Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 43

سورة القصص

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ الۡاُوۡلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۴۳﴾

And We gave Moses the Scripture, after We had destroyed the former generations, as enlightenment for the people and guidance and mercy that they might be reminded.

اور ان اگلے زمانے والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو ایسی کتاب عنایت فرمائی جو لوگوں کے لئے دلیل اور ہدایت و رحمت ہو کر آئی تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Blessings which Allah bestowed upon Musa Allah tells: وَلَقَدْ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ ... And indeed We gave Musa -- after We had destroyed the generations of old -- the Scripture as an enlightenment for mankind, and a guidance and a mercy, that they might remember. Allah tells us about the blessings which He gave His servant and Messenger Musa, the speaker, may the best of peace and blessings from his Lord be upon him, He revealed the Tawrah to him after He destroyed Fir`awn and his chiefs. ... مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاُْولَى ... after We had destroyed the generations of old, After the revelation of the Tawrah, no nation would again be punished with an overwhelming calamity; instead the believers were now commanded to fight the enemies of Allah among the idolators, as Allah says: وَجَأءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُوْتَفِكَـتُ بِالْخَاطِيَةِ فَعَصَوْاْ رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَّابِيَةً And Fir`awn, and those before him, and the cities overthrown committed sin. And they disobeyed their Lord's Messenger, so He seized them with a strong punishment. (69:9-10) ... بَصَايِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً ... as an enlightenment for mankind, and a guidance and a mercy, guidance from blindness and error. A guidance to the truth and a mercy means, to show the way towards doing righteous deeds. ... لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ that they might remember. means, that the people might be reminded and guided by it.

اس آیت میں ایک لطیف بات یہ ہے کہ فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد والی امتیں اس طرح عذاب آسمانی سے ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ جس امت نے سرکشی کی اس کی سرکشی کا بدلہ اسی زمانے کے نیک لوگوں کے ہاتھوں اللہ نے اسے دلوایا ۔ مومنین مشرکین سے جہاد کرتے رہے جیسے فرمان باری ہے آیت ( وَجَاۗءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهٗ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَةِ Ḍ۝ۚ ) 69- الحاقة:9 ) یعنی فرعون اور جو امتیں اس سے پہلے ہوئیں اور الٹی ہوئی بستی کے رہنے والے یعنی قوم لوط یہ سب لوگ بڑے بڑے قصوروں کے مرتکب ہوئے اور اپنے زمانے کے رسولوں کی نافرمانیوں پر کمر کس لی تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بھی بڑی سخت پکڑ سے پکڑ لیا ۔ اس گروہ کی ہلاکت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت کلیم علیہ من ربہ افضل الصلوۃ والتسلیم پر نازل ہوتے رہے جن میں سے ایک بہت بڑے انعام کا ذکر یہاں ہے کہ انہیں تورات ملی ۔ اس تورات کے نازل ہونے کے بعد کسی قوم کو آسمان کے یا زمین کے عام عذاب سے ہلاک نہیں کیا گیا سوائے اس بستی کے چند مجرموں کے جنہوں نے اللہ کی حرمت کے خلاف ہفتے کے دن شکار کھیلا تھا اور اللہ نے انہیں سور اور بندر بنادیا تھا ۔ یہ واقعہ بیشک حضرت موسیٰ کے بعد کا ہے ۔ جیسے کہ حضرت ابو سیعد خدری نے بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد ہی آپ نے اپنے قول کی شہادت میں یہی آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 43؀ ) 28- القصص:43 ) کی تلاوت فرمائی ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی قوم کو عذاب آسمانی یا زمینی سے ہلاک نہیں کیا ۔ اسے عذاب جتنے آئے آپ سے پہلے آئے ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پھر تورات کے اوصاف بیان ہور ہے ہیں کہ وہ کتاب کو اندھاپے سے گمراہی سے نکالنے والی تھی اور حق کی ہدات کرنے والی تھی ۔ اور آپ کی رحمت سے تھی نیک اعمال کی ہادی تھی ۔ تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور نصیحت بھی ۔ اور راہ راست پر آجائیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

431یعنی فرعون اور اس کی قوم یا نوح و عاد وثمود وغیرہ قوم کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) دی۔ 432جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ 433یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انھیں خیر و رشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] پہلی نسلوں سے مراد اقوام سابقہ ہیں۔ مثلاً قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، قوم شعیب اور قوم فرعون وغیرہ۔ یہ سب لوگ اللہ کے نافرمان اور سرکش لوگ تھے ان سب اقوام نے دنیا کی تکذیب کا نتیجہ بھگت لیا اور فرعون اور ان کے ساتھیوں کا جو انجام ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد ہم نے موسیٰ کو تورات عطا کی جس میں انہی تباہ شدہ اقوام سے متعلق بصیرت افروز دلائل بھی تھے اور آئندہ کے لئے بھی انسانیت کی ہدایت کے واضح ہدایات دی گئیں۔ اور یہ لوگوں پر اللہ کی خاص مہربانی تھی اور ان سب باتوں کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت آئندہ صحیح راہ پر گامزن ہوجائے اور اس کا نیا دور شروع ہو۔ اس صحیح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے تورات نازل کرنے کے بعد پھر کسی قوم کو آسمان کے عذاب سے تباہ نہیں کیا البتہ ایک بستی کے لوگ (اصحاب السبت) بندر بنائے گئے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا ۔۔ : یہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل اور اس پر اعتراضات کا جواب شروع ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ ہم نے یہ بات پہلے آبا و اجداد میں نہیں سنی، جیسا کہ فرمایا : ( مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ ښ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ) [ ص : ٧ ] ” ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔ “ زیر تفسیر آیت سے پہلے آیت (٣٦) میں گزرا ہے کہ یہی اعتراض فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کیا تھا : (وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ ) ” اور ہم نے یہ بات اپنے پہلے باپ دادا میں نہیں سنی۔ “ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے لے کر فرعون کی ہلاکت تک کا واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ہم نے پہلی نسلوں قوم نوح، عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ کو ہلاک کرنے کے بعد جب ہر طرف گمراہی اور ظلمت کا دور دورہ تھا، موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جو اس وقت کے لوگوں کے لیے ایسے دلائل لیے ہوئے تھی جن سے دل کی آنکھ روشن ہوتی ہے اور جو گمراہی سے نکال کر ہدایت میں لانے والی اور عذاب سے بچا کر رحمت کا مستحق بنانے والی تھی۔ اور یہ اعتراض بےکار تھا کہ ہم نے اپنے پہلے باپ دادا میں یہ بات نہیں سنی، کیونکہ اسی لیے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا تھا کہ مدت دراز تک رسول نہ آنے کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت اور روشنی کی ضرورت تھی۔ اسی طرح بنی اسماعیل میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ہزاروں سال کا وقفہ واقع ہوجانے کی وجہ سے ان کی طرف رسول بھیجنے کی ضرورت تھی۔ بنی اسرائیل کی طرف آنے والے آخری رسول عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا، تاکہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی آگاہ کرنے والا نہیں آیا۔ یہی بات آگے آیت (٤٧) میں آرہی ہے اور اس سے پہلے سورة مائدہ میں بھی گزر چکی ہے، فرمایا : (يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰي فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَاۗءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّلَا نَذِيْرٍ ۡ فَقَدْ جَاۗءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّنَذِيْرٌ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) [ المائدۃ : ١٩ ]” اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمہارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، رسولوں کے ایک وقفے کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوش خبری دینے والا آیا اور نہ ڈرانے والا، تو یقیناً تمہارے پاس ایک خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا آچکا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُ‌ونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ‌ لِلنَّاسِ (And We gave Musa, after We destroyed the earlier generations, the Book having insights for people - 28:43). The words |"earlier generations|" refer to the people of Nuh, Hud, Salilh, and Lut (علیہم السلام) ، who were destroyed before the time of Sayyidna Musa (علیہ السلام) because of their denial of truth. بَصَائِرَ‌ Basair is the plural of Basirah بَصِیرَہ whose literal meaning is sagacity, insight and discernment. Here it is purported for that light or refulgence which Allah Ta’ ala bestows in the hearts of people with which they find out the truth and discern the distinction between right and wrong. (Mazhari) If the word Nas ناس (people) is used in the phrase بَصَائِرَ‌ لِلنَّاسِ ( (28:43) (insights for people) for the people of Sayyidna Musa (علیہ السلام) then the meaning of the verse is quite clear. No doubt for the people of Sayyidna Musa (علیہ السلام) Torah was the book of wisdom. But if the word is used for all people in whom the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is also included, then the question would arise that the Torah, which is available to the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، is not the original one. In this Torah many changes have taken place. So, how could this Torah be regarded as a book of wisdom for them? Moreover, it will mean that the Muslims too should benefit from the Torah, while there is a well-known hadith that Sayyidna ` Umar (رض) once sought permission from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) for reading Torah, so that he could improve his knowledge and benefit from the injunctions contained in it. On this the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) got angry and said that if Sayyidna Musa (علیہ السلام) was alive, he too would have been required to follow him. (The essence of this retort is that he [ Sayyidna &Umar (رض) ] should concentrate only on his teachings, and that he was not required to look into the teachings of Torah or Injil). It is worth reminding here that it was the time when revelation of Qur&an was still continuing, and in order to eliminate any possibility of mingling of hadith with the Qur&anic text, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had advised some of his companions to stop writing even the hadith. Under such a situation it is obvious that reading of a cancelled divine book was not expedient. It, therefore, does not necessarily follow that reading of Torah and Injil is banned for all times. On the contrary, reading and quoting by the companions of that part of these books in which coming of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was predicted is well established. Sayyidna ` Abdullah Ibn Salam and Ka&b Al-Ahbar (رض) are quite well known for this. Other companions also did not raise a finger against it. The bottom line of this discussion is that it is allowed to benefit from the unaltered part of these books, which no doubt contains wisdom. But only those could draw any benefit from this who can distinguish between the altered and unaltered parts of the books; and they are the expert scholars. A common man should avoid such an exercise, lest he gets entangled in a quandary. The same ruling is applicable to all those books that are a mixture of right and wrong.

خلاصہ تفسیر اور (رسالت کا سلسلہ خلق کے محتاج اصلاح ہونے کے سبب ہمیشہ سے چلا آیا ہے چنانچہ) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو (جن کا قصہ ابھی پڑھ چکے ہو) اگلی امتوں (یعنی قوم نوح و عاد وثمود) کے ہلاک ہونے کے پیچھے (جبکہ ان زبانوں کے انبیاء کی تعلیمات نایاب ہوگئی تھیں اور لوگ ہدایت کے سخت حاجتمند تھے) کتاب (یعنی تورات) دی تھی جو لوگوں کے (یعنی بنی اسرائیل کے) لئے دانشمندیوں کا سبب اور ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ (اس سے) نصیحت حاصل کریں (طالب حق کی اول فہم درست ہوتی ہے یہ بصیرت ہے پھر احکام قبول کرتا ہے یہ ہدایت ہے، پھر ہدایت کا ثمرہ یعنی قرب و قبول عنایت ہوتا ہے۔ یہ رحمت ہے) اور (اسی طرح جب یہ دورہ بھی ختم ہوچکا اور لوگ پھر محتاج تجدید ہدایت ہوئے تو اپنی سنت مستمرہ کے موافق ہم نے آپ کو رسول بنایا جس کے دلائل میں سے ایک یہی واقعہ موسویہ کی یقینی خبر دینا ہے کیونکہ قطعی خبر دینے کے لئے کوئی طریق علم کا ضروری ہے اور وہ طریق منحصر ہے چار میں امور عقلیہ میں عقل، سو یہ واقعہ امور عقلیہ میں سے تو ہے نہیں، اور امور نقلیہ میں یا سماع اہل علم سے جو کہ دوسرا طریق ہے سو یہ بھی بوجہ عدم مخالفت و عدم مدارست اہل اخبار کے منتفی ہے اور یا اپنا مشاہدہ جو کہ تیسرا طریق ہے سو اس کی نفی نہایت ہی اظہر ہے چناچہ ظاہر ہے کہ) آپ (طور کے) مغربی جانب میں موجود نہ تھے جبکہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام دیئے تھے (یعنی توراة دی تھی) اور (وہاں خاص تو کیا موجود ہوتے) آپ (تو) ان لوگوں میں سے (بھی) نہ تھے جو (اس زمانہ میں) موجود تھے (پس احتمال مشاہدہ کا بھی نہ رہا) و لیکن (بات یہ کہ) ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد) بہت سی نسلیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ دراز گزر گیا (جس سے پھر علوم صحیحہ نایاب ہوگئے اور پھر لوگ محتاج ہدایت ہوئے اور گو درمیان درمیان انبیاء (علیہم السلام) آیا کئے مگر ان کے علوم بھی اس طرح نایاب ہوئے اس لئے ہماری رحمت مقتضی ہوئی کہ ہم نے آپ کو وحی و رسالت سے مشرف فرمایا جو کہ چوتھا طریق ہے خبر یقینی کا اور دوسرے طرق علم ظنی کے ہیں جو مبحث ہی سے خارج ہے کیونکہ آپ کی یہ خبریں بالکل یقینی اور قطعی ہیں حاصل یہ کہ علم یقینی کے چار طریقے ہیں اور تین منتفی پس چوتھا متعین اور یہی مطلوب ہے) اور (جیسے آپ نے عطاء توراة کا مشاہدہ نہیں کیا اور صحیح و یقینی خبر دے رہے ہیں اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے قیام مدین کا مشاہدہ نہیں فرمایا چناچہ ظاہر ہے کہ) آپ اہل مدین میں بھی قیام پذیر نہ تھے کہ آپ (وہاں کے حالات دیکھ کر ان حالات کے متعلق) ہماری آیتیں (اپنے) ان (معاصر) لوگوں کو پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہوں و لیکن ہم ہی (آپ کو) رسول بنانے والے ہیں ( کہ رسول بنا کر یہ واقعات وحی سے بتلا دیئے) اور (اسی طرح) آپ طور کی جانب (غربی مذکور) میں اس وقت بھی موجود نہ تھے جب ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کو) پکارا تھا (کہ |" ّٰمُـوْسٰٓي اِنِّىْٓ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، وَاَنْ اَلْقِ عَصَاكَ |" جو کہ ان کو نبوت عطا ہونے کا وقت تھا) و لیکن (اس کا علم بھی اسی طرح حاصل ہوا کہ) آپ اپنے رب کی رحمت سے نبی بنائے گئے تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا (نبی) نہیں آیا، کیا عجب ہے کہ نصیحت قبول کرلیں (کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاصرین بلکہ ان کے آباء اقربین نے بھی کسی نبی کو نہیں دیکھا تھا گو بعض شرائع بالخصوص توحید بواسطہ ان تک بھی پہنچی تھی پس وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا سے تعارض نہ رہا) اور (اگر یہ لوگ ذرا تامل کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبر بھیجنے سے ہمارا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ان ہی لوگوں کو فائدہ ہے کہ یہ لوگ حسن و قبح پر مطلع ہو کر عقوبت سے بچ سکتے ہیں ورنہ جن امور کا قبح عقل سے دریافت ہوسکتا ہے اس پر عذاب بلا ارسال رسول بھی ہونا ممکن تھا لیکن اس وقت ان کو ایک گونہ حسرت ہوتی کہ ہائے اگر رسول آجاتا تو ہم کو زیادہ تنبہ ہوجاتا اور اس مصیبت میں نہ پڑتے اس لئے رسول بھی بھیج دیا تاکہ اس حسرت سے بچنا ان کو آسان ہو ورنہ احتمال تھا کہ) ہم رسول نہ بھی بھیجتے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر ان کے کرداروں کے سبب (جو عقلاً قبیح ہیں) کوئی مصیبت (دنیا یا آخرت میں) نازل ہوتی (جس کی نسبت ان کو عقل کے یا فرشتے کے ذریعہ سے یقین ہوجاتا کہ یہ سزائے اعمال ہے) تو یہ کہنے لگتے کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم آپ کے احکام کا اتباع کرتے اور (ان احکام اور رسول پر) ایمان لانے والوں میں سے ہوتے سو (اس امر کا مققضا تو یہ تھا کہ رسول کے آنے کو غنیمت سمجھتے اور اس کے دین حق کو قبول کرتے لیکن ان کی یہ حالت ہوئی کہ) شبہ نکالنے کے لئے یوں) کہنے لگے کہ ان کو ایسی کتاب کیوں نہ ملی جیسی موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی (یعنی قرآن واحدةً مثل توراة کے کیوں نہ نازل ہوا، آگے جواب ہے کہ) کیا جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی تھی اس کے قبل یہ لوگ اس کے منکر نہیں ہوئے (چنانچہ ظاہر ہے کہ مشرکین موسیٰ (علیہ السلام) اور توراۃ کو بھی نہ مانتے تھے کیونکہ وہ سرے سے اصل نبوت ہی کے منکر تھے) یہ لوگ ( قرآن اور توراة دونوں کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے موافق ہیں (یہ اس لئے کہا کہ اصول شرائع میں دونوں متفق ہیں) اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ہم تو دونوں میں کسی کو نہیں مانتے (خواہ یہی عبارت ان کا مقولہ ہوا اور خواہ ان کے اقوال سے لازم آتا ہو اور خواہ ایک ہی ساتھ دونوں کا انکار کیا ہو یا مختلف قول جمع کئے گئے ہوں تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس شبہ کا منشاء قصد ایمان بالقرآن بصورت تماثل توراة کے نہیں بلکہ یہ بھی ایک حیلہ اور شرارت ہے آگے اس کا جواب ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اچھا تو (علاوہ توراة و قرآن کے) تم کوئی اور کتاب اللہ کے پاس سے لے آؤ جو ہدایت کرنے میں ان دونوں سے بہتر ہو میں اسی کی پیروی کرنے لگوں گا، اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (کہ سِحْرٰنِ تَظٰهَرَا جس سے مقصود ان دونوں کتابوں کا نعوذ باللہ مفتری اور غلط ہونا ہے۔ یعنی مقصود تو اتباع حق کا ہے پس اگر کتب الہیہ کو حق مانتے ہو تو ان کی پیروی کرو، قرآن کی تو مطلقاً اور توراة کی توحید و بشارات محمدیہ میں اور اگر ان کو حق نہیں مانتے تو تم کوئی حق پیش کرو اور اس کا حق ہونا ثابت کردو جس کو اہدی ہونے سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ مقصود حق سے اس کا وسیلہ ہدایت ہونا ہے اگر فرضاً ثابت کردو گے تو میں اس کی پیروی کرلوں گا، غرض یہ کہ میں حق ثابت کر دوں تو تم اس کا اتباع کرو، اور اگر تم حق ثابت کردو تو میں اتباع کے لئے آمادہ ہوں اور چونکہ قضیہ شرطیہ میں محض حکم اتصال کا ہوتا ہے اس لئے اتباع غیر کتب الٰہیہ کا اشکال لازم نہیں آتا) پھر (اس احتجاج کے بعد) اگر یہ لوگ آپ کا (یہ) یہ کہنا (کہ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ الخ) نہ کرسکیں (اور ظاہر ہے کہ نہ کرسکیں گے کقولہ تعالیٰ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا اور پھر بھی آپ کا اتباع نہ کریں) تو آپ سمجھ لیجئے کہ (ان سوالات کا منشاء کوئی اشتباہ و تردد و حق جوئی نہیں ہے بلکہ) یہ لوگ محض اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں (ان کا نفس کہتا ہے کہ جس طرح بن پڑے انکار ہی کرنا چاہئے پس یہ ایسا ہی کر رہے ہیں گو حق بھی واضح ہوجاوے) اور ایسے شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو بدون اس کے کہ منجانب اللہ کوئی دلیل (اس کے پاس) ہو (اور) اللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو (جو کہ وضوح حق کے بعد بدون کسی متمسک صحیح کے بھی اپنی گمراہی سے باز نہ آوے) ہدایت نہیں کیا کرتا (جس کا سبب اس شخص کا خود قصد کرنا ہے اپنے گمراہ رہنے کا اور قصد کے بعد خلق فعل عادت ہے اللہ تعالیٰ کی، اس لئے ایسا شخص ہمیشہ گمراہ رہتا ہے، یہاں تک تو جواب الزامی تھا ان کے اس قول کا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي) اور (آگے تحقیقی جواب ہے جس میں قرآن کے دفعۃً واحدةً نازل نہ ہونے کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ) ہم نے اس کلام (یعنی قرآن) کو ان لوگوں کے لئے وقتاً فوقتاً یکے بعد دیگرے بھیجا تاکہ یہ لوگ (بار بار تازہ بتازہ سننے سے) نصیحت مانیں (یعنی ہم تو دفعۃً واحدةً بھیجنے پر بھی قادر ہیں مگر ان ہی کی مصلحت سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں پھر اندھیر ہے کہ اپنی ہی مصلحت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ) معارف و مسائل وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ للنَّاسِ ، قرون اولی سے اقوام نوح و ہود و صالح و لوط (علیہم السلام) مراد ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اپنی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کی گئی تھیں، اور بصائر، بصیرت کی جمع ہے جس کے لفظی معنے تو دانش و بینش کے ہیں۔ مراد اس سے وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے قلوب میں پیدا فرماتے ہیں جن سے وہ حقائق اشیاء کو دیکھ سکیں اور حق و باطل کا امتیاز کرسکیں۔ (مظہری) بَصَاۗىِٕرَ للنَّاس میں اگر لفظ ناس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے تو بات صاف ہے اس امت کے لئے کتاب توراة ہی مجموعہ بصائر تھی اور اگر لفظ ناس سے تمام انسان مراد ہیں جن میں امت محمدیہ بھی داخل ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوگا کہ امت محمدیہ کے زمانے میں جو تورات موجود ہے وہ تحریفات کے ذریعہ مسخ ہوچکی ہے تو ان کے لئے اس کا بصائر کہنا کیسے درست ہوگا اور یہ کہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کو بھی تورات سے فائدہ اٹھانا چاہئے حالانکہ حدیث میں یہ واقعہ معروف ہے کے حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت طلب کی کہ وہ تورات میں جو نصائح وغیرہ ہیں ان کو پڑھیں تاکہ ان کے علم میں ترقی ہو، اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غضبناک ہو کر فرمایا کہ اگر اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا (جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ آپ کو صرف میری تعلیمات کو دیکھنا چاہئے تورات و انجیل کا دیکھنا آپ کے لئے درست نہیں۔ ) مگر اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تورات کا جو اس وقت اہل کتاب کے پاس نسخہ تھا وہ تحریف شدہ تھا اور زمانہ ابتداء اسلام کا تھا جس میں نزول قرآن کا سلسلہ جاری تھا، اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مکمل حفاظت کے پیش نظر اپنی احادیث لکھنے سے بھی بعض حضرات کو روک دیا تھا کہ ایسا نہ ہو لوگ قرآن کے ساتھ احادیث کو جوڑ دیں، ان حالات میں کسی دوسری منسوخ شدہ آسمانی کتاب کا پڑھنا پڑھانا ظاہر ہے کہ احتیاط کے خلاف تھا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً تورات و انجیل کے مطالعے اور پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ ان کتابوں کے وہ حصے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق پیشین گوئیوں پر مشتمل ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور نقل کرنا صحابہ کرام سے ثابت اور معروف و مشہور ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام اور کعب احبار اس معاملہ میں سب سے زیادہ معروف ہیں، دوسرے صحابہ کرام نے بھی ان پر نکیر نہیں کیا۔ اس لئے حاصل آیت کا یہ ہوجائے گا کہ تورات و انجیل میں جو غیر محرف مضامین اب بھی موجود ہیں اور بلاشبہ بصائر ہیں، ان سے استفادہ درست ہے مگر ظاہر ہے کہ ان سے استفادہ صرف ایسے ہی لوگ کرسکتے ہیں جو محرف اور غیر محرف میں فرق کرسکیں اور صحیح و غلط کو پہچان سکیں وہ علماء ماہرین ہی ہو سکتے ہیں، عوام کو بیشک اس سے اجتناب اس لئے ضروری ہے کہ وہ کسی مغالطے میں نہ پڑجائیں، یہی حکم ان تمام کتابوں کا ہے جس میں حق کے ساتھ باطل کی آمیزش ہے کہ عوام کو ان کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہئے علماء ماہرین دیکھیں تو مضائقہ نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَہُدًى وَّرَحْمَۃً لَّعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٤٣ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں ( بصر) مبصرۃ بَاصِرَة عبارة عن الجارحة الناظرة، يقال : رأيته لمحا باصرا، أي : نظرا بتحدیق، قال عزّ وجل : فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] ، وَجَعَلْنا آيَةَ النَّهارِ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 12] أي : مضيئة للأبصار وکذلک قوله عزّ وجلّ : وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] ، وقیل : معناه صار أهله بصراء نحو قولهم : رجل مخبث ومضعف، أي : أهله خبثاء وضعفاء، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] أي : جعلناها عبرة لهم، الباصرۃ کے معنی ظاہری آنکھ کے ہیں ۔ محاورہ ہے رائتہ لمحا باصرا میں نے اسے عیال طور پر دیکھا ۔ المبصرۃ روشن اور واضح دلیل ۔ قرآن میں ہے :۔ فَلَمَّا جاءَتْهُمْ آياتُنا مُبْصِرَةً [ النمل/ 13] جن ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں پہنچیں یعنی ہم نے دن کی نشانیاں کو قطروں کی روشنی دینے والی بنایا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَآتَيْنا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً [ الإسراء/ 59] اور ہم نے ثمود کی اونٹنی ( نبوت صالح) کی کھل نشانی دی میں مبصرۃ اسی معنی پر محمول ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں مبصرۃ کے معنی ہیں کہ ایسی نشانی جس سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسا کہ رجل مخبث و مصعف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے اہل اور قریبی شت دار خبیث اور ضعیب ہوں اور آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ مِنْ بَعْدِ ما أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولی بَصائِرَ لِلنَّاسِ [ القصص/ 43] میں بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جس کے معنی عبرت کے ہیں یعنی ہم نے پہلی قوموں کی ہلاکت کو ان کے لئے تازہ یا عبرت بنادیا نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان سے پہلے اور امتوں کی ہلاکت کے بعد توریت دی تھی جو بنی اسرائیل کے دانش مندیوں کا سبب اور گمراہی سے ہدایت اور ایمان لانے والوں کے لیے رحمت کا باعث تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59 That is, "When the former generations met with the evil consequences of turning away from the teachings of the Prophets, and they met the doom that was experienced by Pharaoh and his hosts, then Moses was granted the Book so as to usher in a new era for mankind. "

سورة القصص حاشیہ نمبر : 59 یعنی پچھلی نسلیں جب انبیائے سابقین کی تعلیمات سے روگردانی کا برا نتیجہ بھگت چکیں اور ان کا آخری انجام وہ کچھ ہوچکا جو فرعون اور اس کے لشکروں نے دیکھا ، تو اس کے بعد موسی علیہ السلام کو کتاب عطا کی گئی تاکہ انسانیت کا ایک نیا دور شروع ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: اس سے مراد تورات ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:43) من بعد ما اہلکنا القرون الاولی۔ بعد اس کے کہ ہم نے ہلاک کردیا تھا پہلی قوموں کو (یعنی قوم نوح۔ قوم ہود۔ قوم صالح۔ قوم لوط وغیرہم) الکتب سے مراد توریت ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل کی گئی تھی۔ بصائر : بصیرۃ کی جمع ہے۔ بمعنی بینائی ۔ لیکن اس کا استعمال صرف دل کی بینائی کے متعلق ہوتا ہے یعنی دل کی وہ روشنی جس سے انسانی طاقت کے مطابق اشیاء کی حقیقت پر آگاہی ہوتی ہے۔ للناس : الناس سے مراد یہاں بنی اسرائیل ہے۔ ف : بصائر۔ ھدی ۔ ورحمۃ ۔ الکتب سے حال ہیں اور الکتب ذوالحال یتذکرون۔ مضارع جمع مذکر غائب تذکر تفعل مصدر ۔ وہ نصیحت حاصل کریں (تاکہ) وہ نصیحت پکڑیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ حضرت ابو سعید (رض) خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” توراۃ کے اترنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی قبیلے یا نسل یا اسم یا بستی کو آسمان سے عذاب بھیج کر تباہ نہیں کیا سوائے ” اصحاب سبت “ کے جو بند رہنا دیئے گئے۔ (قرطبی) فرعون کو غرق کرنے بعد عذاب کی بجائے جہاد شروع کردیا تاکہ لوگوں کی اصلاح اور تادیب ہوتی رہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 43 تا 50 اسرار ومعارف اور جب پہلی امتیں اپنی گمراہی کے سبب ہلاک ہوگئیں تو ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرما کر مبعوث فرمایا جس میں بصائیر یعنی عقل سلیم کی رہنمائی کرنے والی باتیں اور صحیح رہنمائی اور اللہ کی رحمت تھی کہ حق بات عقل سلیم کو اپیل کرتی ہے پھر بندہ ایمان قبول کرتا ہے تو یہ ہدایت ہوگی اور پھر اعمال صالح نصیب ہوتے ہیں جو رحمت ہیں اور یہ اہتمام اس لیے فرمایا کہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور جب یہ سب ہورہا تھا یا موسیٰ (علیہ السلام) سے بات ہو رہی تھی تو انہیں کتاب عطا ہوئی تو آپ طور پر تشریف نہ رکھتے تھے کہ آپ نے وہ واقعہ دیکھا ہو پھر بر شمار لوگ گزرے اور زمانے بیت گئے یہ باتیں لوگوں کے علوم سے مٹ گئیں اور نہ ہی آپ اہل مدین کے زمانے میں وہاں تھے کہ آپ یہ واقعات پوری صحت کے ساتھ بیان فرماتے۔ یہ تو ہمارا کرم ہے کہ سلسلہ نبوت کو جاری رکھا اور ہدایت کے لیے انبیاء بھیجتے رہے اور اب آپ مبعوث ہوئے اور یہ حقائق بذریعہ وحی آپ تک پہنچے۔ آپ تو طور پر موجود نہ تھے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہمکلامی نصیب ہوا آپ پر تو یہ سارے حقائق اللہ کی رحمت سے بذریعہ وحی نازل ہوئے تاکہ ان لوگوں کے پاس آپ مبعوث ہوں جن کے پاس عرصہ دراز سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور یہ زمانہ اور اہل زمانہ حقائق سے دور اور ہدایت سے محروم ہوچکے ہیں تو آپ کے ارشادات سے نصیحت حاصل کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اپنے کرتوتوں کے باعث تباہ ہونے لگیں تو کہنے لگیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے ہمارے پاس بھی تو رسول بھیجا ہوتا تاکہ ہم آپ کی آیات پر عمل پیرا ہوتے اور ایمان والے بندوں میں شامل ہوسکتے۔ مگر اب جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچا تو ایک نیا نقطہ نکال لائے کہ قرآن ویسے یکبارگی کیوں نہ عطا ہوا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک ہی بار تورات عطا ہوئی تھی تو کیا جب موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا ہوئی تھی تو لوگوں نے مان لی تھی اور کفر نہ کیا تھا بلکہ اب قرآن کو بھی سن کر کفار کہتے ہیں وہ بھی اور یہ بھی جادو بھری باتیں ہیں اور ہم ان سب باتوں کے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ غرض تو حق کا اتباع کرنے سے ہے اگر بالفرض قرآن حق نہیں ہے تو حق کیا ہے تم پیش کردو کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہو اور ان دونوں سے بہتر رہنمائی کرتی ہو تو میں اس کا اتباع کرلوں گا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ایسا کر دکھاؤ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر یہ اللی کی کتاب ہدایت اپنی حقانیت کے ثبوت کے ساتھ موجود ہے تم مان لو۔ اس پر بھی آپ کی بات نہ مانیں تو جا لیجیے کہ یہ لوگ نہ ہدایت پر چلتے ہیں اور نہ ہدایت کے طالب ہیں بلکہ محض اپنی خواہشات نفس کے غلام ہیں اور جو کوئی بھی اللہ کی ہدایت کے بغیر محض اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہوگا اور یہ پکی بات ہے کہ ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نصیب نہیں فرماتے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 43 تا 50 : القرون الاولی (گذری ہوئی جماعتیں۔ زمانہ) بصائر (آنکھیں کھولنے والی باتیں) ‘ الشھدین ( دیکھنے والے) انشا نا ( ہم نے اٹھایا۔ ہم نے پیدا کیا) تطاول (طویل ہوگئی) العمر (مدت) ثاوی (رہنے والے) قدمت ایدی (آگے بھیجا۔ دونوں ہاتھوں کے آگے) ‘ سحران ( دو جادو) ‘ تظھرا (ایک دوسرے کے موافق) ‘ اھدی (زیادہ ہدایت) ‘ لم یستجیبوا (جواب نہ دیا) ‘ اھواء (ھوائ) خواہشیں۔ تمنائیں) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 43 تا 50 : سورۃ القصص کی گذشتہ آیات اور قرآن کی متعدد سورتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو کسی جگہ تفصیل سے اور کہیں مختصر ارشاد فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات زندگی میں بہت زیادہ مناسبت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا دین پہنچانے میں شدید ترین مشکلات کے باوجود بھر پور کامیابیاں عطا کی گئیں اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والوں کو حق و صداقت کی راہوں میں فقرو فاقہ ‘ تنگ دستی اور ظلم و زیادتی کا سامنا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب ان کو دنیا اور آخرت کی ہر طرح کی کامیابیاں نصیب ہوں گی۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام کو چند برسوں میں ہر طرح کی عزت و سربلندی اور خوش حالی عطا کی گئی اور آپ کے دشمنوں کو ذلت اور رسوائی سے دو چار ہونا پڑا۔ سورۃ القصص کی آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد فرما یا جارہا ہے کہ قوم نوح ‘ قوم ہود ‘ قوم صالح ‘ اور قوم لوط کو ان کی نافرمانیوں کی شدید ترین سزائیں دینے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت جیسی کتاب دی گئی جو ان کی قوم کے لئے عبرت و نصیحت ‘ ہدایت اور رحمت کا ذریعہ تھی تاکہ وہ اپنے بھولے ہوئے سبق کو یادررکھ سکیں۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کو نازل کیا ہے جو ساری دنیا کی ہدایت کے لئے ایک روشن کتاب ہے جس کی سچائی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ گذشتہ قوموں کے وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ حالانکہ آپ وہاں موجود نہ تھے۔ آپ کے پاس ان علوم کا ذریعہ صرف اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی وحی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فرمایا کہ جب کوہ طور کے مغربی کنارے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت کی شکل میں احکامات دیئے جارہے تھے یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین کی طرف تشریف لے گئے تھے اور وہاں ان کو بہت سے واقعات پیش آئے اور جب ان کو وادی مقدس میں اللہ نے پکارا اور ان کے سر پر تاج نبوت و رسالت رکھ کر معجزات عطا کئے۔ فرمایا کہ آپ ان میں سے کسی جگہ بھی موجود نہ تھے بلکہ صرف اللہ کی رحمت اور وحی تھی جس کے ذریعہ آپ بیان کررہے ہیں جس کی بنیاد یہ ہے کہ آپ ان کو اللہ کے خوف سے ڈرائیں جو اپنے انجام سے بیخبر ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسولوں کا یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے رکھا ہوا ہے تاکہ یہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ ہمارے پاس تو کوئی بتانے والا رسول آیا ہی نہیں۔ اگر ہمیں راہ ہدایت دکھائی جاتی تو ہم ضرور حق و صداقت کے راستیکو اختیار کرلیتے۔ فرمایا کہ اب ہماری طرف سے یہ آخری رسول اور آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاچکے ہیں ان پر ایمان لانا نجات کی بنیاد ہے ۔ اگر اللہ کے ان آخری نبی کو نہ مانا گیا تو پھر قیامت تک انہیں راہ ہدایت نصیب نہ ہوگی۔ فرمایا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ قرآن کریم پر ایمان لے آتے۔ اس کے برخلاف انہوں نے وہی حرکتیں اور غلط سلط باتیں شروع کردیں جو پہلے لوگوں نے کرکے اپنی آخرت تباہ کرلی تھی۔ فرمایا کہ جب ہماری طرف سے یہ سچائی پہنچ چکی ہے تو اب کہتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ایک دم سے کتاب نازل کیوں نہ کی گئی ؟ اللہ تعالیٰ نے سوال کیا ہے کہ اگر قرآن کریم بھی ایک ساتھ نازل کردیا جاتا تو کیا یہ اسکو مانتے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جب توریت کو نازل کیا گیا تھا تو ان لوگوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا۔ بعض کہتے کہ قرآن ہو یا توریت یہ دونوں (نعوذ باللہ) جادو (کی کتابیں) ہیں جو ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ۔ کبھی کہتے کہ ہم تو کسی کو بھی ماننے والے نہیں ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ اللہ نے اس قرآن کو ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا ہے۔ اگر تمہارے اختیار میں ہے تو کوئی دوسری کتاب لے آئو جو ان دونوں سے زیادہ بہتر ہو۔ اگر تم سچے ہو تو ایسی کتاب لے آئو میں بھی اس کی پیروی کروں گا۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کی باتوں کو سن کر رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ اگر یہ لوگ اس چیلنج کا جواب نہیں دیتے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اسکا جواب دے بھی نہ سکیں گے تو آپ یہ جان لیجئے کہ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کے غلام ہیں جن کی یہ پیروی کررہے ہیں۔ یہ وہ بد نصیب اور گمراہ لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ بھی ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ طالب حق کی اول فہم درست ہوتی ہے، پھر احکام درست کرتا ہے، یہ ہدایت ہے، پھر ہدایت کا ثمرہ یعنی قرب و قبول عنایت ہوتا ہے، یہ رحمت ہے۔ 4۔ اسی طرح جب یہ دورہ بھی ختم ہوچکا اور لوگ پھر محتاج تجدید ہدایت ہوئے تو اپنی سنت مستمرہ کے موافق ہم نے آپ کو رسول بنایا جس کے دلائل میں ایک یہی واقعہ موسویہ کی یقینی خبر دینا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے لاؤ لشکر غرق کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تختیوں کی شکل میں توراتعطا کی گئی۔ رب ذوالجلال نے فرعون اور اس کے لشکر کو بحر قلزم میں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو باسلامت بحر قلزم عبور کروایا اور پوری دنیا میں ان کی عزت کو دوبالا فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر وادی طی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ یہاں کئی اہم واقعات بھی رونما ہوئے۔ جن میں سب سے بڑا اور اہم واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت فرمائی جس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت و عبرت کے واقعات، پہلی اقوام کی تباہی کے اسباب اور اس تورات کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث قرار دیا۔ تاکہ بنی اسرائیل اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ نزول تورات کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دی گئی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس وقت بھی موجود نہ تھے جب اللہ تعالیٰ نے طور کے مغربی پہلو میں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور دو عظیم معجزے عطا فرمائے تھے۔ طور کے مغربی پہلو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موجود نہ ہونے سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے جس واقعے کی تفصیلات بتائی جا رہی ہیں وہ کسی سے سنی سنائی اور پڑھی پڑھائی باتیں نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے جو قرآن مجید کی صورت میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی جا رہی ہے۔ بصیرت کی جمع بصائر، ہے جس سے مراد ایسے حقائق ہیں جن کو انسان ہدایت کی نیت سے پڑھے تو یقیناً ہدایت سے سرفراز ہوگا۔ قرن کی جمع ” قرون “ ہے جو تین میں سے کسی ایک معنٰی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ١۔ ایک نسل۔ ٢۔ کسی قوم کا ایک دور۔ ٣۔ بعض اہل علم نے ایک صدی کو ایک قرن قرار دیا ہے۔ تورات اور قرآن کی تعلیم کے بارے میں فرمان : (اآرٰکِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ ) [ ابراہیم : ١] ” الر۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں، ان کے رب کے حکم سے اور اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بہت تعریف والا ہے۔ “ (وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ) [ ابراہیم : ٥] ” اور بلا شبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور انہیں اللہ کے دن یاد دلائے، بلاشبہ اس میں ہر شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر اور شکر کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کو لوگوں کی ہدایت اور رحمت کے طور پر نازل فرمایا تھا۔ ٢۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کے دائیں جانب نبوت عطا کی گئی تو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت موجود نہ تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جگہ حاضر، ناظر نہ تھے اور نہ ہیں : ١۔ مریم [ کی کفالت کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر نہ تھے۔ (آل عمران : ٤٤) ٢۔ اخوان یوسف کے مکر کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٠٢) ٣۔ یہ غیب کی خبریں ہیں نہ آپ اس کے متعلق جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔ ( ہود : ٤٩) ٤۔ آپ طور کی مغربی جانب اس وقت موجود نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے منصب پر سرفراز کیا۔ ( القصص : ٤٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد اتینا موسیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لعلھم یتذکرون (43) ۔ یہ ہے حضرت موسیٰ کا انجام۔ یہ ایک بہترین انجام ہے ، کس قدر باعزت انجام و مقام ہے یہ۔ جہاں تک وہ پہنچے ، ان کو کتاب دی گئی جو لوگوں کے لئے اس طرح ذریعہ ہدایت تھی جس طرح انسانوں کے لیے آنکھیں ذریعہ ہدایت ہوتی ہیں۔ ہدایت ہے اور رحمت ہے۔ اور اس لیے ہے کہ بنی اسرائیل سبق سیکھیں۔ دیکھیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے نشیب و فراز میں دست قدرت نے کس طرح بار بار مداخلت کی۔ کس طرح اللہ نے کمزوروں کی حمایت کی اور جباروں کو ہلاک کیا۔ اور مظلومین کو بالاخر برتری حاصل ہوئی۔ قصہ موسیٰ و فرعون اس سورت میں یوں بیان ہوا۔ اس سے یہاں یہ ہدایت دی گئی کہ امن و سکون اللہ کی جانب سے ہوا کرتا ہے۔ اور انسانوں سے ڈرتے وہ لوگ ہیں جو اللہ سے نہیں ڈرتے۔ جو اللہ سے دور ہوجاتے ہیں اور یہ کہ جب ظلم اور سرکشی حد سے بڑھ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کے حق میں براہ راست مداخلت کرتا ہے اور ہمیشہ اللہ ظالم کا ہاتھ پکڑتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب جبار وقہار لوگ ظلم کرنا شروع کردیں اور مخلوق خدا اپنے دفاع سے عاجز آجائے۔ یہ وہ ہدایت تھیں جو اس وقت مکہ میں برسر عمل ایک مختصر سی انقلابی جماعت کے لیے بےحد ضروری تھیں۔ نیز مکہ کے مشرکین جو ان بیچاروں کے لیے فرعون کی طرح جبار وقہار تھے ، ان کو بھی بار بار سنایا جاتا ہے کہ تم بھی غور کرو ، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی جہاں جہاں کوئی انقلابی عمل شروع کرے گا اسے ان ہدایات کی ضرورت ہوگی۔ جہاں بھی دعوت ہو اور اس پر تشدد ہو۔ قرآن کریم میں قصص صرف ایسی ہی انقلابی تعلیمات کیلئے آتے ہیں۔ داعیوں کی تربیت کے لئے۔ اللہ کے سنن کے مناظر دکھانے کیلئے کہ سنن الہیہ کس طرح کام کرتی ہیں ، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور اپنی جدوجہد میں ان سے بصیرت حاصل کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توریت شریف سراپا بصیرت، ہدایت اور رحمت تھی ان آیات میں چند امور ذکر فرمائے ہیں۔ اول : یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لاتے تھے انہوں نے توحید کی دعوت دی تھی، حق پہنچایا، ایمان قبول کرنے پر بشارتیں دی، کفر پر جمے رہنے پر دنیا و آخرت کے عذاب سے ڈرایا، ان کی امتوں نے نہیں مانا ہم نے انہیں ہلاک کردیا جو اقوام و افراد باقی تھے ان کی نسلیں چلیں، پلے اور بڑھے حتیٰ کہ بنی اسرائیل میں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیج دیا اس وقت بنی اسرائیل کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی ضرورت تھی اور فرعون کو اور اس کی قوم کو بھی، موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے ہم نے انہیں کتاب دی اس کتاب میں بصیرتیں یعنی عقل و فہم اور سمجھ کی باتیں تھیں اور ہدایت بھی تھی اور اس ہدایت کا قبول کرنا ان لوگوں کے لیے رحمت کا سبب تھا یہ کتاب انہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے واسطہ سے دی گئی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مزید فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے بہت سی جماعتوں کو بھیجا ان کا زمانہ دراز ہوگیا اس درازی زمانہ کی وجہ سے بعد میں آنے والے لوگ علوم نبوت سے اور ہدایت سے نا آشنا ہوگئے۔ لہٰذا ہماری حکمت کا تقاضا ہوا کہ آپ کو نبوت اور رسالت سے سر فراز کردیا اور گمراہ لوگوں کی طرف آپ کو مبعوث کریں۔ دوم : حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور نبوت کے جو دلائل جگہ جگہ قرآن مجید میں مذکور ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے سابقہ امتوں کے احوال کہیں نہیں پڑھے تھے نہ کسی نے آپ کو بتائے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اور ان کی امتوں کے واقعات بتائے تھے۔ ان واقعات کا بتانا اور اہل کتاب کا ان کو ماننا کہ ہاں ایسا ہوا تھا کم از کم اہل کتاب اور ان کی بات کی تصدیق کرنے والوں کے لیے اس امر کی بڑی بھاری دلیل تھی کہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ ان کے واقعات کو جاننا اور صحیح صحیح بیان کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعہ بتائے ہیں ان واقعات میں سے یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کا حوالہ دے کر فرمایا جو عنقریب ہی گزرا ہے اور خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ جب کوہ طور کی مغربی جانب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام دیئے اس وقت آپ وہاں موجود نہ تھے اور یہ بھی فرمایا کہ آپ اہل مدین میں مقیم نہ تھے جو اپنی آنکھوں سے موسیٰ کے واقعات کا مشاہدہ کرتے۔ پھر بھی آپ نے وہاں کے واقعات کی خبر دی۔ یہ واقعات ہمارے آیات میں موجود ہیں جنہیں آپ ان کو پڑھ کر سناتے ہیں ان لوگوں کے سامنے ان آیات کا پڑھنا آپ کے نبی اور رسول ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ ) (اور لیکن ہم رسول بنانے والے ہیں) ہم نے آپ کو رسول بنا کر مذکورہ واقعات وحی کے ذریعہ بتا دیئے۔ (وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا) (اور آپ طور کی جانب میں اس وقت بھی موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو پکارا) (وَ لٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ) اور لیکن اس کا علم آپ کو اس طرح حاصل ہوا کہ آپ اپنے رب کی رحمت سے نبی بنا دیئے گئے۔ جب نبوت مل گئی تو اس کے ذریعہ انبیاء سابقین کے واقعات معلوم ہوگئے (لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰھُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ ) تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ (لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ) تاکہ وہ لوگ نصیحت قبول کرلیں۔ یہاں اس قوم سے اہل عرب مراد ہیں جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں ان کے بعد سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اہل عرب میں کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا تھا۔ سوم : یہ فرمایا کہ جن لوگوں کی طرف آپ مبعوث ہوئے ہیں آپ کی بعثت سے ان پر حجت قائم ہوگئی، اگر آپ کی بعثت نہ ہوتی اور ان کے گناہوں کیو جہ سے انہیں کوئی مصیبت پہنچ جاتی وہ کہنے لگتے کہ ہمارے پاس کوئی رسول آیا ہوتا تو ہم اس کا اتباع کرلیتے نہ گناہ کار ہوتے نہ مصیبت کا منہ دیکھتے جب کوئی نہ آیا تو ہم کیا کریں۔ ان لوگوں کی اس بات کی پیش بندی کرنے اور ان کا عذر ختم کرنے کے لیے ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیج دیا۔ اب جب حجت تمام ہوگئی پھر بھی کفر پر جمے ہوئے ہیں تو اس کا و بال ان پر پڑے گا۔ اس آیت کا مضمون تقریباً سورة طہ کی آیت کریمہ (وَ لَوْ اَنَّآ اَھْلَکْنٰھُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰی) (اور اگر ہم اس سے پہلے ان لوگوں کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیتے تو یوں کہتے کہ اے ہمارے رب آپ نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم آپ کی آیات کا اتباع کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل اور رسوا ہوں) ۔ چہارم : یہ فرمایا کہ جب ان لوگوں کے پاس ہماری طرف سے حق آگیا یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی کتاب پیش کردی تو قبول نہ کرنے کا بہانہ بنانے کے طور پر یوں کہنے لگے کہ ان کو ایسی کتاب کیوں نہ ملی جیسی موسیٰ کو ملی یعنی قرآن پورا مکمل ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں ہوا جیسے توراۃ شریف ایک ہی مرتبہ مکمل عطا کردی گئی تھی۔ یہ بات اہل مکہ نے یہودیوں کو کہی تھی کہ حضرت موسیٰ کو دفعۃً واحدۃ پوری کتاب دے دی گئی تھی۔ ان کے جواب میں فرمایا (اَوَلَمْ یَکْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ) (کیا لوگوں نے اس کتاب کے ساتھ کفر نہیں کیا جو اس سے پہلے موسیٰ کو دی تھی) ان کے زمانے کے لوگوں نے نہ صرف یہ کہ توراۃ شریف کا انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کے بارے میں یوں بھی کہا کہ دونوں جادو گر ہیں۔ (کما فی قراء ۃ سبعیۃ ” ساحران “ ” علی صیغۃ “ اسم الفاعل) آپس میں مشورہ کر کے ایک دوسرے کے معاون بن گئے اور یہ بھی کہا کہ (اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوْنَ ) (کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک کے منکر ہیں) پس اگر کسی کتاب کے قبول کرنے کے لیے ایک ہی مرتبہ نازل ہونا ان کے خیال میں مشروط ہے تو جن لوگوں کے پاس توراۃ شریف آئی تھی وہ اسے مان لیتے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو ماننا نہیں ہے بہانہ بازی سے کام لیتے ہیں اور عناد پر جمے ہوئے ہیں قال القرطبی (رح) او لم یکفر ھؤلاء الیھود بما اوتی موسیٰ حین قالوا موسیٰ و ہارون ھما ساحران۔ وانا بکل کافرون ای و انا کافرون بکل واحد منھم ا ھ۔ و فیہ قول آخر وھو ان المراد بساحران سیدنا موسیٰ و سیدنا محمد علیھما السلام یوافق قولھما فیما ادعیاہ۔ (امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کیا ان یہودیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل شدہ کتاب کا انکار نہیں کیا جبکہ انہوں نے کہا کہ موسیٰ اور ہارون دونوں جادو گر ہیں اور یہ کہا کہ (اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوْنَ ) یعنی ہم ان دونوں میں سے ہر ایک کے منکر ہیں ١ ھ اس بارے میں دوسرا قول بھی ہے اور وہ یہ کہ یہاں دو جادو گروں سے مراد سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہ قول یہودیوں کے دعویٰ کے موافق ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ القرون الاولیٰ سے گذشتہ اقوام متمردہ مراد ہیں۔ ان اقوام کے پاس اللہ کے پیغمبر پیغام توحید لے کر آئے اور انہیں توحید کی دعوت دی لیکن انہوں نے دعوت توحید کو نہ مانا اور اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا تو ان کو دنیا ہی میں عذاب سے ہلاک کردیا گیا۔ اب اسی دین کے احیا کی خاطر موسیٰ کو بھیجا اور اسے تورت دی جس کی ہر آیت میں نور بصیرت کا سامان تھا وہ سراپا ہدایت اور باعث رحمت تھی کیونکہ اس کی ہدایات پر عمل کرنے سے انسان اللہ کی رحمت کا مستحق ہوجاتا تھا۔ اس زمانے کی ضرورت کے مطابق تورات نازل کی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعوت توحید فرعون اور اس کی قوم کے سامنے پیش کی لیکن انہوں نے اس کا انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو غرق کردیا۔ اب چونکہ پھر ضرورت تھی کہ دین حق جو علماء یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں مسخ و محو ہوچکا ہے اسے از سر نو زندہ کیا جائے اس لیے اب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن دے کر بھیجا گیا جس میں یہی دعوی توحید پیش کیا گیا ہے جو موسیٰ اور ان سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی قوموں کے سامنے پیش کیا تھا اب اہل عرب اس دعوے کا انکار کریں گے تو ان پر بھی دنیا ہی میں اللہ کا عذاب آجائے گا۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے پیغمبروں کو اللہ نے غلبہ دیا اسی طرححضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اللہ تعالیٰ مشرکین پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ اب اس کا تعلق ابتداء سورت یعنی تلک ایت الکتب المبین سے ظاہر ہوگیا۔ والتعرض لبیان کون ایتاء ھا بعد اھلاکھم للاشعار بانھا نزلت بعد مساس الحاجۃ الیھا تمہیدا لم ایعقبہ من بیان الحاجۃ الداعیۃ الی انزال القران الکریم علی رسول اللہ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم الخ (روح ج 20 ص 84) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43۔ اور بلا شبہ ہم نے پہلی قوموں اور سابقہ امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی تھی جو لوگوں کے لئے بصیرت افروز دلائل کا سبب اور موجب ہدایت اور موجب رحمت تھی تا کہ وہ لوگ اس کتاب سے نصیحت قبول کریں اور یاد رکھیں ۔ یعنی عاد اور ثمود وغیرہ قوموں کو ہلاک کرنے اور پیغمبروں کی نافرمانی کے سبب ان کو تباہ و برباد کرنے کے بعد پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت عطا فرمائی جو بنی اسرائیل کے لئے قلوب کی روشنی کا سبب تھی اس کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ بصیرت افروز دلائل کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھانے والی اور اس پر عمل کرنیوالوں کے لئے موجب رحمت و شفقت تھی یعنی ابتداء میں اس سے سوجھ اور بصیرت اور قلب میں روشنی حاصل ہو پھر اس کے اوامرو نواہی قبول کرنے سے ہدایت ملے اور پھر اللہ تعالیٰ کا قرب میسر ہو جس کو رحمت فرمایا تا کہ لوگ نصیحت قبول کریں اور اس کے احکام کو یاد رکھیں۔