Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 39

سورة القصص

وَ اسۡتَکۡبَرَ ہُوَ وَ جُنُوۡدُہٗ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اِلَیۡنَا لَا یُرۡجَعُوۡنَ ﴿۳۹﴾

And he was arrogant, he and his soldiers, in the land, without right, and they thought that they would not be returned to Us.

اس نے اور اس کے لشکروں نے ناحق طریقے پر ملک میں تکبر کیا اور سمجھ لیا کہ وہ ہماری جانب لوٹائے ہی نہ جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And he and his armies were arrogant in the land, without right, and they thought that they would never return to Us. means, they were arrogant oppressors who spread much mischief in the land, and they believed that there would be no Resurrection. فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ So, your Lord poured on them different kinds of severe torment. Verily, your Lord is Ever Watchful (over them). (89:13-14) Allah says here:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

391زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا، یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل معجزات کا رد کرسکتے لیکن استکبار بلکہ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥١] انھیں اللہ نے زمین کے تھوڑے سے حصہ میں چند دن کے لئے اقتدار بخشا تو وہ یہ سمجھنے لگے کہ ان سے اوپر کوئی ہستی ہے نہیں جو ان سے یہ اقتدار چھین بھی سکتی ہے۔ نہ ہی انھیں کبھی یہ خیال آیا تھا کہ مرنے کے بعد ہمیں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور ہمارے ایک ایک کام سے متعلق ہم سے باز پرس ہونے والی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاسْـتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُوْدُهٗ فِي الْاَرْضِ : ” الْاَرْضِ “ سے مراد زمین مصر ہے۔ یعنی بڑائی کا حق تو صرف اللہ رب العالمین کو ہے، مگر یہ لوگ ایک ذرا سے ملک میں اقتدار پا کر یہ سمجھ بیٹھے کہ بس ہم ہی بڑے ہیں۔ وَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ : یعنی چند روزہ اقتدار پاکر وہ سمجھ بیٹھے کہ ان کے اوپر کوئی ہستی نہیں، جس کے سامنے مر کر انھیں پیش ہونا ہے، لہٰذا کھلی چھٹی ہے جو چاہیں کریں اور ملک میں جو فساد پھیلانا چاہیں پھیلاتے رہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاسْـتَكْبَرَ ہُوَ وَجُنُوْدُہٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ۝ ٣٩ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ جند يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] ( ج ن د ) الجند کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) اور فرعون اور اس کے قبطی لشکر نے ناحق سرزمین مصر میں سراٹھارکھا تھا اور ایمان سے انکار کر رہے تھے اور یوں سمجھ رکھا تھا کہ آخرت میں ان کو ہمارے سامنے پیش ہونا ہی نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54 That is, Allah, Lord of the worlds, alone is entitled to the right to greatness, but Pharaoh and his hosts assumed greatness when they attained a little power in a small territory on the earth. 55 That is, "They thought they were answerable to none and with this assumption they started behaving absolutely independently in their day to day life."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 54 یعنی بڑائی کا حق تو اس کائنات میں صرف اللہ رب العالمین کو ہے ، مگر فرعون اور اس کے لشکر زمین کے ایک ذرا سے خطے میں تھوڑا سا اقتدار پاکر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہاں بڑے بس وہی ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 55 یعنی انہوں نے اپنے آپ کو غیر مسؤل سمجھ لیا اور یہ فرض کر کے خود مختارانہ کام کرنے لگے کہ انہیں جاکر کسی کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی بڑائی کا حق تو صرف اللہ رب العالمین کو ہے مگر یہ لوگ ایک ذرا سے ملک میں اقتدار پا کر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ہم ہی بڑے ہیں۔ 1 ۔ یعنی وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں لہٰذا کھلی چھٹی ہے کہ جو چاہیں کریں، اور جس قسم کی شرارت ملک میں پھیلانا چاہیں پھیلائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ یہ فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی اور ان کے کبر و غرور کا بیان ہے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ دوسروں کو نہایت حقیر و ذلیل سمجھتے ان کا خیال تھا کہ دنیا میں عزت و عظمت انہی کا حق ہے حالانکہ انہیں اپنے کو بڑا اور دوسروں کو غلاموں کی طرح ذلیل سمجھنے کا کوئی حق نہ تھا اسی کبر و نخوت کی وجہ سے انہوں نے حق کو نہا مان یعنی تعظموا عن الایمان ولم ینقادو للحق (خازن ج 5 ص 145) ۔ وہ دولت و حکومت کے نشے میں اس قدر بد مست تھے کہ انہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کا بھی یقین نہ تھا۔ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو زیبا ہے اور صرف اسی کا حق ہے۔ فی الحدیث القدسی الکبریاء ردائی والعظمۃ ازاری فمن نازعنی واحدا منھما القیتہ فی النار (روح ج 20 ص 83) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39۔ اور فرعون اور اس کے ماننے والوں نے ناحق ملک میں سر اٹھا رکھا تھا اور بڑائی کرتے رہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ہماری طر واپس نہ آئیں گے اور ان کو ہماری طرف لوٹنا نہیں ۔ یعنی فرعون اور اس کا لشکر اپنی بڑائی اور تکبر و غرور میں مبتلا رہے اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم خدا کی طر لوٹ کر جانے والے نہیں جب ان کی یہ سرکشی حد سے بڑھی ۔