Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 45

سورة القصص

وَ لٰکِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ۚ وَ مَا کُنۡتَ ثَاوِیًا فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ تَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۙ وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ ﴿۴۵﴾

But We produced [many] generations [after Moses], and prolonged was their duration. And you were not a resident among the people of Madyan, reciting to them Our verses, but We were senders [of this message].

لیکن ہم نے بہت سی نسلیں پیدا کیں جن پر لمبی مدتیں گزر گیئں اور نہ تو مدین کے رہنے والوں میں سے تھا کہ ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا بلکہ ہم ہی رسولوں کے بھیجنے والے رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَكِنَّا أَنشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ... But We created generations, and long were the ages that passed over them. ... وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ ايَاتِنَا ... And you were not a dweller among the people of Madyan, reciting Our Ayat to them. meaning, `you were not living among the people of Madyan reciting Our ... >Ayat to them, when you started to tell about Our Prophet Shu`ayb and what he said to his people and how they responded.' ... وَلَكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ But it is We Who kept sending. means, `but We revealed that to you and sent you to mankind as a Messenger.'   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451قرون، قرن کی جمع ہے، زمانہ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔ 452یعنی مراد ایام سے شرائع و احکام بھی متغیر ہوگئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں...  کو پس پشت ڈال دیا اور ان کے عہد کو فراموش کردیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہوگئی کہ ایک نئے بنی کو معبوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زماں کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لئے آپ کی نبوت پر انھیں تعجب ہو رہا ہے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ 453جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہوجاتے۔ 454اور اسی اصول پر ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات و واقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] موسیٰ کے عہد سے لے کر دور نبوی تک تقریباً دو ہزار سال کی مدت ہے اور اس عرصہ میں تقریباً چالیس نسلیں یکے بعد دیگرے پیدا ہوتی رہیں۔ مگر اس دوران ملک حجاز میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ دو ہزار سال کے بعد سب سے آخری نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) البتہ ان لوگوں (اہل حجاز) کی طرف مبعوث ہوئے۔...  [٦٠] یعنی مدین کا باشندہ نہ ہونے کے باوجود آپ ان لوگوں کو حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ کے حالات یوں بتلا رہے ہیں گویا اس وقت آپ وہاں مقیم تھے اور ان لوگوں کو ہماری آیات پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اور ان واقعات کے صرف عینی شاہد ہی نہ تھے۔ بلکہ عملی طور پر بھی ان واقعات میں آپ کا عمل دخل تھا۔ اور یہ بات چونکہ ناممکن ہے تو اس سے صاف واضح ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ حالات بذریعہ وحی بتلائے ہوں۔ اور یہی چیز آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ : یعنی آپ اس وقت موجود نہیں تھے، لیکن ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر آپ تک بہت سی نسلیں اور قومیں پیدا کیں، جن پر سیکڑوں ہزاروں سال کی لمبی مدت گزر گئی۔ جس سے اصل واقعات اور دین کے صحیح احکام اپنی اصل صورت پر باقی نہ رہے، لہٰذا ضر... ورت تھی کہ نئے پیغمبر کے ذریعے سے دین اور شریعت کو صحیح، مکمل اور آخری صورت میں پیش کیا جائے، اس لیے ہم نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور یہ تمام واقعات وحی کے ذریعے سے آپ کو بتائے۔ یا یہ مطلب ہے کہ لمبی مدتیں گزرنے کی وجہ سے اہل عرب نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے تھے، اس لیے انھیں آپ کی نبوت پر تعجب ہو رہا ہے اور وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَهْلِ مَدْيَنَ ۔۔ : یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو ” مدین “ جا کر جو واقعات پیش آئے، ان کے اتنی صحت اور خوبی کے ساتھ بیان کرنے سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت آپ وہاں رہائش رکھتے تھے، سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، یا ان سے سیکھ رہے تھے اور انھیں اس طرح ہماری آیات پڑھ کر سنا رہے تھے جیسے اب اہل مکہ کو سناتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اس وقت اہل مدین میں مقیم نہیں تھے کہ انھیں ہماری آیات پڑھ کر سنا رہے ہوں۔ بعض مفسرین نے ” تَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا “ کو حال بنایا ہے اور ” علیھم “ سے مراد اہل مکہ لیے ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اہل مکہ کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس بزرگ کے متعلق ہماری آیات کی تلاوت کرتے وقت تو اہل مدین میں مقیم نہیں تھا کہ سب کچھ دیکھ کر انھیں سنا رہا ہو، بلکہ یہ سب کچھ ہماری وحی کے ذریعے سے ہوا۔ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ : لیکن بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے پیغمبر بھیجتے رہے ہیں، جو لوگوں کو غفلت سے بیدار کرتے اور ہمارے احکام سے آگاہ کرتے رہے۔ اب اسی عادت کے مطابق ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر یہ آخری کتاب نازل فرمائی، تاکہ لمبی مدتیں گزرنے کے بعد لوگ پھر صحیح دین اور اصل واقعات سے آگاہ ہوجائیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلٰكِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْہِمُ الْعُمُرُ۝ ٠ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَہْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝ ٠ۙ وَلٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِيْنَ۝ ٤٥ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی [ الواق... عة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں طول الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ. ( ط و ل ) الطول یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ طالوت یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔ عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) لیکن بات یہ ہے کہ ہم نے ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کی اور پہلوں کا واقعہ بعد والوں سے بیان کیا جیسا کہ اب آپ سے پہلے بیان کیا ہے پھر ان پر طویل زمانہ گزر گیا اور وہ ایمان نہیں لائے تو ہم نے یکے بعد دیگرے سب کو ہلاک کردیا اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اہل مدین میں بھی قیام پذیر نہی... ں تھے کہ ان کے حالات کے بارے میں اپنی قوم کو ہماری قرآنی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہو لیکن جیسا کہ ہم نے آپ و رسول بنایا اور پہلوں کے واقعات آپ سے بیان کیے اسی طرح ہم نے پہلی قوموں کی طرف رسول بھیجے ہیں اور اگلوں کی باتیں پچھلوں سے بیان کی ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ (وَلٰکِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْہِمُ الْعُمُرُ ج) ” اہل مکہ چونکہ نبوت اور رسالت کے تصورات سے ناواقف ہیں اس لیے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے رسالت پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں ‘ لیکن اگر وہ قرآن کی فراہم کردہ معلومات پر غور کریں تو ان پر اس کے ” من جانب اللہ ... “ ہونے کی حقیقت عقلی طور پر بھی واضح ہوجائے گی۔ ماضی کے واقعات کی تفصیلات جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو سناتے ہیں تو یہ بات خود بخود ان کی سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ یہ تمام معلومات اللہ تعالیٰ نے براہ راست بذریعہ وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فراہم کی ہیں۔ (وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَالا) ” جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو مدین میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پہنچنے اور شیخ مدین کے گھر میں ان کے قیام جیسے واقعات کی تفصیلات سنا رہے ہیں تو انہیں غور کرنا چاہیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان واقعات کے عینی شاہد تو نہیں تھے۔ (وَلٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ ) ” ہم جس کو چاہتے ہیں اپنا رسول بنا کر بھیجتے ہیں ‘ اور جس کو ہم اس منصب پر فائز کرتے ہیں اس کو غیب کی خبریں ‘ ماضی و مستقبل کے واقعات کے بارے میں معلومات بھی فراہم کرتے ہیں اور ہدایت کے لیے ضروری تعلیمات بھی دیتے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62 That is, "You had no direct means of obtaining this information. AlI this is being revealed to you by Allah. That is how you have been enabled to relate these two-thousand-year old events, in a manner as if you were an eye-witness."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 62 یعنی تمہارے پاس ان معلومات کے حصول کا براہ راست کوئی ذریعہ نہیں تھا ، آج جو تم ان واقعات کو دو ہزار برس سےز یادہ مدت گزر جانے کے بعد اس طرح بیان کر رہے ہو کہ گویا یہ سب تمہارا آنکھوں دیکھا حال ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی وحی کے ذریعہ سے تم کو ... یہ معلومات بہم پہنچائی جارہی ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 63 یعنی جب حضرت موسی مدین پہنچے ، اور جو کچھ وہاں ان کے ساتھ پیش آیا ، اور دس سال گزار کر جب وہ وہاں سے روانہ ہوئے ، اس وقت تمہارا کہیں پتہ بھی نہ تھا ، تم اس وقت مدین کی بستیوں میں وہ کام نہیں کر رہے تھے جو آج مکہ کی گلیوں میں کر رہے ہو ۔ ان واقعات کا ذکر تم کچھ اس بنا پر نہیں کر رہے ہو کہ یہ تمہارا عینی مشاہدہ ہے ، بلکہ یہ علم بی تم کو ہماری وحی کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:45) انشانا۔ ماضی متکلم۔ انشا ینشی انشاء (افعال) سے بمعنی پیدا کرنا۔ پرورش کرنا۔ انشانا ہم نے پیدا کیا۔ ن ش ء مادہ قرونا۔ جمع نکرہ بحالت نصب قرن واحد ۔ قومیں۔ انشانا قرونا : ای خلقنا بین زمانک وزمان موسیٰ قرونا کثیرۃ ہم نے تمہارے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے مابین کئی قومیں پیدا کی... ں۔ فتطاول۔ میں ف تعقیب کی ہے تطاول ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ طول مادہ۔ (باب تفاعل۔ درازی یا وسعت کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے۔ فتطاول علیہم العمر۔ پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا۔ (العمر زندگی۔ عمر) اسی معنی میں باب نصر سے اور جگہ آیا ہے۔ فطال علیہم الامد (57:16) پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا۔ ثاویا۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب بوجہ خبر ما کنت۔ ثوی یثوی (ضرب) ثواو ثوی مصدر۔ ثوی المکان وفیہ وبہ۔ کسی جگہ ٹھہرنا۔ آباد ہونا۔ قیام کرنا۔ المثوی قیام کرنے کی جگہ یا ٹھہرنے کی جگہ۔ منزل۔ ثاویا۔ مقیم ۔ آباد ۔ قیام پذیر۔ تتلوا علیہ ایتنا۔ (کہ) ہماری آیتیں ان لوگوں کو پڑھ کر سنا رہے ہوں یہ جملہ یا ثاویا کی ضمیر فاعل سے حال ہے یا کنت کی خبر ثانی ہے۔ ولکنا کنا مرسلین۔ لیکن بھیجنے والے ہم ہی تھے۔ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) مگر (اس وقت کی یہ خبریں) بھیجنے والے ہم ہیں۔ (تفہیم القرآن) (2) لیکن ہم ہی رسول بنا کر بھیجنے والے تھے۔ (ضیاء القرآن) (3) لیکن ہم آپ ہی کو رسول بنانے والے تھے۔ (تفسیر الماجدی) (4) لیکن ہم ہی رسول بھیجتے رہے۔ (تفسیر حقانی) (5) لیکن ہم ہی رسول بنانے والے ہیں۔ (بیان القرآن) (6) لیکن ہم ہی ہیں جو رسولوں کو وحی کے ساتھ بھیجتے ہیں۔ (عبد اللہ یوسف علی) (7) لیکن ہم ہی لوگوں کے پاس رسول بھیجتے رہے۔ (پکتھال) (8) ولکن ارسلناک واخبرناک بھا وعلمنا کہا۔ (الکشاف ، مدارک التنزیل) لیکن ہم نے تجھے پیغمنر بنا کر بھیجا اور ان (اتینا) کی خبر تم کو دی اور ان کا علم تم کو عطا کیا۔ (9) ایاک ومخبرین لک بھا۔ اور ہم ہی تجھے (رسول بنا کر بھیجنے والے ہیں) (بیضاوی) اور ان (آیات) کی تم کو خبر دینے والوں کو بھیجنے والے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ چناچہ کئی قرن اور صدہا سال گزرنے کی وجہ سے شرائط و احکام متغیر ہوگئے تھے اور سابقہ ادیان اپنی اصلی صورت پر باقی نہیں رہ گئے تھے لہٰذا اب ضرورت تھی کہ نئے پیغمبر ( علیہ السلام) کے ذریعہ دین کی تجدید ہوتی اور دین و شریعت کو ایک مکمل اور آخری شکل میں پیش کیا جاتا۔ 8 ۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وس... لم) کو ہم ہی نے قریظ کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اور یہ آخری کتاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے جس میں یہ واقعات صحیح اور مکمل مذکور ہیں۔ (قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ جس سے پھر علوم صحیحہ نایاب ہوگئے، اور لوگ پھر محتاج ہدایت ہوئے، اور گو درمیان انبیاء (علیہم السلام) آیا کئے مگر ان کے علوم بھی اسی طرح نایاب ہوئے، اس لئے ہماری رحمت مقتضی ہوئی کہ ہم نے آپ کو وحی و رسالت سے مشرف فرمایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : طور اور مدین میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیر حاضری کے ثبوت سے آپ کی نبوت کے دو مزید دلائل دیے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکل کر مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں آٹھ یا دس (١٠) سال گزارے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں اپنی دامادی کے شرف ... سے مشرف فرمایا۔ طے شدہ مدت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انھیں طور کی دائیں جانب روشنی نظر آئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ کو یہ کہہ کر اس روشنی کی طرف بڑھے کہ آپ یہاں ٹھہریں میں وہاں سے تاپنے کے لیے آگ کا انگارہ لاتا ہوں یا پھر اگلے سفر کی رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔ اِ ن واقعات کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان مقامات پر موجود نہ تھے یہ تو آپ پر آپ کے رب کا کرم ہے کہ آپ ان لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے ہیں۔ جس میں ہزاروں سال پہلے ہونے والے واقعات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے بیان کرنے والا خود موجود ہو۔ یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو ان کے برے انجام سے آگاہ فرمائیں۔ جس کے پاس اس سے پہلے براہ راست کوئی پیغام دینے والا پیغمبر نہیں آیا۔ یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا تیسرا ثبوت ہے کہ مکہ اور مدینہ کی سر زمین پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا۔ اس سے پہلے جو رسول آئے وہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے اور آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ حجاز میں رہنے والے پہلے لوگوں کا تعلق ہے ان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب ضرور مہیا فرمائے تھے جن سے انھیں نسل در نسل دین ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات پہنچتی رہیں یہی وجہ ہے کہ مکہ میں ایک گروہ ایسا تھا جو اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا پیرو کار کہتا اور سمجھتا تھا اور اسی بناء پر ہی دین ابراہیم (علیہ السلام) کی کئی باتیں بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھیں۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (رض) عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا رَأَیْتَ اللَّہَ یُعْطِی الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْیَا عَلَی مَعَاصِیہِ مَا یُحِبُّ فَإِنَّمَا ہُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلاَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ ) [ رواہ احمد : مسند عقبۃ بن عامر ] حضرت عقبہ بن عامر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جب اللہ بندے کو اس کی نافرمانیوں کے باوجود اسے عطا کرتا جائے جس کا وہ خواہش مند ہوتا ہے۔ یہی وہ مہلت ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (جب ان چیزوں کو بھول گئے جن کی ہم نے انہیں نصیحت کی تھی ہم نے ان کے لیے ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کے جب وہ اس پہ خوش ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کے رہ گئے۔ “ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ان کے برے کاموں سے ڈرانا ہے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے مکہ اور مدینہ کی سرزمین پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کیا گیا۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ لیکن آپ کے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تو ہم نے کئی قرن پیدا کیے اور صدیوں زمانہ گزر گیا اس کے بعد ہم نے آپ کو مبعوث فرمایا۔ اس طرح فتطاول علیہم العمر کے بعد فارسلناک مقدر ہے بقرینہ ولکنا کنا مرسلین۔ 43:۔ ثاویا ای مقیما اسی طرح آپ اہل مدین یعنی قوم شعیب (علیہ السلام) میں بھی موجود نہ تھے...  اور نہ ان پر ہماری آیتیں پڑھتے تھے۔ لیکن ہم نے آپ کو منصب رسالت عطا کیا اور ذریعہ وحی گذشتہ واقعات کی آپ کو خبر دی۔ ولکنا ارسلناک و اخبرناک بھا و علیمنا کہا (مدارک ج 3 ص 182) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45۔ لیکن اس واقعہ کے بعد ہم نے اور بہت سی قومیں پیدا کیں پھر ان پر زمانہ داز گزر گیا اور نہ آپ مدین میں رہتے تھے کہ وہاں کے لوگوں کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہوں لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم ہی رسول بنانے والے ہیں اور ہم ہی رسول بھیجتے رہے ہیں ۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات کو ایک مدت ہوچکی...  اور کتنا ہی زمانہ گزر چکا اور یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات عقلی تو ہیں نہیں جو دلائل سے بحث کی جائے یہ واقعات ہیں نقلی ان کے لئے مشاہدے کی ضرورت ہے یا اہل علم سے سماع کی تو یہ بھی متحقق نہیں بلکہ اس کی نفی ہے اور جب قرون گزر چکے ہوں اور تاریخیں مسخ ہوچکی ہوں پھر نہ مشاہدہ ہو نہ اہل علم کی صحبت میں جانے اور علم حاصل کرنے کا اتفاق ہوا ہو نہ تو اتر اخبار کا کوئی نظام ہو پھر بجزوحی الٰہی کے یقینی خبر کا اور کیا ذیعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب ہی چونکہ رسول بناتی اور رسول منتخب کرتی ہے ۔ اس لئے فرمایا ولکنا کنا مرسلین یعنی ہم نے ہی آپ کو رسول بنایا ہے اور آپ پر گزشتہ واقعات اور اخبار کو بذریعہ وحی بھیجا ہے۔  Show more