Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 73

سورة النمل

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۳﴾

And indeed, your Lord is full of bounty for the people, but most of them do not show gratitude."

یقیناً آپ کا پروردگار تمام لوگوں پر بڑے ہی فضل والا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ ... Verily, your Lord is full of grace for mankind, meaning, He abundantly bestows His blessings on them even though they wrong themselves, yet despite that they do not give thanks for those blessings, except for a few of them. ... وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ yet most of them do not give thanks. وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

731یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل و کرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے انکار کر کے ناشکری کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] یعنی اگر عذاب آنے میں کچھ تاخیر ہو رہی ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ یہ لوگ عذاب کے مستحق نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ ابھی انھیں سمجھنے سوچنے کے لئے کچھ اور مہلت دی جائے۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس مہلت دینے پر اس کا شکر ادا کرتے یہ الٹا عذاب کے واقع ہونے کا ہی مذاق اڑانے اور اسے جھٹلانے پر لگے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ ۔۔ : ” لَذُوْ فَضْلٍ “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑے فضل والا “ کیا گیا ہے، یعنی ان لوگوں کے جلدی عذاب لانے کے مطالبے کے باوجود اللہ تعالیٰ عذاب میں تاخیر کر رہا ہے اور انھیں مہلت دے رہا ہے، تو یہ اس کا ان پر بہت بڑا فضل ہے، جس پر انھیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اکثر اس لیے فرمایا کہ ایک قلیل تعداد اہل ایمان کی ایسی ہے جو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَہُمْ لَا يَشْكُرُوْنَ۝ ٧٣ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) اور آپ کا رب لوگوں پر بڑا فضل رکھتا ہے اس کی وجہ سے قدرے عذاب کو مؤخر کر رکھا ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے کہ تاخیر عذاب کو غنیمت سمجھیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَاِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ ) ” یعنی ابھی تک اگر تم لوگوں پر عذاب نہیں آیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا مظہر ہے۔ اس لیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ بہت فضل اور کرم کا معاملہ کرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90 That is, "It is Allah's mercy that He does not seize the culprit immediately after his commission of a crime but gives him respite to reform himself. But most people are not grateful for this, and do not utilize the period of respite for their reformation. On the contrary, when they see that they have not been taken to task immediately, they form the idea that there is none to call theta to account. Therefore, they are free to do whatever they like and they should not listen to any word of admonition".

سورة النمل حاشیہ نمبر : 90 یعنی یہ تو اللہ رب العالمین کی عنایت ہے کہ وہ لوگوں کو قصور سرزد ہوتے ہی نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کی مہلت دیتا ہے ۔ مگر اکثر لوگ اس پر شکر گزار ہوکر اس مہلت کو اپنی اصلاح کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ مواخذہ میں دیر ہونے کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہاں کوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے اس لیے جو جی میں آئے کرتے رہو اور کسی سمجھانے والے کی بات مان کر نہ دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی جو مہلت انہیں ملتی ہے اس میں اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتے بلکہ اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ کوئی گرفت ہونے والی نہیں ہے اس لئے جو جی میں آئے کرتے رہو اور کسی سمجھانے والے کی بات نہ مانو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس رحمت عامہ کی وجہ سے قدرے مہلت دے رکھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان ربک ۔۔۔۔۔۔ لا یشکرون (27: 73) ۔ اور اللہ کا فضل تو ظاہر و باہر ہے کہ اللہ لوگوں کو مہلت دئیے جا رہا ہے اور ان سے عذاب کو موخر کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ قصوروار اور گناہ گار ہیں اور گناہوں پر اصرار کر رہے ہیں۔ یہ اس لیے کہ ان کی اصلاح کی امید ابھی باقی ہے اور عذاب کو موخر کرنا تو اللہ کا فضل ہے۔ اس کا شکر ادا کرنا چاہئے لیکن اکثر لوگ شکر ادا کرنے کے بجائے الٹا مزاح کرتے ہیں۔ اور اپنی گمراہی میں بغیر سوچے سمجھے بڑھے چلے جا رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ ) (بلاشبہ آپ کا رب لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے) اسی فضل میں سے یہ بھی ہے کہ کفر میں اور شرک میں مبتلا ہونے والوں کو بھی نعمتیں دیتا ہے اور ان پر فضل فرماتا ہے، اور یہ فضل بھی ہے کہ انہیں ڈھیل دیتا ہے عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں فرماتا۔ (وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَشْکُرُوْنَ ) (لیکن ان میں سے اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے) اللہ تعالیٰ کی نعمتیں استعمال کرتے ہیں ان کا حق یہ ہے کہ نعمتیں دینے والے کو پہچانیں اسے وحدہ لا شریک مانیں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے منع کیے ہوئے مواقع میں خرچ نہ کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ یہ لوگوں پر اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ کفر و شرک اور انکار و تکذیب پر جلدی ان کو نہیں پکڑتا تاکہ ان کو سوچنے سمجھنے کا موقع مل جائے۔ لیکن پھر بھی اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور اس کی نافرمانیوں میں منہمک رہتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(73) اور بلاشبہ آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا فضل رکھتا ہے لیکن لوگوں میں کیا کثر اللہ تعالیٰ کے فضل کی قدر نہیں کرتے یعنی بجائے اس کے کہ تاخیر عذاب پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں اور ایمان لا کر شکرکا مظاہرہ کریں بکلہ تاخیر عذاب کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور عذاب کا انکار کرتے ہیں اور عذاب الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔