Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 56

سورة القصص

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۵۶﴾

Indeed, [O Muhammad], you do not guide whom you like, but Allah guides whom He wills. And He is most knowing of the [rightly] guided.

آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالٰی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah guides Whom He wills Allah says to His Messenger : `O Muhammad: إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ ... Verily, you guide not whom you like' meaning, `the matter does not rest with you; all that you have to do is convey the Message, and Allah will guide whom He wills, and His is the ultimate wisdom,' as He says: لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ Not upon you is their guidance, but Allah guides whom He wills. (2:272) وَمَأ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِينَ And most of mankind will not believe even if you desire it eagerly. (12:103) This Ayah is even more specific than the following: إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ Verily, you guide not whom you like, but Allah guides whom He wills. And He knows best those who are the guided. meaning: Allah knows best who deserves to be guided and who deserves to be misguided. It was recorded in the Two Sahihs that this Ayah was revealed concerning Abu Talib, the paternal uncle of the Messenger of Allah. He used to protect the Prophet, support him and stand by him. He loved the Prophet dearly, but this love was a natural love, i.e., born of kinship, not a love that was born of the fact that he was the Messenger of Allah. When he was on his deathbed, the Messenger of Allah called him to Faith and to enter Islam, but the decree overtook him and he remained a follower of disbelief, and Allah's is the complete wisdom. Az-Zuhri said that Sa`id bin Al-Musayyib narrated to me that his father, Al-Musayyib bin Hazan Al-Makhzumi, may Allah be pleased with him, said: "When Abu Talib was dying, the Messenger of Allah came to him and found Abu Jahl bin Hisham and Abdullah bin Abi Umayyah bin Al-Mughirah with him. The Messenger of Allah said: يَا عَمِّ قُلْ لاَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ الله O my uncle, say La ilaha illallah, a word which I may use as evidence in your favor before Allah (in the Hereafter). Abu Jahl bin Hisham and Abdullah bin Abi Umayyah said: `O Abu Talib, will you leave the religion of Abdul-Muttalib' The Messenger of Allah kept urging him to say La ilaha illallah, and they kept saying, `Will you leave the religion of `Abdul-Muttalib' -- until, at the very end, he said that he was on the religion of Abdul-Muttalib, and he refused to say La ilaha illallah. The Messenger of Allah said: وَاللهِ لاَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْك By Allah, I shall certainly seek forgiveness for you unless I am told not to. Then Allah revealed: مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِى قُرْبَى It is not (proper) for the Prophet and those who believe to ask Allah's forgiveness for the idolators, even though they be of kin. (9:113) And there was revealed concerning Abu Talib the Ayah, إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء ... Verily, you guide not whom you like, but Allah guides whom He wills." This was recorded (by Al-Bukhari and Muslim) from the Hadith of Az-Zuhri. The Excuses made by the People of Makkah for not believing, and the Refutation of Their Excuses Allah tells:

ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے قبضے کی چیز نہیں ۔ آپ پر تو صرف پیغام اللہ کے پہنچادینے کا فریضہ ہے ۔ ہدایت کا مالک اللہ ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لیس علیک ھدھم ) تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣؁ ) 12- یوسف:103 ) گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے کہ یہ اللہ کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟ بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری جو آپ کا بہت طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ کی مدد کرتا تھا اور آپ کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعا نہ تھی ۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑارہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے ۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کہو میں اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں تیرا سفارشی بن جاؤنگا ۔ ابو جہل اور عبداللہ کہنے لگے ابو طالب کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا ۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھاتے اور وہ دونوں اسے رو کتے یہاں تک کہ آخر کلمہ اسکی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہتر میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہونگا یہ اور بات ہے کہ میں روک دیا جاؤں اللہ مجھے منع فرمادے ۔ لیکن اسی وقت آیت اتری کہ ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ١١٣؁ ) 9- التوبہ:113 ) یعنی نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوار نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں اور اسی ابو طالب کے بارے میں آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ 56؀ ) 28- القصص:56 ) بھی نازل ہوئی ( صحیح مسلم وغیرہ ) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ابو طالب کے مرض الموت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ چجا لا الہ الا اللہ کہہ لو میں اس کی گواہی قیامت کے دن دے دونگا تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کردیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لئے کہتا ہوں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی روش پر ہوں ۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہے ۔ قیصر کا قاصد جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش کیا تو آپ نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ نے فرمایا کہ تیرا قصد ہے کہ تو اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر آجائے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک ان کے پیغام کا جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ تو آپ نے مسکرا کر اپنے صحابہ کی طرف دیکھ کر یہی آیت پڑھی ۔ مشرکین اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں ۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کردیں گے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے اللہ نے انہیں حرم محترم میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب اللہ کے سچے دین کو قبول کریں تو امن اٹھ جائے؟ یہی تو وہ شہر ہے کہ طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب مال تجارت وغیرہ کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے ۔ تمام چیزیں یہاں کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم انہیں بیٹھے بیٹھائے روزیاں پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں ۔ اسی لیے ایسے رکیک حیلے اور بےجا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے والاحارث بن عامر بن نوفل تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

561یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمدرد اور غمسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لاَ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرسکوں۔ لیکن وہاں پر دوسرے رؤسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور راہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے اوپر چلا دینا یہ ہمارا کام ہے۔ ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ہدایت کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک سورة یہ ہے کہ کسی کافر کے قلب و دماغ میں ایسی تبدیلی آجائے کہ وہ ہدایت یا اسلام قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے یہ کام خالصتہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔ سعید بن مسیب کے والد مسیب بن حزن کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہاں دیکھا کہ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ پہلے ہی وہاں بیٹھے ہیں۔ آپ نے ابو طالب سے فرمایا : چچا جان ! اگر آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیں تو میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں دلیل پیش کرسکوں گا && اور ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کا دین چھوڑ دو گے ؟ آخر ابو طالب نے آخری بات جو کہ وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں اور لا الٰہ الا اللہ کہنا قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں اس وقت تک تمہارے لئے دعا کرتا رہوں گا جب تک اس سے منع نہ کیا جاؤں && تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀) 8 ۔ الانفال :67) اور ابو طالب کے بارے میں یہ آیت إنَّکَ لاَ تَھْدِیْ ۔۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ اور ترمذی کی روایت کے مطابق ابو طالب نے آپ کو یہ جواب دیا اگر قریش مجھے یہ عار نہ دلائیں کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے یہ کلمہ کہلوا دیا ہے تو بھیتجے ! میں یہ کلمہ کہہ کر تیری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اب رہا ابو طالب کا اخروی انجام، جس نے مکی دور میں اپنے آخری دم تک آپ کی حمایت اور سرپرستی کی اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا، تو اس کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ ! کیا آپ کی ذات سے ابو طالب کو کچھ فائدہ پہنچے گا۔ وہ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ کی خاطر سب کی ناراضگی مول لے لی تھی ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتے && (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب شفاعۃ النبی لابی طالب۔۔ ) ٢۔ ابو سعیدخدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا &&: قیامت کے دن شائد ان کو میری سفارش سے فائدہ پہنچے اور وہ ہلکی آگ میں رکھے جائیں جو ان کے ٹخنوں تک ہو اور ان کا بھیجا پکتا رہے && (مسلم۔ حوالہ ایضاً ) ٣۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو جہنم کا سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہوگا وہ (آگ کی) دو جوتیاں پہنے ہونگے جس سے ان کا بھیجا کھول رہا ہوگا && (مسلم۔ حوالہ ایضاً ) اور ہدایت کا دوسرا معنی یا دوسری صورت یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لاچکے ہیں۔ ان کی منزل مقصود تک رہنمائی کی جائے۔ ان معنوں میں آپ اور دیگر انبیاء بلکہ علمائے کرام بھی ہدایت کی راہ نہ بتلا سکتے ہیں اور پیغمبروں کی تو ذمہ داری ہی یہی ہوتی ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ 52؀ۙ ) 42 ۔ الشوری :52) یعنی آپ یقینا لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ [٧٧] یعنی اللہ صرف ان لوگوں کو ایمان لانے کی توفیق دیتا ہے جو خود بھی ہدایت کے طلبگار ہوں۔ ایسے لوگوں کو وہ خوب جانتا ہے اور ان کی ہدایت کے اسباب بھی انھیں مہیا فرما دیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام لوگوں کے بیحد خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان لانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ خصوصاً آپ کے دل میں اپنے قرابت داروں کے متعلق صلہ رحمی کے جذبے کی وجہ سے یہ خواہش اور بھی زیادہ تھی۔ اس مقام پر اہل کتاب کے ان لوگوں کا ذکر آیا جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتے ہی ایمان لے آئے، تو قدرتی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت کا اس بات سے متاثر ہونا لازمی تھا کہ نسبتاً دور والے ایمان لانے میں بازی لے گئے اور میرے قرابت دار حتیٰ کہ عزیز چچا ابو طالب اس نعمت سے محروم رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ اس معاملے میں آپ کی دعوت یا خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی زیادہ جانتا ہے کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، اہل کتاب ہیں یا عرب، اقارب ہیں یا دور کے رشتہ دار۔ (بقاعی) کسی اور کو علم ہی نہیں کہ ہدایت کسے دینی ہے، تو وہ ہدایت کیا دے گا ؟ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری۔ 3 سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں : ( لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ جَاءَ ہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَہُ أَبَا جَہْلٍ وَعَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِيْ أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ ، فَقَالَ أَيْ عَمِّ ! قُلْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، کَلِمَۃً أُحَاجُّ لَکَ بِہَا عِنْدَ اللّٰہِ ، فَقَالَ أَبُوْ جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِيْ أُمَیَّۃَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ؟ فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُہَا عَلَیْہِ ، وَیُعِیْدَانِہِ بِتِلْکَ الْمَقَالَۃِ حَتّٰی قَالَ أَبُوْ طَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَہُمْ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَأَبٰی أَنْ یَّقُوْلَ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، قَالَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللّٰہِ ! لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) وَ أَنْزَلَ اللّٰہُ فِيْ أَبِيْ طَالِبٍ ، فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( إنک لا تھدی من أحببت۔۔ ) ٤٧٧٢ ] ” جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے چچا ! تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ دے، یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعے سے میں تیرے لیے اللہ کے پاس جھگڑا کروں گا۔ “ تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ” کیا تو عبدالمطلب کی ملت سے بےرغبتی کرتا ہے۔ “ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سامنے یہی بات پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی وہی بات دہراتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے آخری بات جو کی وہ یہ تھی : ” عبد المطلب کی ملت پر (مر رہا ہوں) ۔ “ اور اس نے ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم ! میں ہر صورت تیرے لیے استغفار کروں گا، جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا۔ “ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) [ التوبۃ : ١١٣ ] ” اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں۔ “ اور اللہ عزوجل نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا سے کہا : ” تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ دے، میں قیامت کے دن تیرے لیے اس کی شہادت دوں گا۔ “ اس نے کہا : ” اگر یہ نہ ہوتا کہ قریش کے لوگ مجھے عار دلائیں گے کہ اسے اس پر (موت کی) گھبراہٹ نے آمادہ کیا تو میں اس کے ساتھ تیری آنکھ ٹھنڈی کردیتا۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی صحۃ إسلام ۔۔ : ٤٢؍٢٥ ] 3 بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ ابوطالب اسلام پر فوت ہوا، ان کا کہنا یہ ہے کہ عبدالمطلب ملت ابراہیم پر تھے اور ” عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ “ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ” میں ملت ابراہیم پر فوت ہو رہا ہوں “ لہٰذا وہ مسلمان تھا۔ مگر حدیث کے الفاظ ” اور اس نے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا “ کے بعد اس تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 3 ابو طالب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیحد محبت تھی، اس نے ہر طرح سے آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا، مگر اس کی محبت طبعی یعنی قرابت اور نسب کی وجہ سے تھی، ایمانی محبت نہ تھی، اس لیے ہدایت نصیب نہ ہوسکی۔ 3 اگرچہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اتری مگر اصولی طور پر اس کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اس نے کفر پر مرنے کو ترجیح دی۔ مزید دیکھیے سورة توبہ (١١٣) ۔ 3 یہاں فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) اور دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ) [ الشورٰی : ٥٢ ]” اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ “ پہلی آیت میں ہدایت سے مراد منزل مقصود پر پہنچا دینا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ کسی اور کا کام نہیں۔ دوسری آیت میں ہدایت سے مراد راستہ دکھانا ہے، یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سر انجام دیتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word as am hidayah (guidance) is used for several meanings. One meaning is to show the path, which does not necessarily mean that the one shown the path will reach his destination. Another meaning of hidayah is to make one reach his destination. According to first meaning of the word it is but obvious that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and all other prophets were guides, and that imparting guidance was within their control, because it was the obligation of their duty. If they did not have the control over imparting guidance, how could have they fulfilled their obligation? Therefore, the statement made in this verse that he did not have control over guidance, relate to the second meaning of this word that is to make one reach his destination. It means that it was not his duty or obligation to put faith in one&s heart in order to make him convert to Islam by his teachings and preaching. This is in the control of Allah Ta` ala only. The meaning and types of hidayah have already been discussed in detail under Surah Al-Baqarah. Sahih Muslim has reported that this verse was revealed about the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) &s uncle, Abu Talib. It was his great desire that Abu Talib should accept the faith. It was for this desire that he was advised that it was not within his control to put faith in anybody&s heart. It is observed in Ruh ul-Ma’ ani that one should abstain from discussing or passing judgment unnecessarily on the subject of acceptance of faith or otherwise by Abu Talib, because this may hurt the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) &s feelings for his natural love toward his uncle. (وَاللہُ سبحانَہُ و تعالیٰ اَعلَم)

خلاصہ تفسیر آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کردیتا ہے (اور ہدایت کرنے کی قدرت تو کسی کو کیا ہوتی اللہ کے سوا کسی کو اس کا علم تک بھی نہیں کہ کون کون ہدایت پانے والا ہے بلکہ) ہدایت پانے والوں کا علم اسی کو ہے۔ معارف ومسائل لفظ ہدایت کئی معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، ایک معنے صرف راستہ دکھا دینے کے ہیں، جس کے لئے ضروری نہیں کہ جس کو راستہ دکھایا گیا وہ منزل مقصود پر پہنچے اور ایک معنی ہدایت کے یہ بھی آتے ہیں کہ کسی کو منزل مقصود پر پہنچا دیا جائے۔ پہلے معنے کے اعتبار سے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ تمام انبیاء کا ہادی ہونا اور یہ ہدایت ان کے اختیار میں ہونا ظاہر ہے کیونکہ یہ ہدایت ہی ان کا فرض منصبی ہے اگر اس کی ان کو قدرت نہ ہو تو فریضہ رسالت و نبوت کیسے ادا کریں۔ اس آیت میں جو آپ کا ہدایت پر قادر نہ ہونا بیان فرمایا ہے اس سے مراد دوسرے معنے کی ہدایت ہے، یعنی مقصود پر پہنچا دینا اور مطلب یہ ہے کہ اپنی تبلیغ وتعلیم کے ذریعہ آپ کسی کے دل میں ایمان ڈال دیں اس کو مومن بنادیں یہ آپ کا کام نہیں یہ تو براہ راست حق تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہدات کے معنی اور اس کی اقسام کی مکمل تحقیق سورة بقرہ کے شروع میں گزر چکی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ آپ کی بڑی تمنا یہ تھی کہ وہ کس طرح ایمان قبول کرلیں اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بتایا گیا کسی کو مومن بنادینا آپ کی قدرت میں نہیں۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ابوطالب کے ایمان و کفر کے معاملے میں بےضرورت گفتگو اور بحث و مباحثہ سے اور ان کو برا کہنے سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبعی ایذا کا احتمال ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّكَ لَا تَہْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۝ ٥٦ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جس سے چاہیں ایمان کا اقرار نہیں کرا سکتے یعنی حضرت ابوطالب کو البتہ اللہ جس کو چاہے اپنے دین کی ہدایت دیتا ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر (رض) اور ان کے ساتھی اور اپنے دین کی ہدایت پانے والوں کا علم بھی اسی کو ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ انک لا تہدی من احببت “۔ (الخ) امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا محترم سے فرمایا کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کہہ لو تاکہ قیامت کے دن میں تمہارے حق میں گواہی دوں انہوں نے فرمایا کہ اگر مجھے قریش کی عورتیں عار نہ دلاتیں اور یہ نہ کہتیں کہ گھبراہٹ اور ڈر سے یہ اس کے قائل ہوئے ہیں تو میں اس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے۔ امام نسائی (رح) اور ابن عساکر (رح) نے تاریخ دمشق میں سند جید کے ساتھ ابی سعید بن رافع (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمر (رض) سے اس آیت ” انک لاتھدی “۔ کے بارے میں دریافت کیا کہ آیا یہ ابوطالب اور ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا ہاں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَہُوَ اَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ ) ” یہ آیت خاص طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ان کا انتقال ١٠ نبوی میں ہوا تھا۔ ان کے آخری وقت بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بہت اصرار کیا کہ چچا جان ! آپ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ کے کلمات میرے کان میں کہہ دیں تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے ایمان کی گواہی دے سکوں ‘ لیکن وہ اس سے محروم رہے۔ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے بہت احسانات ہیں اور ان کے وہ احسانات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے ہم سب پر بھی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان کا نام ادب سے لیں اور ان کا ذکر احترام سے کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

79 The context shows that the object of addressing this sentence to the Holy Prophet, after mentioning the affirmation of the Faith by this Christians from Habash, was to put the disbelievers of Makkah to shame, as if to say. "O unfortunate people, what wretches you are! People from far off places are coming to benefit from the fountainhead of blessings that has been made available in your own city, but you are wilfully depriving yourselves of it." But the same thing has been said like this: "O Muhammad, you wish that your clansmen and your kinsfolk; and your near and dear ones should benefit from this life-giving nectar, but your willing alone cannot avail. To give guidance is in the power of Allah: He favours with it only those whom He finds inclined to accept guidance. If your kinsfolk lack this inclination, how can they be favoured with this blessing?" According to Bukhari and Muslim. this verse was sent down with regard to the Holy Prophet's uncle, Abu Talib. When he was about to breathe his last, the Holy Prophet tried his utmost that he should affirm faith in La ilaha illallah, so that he might die as a Muslim, but he preferred to die on the creed of `Abdul Muttalib; that is why Allah said: "You cannot give guidance to whom you please.." But this is a well-known method of the traditionists and commentators that when they find that a particular verse applies to an event of the Prophet's time, they regard it as the occasion of the verse's revelation. Therefore, it cannot be necessarily concluded from this and the other similar traditions that have been related in Tirmidhi, Musnad Ahmad, etc. on the authority of Hadrat Abu Hurairah, Ibn `Abbas, Ibn `Umar, etc. that this verse of Surah Al-Qasas was revealed on the occasion of Abu Talib's death. This only shows that the truth of its meaning became most evident only on that occasion. Though the Holy Prophet sincerely wished that every man should be blessed with guidance, the person whose dying on disbelief could cause him the greatest anguish and of whose guidance he was most desirous on account of personal bonds of love and affection, was Abu Talib. But when he was helpless in affording guidance even to him, it became evident that it did not lie in the power of the Prophet to give guidance to one or withhold it from another, but it lay wholly in the power of AIlah. And Allah bestows this favour on whom ever He wills not on account of a family or tribal relationship, but on the basis of one's sincerity, capability and inclination of the heart. 80 This was the most important excuse which the unbelieving Quraish made for not accepting Islam. To understand fully we shall have to see what was the position of the Quraish historically which they feared would be affected if they accepted Islam. The importance that the Quraish gained initially in Arabia was due to them being genealogically the descendents of the Prophet Ishmael, and therefore, the Arabs looked upon them as the children of the Prophets. Then, when they became the custodians of the Ka`bah through Qusayy bin Kilab's sagacity, and Makkah became their home, their importance grew, because they were the attendants of the most, sacred shrine of Arabia, and its priests too. Therefore, every Arab tribe had to have relations with them on account of the annual pilgrimage. Taking advantage of this central position the Quraish started gaining prominence as a commercial people, and to their great good fortune, the political conflict between the Eastern Roman Empire and Iran helped them to gain an important place in the international trade. Iran in those days had blocked entrance to all the trade routes between Rome, Greece, Egypt and Syria in the north and China, India, Indonesia and eastern Africa in the south-east. The only exception was' the Red Sea route. This also was blocked when Yaman fell to Iran. After this no way of the transit of trade goods remained except that the Arab rnerchants should transport merchandise of the Roman territories to the harbours of the Arabian Sea and the Persian Gulf, and then lift trade goods of the eastern countries from these harbours and transport them to the Roman territories This sort of arrangement made Makkah an important center of the international trade, and the Quraish were its monopolists. But the chaotic conditions prevailing in Arabia did not allow smooth transit of the trade goods unless the Quraish had had pleasant relations with the tribes through whose territories the trade caravans passed. For this the religious influence of the Quraish was not enough; they had had to enter into treaties with the tribes concerned, pay them dividends from their profits, and make gifts to the tribal chiefs and other influential people. Besides, they traded in money-lending also on a vast scale, which had ensnared the merchants and the chiefs of almost all the neighbouring tribes. Such were the conditions when the Holy Prophet gave his message of Tauhid. More than the prejudice of ancestral religion what caused the Quraish the greatest provocation against it was that in it they saw their own interests in jeopardy. They thought that even if polytheism and idol-worship were proved wrong and . Tauhid right by rational arguments and reasoning, it was ruinous for them to accept Tauhid. For as soon as they did so the whole of Arabia would rise in revolt against them. Then, they would be ousted from the custodianship of the Ka'bah, and alI their bonds and pacts of friendship with the polytheistic tribes would be severed, which alone guaranteed the safe transit of their trade caravans through their territories. Thus, the new Faith would not only put an end to their religious influence but also to their economic prosperity, and they might even be forced by the Arabs to quit Makkah. This , presents a strange phenomenon of the lack of insight on the part of the world-worshippers. The Holy Prophet tried his best to make them believe that if they accepted his Message, the whole world would yield and submit to them. (See also Introduction to Surah Sad). But they saw their death in it. They thought that the change of the Faith would not only deprive them of their wealth and prosperity and influence but would render them so completely helpless in the land that the birds of the sky would pick and eat their flesh. They could not foresee the time when a few years afterwards the whole of Arabia was going to be ruled by' a central government under the Holy Prophet himself. Then even during the lifetime of their own generation Iran and `Iraq and Syria and Egypt were going to fall, one after the other, to the same central authority and within a century of this utterance by them Caliphs from the clan of the Quraish itself were to rule over vast territories, from Sind to Spain and from Caucasus to the coasts of Yaman.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 79 سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ حبشی عیسائیوں کے ایمان و اسلام کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود دراصل کفار مکہ کو شرم دلانا تھا ۔ کہنا یہ تھا کہ بدنصیبو ، ماتم کرو اپنی حالت پر کہ دوسرے کہاں کہاں سے آکر اس نعمت سے مستفید ہورہے ہیں اور تم اس چشمہ فیض سے جو تمہارے اپنے گھر میں بہہ رہا ہے محروم رہے جاتے ہو ، لیکن کہا گیا ہے اس انداز سے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم چاہتے ہو کہ میری قوم کے لوگ ، میرے بھائی بند ، میرے عزیز و اقارب ، اس آب حیات سے بہرہ مند ہوں ، لیکن تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے ، وہ اس نعمت سے انہی لوگوں کو فیض یاب کرتا ہے جن میں وہ قبول ہدایت کی آمادگی پاتاہے ، تمہارے رشتہ داروں میں اگر یہ جوہر موجود نہ ہو تو انہیں یہ فیض کیسے نصیب ہوسکتا ہے ۔ صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے ، ان کا جب آخرت وقت آیا تو حضور نے اپنی حد تک انتہائی کوشش کی کہ وہ کلمہ لا الہ لا اللہ پر ایمان لے آئیں تاکہ ان کا خاتمہ بالخیر ہو ، مگر انہوں نے ملت عبدالمطلب پر ہی جان دینے کو ترجیح دی ۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا انک لا تھدی من احببت ۔ لیکن محدثین و مفسرین کا یہ طریقہ معلوم و معروف ہے کہ ایک آیت عہد نبوی کے جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے اسے وہ آیت کی شان نزول کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ اس لیے اس روایت اور اسی مضمون کی ان دوسری روایات سے جو ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں حضرات ابو ہریرہ ، ابن عباس ، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، وغیرہم سے مروی ہیں ۔ لازما یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سورہ قصس کی یہ آیت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی تھی ، بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مضمون کی صداقت سب سےز یادہ اس موقع پر ظاہر ہوئی ، اگرچہ حضور کی دلی خواہش تو ہر بندہ خدا کو راہ راست پر لانے کی تھی ، لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ حضور کو شاق ہوسکتا تھا اور ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر سب سے زیادہ کسی شخص کی ہدایت کے آپ آرزو مند ہوسکتے تھے تو وہ ابو طالب تھے ، لیکن جب ان کو بھی ہدایت دینے پر آپ قادر نہ ہوئے تو یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ کسی کو ہدایت بخشنا اور کسی کو اس سے محروم رکھنا نبی کے بس کی بات نہیں ہے ، یہ معاملہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں اور اللہ کے ہاں سے یہ دولت کسی رشتہ داری و برادری کی بنا پر نہیں بلکہ آدمی کی قبولیت و استعداد اور مخلصانہ صداقت پسندی کی بنا پر عطا ہوتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ صحیحین کی روایت ہے اور اس بارے میں تمام مفسرین (رح) کا اتفاق ہے کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابو طالب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمیشہ پشت پناہی کی لیکن ایمان نہ لایا۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حد تک پوری کوشش فرمائی کہ وہ زبان سے توحید و رسالت کا اقرار کرلے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان ر ہو۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں ایمان نہیں رکھا تھا، اس لئے اس نے ملت عبد المطلب پر جان دینے کو ترجیح دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی لیکن اصولی طور پر اس آیت کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے مگر اس نے کفر کی حالت ہی میں جان دینے کو ترجیح دی۔ نیز دیکھئے برأت آیت 113 ۔ (قرطبی۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 56 تا 61 ) ۔ لا تھدی (تو ہدایت نہیں دیتا ) ۔ احببت (تو نے چاہا۔ تو نے پسند کیا ) ۔ نتخطف (ہم اچک لئے جائیں گے ) ۔ لم نمکن (ہم نے ٹھکانا نہیں دیا ) ۔ یجبی (کھنچے آتے ہیں ) ۔ ثمرات (ثمرۃ) (پھل، پھول، سبزہ۔ سبزی ) ۔ لدنا (ہمارے پاس ) ۔ بطرت (اترائی ۔ (ناز کیا) ۔ معیشتہ (زندگی گذارنا) ۔ لم تسکن (آباد نہ ہوئے) ۔ یبعث (وہ بھیجتا ہے۔ اٹھاتا ہے) ۔ لا قیہ (اس کو پانے والا ) ۔ متعنا (ہم نے سامان دیا ) ۔ المحضرین (حاضر کئے گئے) ۔ تشریح : آیت نمبر (56 تا 61 ) ۔ ” سورة القصص کی گذشتہ آیات کی تشریح میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ملک حبش سے بیس آدمیوں کی ایک جماعت دین اسلام، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت و کردار اور اس ابھرتی ہوئی تحریک کا جائزہ لینے مکہ مکرمہ آئی ان لوگوں کا تعلق نصاری اہل کتاب سے تھا۔ جب انہوں نے اس حق و صداقت کا اچھی طرح جائزہ لے لیا تو دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت و کردار سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ابوجہل جیسے لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے باوجود ایمان کے نور سے ان کے دل روشن ومنور ہوگئے۔ اور انہوں نے اللہ کے ایک ہونے پر ایمان لا کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن رسالت سے وابستگی اختیار کرلی۔ قریش کے ظلم و ستم اور ان کی پھیلائی ہوئی دہشت میں جہاں کفار مکہ اس واقعہ سے ہل کر وہ گئے وہیں اہل ایمان کو بھی ایک نیا حوصلہ مل گیا۔ تمام اہل ایمان اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ سے بہت خوش بھی تھے لیکن اس بات سے رنجیدہ اور غم گین رہا کرتے تھے کہ باہر کے لوگ تو دین اسلام کی سچائیوں کو قبول کرنے کے لئے کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن مکہ مکرمہ کے وہ لوگ جن کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی وہ ایمان کی روشنی اور دولت سے محروم ہیں۔ آپ کو اس بات کا بھی افسوس تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا ابو طالب جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےانتہا چاہتے تھے اور ہر آڑے وقت میں آپ کے لئے ڈھال بن جاتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی وفات کے وقت کہا کہ اے چچا آپ صرف ایک مرتبہ زبان سے ” لا الہ الا اللہ “ کہہ لیجئے۔ میں آپ کے لئے دعائے مغفرت کروں گا۔ حضرت ابو طالب شاید اس کلمہ کو پڑھنا چاہتے تھے مگر ابو جہل، عتبہ اور ولید کے غیرت دلانے سے وہ اس سے رک جاتے تھے اور اسی حالت میں حضرت ابو طالب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ اور اسی طرح کے بہت سے واقعات سے آپ بہت رنجیدہ رہتے تھے۔ دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلی تمنا، خواہش اور جدوجہد یہ تھی کہ دنیا کا ہر آدمی دین اسلام کی سچائیوں کو قبول کرلے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کو تسلی دیتے ہوئے چند بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کے دین کو پھیلانے اور ہر شخص کے کانوں تک اس کا پیغام پہنچانے کی مسلمل جدوجہد اور کوششیں کرتے رہیں اور اس جدوجہد میں کمی نہ کریں۔ لیکن کسی کو ہدایت دینا یا نہ دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کے مقدر میں سیدھا راستہ اختیار کرنا ہے اور کون اس نعمت سے محروم رہے گا۔ کس کو توفیق دی جائے گی اور کون کفر و شرک کی نحوست کو اپنے گلے میں ڈال کر اللہ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت سے حاضر ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ کفار مکہ کے ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خوف، اندیشہ اور ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ایمان کا راستہ اختیار کرلیا تو سارا عرب ان کا دشمن بن جائے گا۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے رہنے کے قابل نہ رہیں گے اور ان کو نکال باہر کیا جائے گا ان کو ہر وقت یہ فکر کھائے جاتی تھی کہ ایمان لانے کے بعد ان کا، ان کے بال نچوں کا ، گھر بار، جائیداد ، مکانات اور دھن دولت کا کیا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بدامنی اور بےسکونی کے دور میں جب کہ ہر طرف لوٹ مار، قتل و غارت گری اور بےرحمی کا بازار گرم ہے کس نے اس مقام یعنی بیت اللہ اور حرم محترم کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا رکھا ہے۔ ہر طرح کا رزق ان کی طرف کھنچا چلا آرہا ہے۔ سیکڑوں سال سے یہ شہر دنیا بھر کا مرکز بنا ہوا ہے۔ عرب کا بچہ بچہ اس جگہ کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور دنیا بھر سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ ان سب چیزوں میں سوائے اللہ کے اور کس کی تدبیر اور کوشش کو دخل ہے۔ یہ سب کچھ بیت اللہ شریف اور حرم محترم کی برکتیں ہیں۔ ان آیات میں اس طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے کہ بیت اللہ اور حرم کی برکتوں سے اگر مکی کے سب لوگوں کو امن و سلامتی اور احترام کا درجہ حاصل ہے۔ اگر وہ اس کے مالک پر ایمان لے آئیں تو کیا اللہ ان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور ان کی بھر پور مدد کرے گا۔ یقینا اللہ تو اپنے بندوں کی معمولی معمولی باتوں کی بھی قدر کرتا ہے۔ فرمایا کہ اس سطحی قوم کی سوچ سے انہیں آگے بڑھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر انہوں نے اپنی روش زندگی کو تبدیل نہ کیا اور اسی طرح وہ لوگ اللہ کی نافرمانیوں میں لگے رہے تو پھر اللہ کا وہ فیصلہ آنے میں دیر نہین لگے گی جس سے قومیں تباہ و برباد ہوجایا کرتی ہین۔ فرمایا کہ مکہ والوں نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ یہ دھن، دولت اور دنیا کے بےپناہ اسباب تو قوم عاد، قوم ثمود جیسی عظیم اور ترقی یافتہ قوموں کے پاس بھی تھے۔ لیکن جب انہوں نے اللہ کی نافرمانیوں اور کفر و شرک کی انتہا کردی تو کیا ان کی دھن، دولت، بلند وبالا بلڈنگیں، تہذیب و تمدن ان کے کام آسکا ؟ آج ان عظیم قوموں کے خوبصورت محلات خاک کا ڈھیر بن چکے ہیہں۔ ان کے آبادشہروں کے کھنڈرات اس قدر ویران اور غیر آباد ہوچکے ہیں کہ دن کی روشنی مین بھی جاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ کی فرماں برداری کرتے تو دنیا کے یہ سارے اسباب ان کے لئے قوت و طاقت بن جاتے اور آخرت میں نجات مل جاتی۔ اللہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا بلکہ لوگ جب خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلیں تو یہ ان کا اپنا قصور ہوا کرتا ہے۔ فرمایا کی اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ کسی قوم اور ان کی بستیوں کو اس وقت تک تباہ نہیں کرتا جب تک اس قوم کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والے رسولوں کو نہیں بھیج دیتا۔ لیکن جب وہ قوم اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کرتی ہے اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور ظلم و زیادتی پر جم جاتی ہے تو پھر قوم کو اور ان کی ترقیات کو جڑ اور بنیاد سے کھو کر پھینک دیا جاتا ہے۔ کفار مکہ سے کہا جارہا ہے کہ اللہ نے اپنی رحمت خاص سے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیج دیا ہے۔ ان کی فرماں برداری ہی میں ان کی نجات ہے لیکن اگر انہوں نے گذشتہ قوموں کی طرح نافرمانی کا راستہ اختیار کیا تو ان کی دنیا اور آخرت خراب ہو کر وہ جائے گی اور قیامت تک ان کو اور ان کی نسلوں کو ہدایت دینے والا کوئی نبی اور رسول نہ آئے گا۔ آخر میں فرمایا کہ اصل چیز فکر آخرت ہے کیونکہ وہم زندگی حقیقی اور مستقل زندگی ہے۔ یہ دنیا اور اس کے مال اسباب، دھن دولت اور مکان و جائیداد، بیوی بچے اور رشتہ داراسی وقت تک کام دیتے ہیں جب تک اس دنیا میں وہ سانس لیتا ہے لیکن جیسے ہی موت آتی ہے تو انسان کے ساتھ سوائے اس کے نیک اور بہتر اعمال کے اور کوئی چیز نہیں جاتی۔ ہر شخص خالی ہاتھ اور مال و اسباب کو اسی دنیا میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ فرمایا کہ ہر شخص کو اپنی آخرت کی فکر کرنا چاہیے کیونکہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی خیر ہے اور باقی ہر چیز کو فنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے آخر مین فرمایا کہ ایک وہ شخص ہے جس نے ہماری اطاعت کی اور وہ ہمارے انعام و کرم کا مستحق بن گیا، جس کی نجات کا اللہ نے وعدہ فرمالیا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ نے دنیاوی زندگی کا کچھ سامان برتنے اور استعمال کرنے کے لئے دیا ہے اور وہ قیامت کے دن اپنی نافرمانیوں کے سبب اللہ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت سے حاضر ہوگا ۔ کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہوگا ؟ ہر انسان کا ضمیر بکاراٹھے گا کہ نہیں۔ اللہ کے انعام وکرم کا مستحق تو وہی ہو سکتا ہے جو اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر کے اپنی نجات کا سامان کر گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی ہدایت کرنے کی قدرت تو بجز خدا کے کسی کو کیا ہوتی کسی کو اس کا علم تک بھی تو نہیں کہ کون کون ہدایت پانے والا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ جاہلوں سے الجھنے سے پرہیز کریں۔ یہ بھی جہالت کی بدترین قسم ہے کہ انسان جاننے کے باوجود حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جناب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان کی خدمت میں پہنچ کر فرمایا کہ چچا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیں تاکہ قیامت کے دن میں اپنے رب کے حضور آپ کی سفارش کرسکوں۔ لیکن انھوں نے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے چل بسے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے دل آزوزدہ ہو کر وہاں سے اٹھے اور کئی دن تک آپ کی طبیعت پر اس واقعہ کا اثررہا۔ رب کریم نے آپ کے دل کو ڈھارس دی اور یہ اصول بیان فرمایا کہ اے نبی بیشک آپ کسی کی ہدایت کے بارے میں کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں لیکن ہدایت دینا ” اللہ “ کا کام ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت کا طالب ہے جو ہدایت کا طالب ہوگا اللہ تعالیٰ اسے ضرور ہدایت عطا فرمائے گا۔ یہاں ہدایت سے مراد نیکی کی طرف رہنمائی نہیں بلکہ ہدایت قبول کرنا اور اس پر چلنے کی توفیق ہے۔ ( عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ”إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ ۔۔ الآیَۃَ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب کو موت کے وقت فرمایا کہ لا الہ الاللہ کہہ دو ! میں قیامت کے دن اس بات کی گواہی دوں گا لیکن اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جس کے لیے آپ ہدایت پسند کریں۔ “ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَذُکِرَ عِنْدَہُ عَمُّہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ ، یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ ، یَغْلِی مِنْہُ دِمَاغُہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قصۃ ابی طالب ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا شاید اسے میری شفاعت قیامت کے دن فائدہ دے۔ اسے آگ پر کھڑا کیا جائے گا۔ وہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہوگی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ انہیں جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات پر از حد حریص تھے کہ سب لوگ اسلام کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سارے بندے اس کی بارگاہ میں سر نیاز جھکائیں بالخصوص اپنے قبیلے اور رشتہ داروں کے متعلق نبی کریم کی انتہائی آرزو تھی کہ ان میں سے کوئی بھی نعمت ایمان سے محروم نہ رہے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اے حبیب ! ہدایت دینا آپ کا کام نہیں کہ جس کو چاہے ہدایت دے دے کیونکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ کون اس قابل ہے کہ اس کے دل میں ایمان کی شمع فروزاں کی جائے کس میں اس نعمت جلیلہ کو قبول کرنے کی استعداد ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن : جلد سوئم) مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی سے کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ ٢۔ جو ہدایت کا طالب ہوتا ہے ” اللہ “ اسے ہدیات سے سرفراز کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ ہی ہدایت دینے والا ہے : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ : ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ ” اللہ “ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پاسکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٥۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انک لا تھدی ۔۔۔۔۔ وھو اعلم بلمھتدین (56) صحیحین میں وارد ہے کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حامی و مددگار تھے اور قریش کے مقابلے میں آپ کے دفاع کے لیے بنیان مرصوص بنے ہوئے تھے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قدر حامی تھے کہ ان کی حمایت کی وجہ سے آپ آزادانہ دعوت دے سکتے تھے۔ اس حمایت کی وجہ سے قریش نے ان کو اور پورے بنی ہاشم کا مقاطعہ کیا تھا ، اور ان کو شعب ابو طالب میں محصور کردیا۔ یہ سب کام وہ اپنے بھیجتے کی محبت میں کرتے تھے اور قوی حمیت اور عزت و آبرو کو بچانے کے لیے کرتے تھے جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو دعوت ایمان دی اور عرض کیا کہ آپ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ لیکن اللہ نے ان کے حق میں ایمان نہ لکھا تھا کیونکہ اس کا حقیقی علم اور اصلی سبب اللہ کو معلوم تھا۔ زھری اور سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس آئے تو ابوجہل ابن ہشام ان کے پاس بیٹھا تھا۔ عبد اللہ ابن امیہ بھی تھا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے چچا ، صرف لا الٰہ اللہ کہہ دیں۔ میں اللہ کے ساتھ اس پر تمہارے لیے جھگڑلوں گا۔ ابوجہل اور عبد اللہ ابن امیہ نے کہا ابو طالب تم عبد المطلب کی ملت کو چھوڑ رہے ہو ، رسول اللہ بار بار ان پر یہ پیش فرماتے تھے اور یہ دونوں بار بار اسے روکتے تھے۔ اور یہی بات دہراتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آخری الفاظ یہ کہے ” عبد المطلب کے دین پر “۔ اور لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا واللہ (خدا کی قسم) میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک مجھے منع نہ کردیا جائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ما کان للنبی والذین ۔۔۔۔۔۔ اولی قربی اور ابو طالب ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ انک لا تھدی ۔۔۔۔۔ من یشاء (28: 56) (صحیحین) مسلم اور ترمذی نے ، ابو حازم اور ابوہریرہ کی روایت نقل کی کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس پہنچے اور کہا ” اے چچا کہہ دو ” لا الٰہ الا اللہ “۔ میں قیامت میں تمہارے حق میں شہادت دوں گا۔ انہوں نے کہا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قریش مجھے طعنہ دیں کہ سکرات الموت کی تکلیف کی وجہ سے اس نے یہ کہہ دیا تو میں ضرور یہ کلمہ پڑھ دیتا ، تیری آنکھوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے۔ میں یہ کلمہ صرف تیری آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پڑھتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ انک لا تھدی۔۔۔۔۔۔۔ اعلم بالمھتدین (28: 56) ” تم ہدایت نہیں دے سکتے جسے تم محبوب سمجھو ، یہ اللہ ہے جسے چاہتا ہے ، ہدایت دیتا ہے۔ وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے “۔ اور حضرت ابن عباس (رض) اور ابن عمر (رض) سے روایت ہے اور مجاہد ، شعبی اور قتادہ کی بھی یہی رائے ہے کہ یہ ابو طالب کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اور انہوں نے جو آخری لفظ کہے وہ تھے علی ملۃ عبد المطلب۔ انسان جب اس حدیث پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کس قدر پختہ اور سیدھا دین ہے۔ ابو طالب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کفیل ، حامی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کرنے والے تھے۔ لیکن اللہ نے انہیں ایمان نصیب نہ کیا۔ باوجود اس کے کہ رسول اللہ کو ان سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حد سے زیادہ خواہش مند تھے کہ وہ ایمان لے آئیں۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ابو طالب نے رشتے اور قومی حمیت کو ایمان سے زیادہ اہمیت دی۔ اللہ کو اس بات کا علم تھا اور اللہ کو اس بات کا خوب علم تھا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ شاید وہ ایمان لے آئیں۔ اس لیے اللہ نے ہدایت نہ دینے کا اختیار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیارات ہی سے خارج کردیا۔ ہدایت دینا یا نہ دینا صرف اللہ الٰہ العالمین کے اختیار میں ہے اور رسول کی ڈیوٹی صرف تبلیغ تک محدود ہے۔ لہٰذا داعیوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ دعوت دیں۔ دعوت کے بعد پھر لوگوں کے دلوں میں تصرف کرنا اللہ کا کام ہے۔ لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے ، یا گمراہ کرتا ہے۔ یہ فیصلے لوگوں کے دلوں کے حالات کے مطابق ہوتے ہیں اور ان کے شخصی استعداد پر ہوتے ہیں اور اس بارے میں علم صرف اللہ کو ہے۔ اب قرآن مجید ان کے اس خدشے پر تبصرہ کرتا ہے جس کا اظہار وہ کرتے رہتے تھے کہ اگر ہم نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کیا تو قبائل عرب پر اہل قریش کو قیادت و سیادت کا جو منصب حاصل ہے ، وہ جاتا رہے گا۔ یہ لوگ خانہ کعبہ کی تعظیم کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے مجاوروں یعنی اہل قریش کی اطاعت کرتے ہیں ، خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کی تعظیم کرتے ہیں اس لیے یہ قبائل انہیں اچک لیں گے۔ یا جزیرۃ العرب سے باہر کا کوئی دشمن ان پر فتح پالے گا اور یہ قبائل ایسے دشمن کی تایت کریں گے ، چناچہ کہا جاتا ہے کہ خوف و امن کا سرچشمہ ذات باری ہے۔ فرعون بھی بظاہر بہت بڑی قوت کا حامل تھا۔ ہلاکت کا حقیقی سبب تو دنیا پرستی ، دولت پرستی ، اللہ کی آیات اور اللہ کے رسولوں کی تکذیب ہے۔ اور ھق سے منہ موڑنا ہے۔ حق کو قبول کرنا ، ہلاکت کا سبب کبھی نہیں ہوا۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہلاک وہ اقوام ہوا کرتی ہیں جن کے پیش نظر صرف دنیا کے مفادات ہوتے ہیں ، حالانکہ متاع دنیا ایک حقیر چیز ہے ، انسان کا اصل فائدہ آخرت میں ہے اور وہ اللہ کے پاس ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ جسے چاہے ہدایت نہیں دے سکتے اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اول تو ہدایت کا مفہوم سمجھنا چاہیے۔ سو واضح رہے کہ لفظ ہدایت عربی میں دو معنی کے لیے آتا ہے۔ اول صحیح راہ بتادینا اور دوسرے پہنچا دینا۔ اول کو اراء ۃ الطریق اور دوسرے کو ایصال الی المطلوب کہتے ہیں۔ لفظ ہدایت قرآن مجید میں دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے اس بات کو سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور جنات کو حق کی راہ بتادی اور راہ دکھا دی اور چونکہ یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توسط سے ہوا اس لیے آپ ہی سب کے ہادی اور رہبر اور راہ دکھانے والے ہیں آپ نے خوب واضح طور پر حق واضح فرما دیا، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نازل ہوا ہے بڑی محنت اور کوشش سے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو پہنچا دیا اب پہنچانے کے بعد لوگوں کی طرف سے قبول کرنا رہ جاتا ہے کسی نے قبول کیا اور کسی نے قبول نہ کیا لیکن آپ کا دل چاہتا تھا کہ سب ہی ہدایت پر آجائیں اور مسلمان ہوجائیں لیکن لوگوں سے حق منوانا اور اسلام قبول کرانا آپ کے بس میں نہیں تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو قرآن مجید میں خطاب فرمایا ہے کہ آپ کا کام بتانا، ڈرانا اور سمجھانا ہے۔ منوا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ چونکہ آپ کے جذبات یہ تھے کہ یہ سب ہی ہدایت یاب ہوجائیں تو اپنے چچا ابو طالب کے واسطے اس بات کے فکر مند کیوں نہ ہوتے کہ وہ مسلمان ہوجائیں انہوں نے آپ کی بہتر خدمت کی تھی بچپن سے آپ کے ساتھ رہے تھے جب آپ نبوت سے سر فراز ہوئے تو مشرکین سے جو آپ کو تکلیفیں پہنچیں ابو طالب ان کا بھی دفاع کرتے رہے۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ ابو طالب کی موت کا وقت ہے اور ابھی ہوش میں ہیں تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے کہا کہ آپ کہہ دیں میں اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کے اس کلمہ کے کہنے اور پڑھنے کی گواہی دے دوں گا۔ وہیں پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں مشرک بھی موجود تھے وہ ابو طالب کو عبدالمطلب کی ملت پر مرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ آپ نے بار بار اپنی بات پیش کی لیکن ابو طالب نے یوں کہہ کر انکار کردیا کہ اگر قریش یہ کہہ کر مجھے عار نہ دلاتے کہ گھبراہٹ کی وجہ سے کلمہ اسلام قبول کرلیا ہے تو تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا انہوں نے کلمہ اسلام پڑھنے سے انکار کردیا اور موت آگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا رنج تھا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی اور فرمایا کہ آپ جسے چاہیں ہدایت دیں یعنی حق قبول کرا دیں اور مؤمن بنا دیں یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے اللہ جسے چاہے ہدایت دے۔ (راجع صحیح مسلم ص ٤٠: ج ١ و صحیح البخاری ص ٧٠٣: ج ٢) معلوم ہوا کہ آپ کا کام بیان کرنا پہنچا دینا ہے اور کسی کے دل میں ایمان ڈال دینا یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 53:۔ یہ ولقد وصلنا لھم القول الخ سے متعلق ہے۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیاتو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑی کوشش کی کہ وہ اسلام لے آئے مگر آپ کی آرزو پوری نہ ہوسکی جس سے آپ کو سخت غم لاحق ہوا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی، احمد وغیرہم رحمہم اللہ تعالی) ۔ یعنی ہم نے اہل مکہ کی راہنمائی کے لیے مسلسل آیتیں نازل کی اور نصائح بھیجے اور آپ نے بھی دعوت و ارشاد میں کوئی قصور نہیں کیا لیکن ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے، اس لیے اگر بعض مشرکین آپ کی انتہائی ناصحانہ تبلیغ اور مشفقانہ دعوت اور ان سے قلبی محبت و انس کے باوجود ایمان نہیں لائے تو اس پر آپ غم نہ کریں۔ کیونکہ یہ معاملہ آپ کے اختیار سے باہر ہے۔ جن کی قسمت میں ہدایت لکھی ہے وہ اللہ کو معلوم ہیں اور صرف انہی کو ہدایت حاصل ہوگی۔ مساق الایۃ لتسلیتہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیث لم ینجع فی قومہ الذین یحبھم ویحرص علیھم اشد الحرص انذارہ (علیہ الصلوۃ والسلام) ایاھم (روح ج 20 ص 96) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56۔ آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد ہے ۔ اے پیغمبر آپ جس کو چاہیں اور جس کو پسند کریں اس کو ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدات عطا کرتا ہے اور وہی راہ پر آنے والوں کو جانتا ہے۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے تھے اور کفر پر مرتے تھے ان کے قرابت داروں اور رشتہ دار مسلمانوں کو رنج ہوتا تھا اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بعض قرابت داروں کے مرنے پر سخت افسوس ہوا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہدایت و ضلالت کے مسئلے کو صاف کردیا کہ آپ کا کام صرف رہنمائی ہے ۔ آپ ان کو صحیح راستہ دکھاتے اور بتاتے ہیں لیکن منزل مقصود تک پہنچا دینا اور مطلوب تک پہنچانا یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے۔ اس کو مطلوب اور مقصود تک پہنچادیتا ہے اور ایک شخص کو مقصود تک پہنچانا تو کیا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ کون راہ پر آنے والا ہے اور کون راہ پر آنے والا نہیں ہے یہ بات بھی ہم ہی جانتے ہیں کہ ہدایت کو قبول کرنے والا کون ہے اور منزل مقصود تک کون پہنچنے والا ہے اس تقریر سے وہ شبہ صاف ہوگیا ہوگا جو بعض معاصرین کو انک لا تھدی اور انک لتھدی سے الی صراط مستقیم سے ہوا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت ؐ نے اپنے چچا کے واسطے سعی کی کہ مرتے وقت کلمہ ہی کہے اس نے یہ قبول نہ کیا اس پر یہ آیت اتری ۔ 12