Commentary وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ (And We gave Musa, after We destroyed the earlier generations, the Book having insights for people - 28:43). The words |"earlier generations|" refer to the people of Nuh, Hud, Salilh, and Lut (علیہم السلام) ، who were destroyed before the time of Sayyidna Musa (علیہ السلام) because of their denial of truth. بَصَائِرَ Basair is the plural of Basirah بَصِیرَہ whose literal meaning is sagacity, insight and discernment. Here it is purported for that light or refulgence which Allah Ta’ ala bestows in the hearts of people with which they find out the truth and discern the distinction between right and wrong. (Mazhari) If the word Nas ناس (people) is used in the phrase بَصَائِرَ لِلنَّاسِ ( (28:43) (insights for people) for the people of Sayyidna Musa (علیہ السلام) then the meaning of the verse is quite clear. No doubt for the people of Sayyidna Musa (علیہ السلام) Torah was the book of wisdom. But if the word is used for all people in whom the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is also included, then the question would arise that the Torah, which is available to the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، is not the original one. In this Torah many changes have taken place. So, how could this Torah be regarded as a book of wisdom for them? Moreover, it will mean that the Muslims too should benefit from the Torah, while there is a well-known hadith that Sayyidna ` Umar (رض) once sought permission from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) for reading Torah, so that he could improve his knowledge and benefit from the injunctions contained in it. On this the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) got angry and said that if Sayyidna Musa (علیہ السلام) was alive, he too would have been required to follow him. (The essence of this retort is that he [ Sayyidna &Umar (رض) ] should concentrate only on his teachings, and that he was not required to look into the teachings of Torah or Injil). It is worth reminding here that it was the time when revelation of Qur&an was still continuing, and in order to eliminate any possibility of mingling of hadith with the Qur&anic text, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had advised some of his companions to stop writing even the hadith. Under such a situation it is obvious that reading of a cancelled divine book was not expedient. It, therefore, does not necessarily follow that reading of Torah and Injil is banned for all times. On the contrary, reading and quoting by the companions of that part of these books in which coming of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was predicted is well established. Sayyidna ` Abdullah Ibn Salam and Ka&b Al-Ahbar (رض) are quite well known for this. Other companions also did not raise a finger against it. The bottom line of this discussion is that it is allowed to benefit from the unaltered part of these books, which no doubt contains wisdom. But only those could draw any benefit from this who can distinguish between the altered and unaltered parts of the books; and they are the expert scholars. A common man should avoid such an exercise, lest he gets entangled in a quandary. The same ruling is applicable to all those books that are a mixture of right and wrong.
خلاصہ تفسیر اور (رسالت کا سلسلہ خلق کے محتاج اصلاح ہونے کے سبب ہمیشہ سے چلا آیا ہے چنانچہ) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (جن کا قصہ ابھی پڑھ چکے ہو) اگلی امتوں (یعنی قوم نوح و عاد وثمود) کے ہلاک ہونے کے پیچھے (جبکہ ان زبانوں کے انبیاء کی تعلیمات نایاب ہوگئی تھیں اور لوگ ہدایت کے سخت حاجتمند تھے) کتاب (یعنی تورات) دی تھی جو لوگوں کے (یعنی بنی اسرائیل کے) لئے دانشمندیوں کا سبب اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ (اس سے) نصیحت حاصل کریں (طالب حق کی اول فہم درست ہوتی ہے یہ بصیرت ہے پھر احکام قبول کرتا ہے یہ ہدایت ہے، پھر ہدایت کا ثمرہ یعنی قرب و قبول عنایت ہوتا ہے۔ یہ رحمت ہے) اور (اسی طرح جب یہ دورہ بھی ختم ہوچکا اور لوگ پھر محتاج تجدید ہدایت ہوئے تو اپنی سنت مستمرہ کے موافق ہم نے آپ کو رسول بنایا جس کے دلائل میں سے ایک یہی واقعہ موسویہ کی یقینی خبر دینا ہے کیونکہ قطعی خبر دینے کے لئے کوئی طریق علم کا ضروری ہے اور وہ طریق منحصر ہے چار میں امور عقلیہ میں عقل، سو یہ واقعہ امور عقلیہ میں سے تو ہے نہیں، اور امور نقلیہ میں یا سماع اہل علم سے جو کہ دوسرا طریق ہے سو یہ بھی بوجہ عدم مخالفت و عدم مدارست اہل اخبار کے منتفی ہے اور یا اپنا مشاہدہ جو کہ تیسرا طریق ہے سو اس کی نفی نہایت ہی اظہر ہے چناچہ ظاہر ہے کہ) آپ (طور کے) مغربی جانب میں موجود نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام دیئے تھے (یعنی توراة دی تھی) اور (وہاں خاص تو کیا موجود ہوتے) آپ (تو) ان لوگوں میں سے (بھی) نہ تھے جو (اس زمانہ میں) موجود تھے (پس احتمال مشاہدہ کا بھی نہ رہا) و لیکن (بات یہ کہ) ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد) بہت سی نسلیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ دراز گزر گیا (جس سے پھر علوم صحیحہ نایاب ہوگئے اور پھر لوگ محتاج ہدایت ہوئے اور گو درمیان درمیان انبیاء (علیہم السلام) آیا کئے مگر ان کے علوم بھی اس طرح نایاب ہوئے اس لئے ہماری رحمت مقتضی ہوئی کہ ہم نے آپ کو وحی و رسالت سے مشرف فرمایا جو کہ چوتھا طریق ہے خبر یقینی کا اور دوسرے طرق علم ظنی کے ہیں جو مبحث ہی سے خارج ہے کیونکہ آپ کی یہ خبریں بالکل یقینی اور قطعی ہیں حاصل یہ کہ علم یقینی کے چار طریقے ہیں اور تین منتفی پس چوتھا متعین اور یہی مطلوب ہے) اور (جیسے آپ نے عطاء توراة کا مشاہدہ نہیں کیا اور صحیح و یقینی خبر دے رہے ہیں اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے قیام مدین کا مشاہدہ نہیں فرمایا چناچہ ظاہر ہے کہ) آپ اہل مدین میں بھی قیام پذیر نہ تھے کہ آپ (وہاں کے حالات دیکھ کر ان حالات کے متعلق) ہماری آیتیں (اپنے) ان (معاصر) لوگوں کو پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہوں و لیکن ہم ہی (آپ کو) رسول بنانے والے ہیں ( کہ رسول بنا کر یہ واقعات وحی سے بتلا دیئے) اور (اسی طرح) آپ طور کی جانب (غربی مذکور) میں اس وقت بھی موجود نہ تھے جب ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کو) پکارا تھا (کہ |" ّٰمُـوْسٰٓي اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ |" جو کہ ان کو نبوت عطا ہونے کا وقت تھا) و لیکن (اس کا علم بھی اسی طرح حاصل ہوا کہ) آپ اپنے رب کی رحمت سے نبی بنائے گئے تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا (نبی) نہیں آیا، کیا عجب ہے کہ نصیحت قبول کرلیں (کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاصرین بلکہ ان کے آباء اقربین نے بھی کسی نبی کو نہیں دیکھا تھا گو بعض شرائع بالخصوص توحید بواسطہ ان تک بھی پہنچی تھی پس وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا سے تعارض نہ رہا) اور (اگر یہ لوگ ذرا تامل کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبر بھیجنے سے ہمارا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ان ہی لوگوں کو فائدہ ہے کہ یہ لوگ حسن و قبح پر مطلع ہو کر عقوبت سے بچ سکتے ہیں ورنہ جن امور کا قبح عقل سے دریافت ہوسکتا ہے اس پر عذاب بلا ارسال رسول بھی ہونا ممکن تھا لیکن اس وقت ان کو ایک گونہ حسرت ہوتی کہ ہائے اگر رسول آجاتا تو ہم کو زیادہ تنبہ ہوجاتا اور اس مصیبت میں نہ پڑتے اس لئے رسول بھی بھیج دیا تاکہ اس حسرت سے بچنا ان کو آسان ہو ورنہ احتمال تھا کہ) ہم رسول نہ بھی بھیجتے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر ان کے کرداروں کے سبب (جو عقلاً قبیح ہیں) کوئی مصیبت (دنیا یا آخرت میں) نازل ہوتی (جس کی نسبت ان کو عقل کے یا فرشتے کے ذریعہ سے یقین ہوجاتا کہ یہ سزائے اعمال ہے) تو یہ کہنے لگتے کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم آپ کے احکام کا اتباع کرتے اور (ان احکام اور رسول پر) ایمان لانے والوں میں سے ہوتے سو (اس امر کا مققضا تو یہ تھا کہ رسول کے آنے کو غنیمت سمجھتے اور اس کے دین حق کو قبول کرتے لیکن ان کی یہ حالت ہوئی کہ) شبہ نکالنے کے لئے یوں) کہنے لگے کہ ان کو ایسی کتاب کیوں نہ ملی جیسی موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی (یعنی قرآن واحدةً مثل توراة کے کیوں نہ نازل ہوا، آگے جواب ہے کہ) کیا جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی اس کے قبل یہ لوگ اس کے منکر نہیں ہوئے (چنانچہ ظاہر ہے کہ مشرکین موسیٰ (علیہ السلام) اور توراۃ کو بھی نہ مانتے تھے کیونکہ وہ سرے سے اصل نبوت ہی کے منکر تھے) یہ لوگ ( قرآن اور توراة دونوں کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے موافق ہیں (یہ اس لئے کہا کہ اصول شرائع میں دونوں متفق ہیں) اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ہم تو دونوں میں کسی کو نہیں مانتے (خواہ یہی عبارت ان کا مقولہ ہوا اور خواہ ان کے اقوال سے لازم آتا ہو اور خواہ ایک ہی ساتھ دونوں کا انکار کیا ہو یا مختلف قول جمع کئے گئے ہوں تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس شبہ کا منشاء قصد ایمان بالقرآن بصورت تماثل توراة کے نہیں بلکہ یہ بھی ایک حیلہ اور شرارت ہے آگے اس کا جواب ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اچھا تو (علاوہ توراة و قرآن کے) تم کوئی اور کتاب اللہ کے پاس سے لے آؤ جو ہدایت کرنے میں ان دونوں سے بہتر ہو میں اسی کی پیروی کرنے لگوں گا، اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (کہ سِحْرٰنِ تَظٰهَرَا جس سے مقصود ان دونوں کتابوں کا نعوذ باللہ مفتری اور غلط ہونا ہے۔ یعنی مقصود تو اتباع حق کا ہے پس اگر کتب الہیہ کو حق مانتے ہو تو ان کی پیروی کرو، قرآن کی تو مطلقاً اور توراة کی توحید و بشارات محمدیہ میں اور اگر ان کو حق نہیں مانتے تو تم کوئی حق پیش کرو اور اس کا حق ہونا ثابت کردو جس کو اہدی ہونے سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ مقصود حق سے اس کا وسیلہ ہدایت ہونا ہے اگر فرضاً ثابت کردو گے تو میں اس کی پیروی کرلوں گا، غرض یہ کہ میں حق ثابت کر دوں تو تم اس کا اتباع کرو، اور اگر تم حق ثابت کردو تو میں اتباع کے لئے آمادہ ہوں اور چونکہ قضیہ شرطیہ میں محض حکم اتصال کا ہوتا ہے اس لئے اتباع غیر کتب الٰہیہ کا اشکال لازم نہیں آتا) پھر (اس احتجاج کے بعد) اگر یہ لوگ آپ کا (یہ) یہ کہنا (کہ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ الخ) نہ کرسکیں (اور ظاہر ہے کہ نہ کرسکیں گے کقولہ تعالیٰ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا اور پھر بھی آپ کا اتباع نہ کریں) تو آپ سمجھ لیجئے کہ (ان سوالات کا منشاء کوئی اشتباہ و تردد و حق جوئی نہیں ہے بلکہ) یہ لوگ محض اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں (ان کا نفس کہتا ہے کہ جس طرح بن پڑے انکار ہی کرنا چاہئے پس یہ ایسا ہی کر رہے ہیں گو حق بھی واضح ہوجاوے) اور ایسے شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو بدون اس کے کہ منجانب اللہ کوئی دلیل (اس کے پاس) ہو (اور) اللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو (جو کہ وضوح حق کے بعد بدون کسی متمسک صحیح کے بھی اپنی گمراہی سے باز نہ آوے) ہدایت نہیں کیا کرتا (جس کا سبب اس شخص کا خود قصد کرنا ہے اپنے گمراہ رہنے کا اور قصد کے بعد خلق فعل عادت ہے اللہ تعالیٰ کی، اس لئے ایسا شخص ہمیشہ گمراہ رہتا ہے، یہاں تک تو جواب الزامی تھا ان کے اس قول کا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي) اور (آگے تحقیقی جواب ہے جس میں قرآن کے دفعۃً واحدةً نازل نہ ہونے کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ) ہم نے اس کلام (یعنی قرآن) کو ان لوگوں کے لئے وقتاً فوقتاً یکے بعد دیگرے بھیجا تاکہ یہ لوگ (بار بار تازہ بتازہ سننے سے) نصیحت مانیں (یعنی ہم تو دفعۃً واحدةً بھیجنے پر بھی قادر ہیں مگر ان ہی کی مصلحت سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں پھر اندھیر ہے کہ اپنی ہی مصلحت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ) معارف و مسائل وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ للنَّاسِ ، قرون اولی سے اقوام نوح و ہود و صالح و لوط (علیہم السلام) مراد ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کی گئی تھیں، اور بصائر، بصیرت کی جمع ہے جس کے لفظی معنے تو دانش و بینش کے ہیں۔ مراد اس سے وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے قلوب میں پیدا فرماتے ہیں جن سے وہ حقائق اشیاء کو دیکھ سکیں اور حق و باطل کا امتیاز کرسکیں۔ (مظہری) بَصَاۗىِٕرَ للنَّاس میں اگر لفظ ناس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے تو بات صاف ہے اس امت کے لئے کتاب توراة ہی مجموعہ بصائر تھی اور اگر لفظ ناس سے تمام انسان مراد ہیں جن میں امت محمدیہ بھی داخل ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوگا کہ امت محمدیہ کے زمانے میں جو تورات موجود ہے وہ تحریفات کے ذریعہ مسخ ہوچکی ہے تو ان کے لئے اس کا بصائر کہنا کیسے درست ہوگا اور یہ کہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کو بھی تورات سے فائدہ اٹھانا چاہئے حالانکہ حدیث میں یہ واقعہ معروف ہے کے حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت طلب کی کہ وہ تورات میں جو نصائح وغیرہ ہیں ان کو پڑھیں تاکہ ان کے علم میں ترقی ہو، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غضبناک ہو کر فرمایا کہ اگر اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا (جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ آپ کو صرف میری تعلیمات کو دیکھنا چاہئے تورات و انجیل کا دیکھنا آپ کے لئے درست نہیں۔ ) مگر اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تورات کا جو اس وقت اہل کتاب کے پاس نسخہ تھا وہ تحریف شدہ تھا اور زمانہ ابتداء اسلام کا تھا جس میں نزول قرآن کا سلسلہ جاری تھا، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مکمل حفاظت کے پیش نظر اپنی احادیث لکھنے سے بھی بعض حضرات کو روک دیا تھا کہ ایسا نہ ہو لوگ قرآن کے ساتھ احادیث کو جوڑ دیں، ان حالات میں کسی دوسری منسوخ شدہ آسمانی کتاب کا پڑھنا پڑھانا ظاہر ہے کہ احتیاط کے خلاف تھا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً تورات و انجیل کے مطالعے اور پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ان کتابوں کے وہ حصے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق پیشین گوئیوں پر مشتمل ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور نقل کرنا صحابہ کرام سے ثابت اور معروف و مشہور ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب احبار اس معاملہ میں سب سے زیادہ معروف ہیں، دوسرے صحابہ کرام نے بھی ان پر نکیر نہیں کیا۔ اس لئے حاصل آیت کا یہ ہوجائے گا کہ تورات و انجیل میں جو غیر محرف مضامین اب بھی موجود ہیں اور بلاشبہ بصائر ہیں، ان سے استفادہ درست ہے مگر ظاہر ہے کہ ان سے استفادہ صرف ایسے ہی لوگ کرسکتے ہیں جو محرف اور غیر محرف میں فرق کرسکیں اور صحیح و غلط کو پہچان سکیں وہ علماء ماہرین ہی ہو سکتے ہیں، عوام کو بیشک اس سے اجتناب اس لئے ضروری ہے کہ وہ کسی مغالطے میں نہ پڑجائیں، یہی حکم ان تمام کتابوں کا ہے جس میں حق کے ساتھ باطل کی آمیزش ہے کہ عوام کو ان کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہئے علماء ماہرین دیکھیں تو مضائقہ نہیں۔