Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 12

سورة القصص

وَ حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَرَاضِعَ مِنۡ قَبۡلُ فَقَالَتۡ ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰۤی اَہۡلِ بَیۡتٍ یَّکۡفُلُوۡنَہٗ لَکُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ نٰصِحُوۡنَ ﴿۱۲﴾

And We had prevented from him [all] wet nurses before, so she said, "Shall I direct you to a household that will be responsible for him for you while they are to him [for his upbringing] sincere?"

ان کے پہنچنے سے پہلے ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا یہ کہنے لگی کہ کیا میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے اور ہوں بھی وہ اس بچے کے خیر خواہ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ ... And We had already forbidden foster suckling mothers for him, Because of his honored status with Allah, it was forbidden by divine decree. It was decreed that no one should nurse him except his own mother, and Allah caused this to be the means reuniting him with his mother so that she could nurse him and feel safe after having felt such fe... ar. When (his sister) saw that they were confused over who should nurse the child, ... فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ she said: "Shall I direct you to a household who will rear him for you, and look after him in a good manner'!' Ibn Abbas said: When she said that, they had some doubts about her, so they seized her and asked her, How do you know these people will be sincere and will care for him?" She said to them, "They will be sincere and will care for him because they want the king to be happy and because they hope for some reward." So they let her go. After what she said, being safe from their harm, they took her to their house and brought the baby to his mother. She gave him her breast and he accepted it, so they rejoiced and sent the glad tidings to the wife of Fir`awn. She called for Musa's mother, treating her kindly and rewarding her generously. She did not realize that she was his real mother, but she saw that the baby accepted her breast. Then Asiyah asked her to stay with her and nurse the baby, but she refused, saying, "I have a husband and children, and I cannot stay with you, but if you would like me to nurse him in my own home, I will do that." The wife of Fir`awn agreed to that, and paid her a regular salary and gave her extra gifts and clothing and treated her kindly. The mother of Musa came back with her child, happy that after a time of fear Allah granted her security, prestige, and ongoing provision. There was only a short time between the distress and the way out, a day and night, or thereabouts -- and Allah knows best. Glory be to the One in Whose hands are all things; what He wills happens and what He does not will does not happen. He is the One Who grants those who fear Him, a way out from every worry and distress, Allah said:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کردیا، چناچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انھیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ 122یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں...  تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے۔ 123چناچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ چناچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] جب فرعون اور اس کی بیوی نے یہ طے کرلیا کہ وہ خود اس بچہ کی پرورش کریں گے۔ تو اس کے لئے دودھ پلانے والی انا کی تلاش ہونے لگی۔ مگر جو بھی انا یا دایہ لائی جاتی۔ حضرت موسیٰ کو اس کا دودھ پینے کی کچھ رغبت نہ ہوتی۔ یہ بھی دراصل مشیت الٰہی کا ایک کرشمہ تھا کہ کئی دنوں سے بھوکا بچہ کسی بھی دایہ کا دو... دھ پینے سے انکار کردیتا تھا۔ فرعون کے گھر والوں کے سخت تشویش لاحق ہوئی کہ اس کی تربیت کا معاملہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہ لوگ اس تلاش و تجسّس میں تھے کہ موسیٰ کی بہن نے مشورہ کے طور پر ان سے کہا کہ میں تم کو ایک گھرانے کا پتا بتلائے دیتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس بچہ کو پال دیں گے۔ شریف گھرانہ ہے۔ غور و فکر سے اس بچے کی تربیت بھی کریں گے۔ چناچہ لڑکی کے مشورہ کے مطابق ام موسیٰ کو طلب کیا گیا جونہی ام موسیٰ نے بچہ اپنی چھاتی سے لگایا تو بچہ نے دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح آل فرعون کی ایک بہت بڑی پریشانی دور ہوگئی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ :” الْمَرَاضِعَ “ ” مُرْضِعٌ“ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، یعنی دودھ پلانے والیاں اور ” مَرْضَعٌ“ کی بھی جو ظرف مکان ہو تو مراد دودھ پلانے کی جگہ ہوگی، یعنی دودھ کی چھاتیاں اور اگر مصدر میمی ہو تو مراد تمام دودھ ہوں گے، یعنی ہم نے اپنی تقدیر میں طے شدہ حکم کے ذریعے سے موس... یٰ (علیہ السلام) پر تمام دودھ پہلے ہی حرام کردیے تھے، یعنی پینے سے منع کردیا تھا۔ فرعون کی بیوی کو موسیٰ (علیہ السلام) سے بےپناہ محبت ہوگئی تھی اور وہ ہر قیمت پر ان کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، مگر جو دایہ بھی لائی گئی، موسیٰ نے اس کا دودھ پینے سے انکار کردیا۔ فرعون کی بیوی سخت فکر مند تھی کہ دودھ نہ پینے کی وجہ سے اتنا پیارا بچہ کہیں فوت نہ ہوجائے۔ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰٓي اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن اجنبی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو اس نے موقع پا کر کہا، کیا میں تمہیں ایک ایسے گھر والے بتاؤں جو تمہارے لیے اس کی کفالت کریں گے اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں گے۔ یہاں درمیان کی بات چھوڑ دی گئی ہے، کیونکہ وہ خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ فرعون کے گھر والوں نے اس سے پوچھا کہ وہ گھر والے کون ہیں ؟ اس نے کہا، میری ماں۔ انھوں نے کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ تمہارا ہے اور تم اس کے متعلق جانتی ہو۔ اس نے کہا، بلکہ ہم بادشاہ کے خیرخواہ اور مخلص محبت کرنے والے ہیں، اس لیے اس بچے کی خیر خواہی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا، تمہاری اماں کے ہاں دودھ کہاں سے آیا ؟ اس نے کہا، میرا بھائی ہارون پچھلے سال پیدا ہوا ہے اور دودھ پی رہا ہے۔ غرض انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلوایا، کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سلطنت کی ملکہ ہر حال میں اس کے لیے دودھ کا انتظام کرنا چاہتی تھی، جوں ہی ماں نے بچے کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی، بچہ خوش ہو کر دودھ پینے لگا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَحَرَّمْنَا عَلَيْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰٓي اَہْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَہٗ لَكُمْ وَہُمْ لَہٗ نٰصِحُوْنَ۝ ١٢ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: و... َحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ رضع يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ «1» ، ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه «2» ، فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة/ 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق/ 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» «3» ، وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة/ 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم . ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة/ 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق/ 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة/ 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔ دلَ الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات، والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره . ( د ل ل ) الدلا لۃ ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ كفل الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا [ آل عمران/ 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201] ( ک ف ل ) الکفالۃ ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران/ 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص/ 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل/ 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید/ 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة/ 201 نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی والدہ کے آنے سے پہلے دودھ پلانے والیوں کہ وہ کسی کا دودھ نہ لیتے تھے یہ موقع دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے فرعونیوں سے کہا کیا میں تمہیں ایسے گھرانے کا پتا بتاؤں جو اس بچے کی اچھی طرح پرورش کریں اور عادت کے موافق دل سے اس کی خیر خواہی کر... یں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ ) ” یہ سب کچھ اس بچی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ یعنی یکے بعد دیگرے دودھ پلانے والی بہت سی خواتین کو بلایا گیا تھا مگر بچے نے کسی کی چھاتی کو منہ نہیں لگایا تھا۔ سورة طٰہٰ کی آیت ٣٩ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بچپنے کی من موہنی صو... رت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ج) کہ میں نے تم پر اپنی محبت کا پرتو ڈال دیا تھا۔ چناچہ وہ سب لوگ آپ ( علیہ السلام) کی صورت کے گرویدہ ہو رہے تھے مگر ساتھ ہی سخت تشویش میں مبتلا بھی تھے کہ آپ ( علیہ السلام) کی خوراک کا کیا انتظام کیا جائے۔ کسی خاتون کا دودھ آپ ( علیہ السلام) قبول ہی نہیں کر رہے تھے اور اس زمانے میں بچے کو دودھ پلانے کا کوئی دوسرا طریقہ تھا ہی نہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 That is, "The child would not take to any nurse whom the queen would call for suckling him." 15 This shows that the sister did not go and sit back at home when she found that her brother had reached Pharaoh's palace, but cleverly hung about the palace to watch every new development. Then, when she found that the child was not taking to any nurse, and the queen was anxious to get a nurse who wo... uld suit it, the intelligent girl went straight into the palace, and said, "I can tell you the whereabouts of a nurse, who will bring him up with great affection." Here it should be borne in mind that in old days the well-to-do and noble families of these countries generally used to entrust their children to nurses for bringing up. We know that in the time of the Holy Prophet also nurses from the suburbs used to visit Makkah from time to time in order to get infants from the well-to-do families for suckling and nursing on rich wages. The Holy Prophet himself was brought up by Halimah Sa diyah in the desert. The same custom was prevalent in Egypt. that is why the Prophet Moses' sister did not say that she would bring a suitable nurse, but said that she would tell them of a house whose people would take up the responsibility of bringing him up with care and affection.  Show more

سورة القصص حاشیہ نمبر : 14 یعنی فرعون کی بیوی جس انا کو بھی دودھ پلانے کے لیے بلاتی تھی بچہ اس کی چھاتی کو منہ نہ لگاتا تھا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 15 اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے محل میں بھائی کے پہنچ جانے کے بعد بہن گھر نہیں بیٹھ گئی ، بلکہ وہ اپنی اسی ہوشیاری کے ساتھ محل کے آس پاس چکر لگاتی ... رہی ، پھر جب اسے پتہ چلا کہ بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا ہے اور ملکہ عالیہ پریشان ہیں کہ کوئی ایسی انا ملے جو بچے کو پسند آئے تو وہ ذہین لڑکی سیدھی محل میں پہنچ گئی اور جاکر کہا کہ میں ایک اچھی انا کا پتہ بتاتی ہوں جو اس بچے کو بڑی شفقت کے ساتھ پا لے گی ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے عموما اناؤں کے سپرد کردیتے تھے اور وہ اپنے ہاں ان کی پرورش کرتی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ مکہ میں وقتا فوقتا اطراف و نواح کی عورتیں انا گیری کی خدمت کے لیے آتی تھیں اور سرداروں کے بچے دودھ پلانے کے لیے اچھے اچھے معاوضوں پر حاصل کر کے ساتھ لے جاتی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی ہے ۔ یہی طریقہ مصر میں بھی تھا ، اسی بنا پر حضرت موسی کی بہن نے یہ نہیں کہا کہ میں ایک اچھی انا لا کر دیتی ہوں ، بلکہ یہ کہا کہ میں ایسے گھر کا پتہ بتاتی ہوں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں گے اور اسے خیر خواہی کے ساتھ پالیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: فرعون کی اہلیہ نے جب بچے کو پالنے کا ارادہ کرلیا تو ان کو دودھ پلانے والی کی تلاش شروع ہوئی، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کسی بھی عورت کا دودھ منہ میں نہیں لیتے تھے۔ حضرت آسیہ نے اپنی کنیزیں بھیجیں کہ وہ کوئی ایسی عورت تلاش کریں جس کا دودھ یہ قبول کرلیں۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی الدہ بچے...  کو دریا میں ڈالنے کے بعد بے چین تھیں۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو دیکھنے کے لیے بھیجا کہ بچہ کا انجام کیا ہوا؟ یہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسی جگہ پہنچ گئیں، جہاں فرعون کی کنیزیں پریشانی کے عالم میں دودھ پلانے والی عورتوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ ان کو موقع مل گیا، اور انہوں نے اپنی والدہ کو یہ خدمت سونپنے کی تجویز پیش کی، اور انہیں وہاں لے بھی آئیں۔ جب انہوں نے بچے کو دودھ پلانا چاہا تو بچے نے آرام سے دودھ پی لیا، اور پھر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق بچہ دوبارہ ان کے پاس آگیا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:12) المواضع۔ اگر یہ مرضع کی جمع ہے تو اس کے معنی ہوں گے دودھ پلانے والی دائیاں َ اس صورت میں یہ اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث ہے اور اگر یہ مرضع کی جمع ہے تو یہ اسم ظرف ہے یا مصدر میمی۔ اور معنی ہوں گے چھاتیاں ۔ دودھ پینے کی جگہ۔ یا دودھ پلانا۔ رضع ورضاع ورضاعۃ (ابواب سمع ، ضرب) بچے کا مال کا دودھ ... پینا۔ اور باب افعال سے ارضاع دودھ پلانا۔ اور باب استفعال سے استرضاع کسی سے دودھ پلوانا۔ وحرمنا علیہ المراضع من قبل : حرم روک لینا۔ منع کرنا۔ اور ہم نے اس سے قبل ہی اس پر دائیوں کا دودھ روک دیا تھا (یعنی وہ پیتے ہی نہ تھے) ۔ من قبل : ای من قبل ان نردھا الی امہ۔ اسے اپنی ماں کے پاس واپس کرنے سے پہلے۔ فقالت : ای دخلت بین المراضع ورأتہ لا یقبل ثدیا فقالت وہ دوسری دائیوں کے ساتھ وہاں پہنچی اور اس نے دیکھا کہ (بچہ) کسی کے پستان سے دودھ نہیں پی رہا تو اس نے کہا۔ ادلکم۔ مضارع واحد متکلم دل یدل دلالۃ (نصر) سے مصدر۔ رہنمائی کرنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ (کیا) میں تم کو بتاؤں یا تمہاری رہنمائی کروں۔ یکفلونہ لکم : یکفلون مضارع جمع مذکر غائب۔ کفالۃ مصدر (باب نصر) وہ کفالت کریں گے ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ جس کا مرجع موسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ جو تمہاری خاطر اس (بچہ) کی پرورش کریں گے۔ ناصحون۔ اسم فاعل جمع مذکر خیر خواہی کرنے والے۔ وہم لہ نصحون ای لا یقصدرون فی خدمتہ وتربیتہ وہ اس کی دیکھ بھال اور ترتیب میں کوتاہی نہیں کریں گے۔ کی۔ تاکہ۔ مضارع پر داخل ہوتا ہے اور اسے نصب دیتا ہے۔ تقر۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ قر یقر (باب سمع) قرۃ وقرور مصدر۔ جس کے معنی خوشی سے آنکھیں روشن ہوجانا اور ٹھنڈی رہنا کے ہیں اگر اس کا مصدر قرارلیا جائے تو معنی ہوں گے سکون پانا۔ قرار پکڑنا۔ کی تقر عینھا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں لاتحزن۔ مضارع منفی واحد مؤنث غائب منصوب بوجہ عمل کی۔ حزن مصدر باب سمع۔ تاکہ وہ غم نہ کھائے۔ غمگین نہ ہو وے۔ لتعلم میں لام تعلیل کا ہے اور اسی کے عمل سے مضارع منصوب ہے۔ تاکہ وہ جان لے۔ ولکن اکثرھم لا یعلمون (ان وعدہ حق) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (یا یقین نہیں رکھتے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے) اکثرھم بمعنی اکثر الناس۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی فرعون کے گھر والے جس انا کو بھی دودھ پلانے کے لئے بلاتے بچہ اس کی چھاتی کو منہ تک نہ لگاتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دائیوں کا دودھ پینے سے انکار۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کے سوا دوسری عورتوں کا دودھ نہ پیا۔ جس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دوسری دائیوں کا دودھ پینا حرام کردیا تھا۔ دودھ پلانے والی عورتوں نے بہت جتن کیے لیکن ... حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کسی عورت کی چھاتی کو منہ لگانے کے لیے تیار نہ ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے ساتھ الہام کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ اے اُمّ موسیٰ ! غم کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تیرے لخت جگر کو نہ صرف تیرے پاس لائے گا بلکہ وقت آنے پر اسے الرّسول بنایا جائے گا۔ رب کریم نے اپنے وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ کے دودھ کے سوا کسی کا دودھ پینے کے لیے تیار ہی نہ ہوئے۔ دوسری طرف فرعون کی بیوی کا حال یہ تھا کہ وہ بچے کو بھوکا دیکھ کر بےقرار ہوئے جارہی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی بیوی کے دل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی محبت ڈال دی تھی اس لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بیزاری کا اظہار کرنے کی بجائے اس فکر میں تڑپنے لگے کہ اگر بچے نے دودھ نہ پیا تو اس کی زندگی خطرہ میں پڑجائے گی۔ اس صورتحال میں ایک بی بی نے کہا جس کے بارے میں مفسرین کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن تھی جس نے کہا کہ میں تمہیں ایسے گھر کی نشاندہی کرتی ہوں جو اس بچے کی کفالت بڑی خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ کریں گے۔ چنانچہ اس طرح ان کا موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے رابطہ ہوا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی جدائی کا غم دور ہوجائے اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچ اور برحق ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اس سے بےعلم ہوتے ہیں۔ بےعلم سے مراد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کیے ہوئے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَبَیْرِ بْنِ نُفَیْرِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْنَ یَغْزَؤُنْ مِنْ اُمَّتِیْ وَیَاْخُذُوْنَ اَلَجَعْلَ یَتَقُوَّوُنَ عَلَی عَدُوِّہِمْ مِثْلِ اُمِ مُوْسٰی تَرَضَعُ وَلَدَہَا وَتَاخُذَ اَجُوْہَا) [ سنن الکبری للبیہقی ] ” حضرت عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے غازیوں کی مثال جو اپنی مزدوری لیتے ہیں اور اپنے دشمن پہ جھپٹتے ہیں۔ موسیٰ کی ماں کی طرح ہے جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا اور اجرت حاصل کی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر دوسری عورتوں کا دودھ حرام قرار دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی ماں کے ہاں لوٹا دیا۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ کے وعدے پکے اور سچے ہوتے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے۔ (الاحزاب : ٤) ٢۔ جان لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے۔ (القصص : ١٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کے لحاظ سے کون زیادہ سچا ہے۔ (النساء : ٨٧) ٤۔ کفار عذاب کے بارے میں جلدی کر رہے ہیں اللہ اپنے وعدے کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ ( الحج : ٤٧) ٥۔ اللہ کے قول سے بڑھ کر کس کا قول سچا ہوسکتا ہے۔ (النساء : ١٢٢) ٦۔ فرما دیجئے کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے تو اللہ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ ( البقرۃ : ٨٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وحرمنا علیہ المراضع ۔۔۔۔۔۔۔ وھم لہ نصحون (12) ” اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں۔ (یہ حالت دیکھ کر) اس لڑکی نے ان سے کہا ” میں تمہیں ایسے گھر کا پتہ بتاؤں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں “۔ قدرت الہیہ کے اس عجوبے پر غور کیجئے ... ، اسے پیدا کیا گیا ہے اور اس کو پالا گیا ہے اس لیے کہ فرعون اور اس کی قوم کے لیے باعث ہلاکت ہو ، لیکن تدبیر یوں ہے کہ وہ خود اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ، اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں ، اس کے لئے دودھ پلانے والی کی تلاش کرتے ہیں۔ دست قدرت اس پر تمام پلانے والیوں کا دودھ حرام کردیتا ہے۔ دودھ پلانے والیاں دودھ پیش کرتی ہیں اور وہ پستان منہ میں نہیں لیتا۔ انہیں یہ خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ مر ہی نہ جائے۔ اس کی بہن دور سے یہ منظر دیکھتی ہے۔ قدرت اس کے لئے بات کرنے کے مواقع پیدا کردیتی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر پیشکش کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی عورت کا پتہ دے دوں جو اس کی اچھی طرح تربیت کرے اور وہ اس کے لیے خیر خواہ بھی ہو وہ خوشی خوشی اس پیشکش کو منظور کرلیتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ اگر یہ بچہ اس عورت کا دودھ لے لے ، اور اس طرح موت سے بچ جائے تو بہت ہی اچھا ہو کیونکہ یہ بہت ہی پیارا بچہ ہے۔ اب یہاں یہ چوتھا منظر بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اب ہم اس کڑی کے پانچویں اور آخری منظر کے سامنے ہیں۔ یہ بچہ اب اپنی بےتاب ماں کی گود میں ہے۔ اس کو سکون مل گیا ہے۔ شاہی بچے کو دودھ پلانے کی وجہ سے ایک بلند مقام بھی مل گیا ہے۔ فرعون اور اس کی بیوی دونوں اس بچے کا خیال رکھتے ہیں ، خوف کے سائے اس کے اردگرد منڈلاتے ہیں لیکن وہ نہایت ہی پر سکون زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ ہیں دست قدرت کی صنعت کاریاں۔ قدرت کے اس عجوبے کی پہلی کڑی یہاں اختتام کو پہنچی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ تحریم منع سے کنایہ ہے۔ مراضع، مرضع کی جمع ہے یعنی مریم کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دائیوں کا دودھ پینے سے روک دیا۔ اب وہ سب پریشان تھے کہ کیا کریں بچہ کسی دایہ کا دودھ منہ سے بھی نہیں لگاتا۔ جب مریم نے یہ صورت حال دیکھی تو جرات کر کے قریب چلی گئیں اور کہا اگر اجازت ہو...  تو ایک بی بی کا میں بھی پتہ دئیے دیتی ہوں شاید یہ بچہ اس کا دودھ پی لے وہ بی بی اور اس کے گھر والے سب ہی اس بچے کی پیار محبت اور خیر خواہی سے تربیت کریں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12۔ اور ہم نے پہلے ہی سے دودھ پلانے والیوں کے دودھ کی موسیٰ (علیہ السلام) پر بندش کردی تھی اور وہ کسی کا دودھ منہ میں نہ لیتے تھے تب وہ لڑکی بولی میں تم لوگوں کو ایسے گھر والوں کا پتہ بتائوں جو تمہارے لئے اس بچہ کی پرورش کردیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں ۔ یعنی لوگ پریشان تھے کہ بچہ کسی کے دودھ کو...  منہ نہیں لگاتا، اب اس کو کس طرح دودھ پلایاجائے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے کہا اگر تم کہو تو میں ایک خاندان والوں کو بتائوں اور ایسے گھرانے کا پتہ بتائو کہ وہ اس کی کفالت کرلیں اور اس کی پرورش تمہارے لئے کردیں اور وہ اس کے یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے یا فرعون کے خیر خواہ اور وفادار ہوں ، چناچہ لڑکی نے پتہ بتایا اور حضر ت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلایا گیا اور بچہ ان کی پرورش میں دے دیا گیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں فرعون کی عورت تھی بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چچا کی بیٹی اس لفظ سے وہ پہچان گئیں کہ لڑکا ان کا ہے اور جب ان کو لے پالا تو دائیاں ڈھونڈیں کسی کا دودھ انہوں نے نہ پیا نا چار ہوگئے تب ان کی ماں کو بلایا اس کا دودھ پینے لگے اس کو حوالے کیا پالنے کو ایک دینار روز دیا۔ 12  Show more