Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 47

سورة القصص

وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُوۡا رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَ نَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۴۷﴾

And if not that a disaster should strike them for what their hands put forth [of sins] and they would say, "Our Lord, why did You not send us a messenger so we could have followed Your verses and been among the believers?"...

اگر یہ بات نہ ہوتی کہ انہیں ان کے اپنے ہاتھوں آگے بھیجے ہوئے اعمال کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا ؟کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اور ایمان والوں میں سے ہو جاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْلاَ أَن تُصِيبَهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلاَ أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولاً ... And if (We had) not (sent you to the people of Makkah) -- in case a calamity should seize them for (the deeds) that their hands have sent forth, they would have said: "Our Lord! Why did You not send us a Messenger! meaning: `and We have sent you to them to establish proof against them, and to give them no excuse when the punishment of Allah comes to them because of their disbelief, lest they offer the excuse that no Messenger or warner came to them.' This is like what Allah says about the situation after He revealed His blessed Book the Qur'an: أَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَأيِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ... Lest you should say: "The Book was sent down only to two sects before us, and for our part, we were in fact unaware of what they studied." Or lest you should say: "If only the Book had been sent down to us, we would surely have been better guided than they." So, now has come unto you a clear proof from your Lord, and a guidance and a mercy... (6:156-157) رُّسُلً مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِيَلَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ Messengers as bearers of good news as well as warning in order that mankind should have no plea against Allah after the Messengers. (4:165) يَـأَهْلَ الْكِتَـبِ قَدْ جَأءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مَّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُواْ مَا جَأءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ O People of the Scripture! Now has come to you Our Messenger making (things) clear unto you, after a break in (the series of) Messengers, lest you say: "There came unto us no bringer of glad tidings and no warner." But now has come unto you a bringer of glad tidings and a warner. (5:19) And there are many similar Ayat. ... فَنَتَّبِعَ ايَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ We would then have followed Your Ayat and would have been among the believers."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

471یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لئے ہم نے آپ کو ان کی طرف بھیجا ہے کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہوچکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات (قرآن و حدیث) کو مسخ ہونے اور تغیر و تحریف سے محفوظ رکھا اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس ' ضرورت ' کا دعو یٰ کر کے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] ان لوگوں میں آپ کو رسول بنا کر بھیجنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی بعثت سے پہلے ان پر ان کے اپنے شامت اعمال کی وجہ سے کوئی عذاب یا مصیبت آن پڑتی تو یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تو عرصہ دو ہزار سال سے صحیح حالات سے واقف ہی نہ تھے۔ یہ ممکن تھا کہ سزا دہی کے وقت یہ لوگ کہنے لگتے کہ ہمارے پاس کوئی پیغمبر تو بھیجا نہیں جو ہمیں ہماری غلطیوں پر کم از کم تنبیہ کردیتا اس طرح یکدم پکڑ کر عذاب میں۔۔ گھسیٹا۔ اور اگر اللہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجتا جو ہمیں ہدایت کی راہ دکھلاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم اس رسول کی پیروی نہ کرتے اور دوسری موجود قوموں سے زیادہ ہدایت یافتہ نہ بن جاتے۔ آپ گویا ان لوگوں کی طرف آپ کی بعثت کے دو مقصد تھے ایک اتمام حجت اور دوسرے ان لوگوں کے عذر یا اعتراض کو رفع کرنا یہی مضمون قرآن میں دیگر متعدد مقامات پر بھی مذکور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ ۔۔ : یعنی عرب کے لوگوں کا کفرو شرک اور ان کی سرکشی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی پیغمبر بھیجے بغیر بھی ان پر عذاب بھیجتا تو ظلم نہ ہوتا، کیونکہ ان پر جو مصیبت آتی ان کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی، مگر اس نے احسان فرمایا اور ان کے لیے عذر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا کہ وہ کہہ سکیں کہ پروردگار ! تو نے ہماری طرف کوئی پیغام پہنچانے والا کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوجاتے۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اس لیے بھیجے کہ لوگوں کے پاس کفرو شرک کا کوئی عذر باقی نہ رہے، قرآن میں کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٦٥) ، انعام (١٥٦، ١٥٧) ، مائدہ (١٩) اور سورة فاطر (٢٤) وغیرہ۔ ” وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ“ کا جواب محذوف ہے، جو سلسلہ کلام سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے، یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اپنے اعمالِ بد کی وجہ سے عذاب آنے پر یہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا، ” لَعَجَّلْنَا لَھُمُ الْعَذَابَ “ (تو ہم ان پر جلدی عذاب بھیج دیتے) ، یا ” لَمَا أَرْسَلْنَا رَسُوْلًا “ (تو ہم کوئی رسول نہ بھیجتے) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اَنْ تُصِيْبَہُمْ مُّصِيْبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٤٧ مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] ، قال : الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل . مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة/ 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء/ 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور/ 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم/ 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اور اگر ہم ان کی طرف کوئی رسول نہ بھی بھیجتے تو قیامت کے دن آپ کی قوم پر ان کے کرداروں کی وجہ سے جب عذاب نازل ہوتا تو یہ یوں کہنے لگتے کہ اے ہمارے پروردگار اس عذاب کے نازل ہونے سے پہلے کوئی رسول ہمارے پاس کتاب دے کر کیوں نہیں بھیجا تھا تاکہ ہم آپ کی کتاب اور آپ کے رسول کی پیروی کرتے اور کتاب و رسول پر ایمان لانے والوں میں ہوتے اسی لیے ہم نے آپ کو قرآن کریم دے کی طرف بھیجا ہے تاکہ ان کے پاس کسی قسم کا کوئی عذر نہ رہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” اگر رسول مبعوث کیے بغیر ان پر عذاب آجاتا تو یہ لوگ عذر کرتے کہ ہمیں متنبہ کیوں نہیں کیا گیا ؟ جب ہمارے معاملے میں اتمام حجت نہیں ہوئی تو پھر یہ عذاب ہمارے اوپر کیونکر مسلط کردیا گیا ؟ یہی مضمون سورة طٰہٰ میں اس طرح بیان ہوا ہے : (وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَکْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰی ) ” اور اگر ہم اس (قرآن کے نزول ) سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کردیتے تو یہ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66 This very thing has been presented at several places in the Qur'an as the reason for sending the Messengers, but it will not be correct to conclude from this that a Messenger should be sent on every occasion at every place for this purpose. AS long as the message of a Prophet remains intact in the world and the means of conveying it to others exist, there is no need for a new Prophet, unless need arises to supplement the previous message, or to supplant it by a new message, Nevertheless, when the teachings of the Prophets are forgotten, or become mixed up with errors and deviations and can no longer be relied upon as means of guidance, then the people do get a chance to make the excuse that there existed no arrangement whatever to make them aware of the distinction between the Truth and the untruth and guide them to the right way: so they could not be guided aright. To meet such an excuse Allah sends the Prophets in such conditions so that any one who follows a wrong way after that may himself be held responsible for his going astray.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 66 اسی چیز کو قرآن مجید متعدد مقامات پر رسولوں کے بھیجے جانے کی وجہ کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اس غرض کے لیے ہر وقت ہر جگہ ایک رسول آنا چاہیے ۔ جب تک دنیا میں ایک رسول کا پیغام اپنی صحیح صورت میں موجود رہے اور لوگوں تک اس کے پہنچنے کے ذرائع موجود رہیں ، کسی نئے رسول کی حاجت نہیں رہتی ، الا یہ کہ پچھلے پیغام میں کسی اضافے کی اور کوئی نیا پیغام دینے کی ضرورت ہو ۔ البتہ جب انبیاء کی تعلیمات محو ہوجائیں ، یا گمراہیوں میں خلط ملط ہوکر وسیلہ ہدایت بننے کے قابل نہ رہیں ، تب لوگوں کے لیے یہ عذر پیش کرنے کا موقع پیدا ہوجاتا ہے کہ ہمیں حق و باطل کے فرق سے آگاہ کرنے اور صحیح راہ بتانے کا کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں تھا ، پھر بھلا ہم کیسے ہدایت پاسکتے تھے ، اسی عذر کو قطع کرنے کے لیے اللہ تعالی ایسے حالات میں نبی مبعوث فرماتا ہے تاکہ اس کے بعد جو شخص بھی غلط راہ پر چلے وہ اپنی کجروی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:47) لولا۔ کیوں نہ۔ امتناعیہ ہے۔ لو حرف شرط اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ اس کا جواب محذوف ہے۔ جواب کبھی شرط کے بعد آتا ہے مثلاً لولا ان من اللہ علینا لخسف بنا۔ (28:82) اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں گاڑ دیتا۔ اور کبھی جواب شرط سے قبل بھی آتا ہے مثلا ولقد ھمت بہ وہم بھا لولا ان رابرھان ربہ (12:24) اس عورت نے اس کا قصد کیا اور وہ بھی اس عورت کا قصد کرلیتا اگر اس نے اپنے پروردگار کی دلیل کو نہ دیکھ لیا ہوتا۔ آیت ہذا میں بھی لولا امتناعیہ ہے اور جواب لولا محذوف ہے جو اس سے قبل ہے ای ما ارسلناک الیہم لولا ۔۔ ہم تجھے ان کی طرف نہ بھی بھیجتے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ۔۔ ان تصیبھم مصیبۃ۔ میں ان مصدریہ ہے۔ بما۔ میں ب سببیہ ہے اور ما موصولہ۔ ولولا ۔۔ فیقولوا ۔۔ ہم تجھے ان کی طرف نہ بھی بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر اپنی ہی کرتوتوں کے باعث مصیبت آئے تو یہ لوگ یہ (نہ) کہہ اٹھیں ۔۔ فیقولوا۔ میں ف عاطفہ ہے۔ لولا۔ یہاں لولا تحضیضیہ ہے (یعنی کسی فعل پر سختی سے ابھارنا یا نرمی سے کسی کام کا طلب کرنا۔ مؤخرالذکر کو عرض بھی کہتے ہیں یہاں آیت ہذا میں عرض مراد ہے۔ یعنی اے ہمارے پروردگار کیوں نہ تو نے ہمارے پاس کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیرے اغکام کی پیروی کرتے اور ایمان والوں میں سے ہوتے۔ تخضیض کی مثال : لولا تستغفرون اللہ لعلکم ترحمون (27:46) تم لوگ اللہ سے مغفرت طلب کیوں نہیں کرتے شاید کہ تم پر کردیا جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ گویا اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ان پر اتمام حجت کردیا ہے اور کوئی عذر ایسا نہیں رہنے دیا جسے یہ اپنے کفر اور بدعملی پر قائم رہنے کے لئے پیش کرسکیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اگر یہ لوگ ذرا تامل کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ پیغمبر بھیجنے سے ہمارا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ان ہی لوگوں کا فائدہ ہے کہ یہ لوگ حسن و قبح پر مطلع ہو کر عقوبت سے بچ سکتے ہیں، ورنہ جن امور کا قبح عقل سے دریافت ہوسکتا ہے اس پر عذاب بلا ارسال بھی ہونا ممکن تھا، لیکن اس وقت ان کو ایک گونہ حسرت ہوتی کہ ہائے اگر رسول آجاتا تو ہم کو زیادہ تنبہ ہوجاتا، اور اس مصیبت میں نہ پڑتے، اس لئے رسول بھی بھیج دیا تاکہ اس حسرت سے بچنا ان کو آسان ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجرم لوگ اس وقت تک نصیحت حاصل نہیں کرتے جب تک ان کی گرفت نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے قرآن مجید کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب نصیحت حاصل کرنے کی بجائے آپ کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے۔ آپ کو تسلی دینے اور مجرموں کو انتباہ کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ اصول نہ ہوتا کہ وہ مجرموں کو دنیا میں ہلکی پھلی سزا دے تو لوگ کبھی بھی اپنے رب کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ جب لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے انھیں پکڑتا ہے تو اس وقت وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کیوں نہ اپنا رسول مبعوث فرمایا ؟ تاکہ ہم اس کی اتباع کرتے اور مومن بن جاتے۔ اس ارشاد میں بین السطور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کو سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم نے تسلیمات کا رویہ اختیار نہ کیا تو ایک وقت آئے گا جب تم اپنے رب کی بارگاہ میں اس حسرت کا اظہار کرو گے کہ کاش ہم اپنے رسول کی اتباع کرتے اور آج عذاب سے بچ جاتے۔ قیامت کے دن مجرموں کا اقرار کرنا : (وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا) [ الفرقان : ٢٧] ” اس دن ظالم لوگ اپنے ہاتھوں پر کاٹتے ہوئے کہیں گے۔ کاش ہم نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔ “ مسائل ١۔ مجرم عذاب آنے سے پہلے نصیحت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ ٢۔ ” اللہ “ کے رسول آچکے لیکن مجرم ماننے کے لیے تیار نہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ لَوْ کا جواب آخر میں مقدر ہے ای لما ارسلنا رسولا اور فیقولوا ان تصیبہم الخ پر متفرع ہے۔ مصیبۃ دنیوی عذاب۔ ما قدمت ایدیہم اعمال مشرکانہ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جب ان پر کفر و شرک کی وجہ سے عذاب آجاتا تو کہتے اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہ بھیجا جس کی ہم پیروی کرتے اور اس پر ایمان لاتے تو ہم کسی رسول بنا کر نہ بھیجتے۔ حاصل یہ ہے کہ مشرکین کا عذر قطع کرنے کے لیے ہم نے آپ کو اور دوسرے رسولوں کو بھیجا۔ والمعنی لولا انھم قائلون اذ عوقبوا بما قدموا من الشرک والمعاصی ھلا ارسلت الینا رسولا محتجین بذلک علینا ارسلناک ہوگا۔ یا جواب مقدر لعذبناھم ہے۔ یعنی ہم نے آپ کے مبعوث ہونے سے پہلے ہی مشرکین مکہ کو ان کے شرک کی وجہ سے ہلاک اس لیے نہیں کیا تاکہ وہ مذکورہ بالا عذر پیش نہ کرسکیں۔ ورنہ کفر و شرک اور دیگر معاصی کی وجہ سے وہ اس لائق تھے کہ انہیں ہلاک کردیا جاتا۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47۔ اور اگر ہم رسول نہ بھیجتے تو پھر جب کبھی ان کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت اور عذاب نازل ہوتا تو یوں کہتے اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کسی کو رسول بنا کر کیوں نہیں بھیجا کہ ہم تیرے احکام کی اتباع اور پیروی کرتے اور ہم تیرے احکام اور تیرے رسولوں پر ایمان لانے والوں میں سے ہوتے۔ یعنی فرض کرو اگر رسولوں کا بھیجنا بند ہوتا اور لوگوں کو ان کی رائے اور ان کی عقل کے حوالے کردیا جاتا کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی شرائع جن باتوں کو منع کرتی ہیں اور حرام قرار دیتی ہیں ان کی قباحت اور ان کی برائی عقل صحیح کے نزدیک مسلم ہے تو ان کو اگر ان کی عقل پر چھوڑ دیا جاتا اور یہ عقل سے کام نہ لیتے اور منہیات کا ارتکاب کرتے اور ہمارا عذاب ان پر نازل ہوتا تو ان کی حسرت ہوتی کہ کوئی رہنما کوئی کیوں نہیں آیا جو برے کاموں کی برائی ہمیں سمجھاتا اور ہم اس کی پیروی کر کے عذاب سے بچ جاتے۔ مطلب یہ ہوا کہ رسولوں کو بھیجنا تمہارے لئے مفید اور نافع ہے ہمارا اس میں کوئی فائدہ نہیں ۔ انبیاء (علیہم السلام) کی تشریف آوری کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جہاں تمہاری عقل بےبس ہو کر رک جاتی ہے وہاں وہ تم کو سمجھا کر تمہاری عقل کو رہنمائی بخشتا ہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسی سورة طہٰ کے آخر میں مذکور ہوئی۔ ولوانا اھلکنا ھم بعذاب من قبلہ ۔ ( الایۃ) یہاں بھی یہی فرمایا کہ اگر رسول نہ آتے تو تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے باعث عذاب آجاتا کیونکہ بری باتوں کا لازمی نتیجہ عذاب ہی ہے پھر اس وقت حسرت سے یوں کہتے کہ کوئی رسول کیوں نہیں آیا جو ہم کو سمجھاتا اور ہم اس کی پیروی کرکے عذاب سے محفوظ رہتے اور ہم ایمان لے آتے۔