Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 20

سورة القصص

وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی ۫ قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۲۰﴾

And a man came from the farthest end of the city, running. He said, "O Moses, indeed the eminent ones are conferring over you [intending] to kill you, so leave [the city]; indeed, I am to you of the sincere advisors."

شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا اے موسٰی! یہاں کے سردار تیرے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں پس تو بہت جلد چلا جا مجھے اپنا خیر خواہ مان ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: وَجَاء رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَى قَالَ يَا مُوسَى ... And there came a man running, from the farthest end of the city. He said: "O Musa! He is described as being a man because he had the courage to take a different route, a shorter route than those who were sent after Musa, so he reached Musa first and said to him: "O Musa, ... إِنَّ الْمَلََ يَأْتَمِرُونَ بِكَ ... Verily, the chiefs are taking counsel together about you.," meaning, `they are consulting with one another about you.' ... لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ ... to kill you, so escape. means, from this land. ... إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ Truly, I am one of the good advisers to you.

گمنام ہمدر اس آنے والے کو رجل کہا گیا ۔ عربی میں رجل کہتے ہیں قدموں کو ۔ اس نے جب دیکھا کہ سپاہ حضرت موسیٰ کے تعاقب میں جارہی ہے تو یہ اپنے پاؤں پر تیزی سے دوڑا اور ایک قریب کے راستے سے نکل کر جھٹ سے آپ کو اطلاع دے دی کہ یہاں کے امیر امراء آپ کے قتل کے ارادے کرچکے ہیں آپ شہر چھوڑ دیجئے ۔ میں آپ کا بہی خواہ ہوں میری مان لیجئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201یہ آدمی کون تھا ؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم کا تھا جو در پردہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اوراقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] فرعون کے درباریوں کو اب اس امر میں کچھ شبہ نہ رہا تھا کہ موسیٰ شاہی خاندان کا فرد ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہذا انہوں نے باہمی مشورے کے بعد یہی طے کیا کہ موسیٰ کو قتل کردیا جائے۔ درباریوں میں سے ہی ایک آدمی حضرت موسیٰ کا دل سے خیر خواہ تھا۔ وہ فوراً وہاں سے اٹھا اور دوڑتا ہوا موسیٰ کے پاس پہنچا اور کہا : جتنی جلدی ہو سکے اس شہر سے نکل جاؤ کیونکہ تمہارے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں اور میں صرف اس خیال سے بھاگ کر یہاں پہنچا ہوں کہ تمہیں بروقت صحیح صورت حال سے مطلع کردوں۔ لہذا دیر نہ کرو اور فوراً یہاں سے کہیں دور چلے جاؤ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ۔۔ : ادھر فرعون کے آدمی موسیٰ (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ ہوئے، ادھر مجلس میں موجود ایک شخص فوراً شہر کے سب سے دور کنارے سے گلیوں بازاروں کے قریب ترین راستے سے دوڑتا ہوا آیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگا، موسیٰ ! سردار تمہیں قتل کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں، اس لیے فوراً یہاں سے نکل جاؤ، میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ 3 سورة یٰس میں ہے : (وَجَاۗءَ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَسْعٰى ) [ یٰس : ٢٠ ] جب کہ یہاں ہے : (وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ) مفسرین نے فرمایا، ہر مقام پر وہ لفظ پہلے لایا جاتا ہے جو وہاں اہم ہوتا ہے۔ اس مقام پر اس آدمی کی مردانگی بیان کرنا اہم ہے، اس لیے ” رجل “ کا لفظ پہلے ذکر فرمایا، کیونکہ فرعون کا راز فاش کرنے کے نتیجے سے آگاہ ہونے کے باوجود اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ اطلاع دی اور یہ کسی مرد ہی کا کام ہوسکتا تھا، پھر یہ بھی اس کی مردانگی تھی کہ بہت دور جگہ سے سرکاری دستے سے پہلے پہنچ گیا۔ 3 شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یہ سنایا ہمارے پیغمبر کو کہ لوگ ان کی جان لینے کی فکر کریں گے اور وہ بھی وطن سے نکلیں گے، چناچہ کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں، اسی رات میں آپ وطن سے ہجرت کر گئے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَۃِ يَسْعٰى۝ ٠ۡقَالَ يٰمُوْسٰٓى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّىْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ۝ ٢٠ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قصی القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/ 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال . ( ق ص و ) القصی کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص/اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء/ 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا محاورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی ) سعی السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء/ 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر : 234- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات . ( س ع ی ) السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة/ 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم/ 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة/ 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم/ 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل/ 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء/ 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات/ 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ/ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہامرے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، ( م ل ء ) الملاء ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ نصح النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] ( ن ص ح ) النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) آخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی تجویز قرار پائی وہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیرخواہ تھے جو حزقیل نامی شہر کے اس کنارے سے دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا اے موسیٰ (علیہ السلام) مقتول کے وارثوں نے آپ کے قتل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے سو آپ اس شہر سے فورا چلے جائیے میں آپ کی خیر خواہی کر رہا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰیز) ” یعنی اس دوسرے جھگڑے میں جب قتل کا راز فاش ہوگیا تو اس قبطی نے جا کر مخبری کی ہوگی۔ تب یہ واقعہ پیش آیا ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ فرعون اور دوسرے امرائے سلطنت کے محلات شہر کی عام آبادی سے دور تھے۔ چناچہ ایک شخص وہاں سے دوڑتا ہوا آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک یہ خبر پہنچائی۔ (قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ ) ” یعنی آپ ( علیہ السلام) کے ہاتھوں قبطی کے مارے جانے کی خبر ارباب اقتدار تک پہنچ جانے کے بعد ایوان حکومت میں آپ ( علیہ السلام) کے قتل کی قرار داد پیش ہوچکی تھی اور آپ ( علیہ السلام) کے قتل کی رائے پر سب کا اتفاق ہونے والا تھا۔ یقیناً انہوں نے سوچا ہوگا کہ غلام قوم کا یہ فرد شاہی محل میں رہ کر خود سر اور سرکش ہوگیا ہے۔ آج اس نے ایک قبطی کو قتل کرنے کی جسارت کی ہے تو کل یہ شخص اپنی غلام قوم میں آزادی کی روح پھونک کر انہیں ہمارے خلاف بغاوت پر بھی آمادہ کرسکتا ہے۔ چناچہ اس سے پہلے کہ یہ ہمارے لیے بڑا مسئلہ کھڑا کرے ‘ بہتر ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے۔ (فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ ) ” اس شخص نے آپ ( علیہ السلام) کو یقین دلایا کہ وہ آپ ( علیہ السلام) کو بالکل صحیح مشورہ دے رہا ہے اور آپ ( علیہ السلام) کی بھلائی چاہتا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 This happened when in the second day's fight, the secret of the murder became known and the Egyptian informed the authorities about the case accordingly.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 30 یعنی اس دوسرے جھگڑے میں جب قتل کا راز فاش ہوگیا اور اس مصری نے جاکر مخبری کردی تب یہ واقعہ پیش آیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:20) اقصا المدینۃ : اقصی افعل التفصیل کا صیغہ ہے قصوی مؤنث قصا یقصوا قصو وقصاء (قصی مادہ) دور ہونا۔ یسعی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ سعی مصدر (باب فتح) دوڑتا ہوا۔ السعی تیز چلنے کو کہتے ہیں فلما بلغ معہ السعی (37:102) جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا۔ مناسک حج میں سعی صفا اور مروہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہے۔ یسعی رجل کی صفت ہے یا اس کا حال ہے۔ الملا۔ اسم جمع معرف باللام۔ سرداروں کی جماعت۔ یاتمرون بک۔ یا تمرون مضارع جمع مذکر غائب۔ ایتمار (افتعال) مصدر۔ امر مادہ۔ باہم مشورہ کرنا۔ اگر ایتمار کے صلے میں باء مذکور ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے تو کسی کے متعلق باہم مشورہ کرنے اور قصد کرنے کا معنی ہوتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ اس شخص کا نام بعض نے حزقیل، بعض نے شمعون، بعض نے طالوت اور بعض نے سمعان بتایا ہے اور وہ فرعون کا عمزاد بھائی اور موسن تھا۔ واللہ اعلم۔ (قرطبی) 10 ۔ یہ سنایا ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بھی وطن سے نکلیں جان کے خوف سے، کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں۔ اسی رات نکلے ہجرت کر۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وجآء رجل من اقصا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لک من النصحین (20) ” اس کے بعد ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور بولا ” اے موسیٰ ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں ، یہاں سے نکل جا ، میں تیرا خیر خواہ ہوں “۔ فرعون کے سرداروں ، اس کے حاشیہ نشینوں اور حکومتی افسروں اور اس کے خاص الخاص لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ قتل میں موسیٰ کا ہاتھ ہے۔ اس لیے انہوں نے محسوس کرلیا کہ موسیٰ کی صورت میں خطرہ مجسم ہوکر آلگا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی نوعیت انقلابی اور خطرناک ہے۔ یہ بغاوت کا آغاز ہے۔ اور اس کے محرکات میں بنی اسرائیل کا جذبہ انتقام ہے۔ لہٰذا یہ ایک نہایت خطرناک رجحان ہے اور اس کے انسداد کے لیے سخت تدابیر کی ضرورت ہئ۔ اگر یہ قتل کوئی معمولی واردات ہوتی تو اس پر انتہائی اعلیٰ سطح پر غور کی کیا ضرورت تھی۔ آئے دن انسانوں میں قتل ہوتے رہے ہیں لیکن اس قتل نے پورے نظام حکومت کو ہال کر رکھ دیا۔ انہوں نے بھی تدابیر کا آغاز کیا اور دست قدرت نے بھی اپنا کام شروع کردیا۔ سرداروں میں سے ایک شخص جو موسیٰ کا ہمدرد تھا ، دست قدرت نے اس سے کام لیا۔ یہ شاید وہی شخص ہے جو اپنے ایمان کو چھپا رہا تھا اور جس کا ذکر سورة غافر کی آیت 28 میں ہوا ہے۔ یہ شخص اٹھا اور اس نے حضرت موسیٰ کو اعلیٰ سطح پر ہونے والے مشوروں سے آگاہ کردیا۔ یہ شخص نہایت سنجیدگی ، اہتمام اور جلدی میں آیا اور اس نے شاہی کارندوں کو کسی کاروائی سے قبل حضرت موسیٰ کو اطلاع کردی۔ ان العلا یاتمرون ۔۔۔۔۔ من النصحین (28: 20) ” موسیٰ سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں ، یہاں سے نکل جا ، میں تیرا خیر خواہ ہوں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ اسرائیلی کی گفتگو سے قبطی کے قتل کا معمہ حل ہوگیا اور یہ خبر فورًا فرعون تک پہنچ گئی۔ فروعن اور اس کے مشیروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ فرعون کے رشتہ داروں میں ایک نیک دل انسان (جو بعد میں موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا اور قرآن میں جسے مومن آل فرعون کہا گیا ہے) شمعون یا حزقیل کو اس کی اطلاع ہوگئی وہ دوڑتا ہوا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور دربار فرعون کے فیصلے سے انہیں آگاہ کیا اور مشورہ دیا کہ وہ فورًا اس شہر سے ہجرت کر جائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20۔ ارشاد ہوا اور ایک شخص شہر کے پرلے کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) بلا شبہ اہل دربار آپ کے متعلق مشورہ کر رہے ہیں کہ آپ کو قتل کر ڈالیں پس آپ یہاں سے نکل جائیے اور یقین کیجئے میں آپ کے خیر خواہ ہوں اور بہی خواہوں میں سے ہوں ۔ یعنی وہ شخص موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچ گیا اور اس نے آ کر ان سے کہا فرعون کے درباری آپ کے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں کیونکہ اس فرعون کے خانساماں اور منیجر کے قتل کا پتہ معلوم ہوگیا اور آپ کے مخالفوں کی قوت مضبوط ہوگئی اس لئے میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ شہر سے فوری طور پر نکل جایئے میں آپ کا بھلا چاہنے والوں میں سے ہوں ۔ کہتے ہیں اس نے ہی یہ مشورہ دیا کہ آپ مدین چلے جایئے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مشورے پر عمل کیا اور جس حال میں تھے بغیر کسی خاص انتظام کے نکل کھڑے ہوئے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔