Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 86

سورة النمل

اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّا جَعَلۡنَا الَّیۡلَ لِیَسۡکُنُوۡا فِیۡہِ وَ النَّہَارَ مُبۡصِرًا ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۸۶﴾

Do they not see that We made the night that they may rest therein and the day giving sight? Indeed in that are signs for a people who believe.

کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا ہے کہ وہ اس میں آرام حاصل کرلیں اور دن کو ہم نے دکھلانے والا بنایا ہے یقیناً اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان و یقین رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا اللَّيْلَ لِيَسْكُنُوا فِيهِ ... See they not that We have made the night for them to rest therein, Due to the darkness of the night they halt their activities and calm themselves down, to recover from the exhausting efforts of the day. ... وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ... and the day sight-giving, meaning filled with light, so that they can work...  and earn a living, and travel and engage in business, and do other things that they need to do. ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ Verily, in this are Ayat for the people who believe.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

861تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لئے دوڑ دھوپ کرسکیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] یعنی دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے اور آتے جاتے رہنے میں ایک نہیں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بیشمار نشانیاں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتی ہیں۔ اور یہ نشانیاں ایسی ہیں جنہیں ہر شخص ہر وقت مشاہدہ کرسکتا ہے کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ دن رات کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی راتیں ... لمبی ہوجاتی ہیں اور کبھی دن اور کبھی اس کے برعکس۔ پھر موسموں کے تغیر و تبدل پر بھی غور کیا تھا کہ سورج اور تمہاری زمین کا باہمی کیا تعلق ہے ؟ یہ عظیم الشان تعلق قائم کرنا پھر ہر وقت اس نظام پر کنٹرول رکھنا کیا یہ سب کچھ اتفاقی امور تھے یا کوئی مقتدر ہستی یہ نظام چلا رہی تھی۔ اور اس نظام سے تمہارے کس قدر مفادات وابستہ ہیں۔ دن بھر کام کرنے سے جسقدر بدن کے اجزاء تحصیل ہوتے ہیں اور تھکن ہوجاتی ہے۔ رات کو وہ سب پھر سے پیدا ہوجاتے ہیں اور صبح انسان کی تھکن دور اور وہ تازہ دم ہو کر اٹھتا ہے۔ نیز ایسا مربوط اور حکیمانہ نظام اسی صورت میں ہی قائم رہ سکتا ہے کہ اس کو بنانے، چلانے اور کنٹرول کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہو یا کئی ہستیاں مل کر کیا ایسا حکیمانہ اور مربوط نظام چلاسکتی ہیں۔ اسی ایک رات اور دن کے مسئلہ میں تم غور و فکر کرتے تو تمہیں ہدایت نصیب ہوسکتی تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ ۔۔ : حشر کا ذکر فرمایا تو اس کی دلیل کے طور پر رات کی نیند اور ظلمت کا ذکر فرمایا، جو ایک طرح کی موت ہے اور دن کی بیداری اور اجالے کا ذکر فرمایا، جو زندگی ہے۔ (دیکھیے زمر : ٤٢) یعنی کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ موت و حیات کا یہ سلسلہ ہر روز...  ان کے مشاہدے میں آتا ہے، بلکہ خود ان کی ذات پر گزرتا ہے، جس میں ان کے لیے سکون اور تلاش رزق کی نعمتیں بھی موجود ہیں۔ صرف یہ دو نشانیاں ہی ان لوگوں کے لیے کافی ہیں جو قیامت پر ایمان لانا چاہتے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٨٦ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها ع... َيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ ( بصر) مبصرۃ بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم، الباصرۃ کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) کیا کفار مکہ اس میں غور نہیں کرتے کہ ہم نے آرام کے لیے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کریں اور روز گار وغیرہ کے دیکھنے کے لیے دن بنایا تاکہ اس میں روزی تلاش کریں یہ جو ہم نے انکے آرام کے لیے چیزیں بنائیں بیشک اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو کہ اس چیز کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّہَارَ مُبْصِرًا ط) ” اللہ تعالیٰ نے انسانی ضروریات کے تحت رات کو سکون کے لیے جبکہ دن کو معاشی جدوجہد کے لیے سازگار بنایا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104 That is, "Two out of the countless signs were such which they were observing at all times, whose benefits they were enjoying every moment, and which were not hidden even from a blind or deaf or dumb person. While they benefited by the rest at night and the opportunities afforded by the day, why did they not think that it is a system devised by an All-Wise Being, Who has established the relatio... nship between the sun and the earth precisely to meet their requirements and needs ? This cannot be a mere accident, for it clearly manifests purposefulness, wisdom and planning, which cannot be the characteristic of the blind forces of nature, nor the work of many gods. It can only be a system established by the One Creator and Master and Disposer, Who is ruling over the earth, the moon, the sun and all other planets. From the observation of this single phenomenon they could judge that the alternation of the day and night testified to the truth that We have conveyed through Our Messenger and Our Book." 105 That is, "It was not something incomprehensible either. There were among their own relatives, their own clan and their own brotherhood people like themselves, who had seen the same very Signs and believed that the creed of Godworship and Tauhid towards which the Prophet was inviting them was precisely in accordance with the truth and reality."  Show more

سورة النمل حاشیہ نمبر : 104 یعنی بے شمار نشانیوں میں سے یہ دو نشانیاں تو ایسی تھیں جن کا وہ سب ہر وقت مشاہدہ کرر ہے تھے ، جن کے فوائد سے ہر آن متمتع ہو رہے تھے ، جو کسی اندھے بہرے اور گونگے تک سے چھپی ہوئی نہ تھیں ، کیوں نہ رات کے آرام اور دن کے مواقع سے فائدہ اٹھائے وقت انہوں نے کبھی سوچا کہ ی... ہ ایک حکیم کا بنایا ہوا نظام ہے جس نے ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق زمین اور سورج کا تعلق قائم کیا ہے ، یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوسکتا ، کیونکہ اس میں مقصدیت حکمت اور منصوبہ بندی علانیہ نظر آرہی ہے جو اندھے توائے فطرت کی صفت نہیں ہوسکتی ، اور یہ بہت سے خداؤں کی کافرفرمائی بھی بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ نظام لا محالہ کسی ایک ہی ایسے خالق و مالک اور مدبر کا قائم کیا ہوا ہوسکتا ہے جو زمین ، چاند ، سورج اور تمام دوسرے سیاروں پر فرمانروائی کر رہا ہو ۔ صرف اسی ایک چیز کو دیکھ کر وہ جان سکتے تھے کہ ہم نے اپنے رسول اور اپنی کتاب کے ذریعہ سے جو حقیقت بتائی ہے یہ رات اور دن کی گردش اس کی تصدیق کر رہی ہے ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 105 یعنی یہ کوئی نہ سمجھ میں آسکنے والی بات بھی نہیں تھی ، آخر انہی کے بھائی بند ، انہی کے قبیلے اور برادری کے لوگ ، انہی جیسے انسان موجود تھے جو یہی نشانیاں دیکھ کر مان گئے تھے کہ نبی جس پر خداپرستی اور توحید کی طرف بلا رہا ہے وہ بالکل مطابق حقیقت ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:86) الم یروا۔ ہمزہ استفہامیہ ہے لم یروا مضارع نفی جحد بلم صیغہ جمع مذکر غائب ۔ کیا ہو نہیں دیکھتے ۔ یعنی کیا وہ نہیں جانتے۔ لیسکنوا۔ لام تعلیل کا ہے یسکنوا مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) سکون مصدر (باب نصر) تاکہ آرام حاصل کریں۔ مبصرا واحد مذکر اسم فاعل بحالت نصب۔ ابصار (افعال) مصدر۔ دیکھنے والا۔...  دکھانے والا۔ جو خود واضح اور روشن ہو وہ بھی مبصر ہے اور جو دوسروں کو واضح اور روشن کر دے وہ بھی مبصر ہے۔ دن خود بھی روشن ہے اور دوسری چیزوں کو روشن بنانے والا بھی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی کہ صرف رات دن کی دو نشانیاں ایسی ہیں جن سے اللہ کی توحید نبوت اور موت کے بعد دوبارہ زندگی پر استدلال ہوسکتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ کیونکہ وہ تدبر کرتے ہیں اور دوسرے تدبر نہیں کرتے اور انتاج کے لئے نظر و فکر ضروری ہے، اس لئے دوسرے اس سے منتفع نہیں ہوتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں ان کے غور و فکر کے لیے رات اور دن میں دلائل۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی پہچان اور قیامت پر ایمان لانے کے لیے اپنی قدرتون پر غور کرنے کا بار بار حکم دیا ہے ان میں اکثر نشانیاں ایسی ہیں جن سے ہر شخص کو صبح و شام واسطہ پڑتا ہے ... اِ ن نشانیوں میں سے قرآن مجید نے رات اور دن کو کئی مرتبہ نشانی اور دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہاں رات کے بارے میں فرمایا ہے کہ رات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ لوگ اس میں سکون پائیں اور دن کو روشن بنایا تاکہ لوگ اپنا کام کاج اور ضرورتیں پوری کرسکیں۔ کیا لوگوں نے رات اور دن کے بارے میں نہیں سوچا کہ ان میں کون کون سے فوائد رکھے گئے ہیں ؟ اگر رات اور دن کے بارے میں لوگ غور کریں تو یقیناً ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے لیے بیشمار دلائل ہیں۔ یہاں رات اور دن کو قیامت کی نشانیوں کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا یقینی ہے اسی طرح ہی زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد جی اٹھنا یقینی بات ہے۔ رات کو انسان اور ہر جاندار چیز نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے جو موت کے مترادف ہے۔ دن کے طلوع ہونے کے ساتھ ہر جاندار اپنے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ رات کے بعد دن کو اٹھنا اور دن کے بعد رات کو سونا ہر ذی روح کے لیے لازم ہے، اسی طرح قیامت کے بعد اٹھنا بھی لازم ہے۔ جس طرح کوئی جاندار ہمیشہ سویا نہیں رہ سکتا اسی طرح مرنے کے بعد کسی نے ہمیشہ مردہ نہیں رہنا اسے ہر حال میں اٹھایا جائے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون کے لیے بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے دن کو لوگوں کی ضروریات کے لیے روشن بنایا ہے۔ ٣۔ ایمان لانے والوں کے لیے رات اور دن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن کے فوائد : ١۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٢۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٣۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید : ٦) ٤۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا اللَّیْلَ ) (الآیۃ) اس آیت میں بتایا ہے کہ لوگوں کو رات اور دن کے آنے جانے میں غور کرنا چاہیے دیکھو ہم نے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کریں اور ہم نے دن کو ایسا بنایا کہ جس میں دیکھنے بھالنے کا موقع ہے یہ رات کا سونا جو موت کے مشابہ ہے اس پر نظر ڈالیں اس کے بعد اللہ ... تعالیٰ دن کو ظاہر فرما دیتے ہیں اور یہ سونے کے بعد اٹھ جانا اور چلنا پھرنا دیکھنا بھالنا اس پر واضح دلالت کرتا ہے کہ جس ذات پاک نے بار بار نیند سے جگا دیا موت کے بعد بھی زندہ کرسکتا ہے اسی سے سمجھ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر ہے اس کو سورة زمر میں فرمایا۔ (اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ) (اللہ ہی قبض کرتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو بھی جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت، پھر ان جانوں کو تو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک کے لیے رہا کردیتا ہے اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو کہ سوچنے کے عادی ہیں دلائل میں) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ یہ دوسری عقلی دلیل ہے جو دوسرے دعوے سے متعلق ہے یعنی کارساز صرف الللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے رات بنائی تاکہ وہ اس میں آرام کریں اور دن بنایا تاکہ وہ اس میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں یہ رات دن کی آمد و رفت اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف میں ہے لہذا کارساز اور حاجت ... روا بھی وہی ہے۔ اس آیت میں صنعت احتیاک ہے یعنی پہلے جملے میں جعلنا کا مفعول ثانی مقدر ہے۔ یعنی مظلما اور دوسرے جملے میں مفعول ثانی کا متعلق محذوف ہے یعنی لینشروا فیہ والمشہوران فی الایۃ صنعۃ الاحتباک والتقدیر جعلنا اللیل مظلما لیسکنوا فیہ والنھار مبصرا لینشروا فیہ (روح ج 20 ص 69) ۔ 73:۔ اس دلیل میں ایمان والوں کے لیے تو عظیم الشان نشانات موجود ہیں جن سے وہ اللہ کی توحید پر استدلال کرسکتے ہیں۔ ولما ذکر اشیاء من احوال یوم القیمۃ لیرتدع بسماعھا من اراد اللہ تعالیٰ ارتداعہ نبھھم علی ما ھو دلیل علی التوحید والحشر والنبوۃ بماھم یشاھدونہ فی حال حیاتہم وھو قتلیب اللیل والنھار (بحر ج 7 ص 99) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

86۔ کیا ان منکرین دین حق نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ ہم نے رات بنائی تا کہ لوگ اس میں آرام کریں اور ہم نے دن کو روشن اور دکھانے والا بنایا یقینا اس دن رات کی بناوٹ اور ساخت میں ان لوگوں کے لئے بڑے دلائل ہیں جو ایمان رکھتے ہیں یعنی روز رات کو سوتے ہیں نیند جو ہم شکل موت ہے اس سے ہم کنار ہوتے ہیں پھر ... صبح اٹھتے ہیں اور موت کے بعد زندہ ہوتے ہیں پھر بھی قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے پر شبہ کرتے رہے لیکن چونکہ یہ تدبیر نہیں کرتے اس لئے ان کو کوئی دلیل نہیں دکھائی دیتی ۔ اہل ایمان چونکہ تدبر و تفکر کرتے ہیں تو اس رات دن کی ساخت میں ان کے لئے بڑے دلائل ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ۔  Show more