Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 53

سورة القصص

وَ اِذَا یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِہٖۤ اِنَّہُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّنَاۤ اِنَّا کُنَّا مِنۡ قَبۡلِہٖ مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۵۳﴾

And when it is recited to them, they say, "We have believed in it; indeed, it is the truth from our Lord. Indeed we were, [even] before it, Muslims [submitting to Allah ]."

اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those to whom We gave the Scripture before it, they believe in it. And when it is recited to them, they say: "We believe in it. Verily, it is the truth from our Lord. Indeed even before it we have been from Muslims." meaning, `even before the Qur'an came we were Muslims, i.e., we believed in One God and were sincerely responding to Allah's commands.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

531یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا اور ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاری وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیاء کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] اس لئے کہ تورات اور قرآن کی بنیادی تعلیمات آپس میں ملتی جلتی ہیں۔ اور جن لوگوں کے دلوں میں تعصب نہ ہو نہ ہی ان کے ذاتی مفادات قبول حق کی راہ میں ان کے آڑے آئیں وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ یہ قرآن بھی اللہ کی طرف ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ پھر اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ کہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے۔ اور اب بھی مسلمان ہی رہے۔ کیونکہ اسلام تو دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری کا نام ہے اور وہ ان میں پہلے ہی موجود تھی قرآن میں اس حقیقت کی متعدد مقامات پر صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ کے نزدیک قابل قبول دین اسلام یعنی دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری ہی ہے۔ رہا مسئلہ کسی دین کو اس کے پیغمبر کے نام سے منسوب کرنے کا۔ جیسے یہودیت، نصرانیت اور محمدیت وغیرہ تو یہ زمانہ مابعد کی ایجادات ہیں۔ جو لوگوں نے خود ہی رکھ لئے۔ اللہ نے نہیں رکھے تھے۔ ہر نبی پر ایمان لانے والوں کا نام اللہ نے مسلمان ہی رکھا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ : یعنی جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں، ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ : ”إِنَّ “ علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، مطلب یہ کہ ہم اس پر ایمان لے آئے، کیونکہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے۔ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ : یہ بھی ایمان لانے کی ایک علت ہے، یعنی ہم سنتے ہی اس پر اس لیے ایمان لے آئے کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلم تھے۔ تورات و انجیل کی بنیادی تعلیم وہی تھی جو قرآن کی ہے، جب ہم نے دیکھا کہ یہ تو وہی ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی امتوں کا دین اسلام تھا اور وہ بھی مسلم تھے، جیسا کہ فرمایا : (مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا ) [ الحج : ٧٨ ] ” اپنے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق، اسی نے تمہارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی۔ “ یہ کہنا کہ ” مسلمین “ صرف امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے، درست نہیں۔ ” اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ “ کا معنی یہ بھی ہے کہ تورات و انجیل میں اس نبی اور اس کتاب کی پیش گوئیاں پڑھ کر ہم تو اس سے پہلے ہی اس پر ایمان رکھتے تھے اور دل و جان سے مسلم یعنی اس کے تابع فرمان تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Is the word Muslim restricted to the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or it is common to all Ummahs? إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ (And we are the ones who submitted (to it) even before it (was revealed) - 28:53). The word used by these people of the book for their submission is &muslims& which may also be translated as ` We were Muslims even before the revelation of Qur&an&. If the word Muslim is taken here in its literal meaning, submissive or obedient, then the meaning is quite clear that the faith they had in Qur&an and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، because of their books, is referred here by the use of words Islam and Muslims in its literal sense of submission. But if the word &Muslim& is taken in the same meaning in which it is regarded as appellation of the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، then it will signify that the words &Islam& and &Muslim& are not restricted to Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) alone, but they are common to the Ummahs of all the prophets. But some verses of Qur&an suggest that words &Islam& and &Muslim& are special names of the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، for example the assertion of Sayyidna Ibrahim I recorded by the Qur&an itself هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ (He named you as Muslims - 22:78). ` Allamah Suyuti favours this course of argument and has written a book on the subject in support or his contention. He has explained this verse advocating that the word Muslimin is used here in the sense that` we were ready and prepared to accept Islam even before&. If one looks at the issue deeply, there is no conflict in the two versions; it is possible that Islam is the common attribute of the religion of all the prophets in its literal sense, and at the same time it is a special appellation of the Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is like the appellations of Siddiq and Faruq that are exclusive for Abu Bakr and ` Umar (رض) in the context of Ummah of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) but otherwise these words can apply to anyone else also falling within the scope of their attributive meaning.

لفظ مسلمین امت محمدیہ کا مخصوص لقب ہے یا تمام امتوں کے لئے عام ہے : اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ، یعنی ان حضرات اہل کتاب نے کہا کہ ہم تو قرآن کے نازل ہونے سے پہلے ہی مسلمان تھے یہاں لفظ مسلم اگر اپنے لغوی معنے میں لیا جائے یعنی مطیع و فرمانبردار تو بات صاف ہے کہ ان کو جو یقین قرآن اور نبی آخر الزماں پر اپنی کتابوں کی وجہ سے حاصل تھا اس یقین کو لفظ اسلام اور مسلمین سے تعبیر فرمایا کہ ہم تو پہلے ہی سے اس کو مانتے تھے اور اگر لفظ مسلمین اس جگہ اس معنے میں لیا جائے جس کے لحاظ سے امت محمدیہ کا لقب مسلمین ہے تو اس سے یہ ثابت ہوگا کہ اسلام اور مسلمین کا لفظ صرف امت محمدیہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین اسلام ہی تھا اور وہ سب مسلمین ہی تھے مگر قرآن کریم کی بعض آیات سے اسلام اور مسلمین کا اس وقت کے لئے مخصوص لقب ہونا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول خود قرآن نے نقل کیا ہے هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ اور علامہ سیوطی اسی خصوصیت کے قائل ہیں اور اس مضمون پر ان کا ایک مستقل رسالہ ہے، ان کے نزدیک اس آیت میں مسلمین سے مراد یہ ہے کہ ہم تو پہلے ہی سے اسلام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ اور تیار تھے اور اگر غور کیا جائے تو ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں کہ اسلام تمام انبیاء (علیہم السلام) کے دین کا مشترک نام بھی ہو اور اس امت کے لئے مخصوص لقب بھی کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلام اپنے معنی وصفی کے اعتبار سے سب میں مشترک ہو مگر مسلم کا لقب صرف اس امت کے لئے مخصوص ہو جیسے صدیق اور فاروق وغیرہ کے القاب ہیں جن کا مصداق خاص اس امت میں ابوبکر و عمر (رض) ہیں، حالانکہ اپنے معنے وصفی کے اعتبار سے دوسرے حضرات بھی صدیق اور فاروق ہو سکتے ہیں۔ (ہذا ما سخ لی واللہ اعلم)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِـمِيْنَ۝ ٥٣ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اور جب ان حضرات کے سامنے قرآن کریم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف وصفات کے ساتھ پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے بیشک یہ حق ہے اور ہم تو قرآن حکیم کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو مانتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ ) ” یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء و رسل ( علیہ السلام) اور آسمانی کتب کے ماننے والے تھے اور اب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کتاب لے کر آئے ہیں تو اس کو بھی ہم نے مان لیا ہے۔ لہٰذا ہمارے دین میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم پہلے بھی مسلمان تھے اور اب بھی مسلمان ہیں۔ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کی بنا پر ہم پہلے ہی تسلیم کرچکے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 That is, "Even before this we were believers in the Prophets and the Divine Books. Therefore, we had no other Faith than Islam and we have believed in that Book too, which this Prophet has brought from Allah. Thus, no change has occurred in our religion: we were Muslims before even as we are Muslims now." This saying clearly indicates that Islam is not the name of the Faith brought by the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) and the term "Muslim" is not only applicable to his. followers, but Islam has been the Faith of all the Prophets since the very beginning and their followers were Muslims in every age. These Muslims became disbelievers only when they refused to acknowledge a true Prophet who came afterwards. But no interruption occurred in the Islam of those people who believed in the former Prophet and also affirmed faith in the Prophet who succeeded him. They continued to be Muslims as they had been Muslims before. It is strange that even some learned men also have failed to comprehend this fact, and this clear verse also could not satisfy them. `Allama Suyuti wrote a treatise on the subject that the term "Muslim" was only reserved for the followers of the Holy Prophet Muhammad (may Allah's peace be upon him). Then, as he himself says, when this verse came before him he was stunned: he prayed to God that He guide him in the matter. At last, instead of revising his opinion he stuck to it even more firmly and gave several interpretations of the verse, each to which is more meaningless than the other. For example, one of his interpretations is: "We were Muslims even before this" means: We intended to become Muslims even before the revelation of the Qur'an, because we had been foretold by our Scriptures that it would come, and we hadthe intention that when it came we would accept Islam." Another interpretation is: "In this sentence, the word bi-hi after muslimin is omitted, implying: We believed in the Qur'an beforehand, because we expected it would come, and had believed in it in anticipation. Therefore, we were Muslims, not because we believed in the Torah and the Gospels, but because we had believed in the Qur'an as Allah's Word even before its revelation." The third interpretation is: "It had been divinely destined for us that we would accept Islam on the advent of the Holy Prophet and the revelation of the Qur'an; therefore, we were Muslims even before this." None of these interpretations bears any impress that Divine help had become available for the right understanding of this verse. The fact is that the Qur'an has expressed this fundamental principle not only here, but at scores of other places also that the real Way of life is only Islam (submission to AIIah), and in God's universe there can be no other way of life than this for His creatures. Since the beginning of the creation every Prophet who came for the guidance of mankind brought this very Way of Life: the Prophets themselves have always been Muslims, and they impressed upon their followers also to live as Muslims, and all their followers who submitted to the Divine Command brought by the Prophets, were also Muslims in every age. Consider the following few verses for instance: (1) Indeed, Islam is the only rightway of life in the sight of Allah." (Al-'Imran: 19) (2) "Whoever adopts any other than this way of submission (Islam), it will not be accepted from him." (Al-i-`imran: 85) (3)"My reward is with Allah, and I have been commanded to believe like a Muslim." (Yunus: 72) About Prophet Abraham and his descendants it has been said: (4) "When his Lord said to him, 'Surrender', he promptly responded, 'I have surrendered to the Lord of the universe (and become a Muslim)'. He also enjoined on his children to follow the same way. Jacob also did the same and his last will to his sons was: 'O my children, AIIah has chosen the same way of life for you. Hence, remain Muslims up to your last breath.' (Dare you deny this?) Were you present at the time when Jacob was on the point of death ? He asked his children, `Whom will you worship after me?' They all answered, `We will worship the same One AIIah Whom you, your forefathers Abraham, Ishmael and Isaac acknowledged as their Allah and to Him we all surrender as Muslims'." (Al-Baqarah: 133) (5) "Abraham was neither a Jew nor a Christian, but he was a Muslim, sound in the Faith." (AI-i-`Imran: 67) Prophets Abraham and Ishmael themselves prayed: (6) "Lord, make us Thy Muslims and raise from our offspring a community which should also be Muslim (submissive to Thy will)." (AI-Baqarah: 128). In connection with the story of the Prophet Lot it has been said: (7) "We did not find in it any house of the Muslims except one." (AdhDhariyat: 36) The Prophet Joseph prayed to Allah: (8) "Let me die as a Muslim, and join me with the righteous in the end." (Yusuf: 101) Prophet Moses says to his people: (9) "O my people, if you sincerely believe in Allah, put your trust in Him, if you are Muslims." (Yunus: 84) The real religion of the Israelites was not Judaism but Islam as was known to their friends and foes alike. That is why the last words that Pharaoh said while drowning were: (10) "I have believed that there is no god but the real God in Whom the children of Israel have believed, and I am of the Muslims." (Yunus:90) Islam was the Way of life of all the Israelite Prophets: (11) "Indeed, We sent down the Torah wherein was Guidance and Light: thereby aII the Prophets, who were Muslims, judged the cases of those who had become Jews." (Al-Ma'idah: 44). The same was the Prophet Solomon's way of life. So when the queen of Sheba believed in him, she said. (12) "I submit myself (as a Muslim) with Solomon to AIIah, Lord of the wands." (An-Naml: 44). And the same was the religion of the disciples of the Prophet Jesus: (13) "And when I inspired the disciples to believe in Me and My Messenger, they said: `We believe and bear witness that we are Muslims'." (AlMa'idah: 111). In this connection, if somebody expresses the doubt that the Arabic words "lslam" and "Muslims" could not have been used in different languages and countries, it would obviously be a foolish objection. For the real thing is not the Arabic words but the meaning in which they are used in Arabic. In fact, what has been stressed in the above-cited verses is that the real Way of life sent by God was neither Christianity nor Mosaicism nor Muhammadanism, but to surrender to the Divine Commands taught by the Prophets and the Scriptures, and whoever adopted this Way anywhere and at any time in the world, is the follower of the same universal, eternal and everlasting true Way of Life. For those who have adopted this Way consciously and sincerely, it is no change of the faith to believe in Jesus after Moses and in Muhammad after Jesus(may Allah's peace be upon all of them), but a natural and logical demand following the same real Way of life (Islam). Contrary to this, those people who got into the Prophets' communities without due understanding or were born in them, and for whom nationalistic and racial and tribal prejudices were the religion, became mere Jews or Christians, and on the advent of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) their ignorance was exposed. For by refusing to believe in the Last Prophet of Allah, they not only refused to ,remain Muslims in the future but also proved that they were not "Muslims" even before: they had been charmed by the personality of a Prophet or Prophets, or had taken blind conformity to their forefathers for religion.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 73 یعنی اس سے پہلے بھی ہم انبیاء اور کتب آسمانی کے ماننے والے تھے ، اس لیے اسلام کے سوا ہمارا کوئی اور دین نہ تھا ، اور اب جو نبی اللہ تعالی کی طرف سے کتاب لے کر آیا ہے اسے بھی ہم نے مان لیا ہے ، لہذا درحقیقت ہمارے دین میں کوئٰ تبدیلی نہیں ہوئی ہے بلکہ جیسے ہم پہلے مسلمان تھے ویسے ہی اب بھی مسلمان ہیں ۔ یہ قول اس بات کی صاف صراحت کردیتا ہے کہ اسلام صرف اس دین کا نام نہیں ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں ، اور مسلم کی اصطلاح کا اطلاق محض حضور کے پیرووں تک محدود نہیں ہے ، بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرو مسلمان ہی تھے ۔ یہ مسلمان اگر کبھی کافر ہوئے تو صرف اس وقت جبکہ کسی بعد کے آنے والے نبی صادق کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا ، لیکن جو لوگ پہلے نبی کو مانتے تھے اور بعد کے آنے والے نبی پر بھی ایمان لے آئے ان کے اسلام میں کوئی انقطاع نہیں ہوا ۔ وہ جیسے مسلمان پہلے تھے ویسے ہی بعد میں رہے ۔ تعجب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہل علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں ، حتی کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کا اطمینان نہ ہوا ۔ علامہ سیوطی نے ایک مفصل رسالہ اس موضوع پر لکھا کہ مسلم کی اصطلاح صرف امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے ۔ پھر جب یہ آیت سامنے آئی تو خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، لیکن کہتے ہیں کہ میں نے پھر خدا سے دعا کی کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر عطا کردے ۔ آخر کار اپنی رائے سے رجوع کرنے کے بجائے انہوں نے اس پر اصرار کیا اور اس آیت کی متعدد تاویلیں کر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر بے وزن ہیں ۔ مثلا ان کی ایک تاویل یہ ہے کہ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ۔ کے معنی ہیں ہم قرآن کے آنے سے پہلے ہی مسلم بن جانے کا عزم رکھتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی کتابوں سے اس کے آنے کی خبر مل چکی تھی اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب وہ آئے گا تو ہم اسلام قبول کرلیں گے ۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ اس فقرے میں مُسْلِمِيْنَ کے بعد لفظ بِہٖ محذوف ہے ، یعنی پہلے ہی سے ہم قرآن کو مانتے تھے کیونکہ اس کے آنے کی ہم توقع رکھتے تھے اور اس پر پیشگی ایمان لائے ہوئے تھے ، اس لیے توراۃ و انجیل کو ماننے کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کو اس کے زول سے پہلے برحق مان لینے کی بنا پر ہم مسلم تھے ۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ تقدیر الہی میں ہمارے لیے پہلے ہی مقدر ہوچکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی آمد پر ہم اسلام قبول کرلیں گے اس لیے درحقیقت ہم پہلے ہی سے مسلم تھے ۔ ان تاویلوں میں سے کسی کو دیکھ کر بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کے عطا کردہ شرح صدر کا اس میں کوئی اثر موجود ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اس اصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف اسلام ( اللہ کی فرمانبرداری ) ہے ، اور خدا کی کائنات میں خدا کی مخلوق کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا ، اور آغاز آفرینش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے ، اور یہ کہ انبیاء علیہم السلام ہمیشہ خوش مسلم رہے ہیں ، اپنے پیرووں کو انہوں نے مسلم ہی بن کر رہنے کی تاکید ہے اور ان کے وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سرتسلیم خم کیا ، ہر زمانے میں مسلم ہی تھے ۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر صرف چند آیات ملاحظہ ہوں ۔ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ( آل عمران ، آیت 19 ) درحقیقت اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے ۔ وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ( آل عمران ، آیت 85 ) اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں: اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ( یونس ، آیت 72 ) میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہوکر رہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ۔ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا ښ وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ ( البقرہ ، آیت 131 تا 133 ) جبکہ اس کے رب نے اس سے کہا کہ مسلم ( تابع فرمان ) ہوجا ، تو اس نے کہا میں مسلم ہوگیا رب العالمین کے لیے ، اور اسی چیز کی وصیت کی ابراہم نے اپنی اولاد کو اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لہذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ، کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی وفات کا وقت آیا ؟ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی ، اس کو اکیلا معبود مان کر اور ہم اسی کے مسلم ہیں ۔ مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۔ ( آل عمران ، آیت 67 ) ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی ، بلکہ وہ یکسو مسلم تھا ۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل خود دعا مانگتے ہیں: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۔ ( البقرہ ، آیت 128 ) اے ہمارے رب ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو ۔ حضرت لوط کے قصے میں ارشاد ہوتا ہے: فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ( الذاریات ، آیت 36 ) ہم نے قوم لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا حضرت یوسف بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ہیں: تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ۔ ( یوسف ، آیت 101 ) مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ بلا ۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں: يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ ۔ ( یونس ، آیت 84 ) اے میری قوم کے لوگو ، اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ کر اگر تم مسلم ہو ۔ بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیت نہیں بلکہ اسلام تھا ، اس بات کو دوست اور دشمن سب جانتے تھے ، چنانچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے ۔ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ۔ ( یونس ، آیت 90 ) میں مان گیا کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں ۔ تمام انبیاء بنی اسرائیل کا دین بھی یہی اسلام تھا: اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا ۔ ( المائدہ ، آیت 44 ) ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اسی کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے رکتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے ۔ یہی حضرت سلیمان علیہ السلام کا دین تھا ، چنانچہ ملکہ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے: اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ ( النمل ، آیت 44 ) میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین کی مسلم ہوگئی ۔ اور یہی حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے حواریوں کا دین تھا: وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ ۚ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ۔ ( المائدہ ، آیت 111 ) اور جبکہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر تو انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں اس معاملہ میں اگر کوئی شک اس بنا پر کیا جائے کہ عربی زبان کے الفاظ اسلام اور مسلم ان مختلف ملکوں اور مختلف زبانوں میں کیسے مستعمل ہوسکتے تھے ، تو ظاہر ہے کہ یہ محض ایک نادانی کی بات ہوگی ۔ کیونکہ اصل اعتبار عربی کے ان الفاظ کا نہیں بلکہ اس معنی کا ہے جس کے لیے یہ الفاظ عربی میں مستعمل ہوتے ہیں ۔ دراصل جو بات ان آیات میں بتا٤ی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے آیا ہوا حقیقی دین مسیحیت یا موسویت یا محمدیت نہیں ہے بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمان خداوندی کے آگے سر اطاعت جھکا دینا ہے اور یہ رویہ جہاں جس بندہ خدا نے بھی جس زمانے میں اختیار کیا ہے وہ ایک ہی عالمگیر ازلی و ابدی دین حق کا متبع ہے ۔ اس دین کو جن لوگوں نے ٹھیک ٹھیک شعور اور اخلاص کے ساتھ اختیار کیا ہے ان کے لیے موسی کے بعد مسیح کو اور مسیح کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کو ماننا تبدیل مذہب نہیں بلکہ حقیقی دین کے اتباع کا فطری و منقطی تقاضا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے گروہوں میں بے سوچے سمجھے گھس آئے یا پیدا ہوگئے اور قومی و نسلی اور گروہی تعصبات نے جن کے لیے اصل مذہب کی حیثیت اختیار کرلی ، وہ بس یہودی یا مسیحی بن کر رہ گئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر ان کی جہالت کی قلعی کھل گئی ، کیونکہ انہوں نے اللہ کے اکری نبی کا انکار کر کے نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے مسلم رہنا قبول نہ کیا ، بلکہ اپنی اس حرکت سے یہ ثابت کردیا کہ حقیقت میں وہ پہلے بھی مسلم نہ تھے ، محض ایک نبی یا بعض انبیاء کی شخصی گرویدگی میں مبتلا تھے یا آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کو دین بنائے بیٹھے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:53) یتلی مضارع مجہول واحد مذکر غائب اس میں مفعول مالم یسم فاعلہ القرآن ہے واذا یتلی علیہم اور جب یہ (قرآن) ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔ مسلمین اسم فاعل جمع مذکر مسلم واحد منصوب بوجہ خبر کنا۔ ماننے والے فرماں بردار۔ ہر وہ شخص جو توحید الٰہی اور سلسلہ وحی کا قائل ہو اس کو مسلم کہا جاسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی اس کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کو مانتے تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے منتظر تھے۔ جن کی خوش خبری ہم پچھلی کتابوں میں پڑھ چکے تھے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ یہ مومنین اہل کتاب کے اوساف ہیں۔ جب وہ قرآن حکیم کی آیتیں سنتے ہیں تو بےاختیار بول اٹھتے ہیں آمنا و صدقنا یہ قرآن سراپا حق ہے اور ہمارے رب کا کلام ہے ہم تو اس کے نزول سے پہلے ہی اللہ کی توحید پر قائم تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لا چکے تھے۔ ہماری کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ای من قبل القران مسلمین مخلصین للہ بالتوحید مومنین بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ نبی حق (معالم ج 5 ص 147) ۔ انا کنا من قبلہ مسلمین لما شاھدوا ذکرہ فی الکتب المتقدمۃ وانھم علی دین الاسلام قبل نزول القران (روح ج 20 ص 94) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53۔ اور جب یہ قرآن کریم ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے اور ان پر اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے بیشک یہ حق ہے ہمارے پروردگار کی جانب سے نازل ہوا ہے ہم تودر حقیقت اس کے آنے سے پہلے ہی اس کو مانتے تھے۔ یعنی اس قرآن کریم کے متعلق جو پیشین گوئیاں ہماری کتابوں میں مذکور ہیں ہم ان پر ایمان رکھتے تھے تو ہمارا ایمان تو اس قرآن کریم پر پہلے ہی سے ہے بیشک یہ حق ہے ہمارے پروردگار نے اس کو نازل فرمایا ہے اسی کی جانب سے یہ اترا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہم اپنی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں تو اس کی پیشین گوئیوں پر بھی ہمارا ایمان ہے اور یہ قرآن کریم انہی بشارتوں کا مصداق ہے تو ہم تو دراصل اس پر اس کے نازل ہونے سے پہلے ہی ایمان رکھتے ہیں ۔ گویا ایک ایمان بواسطہ بشارت اور پیشین گوئی کے اور دوسرا ایمان اس کے نازل ہوجانے اور بحیثیت مصدق کے آجانے کے بعد ۔