Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 54

سورة القصص

اُولٰٓئِکَ یُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۵۴﴾

Those will be given their reward twice for what they patiently endured and [because] they avert evil through good, and from what We have provided them they spend.

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انکے صبر کے بدلے میں دوہرا اجر دیا جائے گا یہ نیکی سے بدی کو ٹال دیتے ہیں اور ہم نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے رہتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُوْلَيِكَ يُوْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا ... These will be given their reward twice over, because they are patient, means, those who have this characteristic -- that they believed in the first Book and then in the second. Allah says: بِمَا صَبَرُوا (because they are patient), meaning, in their adherence to the truth, for taking such thing upon oneself is not easy for people. It was reported in the Sahih from the Hadith of Amir Ash-Sha`bi from Abu Burdah that Abu Musa Al-Ash`ari, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: ثَلَثَةٌ يُوْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ امَنَ بِنَبِيِّهِ ثُمَّ امَنَ بِي وَعَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَدَّى حَقَّ اللهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ وَرَجُلٌ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا There are three who will be given their reward twice: a man among the People of the Book who believed in his Prophet then believed in me; a slave who fulfills his duty towards Allah and towards his master; and a man who has a slave woman and educates her and teaches her good manners, then he frees her and marries her. Imam Ahmad recorded that Abu Umamah said: "On the day of the Conquest (of Makkah) I was walking alongside the Messenger of Allah as he was riding, and he said some very beautiful words, including the following: مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَيْهِ مَا عَلَيْنَا وَمَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَلَهُ أَجْرُهُ وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَيْهِ مَا عَلَيْنَا Whoever among the people of the two Books becomes Muslim, he will have his reward twice, and he has the same rights and duties as we do. Whoever among the idolators becomes Muslim will have one reward, and he has the same rights and duties as we do." Allah's saying: ... وَيَدْرَوُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّيَةَ ... and repel evil with good, means, they do not respond to evil in kind, rather they forgive and overlook. ... وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ and spend out of what We have provided for them. meaning, `from the lawful provision that We have given them, they spend on their families and relatives as they are required to do, and they pay Zakah and give voluntary charity.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔ 542یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] ثابت قدمی سے مراد ایک تو وہ استقلال ہے جو قبول حق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ان کے دلوں میں اللہ کی فرمانبرداری کا جو مستقل جذبہ موجود تھا۔ اسی نے اسے اس نبی پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مذہب تبدیل کرنے میں اور پھر کسی دین کو ابتداًء قبول کرتے وقت ان مسلمانوں کو طرح طرح کی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مصائب کو بھی انہوں نے صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کیا۔ ایسے لوگوں کے لئے دوہرا اجر ہے ایک پہلے نبی کی کتاب پر لانے کا اور ایک دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر لانے کا۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے تین طرح کے آدمیوں کا ذکر کیا ہے جن کو دوہرا اجر ملے گا ان میں سے ایک وہ یہودی یا نصرانی ہے۔ جو پہلے اپنے پیغمبروں پر ایمان رکھتا تھا پھر رسول اللہ پر ایمان لاکر مسلمان ہوگیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب فضل اسلم من اہل الکتابین) [٧٣] یہاں یَدْرَءُ وْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور وَرَءَ کے معنی دفع کرنا، دور کرنا یا پرے ہٹانا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے یا نقصان پہنچائے تو اس کا جواب برائی یا نقصان سے نہیں شدیتے۔ بلکہ اس سے بھی اچھا سلوک کرتے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہوجائے تو بعد میں نیک اعمال کرکے اس برائی کے اثر کو دور کردیتے ہیں۔ [٧٤] جب رزق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد ہمیشہ طیب اور پاکیزہ رزق ہوتا ہے کیونکہ حرام کی کمائی سے تو صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ اور خرچ کرنے سے مراد اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے اور جائز کاموں میں بھی یعنی اپنی ذات پر اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی وغیرہ پر اور اس معاملہ سے بخل سے کام نہیں لیتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ : یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے انھیں دوہرا اجر ملے گا، کیونکہ یہ لوگ پہلے رسول پر ایمان لائے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ثَلَاثَۃٌ لَھُمْ أَجْرَانِ : رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہِ وَ آمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوْکُ إِذَا أَدّٰی حَقَّ اللّٰہِ وَ حَقَّ مَوَالِیْہِ وَ رَجُلٌ کَانَتْ عِنْدَہُ أَمَۃٌ [ یَطَؤُھَا ] فَأَدَّبَھَا فَأَحْسَنَ تَأْدِیْبَھَا وَ عَلَّمَھَا فَأَحْسَنَ تَعْلِیْمَھَا ثُمَّ أَعْتَقَھَا فَتَزَوَّجَھَا فَلَہُ أَجْرَانِ ) [ بخاري، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ و أھلہ : ٩٧ ]” تین آدمیوں کے لیے دو اجر ہیں، ایک اہل کتاب میں سے کوئی آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا اور ایک وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے، جب اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی تھی، جس سے وہ جماع کرتا تھا، اسے اس نے ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا اور تعلیم دی اور اچھی تعلیم دی، پھر آزاد کر کے اس سے نکاح کرلیا، تو اس کے لیے دو اجر ہیں۔ “ بِمَا صَبَرُوْا : صبر تین طرح کا ہے، طاعت پر صبر، معصیت سے صبر اور مصیبت پر صبر۔ یعنی پہلے ایک رسول (علیہ السلام) پر ایمان لا کر صابر اور ثابت قدم رہے، پھر دوسرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس پر ثابت قدم رہے۔ اسی طرح خواہشات نفس کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور ان آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرتے رہے جو قبول اسلام کے بعد ان پر آئیں۔ وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ : ” دَرَأَ یَدْرَأُ “ کا معنی دفع کرنا، دور کرنا، یا پرے ہٹانا ہے۔ اس آیت کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی شخص ان سے برا سلوک کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ اچھے سے اچھے طریقے سے دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ) [ حٰم السجدۃ : ٣٤ ] ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ “ اور دیکھیے سورة رعد (٢٢) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی برائی ہوجائے تو بعد میں نیک اعمال کر کے اس کا اثر ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ) [ ھود : ١١٤ ]” اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : برائی کا جواب اچھائی سے دینا، یا نیکی کے ساتھ برائی کو مٹانا بعض اوقات ممکن ہی نہیں ہوتا جب تک خرچ نہ کیا جائے، اس لیے ان کی یہ صفت بیان فرمائی کہ ہم نے انھیں جو کچھ دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اس میں حقوق واجبہ و مستحبہ، فرض زکاۃ اور نفلی صدقات سبھی آگئے۔ ” رَزَقْنٰهُمْ “ میں اپنے احسان کا احساس بھی دلایا ہے اور یہ بھی کہ اگر وہ خرچ کرتے ہیں تو اپنا کچھ خرچ نہیں کرتے، بلکہ اللہ کا دیا ہوا ہی خرچ کرتے ہیں، لہٰذا انھیں خرچ کرنے میں دریغ نہیں ہونا چاہیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أُولَـٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَ‌هُم مَّرَّ‌تَيْنِ (Such people will be given their reward twice - 28:54). That is, the believers who are also people of the book will be rewarded twice. A similar promise is made for the wives of the Holy Prophet ، (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَ‌هَا مَرَّ‌تَيْنِ (And whoever from among you stands in obedience to Allah and His messenger and does righteous deeds, We will give her, her reward twice. - 33:31). In a hadith of Sahih a1 Bukhari three types of persons are mentioned for double reward One, those people of the book who had faith in their prophets initially, and then developed faith in the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Two, the slave who is submissive and obedient to Allah Ta` ala and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and also to his master. Three, the one who owned a slave girl, with whom he was allowed intercourse but he freed her and made her his formal wife by performing nikah. The point worth consideration in this verse is the cause for which these categories of Muslims are given their reward twice. One cause could be that they have done two good deeds for which they are entitled to double reward. In all these three cases there are two good deeds involved. In the case of believers two good deeds are faith in their own prophet first, and then in the Holy Prophet and the Qur&an. In the case of the wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، two good deeds are that they loved and obeyed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) both as a prophet and as husband. As for the owner of the slave girl, his first good deed is to free her, and the second to marry her. But this explanation may be subjected to the objection that two rewards for two good deeds are applicable to all, according to norms of justice; so where is the distinction for the people of the book or believers, and the wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، or the master of the slave girl? Keeping this objection in view, I have answered the original question in another way which is fully described in my book Ahkam ul-Qur&an under Surah Al-Qasas. According to that explanation, it is apparent by the wording of Qur&an that in all these examples, the relevant persons will not get two rewards for two deeds, but they will get double reward for each single deed, because the principle of &two rewards for two deeds& is applicable to all, according to the express declaration of the Qur&an: لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم (I do not let go to waste the labour of a worker from you - 3:195), that is Allah Ta` ala does not waste deeds of any one of you. In fact one will get reward for every single good deed he performs. Therefore the double reward contemplated for all these types, is that for every single good deed they will be awarded double the reward. For instance, they will be given two rewards for a single prayer, two rewards for a single charity, and two rewards for each one good deed like fasting, performing Hajj etc.. If one contemplates on the wordings of Qur&an he will note that for giving two rewards the appropriate word was اَجرَین ، (two rewards) but instead of that Qur&an has used the word اَجرَھُم مرّتَین (their reward twice - 28:54), in which there is a clear hint that all their good deeds will be written twice and they will get double the reward for each one of them. As for the reason why these people have been chosen for such an extra ordinary reward, the straight answer is that it is Allah Ta` ala&s prerogative to declare any deed preferable or superior to other deeds, and enhance its reward. No one has the right to question as to why He has enhanced the reward for a particular act as compared to the other, or why has He increased the reward of fasting while He has not done so in the case of zakah and charity. It is possible that the pedestal of deeds, mentioned in the verse under reference and the hadith of Bukhari, is higher in the sight of Allah in comparison to other deeds, and hence double the reward. Some prominent scholars have given the reason of this preference that they require excessive effort and hardship. This explanation is also probable, and the word بِمَا صَبَرُوا (because they observed patience) towards the end of this verse can be taken as a proof for the argument that the ground for double reward is their endurance on hardship. (Only Allah knows best). وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ (And they repel evil with good - 28:54). The scholars have made different assertions while explaining &evil& and &good deed& as they are contemplated in this verse. Some have explained that &good deed& stands here for obedience, and &evil& for sin, and the sense is that every good deed wipes out the sin, as is maintained in a hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidna Mu` adh Ibn Jabal (رض) ‘ اَتبِعِ الحَسَنَۃَ السَّیِّٔۃَ تَمحُھَا (Perform a good deed after an evil deed, and it will wipe out the evil). According to this interpretation, the verse is praising these people that whenever they commit an evil act by mistake, they wipe it out by doing some good act. Some others are of the opinion that Hasanah (good deed) in this verse is used for knowledge and serenity, and sayyi&ah for ignorance and negligence. Thus it means that these people respond to the ignorant acts of others with serenity and forbearance and not with a similar ignorance. As a matter of fact, there is no contradiction in these explanations, because the words hasanah and sayyi` ah, that is virtue and evil, encompass all these things. There are two important advices in this verse: Firstly, if someone commits a sin, its best remedy is that he should look for doing something good. The virtuous deed becomes expiation for the sin, as quoted in the hadi&th of Sayyidna Mu` adh ضی اللہ تعالیٰ عنہ above. Secondly, if a person behaves with someone badly, the wronged one is within his right to take revenge, provided he does not exceed the wrong done to him. However, it is much better for him that, instead of taking revenge, he returns the cruelty with kindness and the evil with virtue. It is an act of high degree of nobility of character. There are innumerable benefits in such an act, both in this world and in the Hereafter. In another Qur&anic verse this advice is given in very clear words ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (Repel with that which is fairer and behold, he between whom and thee there is enmity shall be as if he were a loyal friend - 41:34). It means that one should act kindly in return of cruelty. In this way his foe will become his sincere friend.

اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ ، یعنی مومنین اہل کتاب کو دو مرتبہ اجر دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اسی طرح کا وعدہ ازواج مطہرات کے متعلق بھی آیا ہے۔ وَمَنْ يَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّــؤْتِهَآ اَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ ، اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں تین شخصوں کے لئے دوہرے اجر کا ذکر فرمایا ہے ایک وہ اہل کتاب جو پہلے اپنے سابق نبی پر ایمان لایا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر، دوسرا وہ شخص جو کسی کا مملوک غلام ہو اور وہ اپنے آقا کی بھی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی بھی، تیسرا وہ شخص جس کی ملک میں کوئی کنیز تھی جس سے بلا نکاح صحبت اس کے لئے حلال تھی اس نے اس کو اپنی غلامی سے آزاد کردیا پھر اس کو منکوحہ زوجہ بنا لیا۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ان چند قسموں کو دو مرتبہ اجر دینے کی علت کیا ہے اگر کہا جائے کہ ان دونوں کے ردعمل اس دوہرے اجر کا سبب ہیں کیونکہ مومنین اہل کتاب کے دو عمل یہ ہیں کہ پہلے ایک نبی اور اس کی کتاب پر ایمان لائے پھر دوسرے نبی اور اس کی کتاب پر اور ازواج مطہرات کے دو عمل یہ ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری ہے، اللہ و رسول کی بھی اور آقا کی بھی، اور کنیز کو آزاد کر کے اس سے نکاح کرنے والے کا ایک عمل صالح اس کو آزاد کرنا دوسرا اس کو منکوحہ زوجہ بنا لینا ہے۔ مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو عمل کے دو اجر ہونا تو مقتضائے عدل و انصاف ہونے کی وجہ سے سب کے لئے عام ہے اس میں مومنین اہل کتاب یا ازواج مطہرات وغیرہ کی کیا خصوصیت ہے جو شخص بھی دو عمل کرے گا دو اجر پائے گا ؟ اس سوال کے جواب کی مکمل تحقیق احقر نے احکام القرآن سورة قصص میں لکھی ہے اس میں جو بات خود الفاظ قرآن کی دلالت سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام اقسام میں مراد صرف دو اجر نہیں، کیونکہ وہ تو ہر عمل کرنے والے کے لئے عام ضابطہ قرآنیہ ہے لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ جتنے نیک عمل کرے گا اسی کے حساب سے اجر پائے گا۔ بلکہ ان اقسام مذکورہ میں دو اجر سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کے ہر عمل کا دوہرا ثواب ملے گا۔ ہر نماز پر اس کا دوہرا، ہر روزہ پر اس کا دوہرا، ہر صدقہ اور حج وعمرہ پر اس کا دوہرا ثواب ملے گا۔ قرآن کے الفاظ پر غور کریں تو دو اجر دینے کے لئے مختر لفظ اجرین کا تھا مگر قرآن نے اس کو چھوڑ کر اجر مرتین کا لفظ اختیار کیا جس میں صاف اشارہ اس کا پایا جاتا ہے کہ اجر مرتین سے مراد یہ ہے کہ ان کا ہر عمل مکرر لکھا جائے گا اور ہر عمل پر دوہرا ثواب ملے گا۔ رہا یہ معاملہ کہ ان کی اتنی بڑی فضیلت اور خصوصیت کا سبب کیا ہے تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ کسی خاص عمل کو دوسرے اعمال سے افضل قرار دیدے اور اس کا اجر بڑھا دے، کسی کو اس سوال کا حق نہیں ہے کہ روزہ کا ثواب اللہ تعالیٰ نے اتنا زیادہ کیوں کردیا، زکوٰۃ و صدقہ کا کیوں ایسا نہ کیا ؟ ہوسکتا ہے کہ یہ اعمال جن کا ذکر آیات مذکور اور حدیث بخاری میں ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا درجہ دوسرے اعمال سے ایک حیثیت میں بڑھا ہوا ہو اس پر یہ انعام فرمایا اور بعض اکابر علماء نے جو اس کا سبب ان لوگوں کی دوہری مشقت کو قرار دیا ہے وہ بھی اپنی جگہ متحمل ہے اور اسی آیت کے آخر میں لفظ بِمَا صَبَرُوْا سے اس پر استدلال ہوسکتا ہے کہ علت اس دوہرے اجر کی ان کا مشقت پر صبر کرنا ہے۔ واللہ اعلم وَيَدْرَءُوْنَ بالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ یعنی یہ لوگ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتے ہیں۔ اس برائی اور بھلائی کی تعبیر میں ائمہ تفسیر کے بہت سے اقوال ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ بھلائی سے اطاعت اور برائی سے معصیت مراد ہے کیونکہ نیکی بدی کو مٹا دیتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا اتبع الحسنة السیئۃ تمحھا یعنی بدی اور گناہ کے بعد نیکی کرو تو وہ گناہ کو مٹا دے گی اور بعض حضرات نے فرمایا حسنہ سے مراد علم و حلم اور سیہ سے مراد جہل و غفلت ہے یعنی یہ لوگ دوسروں کی جہالت کا جواب جہالت کے بجائے حلم و بردباری سے دیتے ہیں اور درحقیقت ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ لفظ حسنہ اور سیہ یعنی بھلائی اور برائی کے الفاظ ان سب چیزوں کو شامل ہیں۔ اس آیت میں دو اہم ہدایتیں ہیں : اول یہ کہ اگر کسی شخص سے کوئی گناہ خطاء سرزد ہوجائے تو اس کا علاج یہ ہے کہ اس کے بعد نیک عمل کی فکر کرے تو نیک عمل اس گناہ کا کفارہ ہوجائے گا جیسا کہ حدیث معاذ کے حوالہ سے اوپر بیان ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ جو شخص کسی کے ساتھ ظلم اور برائی سے پیش آئے اگرچہ قانون شرع کی رو سے اس کو اپنا انتقام لے لینا جائز ہے بشرطیکہ انتقام برابر سرابر ہو کہ جتنا نقصان یا تکلیف اس کو پہنچائی ہے اتنا ہی یہ اپنے حریف کو پہنچاوے مگر اولی اور احسن یہ ہے کہ انتقام کے بجائے برائی کے بدلہ میں بھلائی اور ظلم کے بدلہ میں احسان کرے کہ یہ اعلی درجہ مکارم اخلاق کا ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے منافع بیشمار ہیں۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں یہ ہدایت بہت واضح الفاظ میں اس طرح آئی ہے ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ، یعنی برائی اور ظلم کو ایسے طریقہ سے دفع کرو جو کہ بہتر ہے۔ (یعنی ظلم کے بدلہ میں احسان کرو) تو جس شخص کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّيِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝ ٥٤ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں درأ الدَّرْءُ : المیل إلى أحد الجانبین، يقال : قوّمت دَرْأَهُ ، ودَرَأْتُ عنه : دفعت عن جانبه، وفلان ذو تَدَرُّؤٍ ، أي : قويّ علی دفع أعدائه، ودَارَأْتُهُ : دافعته . قال تعالی: وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد/ 22] ، وقال : وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور/ 8] ، وفي الحدیث : «ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» ( د ر ء ) الدواء ( ف ) کے معنی ونیزہ وغیرہ کے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس کی کجی کو درست کردیا میں نے اس سے دفع کیا قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْرَؤُنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ [ الرعد/ 22] اور نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذابَ [ النور/ 8] اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے ۔«ادْرَءُوا الحدود بالشّبهات» شرعی حدود کو شہبات سے دفع کرو حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) ایسے حضرات کو انکی پختگی کی وجہ سے دوہرا ثواب ملے گا کیوں کہ ان حضرات نے اپنی کتاب میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت لوگوں کے سامنے بیان کی اور پھر اس دین میں داخل ہوئے تو اس پر انکو کفار نے جو تکالیف پہنچائیں اس پر انھوں نے صبر کیا اور یہ لوگ نیک بات یعنی کلمہ ” لاالہ الا اللہ “۔ سے بری بات یعنی شرک کا توڑ کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو مال دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ ) ” یعنی سابقہ امت کے جو لوگ (یہودی یا نصرانی) اسلام قبول کریں گے وہ دہرے اجر کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس سے پہلے وہ انجیل اور تورات کو مانتے تھے اور اب انہوں نے قرآن کو بھی تسلیم کرلیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74 That is, one reward for affirming faith in the Prophet Jesus (Allah's peace be upon him) and the second for affirming faith in Muhammad (may Allah's peace be upon him). The same thing has been expressed in the Hadith which Bukhari and Muslim have related on the authority of Hadrat Abu Musa Ash`ari. He says that the Holy Prophet said: "One of the three persons who will get a double reward is he who belonged to the people of the Book, had full faith in his Prophet and then affirmed faith in Muhammad (may Allah's peace be upon him)." 75 That is, "They will get a double reward for the reason that they avoided nationalistic, racial and tribal prejudices and remained steadfast on the way of true Faith. When, on the advent of the new Prophet, they were confronted by a hard test, they proved by their conduct that they were not Christ-worshippers but God worshippers: they were not charmed by Christ's personality but were followers of "Islam". That is why when the new Prophet after Christ brought the same Islam that Christ had brought, they adopted the way of Islam under his leadership; without any hesitation, and gave up the way of those who remained stuck to Christianity. " 76 That is, "They answer evil and falsehood with what is good and right: they repel injustice and mischief with what is just and noble; and they do not pay the other man back in the same coin. " 77 That is, "They also make monetary sacrifices in the way of the truth. There might also be in it an allusion to this that those people had travelled from Habash to Makkah in search of the truth: they had no material gain in view when they undertook a toilsome journey involving a lot of expenses. When they heard that a man in Makkah had made a claim to be a Prophet, they thought it necessary to go and find out the truth, so that if a prophet had really been sent by God, they should not be deprived of affirming faith in him and being guided aright."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 74 یعنی ایک اجر اس ایمان کا جو وہ پہلے سیدنا عیسی علیہ السلام پر رکھتے تھے اور دوسرا اجر اس ایمان کا جو وہ اب نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لائے ۔ یہی بات اس حدیث میں بیان کی گئی ہے جو بخاری و مسلم نے حضرت ابو موسی اشعری سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثلثۃ لہم اجران ، رجل من اھل الکتب امن بنبیہ وامن بمحمد ۔ تین شخص ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا ، ان میں سے ایک وہ ہے جو اہل کتاب میں سے تھا اور اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا ، پھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لایا ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 75 یعنی انہیں یہ دوہرا اجر اس بات کا ملے گا کہ وہ قومی و نسلی اور وطنی و گروہی تعصبات سے بچ کر اصل دین حق پر ثابت قدم رہے اور نئے نبی کی آدم پر جو سخت امتحان درپیش ہوا اس میں انہوں نے ثابت کردیا کہ دراصل وہ مسیح پرست نہیں بلکہ خدا پرست تھے ، اور شخصیت مسیح کے گرویدہ نہیں بلکہ اسلام کے متبع تھے ، اسی وجہ سے مسیح کے بعد جب دوسرا نبی وہی اسلام لیکر آیا جسے مسیح لائے تھے تو انہوں نے بے تکلف اس کی رہنمائی میں اسلام کا راستہ اختیار کرلیا اور ان لوگوں کا راستہ چھوڑ دیا جو مسیحیت پر جمے رہ گئے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 76 یعنی وہ بدی کا جواب بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے دیتے ہیں ، جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں بلکہ صداقت لاتے ہیں ، ظلم کو ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دفع کرتے ہیں ، شرارتوں کا سامنا شرارت سے نہیں بلکہ شرافت سے کرتے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 77 یعنی وہ راہ حق میں مالی ایثار بھی کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہو کہ وہ لوگ محض حق کی تلاش میں حبش سے سفر کر کے مکے آئے تھے ۔ اس محنت اور صرف مال سے کوئی مادی منفعت ان کے پیش نظر نہ تھی ۔ انہوں نے جب سنا کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے ضروری سمجھا کہ خود جاکر تحقیق کریں تاکہ اگر واقعی ایک نبی ہی خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہو تو وہ اس پر ایمان لانے اور ہدایت پانے سے محروم نہ رہ جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: جو شخص پہلے ایک دین کو اختیار کئے ہوئے ہو، اور جسے اس بات پر فخر بھی ہو کہ وہ ایک آسمانی کتاب کی پیروی کر رہا ہے، اُس کے لئے نَیا دین اختیار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لئے بھی کہ اپنی پرانی عادت چھوڑنا دُشوار ہے، اور اس لئے بھی کہ اس کے ہم مذہب اُسے تکلیفیں پہنچاتے ہیں، لیکن اِن حضرات نے ان تمام تکلیفوں پر صبر کیا، اور حق پر ثابت قدم رہے، اِس لئے ان کو دُہرا ثواب ملے گا۔ 31: یعنی بُرائی کا جوب بھلائی سے دیتے ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤ تا ٥٦۔ اوپر کی آیتوں میں اہل کتاب کی یہ تعریف تھی کہ وہ قرآن شریف کو بھی مانتے ہیں اور جو کتاب ان کو پہلے مل چکی ہے اس کو بھی مانتے ہیں اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ہٹاتے ہیں اور ہماری دی روزی میں سے خرچ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو دوہرا اجر ملی گا اب فرمایا وہ لوگ جب کوئی ناشائستہ بات سنتے ہیں تو اس سے درگزر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے عمل اور تمہارے واسطے تمہارے عمل بس تمہیں رخصت کا سلام پہنچے ہم جاہلوں کی چال کو پسند نہیں کرتے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو طالب کے لیے کوشش کی کہ مرتے وقت تک کلمہ بڑھ لیں مگر ابوطالب نے اس کو منظور نہ کیا اس پر آیت انک لاتھدی اتری آگے ذکر ہے کہ مکہ والوں نے کہا ہم اگر السلام قبول کریں تو تمام عرب کے لوگ ہم سے عداوت کرنے لگیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ اب کس کی پناہ میں ہیں یہ ہی حرم امن والا ہے جہاں ہم نے ان کو جگہ دے رکھی ہے اسلام کے بعد بھی ہم ہی پناہ دینے والے ہیں صحیح بخاری ومسلم میں مسیب بن جزن مخزومی سے اور فقط صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ٢ ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے وقت بہت کوشش کی کہ ابوطالب دائرہ اسلام میں داخل ہوجاویں مگر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کے بہکانے سے ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ تسلی فرمائی کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے جنتی اور دوزخی اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے ہی قرار پا چکے ہیں اور علم الٰہی کا یہ نتیجہ لوح محفوظ میں لکھا بھی جا چکا ہے اس لیے ابو طالب کی طرح باوجود فہمایش اور کوشش کے جو شخص دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو تو اس کا کچھ رنج نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ایسے لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے اہل کتاب کے ذکر کے بعد ابو طالب اور مشرکین مکہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاوے کہ خاص مکہ کے جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے تھے وہ اسلام سے محروم رہے اور باہر کے جو لوگ علم الٰہی میں نیک راہ قرار پاچکے تھے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا میں پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں داخل ہونے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں اور اسلام سے محروم رہنے والوں کا ذکر جو اوپر گزر اس کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩٤ ج ٣ و تفسیر الدر المنثور ص ١٣٣ ج ٥۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:54) یؤتون مضارع مجہول جمع مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر وہ دئیے جائیں گے۔ ان کو دیا جائے گا۔ اتی مادہ۔ مرتین۔ دو مرتبہ ای مرۃ علی ایمانہم بکتابھم ومرۃ علی ایمانہم بالقران ایک اجر ان کی اپنی کتاب پر ایمان لانے کا اور دوسرا اجر قرآن پر ایمان لانیکا۔ بما میں ب سببیہ ہے بما صبروا بوجہ اس امر کے کہ انہوں نے صبر کیا۔ بہ سبب ان کے صبر کرنے کے۔ یعنی بسبب اس صبر و ثابت قدمی کے جو انہوں نے توراۃ و قرآن پر ایمان رکھنے میں۔ یا قرآن پر اس کے نزول سے قبل و نزول کے بعد ایمان رکھنے میں یا مشرکین اور ان کے ہم مذہب اہل کتاب کی ایذاء دہی پر دکھائی۔ یدرء ون۔ مضارع جمع مذکر غائب درء کے معنی (نیزہ وغیرہ کے) ایک طرف مائل ہوجانے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے قومت درء ہ میں سے اس کی کجی کو درست کردیا اور درءت عنہ می نے اس سے دفع کیا۔ یدرء ون بالحسنۃ السیئۃ وہ نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں یا بدی کا نیکی کے ساتھ دفعیہ کرتے ہیں یا بدی کا توڑ نیکی سے کرتے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ویدرء عنھا العذاب اور عورت کو سزا سے یہ بات ٹال سکتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ کیونکہ وہ پہلی کتابوں کو بھی حق سمجھ کر مانتے رہے اور جب قرآن اترا اور انہیں اس کی حقانیت معلوم ہوئی تو اس پر ایمان لے آئے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رح) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین شخص ایسے ہیں جنہیں دوہرا اجر دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک اہل کتاب کا وہ فرد ہے جو پہلی اور آخری دونوں کتابوں پر ایمان لایا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 1 ۔ یعنی ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس کے بعد کوئی نیک کام کرتے ہیں جس سے وہ گناہ مٹ جاتا ہے۔ یا ان کے مکارم اخلاق کی تعریف ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے ساتھ برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں۔ (دیکھئے سورة رعد آیت 22) 2 ۔ یعنی جہاں شریعت نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ اس میں فرض زکوٰۃ اور نفلی صدقات سب آگئے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی کتب پر ایمان لانے اور عمل کرنے والے جب قرآن مجید کو آخری کتاب مانیں اور اس پر عمل کریں گے تو انھیں دوہرا صلہ دیا جائے گا۔ دین اسلام کے امتیازات میں یہ بات طرہّ امیتاز کی حیثیت رکھتی ہے کہ دین اسلام نہ صرف پہلی کتب اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ جو شخص پہلے یہودی یا عیسائی تھا اب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی تسلیم کرتے ہوئے آپ کی شریعت پر خلوص دل کے ساتھ ایمان لایا اور عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قرآن اس کے لیے کھلے الفاظ میں اعلان کرتا ہے کہ ایسے شخص کا دوہرا صلہ ہوگا۔ کیونکہ یہ پہلی شریعت پر بھی عمل کرتا رہا اور اب قرآن کو من جانب اللہ اور نبی آخر الزّمان کو سچا نبی جان کر آپ پر ایمان لایا اور اس پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہا اس کے لیے دوہرا اجر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ لوگ برائیوں کو چھوڑنے اور نیکیوں کو اپنانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انھیں عطا کر رکھا ہے اس میں اللہ کے بندوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ پہلے ادیان پر اڑے رہنا اور دین اسلام کا انکار کرنا پرلے درجے کا گناہ اور برائی ہے۔ اللہ کے نیک بندے پہلے دین پر قائم رہنے کی بجائے دین اسلام کو قبول کرکے اپنی ضد کو چھوڑ کر دین حق پر گامزن ہوتے ہیں۔ جو برائی کو نیکی میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ بھی سچے دل کے ساتھ حلقۂ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑنے اور نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ (أَبُو بُرْدَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلاَثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا، وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا، ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا، فَلَہُ أَجْرَانِ ، وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا، ثُمَّ آمَنَ بالنَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ ، وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللَّہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابو بردہ بیان کرتے ہیں انہوں نے اپنے باپ سے سنا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا، ایک وہ آدمی جس کے پاس لونڈی ہو وہ اسے بہترین تعلیم دیتا اور بہترین آدب سکھلاتا ہے پھر اسے آزاد کردیتا ہے اور اس سے شادی کرلیتا ہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ دوسرا اہل کتاب کا مؤمن آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ تیسرا وہ آدمی جو کسی کا غلام تھا اس نے اللہ کے حقوق بھی ادا کیے اور اپنے مالک کی بھی خیر خواہی کرتا رہا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ “ مسائل ١۔ غیر مسلم مسلمان ہوجائے تو اس کے لیے دوہرا صلہ ہوگا۔ ٢۔ اللہ کے بندے برائی پر اڑنے کی بجائے نیکی کی طرف سبقت کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ کے بندے اللہ کے دیے میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے بندے دین اسلام قبول کرتے ہیں اور اس پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں : ١۔ جب سنا انھوں نے جو رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ پڑتی ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے سو ہمیں شہادت دینے والوں کے ساتھ شامل فرما لے۔ (المائدہ : ٨٣) ٢۔ جادوگروں کی ایمان کے بعد صبر اور ثابت قدمی کی دعا۔ (الاعراف : ١٢٠ تا ١٢٦) ٣۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ : ٢٥٠) ٤۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٥۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران : ١٩٣ تا ١٩٤) ٦۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر : ١٠) ٧۔ اے ہمارے رب بیشک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران : ١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مؤمنین اہل کتاب کی ایک صفت بیان فرمائی کہ وہ اچھائی کے ذریعہ برائی کو دفع کرتے ہیں یعنی گناہ کے بعد نیک کام کرلیتے ہیں جن سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ نیکیوں کے ذریعہ گناہوں کا معاف ہوجانا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک قانون ہے اور یہ اس کا بہت بڑا کرم ہے۔ سورة ہود میں فرمایا ہے (اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیّْاٰتِ ) (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں) حضرت ابوذر (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا کہ تو جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرو اور برائی کے پیچھے نیکی لگا دو ۔ یہ نیکی اس برائی کو مٹا دے گی۔ اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ میل جول رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٢: از ترمذی) اور بعض حضرات نے برائی کو اچھائی کے ذریعہ دفع کرنے کا مطلب یہ لیا ہے کہ جب کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو اس کے سرزد ہوجانے پر توبہ و استغفار کرلیتے ہیں اس نیکی سے وہ برائی گم ہوجاتی ہے یہ معنی مراد لینا بھی الفاظ قرآنیہ سے بعید نہیں ہیں۔ (وَ یَدْرَءُ وْنَ بالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ ) کا مطلب مفسرین نے یہ بتایا ہے جو سیاق قرآنی سے اقرب ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آئیں۔ بد کلامی کریں وہ ان کی اس حرکت کو تحمل اور برداشت کے ذریعہ دفع کردیتے ہیں یعنی بدلہ لینے اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کا ارادہ نہیں کرتے عفو اور درگزر اور نرمی اختیار کرتے ہیں۔ یہ مفہوم سورة فصلت کی آیت کریمہ (اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) کے ہم معنی ہے۔ مؤمنین اہل کتاب کی تیسری صفت انفاق مال بتائی اور فرمایا (وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) (اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں) اہل ایمان کی یہ صفت قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمائی ہے۔ یہاں مؤمنین اہل کتاب کی صفات میں خاص طور سے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ حضرت جعفر (رض) کے ساتھ حبشہ سے جو افراد آئے تھے جن کا ذکر اوپر ہوا مدینہ منورہ پہنچ کر جب انہوں نے مسلمانوں کی مالی تنگی دیکھی تو کہنے لگے کہ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس بہت سے اموال ہیں اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو واپس جا کر اپنے اموال لے آئیں اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کریں۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی اور واپس گئے اور اپنے اموال لے کر آگئے جن کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی اس پر آیت بالا نازل ہوئی۔ (ذکرہ فی معالم التنزیل عن سعید بن جبیر)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 51:۔ ان لوگوں کو دوہرا اجر وثواب ملے گا کیونکہ پہلے وہ اپنی کتاب پر ایمان لائے اور پھر قرآن پر ایمان لائے۔ بما صبروا، اپنے دونوں ایمانوں پر قائم رہے اور دشمنوں کی ایذاؤں پر صبر کیا۔ ویدرءون بالحسنۃ السیئۃ الخ، گناہوں سے بچ کر اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں یا مشرکین کی تکلیف و ایذاء کا حلم و عفو سے جواب دیتے ہیں۔ یدفعون بالطاعۃ المعصیۃ و بالحلم الاذی (مدارک ج 3 ص 184) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو ان کی پختگی اور ثابت قدمی کی وجہ سے دوہرا اجر وثواب دیا جائیگا اور وہ لوگ بھلائی اور نیکی کے ساتھ برائی اور لوگوں کی ایذا رسانی کو دفع کرتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں یعنی چونکہ یہ لوگ دو مرتبہ ایمان لائے ہیں ان کا ثواب بھی دوہرا ہوگا ایک اپنی کتاب اور اس کی پیشین گوئیوں پر ایمان لانا پھر جب اس کا مصداق آیا تو اس پر ایمان لانا اس پر دوہرا ثواب بھی عطا ہوگا ۔ یہی ثابت قدمی اور پختگی ہے کفار مکہ بھی ان لوگوں کو برا کہتے تھے اور اہل کتاب بھی ان کی ہجو کرتے تھے اور طعن وتشنیع سے پیش آتے تھے مگر یہ لوگ صبر کرتے تھے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے اور ایذا رسانی کرنیوالوں کو نرمی سے جواب دیا کرتے تھے مثلاً خدا تعالیٰ تم کو ہدایت دے اور تم کو ایمان لانے کی توفیق دے وغیرہ وغیرہ ۔ نیز ہم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے خیرات کرتے ہیں یہاں تک ان کے عقائد و اعمال کا ذکر فرمایا آگے ان کے اخلاق کا اور ذکر فرماتے ہیں۔