Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 46

سورة القصص

وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَیۡنَا وَ لٰکِنۡ رَّحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۴۶﴾

And you were not at the side of the mount when We called [Moses] but [were sent] as a mercy from your Lord to warn a people to whom no warner had come before you that they might be reminded.

اور نہ تو طور کی طرف تھا جب کہ ہم نے آواز دی بلکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ایک رحمت ہے اس لئے کہ تو ان لوگوں کو ہوشیار کر دے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں پہنچا کیا عجب کہ وہ نصیحت حاصل کرلیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا ... And you were not at the side of At-Tur when We called. Qatadah said that: وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا (And you were not at the side of At-Tur when We did call), refers to Musa, and this -- and Allah knows best -- is like the Ayah: وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِىِّ إِذْ قَضَيْنَأ إِلَى مُوسَى الاٌّمْرَ And you were not on the western side (of the Mount), when We made clear to Musa the commandment, Here Allah puts it in a different and more specific way by describing it as a call. This is like the Ayat: وَإِذْ نَادَى رَبُّكَ مُوسَى And (remember) when your Lord called Musa. (26:10) إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى When his Lord called him in the sacred valley of Tuwa. (79:16). وَنَـدَيْنَـهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الاٌّيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيّاً And We called him from the right side of At-Tur, and made him draw near to Us for a talk with him. (19:52) ... وَلَكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ... But (you are sent) as a mercy from your Lord, means, `you were not a witness to any of those things, but Allah has revealed them to you and told you about them as a mercy from Him to you and to His servants, by sending you to them,' ... لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ to give warning to a people to whom no warner had come before you, in order that they may remember or receive admonition. means, `so that they may be guided by that which you bring from Allah.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

461یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔ 462یعنی آپ کا علم، مشاہدہ روئیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔ 463اس سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعث بنی اسرائیل کی طرف سے ہی ہوتی رہی بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے نبی تھے اور سلسلہ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے نہیں سمجھی گئی ہوگی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لئے کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لئے باقی نہیں چھوڑا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] گویا ان تین واقعات کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے آپ کی نبوت کی صداقت کے طور پر پیش فرمایا۔ ایک وہ وقت جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو معجزات عطا کرکے انھیں فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا اور امر رسالت تفویض کیا تھا۔ دوسرے مدین کے حالات کے تفصیل اور تیسرے وہ وقت جب موسیٰ رستہ بھول کر آگ لینے کی غرض سے آئے تھے۔ تو ہم نے خود انھیں پکار کر رسالت بھی عطا کی تھی اور ہم کلامی کا شرف بھی بخشا تھا۔ اور یہ واقعات آپ کی نبوت پر دلیل اس طرح ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے۔ کہ آپ نے کسی کتاب سے پڑھ کر یہ حالات معلوم کر لئے ہوں اور لوگوں کو سنا دیا ہو۔ دوسرے یہ کہ آپ کا کوئی استاد ہی نہ تھا جس کے آگے آپ نے زنوے تلمذ تہ کیا ہو اور اس نے آپ کو ان واقعات سے مطلع کردیا ہو۔ اب تیسری صورت یہی باقی رہ جاتی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہوں اور اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو ان حالات سے مطلع کردیا ہو۔ پھر ان سابقہ کتب میں یا موجودہ میں انہی واقعات سے متعلق بیشمار جزوی اختلاف موجود تھے۔ اللہ نے جو حالات آپ کو وحی کے ذریعہ بتلائے یہ حالات اصل حقائق کے ٹھیک مطابق ہیں۔ [٦٢] یعنی اہل حجاز کے لئے اس دو ہزار سال میں کوئی نبی مبعوث نہ ہوا تھا ان لوگوں کا ان واقعات سے متعلق ذریعہ معلومات بسی وہی خبریں تھیں جو ادھر ادھر سے وہ سن لیتے تھے اور ان خبروں میں بھی کافی اختلافات تھے۔ اب ہم نے ان لوگوں میں آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ انھیں صحیح حالات کا علم ہوجائے۔ اور وہ امم سابقہ کے انجام سے متنبہ ہو کر سبق حاصل کریں۔ اور اللہ سے شرک اور سرکشی کی راہ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں تاکہ ان کا انجام بھی ویسا ہی نہ ہو جیسا کہ مذکور امتوں کا ہوا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ : ان تینوں آیات میں ” وما کنت “ (اور تو وہاں موجود نہ تھا) کی تکرار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق اور صدق پر ہونے کو واضح فرمایا گیا ہے کہ جب آپ ان مقامات میں سے کہیں بھی موجود نہیں تھے، پھر بھی ان کے بارے میں اصل حقائق کو صحیح طور پر اور بالکل واقعہ کے مطابق بیان کرتے ہیں تو یہ اس بات کی کھلی دلیل اور واضح ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس کی وحی آپ کے پاس آتی ہے جس کے ذریعے سے آپ یہ سب کچھ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ” وَمَا كُنْتَ “ (اور تو وہاں موجود نہ تھا) کی تکرار کے ساتھ یہ اہم حقیقت بھی واضح فرما دی گئی ہے کہ پیغمبر حاضر و ناظر اور ہر جگہ موجود نہیں ہوتے، نہ وہ عالم الغیب ہوتے ہیں۔ انھیں جو علم ہوتا ہے وحی کے ذریعے سے ہوتا ہے اور وہ بھی اتنا جتنی وحی کی جائے۔ وَلٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ : یعنی آپ کو یہ واقعات اس لیے معلوم نہیں ہوئے کہ آپ ان مواقع پر موجود تھے، یا انھیں دیکھ رہے تھے، بلکہ یہ آپ کے رب کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور وحی سے نوازا۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ ۔۔ : اس قوم سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں۔ ان میں ابراہیم، اسماعیل اور شعیب (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا۔ ہزاروں برس کی اس طویل مدت میں باہر کے انبیاء کی دعوتیں تو ضرور وہاں پہنچتی رہیں، مثلاً موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت، کیونکہ اس کے بغیر ان کا کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہتا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عذر کسی کے لیے باقی نہیں چھوڑا، مگر خاص اس سر زمین میں کسی نبی کی بعثت نہیں ہوئی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہاں آخری پیغمبر کو مبعوث فرمایا۔ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورة سجدہ (٣) اور یٰس (١ تا ٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لِتُنذِرَ‌ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ‌ ( so that you warn a people to whom no warner has come before - 28:46). The expression ` a people& is purported here for the Arabs, who are the progeny of Sayyidna Ismail (علیہ السلام) . No prophet was sent to this ` people& after Sayyidna Ismail علیہ السلام until the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sent. The same subject will follow in Surah Yasin. But this verse is not in conflict with the other verse إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ‌ (There is no community, but there has come a warner among them - 35:24). What the present verse means here is that there was no prophet in ` this people& for a long time after Ismail . But after the arrival of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) this void was filled up.

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ ، یہاں اس قوم سے عرب مراد ہیں جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں اور ان کے بعد سے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک ان میں کوئی پیغمبر مبعوث نہ ہوا تھا یہی مضمون سورة یٰسٓ میں بھی آنے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسری جگہ قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ کہ کوئی امت ایسی نہیں جس میں اللہ کا کوئی پیغمبر نہ آیا یہ اس آیت کے منافی نہیں کیونکہ مراد اس آیت کی یہ ہے کہ زمانہ دراز سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ان میں کوئی نبی نہیں آیا مگر نبی و رسول کے آنے سے بالکل خالی یہ امت بھی نہیں رہی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا وَلٰكِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىہُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٤٦ طور طَوَارُ الدّارِ وطِوَارُهُ : ما امتدّ منها من البناء، يقال : عدا فلانٌ طَوْرَهُ ، أي : تجاوز حدَّهُ ، ولا أَطُورُ به، أي : لا أقرب فناء ه . يقال : فعل کذا طَوْراً بعد طَوْرٍ ، أي : تارة بعد تارة، وقوله : وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح/ 14] ، قيل : هو إشارة إلى نحو قوله تعالی: خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج/ 5] ، وقیل : إشارة إلى نحو قوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] ، أي : مختلفین في الخَلْقِ والخُلُقِ. والطُّورُ اسمُ جبلٍ مخصوصٍ ، وقیل : اسمٌ لكلّ جبلٍ وقیل : هو جبل محیط بالأرض «2» . قال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص/ 46] ، وَطُورِ سِينِينَ [ التین/ 2] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء/ 154] . ( ط و ر ) طوارا لدار وطوارھ کے معنی گھر کی عمارت کے امتداد یعنی لمبا ہونے اور پھیلنے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ عدا فلان طوارہ فلاں اپنی حدود سے تجاوز کر گیا ۔ لاوطور بہ میں اسکے مکان کے صحن کے قریب تک نہیں جاؤں گا ۔ فعل کذا طورا بعد طور اس نے ایک بار کے بعد دوسری باریہ کام کیا اور آیت کریمہ : ۔ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْواراً [ نوح/ 14] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کہ اطوارا سے ان مختلف منازل ومدارج کی طرف اشارہ ہے جو کہ آیت : ۔ خَلَقْناكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ [ الحج/ 5] ہم نے تم کو ( پہلی بار بھی ) تو پیدا کیا تھا ( یعنی ابتداء میں ) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بناکر پھر اس سے خون کا لوتھڑا بناکر پھر اس سے بوٹی بناکر ۔ میں مذکور ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مختلف احوال مراد ہیں جن کی طرف آیت : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے یعنی جسمانی اور اخلاقی تفاوت جو کہ ہر معاشرہ میں نمایاں طور پر پا یا جاتا ہے ۔ الطور ( ایلہ کے قریب ایک خاص پہاڑ کا نام ہے) اور بعض نے کہا ہے کہ ہر پہاڑ کو طور کہہ سکتے ہیں اور بعض کے نزدیک طور سے وہ سلسلہ کوہ مراد ہے جو کرہ ارض کو محیط ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] کوہ طور کی قسم اور کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے ۔ وَما كُنْتَ بِجانِبِ الطُّورِ [ القصص/ 46] اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے تھے ۔ وَطُورِ سِينِينَ [ التین/ 2] اور طورسنین کی ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَهُمُ الطُّورَ [ النساء/ 154] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کر کھڑا کیا ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) اور اسی طرح آپ طور کی غربی جانب میں اس وقت بھی نہیں تھے جب کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا تھا یا یہ کہ آپ کی امت کو پکارا تھا لیکن اس کا علم بھی اس طرح حاصل ہوا کہ آپ اپنے رب کی رحمت سے نبی بنائے گئے اور بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) قرآن حکیم میں گزشتہ قوموں کے آپ سے واقعات بیان کیے گئے تاکہ آپ بذریعہ قرآن ایسی قوم کو یعنی قریش کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والانبی نہیں آیا ممکن ہے کہ یہ نصیحت قبول کرلیں اور ایمان لے آئیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰٹہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ ) ” قریش مکہّ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) سے لے کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کم و بیش تین ہزار برس کا عرصہ بیت چکا تھا ‘ جس میں اس قوم کی طرف نہ کوئی نبی اور رسول آیا اور نہ ہی کوئی کتاب بھیجی گئی۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل (بنی اسرائیل) میں نبوت کا سلسلہ لگاتار چلتا رہا اور انہیں زبور ‘ تورات اور متعدد صحائف بھی عطا کیے گئے۔ بلکہ بنی اسرائیل میں چودہ سو برس کا ایک عرصہ ایسا بھی گزرا جس کے دوران ان میں ایک لمحے کے لیے بھی نبوت کا وقفہ نہیں آیا۔ بہرحال ایک طویل عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنو اسماعیل ( علیہ السلام) کو خبردار کرنے کے لیے ان کی طرف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور رسول بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 That is, "You did not exist at the time when the Prophet Moses reached Midian, passed ten years of his life there, and then left for Egypt. You were not preaching in the habitations of Midian that which you are preaching in the streets of Makkah. You are not relating those events as an eye-witness, but because you have been given the knowledge of these by Us through Revelation." 64 These things have been presented as a proof of the Holy Prophet's Prophethood. At the time when these were cued all the chiefs of Makkah and the common disbelievers were bent upon somehow proving him as a non-prophet, and, God forbid, a false claimant to Prophethood. To help and assist them in their campaign there were the Jewish scholars and the Christian monks also, who were living in the habitations of the Hijaz. Besides, the Holy Prophet Muhammad (may Allah's peace be upon him) had not appeared all of a sudden from somewhere and started reciting the Qur'an to the people, but he was a resident of the same city of Makkah, and no aspect of his life was hidden from the people of his city and clan. That is why when these three things were presented like an open challenge as a proof of his Prophethood, not a single person from Makkah and Hijaz and the entire land of Arabia could stand up to say the absurd thing which the modern orientalists say, although those people were no less . efficient in fabricating falsehood than these so-called scholars. But how could they utter an unprofitable lie that could not survive for a single moment? How could they say, "O Muhammad, you have attained this information from such and such a Jewish scholar and a Christian monk?" For, this purpose, they could not mention any name in the entire land. For whatever name they mentioned, it would become manifest there and then that the Holy Prophet had not obtained any information from him. How could they say, "O Muhammad, you possess a full-fledged library containing aII sorts of books an ancient history and sciences and literature, from which you take help to prepare all your discourses?"' For not to speak of a library, no one could seize even a scrap of paper from his house containing such information. Everyone in Makkah knew that Muhammad (may Allah's peace be upon him) was un-lettered and no one could also say that he had had some translators at his disposal, who supplied him with translations from Hebrew and Assyrian and Greek books. Then, none of them could be so shameless as to dare claim that he had obtained this information during the trade journeys to Syria and Palestine, for he had not performed those journeys alone, but had travelled in company with trade caravans of Makkah. Had somebody made any such assertion, hundreds of living witnesses would have refuted this and testified that he had received no such instruction from anyone there. Then, within two years of the Holy Prophet's death war had started between the Romans and the Muslims. If he had any son of discussion anywhere in Syria and Palestine with any Christian monk or Jewish rabbi, the Roman Empire would not have hesitated to launch a propaganda campaign, saying, that Muhammad (peace be upon him), God forbid, had learnt everything from them and gone back to Makkah and proclaimed himself a Prophet. In short, at that time when the challenge of the Qur'an was the knell of the disbelieving Quraish and the polytheists and the need of those people to refute it was far greater then of the modern orientalists, no one could discover any material by which he could prove that the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) had some other means than Revelation for obtaining that information . One should also know that the Qur'an has not given this challenge only here, but at several other places also in connection with different stories. After narrating the story of the Prophet Zacharias and Mary, it was said: "These are of the 'unseen' things We are revealing to you: you were not present there when the priests of the Temple were casting lots by throwing their quills to decide which of them should be the guardian of Mary: nor were you there with them when they were arguing about it." (Al-i-`Imran: 44) At the end of the Prophet Joseph's story it was said: "This story which We are revealing to you is of those things that were not known to you: for you were not with the brothers (of Joseph), when they had conspired together a plot against Joseph." (Yusuf: 102) Similarly, after relating the full story of the Prophet Noah, it was said: "These are some of the tidings of the `unseen' which We are revealing to you. You did not know these before nor did your people." (Hud: 49) That this thing has been reiterated several times shows that this was one of the main arguments that the Qur'an gave to prove its being Allah's Word and the Holy Prophet's being a Messenger of Allah. For there was no perceptible means of knowledge available to the Holy Prophet who was an unlettered person, apart from Revelation, through which he could narrate so accurately the events that had happened hundreds and thousands of years in the past. And this was one of the important reasons why the contemporaries of the Holy prophet were coming to believe, in larger and still larger numbers, that he was really a Prophet of Allah and received Allah's Revelations. Now one can easily imagine how important it must have been for the opponents of the Islamic movement at that time to meet this challenge, and what efforts they must have made to collect arguments and proofs against it. One can also see that if, God forbid, there was the slightest weakness. in this challenge, it would not have been at all difficult for the contemporary people to provide evidence for its refutation. 65 No prophet had been born especially in Arabia after the Prophets Ishmael and Shu`aib (peace be upon them both), during the past two thousand years or so,, though teachings of the Prophets like Moses and Solomon and Jesus (peace be upon all of them) had reached the people of that land.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 64 یہ تینوں باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی گئی ہیں ۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھیں اس وقت مکہ کے تمام سردار اور عام کفار اس بات پر پوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کو غیر نبی اور معاذ اللہ جھوٹا مدعی ثابت کردیں ۔ ان کی مدد کے لیے یہود کے علماء اور عیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میں موجود تھے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے ، بلکہ اسی مکہ کے رہنے والے تھے اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ آپ کی بستی اور آپ کے قبیلہ کے لوگوں سے چھپا ہوا نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے طور پر یہ تین باتیں ارشاد فرمائی گئیں ، اس وقت مکے اور حجاز اور پورے عرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر وہ بیہودہ بات نہ کہہ سکا جو آج کے مستشرقین کہتے ہیں ۔ اگرچہ جھوٹ گھڑنے میں وہ لوگ ان سے کچھ کم نہ تھے ، لیکن ایسا دروغ بے فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتا ہو ۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد ، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کر لائے ہو ، کیونکہ پورے ملک میں وہ اس غرض کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے تھے ۔ جس کا نام بھی وہ لیتے فورا ہی یہ ثابت ہوجاتا کہ اس سے آنحضرت نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں ۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد ، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اور علوم و آداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد سے تم یہ ساری تقریریں کر رہے ہو ، کیونکہ لائبریری تو درکنار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کہیں سے وہ ایک کاغذ کا پرزہ بھی برآمد نہیں کرسکتے تھے جس میں یہ معلومات لکھی ہوئی ہوں ۔ مکے کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں ، اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو عبرانی اور سریانی اور یونانی کتابوں کے ترجمے کر کے آپ کو دیتے ہیں ۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعوی کرنے کی جرات نہ رکھتا تھا کہ شام و فلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کر آئے تھے ، کیونکہ یہ سفر تنہا نہیں ہوئے تھے ، مکے ہی کے تجارتی قافلے ہر سفر میں آپ کے ساتھ لگے ہوتے تھے ۔ اگر کوئی اس وقت ایسا دعوی کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دے دیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا ۔ اور آپ کی وفات کے بعد تو دو سال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان برسر پیکار ہوگئے تھے ، اگر کہیں جھوٹوں بھی شام و فلسطین میں کسی عیسائی راہب یا یہودی ربی سے حضور نے کوئی مذاکرہ کیا ہوتا تو رومی سلطنت رائی کا پہاڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں ذرا دریغ نہ کرتی کہ محمد ، معاذ اللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھے اور مکے جاکر نبی بن بیٹھے ، غرض اس زمانے میں جبکہ قرآن کا یہ چیلنج قریش کے کفار و مشرکین کے لیے پیام موت کی حیثیت رکھتا تھا ، اور اس کو جھٹلانے کی ضرورت موجودہ زمانے کے مستشرقین کی بہ نسبت ان لوگوں کو بدرجہا زیادہ لاحق تھی ، کوئی شخص بھی کہیں سے ایسا کوئی مواد فراہم کر کے نہ لاسکا جس سے وہ یہ ثابت کرسکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے سوا ان معلومات کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جاسکتی ہو ۔ یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ چیلنج اسی ایک جگہ نہیں دیا ہے بلکہ متعدد مقامات پر مختلف قصوں کے سلسلہ میں دیا ہے ، حضرت زکریا اور حضرت مریم کا قصہ بیان کر کے فرمایا : ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ ۠وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ ۔ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کے ذریعے سے تمہیں دے رہے ہیں ، تم ان لوگوں کے آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے کرنے کے لیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے ، اور نہ تم اس وقت موجود تھے جبکہ وہ جھگڑ رہے تھے ( آل عمران ، آیت 44 ) حضرت یوسف کا قصہ بیان کرنے کے بعد فرمایا: ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُوْنَ ۔ یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دے رہے ہیِ تم ان کے ( یعنی یوسف کے بھائیوں کے ) آس پاس کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پر اتفاق کیا اور جب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے ( یوسف ، آیت 102 ) اسی طرح حضرت نوح کا مفصل قصہ بیان کرکے فرمایا: تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا ۔ یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ، تمہیں اور تمہاری قوم کو اس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا ( ہود ، آیت 49 ) اس چیز کی بار بار تکرار سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانب اللہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہونے پر جو بڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سے ایک یہ دلیل تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے کے گزرے ہوئے واقعات کی جو تفصیلات ایک امی کی زبان سے بیان ہو رہی ہیں ان کے علم کا کوئی ذریعہ اس کے پاس وحی کے سوا نہیں ہے ۔ اور یہ چیز ان اہم اسباب میں سے ایک تھی جن کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر لوگ اس بات پر یقین لاتے چلے جارہے تھے کہ واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ پر وحی آتی ہے ، اب یہ ہر شخص خود تصور کرسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کے لیے اس زمانے میں اس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا ہوگا ، اور انہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیا کسر اٹھا رکھی ہوتی ، نیز یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر معاذ اللہ اس چیلنج میں ذرا سی بھی کوئی کمزوری ہوتی تو اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کے لیے مشکل نہ تھا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 65 عرب میں حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب علیہما السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا تھا ، تقریبا دو ہزار برس کی اس طویل مدت میں باہر کے انبیاء کی دعوتیں تو ضرور وہاں پہنچیں ، مثلا حضرت موسی ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسی علیہم السلام کی دعوتیں ، مگر کسی نبی کی بعثت خاص اس سرزمین میں نہیں ہوئی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٦‘ ٤٧۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرما کر اس قصے سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت قریش پر ظاہر کی ہے اور قریش کی قائل کیا ہے کیونکہ یہ تو قریش کو معلوم تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت شعیب ( علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے اور یہ بھی معلوم تھا کہ جب تک آپ مکہ میں تھے۔ کبھی اہل تو ریت سے اور آپ سے ایسا میل جول نہ تھا جس سے آپ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے لے کر ان کے نبی ہونے تک کا قصہ سن لیتے پھر بغیر ان دونوں باتوں کے جبکہ آپ نے پورا قصہ حضرت موسیٰ کا اور سب انبیاء ( علیہ السلام) کے اسی طرح سب قصے جس طرح تو ریت میں تھے پورے پورے بیان فرما دیئے تو پھر آپ کی تائید غیبی اور نبوت میں کیا شک وشبہ باقی رہ گیا اور یہ سورة انعام میں گزر چکا ہے کہ یہودو نصاریٰ کو اہل کتاب دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے اور قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے قریش یہ کہا کرتے تھے کہ کاش ہم میں بھی کوئی نبی ہوتا کہ اس کے ذریعہ سے ہم پر بھی اللہ کے حکم اترتے تو ہم ضرور ان دونوں فرقوں سے زیادہ راہ راست پر آجاتے اب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ثابت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قریش کو یوں قائل کیا ہے کہ جب ان لوگوں میں کوئی نبی نہیں تھا اور کوئی کتاب اللہ کی طرف ان پر نہیں اتری تھی تو یہود اور نصاریٰ کو اہل کتاب دیکھ کر یہ لوگ حرص کرتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی حرص پوری کردی کہ ان میں نبی آخر الزمان کو پیدا کردیا اور تو ریت وانجیل سے بھی زیادہ کامل کتاب ان نبی آخر الزمان پر نازل پر نازل فرمادی تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ اپنی مراد کے پورا ہوجانے پر اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کریں بڑے ناشکر لوگ ہیں کہ اللہ کی اس نعمت میں فذر نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ نے اون کے اس پچتاوے کے دور کرنے کے لیے نبی آخر الزمان کو اللہ کی ہدایت کے لیے پیدا کیا ہے کہ گمراہی اور بےدینی کے سبب سے کل کو ان لوگوں پر کوئی مصیبت خدا کی طرح سے آجاوے تو ان کو اس بات کے پچتاوے کی گنجائش نہ رہے کہ ہماری ہدایت کے لیے اللہ کے کوئی رسول اور اللہ کا کوئی حکم آتا تو ہم ایسی گمراہی اور بےدینی میں کیوں گرفتار ہوتے جس گمراہی اور بےدینی کے سبب سے ہم پر خدا کی بلا اور مصیبت نازل ہوئی اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قریش کے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے وہ اعتراض یہ تھا کہ یہود کے سکھلانے سے قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا تھا کہ عصا اور یدبیضا اور قلزم دریا کے بیچ میں سے سوکھے راستہ کا معجزہ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملا تھا اس طرح کا ظاہر میں نظر آتا ہوا کوئی معجزہ آپ کو بھی خدا کی طرف سے مل جاوے تو ہم ضرور آپ کو سچا نبی جان لیویں گے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ عصا اور یدبیضا کا معجزہ دیکھ کر فرعون اور اوس کے ساتھی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) پر کب ایمان لائے جو یہ لوگ ظاہری معجزہ دیکھ کر اے نبی آخر الزمان تم پر ضرور ایمان لاویں گے بلکہ فرعون اور اوس کی قوم تو وہ معجزہ دیکھ کر بھی موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) دونوں کو دو جادو گر بتلانے رہے اعتراض کے جواب کی یہ تفسیر حضرت سیعد بن جبیر اور مجاہد کی تفسیر ہے اور اکثر مفسروں نے اس تفیرض کو پسند کیا ہے اور اس تفسیر کی صورت میں قالو ساحران تظاہرا کی قرائت پڑھ جاوے گی اور معنے میت یہ ہوں گے کہ فرعون اور اوس کے قوم نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو کہا کہ دونوں جادوگر ایک دل ہوگئے ہیں اور ہم اون کے منکر ہیں دوسری قراءت سحران کی ہے جس کی روایت حضرت عبداللہ بن (رض) عباس سے بھی ہے اس صورت میں آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ قریش نے توریت اور قران شریف دونوں کا جادو بتلایا آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے کہو کہ تم لوگوں کو تو ریت اور قرآن سے بہتر کوئی کتاب معلوم ہو تو پیش کرو اس سے آخری قراءت قرآن کے مضمون سے بہت مطابقت رکھتی ہے۔ مصیبت کے معنے یہاں عذاب کے ہیں جیسے سرکش مشرکین مکہ پر بدر کی لڑائی کے وقت عذاب آیا جس کا ذکر صحیح بخاری مسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے اوپر گذر چکا ہے حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں پر یہ عذاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہو کر آنے اور قرآن کے نازل سونے کے بعد ہوا اس لیے یہ لوگ اب انجانی کا عذر نہیں کرسکتے اس آخری قراءت کی صورت میں مثل ما اوتی سے ان مشرکین کا مطلب توراۃ ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح توراۃ تمام و کمال ایک ہی دفعہ موسیٰ پر اتری اسی طرح سے قرآن بھی تمام و کمال کیوں نہیں اترا جب اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ توراۃ ایک دفعہ اتری تو کیا ہوا آخر یہ لوگ توراۃ کے بھی تو پہلے سے منکر ہیں کہ ایک مدت سے بت پرستی کرتے ہیں بہلا بتلائیں کہ توراۃ میں بت پرستی کا کہا حکم ہے اس جواب کو سن کر مشرکین مکہ تورات اور قرآن دونوں کو جادو کہنے لگے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے مغیرہ بن شعبہ (رض) اور عبداللہ بن مسعود (رض) اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو انجانی کے عذروں کا رفع کو دینا بہت پسند ہے اس لیے اس نے کتاب آسمانی دے کر رسول بھیجے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح قریش میں کے سرکش لوگوں کو انجانی کا عذر رفع کردینے کے بعد عذاب میں پکڑا یہی بر تاؤ اس نے پہلے سب قوموں کے ساتھ کئے کیونکہ اس کو انجانی کے عذر کا رفع کردینا بہت پسند ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:46) ولکن رحمۃ من ربک۔ ای رحمک ربک رحمۃ یا رسالک والوحی الیک واطلاعک علی الاخبار الغائبۃ۔ تمہیں پیغمبر بنا کر بھیج کر اور تم پر وحی ارسال کرکے اور غیب کی خبروں سے مطلع کرکے اپنی (خصوصی) رحمت سے نوازا ہے رحمۃ بوجہ فعل محذوف کے مصدر کے منصوب ہے ای رحمک رحمۃ۔ لتنذر۔ میں لام تعلیل کا ہے تنذر واحد مذکر حاضر مضارع ۔ تاکہ تو ڈراوے ۔ انذار۔ افعال۔ مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی کوہ طور پر۔ مناجاۃ۔ اور کلام کے طورپ ر۔ اللہ تعالیٰ کے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو پکارنے کا قرآن حکیم میں کئی جگہ ذکر ہے۔ اسی کے مشابہ وہ آیت ہے جو ابھی اوپر گزر چکی ہے یعنی : وما کنت بجانب المغربی اذ قضینا الی موسیٰ الامر بعض علما نے یہاں ندا اور قضا کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو خبر دی کہ محمد (ﷺ) کی امت خیر الامم ہے واللہ اعلم۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 10 ۔ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک جتنے پیغمبر اولاد ابراہیم میں آئے، بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوتے رہے۔ بنو اسماعیل یعنی عرب کے لوگ) ایسے تھے جن کی طرف حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جگہ موجود نہ تھے کہ ان واقعات کا خود مشاہدہ کرلیتے۔ یہ واقعات ہم نے محض اپنی رحمت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاصرین بلکہ ان کے آباء اقربین نے بھی کسی نبی کو نہیں دیکھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ جب کوہ طور کے دامن میں ہم نے موسیٰ کو آواز دی اس وقت بھی آپ وہاں موجود نہ تھے لیکن یہ آپ پر اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو منصب نبوت پر فائز کیا تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو توحید کی دعوت دیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی داعی نہیں آیا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد زمان فترت میں، فی زمان الفترۃ بینک و بین عیسیٰ وھو خمسمائۃ وخمسون سنۃ (مدارک ج 3 ص 182) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46۔ اور نہ آپ اس وقت طور کے کنارے اور کسی جانب میں تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا تھا لیکن آپ اپنے پروردگار کی رحمت اور اس کی مہر سے نبی بنائے گئے تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والام نہیں آیا کیا عجب ہے کہ یہ لوگ نصیحت قبول کرلیں ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر پکارا تھا اور فرمایا تھا انی انا اللہ رب العالمین اس وقت بھی آپ طور کی کسی جانب موجود نہ تھے اور طور کے آس پاس نہیں تھے لیکن آپ کے پروردگار کی یہ رحمت ہے کہ آپ نبی بنائے گئے اور آپ کو اپنے رب کی مہر سے نبوت عطا ہوئی تا کہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس اب تک کوئی ڈرانے والا نہیں آیا ان لوگوں سے مراد آپ کے آباء اقربین اور آپکے ہم زمانہ لوگ مراد ہیں ۔ یا یہ مطلب ہے کہ بحیثیت رسول کے کوئی نہیں آیا، البتہ رسول کے رسول اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وصی آتے رہے ہوں گے اور توحید ان کے ذریعہ پہنچتی رہی ہوگی جیسا کہ ہم سورة رعد میں ولکل قوم ھاد کے تحت عرض کرچکے ہیں اس لئے ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا سے کوئی تعارض نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تورات کے بعد غازت کے عذاب کم آئے کہ عام میں ایک لوگ شریعت کے حکم پر قائم رہے۔ 12 اور فرماتے ہیں غرب کی جانب طور کے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات ملی ۔ 12 حضرت شاہ صاحب (رح) کا فرمانا یہ ہے کہ اگر کسی امت کے کچھ لوگ شریعت کی پابندی کرتے رہیں اور احکام الٰہی کے پابند رہیں تو ان کی برکت سے عام عذاب رکا رہتا ہے اور وہ امت محفوظ رہتی ہے۔