Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 79

سورة القصص

فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ فِیۡ زِیۡنَتِہٖ ؕ قَالَ الَّذِیۡنَ یُرِیۡدُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا یٰلَیۡتَ لَنَا مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ قَارُوۡنُ ۙ اِنَّہٗ لَذُوۡ حَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۷۹﴾

So he came out before his people in his adornment. Those who desired the worldly life said, "Oh, would that we had like what was given to Qarun. Indeed, he is one of great fortune."

پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے ۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Qarun went forth in His Finery, and His People's Comments Allah tells: فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنيَا ... So, he went forth before his people in his finery. Those who were desirous of the life of the world, said: Allah tells us how Qarun went forth one day before his people with his magnificent regalia; wearing his ... fine clothes, accompanied by his fine horses, his servants and retinue. When those whose desires and inclinations were for the world saw his adornments and splendor, they wished that they could have the same as he had been given, and said: ... يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ Ah, would that we had the like of what Qarun has been given! Verily, he is the owner of a great fortune. meaning, `he is very lucky and has a great share in this world.'   Show more

سامان تعیش کی فروانی قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر زرق برق عمدہ سواری پرسوار ہو کر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا اکڑتا ہوا نکلا اسکا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت وتجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش کہ ہمارے پاس بھی ... اس جتنا مال ہوتا ۔ یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے ۔ علماء کرام نے ان کی یہ بات سن کر انہیں اس خیال سے روکنا چاہا اور انہیں سمجھانے لگے کہ دیکھو اللہ نے جو کچھ اپنے مومن اور نیک بندوں کے لئے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ اس سے کروڑہا درجہ بارونق دیرپا اور عمدہ ہے ۔ تمہیں ان درجات کو حاصل کرنے کے لئے اس دو روزہ زندگی کو صبر وبرداشت سے گزارنا چاہئے جنت صابروں کا حصہ ہے یہ مطلب بھی ہے کہ ایسے پاک کلمے صبر کرنے والوں کی زبان ہی سے نکلتے ہیں جو دنیا کی محبت سے دور اور دارآخرت کی محبت میں چور ہوتے ہیں اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ کلام ان واعظوں کا نہ ہو بلکہ ان کے کام کی اور ان کی تعریف میں یہ جملہ اللہ کی طرف سے خبر ہو ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

791یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔ 792یہ کہنے والے کون تھے ؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہوگئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] یعنی اس کے کچھ گھڑ سوار خادم اس لئے آگے چل رہے تھے اور خود لباس فاخرہ پہنے ایک عمدہ گھوڑے پر سوار تھا۔ پھر اس کے پیچھے بھی اس کے خادم گھڑ سواروں کا دستہ تھا۔ اس سے دراصل وہ اپنی شان و شوکت اور ٹھاٹھ باٹھ کا لوگوں کے سامنے مظاہرہ کرنا چاہتا تھا۔ اور یہی وہ متکبرانہ مظاہرہ ہے جو اللہ کو سخت ناپ... سند ہے اور اللہ ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ مگر جو لوگ دنیا پر ربیجھے ہوئے ہوں، انھیں ایسی ہی مظاہرہ ترقی کی انتہائی منزل نظر آتا ہے۔ چناچہ دنیا دار مادہ پرستوں نے جب قارون کو اس ٹھاٹھ باٹھ سے نکلتے دیکھا تو خود بھی اس منزل تک پہنچنے کی آرزو کرتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ شخص تو بڑا ہی خوش نصیب ہے۔ کاش ہمیں بھی ایسا سازوسامان میسر آجاتا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَخَـــرَجَ عَلٰي قَوْمِهٖ فِيْ زِيْنَتِهٖ : قارون نے مال و دولت پر اپنے کبرو غرور کے زبانی اظہار کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ اس نے لوگوں کے سامنے اس کی نمائش کا بھی اہتمام کیا۔ ” فِيْ زِيْنَتِهٖ “ (اپنی زینت میں) کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس نے اس موقع پر اپنی دولت و حشمت کا کیا کچھ اہتمام کیا ہوگا۔ اس ط... رح وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو مرعوب کرنا چاہتا تھا، تاکہ ان میں سے کچھ لوگ ٹوٹ کر اس سے آ ملیں، کیونکہ عوام کی اکثریت ایسے مظاہروں سے متاثر ہوتی ہے۔ تفاسیر میں اس کی زینت کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے، مگر اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا تانا بانا اسرائیلی روایات ہیں، مثلاً تفسیر طبری میں ہے کہ قتادہ نے فرمایا : ” ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ چار ہزار سواریوں پر نکلے، ان پر اور ان کی سواریوں پر ارغوانی (شوخ گلابی) رنگ تھا۔ “ ابن زید نے کہا : ” میرے والد ذکر کیا کرتے تھے کہ وہ ستر ہزار کے جلوس کے ساتھ نکلا۔ “ مراغی نے مقاتل کا قول نقل کیا ہے کہ وہ چتکبرے خچر پر سوار تھا، جس کی زین سونے کی تھی، ساتھ چار ہزار گھڑ سوار تھے، جنھوں نے ارغوانی لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ تین سو گورے رنگ کی لڑکیاں تھیں، جو زیور اور سرخ لباس پہن کر چتکبرے خچروں پر سوار تھیں وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ قتادہ وہاں موجود تھے، نہ زید، نہ مقاتل اور نہ ان کے پاس وحی کے ذریعے سے یہ تفصیل آئی۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جس شخص کے خزانوں کی چابیاں ایک قوت والی جماعت پر بھاری ہوتی تھیں اس نے اپنی دولت اور شان و شوکت کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوگی۔ چناچہ اس نے ایسا متکبرانہ انداز اختیار کیا جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند تھا۔ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا ۔۔ : وہ لوگ جن کی زندگی کا مقصد ہی دنیا اور اس کی زیب و زینت کا حصول ہے، قارون کی شان و شوکت دیکھ کر کہنے لگے، کاش ! ہمیں بھی یہ سب کچھ ملا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یقیناً وہ بہت بڑے نصیب والا ہے۔ یہ لوگ بنی اسرائیل کے عوام بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ دنیوی خوش حالی کی خواہش ہر دل میں موجود ہے اور فرعون کی قوم کے لوگ بھی۔ ان لوگوں کی اس تمنا کی مثالیں اب بھی ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ مردوں کو دیکھو یا عورتوں کو، جوانوں کو دیکھو یا بوڑھوں کو، ہر ایک دنیوی ترقی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک نے کوئی نہ کوئی تمنا پال رکھی ہے کہ کاش ! میرا مکان فلاں جیسا ہو، میری سواری فلاں جیسی ہو، میرا کاروبار فلاں جیسا ہو، پھر اس تمنا کے حصول کے لیے نہ اسے حلال کی پروا ہے نہ حرام کی۔ قرآن نے یہ مثالیں صرف داستان طرازی کے لیے بیان نہیں فرمائیں، بلکہ یہ سب کچھ ہمیں ایسے رویے کے بد انجام سے آگاہ کرنے کے لیے بیان فرمایا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَخَـــرَجَ عَلٰي قَوْمِہٖ فِيْ زِيْنَتِہٖ۝ ٠ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ۝ ٠ۙ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۝ ٧٩ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في...  أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ ليت يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ. أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل . ( ل ی ت ) لا تہ ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے حظَّ الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] . ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء/ 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) ایک بار قارون جو اس کی شان و آرائش تھی یعنی گھوڑوں، خچروں، غلاموں اور لونڈیوں اور سونے چاندی کے زیورات اور طرح طرح کے ہتھیار اور کپڑوں کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا تو جو لوگ دنیا کے طالب تھے وہ کہنے لگے کیا خوب ہوتا کہ ہمیں بھی وہ ہی مال و دولت ملا ہوتا جیسا کہ قارون کو ملا ہے۔ واقعی وہ بڑا خ... وش نصیب ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ ط) ” اپنی قوم پر رعب جمانے کے لیے وہ اپنے َ خدم و حشم کے ساتھ اپنی دولت اور آرائش و زیبائش کا اظہار کرتے ہوئے نکلا۔ چناچہ اس کی شان و شوکت کو دیکھ کر : (قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُل... ا) ” وہ لوگ جو دنیوی زندگی ہی کے طالب تھے ‘ اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر اندر ہی اندر اپنی محرومیوں پر پچھتاتے اور اس کی خوش نصیبی کی داد دیتے رہے کہ : (اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ) ” دنیا پرست اور ظاہر بین لوگوں کی نظر میں تو کسی شخص کی کامیابی اور خوش بختی کا معیار یہی ہے کہ اس کے پاس کس قدردولت ہے۔ یہ دولت اس نے کہاں سے حاصل کی ہے اور کیسے حاصل کی ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: یعنی اللہ تعالیٰ کو مجرموں کے حالات کا پورا علم ہے، اس لیے اس کو حالات جاننے کے لیے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں آخرت میں ان سے جو سوالات ہوں گے، وہ ان کا جرم خود ان پر ثابت کرنے کے لیے ہوں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:76) فی زینتہ۔ اپنی زیب و زینت کے ساتھ ۔ اپنے پورے ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ۔ تزک و احتشام سے۔ فکرج علی تومہ فی زینتہ اس جملہ کا عطف قال (شروع آیتہ 78) پر ہے درمیانی عبارت جملہ معترضہ ہے۔ یلیت لنا۔ اے کاش ہمارے لئے بھی ہوتا (جو قارون کو دیا گیا ہے) ذوحظ عظیم : ذو والا۔ صاھب ۔ یہ مضاف ہے اور حظ عظیم مو... صوف و صفت ہوکر مضاف الیہ۔ بڑے نصیب والا۔ بڑا خوش قسمت۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ اس جلوس کے بارے میں مفسرین (رح) کے مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت سے نکلا جسے دیکھ کر اس کی قوم کے لوگ دنگ رہ گئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (79 تا 82 ) ۔ خرج (وہ نکلا) ۔ زینتہ (زیب وزینت۔ خوبصورتی) ۔ یلیت (اے کاس ایسا ہوتا) ۔ ذوحظ (نصیب والا۔ جوش نصیب) ۔ ویلکم (تمہاری خرابی۔ تم پر افسوس ہے) ۔ لا یلقی (وہ نہیں ملتا۔ نصیب نہیں ہوتا) ۔ خسفنا (ہم نے دھنسادیا) ۔ فئتہ (جماعت۔ گروہ ) ۔ تمنوا (تمنا کی تھی) ۔ ویکان (ہائے شام... ت۔ ہائے افسوس) ۔ من (اس نے احسان کیا) ۔ تشریح : آیت نمبر (79 تا 82 ) ۔ ” اگر ایمان اور عمل صالح نہ ہو تو مال و دولت کا نشہ آدمی لو دیوانوں جیسی حرکتیں کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ قارون جو نہایت چالاک، عیار اور دولت پرست آدمی تھا وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ہر ممکن سازشیں کرتا رہتا تھا تاکہ ان کو نیچا دکھائے۔ اس نے نہایت نازیباحرکتیں کرنا شروع کردیں۔ اس نے کسی فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھرے مجمع میں زنا کا الزام لگا دے۔ چناچہ جب اس عورت نے سب کے سامنے اتنا الزام لگایا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قسم دے کر پوچھا کہ وہ بتائے کیا ان سے یہ گناہ ہوا ہے۔ اس عورت کو اللہ نے ہدایت دی اس نے بتا دیا کہ قارون نے اس کو یہ الزام لگانے پر مجبور کیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی وقت اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کو سزا دینے کا فیصلہ فرمالیا۔ ایک دن وہ اپنے مال و دولت کا رعب جمانے کے لئے اپنے مال و دولت اور اپنے لا تعداد خادموں کو لے کر بڑہ شان و شوکت سے اتارتا اکڑتا نکلا۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ان ہی میں سے دنیا پسندوں نے بڑی حسرت اور رشک کی نگاہوں سے قارون اور اس کے خزانوں کو دیکھ کر اس تمنا کا اظہار کیا۔ کاش ان کے پاس بھی اسی طرح دولت کے ڈھیر ہوتے۔ واقعی قارون بہت ہی جوش نصیب آدمی ہے۔ اس کے بر خلاف اللہ نے جن لوگوں کو علم و بصیرت اور دین کی سمجھ عطا فرمائی تھی جو وقتی چمک دمک کو دیکھ کر بےقابو نہیں ہوجاتے انہوں نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم پر بڑا افسوس ہے کہ تم اس سامان زندگی کو بھلا بیٹھے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے تیار کر رکھا ہے جو ان بےحقیقت چیزوں سے کہیں بہتر ہے اور یہ ان کو نصیب ہوتا ہے جو صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا کو قبول کر کے قارون کو تباہ و برباد کرنے کا فیصلہ فرمالیا تھا۔ چناچہ اللہ نے قارون، اس کے خادموں، ساتھیوں اور اس کے زبردست خزانوں سمیت ان کو زمین میں دھنسادیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کو نچانے کے لئے کوئی جماعت اس کی مدد کے لئے آئی اور نہ وہ خود اپنے آپ کو اور اپنی دولت کو بچا سکا اور اس طرح اس کا مال و دولت بھی اس کے کام نہ آسکا۔ جب دنیا پسندوں نے قارون کا یہ حشر اور انجام دیکھا تو لینے لگے کہ کھا رزق یا نپا تلا رزق یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو جتنا دینا چاہے دیتا ہے اگر اس اللہ کا ہم پر کرم اور احسان نہ ہوتا تو ہم بھی قارون کے ساتھ اسی طرح زمین میں دھنسا دیئے جاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جو کفر کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ان کو کبھی فلاح و کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قارون کا عملاً فخر و غرور کا اظہار کرنا اور اس کا بدترین انجام ہونا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قارون لباس فاخرہ پہنے ہوئے نوکروں، چاکروں اور اپنے دوست و احباب کے ساتھ پورے جاہ و جلال کے ساتھ بڑے جلوس کی شکل میں نکلا۔ تاکہ جاہ و حشمت اور اپنی دولت و ثروت کی لوگوں پر دھاک بٹھ... ا سکے۔ وہ اس جاہ و جلال اور شوکت و حشمت کے ساتھ نکلا کہ کمزور ایمان والے لوگ اس قدر مرعوب ہوئے کہ بےساختہ پکار اٹھے کہ کاش ! ہمیں بھی اس طرح کا مال اور اسباب دئیے جاتے جس طرح قارون کو دئیے گئے ہیں۔ یہ تو بڑا ہی خوش بخت اور اچھے نصیب والا ہے۔ لوگوں کی مرعوبیت دور کرنے اور ان کی حقیقی نعمتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صاحب علم یعنی صالح کردار لوگوں نے انھیں سمجھایا کہ تم پر افسوس ہو کہ دنیا کے مال اور شان و شوکت سے مرعوب ہوئے جا رہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو ! کہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی اللہ کے ہاں دولت وہ اجر ہے جو صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کو حاصل ہوگا۔ اس اجر کو وہی لوگ پاسکیں گے جو سچے ایمان اور صالح کردار پر ثابت قدم رہیں گے۔ صاحب علم لوگ ابھی کمزور ایمان والوں کو سمجھا ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے مال اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ جب وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ زمین میں دھنس رہا تھا تو اس کے حواری اور نوکر چاکر اس کی کوئی مدد نہ کرسکے جو کل اس پر رشک کر رہے تھے آج اپنے آپ پر افسوس کرنے لگے اور بےساختہ کہہ اٹھے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے سرفراز کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ رکھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی قارون کے ساتھ دھنسا دیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے باغیوں اور منکروں کو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ صبر و استقامت کی اہمیّت : صبر بےبسی کا نام نہیں صبر قوت برداشت ‘ قوت مدافعت بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ پریشانیوں پر حوصلہ رکھنے کا نام صبر ہے اور صبر کرنے والے کو آخرت میں بغیرحساب جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ) [ البقرۃ : ١٥٢] ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔ “ (وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ) [ البقرۃ : ١٥٢] ” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔ “ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ ) [ الزمر : ١٠]  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فخرج علی قومہ فی زینتہ ۔۔۔۔۔ ولا یلقھا الا الصبرون (79 – 80) ” “۔ “۔ دنیا کی اس زندگی کے اس فتنے کے سلسلے میں دو قسم کے ردعمل سامنے آئے۔ ایک گروہ اس کی گرفت میں آگیا ، مبہوت ہوگیا۔ اس منظر کے سامنے بچھ گیا اور اس پر ٹوٹ پڑا اور دوسرے گروہ کا ردعمل یہ تھا کہ وہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ، نظر بلند رکھی ... ، امیدیں اس ثواب کے ساتھ وابستہ کرلیں جو اللہ کے ہاں محفوظ ہے یوں اس کے نزدیک مال کی قوت کے مقابلے میں ایمان کا ترازو بھاری رہا۔ قال الذین یریدون ۔۔۔۔۔ لذو حظ عظیم (28: 79) ” وہ لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا۔ یہ تو بڑا نصیب والا ہے “۔ ہر دور میں دنیا کی زیب وزینت بعض لوگوں کو مقصد بن جاتی ہے اور جو لوگ دنیا کے طالب ہوتے ہیں ان کی آنکھیں اسے دیکھ کرچکا چوند ہوجاتی ہے۔ اور اس قسم کے لوگ اس چیز کی طرف بلند نظریں نہیں رکھتے جو اس دنیا سے اعلیٰ اور زیادہ قیمتی ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اس زیب وزینت کو خریدنے والے نے کس قدر زیادہ قیمت ادا کرکے خریدا ہے۔ اور یہ دنیا کا سازوسامان اس شخص نے کیا کیا ذرائع کام میں لاکر حاصل کیا ہے۔ اس کے لیے مال ، مصب اور عزت کی کیا کیا قربانیاں دی گئی ہیں ۔ چناچہ سطحی نگاہ رکھنے والے ایسے مظاہر پر ٹوٹ پڑتے ہیں جس طرح مکھیاں ہر میٹھی چیز پر جمع ہوجاتی ہیں۔ اور اس پر گرتی ہیں اور ایسے لوگ جب اہل ثروت کو دیکھتے ہیں تو ان کے منہ میں پانی آجاتا ہے لیکن ان کی نظر اس بات پر نہیں ہوتی کہ یہ دولت اور زیب وزینت جمع کرنے والے نے بہت مہنگی قیمت ادا کی ، کن کن گندگیوں سے ہو کر گزرا ہے اور کیا کیا خبس ذرائع استعمال کیے ہیں۔ اور جن لوگوں کا رابطہ اللہ سے ہوتا ہے اور وہ اعلیٰ اقدار کو اہمیت دیتے ہیں اور دولت اور دنیا کی زیب وزینت سے بڑھ کر ان کی نظروں میں مزید اعلیٰ قدریں بھی ہوتی ہیں۔ اپنی شخصیت کے اعتبار سے بند ہوتے ہیں اور ان کا دماغ اس قدر اونچا ہوتا ہے کہ وہ زمین کی قدروں کے سامنے کسی مالدار کے سامنے نہیں جھکتے۔ یہ لوگ ہیں جن کو حقیقی علم دیا گیا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو انسانی زندگی کو سیدھا رکھتا ہے۔ وقال الذین اوتو ۔۔۔۔۔۔ الا الصبرون (28: 80) ” مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے افسوس تمہارے حال پر ، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو “۔ اللہ کے ہاں جو درجہ ہے وہ اس زینت سے بہتر ہے ، اللہ کے خزانے قارون کے خزانوں سے زیادہ ہیں اور یہ شعور اعلیٰ قدروں کی بابت صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں ، جو دوسروں کے اعلیٰ معیار حیات کو دیکھ کر متاثر نہیں ہوتے۔ اور زندگی کے تمام فتنوں اور رعنائیوں کے مقابلے میں اپنے مقام پر جمے رہتے ہیں۔ جب ایسے لوگوں کا شعور یہ ہوتا ہے کہ آخرت کا اجر ، اللہ کی رضا مندی بہت قیمتی سامان ہے تو ان کا درجہ اور بلند ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا کے سازوسامان سے بلند ہوجاتے ہیں اور ان کی نظریں ثواب آخرت کے اعلیٰ افق پر ہوتی ہیں۔ جب زیب وزینت کا یہ فتنہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے ، اور لوگ اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے بلکہ اس سے شکست کھا کر اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو اب دست قدرت کی طرف سے براہ راست مداخلت کا وقت آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ضعیف الارادہ لوگوں کو اس کے جال میں شکار ہونے سے بچانے کے لیے اس فتنے کو پاش پاش کرکے رکھ دیتا ہے۔ زیب وزینت کا یہ غرور ختم کردیا جاتا ہے۔ اور عبرتناک منظر میں ایک فیصلہ کن گرفت کی جھلک پیش کرتا ہے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ ) (الیٰ الآیات الاربع) قارون کو اپنے مال پر فخر بھی تھا تکبر بھی تھا، ایک دن ریاکاری کے طور پر مالی حیثیت دکھانے کے لیے ٹھاٹھ باٹھ ساز و سامان کے ساتھ نکلا (جیسے اس دور میں مالدار لوگ بعض علاقوں میں ہاتھی پر بیٹھ کر بازاروں میں نکلتے ہیں اور بعض لوگ بلا ضرورت...  بڑی بڑی کوٹھیاں بناتے ہیں پھر ریا کاری کے لیے لوگوں کی دعوتیں کرتے ہیں اور آنے والوں کو مختلف کمرے اور ان کا ساز و سامان دکھاتے پھرتے ہیں حد یہ کہ بیٹی کو جو جہیز دیتے ہیں وہ بھی ریا کاری کے ساتھ گاڑی کے ساتھ آگے پیچھے اس طرح روانہ کرتے ہیں کہ ایک ایک چیز کو ایک ایک مزدور ہاتھ میں لے کر یا سر پر رکھ کر گزرتا ہے) پھر جب لڑکی کے سسرال میں سامان پہنچتا ہے تو آنے جانے والوں کو دکھانے کے لیے گھر سے باہر سجاتے ہیں۔ جب قارون زینت کی چیزیں لے کر نکلا اور لوگوں کو لمبا جلوس نظر آیا تو ان کی رال ٹپکنے لگی۔ کہنے لگے اے کاش ہمارے پاس بھی اسی طرح کا مال ہوتا جیسا کہ قارون کو دیا گیا ہے بیشک وہ بڑا نصیب والا ہے، یہ بات سن کر اہل علم نے کہا (جو دنیا کی بےثباتی اور آخرت کے اجور کی بقا کو جانتے تھے) کہ تمہارا انجام برا ہو تم دنیا دیکھ کر للچائے گئے یہ تو حقیر اور فانی تھوڑی سی دنیا ہے اصل دولت ہے ایمان کی اور اعمال صالحہ کی جو شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ کو اختیار کرے اس کے لیے اللہ کا ثواب بہتر ہے۔ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ادنیٰ درجہ کے جنتی کو جنت میں اتنی وسیع جنت دی جائے گی جو اس پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اور اس سے دس گنا زیادہ ہوگی۔ اسی سے دوسری نعمتوں کا اندازہ کرلیا جائے) (وَ لَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ ) (اور یہ بات جو بیان کی گئی کہ اہل ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے اللہ کا ثواب بہتر ہے ( یہ بات انہی بندوں کے دلوں میں ڈالی جاتی ہے جو طاعات اور عبادات پر جمے رہتے ہیں اور معاصی سے بچتے ہیں۔ قارون کروفر کے ساتھ نکلا۔ اہل دنیا دیکھنے والے اس پر ریجھ گئے اب اس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا وقت آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ نہ مال کام آیانہ جماعت کام آئی نہ نوکروں اور چاکروں نے مدد کی اور نہ کوئی تدبیر کرسکا تاکہ اللہ کے عذاب سے بچ جاتا۔ جب صبح ہوئی تو لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کہاں گیا قارون اور کہاں گیا اس کا گھر نہ خود ہے نہ گھر ہے، وہ خود اور اس کا گھر زمین کا لقمہ بن چکے ہیں۔ اب تو وہ لوگ کہنے لگے جو کل اس کے جیسا مالدار ہونے کی آرزو کر رہے تھے یہ ہماری بےوقوفی تھی اصل بات یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے زیادہ رزق دے دے اور جس کے لیے چاہے تنگ کر دے، مالداری پر رشک نہ کیا جائے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ہماری آرزو کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہمیں قارون جیسا مال کثیر عطا نہیں فرمایا۔ اگر ہمیں مال مل جاتا تو ہم بھی اسی کی طرح اتراتے اور زمین میں دھنسا دیئے جاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مال کثیر نہ دے کر ہم پر کرم فرمایا اور زمین میں دھنسانے سے بچا لیا۔ وہ لوگ آخر میں اظہار ندامت کے طور پر کہنے لگے واقعی بات یہ ہے کہ کافر کامیاب نہیں ہوتے (اب ایمان اور اعمال صالحہ کی قدر ہوئی) ۔ کافروں کو دوزخ میں جانا ہے تو اس کی دولت کو دیکھ کر للچانا کسی طرح زیب نہیں دیتا مومن بندے جنت کے طالب ہیں اسی کے لیے عمل کرتے ہیں ان کی نظر میں کافر کی دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ کافروں کی چہل پہل مال و دولت پر کبھی نہ جائے ان کے اموال و احوال کو کبھی نظر میں نہ لائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہرگز فاجر کی نعمت پر رشک نہ کر کیونکہ تو نہیں جانتا کہ موت کے بعد اسے کس مصیبت سے ملاقات کرنی ہے بلاشبہ اس کے لیے اللہ کے نزدیک ایک قاتل ہے جسے کبھی موت نہ آئے گی یہ قاتل دوزخ کی آگ ہے (وہ اسی میں ہمیشہ رہے گا) ۔ (کذافی المشکوٰۃ ص ٤٤٧ از شرح السنہ) جب کافر کو دوزخ میں جانا ہے تو اس کی دولت کو دیکھ کر للچانا کسی طرح زیب نہیں دیتا مومن بندے جنت کے طالب ہیں اسی کے لیے عمل کرتے ہیں ان کی نظر میں کافر کی دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ فائدہ : قارون کے واقعہ کا گزشتہ مضامین میں ربط کیا ہے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ شروع سورت میں جو (نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی) فرمایا تھا یہ اسی سے متعلق ہے، سورت کے شروع میں موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بتایا اور سورت کے ختم کے قریب قوم کے ایک شخص کی مالداری اور بربادی کا تذکرہ فرمایا، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا ربط آیت کریمہ (وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) سے ہے قارون کو مالداری اور دنیا داری اور بربادی کی ایک نظیر پیش فرما کر یہ بتادیا کہ اہل دنیا کا برا انجام ہوتا ہے۔ (روح المعانی) قولہ تعالیٰ ” ویکان اللّٰہ “ ” ویکانہ “ قال صاحب الروح ووی عند الخلیل و سیبویہ اسم فعل و معناھا اعجب و تکون للتحسر والتندم ایضا کما صرحوا بہ، و عن الخلیل أن القوم ندموا فقالوا امتندمین علی ما سلف منھم، و کل من ندم وأراد اظھار ندمہ قال ” وی “ و لعل الاظھر ارادۃ التعجب بأن یکونوا تعجبوا اولا مما و قع و قالوا ثانیا کان الخ و کان فیہ عاریۃ عن معنی التشبیہ جئی بھا للتحقیق۔ (ص ١٢٤: ج ٢٠) اللہ تعالیٰ کا ارشاد وَیْکَانَّہٗ اس کے بارے میں تفسیر روح المعانی کے مصنف فرماتے ہیں خلیل اور سیبویہ کے نزدیک ” وی “ اسم بمعنی فعل ہے اور اس کا معنی ” أعجب “ مجھے تعجب ہے۔ “ اور یہوی حسرت و ندامت کے اظہار کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے۔ خلیل کہتے ہیں کہ قوم والے پشیمان ہوئے اور کہنے لگے ” وی “ یعنی جو کچھ ان سے ہوچکا اس پر ندامت کرتے ہیں۔ اور ہر آدمی جو پشیمان ہوا اور اس نے اپنی ندامت ظاہر کرنا چاہی تو کہتا ہے ” وی “ اور اس سے زیادہ ظاہر یہ کہ اس سے مراد تعجب ہو اس طرح کہ جو واقعہ پیش آیا پہلے انہوں نے اس پر تعجب کیا اور پھر کہا ” کان “ اور اس وقت یہ کأن تشبیہ سے خالی ہوگا اور تحقیق کے لیے استعمال کیا گیا ہے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:۔ قارون ایک دفعہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ، اپنے خدم و حشم کے جلو میں نہایت ہی بیش قیمت لباس اور ساز و سامان کے ساتھ نکلا۔ جب دنیا دار لوگوں نے اس کی شان اور آن بان دیکھی تو بول اٹھے ہائے کاش ! ہمارے پاس بھی اس قدرت دولت ہوتی۔ قارون تو بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ وقال الذین اوتوا العلم الخ دنیاداروں ک... ی باتیں سن کر دیندار اور اہل علم نے اس آرزو پر انہیں سرزنش کی اور کہا تم پر افسوس ! تم دنیا کی تمنا کرتے ہو حالانکہ ایمان اور عمل صالح کا ثواب واجر اس سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن یہ خیال صرف انہی لوگوں کے دلوں میں آتا ہے جو ایمان وعمل صالح پر قائم ہوں اور شہوات و معاصی سے اپنے نفس امارہ کو قابو میں رکھ سکتے ہوں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

79۔ پھر قارون اپنی خوب زینت و زیبائش کے ساتھ اپنی قوم پر نکلا تو وہ لوگ جو دنیوی زندگی کو چاہتے تھے اس کی شان و شوکت دیکھ کر کہنے لگے کیا خوب ہوتا کہ ہم کو بھی وہ ساز و سامان ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے واقعی وہ بڑے نصیبے والا ہے۔ قارون اپنا خاص لباس پہن کر ایک سفید خچر پر بیٹھ کر نکلا اور ہزاروں پی... دل اور سوار اسکے جلوس میں تھے یہ ٹھاٹھ اور کرد فردیکھ کر بعض طالبین دنیا نے یہ تمنا کی کہ کاش ہم کو یہ سب سامان عیش ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے وہ واقعی بڑا نصیبے والا ہے بنی اسرائیل کے بعض دنیا داروں نے یہ تمنا کی ۔  Show more