Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 71

سورة القصص

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمُ الَّیۡلَ سَرۡمَدًا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِضِیَآءٍ ؕ اَفَلَا تَسۡمَعُوۡنَ ﴿۷۱﴾

Say, "Have you considered: if Allah should make for you the night continuous until the Day of Resurrection, what deity other than Allah could bring you light? Then will you not hear?"

کہہ دیجئے! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالٰی تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کے کون معبود ہے جو تمہارے پاس دن کی روشنی لائے؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Night and Day are among the Blessings of Allah and are Signs of Tawhid Allah reminds His servants: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ... Say: "Tell me! If Allah made the night continuous for you till the Day of Resurrection, which god besides Allah could bring you light! Will you not then hear!" Allah reminds His servants of His favors towards them by subjugating for them the night and day, without which they could not survive. He explains that if He made the night continuous, lasting until the Day of Resurrection, that would be harmful for them and would cause boredom and stress. So He says: ... مَنْ إِلَهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاء ... which god besides Allah could bring you light! meaning, `with which you could see things and which would bring you relief.' ... أَفَلَ تَسْمَعُونَ Will you not then hear! Then Allah tells:

سنی ان سنی نہ کرو اللہ کا احسان دیکھو کہ بغیر تمہاری کوشش اور تدبیر کے دن اور رات برابر آگے پیچھے آرہے ہیں اگر رات ہی رات رہے تو تم عاجز آجاؤ تمہارے کام رک جائیں تم پر زندگی وبال ہوجائے تم تھک جاؤ اکتاجاؤ کسی کو نہ پاؤ جو تمہارے لئے دن نکال سکے کہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو ، دیکھو بھالو اپنے کام کاج کرلو ۔ افسوس تم سنا کر بھی بےسناکر دیتے ہو ۔ اسی طرح اگر وہ تم پر دن ہی دن کو روک دے رات آئے ہی نہیں تو بھی تمہاری زندگی تلخ ہوجائے ۔ بدن کا نظام الٹ پلٹ ہوجائے تھک جاؤ تنگ ہوجاؤ کوئی نہیں جسے قدرت ہو کہ وہ رات لاسکے جس میں تم راحت وآرام حاصل کر سکو لیکن تم آنکھیں رکھتے ہوئے اللہ کی ان نشانیوں اور مہربانیوں کو دیکھتے ہی نہیں ہو ۔ یہ بھی اس کا احسان ہے کہ اس نے دن رات دونوں پیدا کردئیے ہیں کہ رات کو تمہیں سکون وآرام حاصل ہو اور دن کو تم کام کاج تجارت ذراعت سفر شغل کر سکو ۔ تمہیں چاہئے کہ تم اس مالک حقیقی اس قادر مطلق کا شکر ادا کرو رات کو اس کی عبادتیں کرو رات کے قصور کی تلافی دن میں اور دن کے قصور کی تلافی رات میں کرلیا کرو ۔ یہ مختلف چیزیں قدرت کے نمونے ہیں اور اس لئے ہیں کہ تم نصیحت وعبرت سیکھو اور رب کا شکر کرو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ ۔۔ :” اَرَءَيْتُمْ “ کا لفظی معنی ہے ” کیا تم نے دیکھا۔ “ عرب اسے ” أَخْبِرُوْنِيْ “ (مجھے بتاؤ) کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، یعنی تم نے دیکھا ہے تو بتاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک اور دلیل اور اس کی نعمتوں میں سے ایک اور نعمت، جس پر وہ حمد کا مستحق ہے، رات دن کا بدلنا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ) [ آل عمران : ١٩٠ ] ” بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ “ فرمایا : ” یہ بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ رات کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی روشنی لے آئے، خواہ کسی قسم کی ہو یا کتنی معمولی ہو۔ “ (بِضِيَاۗءٍ کی تنوین تنکیر و تقلیل کے لیے ہے) یہاں اللہ تعالیٰ نے ” اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ “ (تو کیا تم سنتے نہیں) ذکر فرمایا، جب کہ اگلی آیت میں ”ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ “ (تو کیا تم نہیں دیکھتے) فرمایا۔ ابن ہبیرہ نے فرمایا : ” اس کی حکمت یہ ہے کہ سمع کی سلطنت رات کو ہوتی ہے اور بصر کی دن کو (رات کی تاریکی میں کان سنتے ہیں، آنکھ نہیں دیکھتی اور دن کی روشنی کے ذریعے سے آنکھ دیکھتی ہے، کان نہیں سنتے) ۔ “ (بقاعی) یعنی رات کی اس تاریکی میں، جو ہمیشہ کے لیے قیامت تک مسلط ہو، یہ بات تمہارے کان سن سکتے ہیں کہ اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس کسی بھی طرح کی تھوڑی سے تھوڑی روشنی ہی لے آئے ؟ تو کیا تم سنتے نہیں کہ سن کر سمجھو اور سمجھ کر اللہ کی توحید پر ایمان لے آؤ۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ تم پر قیامت کے دن تک ہمیشہ کے لیے دن کر دے تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے پاس کوئی رات لے آئے جس میں تم راحت اور سکون پاسکو۔ 3 ان آیات میں رات کا ذکر دن سے پہلے فرمایا، کیونکہ رات کے بعد دن آنے کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے۔ انسان کی معیشت کا سارا سلسلہ اسی پر موقوف ہے۔ علاوہ ازیں رات ایک طرح کا عدم ہے اور ضیاء وجود اور ظاہر ہے کہ عدم وجود سے پہلے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قُلْ أَرَ‌أَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْ‌مَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ‌ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ ﴿٧١﴾ قُلْ أَرَ‌أَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ‌ سَرْ‌مَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ‌ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٧٢﴾ Say, |"Tell me, if Allah makes night continuing upon you forever upto the Day of Judgment, which god, other than Allah, would bring to you light? Then do you not listen?|" Say, |"Tell me, if Allah makes the day continuing upon you forever upto the Day of Judgment, which god, other than Allah, would bring to you night in which you may have comfort. Then, do you not see?|" 28:71-72. Allah Ta’ ala has mentioned a benefit of the night in this verse, that it provides rest بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ (28:72). As against this no mention is made about the benefits of day while referring to its light. The reason for this omission is but obvious. It is a well-known fact that the daylight is superior in its entity to darkness. The benefits of daylight are so numerous and well known that their repetition was not prudent. On the contrary the darkness of the night does not have any other benefit except that it provides rest to everything. As a matter of fact, its utility is based on the rest of people, hence that has been mentioned. It is to be noted that after describing daylight it is concluded with أَفَلَا تَسْمَعُونَ (Do you not listen? - 28:71), and after describing the night the concluding expression is أَفَلَا تُبْصِرُ‌ونَ (Do you not see? - 28:72). It may have the allusion that the benefits of the day are so numerous that they cannot be seen, but can only be heard; hence the expression أَفَلَا تَسْمَعُونَ is used. The knowledge and understanding humans have acquired has mainly come through hearing and listening, and very little by way of seeing. The benefits of night are much less as compared to benefits of the day, and they can be seen; hence the expression أَفَلَا تُبْصِرُ‌ونَ (Mazhari)

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ الی قولہ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ آیت میں حق تعالیٰ نے رات کے ساتھ تو اس کا ایک فائدہ ذکر فرمایا، بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ یعنی رات میں انسان کو سکون ملتا ہے اس کے بالمقابل دن کے ذکر میں بضیاء کے ساتھ کوئی فائدہ ذکر نہیں فرمایا سبب ظاہر ہے کہ دن کی روشنی اپنی ذات میں افضل ہے اور ظلم سے روشنی کا بہتر ہونا معلوم و معروف ہے۔ روشنی کے بیشمار فوائد اتنے معروف ہیں کہ ان کے بیان کی ضرورت نہیں، بخلاف رات کے کہ وہ ظلمت اور اندھیری ہی جو اپنی ذات میں کوئی فضیلت نہیں رکھتی بلکہ اس کی فضیلت لوگوں کے سکون و آرام کے سبب سے ہے اس لئے اس کو بیان فرما دیا اور اسی لئے دن کے معاملہ کا ذکر کر کے آخر میں فرمایا اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ اور رات کا معاملہ ذکر کرکے فرمایا اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ اس میں یہ اشارہ ہوسکتا ہے کہ دن کے فضائل و برکات اور اس کے فوائد وثمرات بیشمار ہیں جو احاطہ بصر میں نہیں آسکتے البتہ سنے جاسکتے ہیں اس لئے اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ فرمایا کیونکہ انسانی علم و ادراک کا بڑا ذخیرہ کانوں ہی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، آنکھوں سے دیکھی ہوئی اشیاء ہمیشہ کانوں سے سنی ہوئی اشیاء سے بہت کم ہوئی ہیں اور رات کے فوائد بہ نسبت دن کے فوائد کے کم ہیں وہ دیکھے بھی جاسکتے ہیں اس لئے یہاں اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ کا کلمہ اختیار فرمایا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَيْرُ اللہِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَاۗءٍ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ۝ ٧١ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ سرمد السَّرْمَدُ : الدّائم، قال تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً [ القصص/ 71] ، وبعده : النَّهارَ سَرْمَداً [ القصص/ 72] ( س ر م د ) السرمد کے معنی دائم ( ہمیشہ ) کے ہیں قرآن میں ہے : قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَداً [ القصص/ 71] کہو بھلا دیکھوں تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت کے دن تک رات ( کی تاریکی ) کئے رہے ۔ اسی طرح اس کے بعد کی آیت میں النھار سرمدا فرمایا ہے ۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ضوأ الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة/ 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص/ 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء/ 48] . ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ & فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة/ 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص/ 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء/ 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١) آپ ان کفار مکہ سے کہیے کہ اے گروہ کفار یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لیے قیامت تک تاریک رات رہنے دے تو اللہ کے علاوہ وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لیے دن کی روشنی لے آئے کیا پھر بھی تم اس ذات کی اطاعت نہیں کرتے جس سے تمہارے لیے رات اور دن کو بنایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:71) ارأیتم۔ لفظی معنی ہوں گے کیا تم نے دیکھا۔ الاتقان میں ہے کہ جب ہمزہ استفہام رأیت پر داخل ہوتا ہے تو اس حالت میں رویت کا آنکھوں یا دل سے دیکھنے کے معنی میں آنا ممنوع ہے۔ اور اس کے معنی اخبرنی (مجھ کو خبر دو ) کے ہوتے ہیں۔ ارأیتم۔ بھلا یہ تو بتاؤ ۔ مجھے بتاؤ تو۔ سرمدا۔ ہمیشہ۔ دائم۔ منصوب بوجہ جعل کے مفعول ثانی ہونے کے یا بوجہ الیل کے حال ہونے کے۔ افلا تسمعون۔ ہمزہ استفہام کے لئے ہے ف کا عطف محذوف پر ہے گویا آیت کی تقدیر یوں ہے۔ الا تدبرون الا تسمعون تو کیا تم سوچتے نہیں اور سنتے نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ کہ اسے سمجھو اور راہ ہدایت پائو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ صرف مخلوق کو پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا نظام بھی چلا رہا ہے۔ جس میں مشرکوں کے بنائے ہوئے شریکوں کا ذرا برابر بھی عمل دخل نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ کائنات کے نظام میں لیل و نہار کی گردش کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگر رات اور دن کا سلسلہ نہ ہوتا یا اسے ختم کردیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے یہ رنگینیاں، چہل پہل اور انسان کی ترقی لیل و نہار کے نظام کی وجہ سے ہے۔ دن کی اہمیت اور کی ضرورت واضح ہے، رات کو لیجیے۔ اگر رات اور اس کی نیند نہ ہوتی تو انسان کب تک کام کاج کرسکتا تھا۔ یہ رات ہی کا فائدہ ہے کہ آدمی دن کا تھکا ماندہ سوتا ہے۔ لیکن صبح اٹھتا ہے تو ذہن تازہ، جسم توانا اور ہر شخص اپنا اپنا کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو اس طرح بنایا ہے کہ دنیا کا ایک وسیع و عریض حصہ آرام کرر ہا ہوتا ہے۔ جبکہ لوگوں کا دوسرا حصہ دنیا کا نظام چلا رہا ہوتا ہے۔ یہاں رات ہوتی ہے وہاں انسان ہی نہیں اس وسیع و عریض علاقے کے درندے، پرندے، کیڑے مکوڑے یہاں تک کہ چوپائے بھی آرام کرلیتے ہیں تاکہ صبح تازہ دم ہو کر انسانوں کی خدمت میں لگ جائیں۔ لیل و نہار کی گردش اور آنا جانا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایسی دلیل ہے کہ مشرکوں، خدا کے باغیوں اور کفار کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات مسلط کر دے تو بتاؤ۔ اس کے سوا کوئی ہے جو تمہارے لیے دن کی روشنی لے آئے لیکن پھر بھی تم اس کی قدرت پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دن کو قیامت تک کے لیے طویل کر دے تو بتاؤ کوئی ہے جس رات میں تم سکون پاتے ہو اسے دن میں تبدیل کر دے۔ لیکن پھر بھی تم نگاہ عبرت کے ساتھ اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی قدرتوں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ پھر دیکھو اور غور کرو کہ تمہارے رب کا تم پر کتنا کرم ہے اس نے رات کو تمہارے سکون کے لیے اور دن کو تمہارے کام، کاج کے لیے بنایا۔ تاکہ تم اس کی ذات پر ایمان اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شکر گزار بن جاؤ۔ شکر گزار ہی اپنے رب کے تابعدار ہوا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کو دن اور دن کو رات میں تبدیل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون اور دن کو کام کاج کے لیے بنایا۔ ٣۔ ” اللہ “ کی قدرتوں پر غور کرنا اس پر ایمان لانا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن ” اللہ “ کی عظیم نشانیاں ہیں : ١۔ اللہ نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٢۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ : ٣٧) ٣۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٤۔ بیشک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل ارءیتم ان جعل اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ ولعلکم تشکرون (71 – 74) وگوں کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے رات اور دن کی گردش دیکھ دیکھ کر ان سے اس قدر مانوس ہوگئے ہیں کہ اس گردش کے اندر ان کو کوئی بات نئی نہیں لگتی۔ وہ سورج کے طلوع اور غروب سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ اسی طرح دن کا نمودار ہونا اور رات کا چھا جانا بھی ان کو کچھ زیادہ نہیں کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ گردش لیل و نہار کے اندر انسانوں کے لیے جو فائدے ہیں اور جو رحمتیں ہیں اور جس طرح یہ گردش ان کو تباہی و ہلاکت سے بچاتی ہے ، اکتانے اور تھکانے سے بچاتی ہے۔ یہ باتیں ان کے شعور میں مسحضر نہیں رہتیں۔ قرآن کریم ان کو غفلت کی نیند سے جگاتا ہے ان کو ذرا اس عادی رویہ اور عادی منظر سے دور لے جاتا ہے۔ ان کو متوجہ کرتا ہے کہ تمہارے اردگرد گردش لیل و نہار کی وجہ سے کس قدر عظیم واقعات رونما ہوتے ہیں تو تم توجہ نہیں کرتے ۔ ذرا اتنا سوچو کہ رات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رک گئی یا دن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا۔ تو کس قدر خوفناک نتائج کا سامنا تمہیں کرنا ہوگا۔ انسانوں کو کسی چیز کی قدروقیمت کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ نہیں ہوتی۔ قل ارءیتم ان جعل ۔۔۔۔۔ افلا تسمعون (28: 71) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان سے کہو کبھی تم لوگوں نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو اس میں روشنی لا دے۔ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ “۔ جب سردیوں میں رات قدرے طویل ہوجاتی ہے تو لوگ سپیدہ صبح کے لیے بےتاب ہوجاتے ہیں اور جب سورج تھوڑی دیر کے لیے بادلوں میں چھپ جائے تو یہ آرزوئیں کرنے لگتے ہیں کہ سورج نکل آئے۔ اور اگر روشنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی جائے تو ان کی حالت کیا ہوجائے گی جب رات ہمیشہ کے لیے قیامت تک ان پر مسلط ہوجائے۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ یہ پھر زندہ بھی کسی صورت میں رہ سکیں۔ حالانکہ ایسی صورت میں تو خطرہ یہ ہوگا کہ دنیا سے زندگی کے آثار ہی مٹا دئیے جائیں اور کبھی بھی دن نمودار ہو یا زندگی برقرار ہو۔ قل ارءیتم ان جعل اللہ ۔۔۔۔۔ افلا تبصرون (28: 72) ” ان سے پوچھو ، کبھی تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہیں رات لا دے تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو کیا تم کو سوجھتا نہیں “۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اگر دن ذرا طویل ہوجائے تو وہ سایوں کے تعاقب میں دوڑتے ہیں۔ اور گرمیوں میں دن طویل ہو تو رات کے مشتاق ہوتے ہیں اور رات کی تاریکی میں سکون وقرار تلاش کرتے ہیں۔ جبکہ زندگی رات کس سکون بھی چاہتی ہے جبکہ دوسرے دن ، دن کی سرگرمی دکھائی جاسکے۔ لیکن اگر دن قیامت تک کے لئے جاری کردیا گیا تو لوگوں کی حالت کیا ہوجائے گی۔ پہلے تو وہ ختم ہی ہوجائیں گے اور اگر کسی طرح زندہ رہ گئے تو زندگی کس قدر مشکل ہوجائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ہر چیز ایک مقدر کے مطابق بنائی ہے۔ اور اس جہاں کی چھوٹی اور بڑی ہر چیز کے پیچھے ایک تدبیر ہے اور ہر چیز اللہ نے ایک اندازے کے مطابق بنائی ہے۔ ومن رحمتہ جعل ۔۔۔۔۔ ولعلکم تشکرون (28: 73) ” یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے یہ رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کرو ، شاید کہ تم شکر گزار بنو “۔ پس رات سکون وقرار کے لیے ہے۔ دن سرگرمیوں اور جہدوجہد کے لیے ہے۔ اور دن کے اندر نکتہ توجہ یہ ہے کہ انسان کاروبار کرے اور رحمت الٰہی کی تلاش کرے۔ کیونکہ انسان کما کر ہی اللہ کے فضل سے کوئی چیز بطور شکر دوسروں کو دے سکتا ہے۔ اللہ نے تمہیں گردش لیل و نہار کی جو سہولت دی اس کی نعمت و رحمت ہے۔ پھر رات و دن کا ایک نظام کے ساتھ بدلتے رہنا بھی نعمت ہے اس کائنات کے دوسرے سنن اور قوانین طیبیہ اللہ نے پیدا کیے ہیں ، تم نے نہیں جاری کیے۔ اللہ نے ان قوانین کو اپنے علم و حکمت سے جاری کیا اور تم ان سے غافل ہو۔ یہ سبق قیامت سے ایک ایسے منظر پر ختم ہوتا ہے جو بڑی تیزی سے نظروں کے سامنے سے گزر جاتا ہے۔ اس منظر میں سرزنش کے طور پر مشرکین سے پوچھا گیا کہ کہاں ہیں وہ شریک جن کو تم شریک سمجھتے تھے۔ وہاں ان کو ان کے باطل موقف سے دوچار کیا جاتا ہے۔ سوال و جواب کے اس شرمسار کنندہ موقف میں یہ لوگ پگھل کر رہ جاتے ہیں اور ٹوٹ کر زمین پر گرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چوتھی، پانچویں، چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے بندوں کو اپنی دو بڑی نعمتیں یاد دلائیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دن بھی دیا ہے اور رات بھی دی ہے۔ یہ محض اس کا فضل ہے اور اسی کی قدرت سے لیل و نہار کا آنا جانا ہے۔ وہ اگر چاہے تو قیامت تک ہمیشہ رات ہی رات کر دے دن کبھی نہ آئے اور دن کی روشنی سے تم بالکل محروم ہوجاؤ، اسی طرح اگر وہ ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے رات نہ لائے جس میں تم آرام کرتے ہو تو تم کیا کرسکتے ہو ؟ چونکہ مشرکین غیر اللہ کو بھی عبادت میں شریک کرتے تھے جب کہ انہیں کچھ قدرت اور اختیار نہیں اسی لیے پہلی جگہ میں یوں فرمایا کہ (مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍ ) (کہ اللہ کے سوا کون معبود ہے جو روشنی کو لے آئے) اور دوسری جگہ فرمایا (مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ ) (کہ اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو رات کو لے آئے جس میں تم آرام کرتے ہو) یہ بطور استفہام انکاری ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو رات کو دن سے بدل دے اور دن کو رات سے بد ل دے، تم عقل و فہم اور سمع و بصر سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں فوائد تو بہت ہیں۔ لیکن دن میں معاش حاصل کرنا اور رات کو آرام کرنا دونوں عظیم فائدے ہیں ان کو اجمالاً آخری آیت میں بطور یاد دہانی مکرر بیان فرمایا ہے چناچہ ارشاد ہے (وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) (اور اس کی رحمت سے یہ بات ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات کو بنایا اور دن کو بنایا تاکہ رات کو تم آرام کرو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو) ۔ عام طور سے کسب اموال اور تحصیل رزق کے لیے دن ہی کو اختیار کیا جاتا ہے اور رات کو سکون حاصل ہوتا ہے ان دونوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا لازم ہے اسی لیے آخر میں (وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ یہ تیسری عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ یعنی یہ بات تم بھی جانتے اور مانتے ہو کہ دن رات اللہ کے قبضے میں ہیں۔ اگر وہ چاہے کہ قیامت تک رات ہی رہے اور دن کبھی نہ آئے تو کیا تمہارے معبودوں میں اللہ کے سوا کوئی ایسا کارساز ہے جو تمہیں دن کی روشنی مہیا کرسکے۔ قل ارایتم ان جعل اللہ علیکم النہار الخ یہ چوتھی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم، اسی طرح اگر وہ قیامت تک دن کو طویل کردے تو آرام و راحت کے لیے اللہ کے سوا کوئی رات لاسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ افلا تبصرون۔ کیا تم عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے ہو اور ان دلائل میں غور و فکر کر کے اللہ کی توحید کو نہیں مانتے ہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

71۔ اے پیغمبر آپ ان سے دریافت کیجئے بھلا یہ تو بتائو اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک رات ہی رہنے دے تو اللہ تعالیٰکے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی لے آئے تو کیا تم سنتے نہیں ۔ یعنی آفتاب کی گردش اس طور پر ہو کہ زمین پر اس کی روشنی نہ پڑ سکے تو پھر زمین کو روشن کرنے اور تم کو روشنی دکھانے والا اور کونسا معبود ہے جو تم کو روشنی سے مستفیض کر دے تو تم ان دلائل قدرت کو توجہ کے ساتھ سن کر سمجھتے نہیں چونکہ ہمیشہ کی رات سے استدلال فرمایا تھا تاریکی مناسبت سے اذلات سمعون فرمایا کیونکہ تاریکی میں دکھائی نہیں دیتا البتہ سن سکتا ہے اس لئے اس وسعت قدرت کا حال سنتے نہیں آگے اس کا عکس فرمایا ۔