وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ (And that which is with Allah is much better and far more lasting - 28:60). That is the mundane wealth and comforts are all mortal. But the recompense one would get in the Hereafter for the good deeds done in the world is much superior and everlasting as compared to the temporary worldly wealth and comforts. The best of comforts of this world are no match to the bounties of the Hereafter. Then, no matter how attractive mundane comforts are, they are but temporary. As against that, the bounties of the Hereafter will last forever. There is no doubt that anyone having some sense would prefer the better comforts and the ones that will last forever, rather than the short-lived temporary ones. The sign of prudence is that one does not involve himself too much in worldly matters and cares more for the Hereafter Imam Shafi` i (رح) has said that if a person bequeaths his wealth and property to be given to the wisest men, then the beneficiaries of such a will are those busy in worshipping and obeying Allah Ta` ala, because what they are doing is the demand of wisdom, and no doubt they are the wisest among worldly people. This ruling is also mentioned in Ad-Durr-al-Mukhtar, the famous book of Hanafi school. See its chapter on &wasiyyah&.
تیسرا جواب اس آیت میں دیا گیا وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا الآیتہ جس میں یہ بتلایا کہ اگر بالفرض ایمان لانے کے نتیجہ میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچ ہی جائے تو وہ چند روزہ ہے اور جس طرح دنیا کی عیش و عشرت مال و دولت سب چند روزہ متاع ہے کسی کے پاس ہمیشہ نہیں رہتی، اسی طرح یہاں کی تکلیف و راحت کی کرے جو پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی ہے ہمیشہ رہنے والی دولت و نعمت کی خاطر چند روزہ تکلیف و مشقت برداشت کرلینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے۔ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى، یعنی دنیا کا مال و متاع اور عیش و عشرت سب فانی ہے اور یہاں کے اعمال کا جو بدلہ آخرت میں ملنے والا ہے وہ یہاں کے مال و اسباب اور عیش و عشرت سے اپنی کیفیت کے اعتبار سے بھی بہت بہتر ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی راحت و لذت بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور پھر وہ ہمیشہ باقی رہنے والی بھی ہے بخلاف متاع دنیا کے کہ وہ کتنا ہی بہتر ہو مگر بالاخر فانی اور زائل ہونے والا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی عقلمند آدمی ایسے عیش کو جو کم درجہ بھی ہو اور چند روزہ بھی اس عیش و آرام پر ترجیح نہیں دے سکتا جو راحت و لذت میں اس سے زیادہ بھی ہو اور ہمیشہ رہنے والا بھی ہو۔ عقلمند کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ دنیا کے دھندوں میں زیادہ منہمک نہ ہو بلکہ آخرت کی فکر میں لگے : امام شافعی (رح) نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے مال و جائیداد کے متعلق یہ وصیت کر کے مر جائے کہ میرا مال اس شخص کو دے دیا جائے جو سب سے زیادہ عقلمند ہو تو اس مال کے مصرف شرعی وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں مشغول ہوں، کیونکہ عقل کا تقاضا یہی ہے اور دنیا داروں میں سب سے زیادہ عقل والا وہی ہے۔ یہی مسئلہ فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب در مختار باب الوصیت میں بھی مذکور ہے۔