخری نسل کے مزید ظلم کا سلسلہ توڑ دیا گیا ۔ ابھی عدالت کا اصل کام تو ہوا ہی نہیں کہ ہر ظالم کو اس کے کیے کا بدلہ دیا جائے اور ہر مظلوم کے نقصان کی تلافی کی جائے ، اور ان سب لوگوں کو انعام دیا جائے جو بدی کے اس طوفان میں راستی پر قائم اور اصلاح کے لیے کوشاں رہے اور عمر بھر اس راہ میں اذیتیں سہتے رہے ۔ یہ سب لازما کسی وقت ہونا چاہءے ، کیونکہ دنیا میں قانون مکافات کی مسلسل کار فرمائی کائنات کی فرمانروا حکومت کا یہ مزاج اور طریقہ کار صاف بتا رہی ہے کہ وہ انسانی اعمال کو ان کی اخلاقی قدر کے لحاظ سے تولتی اور ان کی جزا و سزا دیتی ہے ۔ ان دو دلیلوں کے ساتھ اس آیت میں نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ پچھلے مجرموں کا انجام دیکھ کر اس سے سبق لو اور انکار آخرت کے اسی احمقانہ عقیدے پر اصرار نہ کیے چلے جاؤ جس نے انہیں مجرم بنا کر چھوڑا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:69) سیروا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم سیر کرو۔ تم چلو۔ تم پھرو۔ سیر مصدر (باب ضرب) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی یہ دیکھو کہ جس عذاب کا پیغمبروں ( علیہ السلام) نے ان نافرمانوں سے وعدہ کیا تھا وہ نازل ہو کر رہا اور پیغمبروں ( علیہ السلام) کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہوئی۔ اب جو ان پیغمبروں ( علیہ السلام) نے کہا ہے کہ ایک دن قیامت ضرور آئے گی اور اس میں لوگوں کو اپنے نیک اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے گی تو ان کی یہ بات بھی جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل سیروا فی الارض ۔۔۔۔۔ المجرمین (27: 69) ” “۔ یہاں ، اس ہدایت ، سیر فی الارض کے ذریعہ ان کی سوچ کے حدود کو وسیع کیا جاتا ہے۔ کیونکہ انسانیت کی کوئی سوسائٹی بھی سجرہ انسانیت سے مقطوع نہیں ہوتی۔ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو سنن رکھے ہیں وہ سب کے لیے اٹل ہیں۔ اس سے قبل انسانی سوسائٹیوں کے مجرمین کو جو حالات درپیش ہوئے ، بعد میں انے والے بھی لازما ان جیسے حالات ہی سے دوچار ہوں گے۔ کیونکہ اللہ کے سنن اٹل ہوتے ہیں ، وہ کسی کی رو رعایت نہیں کرتے۔ اور زمین میں چلنے پھرنے سے نفس انسانی کی اطلاعات کا دائرہ بہت ہی وسیع ہوجاتا ہے۔ انسان کا دماغ روشن ہوجاتا ہے اور سیرفی الارض کے دوران انسان پر ایسے لمحات آتے ہیں کہ انسان کا ضمیر روشن ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم انسانوں کو اس کائنات کے اٹل اصولوں اور سنن کی طرف بار بار متوجہ کرتا ہے۔ اور انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ ان سنن یا بالفاظ دیگر سلسلہ علت و مطول پر ذرا غور کرو ، اس کی کڑیوں کو دیکھتے چلے جاؤ، تاکہ تمہاری زندگی انسانیت کی مجموعی زندگی سے وابستہ اور متصل رہے اور تمہاری سوچ کی حدود وسعت اختیار کریں۔ تمہاری سوچ محدود ، تنگ اور زندگی کے دھارے سے منقطع نہ ہو۔ ان توجہات کے بعد اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان لوگوں سے اپنے ہاتھ جھاڑ دیں۔ ان کو چھوڑ دیں کہ وہ جس انجام سے دو چار ہوتے ہوں ہوجائیں۔ جس طرح تاریخ میں ان سے قبل بھی ایسے مجرمین ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے۔ اور یہ لوگ تحریک اسلامی کے خلاف جو مکاریاں کر رہے ہیں ۔۔۔۔ ۔ کو کوئی نقصان نہ دے سکیں گی۔ نیز ازروئے ہمدردی ان کے لیے پریشان بھی نہ ہوں کیونکہ آپ نے تبلیغ اور راہنمائی کا حق ادا کردیا ہے اور ان کو خوب سمجھا دیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ یعنی تم زمین میں چلو پھرو اور ان مجرمین کا انجام دیکھو جو شرک کرتے اور حشر و نشر کا انکار کرتے تھے انہی جرموں کی پاداش میں ان کو ہلاک اور تباہ و برباد کردیا۔ ان کے آثار باقیہ کو دیکھ کر عبرت پکڑو اور شرک اور انکار بعث سے باز آجاؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(69) چونکہ جس طرح یہ منکر وقوع قیامت کی ہر معقول دلیل کا انکار کرتے ہیں اسی طرح ان سے پہلے بھی پیغمبروں کی تکذیب کرتے رہے پھر جو انجام ان کا ہوا وہی ان کا بھی ہونے والا ہے اس لئے ان سے کہہ دیجئے کہ تم ذرا زمین میں چلو پھرو پھر دیکھ لو کہ گناہ گاروں کا انجام کیا ہوا اور کیسا ہوا یعنی جو ان مجرموں کے ساتھ سلوک ہوا وہی تمہارے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔