Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 76

سورة القصص

اِنَّ قَارُوۡنَ کَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰی فَبَغٰی عَلَیۡہِمۡ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنَ الۡکُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَۃِ اُولِی الۡقُوَّۃِ ٭ اِذۡ قَالَ لَہٗ قَوۡمُہٗ لَا تَفۡرَحۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡفَرِحِیۡنَ ﴿۷۶﴾

Indeed, Qarun was from the people of Moses, but he tyrannized them. And We gave him of treasures whose keys would burden a band of strong men; thereupon his people said to him, "Do not exult. Indeed, Allah does not like the exultant.

قارون تھا تو قوم موسیٰ سے ، لیکن ان پر ظلم کرنے لگا تھا ہم نے اسے ( اس قدر ) خزانے دے رکھے تھے کہ کئی کئی طاقتور لوگ بہ مشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے ایک بار اس کی قوم نے کہا کہ اتر امت !اللہ تعالٰی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Qarun and His People's exhortation Allah says: إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَى فَبَغَى عَلَيْهِمْ ... Verily, Qarun was of Musa's people, but he behaved arrogantly towards them. It was recorded that Ibn Abbas said: إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَى Verily, Qarun was of Musa's people, "He was the son of his paternal uncle." This was also the view of Ibrahim An-Nakha`i, Abdullah bin Al-Harith bin Nawfal, Sammak bin Harb, Qatadah, Malik bin Dinar, Ibn Jurayj and others; they all said that he was the cousin of Musa, peace be upon him. Ibn Jurayj said: "He was Qarun bin Yashar bin Qahith, and Musa was the son of Imran bin Qahith." ... وَاتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ ... And We gave him of the treasures, meaning, of wealth; ... مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ ... that of which the keys would have been a burden to a body of strong men. Groups of strong men would not have been able to carry them because they were so many. Al-A`mash narrated from Khaythamah, "The keys of Qarun's treasure were made of leather, each key like a finger, and each key was for a separate storeroom. When he rode anywhere, the keys would be carried on sixty mules with white blazes on their foreheads and white feet." Other views were also given, and Allah knows best. ... إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لاَ تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْفَرِحِينَ Remember when his people said to him: "Do not exult. Verily, Allah likes not those who exult." means, the righteous ones among his people exhorted him. By way of sincere advice and guidance, they said: "Do not exult in what you have," meaning, `do not be arrogant and proud of your wealth.' ... إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْفَرِحِينَ Verily, Allah likes not those who exult. Ibn Abbas said, "This means, those who rejoice and gloat." Mujahid said, "It means those who are insolent and reckless, and do not thank Allah for what He has given them." His saying:

قارون مروی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا کالڑکا تھا ۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور موسیٰ علیہ السلام کانسب یہ ہے موسیٰ بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحق کی تحقیق یہ کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں ۔ یہ بہت خوش آواز تھا ، تورات بڑی خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے ۔ لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ اللہ کا دشمن بھی منافق ہوگیا تھا ۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور اللہ کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو ۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی ۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی ۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے ساتھ خچروں پر لادی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر مقرر ہوتے ، واللہ اعلم ۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ کر اللہ کا ناشکرا نہ ہو ، ورنہ اللہ کی محبت سے دور ہوجاؤ گے ۔ قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو اللہ کی نعمتیں تیرے پاس ہیں انہیں اللہ کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں بھی تیرا حصہ ہوجائے ۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش وعشرت کر ہی نہیں ۔ نہیں اچھا کھا ، پی ، پہن اوڑھ جائز نعمتوں سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حلال چیزیں برت لیکن جہاں اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو نہ بھول وہاں اللہ کے حق بھی فراموش نہ کر ۔ تیرے نفس کا بھی حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے ۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے ۔ ہر حق دار کا حق ادا کر اور جیسے اللہ نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل ڈال اللہ کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا ۔ اللہ فسادیوں سے محبت نہیں رکھتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

761اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔ 762تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔ 763یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔ 76۔4یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] قریش مکہ کا عذر یہ تھا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو عرب مشرک قبائل ان کے دشمن بن جائیں گے۔ نیز ان کا سیاسی اقتدار ہی ختم نہیں ہوگا بلکہ وہ معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔ اگرچہ یہ بات ان کے اسلام نہ لانے کا محض ایک بہانہ تھی۔ تاہم اس میں اتنی حقیقت ضرور تھی کہ قریش سرداروں میں سے اکثر بہت دولتمند اور رئیس تھے۔ ان میں کچھ سود خور بھی تھے اور بہت سے لوگ اپنا سرمایہ شراکت کی بنیاد پر تجارت کرنے والے قافلوں کے افراد کو بھی دیتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے لوٹ مار سے بھی محفوظ رہتے تھے۔ علاوہ ازیں مکہ تجارتی منڈی بھی بنا ہوا تھا۔ لہذا ان میں کئی کروڑ پتی سیٹھ موجود تھے۔ اور جہاں ماحول ہی سارا مادہ پرستانہ ہو اور کسی شخص کی بزرگی اور عزت کو محض دولت کے پیمانوں سے ماپا جاتا ہو۔ وہاں ایسے سیٹھ لوگوں کو جس قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ بالکل ایسی ہی صورت حال قارون کی تھی۔ جو ان سے بڑا سیٹھ تھی۔ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں قارون کی مثال بیان فرمائی ہے۔ قارون صرف یہی نہیں کہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا بلکہ حضرت موسیٰ کا چچازاد بھائی تھا۔ اللہ نے اسے بےپناہ دولت عطا کر رکھی تھی اور وہ پورے علاقے کا رئیس اعظم تھا۔ حضرت موسیٰ نے اس سے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس کی زکوٰ ۃ بھی کروڑوں کے حساب سے بنتی تھی۔ لہذا اس نے زکوٰ ۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا۔ انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ جتنا زیادہ دولت مند بنتا جاتا ہے۔ اتنا ہی وہ ننانوے کے پھیر میں پڑجاتا ہے۔ اپنی تجوریوں سے کچھ نکالنے کے بجائے اس کا یہی جی چاہتا ہے کہ ان میں مزید کچھ ڈالا جائے۔ حضرت موسیٰ کے زکوٰ ۃ کی ادائیگی کے مطالبہ پر نہ صرف یہ کہ اس نے زکوٰ ۃ دینے سے انکار کیا بلکہ بنی اسرائیل سے نکل کر وہ مخالف پارٹی یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے مل گیا۔ آدمی مالدار بھی تھا اور ہوشیار بھی۔ لہذا فرعون کے دربار میں اس نے ممتاز مقام حاصل کرلیا اور فرعون اور ہامان کے بعد تیسرے نمبر پر اسی کا شمار ہونے لگا۔ جیسا کہ سورة مومن کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ میں مذکور ہے کہ : && ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا && (٤٠: ٢٣، ٢٤) [١٠٢] یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ اگر اللہ اسے اپنے انعامات سے نوازے تو وہ اپنے آپ کو عام انسانوں سے کوئی بالاتر مخلوق سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی گفتگو، اس کے لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ غرضیکہ اس کی ایک ایک ادا سے نخوت اور بڑائی ٹپکنے لگتی ہے۔ اور وہ دوسروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتا یہی صورت حال قارون کی تھی۔ بنی اسرائیل کے کچھ بزرگوں نے اسے از راہ نصیحت کہا کہ اگر اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اپنے آپ کو ضبط اور کنٹرول میں رکھو، بات بات پر اترانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي ۔۔ : کفار مکہ کے ایمان قبول نہ کرنے کا بہت بڑا باعث ان کے مالی اور دنیوی مفادات تھے، جس کا اظہار انھوں نے یہ کہہ کر کیا : (اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا) [ القصص : ٥٧ ] ” اگر ہم تیرے ہمراہ اس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے۔ “ یہ لوگ بہت بڑے سیٹھ، ساہو کار اور سرمایہ دار تھے، جنھیں بین الاقوامی تجارت نے قارون وقت بنادیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بہانے کو کئی طرح سے دور فرمایا، جس میں انھیں حرم کی بدولت حاصل نعمتوں کا تذکرہ بھی ہے، اپنی معیشت پر متکبر قوموں کی ہلاکت کا بھی اور اس بات کا بھی کہ دنیا میں تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ صرف دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے۔ اس کی وجہ سے آخرت کا نقصان نہ کرو، جو اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ درمیان میں قیامت کے دن مشرکوں کا حال اور توحید کے کچھ دلائل ذکر فرمائے۔ آخر میں قارون، اس کے مال و دولت، اس کے کفر و تکبر اور اس کے انجام بد کا ذکر فرمایا کہ دنیا کی دولت ایسی چیز نہیں کہ اس کی خاطر آدمی ایمان کی دولت اور ہمیشہ کی سعادت سے محروم رہے۔ اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي : قرآن مجید نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا اور اپنی قوم کے خلاف فرعون کا ساتھی بنا ہوا تھا، جیسے تمام ظالم بادشاہ کسی قوم پر ظلم و ستم کے لیے اسی قوم کے کسی آدمی کو مال و دولت اور عہدہ و مرتبہ دے کر اپنا آلۂ کار بناتے ہیں۔ بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ یہ تورات کا حافظ تھا اور بہت خوب صورت آواز سے تورات پڑھتا تھا، مگر اندر سے منافق تھا۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفر میں اتنا پکا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں میں فرعون کے ساتھ جن دو آدمیوں کا نام لیا ہے ان میں سے ایک قارون تھا، جیسا کہ فرمایا : (وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ) [ المؤمن : ٢٣، ٢٤ ] ” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو انھوں نے کہا، جادوگر ہے، بہت جھوٹا ہے۔ “ (مزید دیکھیے عنکبوت : ٣٩) اس کے مطابق اس کے تورات کا عالم یا منافق ہونے کی بات درست نہیں۔ فَبَغٰى عَلَيْهِمْ ۠ : اس سے بڑی سرکشی کیا ہوگی کہ وہ اپنی ہی قوم کے خلاف ایسے شخص کا دست و بازو بن گیا جو ان کے لڑکے ذبح کرتا تھا، ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا اور انھیں بدترین سزائیں دیتا تھا۔ وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ ظالموں کو جو مال ملتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتا ہے، جس میں ان کی آزمائش اور ان پر حجت پوری کرنے کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ” اَلْعُصْبَۃُ “ غیر معین آدمیوں کی جماعت۔ اسے ” عُصْبَۃٌ“ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کا ہر فرد دوسرے کے لیے قوت کا باعث ہوتا ہے۔ عرف میں دس سے لے کر چالیس آدمیوں کی جماعت کو کہتے ہیں۔ ” مَفَاتِحُ “ ” مِفْتَحٌ“ کی جمع ہے، چابیاں۔ یعنی ہم نے قارون کو اتنے خزانے دیے تھے جن سے بھرے ہوئے کمروں کے تالوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر اٹھانے میں بھاری تھیں۔ تفاسیر میں ان خزانوں کی عجیب و غریب تفصیل مذکور ہے، جس کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ صاحب کشّاف نے فرمایا : ” اس کے اموال کی کثرت کے بیان میں مبالغے کے کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی ” اَلْکُنُوْزُ ، اَلْمَفَاتِحُ ، اَلنَّوْءُ (بھاری ہونا) اَلْعُصْبَۃُ ، أُوْلِی الْقُوَّۃِ “ اس سے ان اموال کا بہت زیادہ ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ “ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ ۔۔ : انسان کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازے تو وہ ان پر پھول جاتا ہے، اس کی گفتگو، اس کا لباس، اس کی چال ڈھال، اس کے رنگ ڈھنگ، غرض اس کی ایک ایک ادا سے کبر و غرور ٹپکنے لگتا ہے۔ یہی حال قارون کا ہوا، بنی اسرائیل کے نیک بزرگ اور عالم لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت دی ہے تو اپنے آپ میں رہ، اسے اللہ کی نافرمانی میں خرچ مت کر اور پھول مت جا، اللہ تعالیٰ پھول جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary From the beginning of Surah Al-Qasas to this point, the story of Sayyidna Musa (علیہ السلام) with the Pharaoh and his people was narrated. From here onward another story about his is being related which is about Qarun, who belonged to his own fraternity. This story has an affinity with the previous verses in that it was said in an earlier verse that the wealth you are given in this world is temporary, and it is not wise to get involved in its love. وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (And whatever thing you are given is the enjoyment of the worldly life - 28:60). Now in the story of Qarun it is described that he forgot this caution after having received the wealth and got so much intoxicated by it that he displayed ingratitude and rejected to fulfill his obligations toward Allah Ta’ ala with regard to bounties he had received from Him. As a consequence of that, he was sunk in the ground along with his treasure. Qarun is a non-Arabic word, perhaps from Hebrew. It is stated in the Qur&an itself that he belonged to the fraternity of Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، Bani Isra&il. As for his actual relationship with Musa (علیہ السلام) ، there are different versions. In a narration of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) he is mentioned as a cousin of Sayyidna Musa (علیہ السلام) . There are some other versions also beside this. (Qurtubi and Ruh). A narration of Muhammad Ibn Ishaq, reproduced in Ruh ul-Ma’ ani, has observed that Qarun remembered Torah more than any other Isra&ili, but turned out to be a hypocrite like Samiri. The cause of his hypocrisy was his misplaced love and greed for worldly wealth and status. Leadership of the entire Bani Isra’ il was conferred on Sayyidna Musa (علیہ السلام) and his brother, Sayyidna Harun (علیہ السلام) ، who was his assistant and partner in prophethood. Hence, Qarun got jealous that after all he was also a cousin, but why did he not have a share in the leadership. So, he made a complaint to that effect before Sayyidna Musa (علیہ السلام) . He replied that it was all from Allah Ta’ ala, and he had no power in this matter. But Qarun was not convinced on this reply and developed jealousy against Sayyidna Musa (علیہ السلام) . فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ (Then he rebelled against them - 28:76). There are quite a few meanings of the word بَغَىٰ Bagha. The more popular meaning is to commit cruelty. It is possible to take this word in this meaning here. Thus the meaning of the sentence would be that having got intoxicated by his wealth, he started perpetrating cruelty on people. Yahya Ibn Sallam and Said Ibn Al-Musayyab have stated that Qarun was a wealthy man, and was appointed by the Pharaoh to keep vigilance on Bani Isra&il. Taking advantage of this position, he started harassing Bani Isra&il. (Qurtubi) The other meaning of Bagha is conceit or arrogance. Many a commentators have adopted this meaning here. Hence, the meaning of the verse would be that having got intoxicated by his wealth, he became conceited and looked down upon Bani Isra&il. وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ (And We had given to then such treasures – 28 – 76. Kunuz کَنُوز is the plural of کَنز (Kanz), which means buried treasure. In the commonly used religious sense Kanz is that treasure on which zakah is not paid. Sayyidna &Ata& (رض) has narrated that he got hold of a magnificent buried treasure of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) . (Ruh) لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ (would weigh too heavy for a strong group - 28:76). The word نَاَء (Na’ a) means to bend down with weight, and عُصْبَةِ &Usbah& means a group. The meaning of the sentence is that his treasures were so many and their keys were in such large number, that if a group of strong people would try to lift them, they would bend down under their weight. Normally the keys of the locks are light, but because of their large number, their weight had multiplied so much that it was not possible even for a group of strong persons to lift them all. (Ruh) لَا تَفْرَ‌حْ (Do not exult - 28:76). Literal meaning of the word فَرَح (Farah) is the happiness one gets as a result of an instant pleasure. Many a Qur&anic verses have declared Farah as contemptible, as in this very verse also إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِ‌حِينَ (Allah does not like the exultant - 28:76). In another verse it is said لَا تَفْرَ‌حُوا بِمَا آتَاكُمْ (nor rejoice in what has come to you - 57:23). Yet another verse says فَرِ‌حُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا (And they are happy with the worldly life - 13:26). But in some verses Farah is allowed, rather in a way it is declared as desirable. For example in verses, يَوْمَئِذٍ يَفْرَ‌حُ الْمُؤْمِنُونَ (And on that day the believers will rejoice - 30:4) and فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَ‌حُوا (with these they should rejoice - 10:58). All these verses put together give us the guideline that Farah is contemptible and is not allowed when it reaches the level of arrogance and boasting. Thus one gets to a point where he regards the attainment of pleasure as his own personal achievement, and not a gift and favour from Allah Ta’ ala. But if the happiness and pleasure does not get to that position, then it is not disallowed; rather in a way it is desirable. In such a situation happiness would be to express the gratitude to Allah Ta’ ala.

خلاصہ تفسیر قارون (کا حال دیکھ لو کہ کفر و خلاف کرنے سے اس کو کیا ضرر پہنچا اور اس کا مال و متاع کچھ کام نہ آیا بلکہ اس کے ساتھ اس کا مال و متاع بھی برباد ہوگیا، مختصر اس کا قصہ یہ ہے کہ وہ) موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری میں سے (یعنی بنی اسرائیل میں سے، بلکہ ان کا چچا زاد بھائی) تھا (کذا فی الدر) سو وہ کثرت مال کی وجہ سے) ان لوگوں کے مقابل ہمیں تکبر کرنے لگا اور (مال کی اس کے پاس یہ کثرت تھی کہ) ہم نے ان اس کو اس قدر خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں کئی کئی زور آور شخصوں کو گرانبار کردیتی تھیں (یعنی ان سے بتکلف اٹھتی تھیں تو جب کنجیاں اس کثرت سے تھیں تو ظاہر ہے کہ خزانے بہت ہی ہوں گے اور یہ تکبر اس وقت کیا تھا) جبکہ اس کو اس کی برادری نے (سمجھانے کے طور پر کہا) کہ تو (اس مال و حشمت) پر اترا مت واقعی اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور (یہ بھی کہا کہ) تجھ کو خدا نے جتنا دے رکھا ہے اس میں عالم آخرت کی بھی جستجو کیا کر اور دنیا سے اپنا حصہ (آخرت میں لے جانا) فراموش مت کر اور (مطلب ابتغ ولا تنس کا یہ ہے کہ) جس طرح اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی (بندوں کے ساتھ) احسان کیا کر اور (خدا کی نافرمانی اور حقوق واجبہ ضائع کر کے) دنیا میں فساد کا خواہاں مت ہو (یعنی گناہ کرنے سے دنیا میں فساد ہوتا ہے کقولہ تعالیٰ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاس بالخصوص متعدی گناہ) بیشک اللہ تعالیٰ اہل فساد کو پسند نہیں کرتا (یہ سب نصیحت مسلمانوں کی طرف سے ہوئی۔ غالباً یہ مضامین موسیٰ (علیہ السلام) نے اول فرمائے ہوں گے پھر مکرر دوسرے مسلمانوں نے ان کا اعادہ کیا ہوگا) قارون (یہ سن کر) کہنے لگا کہ مجھ کو یہ سب کچھ میری ذاتی ہنر مندی سے ملا ہے (یعنی میں وجوہ و تدابیر معاش کی خوب جانتا ہوں اس سے میں نے یہ سب جمع کیا ہے پھر میرا تفاخر بیجا نہیں اور نہ اس کو غیبی احسان کہا جاسکتا ہے اور نہ کسی کا اس میں کچھ استحقاق ہوسکتا ہے آگے اللہ تعالیٰ اس کے اس قول کو رد فرماتے ہیں کہ) کیا اس (قارون) نے (اخبار متواتر سے) یہ نہ جانا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے امتوں میں ایسے ایسوں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت (مالی) میں (بھی) اس سے کہیں بڑھے ہوئے تھے اور مجمع (بھی اس سے) ان کا زیادہ تھا اور (صرف یہی نہیں کہ بس ہلاک ہو کر چھوٹ گئے ہوں بلکہ بوجہ ان کے ارتکاب جرم کفر اور اللہ تعالیٰ کو یہ جرم معلوم ہونے کے قیامت میں بھی معذب ہوں گے جیسا وہاں کا قاعدہ ہے کہ) اہل جرم سے ان کے گناہوں کا (تحقیق کرنے کی غرض سے) سوال نہ کرنا پڑے گا (کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ سب معلوم ہے گو زجر و تنبیہ کے لئے سوال ہو لقولہ تعالیٰ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ مطلب یہ کہ اگر قارون اس مضمون پر نظر کرتا تو ایسی جہالت کی بات نہ کہتا کیونکہ پچھلی قوموں کے حالات عذاب سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور مواخذہ اخرویہ سے اسی کا احکم الحاکمین ہونا ظاہر ہے، پھر کسی کو کیا حق ہے کہ اللہ کی نعمت کو اپنی ہنرمندی کا نتیجہ بتلائے اور حقوق واجبہ سے انکار کرے) پھر (ایک بار ایسا اتفاق ہوا کہ) وہ اپنی آرائش (اور شان) سے اپنی برادری کے سامنے نکلا جو لوگ اس کی برادری میں) دنیا کے طالب تھے (گو مومن ہوں جیسا ان کے اگلے قول وَيْكَاَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الخ سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے وہ لوگ) کہنے لگے کیا خوب ہوتا کہ ہم کو بھی وہ ساز و سامان ملا ہوتا جیسا قارون کو ملا ہے واقعی وہ بڑا صاحب نصیب ہے (یہ تمنا حرص کی تھی، اس سے کافر ہونا لازم نہیں آتا، جیسا اب بھی بعضے آدمی باوجود مسلمان ہونے کے شب و روز دوسری قوموں کی ترقیاں دیکھ کر للچاتے ہیں اور اس کی فکر میں لگے رہتے ہیں) اور جن لوگوں کو (دین کی) فہم عطا ہوئی تھی وہ (ان حریصوں سے) کہنے لگے ارے تمہارا ناس ہو تم اس دنیا پر کیا جاتے ہو) اللہ تعالیٰ کے گھر کا ثواب ( اس دنیوی کرّ و فر سے) ہزار درجہ بہتر ہے جو ایسے شخص کو ملتا ہے کہ ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور (پھر ایمان و عمل صالح والوں میں سے بھی) وہ (ثواب کامل طور پر) ان ہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جو (دنیا کی حرص و طمع سے) صبر کرنے والے ہیں (پس تم لوگ ایمان کی تکمیل اور عمل صالح کی تحصیل میں لگو اور حد شرعی کے اندر دنیا حاصل کر کے زائد کی حرص و طمع سے صبر کرو) پھر ہم نے اس قارون کو اور اس کے محل سرائے کو (اس کی شرارت بڑھ جانے سے) زمین میں دھنسا دیا سو کوئی ایسی جماعت نہ ہوئی جو اس کو اللہ (کے عذاب) سے بچا لیتی (گو وہ بڑی جماعت والا تھا) اور نہ وہ خود ہی اپنے کو بچا سکا اور کل (یعنی پچھلے قریب زمانہ میں) جو لوگ اس جیسے ہونے کی تمنا کر رہے تھے وہ (آج اس کے خسف کو دیکھ کر) کہنے لگے بس جی یوں معلوم ہوتا ہے کہ (رزق کی فراخی اور تنگی کا مدار خوش نصیبی یا بدنصیبی پر نہیں ہے بلکہ یہ تو محض حکمت تکوینیہ سے اللہ ہی کے قبضہ میں ہے بس) اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے زیادہ روزی دے دیتا ہے اور (جس کو چاہے) تنگی سے دینے لگتا ہے (یہ ہماری غلطی تھی کہ اس کو خوش نصیبی سمجھتے تھے ہماری توبہ ہے اور واقعی) اگر ہم بھی مرتکب ہوئے تھے) بس جی معلوم ہوا کہ کافروں کو فلاح نہیں ہوتی (گو چند روز مزے لوٹ لیں مگر انجام پھر خسران ہے بس فلاح معتدبہ اہل ایمان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ ) معارف ومسائل سورة قصص کے شروع سے یہاں تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ قصہ مذکور تھا جو ان کو فرعون اور آل فرعون کے ساتھ پیش آیا، یہاں ان کا دوسرا قصہ بیان ہوتا ہے جو اپنی برادری کے آدمی قارون کے ساتھ پیش آیا اور مناسبت اس کی سابقہ آیتوں سے یہ ہے کہ پچھلی آیت میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ دنیا کی دولت و مال جو تمہیں دیا جاتا ہے وہ چند روزہ متاع ہے اس کی محبت میں لگ جانا دانشمندی نہیں۔ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا الآیتہ، قارون کے قصہ میں یہ بتلایا گیا کہ اس نے مال و دولت حاصل ہونے کے بعد اس نصیحت کو بھلا دیا اس کے نشہ میں مست ہو کر اللہ تعالیٰ کی ناشکری بھی کی اور مال پر جو حقوق واجبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہیں ان کی ادائیگی سے منکر بھی ہوگیا جس کے نتیجہ میں وہ اپنے خزانوں سمیت زمین کے اندر دھنسا دیا گیا۔ قارون ایک عجمی لفظ غالباً عبرانی زبان کا ہے اس کے متعلق اتنی بات تو خود الفاظ قرآن سے ثابت ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری بنی اسرائیل ہی میں سے تھا۔ باقی یہ کہ اس کا رشتہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا تھا اس میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں اس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی قرار دیا ہے اور بھی کچھ اقوال ہیں۔ (قرطبی و روح) روح المعانی میں محمد بن اسحاق کی روایت سے نقل کیا ہے کہ قارون تورات کا حافظ تھا اور دوسرے بنی اسرائیل سے زیادہ اس کو تورات یاد تھی مگر سامری کی طرح منافق ثابت ہوا اور اس کی منافقت کا سبب دنیا کے جاہ و عزت کی بیجا حرص تھی۔ پورے بنی اسرائیل کی سیادت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حاصل تھی اور ان کے بھائی ہارون ان کے وزیر اور شریک نبوت تھے اس کو یہ حسد ہوا کہ میں بھی تو ان کی برادری کا بھائی اور قریبی رشتہ دار ہوں میرا اس سیادت و قیادت میں کوئی حصہ کیوں نہیں۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی شکایت کی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے مجھے اس میں کچھ دخل نہیں مگر وہ اس پر مطمئن نہ ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے حسد رکھنے لگا۔ فَبَغٰى عَلَيْهِمْ ، لفظ بغی چند معانی کے لئے آتا ہے۔ مشہور معنے ظلم کے ہیں، یہاں یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ اس نے اپنے مال و دولت کے نشہ میں دوسروں پر ظلم کرنا شروع کیا، یحی بن سلام اور سعید بن مسیب نے فرمایا کہ قارون سرمایہ دار آدمی تھا، فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کی نگرانی پر مامور تھا، اس امارات کے عہدے میں اس نے بنی اسرائیل کو ستایا۔ (قرطبی) اور دوسرے معنے تکبر کے بھی آتے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے اس جگہ یہی معنی قرار دیئے ہیں کہ اس نے مال و دولت کے نشہ میں بنی اسرائیل پر تکبر شروع کیا اور ان کو حقیر و ذلیل قرار دیا۔ وَاٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ ، کنوز، کنز کی جمع ہے۔ مدفون خزانہ کو کہا جاتا ہے اور اصطلاح شرع میں کنز وہ خزانہ ہے جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی ہو۔ حضرت عطاء سے روایت ہے کہ اس کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ایک عظیم الشان مدفون خزانہ مل گیا تھا۔ (روح) لَتَنُوْۗاُ بالْعُصْبَةِ نَاءَ کا لفظ بوجھ سے جھکا دینے کے معنی میں آتا ہے اور عصبہ کے معنی جماعت کے ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ اس کے خزانے اتنے زیادہ تھے کہ ان کی کنجیاں اتنی تعداد میں تھیں کہ ایک قوی جماعت بھی ان کو اٹھائے تو بوجھ سے جھک جائے اور ظاہر ہے کہ قفل کی کنجی بہت ہلکے وزن کی رکھی جاتی ہے جس کا اٹھانا اور پاس رکھنا مشکل نہ ہو مگر کثرت عدد کے سبب یہ اتنی ہوگی تھیں کہ ان کا وزن ایک قوی جماعت بھی آسانی سے نہ اٹھا سکے۔ (روح) لَا تَفْرَحْ فرح کے لفظی معنے اس خوشی کے ہیں جو انسان کو کسی لذت عاجلہ کے سبب حاصل ہو۔ قرآن کریم نے بہت سی آیات میں فرح کو مذموم قرار دیا جیسا کہ ایک اسی آیت میں ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ اور ایک آیت میں لَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰىكُمْ اور ایک آیت میں ہے فَرِحُوْا بالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا اور بعض آیات میں فرح کی اجازت بلکہ ایک طرح کا امر بھی وارد ہوا ہے جیسے وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ میں اور آیت فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا میں ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیات کے مجموعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذموم اور ممنوع وہ فرح ہے جو اترانے اور تکبر کرنے کی حد تک پہنچ جائے اور وہ جبھی ہوسکتا ہے کہ اس لذت و خوشی کو وہ اپنا ذاتی کمال اور ذاتی حق سمجھے اللہ تعالیٰ کا انعام و احسان نہ سمجھے اور جو خوشی اس حد تک نہ پہنچے وہ ممنوع نہیں بلکہ ایک حیثیت سے مطلوب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی شکر گزاری ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰي فَبَغٰى عَلَيْہِمْ۝ ٠۠ وَاٰتَيْنٰہُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْۗاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِي الْقُوَّۃِ۝ ٠ۤ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ۝ ٧٦ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی كنز الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة/ 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة/ 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود/ 12] أي : مال عظیم . ( ک ن ز ) الکنز ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة/ 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة/ 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود/ 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں مِفْتَاحُ والمِفْتَحُ وَالمِفْتَاحُ : ما يفتح به، وجمعه : مَفَاتِيحُ ومَفَاتِحُ. وقوله : وَعِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ [ الأنعام/ 59] ، يعني : ما يتوصّل به إلى غيبه المذکور في قوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ [ الجن/ 26- 27] . وقوله : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ [ القصص/ 76] ، قيل : عنی مفاتح خزائنه . وقیل : بل عني بالمفاتح الخزائن أنفسها . وباب فَتْحٌ: مَفْتُوحٌ في عامّة الأحوال، وغلق خلافه . وروي : ( من وجد بابا غلقا وجد إلى جنبه بابا فتحا) «2» وقیل : فَتْحٌ: واسع . المفتح والمفتاح ( کنجی ) وہ چیزیں جس کے ساتھ کسی چیز کو کھولا جائے اس کی جمع مفاتح ومفاتیح آتی ہے اور آیت وَعِنْدَهُ مَفاتِحُ الْغَيْبِ [ الأنعام/ 59] اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ۔ میں مفاتح سے وہ سائل مراد ہیں جن کے ذریعہ اس غیب تک رسائی ہوتی ہے جس کا ذکر آیت فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ [ الجن/ 26- 27] اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے ۔ میں ہے اور آیت کریمہ : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ [ القصص/ 76] اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔ میں مفاتح سے بعض کے نزیدیک خزانوں کی چابیاں مراد ہیں اور بعض نے خزانے ہی مراد لئے ہیں ۔ عام طور پر باب فتح کے معنی مفتوح کے آتے ہیں اور یہ غلق کی ضد ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جس سے ایک دروازہ بند ہوجائے تو اس کے لئے دوسرا دروازہ کھلا ہے اور بعض کے نزدیک فتح بمعنی واسع ہے ۔ نوء يقال : ناء بجانبه ينوء ويناء . قال أبو عبیدة : ناء مثل ناع . أي : نهض، وأَنَأْتُهُ : أنهضته . قال تعالی: ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] . ( ن و ء ) ناء بجانبہ ینوء ویناء کے معنی پہلو پھیر لینے کے ہیں ۔ ابوعبیدہ کے نزدیک ناء مثل ناع کے ہے جس کے معنی اٹھنے کے ہیں اور آنائہ کے معنی اٹھانے کے قرآن پاک میں ہے : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔ عُصْبَةُ والعُصْبَةُ : جماعةٌ مُتَعَصِّبَةٌ متعاضدة . قال تعالی: لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] ، وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف/ 14] ، أي : مجتمعة الکلام متعاضدة، ( ع ص ب ) العصب العصبۃ وہ جماعت جس کے افراد ایک دوسرے کے حامی اور مدد گار ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] ایک طاقتور جماعت وٹھانی مشکل ہوتیں ۔ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ [يوسف/ 14] حالانکہ ہم جماعت کی جماعت ) ہیں ۔ یعنی ہم باہم متفق ہیں اور ایک دوسرے یکے یاروں مددگار قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچازاد بھائی تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے مقابلہ میں تکبر کرنے لگا اور کہنے لگا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رسالت اور ہارون کو دانش مندی مل گئی اور مجھے کچھ بھی نہیں ملا میں تو اس چیز پر راضی نہیں ہوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت انکار کردیا اور ہم نے اس کو دولت کے اس قدر خزانے دیے تھے کہ اس کے خزانوں کی چابیاں کئی کئی طاقت آور آدمیوں کو گرانبار کردیتی تھیں یعنی چالیس آدمیوں سے بھی اس کے خزانوں کی چابیاں نہیں اٹھتی تھیں جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اس سے کہا کہ تو دولت کی وجہ سے تکبر مت کر اور شرک مت کر اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی) ” تورات میں اس شخص کا نام Qaurah لکھا گیا ہے۔ ممکن ہے تلفظ کے اختلاف کی وجہ سے یہ فرق پیدا ہوا ہو۔ بہر حال اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ یہاں قارون نامی شخص کے حوالے سے جس کردار اور رویے ّ کا ذکر کیا گیا ہے وہ محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جو کسی محکوم قوم کے اندر حکمرانوں کے ہاتھوں جنم لیتا ہے اور ان کے سائے میں نشوونما پاتا ہے۔ دراصل کسی بھی ملک میں فاتح اور غاصب حکمرانوں کا طرز حکمرانی ظلم و ناانصافی سے عبارت ہوتا ہے۔ ایسے نظام میں عزت و شرافت کے نئے معیار جنم لیتے ہیں۔ سورة النمل کی آیت ٣٤ میں ملکہ سبا کی زبانی غاصب بادشاہوں کے کردار پر اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے : (اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَآ اَذِلَّۃً ج) ” بلاشبہ جب بادشاہ کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد برپا کردیتے ہیں ‘ اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ “ غاصب حکمران ہمیشہ خوف اور لالچ کے ذریعے عوام کے اندر سے اپنے حمایتی پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں محکوم قوم کے گھٹیا اور بےغیرت قسم کے لوگ اپنی قوم سے غداری کر کے اپنے آقاؤں سے مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سورة النمل کی مذکورہ آیت کے ضمن میں برصغیر پاک و ہند کے غیر ملکی حکمرانوں کی مثال دی جا چکی ہے۔ برصغیر میں انگریزوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی لوگوں میں سے ایک ایسا ہی طبقہ پیدا کیا تھا۔ ان لوگوں کو جاگیریں دی گئیں ‘ بڑے بڑے ٹھیکے الاٹ کیے گئے ‘ خطابات سے نوازا گیا ‘ اعلیٰ مناصب پر بٹھایا گیا اور یوں ان کی غیرتوں اور وفاداریوں کو خرید کر ان کو خود ان ہی کی قوم کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اسی طرح فرعون کی عملداری میں بنی اسرائیل کے اندر بھی ایک ایسا ضمیر فروش طبقہ پیدا ہوچکا تھا اور قارون اسی طبقے کا ایک ” معزز فرد “ تھا۔ یہ شخص نہ صرف بنی اسرائیل میں سے تھا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا حقیقی چچا زاد تھا۔ فرعون کے دربار میں اس کو خاص امتیازی مقام حاصل تھا۔ اپنی اس حیثیت سے فائدہ اٹھا کر اس نے اس قدر دولت اکٹھی کر رکھی تھی کہ اس اعتبار سے اس کا نام ضرب المثل کا درجہ رکھتا تھا ‘ جیسے آج ہمارے ہاں کے بعض سیاسی کردار بھی دولت سمیٹنے میں علامتی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ (فَبَغٰی عَلَیْہِمْص) ” اس نے اپنی قوم سے غداری کی اور فرعون کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے خلاف ظلم و زیادتی پر مبنی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ (وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْٓ ءُ ا بالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِق) ” اس سے اگر آج کل کی چابیوں کا تصور ذہن میں رکھیں تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اس کو یوں سمجھیں کہ پرانے زمانے میں آج کل کی طرز کے تالے تو نہیں ہوتے تھے۔ لہٰذا پھاٹک نما دروازوں کو بند کرنے کے لیے بڑی بڑی لکڑیوں یا دھات کے ” اڑنگوں “ کو مخصوص طریقے سے ان کے اندر پھنسانے کا انتظام کیا جاتا ہوگا اور ان ہی کو ان دروازوں کی چابیاں کہا جاتا ہوگا۔ بہر حال اس جملے کا عمومی مفہوم یہی ہے کہ اس شخص کے پاس بےانتہا دولت تھی۔ (اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ ) ” ظاہر ہے ہر معاشرے میں کچھ بھلے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ جیسے ہم سورة الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کا واقعہ پڑھ آئے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص درویش صفت اور عارف باللہ تھا جبکہ دوسرا مال مست تھا جو اپنی دولت کے گھمنڈ میں اللہ کو بھی بھلا بیٹھا تھا۔ بہر حال کچھ بھلے لوگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ تم اپنی دولت پر اترایا نہ کرو۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ ان آیات میں دولت مند لوگوں کے لیے پانچ انتہائی مفید نصیحتیں بیان کی گئی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس بہت سی دولت جمع ہوگئی ہو انہیں ان نصیحتوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ان میں سے پہلی نصیحت تو یہی ہے کہ اپنی دولت پر اتراؤ نہیں۔ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ ) ” اس کے بعد دوسری نصیحت نوٹ کریں :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94 This fact also is being related in continuation of the answer to the excuse which has been the theme of the discourse from verse 57 onward. In this regard, one should bear in mind the fact that the people who feared that the Holy Prophet Muhammad's message would affect the overall national interests adversely were, in fact, the big money owners, money-lenders and capitalists of Makkah, who by virtue of their international trade and money-lending business had become the Korahs of their time. These were the people who thought that the real truth was to earn and amass maximum wealth. Anything that seemed to vitiate this object was an untruth which could not be accepted in any case. On the other hand, there were the common people who looked with longing eyes at these magnates and earnestly desired that they should also attain the same heights as those people had attained. In an atmosphere charged with the love of money, as it was, people considered it to be a weighty argument that if the invitation of the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace) towards Tauhid and the Hereafter and the moral code was accepted it would spell ruin for the Quraish not only commercially but economically too. 95 Qarun who has been called Korah in the Bible and the Talmud was a first cousin of the Prophet Moses. According to the account of descent given in Exodus (ti: 18-21) the fathers of the Prophet Moses and Korah were real brothers. At another place in the Qur'an it has been stated that this man had joined with Pharaoh inspite of being an Israelite and become one of his favourites; so much so that one of the two ring-leaders of opposition to Prophet Moses after Pharaoh was this same Korah: "We sent Moses to Pharaoh and Haman and Korah with Our Signs and a clear authority of appointment, but they said, `He is a sorcerer, a liar'." (Al-Mu'min :23-24). From this it follows that Korah had rebelled against his own people and become a supporter of the hostile forces which were bent upon wiping out the Israelites. On account of this rebellion against his own people he had attained a high place with Pharaoh and the two persons, besides Pharaoh, to whom the Prophet Moses had been sent were Pharaoh's minister, Haman, and this Israelite capitalist, Korah. All other chiefs and couriers were of inferior status, who were not worth mentioning. The same position of Korah has been alluded to in Al' Ankabut: 39. 96 In the story related of him in the Bible (Num., ch. 16), there is no mention of this man's wealth. But according to the Jewish traditions, he possessed immense wealth, so much so that three hundred mules were required to Barry the keys of his' treasures. (Jewish Encyclopedia, Vol. VII, p. 556). Though greatly exaggerated this statement shows that even according to the Israelite traditions, Korah was a very wealthy man of his time.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 94 یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اسی عذر کے جواب میں بیان کیا جارہا ہے جس پر آیت نمبر 57 سے مسلسل تقریر ہو رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قومی مفاد پر ضرب لگنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا وہ دراصل مکہ کے بڑے بڑے سیٹھ ، ساہبوکار اور سرمایہ دار تھے ، جنہیں بین الاقوامی تجارت اور سود خواری نے قارون وقت بنا رکھا تھا ، یہی لوگ اپنی جگہ یہ سمجھنے بیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹو ، اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے کا اندیشہ ہو وہ سراسر باطل ہے جسے کسی حال میں قبول نہیں کیا جاسکتا ، دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کو آرزو بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور ان کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پر یہ لوگ پہنچے ہوئے ہیں ، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہوجائے ، اس زر پرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جارہی تھی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جس توحید و آخرت کی اور جس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے تو قریش کی عظمت کا یہ فلک بوس قصر زمین پر آرہے گا اور تجارتی کاروبار تو درکنار جینے تک کے لالے پڑ جائیں گے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 95 قارون ، جس کا نام بائیبل اور تلمود میں قورح ( Korah ) بیان کیا گیا ہے ، حضرت موسی علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا ، بائیبل کی کتاب خروج ( باب 6 ۔ آیت 18 ۔ 21 ) میں جو نسب نامہ درج ہے اس کی رو سے حضرت موسی اور قارون کے والد باہم سگے بھائی تھے ، قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے ہونے کے باوجود فرعون کے ساتھ جا ملا تھا اور اس کا مقرب بن کر اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ موسی علیہ السلام کی دعوت کے مقابلے میں فرعون کے بعد مخالفت کے جود و سب سے بڑے سرغنے تھے ان میں سے ایک یہی قارون تھا: وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ، اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ( المومن ۔ آیت 23 ۔ 24 ) ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا ، مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہوکر اس دشمن طاقت کا پٹھو بن گیا تھا جو بنی اسرائیل کو جڑ بنیاد سے ختم کردینے پر تلی ہوئی تھی ۔ اور اس قوم کی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میں یہ مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت موسی فرعون کے علاوہ مصر کی جن دو بڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دو ہی تھیں ، ایک فرعون کا وزیر ہامان ، اور دوسرا یہ اسرائیلی سیٹھ ۔ باقی سب اعیان سلطنت اور درباری ان سے کم تر درجے میں تھے جن کا خاص طور پر نام لینے کی ضرورت نہ تھی ۔ قارون کی یہی پوزیشن سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 39 میں بھی بیان کی گئی ہے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 96 بائیبل ( گنتی ، باب 16 ) اس کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں اس شخص کی دولت کا کوئی ذکر نہیں ہے ، مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کا مالک تھا حتی کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھانے کے لیے تین سو خچر درکار ہوتے تھے ( جیوش انسائیکلوپیڈیا ، ج 7 ۔ ص 556 ) یہ بیان اگرچہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے ، لیکن اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی روایات کی رو سے بھی قارون اپنے وقت کا بہت بڑا دولت مند آدمی تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: اتنی بات تو خود قرآن کریم سے واضح ہے کہ قارون بنو اسرائیل ہی کا ایک شخص تھا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے فرعون نے اس کو بنو اسرائیل کی نگرانی پر متعین کیا ہوا تھا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بنایا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آپ کے نائب قرار پائے تو اسے حسد ہوا اور بعض روایات میں ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ بھی کیا کے اسے کوئی منصب دیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا کہ اسے کوئی منصب ملے، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معذرت کرلی، اس پر حسد کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی، اور اس نے منافقت شروع کردی۔ 42: قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال فرمایا ہے اس کے معنی ظلم وزیادتی کرنے کے بھی ہوسکتے ہیں، اور تکبر رکنے کے بھی، کہتے ہیں کہ جب ا سکو فرعون کی طرف سے بنو اسرائیل کی نگرانی سونپی گئی تھی تو اس نے اپنے ہی قوم کے لوگوں پر زیادتیاں کی تھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٦ تا ٨٤۔ معتبر سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قارون حضرت موسیٰ کا چچازاد بھائی تھا اور اللہ تعالیٰ کا دشمن منافق تھا۔ جیسے سامری منافق تھا کثرت مال کے سبب سے وہ اترا گیا تھا اس کے اترانے پر اللہ تعالیٰ نے اس کو برباد کردیا قارون کے خزانوں کی کنجیاں چمڑے کی تھیں تاکہ وہ کنجیاں ہلکی رہیں کیوں کہ جب دہ کہیں جاتا تھا تو کنجیاں اپنے ساتھ رکھتا تھا مجاہد کے قول کے موافق عصبہ دس سے لے کر پندرہ آدمیوں کی جماعت تک کو کہتے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فَرِحِیْن کی تفسیر اترانے والوں کی فرمائی ہے حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس قدر خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت والی جماعت پر بھاری تھیں اس لیے وہ اترا گیا اور جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ مت اترا کہ اللہ کو بھاتے نہیں اترانے ولے اور جو تجھ کو خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر چاہ اور نہ بھول حصہ اپنا دنیا سے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مال خطیر خدا کی اطاعت میں خرچ کر اور بھلائی کر خدا کی مخلوق کے ساتھ جیسے بھلائی کی خدا نے تیرے ساتھ اور نہ فساد کر زمین میں جس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ برائی نہ کر اللہ مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا قارون نے اپنی قوم کے لوگوں کی نصیحت کا یہ جواب دیا کہ یہ مال مجھ کو میری عقل مندی کے سبب سے ملا ہے میں مال کمانا جانتا ہوں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عنائیت سے مجھ کو یہ مال داری کی فضیلت دی ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہلاک کرچکا ہے پہلے بہت لوگ جو قاروں سے قوت اور مال میں زیادہ تھے مثلا فرعون کہ وہ قوت اور مال میں زیادہ تھا اگر مال اور قوت باعث فضیلت ہوتا تو اس کو ہلاک نہ کرتا اور نہ پوچھیں جائیں گے مجرم ان کے گناہوں سے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے اس طرح کا سوال نہ ہوگا جس میں ان کو عذر کرنے کی گنجائش رہے بلکہ بےجا عذروں کے نہ سننے کے لیے ان کے ہاتھ پیروں سے گواہی لیجا کر ان فیصلہ ہوجائے گا چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے اس باب میں انس بن مالک کی حدیث ایک ١ ؎ جگہ گذر چکی ہے آگے فرمایا کہ ایک روز قارون اپنی قوم کے روبرو بڑی طیاری و سامان سے نکلا جب دنیا کے طلب گاروں نے یہ دیکھا تو تمنا کی کہ کسی طرح ہم کو بھی ایسا ہی سامان ملتا اور یہ بھی ان دنیا کے طلب گاروں نے کہا کہ قارون بڑا نصیبے والا ہے جب ان کی یہ بات قوم کے علم والوں نے سنی تو کہنے لگے کیوں خرابی میں پڑے ہو اللہ کا دیا ہوا ثواب دنیا کے مال ومتاع سے بہتر سے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے گھر کو اور اس کو زمین کے اندر دھنسادیا اکثر مفسروں کا قول ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بدعاء سے قارون زمین میں دہسا۔ چناچہ معتبر سند ٢ ؎ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ قارون نے ایک فاحشہ عورت کو اس شرط پر کچھ مال دیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت لگائے جب اس نے تہمت لگائی تو آپ خدا کے ڈر سے کانپ گئے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اس عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس عورت سے کہا کہ میں تجھ کو قسم دیتا ہوں اس ذات پاک کی جس نے دریا کو پھاڑ دیا اور فرعون سے نجات دی مجھ کو ضرور اس شخص کا بتا جس نے تجھ کو اس بات کے کہنے پر آمادہ کیا اس نے کہا جب آپ نے قسم دے کر مجھ سے سچا حال دریافت کیا ہے تو اب میں کہتی ہوں کہ اس تہمت کے لگانے پر قارون نے مجھ کو اس قدر مال دینا کیا ہے اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سجدہ میں گر پڑے اور قارون کے حق میں بدعا کی اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی کہ اللہ نے زمین کو حکم دے دیا کہ وہ قارون کے باب میں تمہاری فرماں برداری کرے اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین کو حکم دیا کہ قارون اور اس کو حویلی کو دھنسادے اور نگل جاجب قارون زمین میں دہنس گیا تو اللہ کے عذاب کو اس کے مال نے اور نوکر چا کروں نے کچھ دفع نہ کیا اور جب قارون کے مرتبہ کی خواہش کرنے والوں نے یہ حال دیکھا تو کہنے لگے ہم نے جانا کہ آدمی کے پاس مال کا ہونا کچھ اللہ کی رضا مندی کا سبب نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تنگ و فراخ کرتا ہے روزی جس پر چاہتا ہے اور اگر ہمارے پاس بھی اللہ کی رضا مندی کا سبب نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ تنگ و فراخ کرتا ہے روزی جس پر چاہتا ہے اور اگر ہمارے پاس بھی اترانے کے قابل مال ہوتا تو اترانے کی ناشکری میں ہم بھی قارون کے ساتھی ہوتے کیوں کہ ناشکر لوگوں کا کبھی بھلا نہیں ہوتا ان لوگوں کے کلام کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا عقبے میں تو ان ہی لوگوں کا بھلا ہوگا جو ہر طرح کے اترانے اور فسادے دور بھاگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نامرضی کے کام کرتے ہوئے اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اوپر جزاو سزا کا ذکر تھا اس لیے آگے کی آیتوں میں جزا وسزا کی مقدار کا ذکر فرمایا کہ جو شخص قیامت کے روز ایک نیکی لاوئے گا اس کو اس سے بہتر ثواب ملے گا اور جو کوئی برائی لائے گا تو برائی کی حیثیت کے موافق سزادی جائے گی صحیح بخاری ومسلم میں عمر (رض) وبن عوف انصاری ١ ؎ سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کے فقر وفاقہ کی حالت کا خوف نہیں ہے بلکہ ان کی مال داری کی حالت سے یہ خوف ہے کہ کہیں مال داری کی حالت ان کو پہلی امت کے لوگوں کی طرح بربادی میں نہ ڈال دے اسی طرح معتبر سند سے ترمذی صحیح بابن حبان اور مستدرک حاکم میں کعب (رض) بن عیاض ٢ ؎ سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال داری کی حالت سے یہ خوف ہے کہ کہیں مال داری کی حالت ان کو پہلی امت کے لوگوں کی طرح بربادی میں نہ ڈال دے اسی طرح معتبر سند سے ترمذی صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں کعب (رض) بن عیاض ٢ ؎ سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال داری کو بڑے فتنہ اور فساد میں پڑنے کی چیز فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر آدمی مال داری کی غفلت میں پھنس کر قارون کی طرح اترانے لگتے ہیں اور عقبے کو بالکل بھول جاتے ہیں جس کا نتجیہ یہ ہے کہ شریعت میں جن کاموں کے کرنے کی تاکید ہے ایسے لوگوں کے دل میں ان کاموں سے ایک طرح کی بےپرواہی اور مناہی کے کاموں کی جرت پیدا ہوجاتی ہے چناچہ قتادہ (رح) کے قول کی موافق قارون تو رات کے خوش آواز قاریوں میں مشہور تھا زیادہ مال داری کے بعد پہلے قارون زکوٰۃ کا منکر ہوا پھر اسی طرح کے بےدینی کی باتوں کی روک ٹوک کے سبب سے موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن ہوگیا یہاں تک کہ ان پر بدکاری کی تہمت لگائی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ کی روایت سورة تو بہ میں گذر چکی ١ ؎ ہے جس میں ثعلبہ بن حاطب انصاری کا قصہ بھی قریب قریب قارون کے قصہ کے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قارون کی طرح ثعلبہ نے بھی زکوٰۃ کا نام جرمانہ کہا اور زکوٰۃ کے دینے سے انکار کیا۔ صحیح بخاری مسلم ترمذی ابو داؤد اور نسائی میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ کے منکرین زکوٰۃ کا قصہ اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان منکرین زکوٰۃ پر جو فوج کشی کی تھی وہ قصہ ابوہریرہ (رض) کی روایت سے تفصیل وار ہے حال کلام یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمر (رض) وبن عوف انصاری کی روایت میں جس اندیشہ کا ذکر فرمایا ہے اللہ کے رسول اور صحابہ کے زمانہ سے اس اندیشہ کا ظہور شروع ہو کر رفتہ رفتہ اب اس آخری زمانہ میں تو یہ حال ہے کر امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میں کے بہت سے مال دار لوگ ترک زکوٰۃ ترک حج سود خواری اسی طرح کی اور بڑی بڑی آفتوں میں پھنس گئے ہیں اللہ تعالیٰ ولا تبغ الفساد فی لارض کے مضمون کی طرف جلدی ان کے دلو کو مائل کرے۔ عکرمہ (رح) کے قول کے موافق یہاں فساد کے معنے ان گناہوں کے ہیں جو مال داری کے سبب سے پیدا ہوجاتے ہیں مثلا ترک زکوٰت یا سود بخاری صحیح مسلم ترمذی اور نسائی میں ابوہریرہ (رض) اور عبداللہ (رض) بن الشیخر سے روایتیں ہیں کہ مال داری آدمی نے اپنے مال میں سے جو کہا یا پہنایا وارثوں کے لیے چھوڑا وہ تو دنیا کا دنیا ہی ہیں رہا ہاں جو اللہ کے نام پر دیا وہ اس کے ساتھ جاوے گا اس کا اجر عقبے میں اسے ملنے والا ہے یہ حدیث آیت وابتغ فیما اتاک اللہ الداز الآخرۃ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مال دار آدمیوں کے لیے پائیدار حصہ وہی ہے جو انہوں نے نیک نیتی سے صدقہ خیرات میں خرچ کیا کہ اس میں تنگ دست لوگوں کے ساتھ بھلائی بھی ہے اور اجر بھی ہے اور جس شخص نے ایسا نہیں کیا وہ گویا اپنے مال میں سے پائے دار حصہ لینا بھول گیا اور جب شخص نے یہ اور زیادتی کی کہ اپنے مال کو بیجا صرف کیا اس نے مال خرچ کر کے اپنے حق میں وبال مول لیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیک کام کے فقط ارادہ پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور جب انسان اپنے اس ارادہ کے موافق نیک کام بھی کرلیتا ہے تو دس سے لے کر سات سو تک اور زیادہ نیک نیتی کی صورت میں اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور کوئی شخص کسی بد کام کا ارادہ کر کے پھر اس کام کے کرنے سے باز ہے تو ایک نیکی لکھی جاتی ہے اگر اس نے وہ بد کام کرلیا تو بدی کی سزا میں نیکی کی جرا کی طرح کوئی زیادتی نہیں لکھی جاتی بلکہ ایک بدی کی ایک ہی لکھی جاتی ہے یہ حدیث من جاء بالحنسۃ کی گویا تفسیر ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٥ باب الحساب والقصاص والمیزا۔ الترغیب والترغیب ص ٤١٣ ج ٤۔ فضل فی ذکر الحساب وغیرہ۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر زیرم یت وکذلک جعلنا کم امۃ وسطا۔ الایۃ۔ ) (١ ؎ قریب ہی صفحہ ٩٣ پر۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٠١ ج ٣ و تفسیر الدز المنشور ص ١٣٦ ج ٥۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٤٠ کتاب الرقاق ) (٢ ؎ الترغیب والترھیب ص ١٧٨ ج ٤۔ عنوان الترغیب فی الزھدفی الدنیا الح ) (١ ؎ ملاخطہ ہو ٤٧١ جلد دوسری۔ لیکن اس کی سند میں کلام ہے کمافی الا صابداع ‘ ح )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ اوپر بیان فرمایا تھا کہ جو کچھ مال و دولت یا اقتدار تمہیں حاصل ہے۔ یہ دنیا کا چند روزہ فائدہ ہے لہٰذا انسان کو اس پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔ اب قارون کا قصہ اس پر بطور دلیل پیش کیا۔ (قرطبی) نخعی (رح) ، قتادہ (رح) اور دوسرے مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور یہی بات بائیبل کتاب خروج (باب 6) میں مذکور ہے۔ بعض مفسرین اسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی بتاتے ہیں۔ (فتح القدیر) بہرحال وہ بنی اسرائیل میں سے تھا۔ لیکن منافق ہو کر فرعون سے مل گیا تھا بلکہ اس کا مقرب بن گیا تھا۔ قرآن میں دوسری جگہ اس کا ذکر فرعون اور اس کے وزیر ہامان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (دیکھئے غافر :24)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 76 تا 82 اسرارو معارف دولت دنیا کا انجام تو قارون کے واقعہ میں ظاہر ہے کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا وہی خوش نصیب قوم جسے موسیٰ (علیہ السلام) کے طفیل فرعون سے نجات ملی اور سمندر نے جس کی خاطر راستے چھوڑ دیئے جس قوم پر اللہ کے بہت احسانات تھے ان میں سے وہ بھی تھا۔ مفسرین کرام کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد تھا مگر بگڑ گیا اور پوری قوم کے ساتھ زیادتی کرتا تھا اور انہیں حقیر جانتا تھا حالانکہ اللہ نے اسے اس قدر مال و دولت بخشا کہ کہ بہت بڑی اور طاقتور جماعت بھی اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھانے سے قاصر تھی۔ اس قدر وسیع و عریض خزانے بھرے تھے اس پر قوم نے اس سے کہا کہ اس قدر اکڑ نہ کیا کر کہ اللہ کریم اکڑنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ اللہ نے تمہیں دولت عطا کی ہے تو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کا سامان کرلے اور دنیا سے اپنا حصہ بھول نہ جا یعنی اب فرصت نصیب ہے تو خالی ہاتھ نہ چلا جا۔ بلکہ نیکی کا راستہ اپنا اور اللہ کی مخلوق سے بھلائی کر جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان فرمایا ہے اور یوں تکبر کر کے فساد پھیلانے کا سبب نہ بن کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے تو کہنے لگا بھلا اس میں اللہ نے کون سا احسان کیا یہ تو اپنی دانشمندی کے سبب میں نے دولت جمع کی ہے۔ کمالات ذاتی پر فخر : یہی کلمات ایران کے بادشاہ نے ایک بار کہے تھے جب اس کے سامنے کسی نے کہا اللہ نے آپ کی حکومت کو بہت خوش حالی بخشی ہے تو کہنے لگا یہ میری منصوبہ بندی ہے اس میں اللہ کہاں سے آگیا پھر جب اللہ کی گرفت آئی تو سب کچھ کھو کر سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی تھی ہلاک ہوگیا تو قبر کے لیے ترستا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ قارون بھی یہ بات بھول گیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے مالدار اور طاقتور اپنے گناہوں کے سبب برباد ہوگئے اور اللہ کو ان کے گناہ پوچھنے نہ پڑے کہ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ تھا۔ ایک روز بڑی ٹھاٹھ سے نکلا اور قوم نے دیکھا تو دنیا کے متوالوں نے کہا کاش ہم بھی قارون کی طرح دولت مند ہوتے دیکھو یہ کس قدر دولت مند انسان ہے جبکہ انہی میں جو اہل علم تھے کہنے لگے ارے نادانو دولت دنیا کوئی شے نہیں ہاں اللہ اگر نیکی کی توفیق عطا کرے تو اس پر جو انعامات اللہ کے پاس ہیں وہ بہت اعلی دولت ہے مگر اسے وہی لوگ پاسکیں گے جنہوں نے نیکی پر استقامت اختیار کی۔ بالآخر قارون کو اللہ نے اس کے محلات اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور ساری دنیا میں کوئی اس کی مدد نہ کرسکا نہ وہ اس دولت کر بل بوتے پر اپنے لیے کوئی مدد حاصل کرسکا اور سامان عبرت بن گیا حتی کہ کل تک جو اس جیسا بننے کی آرزو کرتے تھے کہنے لگے کہ یہ سب اللہ کا کام ہے کہ جسے چاہے زیادہ رزق بخش دے اور اپنے بندوں میں جس پہ چاہے رزق کی تنگی کردے اگر ہم پر اسکا احسان نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کے ساتھ زمین میں دھنس چکے ہوتے اور حق بات تو یہ ہے کہ کافر کبھی بھلائی نہیں پاسکتے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 76 تا 78 ) ۔ بغی (اس نے زیادتی کی) ۔ الکنوز (کنز) (خزانے) ۔ مفاتیح (مفتاح) (چابیاں۔ کنجیاں) ۔ تنوء (بھاری ہوئیں) ۔ العصبتہ (جماعت) ۔ لا تفرح (مت اترا ۔ مت اکڑ) ۔ لاتنس (تومت بھول ) ۔ نصیب (حصہ) ۔ احسن (بھلائی کر ۔ نیکی کر ) ۔ لا تبغ (تلاش نہ کر) ۔ ذنوب (ذنب) (گناہ ۔ خطائیں) ۔ تشریح : آیت (76 تا 78 ) ۔ ” مال و دولت اور تجارت اگر اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کے مطابق حاصل کرکے اس کو صرف کیا جائے یا جمع کیا جائے تو وہ ہر ایک کے لئے خیر و برکت اور سلامتی کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے مجبور و بےکس بندوں کی مدد پر خرچ کیا جائے تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیابی اور نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے۔ قرآن کریم میں مال کو خیر اور تجارت کو اللہ کا فضل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر مال و دولت، ظلم و زیادتی اور ناجائز طریقوں سے کمائی جائے اور اس کو اپنی محنت، علم اور قابلیت کا نتیجہ سمجھ کر فخر و غرور اور تکبر کا اندازا ختیار کیا جائے اور اس دھن دولت پر سانپ بن کر بیٹھا جائے نہ اللہ کا حق ادا کرے اور نہ بندوں کا تو یہی دھن، دولت اس کی دنیا اجاڑنے اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔ قرآن کریم میں ایسے مال و دولت کو ” کنز “ (خزانہ) فرمایا گیا ہے۔ آپ نے سورة القصص کی گذشتہ آیات میں پڑھا ہے کہ جب کفار مکہ کے سامنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین اسلام کی دعوت پیش کر کے ان کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے پکارتے تو وہ یہ عذر پیش کرتے تھے کہ اگر ہم نے دین اسلام کو قبول کرلیا تو اس سے ہمارے گھر بار، کاروبار، دھن، دولت سب کے سب اچک لئے جائیں گے اور ہمارا اس زمین پر رہنا مشکل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کا واقعہ سنا کر عبرت دلائی ہے کہ قارون کے پاس دولت کے انبار تھے۔ اس کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی آجاتا تھا اور وہ اس کی تمنا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ کاش یہی مال و دولت ہمیں بھی مل جاتاتو ہم بھی قارون کی طرح عیش و آرام کی زندگی گذارتے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس کے کفر و شرک، نافرمانیوں اور غرور وتکبر کی وجہ سے قارون، اس کے ساتھیوں اور اس کے تمام خزانوں کو زمین میں دھنسا دیا تب لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کے ساتھ زمین میں دھنسا دیئے جاتے۔ مفسرین نے قرآن کریم اور مختلف روایات کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ قارون بنی اسرائیل ہی کا ایک فرد تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور توریت کا حافظ تھا۔ چونکہ وہ نبی اسرائیل کا باغی تھا تو فرعون کے دربار میں اس کو عزت کا ایک خاص مقام حاصل تھا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کی نگرانی ان کے اندرونی حالات کی جاسوسی، ہر طرح کے ظلم و ستم اور دیکھ بھال پر اسے اپنا نمائندہ مقرر کر رکھا تھا اس لئے اس نے نہایت چالاکی سے ہر طرف سے دولت سمیٹنا شروع کردی اور وہ غیر معمولی دولت کا مالک بن گیا جس کے خزانوں کی چابیاں ہی اتنی زیادہ تھیں کہ ایک مضبوط جماعت بھی انہیں مشکل سے اٹھاسکتی تھی۔ فرعون کی تباہی کے بعد قارون بنی اسرائیل کے ساتھ لگا رہا ۔ چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ستر منتخب آدمیوں کو لے کر کوہ طور تشریف لے گئے تو قارون بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ قارون کو اس کی دولت کی کثرت، فرعوں کے قرب اور خوشامدیوں کی بھیڑ نے ضرورت سے زیادہ غرور وتکبر کا پتلہ بنا دیا تھا اور وہ اپنے سوا سب کو حقیرو ذلیل سمجھتا تھا۔ چناچہ جب قوم کے کچھ سمجھ دار لوگوں نے اس سے یہ کہا کہ تو اس مال و دولت پر مت اترا کیونکہ اللہ کو ایسے لوگ سخت ناپسند ہیں۔ اللہ نے تجھے جو کچھ دیا ہے اس سے آخرت میں گھر بنانے کی فکر کر۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ تو دنیا کی راحتوں کو چھوڑ دے۔ ان سے فائدہ حاصل کر اور جس طرح اللہ نے تیرے اوپر فضل کیا ہے تو بھی لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کر۔ اور اپنی دولت کے بل بوتے پر دنیا میں فساد مت پھیلا کیونکہ اللہ کو فساد کرنے والے ناپسند ہیں۔ قارون نے ان نصیحتوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے جو کچھ ملا ہے وہ میری محنت، قابلیت اور علم کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اس کے پاس علم تھا تو اس کے علم نے اسے یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس سے پہلے بہت سی قوموں کو اللہ نے ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے تباہ و برباد کردیا تھا جو اس سے بھی زیادہ طاقت وقوت اور لوگوں کی بھیڑرکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب لوگ گناہ پر گناہ کرتے چلے جائیں اور توبہ نہ کریں تو وہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں یا نہ کریں اللہ جب ان کو پکڑتا ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں پکڑتا بلکہ وہ اپنے فیصلے کو اچانک نافذ کردیتا ہے۔ قارون کے واقعہ کی بقنہ تفصیل اس کے بعد کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ان سب بتکلف اٹھتی تھیں، تو جب کنجیاں اس کثرت سے تھیں تو ظاہر ہے کہ خزانے بہت ہی ہوں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سورة مبارکہ کی آیت ٥٧ میں اہل مکہ کے عذر لنگ کا ذکر کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس نبی کی اتباع کریں تو ہمارے کاروبار تباہ ہوجائیں گے۔ سورت کے اختتام میں اہل مکہ اور دنیا پرست لوگوں کے سامنے ایک سرمایہ دار کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اہل علم نے توراۃ اور تاریخ کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بغاوت اور اپنی قوم کے ساتھ غداری کی۔ جس کے معاوضہ میں فرعون نے اسے اپنے ہاں ایک خاص مقام دیا۔ حکومتی خزانے کے بعد ملک بھر میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس تھی۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ سینکڑوں خچر اور اونٹ اس کے خزانے کی چابیاں اٹھایا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے قارون کے بارے میں فقط اتنا بتلایا ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم یعنی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اپنی قوم کے برخلاف چلا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی رسی دراز کی اور اسے اس قدر مال دیا جس کی چابیاں ایک طاقت ور جماعت بھی مشکل سے اٹھایا کرتی تھی۔ قارون اپنے مال پر اترانے والا اور یتیموں، مسکینوں کے حقوق سلب کرنے والا تھا۔ اس کی قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا کہ اپنے مال پر اکڑ پھکڑکا اظہار نہ کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اکڑ پھکڑ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ فخر و غرور کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تجھے دے رکھا ہے۔ اس سے آخرت کا گھر بنانے کی کوشش اور مال سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی خدمت کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر احسان فرمایا ہے اس لیے تجھے بھی کمزور لوگوں پر احسان کرنا چاہیے۔ کمزوروں کی مدد نہ کرنا، یتیموں، مسکینوں کے حقوق ادا کرنے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے۔ مال پر تکبر کا اظہار کرنا زمین میں فساد کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مسائل ١۔ قارون اپنی قوم کا غدّار اور فرعون کا دست راز تھا۔ ٢۔ قارون اپنے مال پر اترانے والا تھا۔ ٣۔ اس کی قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ فخر و غرور میں آگے ہی بڑھتا گیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فخر و غرور اور فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٥۔ جس پر اللہ تعالیٰ احسان فرمائے اسے لوگوں پر احسان کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پسند نہیں کرتا ؟ ١ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٠٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ : ٦٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم : ٤٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ بےحیائی کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٢٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ : ٤٠) ٩۔ اسراف کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 178 ایک نظر میں اس سورت کا ابتدائی حصہ قصہ فرعون و کلیم پر مشتمل تھا۔ اس قصے میں بتا یا گیا تھا کہ قوت اور اقتدار کے نتیجے میں کسی طرح نافرمانی اور سرکشی آتی ہے ۔ اور حکمران کس طرح اللہ کی ناشکری کرتے ہیں۔ اللہ کی ہدایت سے دور ہوتے ہیں اور پھر ان سب باتوں کے نتیجے میں وہ زوال کا شکار ہوتے ہیں۔ اب یہاں قارون کا قصہ لایا جاتا ہے کہ مال اور علم و ہنر جب سرکشی اختیار کرلیں ، مالدار اترانے لگیں ، عوام پر برتری جتلائیں ، اللہ کی نعمتوں کا انکار کریں تو ان پر کس طرح ہلاکت آتی ہے۔ اس کے بعد درست تصورات اور نظریات کے مطابق مال اور علم دنیا کی زیب وزینت ہیں اور ایمان اور نیک عمل کے مقابلے میں علم و ہنر اور مال و دولت کی کوئی قدر نہیں ہے۔ نیز درست طرف فکر و عمل یہ ہے کہ علم و ہنر اور مال و دولت کو اعتدال کے ساتھ ضروریات زندگی کے لیے استعمال کیا جائے۔ علو فی الارض اور فساد فی الارض کے لیے نہیں۔ قرآن کریم نے اس قصے کا زمان و مکان بیان نہیں کیا۔ بس اس قدر معلومات کافی ہیں کہ یہ محض قوم موسیٰ میں سے تھا اور یہ موسیٰ (علیہ السلام) سے باغی ہوگیا تھا۔ کیا یہ واقعہ اس وقت ہوا تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل خروج سے قبل مصر ہی میں تھے ؟ یا موسیٰ (علیہ السلام) کے خروج کے بعد ؟ یا بنی اسرائیل میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد یہ واقعہ پیش آیا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد تھا۔ اور خود موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ واقعہ ہوا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ قارون نے حضرت موسیٰ کو اذیت بھی دی تھی اور اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف رشوت دے کر ان کو ایک عورت کے ساتھ سکینڈل میں الجھانے کی کوشش کی تھی۔ اللہ نے حضرت موسیٰ کو ۔۔۔ لیا اور قارون زمین میں دھنسا دیا گیا۔ ہمیں ان روایات کی ضرورت نہیں ہے ، نہ اس قصے کے زمان و مکان کے تعین کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم میں جس طرح یہ قصہ آیا ہے اس سے اس کے لانے کے مقاصد اچھی طرح واضح ہوتے ہیں اور وہ اقدار وہ اصول واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ قصہ لایا گیا۔ اگر اس کے زمان و مکان اور اس کے ماحول کے دوسرے واقعات و حالات کی یہاں ضرورت ہوئی اور ان سے کسی مزید حقیقت ، قدر یا اصول کی وضاحت ہوتی تو اللہ ضرور وہ دوسری تفصیلات بھی دے دیتا۔ لہٰذا ہم اس کی تشریح صرف قرآنی اسلوب ہی میں کرتے ہیں اور ان روایات سے ہٹ کر اس کی وضاحت کرتے ہیں کیونکہ ان تک اس کی تشریح کے سلسلے میں کوئی ضرورت باقی نہیں ہے۔ درس نمبر 178 تشریح آیات 76 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔ 84 ان قارون کان من قوم موسیٰ ۔۔۔۔۔۔۔ علی علم عندی (76 – 77) ” ۔ “۔ تو اس نے کہا ” یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے “۔ یوں اس قصے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے ہیرو کا نام قارون ہے۔ اس کی قوم ، قوم موسیٰ ہے اور اس نے اپنی قوم کے عقائد سے بغاوت کرلی۔ یہ اپنی قوم کے خلاف ظلم کا ارتکاب بھی کرتا اور یہ بغاوت اور ظلم وہ محض اپنی دولت مندی کی وجہ سے کرتا۔ واتینہ من الکنوز۔۔۔۔۔۔ اولی القوۃ (28: 76) ” اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ اور اس کے بعد پھر واقعات ، اقوال اور وہ تاثرات بیان کیے جاتے ہیں جو اس قصے کے ساتھ ساتھ ذہن میں آتے ہیں ۔۔۔ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا ہم قوم تھا۔ اللہ نے اسے بہت بڑی دولت دی۔ اس کی کثرت کی وجہ سے اسے خزانوں سے تعبیر کیا گیا۔ کنز (خزانہ) اس مال کو کہا جاتا ہے جو استعمال اور گردش سے زیادہ اور جسے محفوظ جگہ میں رکھا گیا ہو۔ نظروں سے اوجھل۔ اور یہ دولت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کی تجوریوں کی چابیاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اور ان کو طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت ہی اٹھا سکتی تھی۔ اس دولت کی وجہ سے قارون اپنی قوم سے باغی ہوگیا۔ یہاں اس کا ذکر نہیں ہے کہ اس نے کسی قسم کی بغاوت کی۔ یہاں بغاوت مجمل ہے اس لیے اس سے ہر قسم کی بغاوت اور نافرمانی مراد ہو سکتی ہے۔ یہ بغاوت بنی اسرائیل پر ظلم کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے۔ ان کی اراضی غصب کرنے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ ان کی دوسری چیزیں چھین لینے سے بھی ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ مال پر دست درازی کرنے والے اکثر لوگ کرتے ہیں۔ غریبوں کا ستحصال کرتے ہیں۔ یہ بھی بغاوت ہے کہ قارون کے مال میں غریبوں کا حق تھا اور وہ ادا نہ کرتا تھا۔ کیونکہ اغنیاء کے اموال میں فقراء کا حق ہوتا ہے۔ تاکہ یہ مال اغنیاء کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔ محتاجوں تک بھی جائے۔ اس طرح طبقاتی نفرت پیدا ہوتی ہے اور سوسائٹی کا امن وامان تباہ ہوتا ہے۔ یہ بغاوتیں بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے سوا اور بھی نافرمانیاں ہو سکتی ہیں۔ بہرحال قارون کی قوم میں ایسے لوگ تھے جو چاہتے تھے کہ یہ اس بغاوت سے باز آجائے اور اسلام کے عادلانہ نظام معیشت کی طرف آجائے ، جو اللہ نے دولت میں تصرف کیلئے مقرر فرمایا ہے۔ اور یہ ایسا نظام ہے کہ جس کے ذریعہ دولت مند اپنی دولت سے محروم نہیں ہوتا۔ اور وہ اعتدال کے ساتھ اپنی دولت سے استفادہ کرسکتا ہے ، جو اللہ نے اسے بخشا ہے لیکن یہ نظام میانہ روی اور اعتدال کو اہل ثروت کے لئے لازم قرار دیتا ہے ، اور یہ کہ وہ اس ذات کو ہر وقت دل میں رکھیں جس نے انہیں یہ مال دیا ہے اور دولت کو اس طرح کام میں لائیں کہ قیامت میں اپنے کیے کا حساب دے سکیں۔ اذ قال لہ قومہ لا تفرح ۔۔۔۔۔۔ لا یحب المفسدین (28: 76 – 77) ” ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ” پھول نہ جا ، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے ابھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر ، جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے ، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر ، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا “۔ اس آیت میں ان سب اقدار اور خصوصیات کو جمع کردیا گیا ہے جو تمام دوسرے نظامہائے زندگی کے مقابلے میں اسلامی نظام زندگی کی خصوصیات ہیں۔ اور وہ صرف اسلام میں پائی جاتی ہیں۔ لا تفرح (28: 76) ” پھول نہ جاؤ “۔ مال اور دولت پر مست ہوکر حد سے زیادہ خوشی محسوس نہ کرو۔ دولت کے ساتھ ضرورت سے زیادہ دلچسپی نہ لو ، اور دل کو خزانوں کے ساتھ باندھ نہ دو ۔ مملوکات اور مقبوضات کو دیکھ کر زیادہ مسرت کا اظہار نہ کرو ، اور دولت پر اس طرح نہ پھول جاؤ کہ دولت عطا کرنے والے ہی کو بھول جاؤ۔ اللہ کی نعمتوں کو بھلا دو اور اس کا حمد و شکر چھوڑ دو ۔ بعض لوگ مال و دولت ہی کی وجہ سے ہلکے ہوکر ہوا میں اڑنے لگتے ہیں ، ان کا دماغ بھی اڑنے لگتا ہے اور محض دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں اور لوگوں پر دست درازی کرتے ہیں۔ ان اللہ لا یحب الفرحین (28: 76) ” اللہ بھول جانے والے لوگوں کو پسند نہیں کرتا “۔ اس طرح قارون کی قوم نے کوشش کی کہ قارون کو اللہ کی طرف لوٹا دے ، کیونکہ اللہ مال اور دولت کی اساس پر غرور اور تکبر کو پسند نہیں کرتا اور نہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو دولت کی وجہ سے دوسرے کے ساتھ ظلم کرتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔ وابتغ فیما ۔۔۔۔۔ من الدنیا (28: 77) ” جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے ، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے ابھی اپنا حصہ فراموش نہ کر “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام زندگی کس قدر معتدل اور سیدھا ہے جو ایسے دل کو جس کے پاس دولت ہے آخرت کے ساتھ بھی باندھ دیتا ہے اور اسے دنیا کے حصہ سے بھی محروم نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اسے حکم دیتا ہے کہ دنیا میں مال سے استفادہ کو بھول نہ جاؤ، اس طرح نہ ہو کہ تم تارک الدنیا ہوکر اس دنیا کی زندگی کو معطل کر دو ۔ اللہ نے دنیا کے اندر یہ پاکیزہ چیزیں اس لیے تو پیدا کی ہیں کہ لوگ ان سے استفادہ کریں اور زمین میں ان پاکیزہ چیزوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے ہر وقت کوشاں رہیں اور زندگی میں ترقی اور تنوع ہوتا رہے۔ اور اس طرح انسان اس کرہ ارض پر منصب خلافت ادا کرتا رہے۔ لیکن یہ پیداوار اور یہ ترقی عالم آخرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہو۔ آخرت کی راہ سے لوگ منحرف نہ ہوں اور آخرت کی تکالیف اور فرائض کو بھول نہ جائیں۔ اس انداز سے دنیا کے سازوسامان سے لطف اندوز ہونا بھی ایک طرح کا شکر نعمت ہے اور اللہ کے دین کو قبول کرنا ہے اور ان سے لطف اندوز ہونا ہے اور یہ بھی اللہ کی عبادت میں سے ایک عبادت اور اطاعت ہے۔ یوں اسلامی نظام زندگی ، انسانی زندگی کے اندر اعتدال اور ہم آہنگی پیدا کردیتا ہے اور اس معتدل زندگی ہی کے ذریعہ اس کو روحانی ترقی کے مدارج بھی طے کراتا ہے جس میں کسی قسم کی محرومیت نہیں ہوتی اور نہ اسی میں انسان کی فطری زندگی کے کسی بھی حصے کا تعطل لازم آتا ہے۔ واحسن کما احسن اللہ الیک (28: 77) ” احسان کرو ، جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا “۔ یہ مال اللہ کی طرف سے بخشش اور انعام ہے۔ اور اللہ کا احسان ہے۔ لہٰذا احسان کا بدلہ احسان ہونا چاہئے۔ اس احسان کو قبول کرو ، احسان کے ساتھ اس میں تصرف کرو ، اور لوگوں کے اوپر احسان کرو اور اپنے ذہن میں اللہ کے اس احسان کا شعور تازہ رکھو اور شکر ادا کرتے رہو۔ گہرے شعور کے ساتھ صرف زبان سے شکر گایا نہ کرو۔ ولا تبغ الفساد فی الارض (28: 77) ” اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کرو “۔ یعنی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے فساد نہ کرو ، اور دنیا کا سازو سامان اگر خدا خوفی اور آخرت کے حساب سے مبرا ہو کر استعمال کیا جائے تو اس سے زمین میں فساد برپا ہوتا ہے ، یوں کہ مالداروں کے خلاف لوگوں کے دل میں حسد ، بغض اور کینہ کی آگ جلنا شروع ہوجاتی ہے اور اگر مال کو بےجا طریقے سے خرچ کیا جائے تو بھی ظلم اور فساد کا باعث۔ اگر جائز طریقوں میں خرچ سے روکا جائے تو بھی ظلم کا باعث ہے۔ ان اللہ لا یحب المفسدین (28: 77) ” اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا “۔ جس طرح اللہ تعالیٰ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح مفسدوں کو بھی پسند نہیں کرتا۔ یہ تو تھیہ نصیحت قوم قارون کی ، قارون کو ، اس پوری اصلاحی تقریر کے جواب میں وہ بس ایک ہی جملہ کہتا ہے لیکن یہ جملہ جامع شروفساد ہے۔ قال انما اوتیتہ علی علم عندی (28: 78) ” تو اس نے کہا ، یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے “۔۔۔ یعنی میرے علم و ہنر نے اس مال کو جمع کیا ہے ، لہٰذا یہ مرا حق ہے۔ تم کون ہوتے ہو مجھے اس کے تصرف کے لیے خاص ہدایات دینے والے ؟ اور میری مخصوص ذاتی ملکیت کے بارے میں ازخود فیصلے کرنے والے۔ یہ مال تو میں نے بڑی جدوجہد کے بعد بنایا ہے اور اپنی مہارت اور دانش مندی کی وجہ سے اس دن کا اہل ہوا ہوں۔ یہ اس مغرور اور برخود غلط شخص کی بات ہے جو نعمت اور حکمت کے اصل مصدر کو فراموش کردیتا ہے اور جسے مال فتنے میں ڈال دیتا ہے اور دولت اندھا کردیتی ہے۔ اس قسم کے لوگ انسانوں میں ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جدوجہد ان کے مالدار ہونے کا حقیقی سبب ہے۔ اس لیے اپنے حاصل کیے ہوئے مال کے بارے میں انہیں مسئول نہ ہونا شاہئے۔ اس مال کو وہ اصلاح کے کاموں میں لگائے یا فساد کے کاموں میں ، اس کے اوپر کوئی محاسبہ نہ ہونا چاہئے۔ اور اس کی خوشی اور غمی اور مرضی اور انکار کے اوپر اور کوئی نگرانی نہ ہونا چاہئے۔ اسلام انفرادی ملکیت کی اجازت دیتا ہے اور حلال طریقوں سے دولت جمع کرنے کی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسلام انفرادی جدوجہد کو نظر انداز نہیں کرتا اور نہ اسے فضول سمجھتا ہے۔ لیکن اسلام اس آزادی کے ساتھ ساتھ انفرادی ، دولت اور مملوکات کے استعمال کے لیے ضابطہ بھی متعین کرتا ہے جیسا کہ دولت کے کمانے اور ترقی دینے کے لیے اسلام ایک منہاج مقرر کرتا ہے۔ اسلام کا طریقہ کار اور اس کی معاشی پالیسی نہایت معتدل اور متوازن ہے۔ اس میں فرد اپنی جدوجہد کے ثمرات سے محروم نہیں ہوتا اور وہ اس جمع کردہ دولت کو اس طرح صرف بھی نہیں کرسکتا کہ وہ اسراف اور تبذیر کی حدود میں داخل ہوجائے اور نہ اس کو یوں جمع اور خزانہ کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کنجوسی اور مکھی چوسی کی حدود میں داخل ہوجائے۔ اسلام انفرادی ملکیت میں سوسائٹی کو بھی حصہ دار کرتا ہے اور انفرادی دولت کمانے کی بھی نگرانی کرتا ہے۔ دولت کو ترقی دینے کے طریقے بھی منصفانہ طور پر متعین کرتا ہے اور ان سے استفادہ کرنے اور خرچہ کرنے پر بھی کنڑول کرتا ہے۔ اسلام کی معاشی ہدایات واضح ہیں اور ممتاز خصوصیات کی مالک ہیں۔ بہرحال قارون نے اپنی قوم کی آواز پر لبیک نہ کہا۔ اس نے اللہ کے انعامات کا شعور قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور اسلام کی معاشی پالیسی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور نہایت ہی گھٹیا انداز میں قوم کی اس نصیحت سے اس نے منہ موڑا۔ چناچہ آیت کے خاتمہ سے بھی پہلے اسے تنبیہہ کردی گئی اور اس کے اس فقرے کو رد کردیا گیا۔ اولم یعلم ان اللہ ۔۔۔۔۔ ذنوبھم المجرمون (78) ” “۔ اگر تم صاحب مال دولت ہو اور کچھ قوت رکھتے ہو ، تو تم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایسی اقوام کو ہلاک کیا ہے جو تم سے مال میں بھی زیادہ تھیں اور قوت اور گرفت میں بھی۔ یہ تاریخی حقیقت تمہیں معلوم ہونا چاہئے کیونکہ اس علم سے تمہیں نجات ملے گی۔ اس سے نہیں جس کے بل بوتے پر تم نے دولت جمع کی ہے۔ تم جیسے نو دولتے تو اس قابل ہی نہیں کہ ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ اگر انہیں ہلاک کرے تو اس سے پوچھے یا نوٹس دے۔ کیونکہ نہ تم فیصلہ کرنے والے ہو اور نہ گواہ ہو۔ ولا یسئل عن ذنوبھم المجرمون (28: 78) ” مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے “۔ اس قصے کے مناظر میں سے یہ پہلا منظر تھا اس منظر میں نظر آتا ہے کہ سرمایہ دار ہمیشہ سرکش اور ظلم کرتے ہیں۔ وہ نصیحت پر کام نہیں دھرتے ، نصیحت سے اپنے آپ کو بالا سمجھتے ہیں کہ ان کا نفس کبھی ان کو شکر نعمت بجا لانے پر بھی آمادہ نہیں کرتا۔ دوسرے منظر میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ قارون کسی موقع پر اپنی دولت کی نمائش کرتا ہے۔ اس کی اس نمائش کو دیکھ کر بعض اہل ایمان کے دل بھی اڑنے لگے۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگے اور رہ تمنائیں کرنے لگے کہ ہمیں بھی ایسا ہی دیا جائے جس طرح قارون کو دیا جاتا ہے اور وہ لوگ جن کو دولت سے محروم رکھا گیا تھا انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ قارون کو تو دولت کا حظ و افر دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر صحیح علماء اور مومنی سامنے آتے ہیں اور وہ دکھاتے ہیں کہ وہ قارون کی اس نمائش سے بلند ہیں اور جو لوگ اس مظاہرہ سے متاثر ہوگئے تھے ان کو وہ نہایت ہی اعتماد ، یقین اور زوردار انداز سے منع کرتے ہیں “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قارون کا اپنے مال پر اترنا، دنیا داروں کا اس کا مال دیکھ کر ریجھنا، اور قارون کا اپنے گھر کے ساتھ زمین میں دھنس جانا ان آیات میں قارون کا اور اس کی مالداری کا اور بغاوت اور سر کشی کا اور زمین میں دھنسائے جائے کا ذکر ہے یہ تو قرآن مجید میں ذکر ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا کا لڑکا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا چچا تھا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی خالہ کا لڑکا تھا یہ سب اسرائیلی روایات ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اسے اتنا زیادہ مال دیا تھا کہ اس کے خزانوں کا اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے اس کے خزانوں کی کنجیاں اتنی زیادہ تھیں کہ قوت والی ایک جماعت کو ان چابیوں کے اٹھانے میں بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ جب مال زیادہ ہوتا ہے تو انسان کو تکبر ہوجاتا ہے اور مال کے غرور میں پھولا نہیں سماتا۔ قارون نے اپنے مال کی وجہ سے بنی اسرائیل پر بغاوت کی یعنی فخر کیا اور ان کو حقیر جانا اپنے مال پر اترانے لگا۔ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ دیکھ تو اترا مت، بلاشبہ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا، اور تجھے جو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے تو اس کے ذریعہ دار آخرت کا طالب بن جا، یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا رہ، تاکہ یہ مال موت کے بعد تیرے کام آئے کیونکہ سب مال یہیں اسی دنیا میں دھرا رہ جائے گا ہاں جس نے آگے بھیج دیا اس کا آگے بھیجا ہوا مال کام دے گا۔ جو مال آخرت کے لیے نہ بھیجا، وہ پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو مل جائے گا۔ پھر ایسی بیوقوفی کیوں کرے کہ دوسرے لوگ اپنے چھوڑے ہوئے مال سے گل چھڑے اڑائیں اور آخرت میں خود خالی ہاتھ حاضر ہوجائے اور بخیل بن کر اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق مال کو خرچ نہ کرے اپنے ہی مال کو اپنے لیے و بال اور باعث عذاب بنا لے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ بندہ کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، حالانکہ اس کا مال صرف وہ ہے جو تین کاموں میں لگ گیا جو کھایا اور فنا کیا اور جو پہنا اور پرانا کردیا اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دے دیا سو اس نے اپنے لیے ذخیرہ بنا لیا اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا (یعنی مرجائے گا) (رواہ المسلم ص ٤٠٧: ج ٢) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حاضرین سے) سوال فرمایا کہ تم میں ایسا کون ہے جسے اپنے مال کی بہ نسبت اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبت ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جسے اپنے مال کی بہ نسبت اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبت ہو ! آپ نے فرمایا کہ اب تم سمجھ لو کہ اپنا مال وہ ہے جو آگے بھیج دیا (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کردیا تاکہ آخرت میں ثواب ملے اور وارث کا مال وہ ہے جو اپنے پیچھے چھوڑ کر چلا گیا۔ یعنی موت آنے پر خود اسی کا مال اس کے وارثوں کا ہوجائے گا) اب ہر شخص سوچ لے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے مال خرچ کرنے میں کنجوسی کرنا اور اس مال کو وارثوں کے لیے چھوڑ جانا یہ اپنے مال سے محبت نہ ہوئی بلکہ وارث کے مال سے محبت ہوئی۔ انسان کا یہ عجیب مزاج ہے کہ جتنا زیادہ مال ہوجائے اسی قدر کنجوس ہوتا چلا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے خرچ نہیں کرتا۔ ایک فیکٹری کے بعد دوسری فیکٹری کروڑوں میں خریدے گا اور اگر کوئی سائل آجائے تو سو پچاس ہاتھ پر رکھ دے گا اگر مسجد و مدرسہ میں خرچ کرنے کے لیے کہا جائے تو سو پچاس روپے سے زیادہ کی ہمت نہ کرے گا۔ مالدار اکثر دنیا دار ہوتے ہیں آگے بھی دنیا پیچھے بھی دنیا، سوتے بھی دنیا جاگتے بھی دنیا اگر نماز پڑھنے لگے تو اس میں بھی دکان کا حساب لگانے کا دھیان، امپورٹ اور ایکسپورٹ کے بارے میں غور و فکر۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 71:۔ یہ تخویف دنیوی ہے اور وما اوتیتم من شیء الخ سے متعلق ہے۔ دنیا کی ناپائیداری کا حال دیکھ لو۔ قارون کے پاس کس قدر دولت تھی مگر اس نے دولت میں اللہ کا حق ادا نہ کیا۔ اور کفر و شرک کرتا رہا اس لیے دولت کے ساتھ تباہ و ربرباد کردیا گیا۔ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے والد عمران اور قارون کا والد یصہر دونوں حقیقی بھائی تھے جو قاہث بن لادی بن یعقوب کے بیٹے تھے (روح) قارون منافق تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ دریا سے پار ہوگیا ولم یکن فی بنی اسرائیل اقرا منہ للتوارۃ ولکنہ نافق کما نافق السامری (خازن ج 5 ص 150) ۔ وہ کثرت مال کی وجہ سے دوسرے اسرائیلیوں پر ظلم و زیادتی کرتا تھا۔ مفاتح سے مراد خزانے ہیں نہ کہ کنجیاں جیسا کہ حضرت ابن عباس اور دوسرے مفسرین نے کہا ہے قال السدی ای خزائنہ و فی معناہ قول الضحاک ای ظروفہ و اوعیتہ وروی نوح ذلک عن ابن عباس والحسن (روح ج 3 ص 110) ۔ اور ( علیہ السلام) سبۃ تین سے دس آدمیوں تک کی جماععت کو کہتے ہیں۔ یعنی ہم نے اسے اس قدر دولت دی تھی کہ اس کے خزانوں کو طاقتور آدمیوں کی جماعت بڑی مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ اذ، قال الخ کے متعلق ہے یا اس کا متعلق مھذوف ہے ای اظہر التفاخر والفرح (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

76۔ اوپر کی آیتوں میں قرآن کریم کی حقانیت اور رسول کی صداقت اور منکرین و ظالمین پر نزول عذاب کا ذکر تھا پھر قیامت کا ذکر فرمایا اور قیامت میں منکرین و متکبرین کا انجام فرمایا اسی سلسلے میں ایک اور متکبر و سرکش یعنی قارون کا ذکر کیا اور اس کی ہلاکت اور تباہی کا بیان فرمایا تاکہ تکبر کرنے والوں اور سرکشوں کو عبرت ہو چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ بلا شبہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم اور برادری میں سے تھا پھر وہ لوگوں پر زیادتی اور ان کے مقابلے میں تکبر کرنے لگا اور ہم نے جو خزانے اس کو دیئے تھے وہ اتنے تھے کہ اس خزانے کے صندوقوں کی کنجیاں ایک طاقتور اور زورآور آدمیوں کی جماعت کو گراں بار کردیا کرتی تھیں جب اس قارون کی قوم نے اس سے کہا کہ تو نازاں نہ ہو اور اترا نہیں بلا شبہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لادی یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد میں ہیں لادی کی اولاد میں قارون بھی تھا اس لئے اس کا خاندانی تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا۔ قارون بہت خوبصورت تھا اس لئے اس کو منور بھی کہتے تھے وہ بہت مالدار تھا اور مالداری کی وجہ سے متکبر بھی تھا۔ اس کے خزانوں کی کنجیاں بہت وزنی تھیں پہلے لوہے کی کنجیاں تھیں پھر لکڑی کی بنوائی گئیں کہتے ہیں وہ بھی بھاری ہوئیں تو پھر چمڑے کی بنوائی گئیں وہ بھی اس قدر بھاری تھیں کہ ایک زور آور جماعت کے آدمی اٹھانے سے تھک جاتے تھے اور اٹھاتے تو لڑکھڑاتے تھے ، مال کی اس قدر بہتات کے باعث نافرمانی کرنے لگا اور دین حق کا باغی بن گیا حالان کہ توریت کا بہت بڑا عالم تھا اور توریت بہت پڑھا کرتا تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جد کی اولاد میں تھا ، فرعون کی سرکار میں پیش ہوگیا تھا بنی اسرائیل پر کار بیگار ہی پہنچاتا تھا اور مزدوری اسی کے ہاتھ سے ملتی ، اس کام میں مال بہت کمایا جب بنی اسرائیل حکم میں آئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اور فرعون غرق ہوا اس کی روزی موقوف ہوئی اور سرداری نہ رہی دل میں ضد کھتا موسیٰ (علیہ السلام) سے منافق ہورہا ، پیچھے عیب دیتا اور تہمتیں لگاتا ایک روز روبرو ایک عورت کو سکھا کر لایا تہمت کی بات اس عورت نے خدا سے ڈر کر سچ کہا کہ اس نے مجھے سکھایا تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا سے زمین میں غرق ہوا اور اس کا گھر اور خزانہ بھی غرق ہوا ۔ 12