Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 68

سورة القصص

وَ رَبُّکَ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخۡتَارُ ؕ مَا کَانَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۶۸﴾

And your Lord creates what He wills and chooses; not for them was the choice. Exalted is Allah and high above what they associate with Him.

اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Alone is the One Who has the Power of Creation, Knowledge and Choice Allah tells us that He is the only One Who has the power to create and make decisions, and there is no one who can dispute with Him in that or reverse His judgement. His saying: وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ ... And your Lord creates whatsoever He wills and chooses, means, whatever He wills, for what He wills, happens; and what He does not will, does not happen. All things, good and bad alike, are in His Hands and will return to Him. ... مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ... ... سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ no choice have they. is a negation, according to the correct view. This is like the Ayah, وَمَا كَانَ لِمُوْمِنٍ وَلاَ مُوْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ It is not for a believer, man or woman, when Allah and His Messenger have decreed a matter that they should have any option in their decision. (33:36) ... سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ Glorified is Allah, and exalted above all that they associate. Then Allah says: وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ

ٖصفات الٰہی ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات والا اللہ ہی ہے ۔ نہ اس میں کوئی اس سے جھگڑنے والا نہ اس کا شریک وساتھی ۔ جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنالے ۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا ۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ ہے ۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار نہیں ۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت ( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ 36؀ۭ ) 33- الأحزاب:36 ) میں ہے دنوں جگہ ما نافیہ ہے ۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں الذی کے ہے یعنی اللہ پسند کرتا ہے اسے جس میں بھلائی ہو اور اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدلال کیا ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے ۔ یہ آیت اسی بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں اختیار رکھنے میں اللہ ہی اکیلا ہے اور نظیر سے پاک ہے ۔ اسی لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک الٰہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح اختیار رکھیں اللہ ان سب سے پاک اور بہت دور ہے ۔ پھر فرمایا سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی اللہ جانتا ہے اور وہ سب بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھلا اور ظاہر باتیں ۔ پوشیدہ بات کہو یا اعلان سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں ۔ الوہیت میں بھی وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی طرف لے جائے ۔ جس سے مخلوق عاجزی کرے ، جو مخلوق کاملجا وماوٰی ہو ، جو عبادت کے لائق ہو ۔ خالق مختار رب مالک وہی ہے ۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب لائق تعریف ہے اسکا عدل وحکمت اسی کے ساتھ ہے ۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا اس کے ارادوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ غلبہ حکمت رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے ۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ اس پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں ۔ نیکوں کو جزا بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق میں فیصلے فرمائیں گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

681یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائکہ کوئی مختار کل ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب لوگوں کا خالق ہے اس لئے وہی یہ بات جان سکتا ہے کہ اس نے کس شخص کو کس طرح کی خصوصیات اور استعداد عطا کی ہے۔ پھر وہ اپنے اسی علم کی بنا پر اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اور جس کام کے لئے چن لیتا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ نے یہ سب لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ لہذا اوامرو نواہی یا لوگوں کو کسی کام کا حکم دینے اور کسی کام سے باز رہنے کا حکم دینے کا اختیار بھی صرف اللہ ہی کو ہے نیز اگر اللہ کسی کو اپنا رسول بنادے تو دوسرے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس پر اعتراض کرے اور اگر اللہ تعالیٰ کہے کہ رسول کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ جو کچھ وہ کہے تمہیں کرنا ہوگا اور جس کام سے روکے اسے رک جانا ہوگا۔ اور اس کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی بات قبول نہیں کی جاسکتی تو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول کے افعال و اقوال پر اعتراض کرے۔ [٩٣] یعنی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات کو دوسروں میں تقسیم کرنا شروع کردیں۔ کسی کو بارش کا دیوتا سمجھنے لگیں کسی کو داتا اور گنج بخش بنادیں۔ کسی کو بیماری و صحت کا مالک سمجھنے لگیں اور کسی کو فریاد رس اور دستگیر قرار دے لیں۔ غرضیکہ میرے اختیارات میں ان میں سے جو اختیار جسے چاہے سونپ دے۔ کوئی فرشتہ ہو یا جن ہو یا نبی ہو یا ولی ہو سب ہمارے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں اور انھیں اگر کچھ کمالات حاصل ہیں تو وہ بھی ہمارے ہی عطا کردہ ہیں پھر اس برگزیدگی کے آخر یہ معنی کیسے بن گئے کہ کسی مخلوق کو بندگی کے مقام سے اٹھا کر اسے اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک بنادیا جائے۔ یہ انہوں نے کیسے سمجھ لیا کہ ان کو بھی اللہ کے اختیارات تقسیم کرنے کا کچھ حق ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ : قیامت کے دن مشرکین کی رسوائی اور ان کے شرکاء کی بےبسی کے اظہار کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور اس کے چند دلائل کا ذکر فرمایا۔ چناچہ فرمایا : ” تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس چیز کو یا جس شخص کو چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ “ ظاہر ہے جس نے پیدا کیا وہی چنے گا۔ جس کا پیدا کرنے میں کوئی حصہ ہی نہیں، کسی چیز یا شخص کے انتخاب میں اس کا کیا دخل ہوسکتا ہے۔ پھر کسی چیز یا شخص کو چننا صرف اسی کی مشیت پر موقوف ہے، نہ اس میں کسی کا مشورہ چلتا ہے، نہ کسی چیز یا شخص کی خوبی کی وجہ سے اسے چننا اس پر لازم ہے، کیونکہ : (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٢٣ ] ” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ اس نے چاہا تو عرش کو برتری بخشی، کعبہ کو قبلہ بنایا، انبیاء کو نبوت بخشی، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سید ولد آدم بنایا، مہاجرین و انصار کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لیے چنا، خلفائے اربعہ کو تمام صحابہ پر برتری بخشی، کوئی کہہ نہیں سکتا کہ نبوت فلاں کو کیوں نہیں ملی، جیسے کفار نے کہا تھا : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ) [ الزخرف : ٣١ ] ” یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟ “ جواب میں فرمایا : (اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) [ الزخرف : ٣٢ ] ” کیا تیرے رب کی رحمت وہ تقسیم کرتے ہیں۔ “ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ : بندوں کے پاس یہ اختیار کبھی بھی نہ تھا، نہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں چن لیں، (کَان میں نفی کا استمرار ہے) پھر ان مشرکین کو یہ اختیار کہاں سے مل گیا کہ رب تعالیٰ کے بندوں کو رب تعالیٰ کے اختیارات کا مالک بنادیں، جو اس نے کسی کو دیے ہی نہیں، نہ ان اختیارات کا مالک اس کے سوا کوئی ہوسکتا ہے۔ آخر انھیں کس نے یہ اختیار دیا کہ اس کے بندوں میں سے جسے چاہیں مشکل کشا بنالیں، جسے چاہیں داتا (رزاق) ، گنج بخش، فریاد رس یا دستگیر قرار دے دیں۔ اولاد، رزق، فتح و شکست، عزت و ذلت، شفا و مرض، زندگی اور موت کے محکمے، جو اس نے کسی کو دیے ہی نہیں، اپنے بنائے ہوئے شریکوں میں تقسیم کرتے پھریں۔ 3 اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ انبیاء یا اولیاء کو یہاں تک اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر بھی واپس لے آتے ہیں اور تقدیر کا لکھا تک مٹا دیتے ہیں، یا بدل دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں نواز دیتے ہیں، جسے چاہتے ہیں راندۂ درگاہ بنا دیتے ہیں، یہ سب کفریہ باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کے پاس یہ اختیار ذاتی طور پر ہے، نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو یہ اختیار دیا ہے، فرمایا : (مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ) ” ان کے لیے کبھی بھی اختیار نہیں۔ “ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کے پاس اختیار ہونا اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے عیب ہے کہ وہ اکیلا سب کچھ کرنے پر قادر نہیں اور اس کی شان کو گرا دینے والی بات ہے، اس لیے فرمایا : ” اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ “ ” عَلَا یَعْلُوْ عُلْوًا “ (بلند ہونا) اور ” تَعَالٰی یَتَعَالٰی تَعَالِیًا “ (بہت بلند ہونا) ۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ قدرت میں کسی بندے کو، چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، کوئی اختیار نہیں ہے۔ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ” سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ “ کے الفاظ اکٹھے قرآن میں صرف اسی ایک مقام پر آئے ہیں۔ 3 دنیا میں بندے کو عمل کرنے یا نہ کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، جس پر اسے ثواب یا عذاب ہوگا، اس کے اوپر بھی اللہ تعالیٰ ہی کا اختیار ہے۔ اس لیے یہ کہنا حق ہے کہ مخلوق کو کوئی اختیار نہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق یہ دو باتیں ماننا ضروری ہیں، ایک یہ کہ بندے کو اسباب کے تحت بعض اشیاء میں اختیار دیا گیا ہے، چاہے تو کفر کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو شکر کا۔ وہ مجبور محض نہیں کہ کسی عمل میں اسے کسی طرح کا اختیار بھی نہ ہو، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا) [ الدھر : ٣ ] ” بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھایا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔ “ دوسری بات یہ کہ بندے کو یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار کے تحت ہے، وہ نہ چاہے تو بندہ نہ کوئی ارادہ کرسکتا ہے نہ عمل۔ جیسا کہ سورة دہر میں فرمایا : (وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا) [ الدھر : ٣٠ ] ” اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ “ یہ اللہ کی تقدیر ہے، جس پر ایمان رکھنا لازم ہے، جو اس پر ایمان نہ رکھے مومن نہیں۔ رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مالک ہے جو چاہے کرے، نہ کسی کو اس سے پوچھنے کا حق ہے نہ اختیار، جیسا کہ فرمایا : (لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٢٣ ] ” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس کا ہر کام علم و حکمت پر مبنی ہے۔ مخلوق کو اس کے علم اور حکمت تک رسائی نہ ہے نہ ہوسکتی ہے، اس لیے اسے اپنی اوقات میں رہنا لازم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَرَ‌بُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ‌ (And your Lord creates what He wills and chooses - 28:68). According to one interpretation of this verse, the choice referred to here is Allah&s choice with regard to the divine commands, and the sense is that as Allah Ta` ala is unique in the creation of universe and no one is His partner, so is He in the issuance of His commands. He can give out any command to His creatures. But Imam Baghawi, in his commentary, and ` Allamah Ibn Al-Qayyim (رح) in the preface of Zad al-Ma` ad have adopted another interpretation according to which the choice of Allah Ta’ ala, as envisaged in this verse, relates to the prerogative of Allah Ta` ala by which He selects any one from His creatures for His favours. According to Baghawi, this was the reply given to the infidels of Makkah on their observation لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ عَلَىٰ رَ‌جُلٍ مِّنَ الْقَرْ‌يَتَيْنِ عَظِيمٍ (Why was this Qur&an not sent down upon some man of moment in the two cities? - 43:31) that is, ` If Allah had wished to reveal this Qur&an He should have revealed it on some dignitary of Makkah or Ta&if, so that he should have had respect and reverence. What was the wisdom in revealing it on a poor orphan?& In answer to this suggestion it is said in the present verse that it is the prerogative of the Lord of universe, who has created all the creatures without any help or partner, to select any one from His creatures for the special favours He wishes to confer. It is not for you to suggest whom He should or should not select, nor is He bound to listen to your suggestions. Giving preference to one thing over the other or to one person over the other, and determination of correct standard of preference, are all Divine prerogatives Haafiz Ibn Al-Qayyim has drawn an outstanding rule from this verse that the preference given to places and things in this world are not achieved by them with their own efforts or deeds, but it is the result of direct selection and prerogative of the Creator of the universe. He has created seven skies, out of which He has given preference to highest sky over others, although the material of all is the same. Similarly, He has given preference to Jannat al- Firdaus over all other parts of the Jannah. Then, He preferred Jibra&il, Mika&il, Isra&fil, etc. over all other angels, and has placed prophets on highest pedestal among the humans. And among the prophets has given preference to more resolute ones over all other prophets. Then among the resolute, He has given preference to His Khalil Ibrahim (علیہ السلام) and Habib Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) over all other resolute prophets. Then preference is given to progeny of Ismail (علیہ السلام) over all other people of the world, then to Quraish among the progeny of Ismail (علیہ السلام) and to Bani Hashim over all the Quraish, and finally to Sayyidna Muhammad Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) over entire Bani Hashim. Similarly, the preference given to companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and other elders of the Ummah, is all under the control and prerogative of Allah Subhanahu wa Ta` ala, and the result of His selection. In the same way, many places of the world are preferred over other places, and many days and nights have preference over the normal days and nights. In short, the original standard of preference in the entire universe is His prerogative and selection. However, at times , human acts may also become a cause of preference in the sense that those performing righteous acts are preferred over the others, and the places where such people live or perform virtuous acts may also acquire preference over other places. This preference can be gained by sincerity of effort and righteous deeds. The gist of this discussion is that the basis of preference in the world is dependent on two things. One is beyond one&s control and rests entirely on the selection of Allah Ta’ ala, and the other is within the ability of human beings and may be achieved by righteous deeds and superior morals. Allamah Ibn al-Qayyim (رح) has deliberated in great detail on this subject and has concluded that the four Rightly Guided Caliphs have precedence over all other companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Then Sayyidna Abu Bakr (رض) has preference over other three Caliphs. After that Sayyidna ` Umar Ibn al-Khattab (رض) has preference over the other two, and Sayyidna ` Uthman (رض) over Sayyidna &Ali (رض) . He has proved this sequence with the help of two standards discussed above. Shah Abdul Aziz Dehlavi (رح) has also written a booklet on this subject in Persian language, which I have translated in Urdu and Arabic. Urdu translation has been published under the title (بَعض التفسصِیل لمَسٔلۃ التفضیل) and Arabic translation is included in my book Ahkam al-Qur&an, under Surah Al-Qasas. This is a research work that would be of interest to scholars.

خلاصہ تفسیر اور آپ کا رب (بالانفراد صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے چناچہ وہ) جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (تو تکوینی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) اور جس حکم کو چاہتا ہے پسند کرتا ہے (اور انبیاء کے ذریعہ سے نازل فرماتا ہے پس تشریعی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) ان لوگوں کو تجویز (احکام) کا کوئی حق (حاصل) نہیں (کہ جو حکم چاہے تجویز کرلیں جیسے یہ مشرک اپنی طرف سے شرک کو جائز تجویز کر رہے ہیں اور اس خصوصی اختیار سے ثابت ہو کہ) اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے (کیونکہ جب تکوینًا و تشریعاً خالق اور مختار ہونے میں وہ منفرد ہے تو عبادت کا بھی تنہا وہی مستحق ہے کیونکہ معبود ہونا صرف اس کا حق ہے جو تکوینی اور تشریعی دونوں اختیار رکھتا ہو) اور آپ کا رب (علم ایسا کامل رکھتا ہے کہ وہ) سب چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو ان کے دلوں میں پوشیدہ رہتا ہے اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں (اور کسی کا ایسا علم بھی نہیں اس سے بھی انفراد ثابت ہوا) اور (آگے اس کی تصریح ہے کہ) اللہ وہی (ذات کامل الصفات) ہے اس کے سوا کوئی معبود (ہونے کے قابل) نہیں حمد (وثناء) کے لائق دنیا و آخرت میں وہی ہے (کیونکہ اس کے تصرفات دونوں عالم میں ایسے ہیں جو اس کے جامع کمالات اور مستحق حمد ہونے پر شاہد ہیں) اور (اختیارات سلطنت اس کے ایسے ہیں کہ) حکومت بھی (قیامت میں) اسی کی ہوگی اور (قوت و وسعت سلطنت اس کی ایسی ہے) کہ تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے (یہ نہیں کہ بچ جاؤ یا اور کہیں جا کر پناہ لے لو اور اس کے اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک رات ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی کو لے آوے (پس قدرت میں بھی وہی منفرد ہے) تو کیا تم (توحید کے ایسے صاف دلائل کو) سنتے نہیں (اور اسی اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان سے اس کے عکس کی نسبت بھی) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک دن ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے رات کو لے آوے جس میں تم آرام پاؤ کیا تم (اس شاہد قدرت کو) دیکھتے نہیں (قدرت میں اس کا منفرد ہونا بھی اس کو مقتضی ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو) اور (وہ منعم ایسا ہے کہ) اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور تاکہ دن میں اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (ان دونوں نعمتوں پر) تم (اللہ کا) شکر کرو (تو انعام و احسان میں بھی وہی منفرد ہے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو۔ ) معارف و مسائل وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ ، اس آیت کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ یختار سے مراد اختیار احکام ہے کہ حق تعالیٰ جبکہ تخلیق کائنات میں مفنرد ہے کوئی اس کا شریک نہیں تو اجرائے احکام میں بھی منفرد ہے جو چاہے اپنی مخلوق میں حکم نافذ فرمائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اختیار تکوینی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اختیار تشریعی میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس کا ایک دوسرا مفہوم وہ ہے جو امام بغوی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ ابن قیم نے زاد المعاد کے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ اس اختیار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہیں اپنے اکرام و اعزاز کے لئے انتخاب فرما لیتے ہیں اور بقول بغوی یہ جواب ہے مشرکین مکہ کے اس قول کا کہ لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ، یعنی یہ قرآن اللہ کو نازل ہی کرنا تھا تو عرب کے دو بڑے شہروں مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل فرماتا کہ اس کی قدر و منزلت پہچانی جاتی، ایک یتیم مسکین پر نازل فرمانے میں کیا حکمت تھی ؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ جس مالک نے تمام مخلوقات کو بغیر کسی شریک کی امداد کے پیدا فرمایا ہے یہ اختیار بھی اسی کو حاصل ہے کہ اپنے کسی خاص اعزاز کے لئے اپنی مخلوق میں سے کسی کو منتخب کرے اس میں وہ تمہاری تجویزوں کا کیوں پابند ہو کہ فلاں اس کا مستحق ہے فلاں نہیں۔ ایک چیز کو دوسری چیز پر یا ایک شخص کو دوسرے پر فضیلت کا معیار صحیح اختیار خداوندی ہے : حافظ ابن قیم نے اس آیت سے ایک عظیم الشان ضابطہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں جو ایک جگہ کو دوسری جگہ پر یا ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے یہ اس چیز کے کسب و عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بلاواسطہ خالق کائنات کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے سات آسمان پیدا کئے ان میں سے سماء علیا کو دوسروں پر فضیلت دے دی حالانکہ مادہ ساتوں آسمانوں کا ایک ہی تھا پھر اس نے جنت الفردوس کو دوسری سب جنتوں پر اور جبرئیل و میکائیل و اسرافیل وغیرہ خاص فرشتوں کو دوسرے فرشتوں پر، اور انبیاء (علیہم السلام) کو دوسرے سارے بنی آدم پر اور ان میں سے اولوالعزم رسولوں کو دوسرے انبیاء پر اور اپنے خلیل ابراہیم اور حبیب محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب بنی ہاشم پر پھر اسی طرح صحابہ کرام اور دوسرے اسلاف امت کو دوسروں پر فضیلت دینا یہ سب حق تعالیٰ جل شانہ کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح زمین کے بہت سے مقامات کو دوسرے مقامات پر اور بہت دنوں اور راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں پر فضیلت دینا یہ سب اسی اختیار اور انتخاب حق جل شانہ کا اثر ہے غرض افضیلت و مفضولیت کا اصل معیار تمام کائنات میں یہی انتخاب و اختیار ہے البتہ افضلیت کا ایک دوسرا سبب انسانی اعمال و افعال بھی ہوتے ہیں اور جن مقامات میں نیک اعمال کئے جاویں وہ مقامات بھی ان اعمال صالحہ یا صالحین عباد کی سکونت سے متبرک ہوجاتے ہیں۔ یہ فضیلت کسب و اختیار اور عمل صالح سے حاصل ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں مدار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک غیر اختیاری ہے جو صرف حق تعالیٰ کا انتخاب ہے دوسرا اختیاری جو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ سے حاصل ہوتا ہے۔ علامہ ابن قیم نے اس موضوع پر بڑا تفصیلی کلام کیا ہے اور آخر میں صحابہ کرام میں سے خلفاء راشدین کو تمام دوسرے صحابہ پر اور خلفاء راشدین میں صدیق اکبر ان کے بعد عمر بن خطاب ان کے بعد عثمان غنی ان کے بعد علی مرتضی (رض) کی ترتیب کو ان دونوں معیاروں سے ثابت کیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) کا بھی ایک مستقل رسالہ فارسی زبان میں اس موضوع پر ہے جس کا اردو ترجمہ احقر نے بنام بعض التفصیل لمسئلتہ التفضیل شائع کردیا ہے اور احکام القرآن سورة قصص میں بھی اس کو بزبان عربی مفصل لکھ دیا ہے۔ اہل علم کے ذوق کی چیز ہے وہاں مطالعہ فرمائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ۝ ٠ۭ مَا كَانَ لَہُمُ الْخِيَرَۃُ۝ ٠ۭ سُبْحٰنَ اللہِ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۝ ٦٨ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے اختیارُ : طلب ما هو خير وفعله، وقد يقال لما يراه الإنسان خيرا، وإن لم يكن خيرا، وقوله : وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان/ 32] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى إيجاده تعالیٰ إياهم خيرا، وأن يكون إشارة إلى تقدیمهم علی غيرهم . والمختار في عرف المتکلّمين يقال لكلّ فعل يفعله الإنسان لا علی سبیل الإكراه، فقولهم : هو مختار في كذا، فلیس يريدون به ما يراد بقولهم فلان له اختیار، فإنّ الاختیار أخذ ما يراه خيرا، والمختار قد يقال للفاعل والمفعول . الاختیار ( افتعال ) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کر گزرنا ۔ اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ :۔ وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان/ 32] ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا ۔ میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں دوسروں پر فوقیت بخشتا مراد ہو ۔ متکلمین کی اصطلاح میں مختار ( لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبروا کراہ نہ ہو لہذا ھو مختار فی کذا کا محاورہ فلان لہ اختیار کے ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اختیار کے معنی اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو ۔ مگر مختار کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨) اور آپ کا پروردگار جیسا چاہتا ہے پیدا کرتا اور اپنی مخلوقات میں سے جس کو چاہتا ہے نبوت کے لیے پسند فرماتا ہے یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس نے منتخب فرمایا ان کفار مکہ کو کسی قسم کا کوئی بھی حق حاصل نہیں اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨ (وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَیَخْتَارُ ط) ” تمام مخلوق اسی کی ہے ‘ اپنی مخلوق میں سے اس نے جس کو چاہا منتخب کرلیا اور رسول بنا لیا : (اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط) ( الحج : ٧٥) ” اللہ چن لیتا ہے اپنے پیغامبر فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے ”۔ سورة آل عمران میں یہی مضمون اس طرح آیا ہے : (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ” یقیناً اللہ نے چن لیا آدم ( علیہ السلام) کو اور نوح ( علیہ السلام) کو اور آل ابراہیم (علیہ السلام) کو اور آل عمران کو تمام جہان والوں پر۔ “ (مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُط سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) ” ( اللہ تعالیٰ کی ذات ان لوگوں کے اوہام اور من گھڑت عقائد سے وراء الوراء ‘ منزہّ اور ارفع ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90 This, in fact, is a refutation of shirk. Allah objects to the setting up of countless gods froth among His creatures by the mushriks and assigning to them from themselves of attributes and ranks and offices, and says: "We Ourselves bless with whatever attributes, capabilities and powers whomever We like from among the men, angels, jinns and other servants whom We have created, and employ whomever We will for whatever service We will. But, how and wherefrom have the mushriks got the authority that they should make whomever they like from among My servants remover of hardships, bestower of treasures and answerer of prayers? That they should make someone the lord of rain, another the giver of jobs and children, still another bestower of health and ill-health? That they should look upon whomever they please as the ruler of a part of My Kingdom and assign to him whichever of My powers they like? Whether it is an angel or a jinn, or a prophet, or saint, or anybody else, he has been created by Us Whatever excellences he has, have been granted by Us, and whatever service We willed to take from him, We have taken. Therefore, the selection. of someone for a particular service does not mean that he should be raised from the position of a servant to godhead and worshipped instead of God, invoked for help, prayed to for fulfilment of needs, taken as maker or destroyer of destinies and possessor of divine; attributes and powers.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 90 یہ ارشاد دراصل شرک کی تردید میں ہے ، مشرکین نے اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے جو بے شمار معبود اپنے لیے بنا لیے ہیں ، اور ان کو اپنی طرف سے جو اوصاف ، مراتب اور مناصب سونپ رکھے ہیں ، اس پر اعتراض کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں ، فرشتوں ، جنوں اور دوسرے بندوں میں سے ہم خود جس کو جیسے چاہتے ہیں اوصاف ، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشتے ہیں اور جو کام جس سے لینا چاہتے ہیں لیتے ہیں ، یہ اختیارات آخر ان مشرکین کو کیسے اور کہاں سے مل گئے کہ میرے بندوں میں سے جس کو چاہیں مشکل کشا ، جسے چاہیں گنج بخش اور جسے چاہیں فریاد فرس قرار دے لیں؟ جسے چاہیں بارش برسانے کا مختار ، جسے چاہیں روزگار یا اولاد بخشنے والا ، جسے چاہیں بیماری و صحت کا مالک بنا دیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کا رماں روا ٹھہرا لیں؟ اور میرے اختیارات میں سے جو کچھ جس کو چاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہو یا جن یا نبی یا ولی ، بہرحال جو بھی ہے ہمارا پیدا کیا ہوا ہے ، جو کمالات بھی کسی کو ملے ہیں ہماری عطا و بخشش سے ملے ہیں ، اور جو خدمت بھی ہم نے جس سے لینی چاہی ہے لی ہے ۔ اس برگزیدگی کے یہ معنی آخر کیسے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے پر پہنچا دیے جائیں اور خدا کو چھوڑ کر ان کے آگے سر نیاز جھکا دیا جائے ، ان کو مدد کے لیے پکارا جانے لگے ، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں ، انہیں قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ لیا جائے ، اور انہیں خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دیا جائے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

39: یہ کفار کے اِس اعتراض کا جواب ہے کہ پیغمبر ہمارے سرداروں اور دولت مند لوگوں میں سے کسی کو کیوں نہیں بنایا گیا؟ مختصر جواب یہ دیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی نے یہ ساری کائنات پیدا کی ہے، اور اُسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کس کو اپنا پیغمبر بنائے۔ اِن لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:68) یختار۔ مضارع واحد مذکر اختیار بمعنی اپنی مرضی و پسند میں آزاد ہونا۔ ماکان میں مانافیہ ہے بعض کے نزدیک ما موصولہ ہے لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب وقف یشاء پر ہو۔ لیکن وقف یختار پر ہے الخیرۃ : خار یخیر ضرب کا مصدر ہے پسند کرنا۔ منتخب کرنا۔ ما کان لہم الخیرۃ۔ انہیں کچھ اختیار نہیں۔ یعنی سارے تکوینی و تشریعی اختیارات اس (اللہ) کو ہیں اور صرف اسی کو ہیں۔ تعالی۔ ماضی واحد مذکر غائب تعالیٰ (تفاعل) مصدر۔ وہ بہت ہی بلند اور برتر ہے یہاں باب تفاعل کا استعمال تکلف کے لئے نہیں بلکہ مبالغہ کے لئے آیا ہے۔ عما : عن ما۔ ما موصولہ ہے۔ جس چیز سے۔ یشرکون مضارع جمع مذکر غائب اشراک افعال مصدر۔ وہ شریک بناتے ہیں تعالیٰ عما یشرکون۔ وہ اللہ بہت ہی بلندو برتر ہے ان سے جن کو وہ اس کا شریک بناتے ہیں۔ بعض نے یہاں مضارع کو مصدر کے معنی میں لیا ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ جو وہ شرک کرتے ہیں اللہ اس سے بلندو برتر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ یعنی اسے یقینا نجات ملے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی امید دلاتا ہے اس کے ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا یا عسیٰ سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ نجات پانا اللہ کے فضل سے ہوگا ورنہ یہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے۔ 12 ۔” یا جو چاہتا ہے اختیار کرتا ہے “۔ جیسے فرمایا : لا یسئل عما یفعل و ھم یسائولون۔ (انبیاء :23) یا ” جن کو چاہتا ہے (اپنے دین کی مدد کے لئے) پسند فرما لیتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو چن لیا اور ان میں سے پھر چار (خلفاء اربعہ) کو خاص طور پر منتخب کرلیا جیسا کہ حضرت جابر (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ہے۔ (قرطبی) 13 ۔ کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی کام کرسکیں بلکہ خود بندے اور ان کے سب کام خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ البتہ ظاہر میں بندوں کو ایک طرح مختار بنایا گیا ہے جس پر ثواب و عقاب کا مدار ہے۔ لیکن پھر بھی تکوینی طور پر سب اللہ کی قضا و قدر کے سامنے مجبور ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہی ہے نہ وہ جبری ہیں کہ بندے کو مجبور محض کہیں اور نہ قدری کہ بندے کو کلی مختار سمجھیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسئلہ میں بحث کرنے کی ممانعت فرما دی ہے اور پہلی بدعت جو مسلمانوں میں ظاہر ہوئی اسی مسئلہ میں بحث تھی۔ (وحیدی بتصرف) یا مطلب یہ ہے کہ بندے اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ مخلوق اور پھر بنی نوع انسان میں کسی شخص کو ممتاز بنانا اور اسے کسی منصب پر فائز کرنا سراسر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ سیاق کے اعتبار سے یہی معنی اقرب ہیں۔ 1 ۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانہ قدرت میں کسی بندے کو چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو کوئی اختیار نہیں ہے یہ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (68 تا 75 ) یختار (وہ پسند کرتا ہے۔ منتخب کرتا ہے) ۔ الخیرۃ (اختیار ۔ پسند ) ۔ تکن (چھپتا ہے) ۔ سرمد (ہمیشہ ) ۔ ضیاء (روشنی۔ چمک ) ۔ تسکنون (تم سکون حاصل کرتے ہو) ۔ تبتغوا (تم تلاش کرتے ہو) ۔ نزعنا (ہم نے کھینچ لیا۔ نکال لیا) ۔ ھاتوا (لے آئو۔ (تم آئو) ۔ برھان (دلیل۔ پسند) ۔ ضل (بھٹک گیا۔ گم ہوگیا) ۔ یفترون (وہ گھڑتے ہیں۔ بناتے ہیں ) ۔ تشریح : آیت نمبر (68 تا 75 ) ۔ ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ہر شخص کو بتایا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کائنات میں ساری قدرت، طاقت، ہر چیز کی خوبی اور عبادت و بندگی صرف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اپنا پیغام پہنچانے کے لئے اپنی مرضی اور مشیت سے کچھ پاکیزہ نفس پیغمبروں کو منتخب کیا جس کا فیصلہ صرف وہی کرسکتا تھا اس کے اس فیصلے کا اختیار کسی کو نہیں ہے نہ کسی کے بس کا یہ کام ہے۔ اس کے کاموں اور اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں ہے اور بادان لوگ جو اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں انہیں اپنی غلطی کا پوری طرح احساس ہوجائے گا کیونکہ اللہ کی ذات ان تمام چیزوں سے بلندو برتر ہے۔ وہ ہر شخص کے ظاہر اور باطن سے اچھی طرح واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کون شخص زبان سے کیا بات کہہ رہا ہے اور کون کس بات کا اپنے سینے میں چھپائے بیٹھا ہے۔ وہی معبود حقیقی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور اس دنیا میں اور آخرت میں جو بھی خوبی اور بھلائی ہے وہ اسی کے لئے ہے۔ اور تمہیں اسی کر طرف لوٹ کر جانا ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ اس نے زمین کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ سورج کے گرد چوبیس گھنٹے میں اپنی ایک گردش پوری کرتی ہے جس سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اللہ زمین کی اس گردش کو روک دے اور مسلسل قیامت تک رات کا اندھیرا چھایا رہے تو اس اللہ کے سوا اور کون سی ذات ہے جو دن کی روشنی کو واپس لے آئے گی کیا سچائی کی یہ بات انین سنائی نہیں دیتی اور اگر اسی طرح قیامت تک دن کی روشنی ہو اور رات نہ آئے جس میں آدمی دن بھر تھک کر سوتا اور سکون و اطمینان حاصل کرتا ہے تو اللہ کے سوا اور کان سی ذات ہے جو رات اور اس کے اندھیرے کو لوٹا کر لاسکتی ہے۔ کیا تمہیں اتنی سی بات نہیں سوجھتی۔ اگر اتنی بڑی سچائی اور سامنے کی حقیقت کو دیکھ کر بھی اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا شریک بنایا جاتا ہے تو اس سے زیادہ ظلم و زیادتی اور کیا ہوگی۔ فرمایا کہ یہ اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم سکون و اطمینان حاصل کرسکو۔ دن میں اس کا فضل و کرم اور رزق حاصل کر کے اس کا شکر ادا کرو۔ فر مایا کہ اس دن ایسے مشرکین کی حسرت کا کیا علم ہوگا جب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج تم اپنے معبودوں کو پکارو جن پر تمہیں بڑا ناز اور گھمنڈ تھا کہ وہ قیامت کے دن تمہارے کام آئیں گے۔ مگر آج وہ تم سے کہ ان گم ہوگئے ہیں ؟ پھر ہر جماعت میں سے ان لوگوں کو سامنے لایا جائے گا جو شرک کرتے تھے اور کہا جائے گا کہ اگر ان کے معبود ہونے پر کوئی دلیل ہے تو وہ آج پیش کرو۔ مگر وہ کیا پیش کریں گے کیونکہ ان کے پا کوئی دلیل بھی نہ ہوگی اور اس طرح وہ جان لیں گے کہ سچی بات صرف وہی تھی جو اللہ نے فرمائی تھی اور اس طرح جن کو انہوں نے اپنا معبود بنا رکھا تھا وہ سب کے سب غارت ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور اختیارات کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہاں شرک کی نفی ایک خاص انداز میں کی گئی ہے۔ مقصود یہ بتلانا ہے کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھول کر دوسروں کو اپنا معبود اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر ہیں ایسا ہرگز نہ ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کا نتیجہ ہے کہ اس نے لوگوں کو ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے۔ کہ دونوں میں سے جس کا چاہیں انتخاب کرلیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس فطرت پر چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کو کس قسم کی صلاحیتیں دینی چاہئیں۔ جسے چاہتا ہے اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کے اختیارات میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس نے کسی مردہ یا زندہ بزرگ کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے۔ وہ ہر قسم کی شراکت داری سے مبرّا اور مشرکوں کے تصورات سے بلند وبالا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں کے حال جانتا ہے کہ لوگ کس نیت اور مفاد کی خاطر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ وہی ” اللہ “ ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی کسی کی حاجت روائی کرنے والا ہے۔ اس کی ذات اور کام ہر لحاظ سے تعریف کے لائق ہیں۔ لہٰذا پہلے اور بعد، اوّل اور آخر وہی تعریف کے لائق ہے اور اسی کی تعریف کرنا چاہیے۔ کیونکہ سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور ہر کسی پر اسی کا حکم کار فرما ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ ) [ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو پھیرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی۔ اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرے اور جیسے چاہے اپنے کام کے لیے منتخب فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک اور خیالات سے بلند وبالا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے خیالات کو جاننے والا ہے۔ ٥۔ ہر کسی نے ” اللہ “ کے ہاں ہی لوٹ کر جانا ہے۔ ٦۔ ” اللہ “ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور اس کے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ ہر ایک کی نماز اور تسبیح جانتا ہے۔ (النور : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ : ٧ ) ٣۔ اللہ پر بھروسا کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال : ٦١) ٤۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور : ١٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٦۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ تمہارے نفسوں کی خباثت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ١٨٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیوب کا جاننے والا ہے۔ (التوبۃ : ٧٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ہر امر اور ہر چیز کو نتیجہ ارادہ الٰہی قرار دیا جاتا ہے ، کیونکہ وہی ذات ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اول میں بھی آخر میں بھی۔ دنیا میں بھی وہی قابل تعریف ہے اور آخرت میں بھی وہی قابل تعریف ہے۔ دنیا میں بھی اس کا حکم چلتا ہے اور آخرت بھی اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ لوگوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے خود کوئی فیصلہ کرسکیں نہ دوسروں کے بارے میں یہاں کوئی انسان کوئی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے ، تخلیق کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، اختیار کرلیتا ہے۔ وربک یخلق ۔۔۔۔۔۔ والیہ ترجعون (68: 70) ” ۔ ۔ “۔ یہ تبصرہ ان لوگوں کے اس ریمارکس کے بعد آیا ہے کہ اگر ہم نے ہدایت کو قبول کرلیا تو ہم اپنی زمین سے اچک لے جائیں گے۔ اسی قول کے بعد یوم الحساب کا ایک منظر پیش کیا گیا اور اس میں مشرکین کے موقف کو پیش کیا گیا۔ اب اس دوسرے تبصرے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کا اختیار تو خود ان کے نفوس کے بارے میں بھی نہیں ہے کہ وہ ازخود امن اور خوف کا کوئی راستہ اپنے لیے اختیار کریں۔ اس لیے اللہ کی وحدانیت کے اختیارات کی وجہ سے آخر کار تمام امور میں اللہ ہی موثر ہے۔ وربک یخلق ما یشآء ویختار ما کان لھم الخیرۃ (28: 68) ” اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور منتخب کرلیتا ہے اور یہ انتخاب ان لوگوں کے کرنے کا کام نہیں ہے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے جسے بسا اوقات لوگ بھال دیتے ہیں یا اس کے بعض پہلوؤں کو لوگ بھلا دیتے ہیں کہ اللہ جو چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کے کاموں کے سلسلے میں کچھ تجاویز دے یا اللہ کی تخلیق میں ۔۔۔۔ اضافہ کرے یا اس کی تخلیق میں تغیر و تبدل کرے۔ وہ اپنی مخلوق میں سے مختلف چیزوں کو مختلف فرائض کے لیے اختیار کرلیتا ہے۔ مختلف مقامات میں مختلف چیزیں اپنا فریضہ ادا کرتی ہیں۔ اس لیے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اللہ کے سامنے کسی شخص کو تجویز کرے ، کسی حادثہ کی تجویز کرے ، کسی حرکت ، کسی بات اور کسی فعل کی تجویز کرے۔ اور نہ ایسا کام اختیار کرنے کا اللہ نے کسی کو اختیار دیا ہے۔ نہ اپنے نفسوں کے بارے میں اور نہ دوسروں کے بارے میں۔ غرض تمام امور کے فیصلے اللہ کرتا ہے ، چھوٹے ہوں یا بڑے۔ اگر لوگوں کے دل و دماغ میں صرف یہ ایک حقیقت بیٹھ جائے تو لوگوں پر جو مصائب آتے ہیں وہ ان کی وجہ سے ہرگز پریشان نہ ہوں ، یا ان کی اپنی وجہ سے ان کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی وجہ سے بھی وہ پریشان نہ ہوں ، نہ وہ اس چیز کی وجہ سے پریشان ہوں جو ان کے ہاتھوں سے نکل گئی یا وہ محروم ہوگئے کیونکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہی ہے جو واقعات کا انتخاب کرتا ہے اور اس کو اختیارات ہیں۔ لیکن اس کا مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ لوگ اپنی عقل کو معطل کردیں ، اداروں کو موقوف کردیں اور سرگرمیاں چھوڑ کر ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان غوروفکر کرکے ، اچھی سوچ کے بعد پوری جدوجہد کرے اور اپنی پوری قوت استعمال کرتے ہوئے ایک کام کرے اور اس کے بعد جو نتائج ہوں ، ان کو اللہ پر چھوڑ دے۔ نتائج کو تسلیم ورضا سے قبول کرے۔ کیونکہ اس کے دائرہ قوت میں جو کچھ تھا ، اس نے کرلیا۔ اس کے بعد کے امور اللہ کے لیے ہیں۔ مشرکین اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ اور ان کو بھی پکارتے تھے۔ حالانکہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور وہی اختیار و انتخاب کرتا ہے۔ اس تخلیق میں کوئی شریک نہیں اور نہ اس کے اختیارات میں کوئی شریک ہے۔ سبحن اللہ و تعلی عما یشرکون (28: 68) ” اللہ پاک ہے ، اور بہت بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں “۔ وربک یعلم ۔۔۔۔۔۔ وما یعلنون (28: 69) ” اور تیرا رب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں “۔ اور جو کچھ یہ ظاہر کرتے ہیں “۔ اس لیے وہ ان کی جن باتوں کو جانتا ہے ، ان پر ان کو سزا دیتا ہے۔ ان کے لیے نتائج وہ منتخب کرتے ہیں ان کے لیے ہدایت و ضلالت کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔ وھو اللہ لا الہ الا ھو (28: 70) “ وہ ایک اللہ ہے جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ لہٰذا خلق میں یا اختیارات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ لہ الحمد فی الاولی والاخرۃ (28: 70) ” اس کے لیے حمد ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی “۔ اس بات پر کہ وہ کسی کے لیے کیا انجام اختیار کرتا ہے ، کسی کے لئے کیا انعامات تجویز کرتا ہے ، کسی کے لیے کیا حکمت و تدبیر اختیار کرتا ہے ، کسی کے ساتھ کیا انصاف کرتا ہے اور کسی پر کیا رحمت کرتا ہے ۔ حمد و ثنا صرف اسی کے لیے ہے۔ ولہ الحکم (28: 70) ” حکم اس کا ہے “۔ اس لیے وہ اپنے بندوں کے درمان جو فیصلے چاہتا ہے ، کرتا ہے اس کے کسی امر کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ اور نہ اس کے فیصلوں کو کوئی بدل سکتا ہے۔ والیہ ترجعون (28: 70) ” اور اس کی طرف تم سب پلٹ کر جانے والے ہو “۔ اور آخری فیصلہ بھی وہاں اللہ ہی اپنے پورے اختیارات کے ساتھ کرے گا۔ یوں اللہ تعالیٰ یہ شعور اہل ایمان کے گلے میں تعویذ کی طرح باندھ دیتا ہے کہ اس کائنات میں صرف اللہ کا ارادہ چلتا ہے۔ اور یہ بھی سمجھا دیتا ہے کہ اللہ رازوں کو بھی جانتا ہے ، اس سے کوئی چیز خفیہ نہیں ہے۔ سب نے اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اس سے کوئی شخص بچ کر نہیں نکل سکتا۔ کس طرح یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کی جرات کرتے ہیں حالانکہ یہ لوگ اس کے قبضے میں ہیں۔ اس سے نکل نہیں سکتے۔ اس کے بعد ایک سفر اس پوری کائنات کا بھی کرایا جاتا ہے جس میں یہ لوگ رہتے ہیں لیکن اس کے اندر اللہ کی جو گہری تدبیر و حکمت کام کر رہی ہے اس سے غافل ہیں۔ حالانکہ ان کی زندگی اور ان کی معیشت کے تمام فیصلے اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس طرح اللہ ان کے شعور کو اس کائنات کے دو بہت اہم مظاہر کی طرف متوجہ کرتا ہے یعنی گردش لیل و نہار کی طرف۔ اور اس امر کی طرف کہ گردش لیل و نہار کے اس نظام کے اندر اللہ وحدہ کی وحدانیت اور اس کے اختیار مطلق کے کیسے شواہد ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر اللہ تعالیٰ رات یا دن کو ہمیشہ باقی رکھتے تو وہ کون ہے جو اس کے مقابلہ میں رات یا دن لاسکے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کی صفات جلیلہ اور قدرت کاملہ کے مظاہر بیان فرمائے جن میں بندوں پر بھی امتنان ہے۔ پہلی آیت میں فرمایا (وَ رَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ ) (آپ کا رب جو چاہے پیدا فرمائے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے) بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس میں ولید بن المغیرہ کی بات کا جواب دیا ہے جو اس نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو رسول بھیجنا ہی تھا تو مکہ اور طائف کے شہروں میں سے کسی بڑے آدمی کو بھیجنا چاہیے تھا (یعنی جو اس کے ذہن میں بڑا تھا) اہل دنیا دنیا داروں ہی کو بڑا سمجھتے ہیں اس لیے اس نے ایسی بات کہی اور اس کا مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنا تھا اسی کو سورة زخرف میں یوں بیان فرمایا ہے (وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ) ۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ مذکورہ بالا آیت یہودیوں کے جواب میں نازل ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی لانے والا فرشتہ جبرائیل کے علاوہ کوئی دوسرا فرشتہ ہوتا تو ہم ان پر ایمان لے آتے اور ان لوگوں کو جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ اس نے سارے نبیوں کے بعد خاتم النبیین بنانے کے لیے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چن لیا۔ اور سب فرشتوں میں سے وحی بھیجنے کے لیے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو چن لیا۔ اس پر اعتراض کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں اور حضرت ابن عباس (رض) نے آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پیدا فرمائے اور جسے چاہے اپنی اطاعت کے لیے چن لے (ذکر ذلک القرطبی (رح) فی تفسیرہ) اور بعض حضرات نے یختار کا یہ مطلب بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس حکم کو چاہتا ہے پسند فرماتا ہے اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ نازل فرما دیتا ہے۔ پہلے جملہ میں یہ بتایا کہ تکوینی امور میں بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اور تشریعی اختیارات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ آیت کریمہ کے عموم لفظی میں یہ سب باتیں داخل ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لیے جسے چاہا، چن لیا۔ اور جن حضرات کو نبوت سے سر فراز فرمایا ان میں بھی آپس میں ایک دوسرے کو فضیلت دی۔ بعض کو اولو العزم بنایا اور بعض کو بہت بڑی امت عطا فرمائی، اور بعض پر ایمان لانے والے تھوڑے ہی سے تھے۔ بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ایک شخص بھی ایمان نہیں لایا۔ حضرت ابراہیم کو خلیل اللہ بنایا اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حبیب اللہ بنایا اور معراج کا شرف عطا فرمایا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مناجات کی فضیلت عطا فرمائی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح اللہ کلمۃ اللہ کے ساتھ موصوف فرمایا۔ اسی طرح فرشتوں میں جس کو جو مرتبہ دیا اس میں کوئی دخیل اور شریک نہیں۔ سورة حج میں فرمایا (اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلاً وَ مِنَ النَّاسِ ) (اللہ فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے چن لیتا ہے اور انسانوں میں سے بھی) ۔ اسی طرح سے جنتوں میں بھی باہم فضیلت ہے۔ جنت الفردوس سب سے اعلیٰ اور افضل ہے آسمانوں میں بھی ایک کو دوسرے پر برتری عطا فرمائی اور زمین کے خطوں میں بھی ایک دوسرے کو فضیلت دی۔ کعبہ شریف کے لیے مکہ معظمہ کو منتخب فرما لیا اور مسجد نبوی میں بھی ایک حصہ کو روضۃ من ریاض الجنۃ قرار دے دیا۔ اور مدینہ منورہ کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسکن اور مدفن بنایا۔ جو لوگ اہل علم ہیں ان میں بھی کسی کو بہت زیادہ علم دیا کسی سے دین کی خدمت بہت لی، کسی کو مفسر کسی کو محدث کسی کو مفتی اور فقیہ بنایا، کسی کی طرف بہت زیادہ رجوع عطا فرمایا۔ طلبہ و تلامذہ کی ہزاروں کی تعداد ہوگئی۔ کسی سے بہت بڑا مدرسہ قائم کروا دیا اور اس کی طرف امت کا رجوع کردیا کسی کو کتابیں لکھنے کی توفیق زیادہ دے دی پھر اس کی کتابوں کو مقبولیت عامہ نصیب فرما دی۔ وھلم جرا الی مالا یعد ولا یحصیٰ ۔ (مَا کَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ ) (لوگوں کو چن لینے اور اختیار کرنے کا کوئی حق نہیں) اللہ نے جسے چاہا فضیلت دے دی اور جو حکم چاہا بھیج دیا۔ یہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے۔ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ اللہ پاک ہے اور وہ برتر ہے اس سے وہ جو شریک کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 64:۔ یہاں سے لے کر ولعلکم تشکرون تک وہی دعوی دلائل عقلیہ سے ثابت کیا گیا ہے جس کی تبلیغ و اشاعت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عمر بھر مصائب برداشت کیے اور جسے فرعون نے رد کیا اور مقابلے میں ما علمت لکم من الہ غیری کا دعوی کیا اور جس دعوے کی تبلیغ کے لیے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا گیا اور مشرکین مکہ نے اس کا انکار کیا۔ وہ دعوی یہ تھی وھو اللہ لا الہ الا ھو الخ یعنی غائبانہ حاجات میں پکارنے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ وربک یخلق الخ، یہ دعوی مذکورہ پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ یعنی ساری کائنات کا خالق اور سارے جہاں میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کی مخلوق میں سے کوئی مختار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ کوئی اختیار و تصرف میں اس کا مزاحم ہو اور وہ مشرکین کے شرک سے برتر اور منزہ ہے۔ ای تنزہ بذاتہ تنزھا خاصا بہ من اینازعہ احدا ویزاحمہ اختیارہ (ابو لاسعود ج 6 ص 670) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

68۔ اور اے پیغمبر آپ کا پروردگار جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے پسند فرماتا ہے ان لوگوں کو پسندیدگی کا کوئی اختیار نہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے شرک سے پاک اور بلند وبالا تر ہے ۔ جو چاہے پیدا کرے یعنی تکوینی اختیارات اسی کے قبضے میں ہیں اور جن احکام کو چاہے پسند کرے اور انبیاء (علیہم السلام) کی معرفت نازل فرمائے۔ یعنی تشریعی اختیارات بھی سب اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ منکروں اور بےدینوں کو نہ تو حلال و حرام کا اختیار ہے اور نہ پیدائش و اموات ان کے قبضے میں ہے ، جب تکوینی اور تشریعی خالق ہونے میں وہ یکتا ہے تو الوہیت میں بھی وہی منفرد اور یکتا ہے اور وہ ان مشرکوں کے شرک سے پاک اور بہت بلند ہے۔ یہ آیت کفا رکے اس اعتراض کا جواب بھی ہوسکتا ہے جو مکہ کے کافروں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر تھا کہ ان کو نبوت کیوں دی گئی اور یہ قرآن کریم مکہ اور طائف کے رئیسوں پر کیوں نہ نازل ہوا ، یہ اس کا جواب ہے کہ پیدا بھی ہم ہی کرتے ہیں اور برگزیدگی اور انتخاب کا بھی ہمیں کو حق ہے چونکہ وہ اس معاملہ میں منفرد ہے حق پیدائش اور حق انتخاب اسی کو حاصل ہے لہٰذا وہ پاک وہ بالا تر ہے ان سے جن کو یہ مشرک شریک بتاتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ پیدا ہم کریں اور کسی نبی کا حق انتخاب ان کے قبضے میں دے دیا جائے۔