Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 71

سورة النمل

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۷۱﴾

And they say, "When is [the fulfillment of] this promise, if you should be truthful?"

کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب ہے اگر سچے ہو تو بتلا دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells us about how the idolators asked about the Day of Resurrection, but thought it unlikely that it would ever come to pass. وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ And they say: "When (will) this promise (be fulfilled), if you are truthful!" Allah said, responding to them:

قیامت کے منکر مشرک چونکہ قیامت کے آنے کے قائل ہی نہیں ۔ جرات سے اسے جلدی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر سچے ہو تو بتاؤ وہ کب آئے گی ۔ جناب باری کی طرف سے بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جواب مل رہاہے کہ ممکن ہے وہ بالکل ہی قریب آگئی ہو ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَرِيْبًا 51؀ ) 17- الإسراء:51 ) اور جگہ ہے یہ عذابوں کو جلدی طلب کررہے ہیں اور جہنم تو کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ لکم کا لام ردف کے عجل کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہے ۔ جیسے کہ حضرت مجاہد سے مروی ہے پھر فرمایا کہ اللہ کے تو انسانوں پر بہت ہی فضل وکرم ہیں ۔ ان کی بیشمار نعمتیں ان کے پاس ہیں تاہم ان میں کے اکثر ناشکرے ہیں ۔ جس طرح تمام ظاہر امور اس پر آشکارا ہیں اسی طرح تمام باطنی امور بھی اس پر ظاہر ہیں ۔ جیسے فرمایا ( سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ 10۝ ) 13- الرعد:10 ) ، اور آیت میں ہے ( يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي Ċ۝ ) 20-طه:7 ) اور آیت میں ہے ( اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ Ĉ۝ ) 11-ھود:5 ) مطلب یہی ہے کہ ہر ظاہر وباطن کا وہ عالم ہے ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ ہر غائب حاضر کا اسے علم ہے وہ علام الغیوب ہے ۔ آسمان وزمین کی تمام چیزیں خواہ تم کو ان کا علم ہو یا نہ ہو اللہ کے ہاں کھلی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان وزمین کی ہر ایک چیز کا اللہ عالم ہے ۔ سب کچھ کتاب میں موجود ہے اللہ پر سب کچھ آسان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ ۔۔ : کافروں کا یہ کہنا اس لیے نہیں تھا کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ قیامت اور اس میں ہونے والا عذاب کب واقع ہوگا، بلکہ وہ یہ بات قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہم اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کریں گے، جب وہ ہمارے تقاضے کے مطابق واقع نہیں ہوگی تو ہمیں اس کا مذاق اڑانے کا اور اسے جھوٹ قرار دینے کا موقع مل جائے گا۔ لفظ ” الوعد “ کے ساتھ بھی وہ قیامت کا تمسخر اڑا رہے تھے، کیونکہ وعدہ اچھی چیز کا ہوتا ہے، بری چیز کی وعید ہوتی ہے۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے قیامت کو ” ھذا الوعد “ کہہ رہے ہیں، پھر ” اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ “ کہہ کر جلد از جلد عذاب لانے پر ابھار رہے ہیں، انھیں یہ معلوم نہیں کہ پیغمبروں کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں، مگر عذاب لانا یا نہ لانا اور جلدی لانا یا دیر سے لانا پیغمبر کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پیغمبر کا کام صرف خبردار کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ۠ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ ) [ الملک : ٢٥، ٢٦ ] ” اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو ؟ کہہ دے یہ علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو بس ایک کھلا ڈرانے والا ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ٧١ متی مَتَى: سؤال عن الوقت . قال تعالی: مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] ، ( م ت ی ) متی ۔ یہ اسم استفہام ہے اور کسی کام کا وقت دریافت کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ مَتى هذَا الْوَعْدُ [يونس/ 48] یہ وعدہ کب ( پورا ہوگا ) صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) اور یہ لوگ کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ جس نزول عذاب کا آپ ہم سے وعدہ کرتے ہیں وہ وعدہ کب ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ہٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ” یعنی آپ ہمیں مسلسل دھمکیاں دیے جا رہے ہیں کہ اگر ہم آپ کی اطاعت نہیں کریں گے تو ہم پر عذاب آجائے گا۔ چناچہ اگر آپ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو ذرا یہ بھی بتادیں کہ وہ عذاب کب آئے گا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88 The same threat which is implied in the preceding verse. What they meant was: "When will the scourge with which you threaten us overtake us? Why are we not being punished when we have not only rejected you but have also done whatever we could to frustrate your mission'?"

سورة النمل حاشیہ نمبر :88 اس سے مراد وہی دھمکی ہے جو اوپر کی آیت میں پوشیدہ ہے ، ان کا مطلب یہ تھا کہ اس فقرے میں ہمارے خبر لینے جو درپردہ دھمکی دی جارہی ہے یہ آخر کب عمل میں لائی جائے گی ؟ ہم تو تمہاری بات رد بھی کرچکے ہیں اور تمہیں نیچا دکھانے کے لیے اپنی تدبیروں میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ، اب کیوں ہماری خبر نہیں لی جاتی؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویقولون متی ۔۔۔۔۔ صدقین (27: 71) ۔ یہ وہ تب کہتے تھے جب کبھی ان کو امم سابقہ کی طرح کے برے انجام سے ڈرایا جاتا تھا ، جن کی بستیوں پر سے وہ رات دن گزرتے تھے مثلاً حضرت لوط کی قوم کی بستی سدوم ، اور حجر میں ثمود کے آثار اور احقاف کے علاقے میں قوم عاد کے آثار اور قوم سبا کے کھنڈرات جو سیل العرم کے بعد تباہ ہوئے۔ تو یہ لوگ کہتے تھے کہ جن باتوں سے ہمیں ڈراتے ہو ، متعین طور پر بتاؤ وہ عذاب کب آئے گا۔ اگر سچے ہو تو بتاؤ کہ وہ کیسا عذاب ہوگا اور کب ہوگا۔ یہاں پھر اس کا جواب بھی ویسے ہی حقارت آمیز انداز میں نہایت ہی اختصار کے ساتھ دے دیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ یہ دوسرا شکوی ہے۔ مشرکین بطور استہزاء و تخفیف کہتے وہ عذاب کہاں ہے جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو ہم تمہیں نہیں مانتے صاف انکار کرتے ہیں پھر وہ عذاب کیوں نہیں آتا۔ قل عسی ان یکون الخ، یہ جواب شکوی ہے۔ فرمایا اتنی عجلت مت کرو، صبر کرو، جس عذاب سے تمہیں ڈرایا گیا ہے وہ قریب آپہنچا ہے۔ ردف لکم ای تبع والمراد بہ ھنا لحق و وصل وھو مما یتعدی بنفسہ وباللم کنصح (روح ج 20 ص 16) ۔ اور عذاب سے یوم بدر کا عذاب مراد ہے۔ (روح وغیرہ) ۔ عسی اور اسی طرح لعل اور سوف شاہوں کے کلام میں امید و شک کے لیے نہیں بلکہ حتمی وعد و وعید کے لیے ہوتے ہیں۔ ان عسی ولعل فی وعد الملوک ووعیدھم یدلان علی صدق الامر وانما یعنون بذلک اظھار وقارھم وانھم لا یعجلون بالانتقام لوثوقہم بان عدوھم لا یفوتہم فعلی ذلک جری وعد اللہ ووعیدہ (کبیر ج 6 ص 579) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اور یہ منکر مسلمانوں سے کہتے ہیں اگر تم سچے ہو تو بتائو یہ وعدہ کب پورا ہوگا یعنی وعدہ عذاب و قبر کب پورا ہوگا اور قیامت کا وقوع کب ہوگا اور جس عذاب موعود کی دھمکیاں دیتے ہو اس کا وقت متعین کرو۔