Commentary وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ (And your Lord creates what He wills and chooses - 28:68). According to one interpretation of this verse, the choice referred to here is Allah&s choice with regard to the divine commands, and the sense is that as Allah Ta` ala is unique in the creation of universe and no one is His partner, so is He in the issuance of His commands. He can give out any command to His creatures. But Imam Baghawi, in his commentary, and ` Allamah Ibn Al-Qayyim (رح) in the preface of Zad al-Ma` ad have adopted another interpretation according to which the choice of Allah Ta’ ala, as envisaged in this verse, relates to the prerogative of Allah Ta` ala by which He selects any one from His creatures for His favours. According to Baghawi, this was the reply given to the infidels of Makkah on their observation لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (Why was this Qur&an not sent down upon some man of moment in the two cities? - 43:31) that is, ` If Allah had wished to reveal this Qur&an He should have revealed it on some dignitary of Makkah or Ta&if, so that he should have had respect and reverence. What was the wisdom in revealing it on a poor orphan?& In answer to this suggestion it is said in the present verse that it is the prerogative of the Lord of universe, who has created all the creatures without any help or partner, to select any one from His creatures for the special favours He wishes to confer. It is not for you to suggest whom He should or should not select, nor is He bound to listen to your suggestions. Giving preference to one thing over the other or to one person over the other, and determination of correct standard of preference, are all Divine prerogatives Haafiz Ibn Al-Qayyim has drawn an outstanding rule from this verse that the preference given to places and things in this world are not achieved by them with their own efforts or deeds, but it is the result of direct selection and prerogative of the Creator of the universe. He has created seven skies, out of which He has given preference to highest sky over others, although the material of all is the same. Similarly, He has given preference to Jannat al- Firdaus over all other parts of the Jannah. Then, He preferred Jibra&il, Mika&il, Isra&fil, etc. over all other angels, and has placed prophets on highest pedestal among the humans. And among the prophets has given preference to more resolute ones over all other prophets. Then among the resolute, He has given preference to His Khalil Ibrahim (علیہ السلام) and Habib Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) over all other resolute prophets. Then preference is given to progeny of Ismail (علیہ السلام) over all other people of the world, then to Quraish among the progeny of Ismail (علیہ السلام) and to Bani Hashim over all the Quraish, and finally to Sayyidna Muhammad Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) over entire Bani Hashim. Similarly, the preference given to companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and other elders of the Ummah, is all under the control and prerogative of Allah Subhanahu wa Ta` ala, and the result of His selection. In the same way, many places of the world are preferred over other places, and many days and nights have preference over the normal days and nights. In short, the original standard of preference in the entire universe is His prerogative and selection. However, at times , human acts may also become a cause of preference in the sense that those performing righteous acts are preferred over the others, and the places where such people live or perform virtuous acts may also acquire preference over other places. This preference can be gained by sincerity of effort and righteous deeds. The gist of this discussion is that the basis of preference in the world is dependent on two things. One is beyond one&s control and rests entirely on the selection of Allah Ta’ ala, and the other is within the ability of human beings and may be achieved by righteous deeds and superior morals. Allamah Ibn al-Qayyim (رح) has deliberated in great detail on this subject and has concluded that the four Rightly Guided Caliphs have precedence over all other companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Then Sayyidna Abu Bakr (رض) has preference over other three Caliphs. After that Sayyidna ` Umar Ibn al-Khattab (رض) has preference over the other two, and Sayyidna ` Uthman (رض) over Sayyidna &Ali (رض) . He has proved this sequence with the help of two standards discussed above. Shah Abdul Aziz Dehlavi (رح) has also written a booklet on this subject in Persian language, which I have translated in Urdu and Arabic. Urdu translation has been published under the title (بَعض التفسصِیل لمَسٔلۃ التفضیل) and Arabic translation is included in my book Ahkam al-Qur&an, under Surah Al-Qasas. This is a research work that would be of interest to scholars.
خلاصہ تفسیر اور آپ کا رب (بالانفراد صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے چناچہ وہ) جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (تو تکوینی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) اور جس حکم کو چاہتا ہے پسند کرتا ہے (اور انبیاء کے ذریعہ سے نازل فرماتا ہے پس تشریعی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) ان لوگوں کو تجویز (احکام) کا کوئی حق (حاصل) نہیں (کہ جو حکم چاہے تجویز کرلیں جیسے یہ مشرک اپنی طرف سے شرک کو جائز تجویز کر رہے ہیں اور اس خصوصی اختیار سے ثابت ہو کہ) اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے (کیونکہ جب تکوینًا و تشریعاً خالق اور مختار ہونے میں وہ منفرد ہے تو عبادت کا بھی تنہا وہی مستحق ہے کیونکہ معبود ہونا صرف اس کا حق ہے جو تکوینی اور تشریعی دونوں اختیار رکھتا ہو) اور آپ کا رب (علم ایسا کامل رکھتا ہے کہ وہ) سب چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو ان کے دلوں میں پوشیدہ رہتا ہے اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں (اور کسی کا ایسا علم بھی نہیں اس سے بھی انفراد ثابت ہوا) اور (آگے اس کی تصریح ہے کہ) اللہ وہی (ذات کامل الصفات) ہے اس کے سوا کوئی معبود (ہونے کے قابل) نہیں حمد (وثناء) کے لائق دنیا و آخرت میں وہی ہے (کیونکہ اس کے تصرفات دونوں عالم میں ایسے ہیں جو اس کے جامع کمالات اور مستحق حمد ہونے پر شاہد ہیں) اور (اختیارات سلطنت اس کے ایسے ہیں کہ) حکومت بھی (قیامت میں) اسی کی ہوگی اور (قوت و وسعت سلطنت اس کی ایسی ہے) کہ تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے (یہ نہیں کہ بچ جاؤ یا اور کہیں جا کر پناہ لے لو اور اس کے اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک رات ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی کو لے آوے (پس قدرت میں بھی وہی منفرد ہے) تو کیا تم (توحید کے ایسے صاف دلائل کو) سنتے نہیں (اور اسی اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان سے اس کے عکس کی نسبت بھی) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک دن ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے رات کو لے آوے جس میں تم آرام پاؤ کیا تم (اس شاہد قدرت کو) دیکھتے نہیں (قدرت میں اس کا منفرد ہونا بھی اس کو مقتضی ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو) اور (وہ منعم ایسا ہے کہ) اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور تاکہ دن میں اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (ان دونوں نعمتوں پر) تم (اللہ کا) شکر کرو (تو انعام و احسان میں بھی وہی منفرد ہے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو۔ ) معارف و مسائل وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ ، اس آیت کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ یختار سے مراد اختیار احکام ہے کہ حق تعالیٰ جبکہ تخلیق کائنات میں مفنرد ہے کوئی اس کا شریک نہیں تو اجرائے احکام میں بھی منفرد ہے جو چاہے اپنی مخلوق میں حکم نافذ فرمائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اختیار تکوینی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اختیار تشریعی میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس کا ایک دوسرا مفہوم وہ ہے جو امام بغوی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ ابن قیم نے زاد المعاد کے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ اس اختیار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہیں اپنے اکرام و اعزاز کے لئے انتخاب فرما لیتے ہیں اور بقول بغوی یہ جواب ہے مشرکین مکہ کے اس قول کا کہ لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ، یعنی یہ قرآن اللہ کو نازل ہی کرنا تھا تو عرب کے دو بڑے شہروں مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل فرماتا کہ اس کی قدر و منزلت پہچانی جاتی، ایک یتیم مسکین پر نازل فرمانے میں کیا حکمت تھی ؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ جس مالک نے تمام مخلوقات کو بغیر کسی شریک کی امداد کے پیدا فرمایا ہے یہ اختیار بھی اسی کو حاصل ہے کہ اپنے کسی خاص اعزاز کے لئے اپنی مخلوق میں سے کسی کو منتخب کرے اس میں وہ تمہاری تجویزوں کا کیوں پابند ہو کہ فلاں اس کا مستحق ہے فلاں نہیں۔ ایک چیز کو دوسری چیز پر یا ایک شخص کو دوسرے پر فضیلت کا معیار صحیح اختیار خداوندی ہے : حافظ ابن قیم نے اس آیت سے ایک عظیم الشان ضابطہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں جو ایک جگہ کو دوسری جگہ پر یا ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے یہ اس چیز کے کسب و عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بلاواسطہ خالق کائنات کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے سات آسمان پیدا کئے ان میں سے سماء علیا کو دوسروں پر فضیلت دے دی حالانکہ مادہ ساتوں آسمانوں کا ایک ہی تھا پھر اس نے جنت الفردوس کو دوسری سب جنتوں پر اور جبرئیل و میکائیل و اسرافیل وغیرہ خاص فرشتوں کو دوسرے فرشتوں پر، اور انبیاء (علیہم السلام) کو دوسرے سارے بنی آدم پر اور ان میں سے اولوالعزم رسولوں کو دوسرے انبیاء پر اور اپنے خلیل ابراہیم اور حبیب محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب بنی ہاشم پر پھر اسی طرح صحابہ کرام اور دوسرے اسلاف امت کو دوسروں پر فضیلت دینا یہ سب حق تعالیٰ جل شانہ کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح زمین کے بہت سے مقامات کو دوسرے مقامات پر اور بہت دنوں اور راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں پر فضیلت دینا یہ سب اسی اختیار اور انتخاب حق جل شانہ کا اثر ہے غرض افضیلت و مفضولیت کا اصل معیار تمام کائنات میں یہی انتخاب و اختیار ہے البتہ افضلیت کا ایک دوسرا سبب انسانی اعمال و افعال بھی ہوتے ہیں اور جن مقامات میں نیک اعمال کئے جاویں وہ مقامات بھی ان اعمال صالحہ یا صالحین عباد کی سکونت سے متبرک ہوجاتے ہیں۔ یہ فضیلت کسب و اختیار اور عمل صالح سے حاصل ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں مدار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک غیر اختیاری ہے جو صرف حق تعالیٰ کا انتخاب ہے دوسرا اختیاری جو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ سے حاصل ہوتا ہے۔ علامہ ابن قیم نے اس موضوع پر بڑا تفصیلی کلام کیا ہے اور آخر میں صحابہ کرام میں سے خلفاء راشدین کو تمام دوسرے صحابہ پر اور خلفاء راشدین میں صدیق اکبر ان کے بعد عمر بن خطاب ان کے بعد عثمان غنی ان کے بعد علی مرتضی (رض) کی ترتیب کو ان دونوں معیاروں سے ثابت کیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (رح) کا بھی ایک مستقل رسالہ فارسی زبان میں اس موضوع پر ہے جس کا اردو ترجمہ احقر نے بنام بعض التفصیل لمسئلتہ التفضیل شائع کردیا ہے اور احکام القرآن سورة قصص میں بھی اس کو بزبان عربی مفصل لکھ دیا ہے۔ اہل علم کے ذوق کی چیز ہے وہاں مطالعہ فرمائیں۔