Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 48

سورة القصص

فَلَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُوۡتِیَ مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ۚ قَالُوۡا سِحۡرٰنِ تَظٰہَرَا ۟ٝ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوۡنَ ﴿۴۸﴾

But when the truth came to them from Us, they said, "Why was he not given like that which was given to Moses?" Did they not disbelieve in that which was given to Moses before? They said, "[They are but] two works of magic supporting each other, and indeed we are, in both, disbelievers."

پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو کہتے ہیں کہ یہ وہ کیوں نہیں دیا گیا جیسے دیئے گئے تھے موسیٰ ( علیہ السلام ) اچھا تو کیا موسیٰ ( علیہ السلام ) کو جو کچھ دیا گیا تھا اس کے ساتھ لوگوں نے کفر نہیں کیا تھا صاف کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم تو ان سب کے منکر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The stubborn Response of the Disbelievers Allah tells: فَلَمَّا جَاءهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا ... But when the truth has come to them from Us, they say: Allah tells us that if people were to be punished before proof was established against them, they would use the excuse that no Messenger came to them, but when the truth did come to them through Muhammad, in their stubbornness, disbelief, ignorance and misguided thinking, they said: ... لَوْلاَ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَى ... Why is he not given the like of what was given to Musa, Meaning -- and Allah knows best -- many signs like the staff, the hand, the flood, the locusts, the lice, the frogs, the blood, the destruction of crops and fruits -- which made things difficult for the enemies of Allah -- and the parting of the sea, the clouds (following the Children of Israel in the wilderness and) shading them, the manna and quails, and other clear signs and definitive proof, miracles which Allah wrought at the hands of Musa as evidence and proof against Fir`awn and his chiefs and the Children of Israel. But all of this had no effect on Fir`awn and his chiefs; on the contrary, they denied Musa and his brother Harun, as Allah tells us: أَجِيْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءابَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَأءُ فِى الاٌّرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُوْمِنِينَ Have you come to us to turn us away from what we found our fathers following, and that you two may have greatness in the land We are not going to believe you two! (10:78) فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُواْ مِنَ الْمُهْلَكِينَ So they denied them both and became of those who were destroyed. (23:48) The Rebellious do not believe in Miracles Allah says here: ... أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِن قَبْلُ ... Did they not disbelieve in that which was given to Musa of old! Did not mankind disbelieve in those mighty signs which were given to Musa! ... قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا ... They say: "Two kinds of magic, each helping the other!" cooperating or working one with the other. ... وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ And they say: "Verily, in both we are disbelievers." meaning, `we disbelieve in each of them.' Because of the close relationship between Musa and Harun, mention of one includes the other. False Accusation that Musa and Harun (peace be upon them both) practiced Magic Mujahid bin Jabr said, "The Jews told Quraysh to say this to Muhammad, then Allah said: `Did they not disbelieve in that which was given to Musa of old! They say: Two kinds of magic, each helping the other!' This refers to Musa and Harun, may the peace and blessings of Allah be upon them both, تَظَاهَرَا (each helping the other) i.e., working together and supporting one another." This was also the view of Sa`id bin Jubayr and Abu Razin that the phrase "two kinds of magic" referred to Musa and Harun. This is a good suggestion. And Allah knows best. The Response to this False Accusation About the Ayah سِحْرَانِ تَظَاهَرَا (Two kinds of magic, each helping the other!) Ali bin Abi Talhah and Al-Awfi reported that Ibn Abbas said: "this refers to the Tawrah and the Qur'an, because Allah says next: قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ .... Then bring a Book from Allah, which is a better guide than these two, that I may follow it... قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاء بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ ابَاوُكُمْ قُلِ اللّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ Say : "Who then sent down the Book which Musa brought, a light and a guidance to mankind which you (the Jews) have made into (separate) paper sheets, disclosing (some of it) and concealing much. And you were taught that which neither you nor your fathers knew." Say: "Allah (sent it down)." Then leave them to play in their vain discussions. And this is a blessed Book which We have sent down, (6:91-92) And at the end of the same Surah, Allah says: ثُمَّ ءاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِى أَحْسَنَ Then, We gave Musa the Book, to complete (Our favor) upon those who would do right. (6: 154) وَهَـذَا كِتَـبٌ أَنزَلْنَـهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ And this is a blessed Book which We have sent down, so follow it and have Taqwa of Allah, that you may receive mercy. (6:155) And the Jinn said: إِنَّا سَمِعْنَا كِتَـباً أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ Verily, we have heard a Book sent down after Musa, confirming what came before it. (46:30) Waraqah bin Nawfal said, "This is An-Namus, who came down to Musa." And those who are possessed of insight know instinctively that among the many Books which He has sent down to His Prophets, there is no Book more perfect, more eloquent or more noble than the Book which He revealed to Muhammad, which is the Qur'an. Next to it in status and greatness is the Book which Allah revealed to Musa bin Imran, which is the Book concerning which Allah says: إِنَّأ أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالاٌّحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَـبِ اللَّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَاءَ Verily, We did send down the Tawrah, therein was guidance and light, by which the Prophets, who submitted themselves to Allah's will, judged for the Jews. And the rabbis and the priests, for to them was entrusted the protection of Allah's Book, and they were witnesses thereto. (5:44) The Injil was revealed as a continuation and complement of the Tawrah and to permit some of the things that had been forbidden to the Children of Israel. Allah says: قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَى مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

پہلے بیان ہوا کہ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے ۔ بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر الزمان رسول بنا کر بھیجا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکے پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑلیا اور تکبر عناد کیساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے حضرت موسیٰ کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ جن سے دشمنان الٰہی تنگ آئے اور دریاکو چیرنا اور ابر کا سایہ کرنا اور من وسلویٰ کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم اللہ کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان لائے تھے؟ جو ان کے ایمان کی تمناکرے؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز انہیں مان کر نہیں دیں گے دونوں نبیوں کو جھٹلاتے رہے آخر انجام ہلاک کردئیے گئے تو فرمایا کہ ان بڑے جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود موسیٰ کیساتھ کفر کیا اور ان معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں بھائی آپس میں متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لئے آئے ہیں تو ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے ۔ یہاں گو ذکر صرف موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن چونکہ حضرت ہارون انکے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں ایک تھے تو ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لئے کافی سمجھا ، جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ کرتا ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہوگا ؟ تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی ملازمت مقاربت اور مصاحبت ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم یہ اعتراض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو انہوں نے کیا اور جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہلا قول مضبوط اور عمدہ ہے اور بہت قوی ہے واللہ اعلم ۔ یہ مطلب ساحران کی قرأت پر ہے اور جن کی قرأت سحران ہے وہ کہتے ہیں مراد تورات اور انجیل ہے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب ۔ لیکن اس قرأت پر بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی فرمان اللہ ہے کہ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب اللہ کے ہاں سے لاؤ جس کی میں تابعداری کروں ۔ تورات اور قرآن کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِيْسَ تُبْدُوْنَهَا وَتُخْفُوْنَ كَثِيْرًا ۚ وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَلَآ اٰبَاۗؤُكُمْ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۙ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِيْ خَوْضِهِمْ يَلْعَبُوْنَ 91؀ ) 6- الانعام:91 ) پس یہاں تورات کے نور وہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ١٥٥؀ۙ ) 6- الانعام:155 ) اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بناکر اتارا ہے ۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا ( ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَاۗءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ ١٥٤؀ۧ ) 6- الانعام:154 ) پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور فرمان ہے ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ١٥٥؀ۙ ) 6- الانعام:155 ) اس ہماری اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے جنات کا قول قرآن میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے وہ کتاب سنی جو موسیٰ کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ۔ ورقہ بن نوفل کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ وہی اللہ کے راز داں بھی دی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ جس شخص نے غائر نظر سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت وشرافت والی عزت وکرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو اللہ تعالیٰ حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان پر نازل فرمائی اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا جس کے مطابق انیباء اور انکے ماتحت حکم احکام جاری کرتے رہے ۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو حلال کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ان دونوں کتابوں سے بہتر کتاب اگر تم اللہ کے ہاں سے لاؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا ۔ پھر فرمایا کہ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ یہ صرف جھگڑالو ہیں اور خواہش پرست ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو اللہ کی ہدایت سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ۔ اس میں انہماک کرکے جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کردیا واضح کردیا صاف کردیا اگلی پچھلی باتیں بیان کردیں قریشوں کے سامنے سب کچھ ظاہر کردیا ۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی ۔ یہ رفاعہ حضرت صفیہ بن حی کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طلاق دی تھی جن کا دوسرا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

481یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ 482یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ (علیہ السلام) کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا ؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کفر نہیں کیا۔ 483پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہونگے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] اور اب جو کفار مکہ کے پاس ہمارا رسول آیا ہے اور اپنے ساتھ ہدایت کی کتاب بھی لایا ہے۔ تو انہوں نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ موسیٰ کی طرح اسے عصا کیوں نہیں دیا گیا۔ جو سانپ بن جاتا ہو یا سورج کی طرح چمکنے والا ہاتھ اسے کیوں نہیں دیا گیا۔ یا یہ کتاب تختیوں کی صورت میں کیوں نازل نہیں ہوئی ؟ مشرکین مکہ کے اس اعتراض کا جو جواب اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے سامنے یہ معجزات پیش کئے تھے۔ تو کیا وہ ایمان لے آئے تھے ؟ تمہارے خیال کے مطابق تو انھیں ضرور ایمان لانا چاہئے تھا۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان معجزات کو درست اور نبوت کی دلیل سمجھتے ہو تو کیا تم تورات پر ایمان لے آئے ہو ؟ اور تم تورات پر اور حضرت موسیٰ پر ایمان نہیں لائے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ فی الحقیقت تمہیں ان معجزات کا بھی انکار ہے۔ اور یہ دعویٰ تمہارا زبانی جمع خرچ ہے۔ [٦٥] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ موسیٰ کی قوم کہنے لگی کہ موسیٰ اور ہارون دونوں جادوگر ہیں اور ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ جب دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے عقائد میں کئی امور میں مماثلت پائی جاتی ہے مثلاً یہ دونوں فرقے بتوں کی عبادت سے بیزار اور اسے شرک اور کفر سمجھتے ہیں۔ آخرت پر دونوں ہی ایمان رکھتے ہیں۔ غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کو دونوں ہی حرام سمجھتے ہیں۔ مسلمان اگر حضرت موسیٰ کی تصدیق کرتے ہیں ہیں تو کئی منصف مزاج یہود اس نبی کو برحق سمجھتے ہیں تو یہ کافر کہنے لگتے ہیں کہ موسیٰ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں ہی جادوگر ہیں اور ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتے ہیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ تورات اور قرآن دونوں کھلا ہوا جادو ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں کتابیں ایک دوسری کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ [٦٦] لہذا ہم نہ تورات پر ایمان لاتے ہیں، نہ انجیل پر اور نہ قرآن پر۔ یہ سب کتابیں ایک ہی تھیلی کے بٹے چٹے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی کتاب ہمارے مطلب کی ترجمانی نہیں کرتی۔ لہذا ان میں سے کوئی کتاب ہی قابل قبول نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا ۔۔ : یعنی رسول نہ بھیجتے تو بہانہ ہوتا کہ رسول کیوں نہ بھیجا، اب ہماری طرف سے رسول آیا تو ضد اور عناد سے کہنے لگے کہ اسے اس قسم کے معجزات کیوں نہیں دیے جو موسیٰ کو دیے گئے تھے، مثلاً عصا، یدِبیضا، سمندر کا پھٹنا، بادلوں کا سایہ کرنا، پتھر سے بارہ چشمے پھوٹنا، من وسلویٰ کا اترنا، اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا اور تورات کا الواح کی شکل میں نازل ہونا وغیرہ۔ معلوم ہوا نہ ماننا ہو تو بہانے ختم نہیں ہوتے۔ 3 مفسر رازی فرماتے ہیں : ” ان لوگوں نے جو مطالبہ کیا ضروری نہیں تھا کہ اسی طرح ہوتا، کیونکہ نہ تمام انبیاء کے معجزات کا ایک ہونا لازم ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ ان پر اترنے والی کتاب ایک ہی طرح نازل ہو، کیونکہ کبھی کتاب کا اکھٹا نازل ہونا بہتر ہوتا ہے جیسے تورات اور کبھی جدا جدا کر کے نازل کرنا بہتر ہوتا ہے، جیسے قرآن۔ “ اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُ : یعنی ان کے طلب کردہ معجزات اگر دکھا بھی دیے جائیں تو کیا فائدہ ؟ جنھوں نے طے کرلیا ہے کہ ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے۔ کیا ان کے ہم جنس لوگوں نے جو ان جیسا مذہب اور ان جیسا عناد رکھنے والے تھے، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے کافر، انھوں نے ان معجزات کا انکار نہیں کیا تھا جو موسیٰ کو دیے گئے تھے ؟ انھوں نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کے متعلق کہا تھا کہ یہ (اتنے بڑے جادوگر ہیں کہ) مجسم جادو ہیں، جو ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اور انھوں نے کہا تھا کہ ہم تو ان سب سے منکر ہیں۔ یہ معنی درست ہے، مگر اس سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ” اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا ۔۔ “ (کیا انھوں نے ان چیزوں کا انکار نہیں کیا جو موسیٰ کو دی گئیں) میں انکار کرنے والوں سے مراد قریش ہی ہیں جنھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ معجزے لانے کا مطالبہ کیا جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے گئے۔ اس معنی کے زیادہ صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ” فَلَمَّا جَاۗءَهُمُ الْحَقُّ “ سے لے کر ” وَقَالُوْٓا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ “ تک سب باتیں کہنے والے وہی لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا : (قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَآ ) ” کہہ پھر اللہ کے پاس سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو۔ “ ظاہر ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات کہنے کا حکم ان لوگوں کے لیے تھا جو آپ کے مخاطب تھے اور وہ قریش تھے، یا آپ کے زمانے کے دوسرے کفار، کیونکہ وہ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ہی کے منکر نہ تھے بلکہ اس سے پہلی نبوتوں کے بھی منکر تھے، وہ نہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا کر ان کے تابع دار بنے، نہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے زمانے کے کفار کا قول نقل فرمایا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ ) [ سبا : ٣١ ] ” اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، ہم ہرگز نہ اس قرآن پر ایمان لائیں گے اور نہ اس پر جو اس سے پہلے ہے۔ “ مطلب یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے جن معجزوں کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں ان معجزوں کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی یہ کب ایمان لائے تھے جو اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ خود کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزے دیے گئے تھے، مگر پھر بھی انھوں نے ان کو نبی مان کر ان کی پیروی کبھی قبول نہیں کی۔ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰهَرَ : یعنی قرآن اور تورات دونوں جادو ہیں، جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے یہی نقل فرمایا ہے۔ آسمانی کتابوں میں قرآن کے بعد سب سے عظیم الشان کتاب تورات ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تمام انبیاء بشمول عیسیٰ (علیہ السلام) اسی پر عمل پیرا رہے، اس لیے قرآن میں عموماً تورات اور قرآن کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِيْ جَاۗءَ بِهٖ مُوْسٰي نُوْرًا وَّهُدًى لِّلنَّاسِ ) [ الأنعام : ٩١ ] ” کہہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لے کر آیا ؟ جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی۔ “ یہاں تورات کے نور اور ہدایت ہونے کا ذکر فرمایا، پھر قرآن کے متعلق فرمایا : (وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ ) [ الأنعام : ٩٢] ” اور یہ ایک کتاب ہے، ہم نے اسے نازل کیا، بڑی برکت والی ہے، اس کی تصدیق کرنے والی جو اس سے پہلے ہے۔ “ اسی سورة انعام کے آخر میں فرمایا : (ثُمَّ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَي الَّذِيْٓ اَحْسَنَ ) [ الأنعام : ١٥٤ ] ” پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اس شخص پر (نعمت) پوری کرنے کے لیے جس نے نیکی کی۔ “ اور اس سے اگلی آیت میں قرآن کا ذکر فرمایا : ( وَھٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ) [ الأنعام : ١٥٥ ] ” اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَہُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي۝ ٠ ۭ اَوَلَمْ يَكْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي مِنْ قَبْلُ ٠ۚ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظٰہَرَا ۝ وَقَالُوْٓا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ۝ ٤٨ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ ظَاهَرَ وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) مگر جب ان کفار مکہ کی طرف رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن حکیم لے کر آئے تو یہ کہنے لگے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح یدبیضاء عصا اور من سلوی کے معجزات کیوں نہیں ملے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح ایک ہی بار قرآن کریم ان پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب توریت ملی تھی کیا یہ کفار مکہ آپ سے پہلے اس کے منکر نہیں ہوئے یہ کفار مکہ تو یوں کہتے ہیں کہ قرآن کریم اور توریت دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے موافق ہیں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ ہم تو قرآن کریم اور توریت میں سے کسی کو بھی نہیں مانتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (فَلَمَّا جَآءَ ہُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَآ اُوْتِیَ مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی ط) ” یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا جیسے معجزے دیے گئے تھے۔ انہیں تورات تختیوں پر لکھی ہوئی ملی تھی۔ اب اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی واقعی اللہ کے رسول ہیں تو انہیں ایسے معجزات کیوں نہیں دیے گئے ؟ (اَوَلَمْ یَکْفُرُوْا بِمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ج) ” تو کیا موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم کے لوگ ایمان لے آئے تھے ؟ کیا وہ لوگ معجزات دیکھ لینے کے باوجود انکار کر کے عذاب کے مستحق نہیں ہوئے تھے ؟ (قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظَاہَرَاقف) ” اس فقرے کے بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے بارے میں فرعون اور اس کی قوم کے لوگوں کا قول نقل ہوا ہے کہ یہ دونوں بھائی مجسم جادو ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ لیکن ایک دوسری رائے کے مطابق یہ قرآن اور تورات کے بارے میں اہل مکہ کا تبصرہ ہے ‘ کہ یہ دونوں دراصل جادو کی کتابیں ہیں جو ایک دوسری کی تائید کررہی ہیں۔ تورات میں قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پیشین گوئیاں ہیں جبکہ قرآن موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کی تائید کر رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67 That is, "Why has. not Muhammad (upon whom be Allah's peace) been given all those miracles which had been given to the Prophet Moses? He also should have shown us the miracle of the staff; his hand also should have shone like the sun; his deniers also should have been struck with storms and plagues from the earth and heaven; and he also should have brought them Commandments written on stone tablets." 68 This is a reply to their objection, which implies: "The disbelievers of Makkah had not believed in Moses either, nor followed his teachings. Therefore they had no right to say: Why has the Prophet Muhammad not been given the same miracles that were given to the Prophet "Moses?" In Surah Saba': 31, this saying of the disbelievers of Makkah has been related: "We shall never believe in this Qur'an, nor in any other Book which came before it." 69 That is, the Qur'an and the Torah both.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 67 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سارے معجزے کیوں نہ دیے گئے جو حجرت موسی کو دیے گئے تھے ، یہ بھی عصا کا اژدھا بنا کر ہمیں دکھاتے ، ان کا ہاتھ بھی سورج کی طرح چمک اٹھتا ، جھٹلانے والوں پر ان کے اشارے سے بھی پے درپے طوفانوں اور زمین و آسمان سے بلاؤں کا نزول ہوتا اور یہ بھی پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام لاکر ہمیں دیتے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 68 یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے ، مطلب یہ ہے کہ ان معجزوں کے باوجود موسی ہی پر تم کب ایمان لائے تھے جو اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطالبہ کر رہے ہو ، تم خود کہتے ہو کہ موسی کو یہ معجزے دیے گئے تھے ، مگر پھر بھی ان کو نبی مان کر ان کی پیروی تم نے کبھی قبول نہیں کی ، سورہ سبا آیت 31 میں بھی کفار مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ نہ ہم اس قرآن کو مانیں گے نہ ان کتابوں کو جو اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 69 یعنی قرآن اور توراۃ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: یعنی جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پوری تورات ایک ہی مرتبہ عطا کردی گئی تھی، اسی طرح آپ ک سارا قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں نہیں دیدیا گیا، اس اعتراض کا یہ جواب آگے دیا گیا ہے کہ تم لوگ تورات پر کونسا ایمان لے آئے تھے جو قرآن کے بارے میں یہ مطالبہ کررہے ہو؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨‘ ٤٩۔ یہ تو بیان اوپر کردیا گیا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں سرن کا مطلب مشرکوں کے نزدیک تو رات اور قرآن ہے حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے کہا ہم تورات اور قرآن دونوں کو نہیں مانتے کہ یہ دونوں جادو ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے کہو کہ تم ہی لوگ کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو زیادہ ہدایت کرنے والی ہو تو ریت اور قرآن سے تاکہ میں اس کی پیروی کروں پھر اگر یہ لوگ کوئی ایسی کتاب نہ لاسکیں تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اپنی خواہشوں پر چلے ایسے لوگ اللہ کے نزدیک ناانصاف ظالم ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو زبردستی راہ راست پر لانا نہیں چاہتا کیونکہ زبردستی کی فرمانبرداری اس کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں دوزخی ٹھہر چکے ہیں ان کو دنیا میں بری باتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں اس حدیث سے یہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ قریش میں کے جو لوگ حالت کفر پر مرے وہ بری باتوں کو کیوں اچھا جانتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:48) الحق : القران ۔ الامر الحق۔ امر حق۔ اوتی۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب ایتاء افعال مصدر۔ اسے دیا گیا۔ اسے ملا۔ وہ دیا گیا۔ سحران۔ سحر واحد کا تثنیہ۔ دوجادو۔ مراد ہے ذوا سحر دو جادو (کا علم رکھنے والے، جادو گر۔ یا جادو کا وصف رکھنے والوں کو مبالغہ کے طور پر بنفسہ جادو کہہ دیا۔ یعنی دونوں مجسم جادو تھے۔ یا یعنون ما اوتی نبینا وما اوتی موسیٰ علیہما الصلوۃ والسلام سحران۔ یعنی جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نزال ہوا اور جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے ملا ہر دو کو وہ جادو سے تشبیہ دیتے ہیں (یعنی قرآن اور تورات کو) تظاھرا۔ ماضی تثنیہ مذکر غائب۔ وہ دونوں آپس میں موافق ہوئے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مددگار بنے تظاھر (تفاعل) سے بمعنی باہم معاونت کرنا۔ ہم پشت ہونا۔ ای تعاونا ب تصدیق کل واحد منھما الاخر وتائیدہ ایاہ یعنی ایک دوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہیں۔ بکل یعنی ہر دو کتابوں سے۔ قرآن سے اور تورات سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی عصا اور ید بیضا وغیرہ جیسے معجزات نہیں دکھلاتے اور یہ قرآن توریت کی طرح ایک ہی مرتبہ پورے کا پورا ان پر کیوں نہیں اتارا گیا۔ (قرطبی) 3 ۔ یا ” کیا یہ لوگ۔ قریش۔ اس (نبوت) کا انکار نہیں کرچکے ہیں جو اس سے پہلے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔ “ یعنی ان معجزات کے باوجود حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت پر کونسا ایمان لے آئے تھے جو آج آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان جیسے معجزات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 4 ۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” اولم یکفروا “ کا فاعل پہلے لوگوں… قوم فرعون… کو قرار دیا جائے اور یہ معنی جید ہیں۔ (ابن کثیر) اور اگر اس کا فاعل قریش کو قرار دیا جائے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ توراۃ اور قرآن دونوں جادو ہیں اور قرآن میں عموماً توراۃ اور قرآن کا تذکرہ ایک ساتھ آیا ہے اور آگے کتاب کا ذکر آرہا ہے اس لئے یہی مطلب زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی قرآن دفعة واحدة مثل توراة کے کیوں نہ نازل ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مصیبت کے وقت رسول اور ہدایت کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن لے آکر آئے تو ان کا رد عمل کیا تھا۔ کفار مختلف بہانوں سے قرآن مجید کا انکار کرتے تھے۔ ان کا ایک بہانہ اور عذر لنگ یہ بھی تھا کہ یہ عجب نبی ہے کہ اس کے پاس نہ مال، نہ کوئی جاگیر اور نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزات ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر وقت اپنے پاس عصا رکھتے جو مخالفوں کے سامنے اژدھا بن جاتا اور وہ ید بیضا رکھتے تھے جو لوگوں کی آنکھیں چندھیا دیتا تھا۔ اس نبی کے پاس قرآن کی آیات سنانے اور اس میں ہمارے بزرگوں کی تردید کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم اس کی اتباع کریں تو کس بنیاد پر ؟ ہاں اگر یہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزات دیا جائے تو ہم اس کی اتباع کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔ کفار کے بہانوں کا یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ جن یہودیوں کے پڑھانے سے یہ لوگ ایسے بہانے پیش کرتے ہیں کیا انھیں معلوم نہیں کہ جب ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہماری طرف سے حق اور معجزات لے کر آئے تو انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جادو گر قرار نہیں دیا تھا۔ اور کیا ان میں ایسے لوگ موجود نہیں جو کہتے ہیں کہ نہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات کو مانتے ہیں اور نہ اس قرآن پر ایمان لانے کے لیے تیار ہیں ؟ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو تو کس طرح ؟ (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ) [ الترغیب والترہیب ] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے ‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔ “ غلط وظائف ‘ بھرپور شعبدہ بازی اور فنی مہارت کے باوجود جادوگر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو اپنے لیے حرام قرار نہ دے۔ اس کے ساتھ ہی اسے خاص قسم کی غلاظت اور بدترین قسم کا گناہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے جادوگرمرد ہو یا عورت اس سے خاص قسم کی بدبو آیا کرتی ہے۔ یہ لوگ جسمانی طور پر جس قدر گندے ہونگے اسی رفتار سے ان کے شیطانی عمل دوسروں پر اثرانداز ہوں گے یہی وجہ ہے کہ ایک جادوگر اپنے شاگرد کو اپنا پیشاب پینے کا سبق دیتا ہے اور دوسرا پاخانہ کھانے کا حکم دیتا ہے اور کوئی غسل واجب سے منع کرتا ہے۔ گویا کہ کوئی نہ کوئی غلاظت اختیار کرنا جادوگر کے لیے ضروری ہے۔ البتہ یہ لوگ اس قسم کی باتیں دوسرے لوگوں سے ضرور چھپاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر جادو اثرانداز نہیں ہوتا۔ مسائل ١۔ کفار مختلف بہانوں سے حق کا انکار کرتے ہیں۔ ٢۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا تھا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر جادوگر ہونے کا الزام : ١۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کھلے دلائل لے کر آئے تو قوم نے ان پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء : ٤٣) ٣۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف : ١٠٩) ٤۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس : ٧٦) ٥۔ کفار نے کہا یہ نبی نہیں جادو گر ہے۔ (یونس : ٢) ٦۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص : ٤) ٧۔ ظالموں نے کہا کیا ہم جادوگر کی اتباع کریں ؟ (الفرقان : ٨) ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو بھی نبی آیا اسے جادوگر کہا گیا۔ (الذاریات : ٥٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ یہ شکوی ہے۔ پھر جب رسول صادق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے اللہ کا قرآن ان کے پاس آگیا تو اب ایمان لانے کے بجائے ضد وعناد اور مجادلے پر اتر آئے اب کہتے ہیں یہ قرآن تورات کی طرح ایک ہی بار کیوں نازل نہیں کیا گیا یہ سوال کرنے والے یا تو یہودی تھے یا مشرکین نے یہودیوں کے ایماء پر سوال کیا تھا۔ اولم یکفروا الخ یہ جواب شکوی ہے یعنی ان کا سوال محض ازراہ تعنت وعناد ہے، طلب حق کے لیے نہیں کیونکہ وہ اس سے پہلے تورات کا بھی انکار کرچکے ہیں۔ تورات اور قرآن کے بارے میں وہ کہتے ہیں، سحران تظاھرا، یہ دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کی تصدیق وتائید کرتے ہیں۔ ایک قراءت میں ساحران ہے تو اس سے ان کا شارہ حضرت رسول اکرم اور موسیٰ (علیہما السلام) کی طرف ہوگا۔ وانا بکل کفرون الخ، چونکہ یہ دونوں کتابیں جادو ہیں اور ان کے لانے والے جادوگر ہیں (عیاذا باللہ) اس لیے ہم دونوں ہی کو نہیں مانتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48۔ پھر اب جب ان کے پاس ہماری طرف سے دین حق پہنچ گیا اور رسول برحق آگیا تو یوں کہنے لگے کہ جیسی کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی ویسی ہی کتاب اس پیغمبر کو کیوں نہیں دی گئی کیا جو کتاب موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی اس قرآن کریم سے پہلے یہ لوگ اس کا انکار نہیں کرچکے یہ لوگ تو یوں کہتے ہیں کہ یہ دونوں کتابیں قرآن کریم اور تورات جادو ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے موافق اور معاون ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم تو دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں مانتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مکہ کے کافرحضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے سن کر کہنے لگے کہ ویسا معجزہ اس کے پاس ہوتا تو ہم مانتے جب یہود سے پوچھا اور تورات کے حکم سنے اس کے موافق اپنی مرضی کے خلاف بت پرستی کفر ہے اور آخرت کا جینا برحق ہے اور اللہ کے نام پر ذبح نہ ہو سو مروا رہے اور بہتیری باتیں تب دونوں کو لگے جواب دینے۔ 12 مطلب یہ ہے کہ رسول نہ آتا اور کتاب نہ آتی تو یوں کہتے کہ ہم کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا گیا عقل کی رہنمائی اور عقل کو روشنی بخشنے نہ کتاب آئی اور نہ رسول آیا اوہم نے اب رسول بھیجا اور کتاب بھیجی تو یہ شبہ کرنے لگے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دفعتہ واحدۃ ً کتاب ملی تھی اسی طرح ان کو ایک ہی وقت میں کیوں کتاب نہیں دی گئی یا موسیٰ (علیہ السلام) کو جو معجزات ملے تھے وہ ان کو کیوں نہیں دیئے گئے۔ حضرت حق تعالیٰ نے جواب فرمایا کہ تم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کو کب نبی مانا تھا کیا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کا انکار نہیں کرچکے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تم لوگوں نے نبی نہیں مانا کیونکہ تم تو انسانی نبوت کو جانتے ہی نہیں اور کسی آسمانی مذہب کے قائل ہی نہیں ۔ یہ لوگ تو قرآن کریم اور تورات دونوں کے متعلق یوں کہتے ہیں کہ یہ دونوں جادو ہیں ایک دوسرے کے موافق و معاون ہم تو ان میں سے کسی کے بھی قائل نہیں ہم تو ان سب کے منکر ہیں اور یہ شاید یہود سے معلوم کیا ہوگا کہ قیامت کے متعلق اور توحید کے متعلق تمہاری کتاب میں کیا ہے اور چونکہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اصول میں ایک ہی ملت ہیں ۔ اس لئے یہود نے بتایا ہوگا کہ توحید ہمارے ہاں بھی ہے اور بت پرستی کی مذمت اور غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کی حرمت ہماری کتاب میں بھی ہے اور ہمارے ہاں بھی قیامت میں جی اٹھنا ہے یہ سنکر انہوں نے تورات اور قرآن کریم دونوں کے متعلق یہ کہہ دیا کہ انا بکل کفرون حق تعالیٰ نے ان کی اس بات پر فرمایا کہ قرآن کریم کو تورات کی مماثلت کا مطالبہ محض لغو اور شرارت آمیز مطالبہ ہے جب تم توریت کے بھی منکر ہو تو اگر قرآن کریم کا نزول اس کی مثل بھی ہوتا تو تم کب ماننے والے تھے تم کو تو ان عقائد سے ضد ہے جن عقائد میں یہ دونوں کتابیں متفق ہیں ۔