Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 59

سورة القصص

وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی حَتّٰی یَبۡعَثَ فِیۡۤ اُمِّہَا رَسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۚ وَ مَا کُنَّا مُہۡلِکِی الۡقُرٰۤی اِلَّا وَ اَہۡلُہَا ظٰلِمُوۡنَ ﴿۵۹﴾

And never would your Lord have destroyed the cities until He had sent to their mother a messenger reciting to them Our verses. And We would not destroy the cities except while their people were wrongdoers.

تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا دے اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ وہاں والے ظلم و ستم پر کمر کس لیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا ... And never will your Lord destroy the towns until He sends to their mother town i.e., Makkah -- ... رَسُولاً يَتْلُو عَلَيْهِمْ ايَاتِنَا ... a Messenger reciting to them Our Ayat. This indicates that the Unlettered Prophet, Muhammad was sent from the Mother of Cities as a Messenger to all cities and towns, Arab and non-Arab alike. This is like the Ayat: لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا so that you may warn the Mother of Towns and all those around it. (6:92) قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا Say: "O mankind! Verily, I am sent to you all as the Messenger of Allah." (7:158) لااٌّنذِرَكُمْ بِهِ وَمَن بَلَغَ That I may therewith warn you and whomsoever it may reach. (6:19) وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاٌّحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ but those of the sects that reject it, the Fire will be their promised meeting place. (11:17) وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلاَّ نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَـمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا And there is not a town but We shall destroy it before the Day of Resurrection, or punish it with a severe torment. (17:58) Allah tells us that He will destroy every town before the Day of Resurrection, as He says: وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً And We never punish until We have sent a Messenger. (17:15) Allah has sent the Unlettered Prophet to all the towns (all of mankind), because he has been sent to the Mother of Cities, their source to which they all return. It was recorded in the Two Sahihs that the Prophet said: بُعِثْتُ إِلَى الاَْحْمَرِ وَالاَْسْوَد I have been sent to the red and the black. Prophethood ended with him, and there is no Prophet or Messenger to come after him, but his way will remain as long as night and day remain, until the Day of Resurrection. Allah also tells that: ... وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلاَّ وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ And never would We destroy the towns unless the people thereof are wrongdoers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

591یعنی تمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا، ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے زیر اثر میں آ جماتے رہے ہیں۔ 592یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر و شرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انھیں ہلاک کردیا جاتا، یہی مضمون (وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ ) 11 ۔ ہود :117) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] یہ بھی دراصل کفار مکہ کے اعتراض کا تیسرا جواب ہے ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو ہم تو سیاسی اور معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قوم کی تباہی کے متعلق اپنا ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ وہ کیوں آتی ہے اور کب آتی ہے۔ اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ پہلے ہم کسی مرکزی شہر یا صدر مقام میں اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ مرکزی مقام کا انتخاب اس لئے کیا جاتا ہے کہ ایک تو ارد گرد کی آبادیوں کا اس سے رابطہ ہوتا ہے دوسرے مرکزی شہر کے لوگ نسبتاً پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ بات کو جلد سمجھ سکتے ہیں اور دیہاتیوں کی نسبت مہذب بھی ہوتے ہیں۔ پھر یہ رسول اس مرکزی بستی کے لوگوں کو اللہ کے پیغام پہنچاتا ہے اور اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ اب اگر لوگ اس رسول کی دعوت کو قبول نہ کریں اور نافرمانی، تکذیب اور سرکشی کی راہ اختیار کریں تو اس اتمام حجت کے بعد اس بستی کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ لہذا اہل مکہ ! تمہارا یہ خیال ہے کہ اسلام لانے سے تم تباہ ہوجاؤ گے، بالکل غلط ہے۔ بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اس رسول کی بعثت کے بعد اگر تم نے سرکشی اختیار کرلی تو اس صورت میں تمہاری تباہی واقع ہوگی اور اس تباہی کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان بستیوں کو ہلاک کرنے کا اصول بیان فرمایا اور اس سوال کا جواب دیا کہ ان اقوام کی ہلاکت کے بعد کتنی مدت گزری، کفار کا کفرو شرک اور ان کی سرکشی اور ظلم و زیادتی انتہا کو پہنچ چکی، انھیں کیوں ہلاک نہیں کیا گیا ؟ فرمایا یہ تیرے رب کی ربوبیت اور اس کی رحمت ہے کہ وہ کبھی بستیوں کو ہلاک نہیں کرتا، جب تک ان کی مرکزی بستی میں کوئی پیغام پہنچانے والا (رسول) نہ بھیجے، جو ان کے سامنے ہماری آیات کی تلاوت کر کے ان کا یہ عذر ختم نہ کر دے کہ ہمیں عذاب سے پہلے آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔ ” ما کان “ میں نفی کا استمرار ہے، یعنی ایسا کبھی ہوا ہی نہیں، نہ ہونے والا ہے۔ جیسے دیکھیے سورة آل عمران (٧٩) اور یونس (٣٦) ۔ وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِي الْقُرٰٓى ۔۔ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے بعد ایمان نہ لانے والوں پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ فرمایا، ہماری یہ بھی عادت ہے کہ ہم بستیوں کو کبھی ہلاک نہیں کرتے، جب تک ان کے رہنے والے ظلم پر اس طرح نہ ڈٹ جائیں کہ ظالم کے لقب کے حق دار بن جائیں۔ اب اس نبی کی آمد پر تمہیں مہلت دی جا رہی ہے کہ تم کفرو شرک اور ظلم پر اصرار کر کے ظالم ٹھہرتے اور عذاب کے مستحق بنتے ہو یا ایمان لا کر رحمت کے حق دار بنتے ہو۔ 3 ابن کثیر نے فرمایا : ” یہ آیت دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اُمّ القریٰ (مکہ) میں مبعوث ہوئے، وہ عرب و عجم کی تمام بستیوں کی طرف مبعوث تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ حَوْلَهَا ) [ الشورٰی : ٧ ] ” اور اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا، تاکہ تو بستیوں کے مرکز (مکہ) کو ڈرائے اور ان لوگوں کو بھی جو اس کے ارد گرد ہیں۔ “ اور فرمایا : ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا) [ الأعراف : ١٥٨ ] ” کہہ دے اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “ (ابن کثیر) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں۔ “ ان میں سے ایک یہ بیان فرمائی : ( وَکَان النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً ) [ بخاري، التیمم، باب : ٣٣٥ ] ” اور ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَ‌سُولًا (Unless he sends to their central place a messenger -28:59). Popular meaning of the word &Umm is mother, and since mother is the very basis of human creation, hence the word &Umm (اُمَّ ) is also used extensively for origin, base, and foundation. The pronoun ha (translated above as &their& ) refers back to the towns, and &mother of the towns& means the central town. The meaning of the verse is that Allah Ta` ala does not destroy a people unless He had sent His message through His messengers in their main cities. When the invitation to truth had reached, and yet people did not accept it, only then the torment is sent on those cities. This verse has pointed out that Allah&s messengers and prophets are generally sent in big cities, and not in smaller towns, because such towns are normally under the influence of big cities, both for their economic and educational needs. If something is known in a big city, it becomes known automatically in the smaller towns around it. Hence, when a prophet is sent in a big city and he starts his call to the truth, the message is spread out in the surrounding towns in no time. This way Allah Ta` ala&s message reaches to all and sundry, and if they reject the message of truth, the torment is sent to all of them. Small towns and villages are subject to the same laws as are applicable to the main cities As in the case of economic needs, the smaller habitations are dependent on cities, and draw their requirements from there, similarly, when a law or an order is promulgated in the city, it automatically becomes effective in the surrounding towns and villages also. The excuse of having no knowledge of the law is not acceptable. In the case of sighting of the moon for observing Ramadan and Eids (Shawwal and Dhulhajjah) too, the same principle has been declared by the jurists as applicable. That is, if the evidence of witnesses in the city establishes the sighting of moon, then the people of towns and villages would have to follow the same. But in the case of other cities, it would only apply when the Qadi of that city accepts the evidence and makes the announcement. (Al-Fataw al-Ghayathiyyah)

حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا لفظ ام کے مشہور معنے والدہ اور ماں کے ہیں اور ماں چونکہ تخلیق انسانی کی بنیاد ہے اس لئے لفظ ام اصل اور اساس کے معنے میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ امھا کی ضمیر قُرٰی کی طرف راجع ہے امھا سے مراد ام القری ہے یعنی بستیوں کی اصل اور مدارکار مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک اس قوم کو بڑے شہروں میں اپنے کسی رسول کے ذریعہ پیغام حق نہ پہنچا دے، جب دعوت حق پہنچ جائے اور لوگ اس کو قبول نہ کریں اس وقت ان بستیوں پر عذاب آتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کے انبیاء اور رسل عموماً بڑے شہروں میں مبعوث ہوتے ہیں وہ چھوٹے قصبات و دیہات میں نہیں آتے کیونکہ ایسے قصبات و دیہات عادةً شہر کے تابع ہوتے ہیں اپنی معاشی ضررویات میں بھی اور تعلیمی ضروریات میں بھی اور شہر میں جو بات پھیل جائے اس کا تذکرہ ملحقہ قصبات و دیہات میں خود بخود پھیل جاتا ہے اسی لئے جب کسی بڑے شہر میں رسول مبعوث ہوا اور اس نے دعوت حق پیش کردی تو یہ دعوت ان قصبات و دیہات میں بھی عادةً پہنچ جاتی ہے اس طرح ان سب پر اللہ تعالیٰ کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور انکار و تکذیب کیا جائے تو سب پر عذاب آتا ہے۔ احکام و قوانین میں قصبات و دیہات شہروں کے تابع ہوتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ جیسے معاشی ضروریات میں چھوٹی بستیاں بڑے شہر کے تابع ہوتی ہیں وہیں سے ان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اسی طرح جب کسی حکم کا اعلان شہر میں کردیا جائے تو اس حکم کی تعمیل اس کی ملحقہ بستیوں پر بھی لازم ہوجاتی ہے، نہ جاننے یا نہ سننے کا عذر مسموع نہیں ہوتا۔ ہلال رمضان وعید کے مسئلے میں بھی فقہاء نے یہی فرمایا ہے کہ ایک شہر میں اگر شہادت شرعیہ کے ساتھ قاضی شہر کے حکم سے چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو ملحقہ بستیوں کو بھی اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ لیکن دوسرے شہر والوں پر اس وقت تک لازم نہیں ہوگا جب تک خود اس شہر کا قاضی شہادت کو تسلیم کر کے اس کا حکم نہ دے۔ (کذا فی انصتاوی الغیاثیہ)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُہْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِنَا۝ ٠ۚ وَمَا كُنَّا مُہْلِــكِي الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ۝ ٥٩ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا) ” یعنی اللہ تعالیٰ کسی بستی تک دعوت حق پہنچائے بغیر اس پر عذاب نہیں بھیجتا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اصول اور طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ پہلے متعلقہ قوم کی طرف باقاعدہ ایک رسول مبعوث کیا جاتا جو حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر کے اس قوم پر حجت قائم کردیتا۔ پھر اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے کفر پر اڑے رہتے انہیں عذاب کے ذریعے نیست و نابود کردیا جاتا۔ یہی اصول سورة بنی اسرائیل میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) ” اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول ( علیہ السلام) نہ بھیج دیں “۔ آیت زیر مطالعہ میں اس اصول کی مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ کسی قوم کی طرف رسول بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس علاقے کے ہر ہر گاؤں اور ہر ہر بستی میں رسول مبعوث کیے جاتے تھے بلکہ اس کا طریقہ اور معیار یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم کے مرکزی شہر میں رسول بھیج دیا جاتا تھا۔ (وَمَا کُنَّا مُہْلِکِی الْقُآٰی اِلَّا وَاَہْلُہَا ظٰلِمُوْنَ ) ” ” ظالم “ کا لفظ مشرک ‘ کافر ‘ گنہگار اور ظلم و ناانصافی کرنے والے ‘ سب کو محیط ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83 This is the third answer to their excuse. It means: "The nations which were destroyed before you had become wicked. To warn them finally Allah sent His Messengers, but when they took no notice of their warnings and persisted in their evil ways, they were destroyed. The same is the case with you now. You have also become wicked, and a Messenger has come to you to warn you too. Now if you persist in your disbelief and denial, you will not be safeguarding your prosperity and comforts of life but endangering them. The destruction that you are afraid of will overtake you not because of believing but on account of refusal to believe. "

سورة القصص حاشیہ نمبر : 83 یہ ان کے عذر کا تیسرا جواب ہے ۔ پہلے جو قومیں تباہ ہوئیں ان کے لوگ ظالم ہوچکے تھے ، مگر خدا نے ان کو تباہ کرنے سے پہلے اپنے رسول بھیج کر انہیں متنبہ کیا ، اور جب ان کی تنبیہ پر بھی وہ اپنی کچ روی سے باز نہ آئے تو انہیں ہلاک کردیا ۔ یہی معاملہ اب تمہیں درپیش ہے ، تم بھی ظالم ہوچکے ہو ، اور ایک رسول تمہیں بھی متنبہ کرنے کے لیے آگیا ہے ۔ اب تم کفر و انکار کی روش اختیار کر کے اپنے عیش اور اپنی خوشحالی کو بچاؤ گے نہیں بلکہ الٹا خطرے میں ڈالو گے ، جس تباہی کا تمہیں اندیشہ ہے وہ ایمان لانے سے نہیں بلکہ انکار کرنے سے تم پر آئے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: یہ بیچ میں کفار عرب کے ایک اور اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے مذہب اور طریق کار سے ناراض ہے تو جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو ہلاک کیا ہے جن کا حوالہ پچھلی آیت میں بھی دیا گیا ہے اسی طرح ہم کو اب تک کیوں ہلاک نہیں کیا؟ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ لوگوں کو ہلاک کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، وہ سب سے پہلے اپنا کوئی پیغبر ان کے مرکزی علاقے میں بھیجتا ہے جو انہیں سیدھے راستے کی دعوت دے اور بار بار دیتا رہے، تاکہ وہ راہ راست پر آئیں اور انہیں سزا دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے، اگر وہ اپنی گمراہی سے باز آجاتے ہیں تو انہیں ہلاک نہیں کیا جاتا، البتہ اگر وہ اپنی ظالمانہ روش پر اڑے رہتے ہیں تب انہیں سزا دی جاتی ہے، یہی معاملہ پچھلی قوموں کے ساتھ ہوا، اور وہی سلوک تمہارے ساتھ ہورہا ہے کہ ہمارے پیغبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں بار بار حق قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اور تمہیں مہلت دی جارہی ہے، اس کا یہ مطلب لینا پرلے درجے کی نادانی ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہیں اور تمہیں کبھی سزا نہیں ملے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:59) مہلک القری : مہلک اسم فاعل واحد مذکر منصوب بوجہ خبر کان ۔ مضاف۔ القری (جمع قریۃ) مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر کان کی خبر۔ یبعث مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ ان مقدرہ۔ حتی یبعث تاآنکہ وہ بھیجے۔ امھا۔ مضاف مجاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب القری کی طرف راجع ہے۔ ان بستیوں کی ماں۔ یعنی بڑی بستی۔ وما کنا مہلکی القری۔ اس جملہ کا عطف جملہ ما کان ربک مہلک القری پر ہے۔ کان سے کنا کی طرف التفات (غائب سے متکلم کی طرف) عظمت شان کے لئے ہے۔ مہلکی اسم فاعل جمع مذکر منصوب بوجہ خبر کنا اصل میں مہلکن تھا اضافت کہ وجہ سے ن گرگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی جب تک وہ کفر پر اصرار کر کے خود ہی مستحق عذاب نہیں ہوجاتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی پکڑ نہیں ہوئی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی ایک مدت معتد بہ تک بار بار کی تذکیر سے تذکر حاصل نہ کریں، اس وقت ہلاک کردیتے ہیں، اسی قانون کے موافق تمہارے ساتھ عملدرآمد ہورہا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بستیوں کو تباہ کرنے کی وجہ۔ اس سے پہلے زکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترقی یافتہ اور کئی مال دار بستیوں کو تباہ کیا۔ اب وضاحت کی جا رہی ہے کہ جن بستیوں کو تباہ کیا گیا ان پر آپ کے رب نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا اصول ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کو عذاب نہ دیا جائے جب تک اس تک رب تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچ جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر ہر تباہ کی جانے والی قوم کے مرکزی شہر یا علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے جو ان کے سامنے اس کے فرامین بیان کرتے تھے اور انھیں باربار بتلاتے اور سمجھاتے کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو اس کا عذاب تم پر نازل ہوگا۔ جب لوگوں نے رسول کی ذات یا اس کی تعلیمات کو کلی طور پر جھٹلادیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا۔ اس کا عذاب ہمیشہ ظالم قوم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ مرکزی شہر میں رسول بھیجنے کا مقصد یہ ہے تاکہ آسانی کے ساتھ لوگوں تک حق بات پہنچ جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹے شہر، قصبات اور دیہات بڑے شہروں سے ہی متاثر ہوا کرتے ہیں۔ جس طرح غریب لوگ امیروں سے اور چھوٹے طبقات بڑے طبقہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ ظلم سے پہلی مراد شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ زیادہ دیر تک گوارہ نہیں کرتا اس لیے اس نے قوم نوح، ثمود، عاد اور دیگر قوموں کو نیست و نابود کیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیغام پہنچانے سے پہلے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے تباہ ہونے والے اقوام کے مرکزی مقامات پر اپنے رسول مبعوث فرمائے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی) (الآیۃ) کہ آپ کا رب اس وقت تک بستیوں کو ہلاک نہیں فرماتے جب تک مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیجیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آتے رہے اللہ کے احکام پہنچاتے رہے جب مخاطبین نے نہیں مانا اور ظلم پر جمے رہے۔ گناہوں پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک فرما دیا۔ مطلب یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد ظالموں کو ہلاک کیا جاتا رہا ہے۔ (قال القرطبی (رح) اخبر تعالیٰ انہ لا یھلکھم الا اذا استخفوا الاھلاک بظلمھم ولا یھلکھم مع کانھم ظالمین الا بعد تاکید الحجۃ والالزام ببعثۃ الرسل ولا یجعل علمہ بالحوالھم حجۃ علیھم) ۔ (امام قرطبی (رض) فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ قوموں کو ہلاک نہیں کرتا مگر اس وقت جب کہ وہ اپنے ظلم کی وجہ سے ہلاک ہونے کے مستحق ہوجاتے ہیں اور ان کے ظالم ہونے کے باوجود پیغمبر بھیج کر اتمام حجت کرنے کے بعد ہی ہلاک کرتا ہے اور قوموں کے حالات کے علم کو ان پر حجت نہیں بنایا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ہماری سنت جاریہ یہ ہے کہ جب تک ہم مرکزی شہر میں اپنا رسول بھیج کر اس علاقے کی بستیوں تک اپنا پیغام نہ پہنچا دیں اور جب تک وہ لوگ ہماری آیتوں کا انکار نہ کریں اس وقت تک ہم ان کو ہلاک نہیں کرتے۔ اے اہل مکہ ! اب تمہاری ہلاکت کا وقت قریب آپہنچا ہے کیونکہ تم میں ہمارا رسول بھی آچکا جس نے کما حقہ ہمارا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تم اس کا انکار بھی کرچکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

59۔ آگے ایک اور شبہ کا جواب ہے ، اور اے پیغمبر آپ کا پروردگار اس وقت تک بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان بستیوں کے مرکزی مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج دے کہ وہ وہاں کے لوگوں کو ہمارے احکام پڑھ کر سنادے اور اس تبلیغ احکام کے بعد اور پیغمبر کے بھیجنے کے بعد بھی فورا ًہی بستیوں کو ہلاک نہیں کردیتے مگر ہاں اس وقت تک ہلاک کرتے ہیں اور اس حالت میں تباہ کرتے ہیں جب وہاں کے لوگ بہت ہی شرارت اور ظلم کرنے لگیں ۔ یعنی اگر ان بستیوں کو جن کا اوپر ذکر ہوا ان کے کفر کی وجہ سے ہلاک کیا گیا تو ہم بھی کفر کررہے ہیں پھر ہم کو کیوں تباہ نہیں کیا گیا تو اس کا جواب فرمایا اور پیغمبر کو مخاطب بنا کر ارشاد ہوا کہ آپ کے پروردگار کی یہ شان نہیں کہ بستیوں کو ابتداء ہی میں ہلاک کردے بلکہ اتمام حجت کی غرض سے بستیوں کے مرکزی اور صدر مقام میں کسی رسول اور پیغمبر کو بھیجتے ہیں اس مرکزی مقام میں وہ تبلیغ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کرتا ہے اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور اس مرکزی مقام سے آس پاس کی بستیوں میں اطلاع پہنچتی ہے پھر بھی لوگوں کے ایمان لانے اور دین حق کو قبول کرنے کا انتظار کیا جا ات ہے جب لوگ ایمان نہیں لاتے اور عناد و سرکشی میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اور ان کا ظلم حد سے تج اور ہوجاتا ہے تب کہیں جا کر ان کی ہلاکت و تباہی کا حکم ہوتا ہے اور وہ بستیاں تباہ کردی جاتی ہیں ۔