Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 89

سورة النمل

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیۡرٌ مِّنۡہَا ۚ وَ ہُمۡ مِّنۡ فَزَعٍ یَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ ﴿۸۹﴾

Whoever comes [at Judgement] with a good deed will have better than it, and they, from the terror of that Day, will be safe.

جو لوگ نیک عمل لائیں گے انہیں اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے بے خوف ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا ... Whoever brings a good deed, will have better than its worth. Qatadah said, "That is sincerely for Allah alone." Allah has explained elsewhere in the Qur'an that He will give ten like it. ... وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَيِذٍ امِنُونَ and they will be safe from the terror on that Day. This is like the Ayah, لااَ يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الااٌّكْبَرُ The greatest terror will not grieve them. (21:103) and Allah said: أَفَمَن يُلْقَى فِى النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِى ءَامِناً يَوْمَ الْقِيَـمَةِ Is he who is cast into the Fire better or he who comes secure on the Day of Resurrection. (41:40) وَهُمْ فِى الْغُرُفَـتِ ءَامِنُونَ and they will reside in the high dwellings in peace and security. (34:37)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

891یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] یہاں بھلائی سے مراد ایمان اور اعمال صالحہ ہیں۔ جزا یعنی نیک اعمال کے اچھے بدلہ کے متعلق اللہ کا عام ضابطہ یا قانون یہ ہے کہ ہر نیکی کے عوض دس گنا زیادہ اجر عطا فرمائے اور یہ اس کا اپنے نیک بندوں پر فضل اور احسان ہوگا۔ (٦: ١٦) پھر اگر کوئی عمل انتہائی خلوص اور محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر بجا لایا گیا ہوگا اور بعد میں اس کی نگہداشت بھی کی گئی ہوگی تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ سات سو گناہ یا اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ (٢: ٢٦١) [٩٩] ایمانداروں پر گھبراہٹ طاری نہ ہونے کی دو وجہیں ہوں گی ایک یہ کہ جو کچھ اس دن ہوگا ان کی توقع اور ان کے ایمان کے مطابق ہوگا اور جس حادثہ کی انسان کو پہلے سے خبر ہو وہ اس سے بچاؤ تو کرلیتا ہے مگر اس سے گھبراتا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ان کی توقع سے بڑھ کر مل رہا ہوگا۔ اس لحاظ سے یہ ان کے گھبرانے کا نہیں بلکہ خوشی کا موقع ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا : نیکی سے مراد ہر نیک کام ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد ” لاَ اِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ “ ، بعض نے اخلاص اور بعض نے فرائض کا ادا کرنا لیا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے عام رکھا جائے، کیونکہ تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔ (شوکانی) ” خیر منھا “ سے مراد دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، بلکہ نیکی میں زیادہ اخلاص اور حسن ادا کی برکت سے بغیر حساب بھی ہوسکتا ہے۔ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ : ” فَزَعٍ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، یعنی وہ اس دن بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ ) [ الأنبیاء : ١٠٣ ] ” انھیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی۔ “ اگر کم درجہ کی گھبراہٹ ہو تو اس آیت کے منافی نہیں، جیسا کہ آیت (٨٧) میں گزر چکا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ‌ مِّنْهَا |"Whoever will come with the good deed will have (a reward) better than that|" - 27:89 This description relates to the situation that will take place after the Doomsday and the account taking. Here the word hasanah is purported for the kalimah of لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ (as explained by Ibrahim) or it is an expression of sincerity (as interpreted by Qatadah). Some have interpreted this to include complete submission. The sense is that every good deed will be recompensed by a reward better than the deed; but it should be remembered that a person&s righteous acts could be considered as righteous only when he fulfills its first condition of having faith in Allah Ta` ala. Then he would get an award better than commensurable to his good deeds. It means that he would be graced with eternal bounties of the Paradise, and would escape from all troubles and torments for good. Some have interpreted that the word |"better|" means here that the reward of one good deed would be awarded from ten times to seven hundred times more. (Mazhari) وَهُم مِّن فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ and such people will be immune on that day from any panic -27:89. Word Faza& is purported here for any big calamity or perplexity. Thus the meaning of the sentence is that, while living in this world, every pious person is scared of his fate in the Hereafter, and as a matter of fact, he should be scared in the light of Qur&anic verse إِنَّ عَذَابَ رَ‌بِّهِمْ غَيْرُ‌ مَأْمُونٍ (70:28). The torment of Allah is not something to be forgotten and set aside. It is for this reason that even the prophets, the companions, and saints were always frightened and daunted. But after the account taking on Doomsday those who would bring the hasanah (the good deed contemplated in this verse) with them would be free from all fear and grief, and will live forever in complete tranquility. (Only Allah knows best)

مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا، یہ حشر و نشر اور حساب کتاب کے بعد پیش آنے والے انجام کا ذکر ہے اور حسنہ سے مراد کلمہ لا الہ الا اللہ ہے (کما قال ابراہیم) یا اخلاص ہے (کما قال قتادہ) اور بعض حضرات نے مطلق اطاعت کو اس میں داخل قرار دیا ہے۔ معنے یہ ہیں کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اور نیک عمل اسی وقت نیک کہلانے کے قابل ہوتا ہے جبکہ اس کی پہلی شرط ایمان موجود ہو تو اس کو اپنے عمل سے بہتر چیز ملے گی مراد اس سے جنت کی لازوال نعمتیں اور عذاب اور ہر تکلیف سے دائمی نجات ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ خیر سے مراد یہ ہے کہ ایک نیکی کی جزاء دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک ملے گی۔ (مظہری) وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ ، فزع، سے مراد ہر بڑی مصیبت اور پریشانی اور گھبراہٹ سے مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو ہر متقی پرہیزگار بھی انجام سے ڈرتا رہتا ہے اور ڈرنا ہی چاہئے جیسے قرآن کریم کا ارشاد ہے اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ، یعنی رب کا عذاب ایسا نہیں کہ اس سے کوئی بےفکر اور مطمئن ہو کر بیٹھ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور صحابہ و اولیاء امت ہمیشہ خائف و لرزاں رہتے تھے مگر اس روز جبکہ حساب کتاب سے فراغت ہوچکے گی تو حسنہ لانے والے نیک لوگ ہر خوف و غم سے بےفکر اور مطمئن ہوں گے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَيْرٌ مِّنْہَا۝ ٠ ۚ وَہُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ۝ ٨٩ حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ فزع الفَزَعُ : انقباض ونفار يعتري الإنسان من الشیء المخیف، وهو من جنس الجزع، ولا يقال : فَزِعْتُ من الله، كما يقال : خفت منه . وقوله تعالی: لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء/ 103] ، فهو الفزع من دخول النار . فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 87] ، وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل/ 89] ، وقوله تعالی: حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ/ 23] ، أي : أزيل عنها الفزع، ويقال : فَزِعَ إليه : إذا استغاث به عند الفزع، وفَزِعَ له : أغاثه . وقول الشاعر : كنّا إذا ما أتانا صارخ فَزِعٌ أي : صارخ أصابه فزع، ومن فسّره بأنّ معناه المستغیث، فإنّ ذلک تفسیر للمقصود من الکلام لا للفظ الفزع . ( ف ز ع ) الفزع انقباض اور وحشت کی اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی خوفناک امر کی وجہ سے انسان پر طاری ہوجاتی ہے یہ جزع کی ایک قسم ہے اور خفت من اللہ کا محاورہ تو استعمال ہوتا ہے لیکن فزعت منہ کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ [ الأنبیاء/ 103] ان کو ( اس دن کا ) بڑا بھاری غم غمگین نہیں کرے گا ۔ میں فزع اکبر سے دوزخ میں داخل ہونیکا خوف مراد ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 87] تو جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سبب گھبرا اٹھیں گے ۔ وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ [ النمل/ 89] اور ایسے لوگ ( اس روز ) گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے ۔ حَتَّى إِذا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ [ سبأ/ 23] یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے اضطراب دور کردیا جائے گا ۔ یعنی ان کے دلوں سے گبراہٹ دوری کردی جائے گی فزع الیہ کے معنی گھبراہٹ کے وقت کسی سے فریاد کرنے اور مدد مانگنے کے ہیں اور فزع لہ کے معنی مدد کرنے کے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 339 ) ولنا اذا مااتانا صارع خ فزع یعنی جب کوئی فریاد چاہنے والا گھبرا کر ہمارے پاس آتا ۔ بعض نے فزع کے معنی مستغیت کئے ہیں تو یہ لفظ فزع کے اصل معنی نہیں ہیں بلکہ معنی مقصود کی تشریح ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) اور جو شخص قیامت کے دن خلوص کے ساتھ کلمہ ” لا الہ الا اللہ “۔ لے کر آئے گا تو اس کو اس نیکی کے اجر مذکور سے بہتر اجر ملے گا اور وہ گھبراہٹ اور عذاب کے دن اور جب کہ دوزخ کو پر کیا جائے گا امن میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْہَا ج) ” ایک نیکی کا اجر دس گنا بھی ہوسکتا ہے ‘ سات سو گنا بھی اور اس سے بھی زیادہ۔ بہر حال نیکی کا بدلہ بڑھا چڑھا کردیا جائے گا۔ (وَہُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَءِذٍ اٰمِنُوْنَ ) ” اس سے قیامت کے دن کی گھبراہٹ مراد ہے جسے سورة الحج کی پہلی آیت میں (اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ) کہا گیا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ قیام قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ مؤمنین صادقین کو سکون کی موت عطا کر کے اس دن کی گھبراہٹ سے بچا لے گا۔ اس کے علاوہ ان الفاظ میں اس مفہوم کی گنجائش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بعث الموت کے بعد میدان حشر کی گھبراہٹ سے بھی محفوظ رکھے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

108 The reward will be better in two ways: (1) It will be higher than what a person will actually deserve for his good deeds; and (2) it will be everlasting and for ever though the good act was temporary and its influence confined to a limited period only.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 108 یعنی وہ اس لحاظ سے بھی بہتر ہوگا کہ جتنی نیکی اس نے کی ہوگی اس سے زیادہ انعام اسے دیا جائے گا ، اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی نیکی تو وقتی تھی اور اس کے اثرات بھی دنیا میں ایک محدود زمانے کے لیے تھے ، مگر اس کا اجر دائمی اور ابدی ہوگا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 109 یعنی قیامت اور حشر و نشر کی وہ ہولناکیاں جو منکرین ھق کے حواس باختہ کیے دے رہی ہوں گی ، ان کے درمیان یہ لوگ مطمئن ہوں گے ، اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی توقعات کے مطابق ہوگا ، وہ پہلے سے اللہ اور اس کے رسولوں کی دی ہوئی خبروں کے مطابق اچھی طرح جانتے تھے کہ قیامت قائم ہونی ہے ، ایک دوسری زندگی پیش آنی ہے اور اس میں یہی سب کچھ ہونا ہے ۔ اس لیے ان پر وہ بدحواسی اور گھبراہٹ طاری نہ ہوگی جو مرتے دم تک اس چیز کا انکار کرنے والوں اور اس سے غافل رہنے والوں پر طاری ہوگی ۔ پھر ان کے اطمینان کی وجہ یہ بھی ہوگی کہ انہوں نے اس دن کی توقع پر اس کے لیے فکر کی تھی اور یہاں کی کامیابی کے لیے کچھ سامان کرکے دنیا سے آئے تھے ۔ اس لیے ان پر وہ گھبراہٹ طاری نہ ہوگی جو ان لوگوں پر طاری ہوگی جنہوں نے اپنا سارا سرمایہ حیات دنیا ہی کی کامیابیاں حاصل کرنے پر لگا دیا تھا اور کبھی نہ سوچا تھا کہ کوئی آخرت بھی ہے جس کے لیے کچھ سامان کرنا ہے ، منکرین کے برعکس یہ مومنین اب مطمئن ہوں گے کہ جس دن کے لیے ہم نے ناجائز فائدوں اور لذتوں کو چھوڑا تھا ، اور صعوبتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں ، وہ دن آگیا ہے اور اب یہاں ہماری محنتوں کا اجر ضائع ہونے والا نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: اللہ تعالیٰ نے ہر نیکی کا ثواب دس گنا دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٩ تا ٩٠۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے صور کے پھونکنے کا ذکر فرمایا تھا اگرچہ اس بات میں علماء نے بڑا اختلاف کیا ہے کہ صور کتنی دفع پھونکا جائے گا مگر صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر ٢٠ والعاص (رض) کی حدیث ٣ ؎ سے معلوم ہوتا ہے کہ صور فقط دو دفع ہی پھونکا جاوے گا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دجال کو ہلاک کر چکیں گے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ گزر چکے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات ہوجائے گی تو اس کے بعد شام کے ملک کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا چل کر جن کے دل میں ذدرہ برابر بھی ایمان ہے اس طرح کے سب لوگ اس ہوا کے اثر سے مرچکیں گے اور شیطان کے بہکانے سے دنیا میں پھر پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح بت پرستی کی زور ہوجائے گا اس وقت پہلا صور پھونکا جائے گا شروع شروع اس صور کی آواز سے لوگوں کے دلوں میں ایک گھبراہٹ پیدا ہوگی اور اس صور کی شروع کی آواز سے زمین کو حرکت ہو کر ایک زلزلہ بھی آوے گا پھر صور کی آواز بڑھتے بڑھتے زمین آسمان سب دنیا فنا ہوجائے گی مسند امام احمد ابوداؤد ونسائی صحیح ابن خزیمہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں اوس (رض) بن ثقفی کی روایت ٤ ؎ ہے جس کو ابن خزیمہ اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ٥ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جمعہ کے دن آپ نے فرمایا کہ صور پھونکا جائے گا حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے صور کی دو حالتیں ہوں گی اس کی شروع آواز سے لوگ گھبرائیں گی اور بےہوش ہوجائیں گے اور پھر رفتہ رفتہ اس کی آواز ایسی سخت ہوجائے گی جس سے پہاڑ زمین آسمان سب دنیا فنا ہوجائے گی پہلی حالت کا نام نفخہ فزع ہے اور دوسری حالت کا نام نفخہ صعقہ اور دوسرا صور وہ ہے جس سے تمام دنیا پھر جی اٹھے گی اس کا نام نفخہ قیام ہے جن مفسروں نے تین صور پھونکے جانے کا ذکر اپنی تفسیروں میں لکھا ہے اگر ان کا مطلب اس سے یہی ہے کہ پہلے صور کی حالتیں دو صور کے قائم مقام ہیں تو یہ مطلب صحیح ہے اور اگر یہ مطلب ہے کہ صور خودتین دفعہ پھونکے جاویں گے تو تین صور کی روایت ضعیف ہے غرض اوپر کی آیتوں میں صور کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں نیکی بدی اور نیکی کرنے والوں کی امن میں رہنے کا اور بدی کرنے والوں کا خرابی میں پھنسنے کا ذکر جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں دونوں صور کا ذکر ہے گھبراہٹ اور پہاڑوں کی بادلوں کی طرح چلنا پہلے صور کی حالت کے بیان میں ہے اور مخلوقات کا عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا اور نیکی بدی کا نتیجہ دوسرے صور کی حالت کا بیان ہے بعضے مفسروں نے یہ ایک شبہ بھی یہاں پیدا کیا ہے کہ ان آیتوں میں پہلے تو فرمایا ہے کہ جب صور پھونکا جاوے گا تو اہل آسمان اور زمین سب گھبرا جاویں گے اور پھر فرمایا کہ نیک لوگ اس دن امن میں رہیں گے ان دونوں آیتوں میں مطابقت کیوں کر ہے اس کا جواب مفسرین نے یہ دیا ہے کہ پہلے پہل تو قیامت کا خوف سب کو ہوگا لیکن پھر میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی روایت ١ ؎ سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تنہائی میں بعضے گنہگار مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ یاد دلاوے گا جب وہ ڈریں گے کہ ان کی پکڑ ہوئی تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرماوے گا اور کافر اور منافقوں پر سب کے سامنے لعنت فرماوے گا مسند امام احمد صحیح بخاری ومسلم اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے حدیث ٢ ؎ قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک اور زیادہ نیک نیتی کی نیکیوں کا بدلہ اس سے بھی زیادہ دیا جائے گا یہ حدیث فلہ خیر منھا کی گویا تفسیر ہے اسی طرح صحیح بخاری ومسلم اور ترمذی میں اسن بن مالک (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے روایتیں ٣ ؎ ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ حشر کے منکر لوگ اس دن منہ کے بل گھسیٹے جاکر دوزخ میں جھونکے جاویں گے یہ روایتیں فکبت وجوھم فی النار کی گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:89) الحسنۃ۔ نیکی ۔ بھلائی۔ خوبی۔ نعمت۔ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کی جان یا بدن یا حالات میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنۃ کہلاتی ہے سیئۃ اس کی ضد ہے۔ بعض کے نزدیک الحسنۃ کی تفسیر کلمہ توحید ہے اور اسی طرح اگلی آیت میں السیئۃ کی تفسیر شرک ہے۔ خیر یہاں تفضیل کے معنوں میں آیا ہے یعنی بہتر خواہ دوام کی صورت میں ہو یا کہ اضعاف کی صورت میں ۔ منھا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الحسنۃ کی طرف راجع ہے۔ فزع ڈر، خوف، گھبراہٹ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ نیکی سے مراد ہر نیک کام ہے بعض مفسرین (رح) نے اس سے مراد ” لا الہ الا اللہ “ بعض نے اخلاص اور بعض نے فرائض کی ادائی کی ہے لیکن بہت یہ ہے کہ اسے عام رکھا جائے، تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن اعمال کی بنیاد پر لوگ دو قسم کے ہونگے، ذلت اور درماندگی سے محفوظ رہنے والے حضرات اور ان کے مقابلے میں ذلیل ہونے والے لوگ۔ آیت ٨٧ میں ذکر ہوا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو زمینوں، آسمانوں اور اِ ن کے درمیان جو چیز ہے وہ لرز اور گھبرا جائے گی سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ اس ذلت اور گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ اب ذلّت سے محفوظ اور اس سے دوچار ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس شخص نے نیک کاموں میں زندگی بسر کی اس کے لیے بہترین بدلہ ہوگا اور اس دن ان کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھا جائے گا۔ جس شخص نے برائی کے کاموں میں زندگی گزار دی اسے آگ میں الٹے منہ ڈالا جائے گا اور اعلان ہوگا کہ تمہیں صرف تمہارے برے اعمال کی سزا دی جائے گی۔ یعنی وہ اس لحاظ سے بھی بہتر ہوگا کہ جتنی نیکی اس سے زیادہ انعام اسے دیا جائے گا اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی نیکی تو وقتی تھی اور اس کے اثرات بھی دنیا میں ایک محدود زمانے کے لیے تھے مگر اس کا اجر دائمی اور ابدی ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نیک لوگوں پر احسان ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے : ” جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جو برائی کرے تو اسے صرف اسی کی سزا ملے گی۔ (الانعام : ١٦٠) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (١) انصاف کرنے والا حکمران (٢) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں جانے کے لیے فکر مند رہتا ہے (٤) دو آدمی جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (٥) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (٦) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین و جمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (٧) وہ آدمی جس نے صدقہ کیا اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ “ (رواہ البخاری : باب الصَّدَقَۃِ بالْیَمِینِ ) (وَعَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کَیْفَ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ قَالَ اَلَیْسَ الَّذِیْ اَمْشَاہُ عَلٰی الرِّجْلَیْنِ فِیْ الدُّنْیَا قَادِرٌ عَلٰی اَنْ یُّمْشِیَہٗ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔ (متفق علیہ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا۔ اے اللہ کے رسول ! قیامت کے دن کافر کس طرح منہ کے بل چل کر میدان محشر کی طرف جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا وہ ذات اس بات پر قدرت نہیں رکھتی ‘ جس نے دنیا میں ان کو پاؤں پر چلنے کی طاقت دی قیامت کے دن ان کو منہ کے بل چلائے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کو ان کی نیکیوں کی جزا دی جائے گی۔ ٢۔ نیک لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھا جائے گا۔ ٣۔ برے لوگوں کو جہنم میں الٹے منہ پھینکا جائے گا۔ ٤۔ برے لوگوں کو ان کی برائی کے برابر سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن نیک اور برے لوگوں کے درمیان فرق : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلّت اور نحوست نہیں ہوگی اور وہ جنت میں قیام کریں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٤۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس : ٣٨) ٦۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٧۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٨۔ ” اللہ “ کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ ) (جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر ہے) حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس آیت سے کلمہ اسلام (لاَ اِلٰہَ اِ لاَّ اللّٰہُ ) مراد ہے اور (فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْھَا) کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) سے فرمایا ہے ای وصل الیہ الخیر منھا یعنی اس کلمہ کی خیر اسے پہنچ جائے گی جو داخل جنت کی صورت میں حاصل ہوگی اس تفسیر کی بناء پر لفظ خیر اسم تفصیل کے لیے نہیں ہے اور مومن ابتدائے غایت کے لیے ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ خیر اسم تفصیل ہی کے معنی میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی رویت بندے کے تھوڑے سے عمل سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے اور بہتر ہے اگر حسنہ سے فرائض اور دیگر اعمال مراد لیے جائیں تو نیکیوں کو چند در چند اضافہ فرما کر جو ثواب دیا جائے گا وہ بھی خیر منھا کا مصداق ہے جیسا کہ دوسری آیت میں (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا) و راجع تفسیر القرطبی۔ (ج ٣٣ و روح المعانی) (وَ ھُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَءِذٍ اٰمِنُوْنَ ) (اور یہ لوگ اس دن کی گھبراہٹ سے بےخوف ہوں گے) اس سے پہلی آیت میں گزرا ہے (فَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ ) اور یہاں اصحاب حسنہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ گھبراہٹ سے پر امن اور بےخوف ہوں گے فزع اول سے کیا مراد ہے اور فزع ثانی سے کیا مراد ہے ؟ فزع اول کے بارے میں آیت میں تصریح ہے کہ وہ نفخ صور کے وقت ہوگا اور اس میں یہ بھی ہے کہ آسمان اور زمین میں جو بھی ہوں گے سب گھبرا جائیں گے اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں جس فزع کا ذکر ہے وہ فزع اول کے علاوہ ہے بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے وہ فزع مراد ہے جو اس وقت ہوگی جب دوزخ میں جانے والوں کے بارے میں حکم ہوگا کہ انہیں دوزخ میں بھیج دیا جائے، اور ایک قول یہ ہے کہ فزع ثانی سے وہ گھبراہٹ مراد ہے جب موت کے ذبح کردیئے جانے کے بعد زور سے پکار کر کہہ دیا جائے گا اے جنتیو ! اس میں ہمیشہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہ آئے گی اور اے دوزخیو تم اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے کبھی موت نہ آئے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76:۔ یہ بشارت اخروی ہے۔ جو لوگ توحید پر قائم رہے اور اس کے مطابق عمل کیا انہیں بہترین جزا ملے گی اور قیامت کی گھبراہٹ سے بھی وہ محفوظ رہیں گے۔ بالحسنۃ ای بکلمۃ الاخلاص وھی شہادۃ ان لا الہ الا اللہ (معالم و خازن ج 5 ص 132) ای بقول لا الہ الا اللہ عند الجمہور (مدارک ج 3 ص 171) ۔ وعن ابن عباس (رض) الحسنۃ کلمۃ الشہادۃ (ابو السعود ج 6 ص 635) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89۔ جو شخص نیکی لے کر حاضر ہوگا تو اس کو اس نیکی سے بہتر بدلا ملے گا اور وہ نیکی والے اس دن ہر قسم کی گھبراہٹ سے امن میں رہیں گے۔ شاید یہاں نیکی سے ایمان مراد ہے یعنی ایمان والے اس دن گھبراہٹ کے موقعوں سے مامون رہیں گے۔ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے۔ ان الذین سبقت لھم منا الحسنی یا یہ مطلب ہے کہ ایک نیکی کے بدلہ دس نیکیوں کا اجرو ثواب یہ کم سے کم ہوگا ۔ اور جو شخص بدی اور برائی لے کر حاضرہو گا تو ایسے لوگ اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا تم کو انہی اعمال کا بدلہ دیا جا رہا ہے جو تم کیا کرتے تھے ۔ یعنی کفر و شرک کی برائی مبتلاہو کر آنے والے اوندھے منہ جہنم میں ڈالے جائیں گے اور یہ کہا جائیگا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ظلم و زیادتی نہیں جیسا کہ کیا تھا اسی کی سزا بھگت رہے ہو۔