Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 74

سورة النمل

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَیَعۡلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوۡرُہُمۡ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ﴿۷۴﴾

And indeed, your Lord knows what their breasts conceal and what they declare.

بیشک آپ کا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپا رہے ہیں اور جنہیں ظاہر کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, your Lord knows what their breasts conceal and what they reveal. means, He knows what is hidden in their hearts just as He knows what is easily visible. سَوَاءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ It is the same (to Him) whether any of you conceals his speech or declares it openly. (13:10) يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى He knows the secret and that which is yet more hidden. (20: 7) أَلا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ Surely, even when they cover themselves with their garments, He knows what they conceal and what they reveal. (11:5) Then Allah tells us that He is the Knower of the unseen in the heavens and on earth, and that He is the Knower of the unseen and the seen, i.e., that which is unseen by His servants and that which they can see. And Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] ان کا زبانی مطالبہ تو یہ ہے کہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ لیکن اس مطالبہ کے جو محرکات ہیں اور جو کچھ یہ اپنے آپ کو اپنے دلوں میں سجھے بیٹھے ہیں۔ ان کا یہ تمہارے سامنے اظہار نہیں کرتے۔ ان کے دلوں کے پوشیدہ کینوں اور ناپاک ارادوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ ۔۔ : یعنی عذاب میں تاخیر کی یہ وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعمال کا علم نہیں، یقیناً تیرا رب وہ بھی جانتا ہے جو ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور وہ بھی جو وہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لفظ ” رب “ میں تاخیر اور مہلت کا سبب بیان ہوا ہے اور اس بات میں کہ وہ ان کی سینوں میں چھپی ہوئی اور ان کی ظاہر ہونے والی ہر بات کو جانتا ہے، شدید وعید بھی ہے، جیسے کسی کو ڈانٹنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ میں تمہاری حرکتیں دیکھ رہا ہوں۔ پوشیدہ باتوں کو جاننا تو صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے ہی، لوگوں کے ظاہر اعمال کو جاننا بھی صرف رب تعالیٰ ہی کی شان ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا ایک وقت میں اتنے لوگوں کی بات سن ہی نہیں سکتا، ان کے ہر عمل سے کیسے باخبر ہو سکے گا۔ مزید دیکھیے سورة رعد (١٠) ، ہود (٥) اور طٰہٰ (٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا يُعْلِنُوْنَ۝ ٧٤ كن الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] . وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] . والکِنَانُ : الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ. نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة . ( ک ن ن ) الکن ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات/ 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة/ 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل/ 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ الکنان ۔ پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت/ 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود/ 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة/ 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر/ 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ علن العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال : ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته . ( ع ل ن ) العلانیہ ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور آپ کے پروردگار کو سب خبر ہے جو کچھ ان کے دلوں میں بغض و عداوت بھرا ہوا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَاِنَّ رَبَّکَ لَیَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ) ” اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے کیا کہتے ہیں اور ان کے دلوں میں کیا جذبات ہیں۔ ان کے دل تو گواہی دے چکے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں اور قرآن بھی برحق ہے ‘ لیکن وہ محض حسد ‘ ّ تکبر اور تعصب کے باعث انکار پر اڑے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے ان کی کیفیت فرعون اور قوم فرعون کی کیفیت سے مشابہ تھی جس کا حال اسی سورت کی آیت ١٤ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط) ” اور انہوں نے ان (آیاتِ الٰہی) کا انکار کیا ظلم اور تکبر کے ساتھ جبکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کرلیا تھا “۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٤٦ اور سورة الانعام کی آیت ٢٠ میں علماء اہل کتاب کی بالکل یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : (اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمْ ) یعنی وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91 That is, "He is not only aware of their open misdeeds but is also fully aware of the malice and spite which they are concealing in their hearts and the evil plots which they are making secretly. Therefore, when the time comes to call them to account, they will be taken to task for everything done and thought."

سورة النمل حاشیہ نمبر : 91 یعنی وہ ان کی علانیہ حرکات ہی سے واقف نہیں ہے بلکہ جو شدید بغض اور کینہ ان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے اور جا چالیں یہ اپنے دلوں میں سوچتے ہیں ، ان سے بھی وہ خوب واقف ہے ، اس لیے جب ان کی شامت آنے کا وقت آن پہنچے گا تو کوئی چیز چھوڑی نہیں جائے گی جس پر ان کی خبر نہ لی جائے ۔ یہ انداز بیان اسی طرح کا ہے جیسے ایک حاکم اپنے علاقے کے کسی بدمعاش سے کہے ، مجھے تیرے سب کرتوتوں کی خبر ہے ، اس کا صرف یہی مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اپنے باخبر ہونے کی اسے اطلاع دے رہا ہے ، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تو اپنی حرکتوں سے باز آجا ، ورنہ یاد رکھ کہ جب پکڑا جائے گا تو تیرے ایک ایک جرم کی پوری سزا دی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤ تا ٨١۔ ان آیتوں میں مشرکوں کو فرمایا جو قیامت کو دور جانتے ہیں اوپر کی آیتوں میں ان کے حق میں یہ فرمایا تھا کہ قیامت کے آنے کی یہ لوگ جلدی کرتے ہیں شاید وہ ان کی پیٹھ کی پیچھے آ لگی ہو اور قریب ہو پھر فرمایا کہ تیر ارب لوگوں پر اپنا فضل رکھتا ہے اور نعمتیں دیتا ہے اور لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور خدا کا شکر نہیں بجالاتے اب ان آیتوں میں فرمایا کہ وہ ایسا عالم الغیب ہے کہ جن باتوں کو یہ لوگ چھپا رہے ہیں ان کو بھی جنتا ہے اور جو ظاہر کرتے ہیں وہ بھی جانتا ہے چناچہ سورة طہ میں فرمایا فانہ یعلم السر واخفی پھر فرمایا کوئی چیز لائق نہیں آسمان اور زمین میں مگر وہ موجود ہے کھلی کتاب میں یہ آیت مثل سورة حج کی اس آیت کے ہے الم تعلم ان اللہ یعلم مافی السماء والارض ‘ ان ذالک فی کتاب ‘ ان ذالک علی اللہ یسیر (آیت ٧٠) مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ جو کچھ آسمان یا زمین میں ہے اس لیے اس کو اپنے علم ازلی کے موافق یہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ لینا دشوار نہیں تھا پھر فرمایا کہ یہ قرآن بنی اسرائیل کے لیے اکثر وہ قصے بیان کرتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ اور عزیر کے باب میں یہود نصاریٰ مختلف القول ہیں لیکن یہ قرآن شریف سراسر ہدایت اور رحمت ہے ایمانداروں کے حق میں اس سراسر ہدایت کو چھوڑ کر اب جو لوگ اختلاف میں پڑے ہیں ان کے اس اختلاف کا پورا فیصلہ قیامت کے دن ہوجائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور فیصلہ میں بڑا زبردست ہے پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم کھلے راستے پر ہو اللہ پر بھروسہ کر کے لوگوں کو اس راستہ پر بلانے میں لگے رہو پھر اس کھلے راستے پر جو نہ آوے تو وہ مثل مردہ کے ہے اور تم مردوں کی نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو سنا سکتے ہو اور نہ تم اندھوں کو راستہ بتاسکتے ہو جب وہ راہ سے بچلیں تو ان ہی کو نصیحت کرسکتے ہو جو اللہ کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہی لوگ حکم بردار ہیں صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے رکھتے ہیں کیونکہ وہی لوگ حکم بر دار ہیں صحیح مسلم میں حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اپنے علم ازلی کے موافق وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے یہ حدیث ومامن غائبتہ فی السماء والارض الافی کتاب مبین کی گویا تفسیر ہے بہروں کے ذکر میں پیٹھ کے پھیر لینے کا لینے کے بعد یہ موقع بھی باقی نہیں رہتا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے قابل کام کریں گے اور کتنے آدمی دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث بھی ایک اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں جو دل ہے اس کے حاصل یہ ہے کہ جس قسم کی یہ آیتیں ہیں ایسی آیتوں کے نازل ہونے سے پہلے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا بڑا رنج تھا کہ تمام اہل مکہ دائرہ اسلام میں کیوں نہیں داخل ہوجاتے لیکن جب اس قسم کی آیتوں سے یہ بات کھل گئی کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار پاچکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی ہی فائدہ مند ہے جیسے اچھی زمین میں مینہ کا پانی فائدہ مند ہوتا نے ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث جو ایک جگہ گزر چکی ہے۔ کہ بدر کی لڑائی کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کہ سچا پا لیا اس حدیث کے معنے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے قتادہ نے یہ بیان کئے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان لاشوں میں روح پھونک دی گئی تھی ان لاشوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو سن لیا امام احمد اور ابودا ؤد میں براء بن عازب (رض) کے صحیح حدیث ١ ؎ منکر نکیر کے سوال جواب کے باب میں جو ہے اس سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کس لیے کہ اس حدیث میں صاف طور پر یہ ذکر ہے کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت مردہ کے جسم میں روح پھونک دی جاتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ آیت انک لاتسمع الموتیٰ میں اور انس بن مالک (رض) کی اس مضمون کی حدیثوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ حدیثوں میں مردہ کی خاص حاص حالتوں کا ذکر ہے اور آیت میں مردہ کی ان خاص خاص روح کے پھونکے جانے کی حالتوں کے علاوہ عام حالت کا ذکر ہے۔ (١ ؎ مشکوۃ باب اثبات عذاب القبر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:74) تکن۔ مضارع واحد مؤنث غائب اکنان (افعال) مصدر۔ اس باب سے بمعنی کسی بات کو چھپانے کے آتا ہے جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے او اکننتم فی انفسکم (2:235) یا (نکاح کی خواہش کو) تم اپنے دلوں میں مخفی رکھو ! ثلاثی مجرد سے کن یکن (نصر) کن وکنون (گھر میں) چھپانا۔ کن جمع اکنان واکنۃ پردہ۔ گھر۔ چھپنے کی جگہ۔ گھونسلہ، کنۃ لپیٹنے کی چیز۔ کمبل۔ تکن وہ چھپاتی ہے وہ مخفی رکھتی ہے۔ ما تکن صدرہم جو ان کے سینوں نے چھپا رکھا ہے۔ یعلنون۔ مضارع جمع مذکر غائب اعلان (افعال) مصدر (جو) وہ ظاہر کرتے ہیں : جمع کا صیغہ الناس کی رعایت سے لایا گیا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ اس لئے جب ان کی شامت آئے گی تو کوئی بات چھوڑی نہ جائے گی جس پر ان کا سخت محاسبہ نہ کیا جائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان ربک لیعلم ما تکن صدورھم وما یعلنون (27: 74) ” “ اللہ ان پر عذاب نہیں لاتا اور اسے موخر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ خوب جانتا ہے کہ اپنئ سینوں میں یہ لوگ کیا چھپائے ہوئے ہیں اور کیا وہ طاہر کر رہے ہیں۔ اس سبق کا خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی شے اللہ سے غائب اور پوشیدہ نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ اِنَّ رَبَّکَ لَیَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُھُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ ) (اور بلاشبہ آپ کا رب ان باتوں کو ضرور جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپاتے ہیں اور جو کچھ یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی ہے کہ آپ ان کی باتوں سے غمگین نہ ہوں ان کی دل کی باتیں نیتیں اور ارادے ہمیں سب معلوم ہیں حکمت کے مطابق ان کا انجام سامنے آجائے گا اور ساتھ ہی منکرین کے لیے تھدید اور تحذیر بھی ہے کہ تمہاری کوئی نیت کوئی ارادہ کوئی عمل پروردگار جل مجدہ سے پوشیدہ نہیں ہے اس کی طرف سے جو عذاب میں تاخیر ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ اس کو تمہارا حال معلوم نہیں، اسے سب کچھ پتہ ہے حکمت کے مطابق جب وہ چاہے گا سزا دے گا اس کے بعد فرمایا کہ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ آخر میں دونوں دعو وں پر لف و نشر مرتب کے طور پر مزید ایک ایک عقلی دلیل ذکر کی گئی۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے جو پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ یعنی غیب داں صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ ہر ایک کے سینے میں چھپی باتوں کو بھی جانتا ہے اور ہر ایک کے ظاہری اعمال سے باخبر ہے اس لیے ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزاء و سزا دے گا۔ وما من غائبۃ الخ، کتاب مبین سے علم الٰہی یا لوح محفوظ مراد ہے۔ وھو اللوح المھفوظ، وقیل المراد بالکتاب المبین علمہ تعالیٰ الازلی الذی ھو مبدا لاظھار الاشیاء بالارادۃ والقدرۃ (روح ج 20 ص 17) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) اور بیشک آپ کے پروردگار کو وہ سب باتیں معلوم ہیں جو ان کے دلوں میں پوشیدہ ہیں اور جسکو وہ علانیہ کرتے ہیں یعنی تاخیر عذاب جو کسی مصلحت کے ماتحت ہوتی ہے اور جلدی نہیں کی جاتی تو اس کو یہ نہ سمجھو کو اللہ تعالیٰ کو تمہارے پوشیدہ اور علانیہ افعال کی خبر نہیں ہے اور ان افعال کی کبھی سزا نہیں ملے گی بلکہ اس کو سب معلوم ہے اور تمہارے ہی افعال پر کیا منحصر ہے بلکہ وہاں تو ہر چیز لوح محفوظ میں مکتوب ہے۔