Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 80

سورة القصص

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَیۡلَکُمۡ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۚ وَ لَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ ﴿۸۰﴾

But those who had been given knowledge said, "Woe to you! The reward of Allah is better for he who believes and does righteousness. And none are granted it except the patient."

ذی علم لوگ انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں یہ بات انہی کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر وسہارے والے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ... But those who had been given knowledge said: When the people of beneficial knowledge heard this, they said to them: ... وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ امَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ... Woe to you! The reward of Allah is better for those who believe and do righteous deeds, Allah's reward to His believing, righteous servants in the Hereafter is better than what you see,' as is reported in the authentic Hadith: يَقُولُ اللهُ تَعَالَى أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ وَاقْرَءُوا إِنْ شِيْتُمْ Allah has prepared for His righteous servants what no eye has seen, no ear has heard, and the heart of a human cannot comprehend. Recite, if you wish: فَلَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّأ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ No person knows what is kept hidden for them of joy as a reward for what they used to do. (32:17) ... وَلاَ يُلَقَّاهَا إِلاَّ الصَّابِرُونَ and this none shall attain except the patient. As-Suddi said: "None shall reach Paradise except for the patient" -- as if this were the completion of the statement made by the people of knowledge. Ibn Jarir said, "This applies only to those who patiently forsake the love of this world, seeking the Hereafter. It is as if this is part of what the people of knowledge said, but it is made part of the Words of Allah, stating this fact."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

801یعنی جن کے پاس دین کا علم تھا اور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لئے جو اجر وثواب رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ فرماتا ہے ' میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ان کا ذکر ہوا ' (البخاری کتاب التوحید) 802یعنی یلقاھا میں ھا کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہوگی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آحرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] علم سے مراد علم شریعت ہے۔ یعنی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت کی کامیابی کے مقابلہ میں دنیا کا سازوسامان جتنا بھی ہو وہ کچھ حقیقت رکھا۔ ایسے عالم لوگوں نے قارون اور اس کے ٹھاٹھ باٹھ پر رہنے والوں سے کہا، تمہاری دنیا سے یہ محبت تمہاری خطرناک بھول غلطی ہے۔ اصل کامیابی دنیا کی نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی اور وہ اجر ہے جو ایماندار نیک لوگوں کو ملے گا۔ [١٠٩] یہاں صبر بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اپنے آپ کو صرف حلال کمائی کی پابند بنائے رکھنا بھی صبر ہے۔ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا بھی ہے۔ دنیوی جاہ و حشمت کو دیکھ کر اس پر فریفتہ نہ ہونا بھی صبر ہے۔ اور اخروی نجات اور کامیابی کو مطمع نظر بنا کر اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنانا صبر ہے۔ یعنی آخرت کا ثواب اور کامیابی انھیں لوگوں کا نصیب ہوگا جنہوں نے اس دنیا میں صبر، استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ۔۔ : وہ لوگ جنھیں علم دیا گیا تھا، کہنے لگے، افسوس تم پر ! اللہ کی نافرمانی کے ساتھ حاصل ہونے والی اس زیب و زینت اور شان و شوکت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ بدلا کہیں بہتر ہے جو وہ ایمان اور عمل صالح والوں کو عطا کرتا ہے۔ اس آیت میں اللہ کے ثواب سے مراد وہ رزق کریم ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر قائم رہ کر محنت و کوشش کے نتیجے میں دنیا اور آخرت میں حاصل ہوتا ہے۔ وَلَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ : صبر کی تین قسمیں ہیں، اللہ کے احکام پر صبر یعنی ان کا پابند رہنا، اس کی نافرمانی سے صبر یعنی اس سے بچتے رہنا اور مصیبتوں پر صبر۔ یعنی اللہ کا یہ ثواب صرف انھی لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے جن میں اتنا صبر اور ثابت قدمی ہو کہ حلال طریقے اختیار کرنے پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں، خواہ تھوڑا رزق ملے یا زیادہ، حرام سے قطعاً اجتناب کریں، خواہ اس سے کتنے فائدے مل رہے ہوں اور اس صدق و دیانت کی وجہ سے پیش آنے والی ہر مشکل اور مصیبت پر صبر کریں۔ دنیا کی تکالیف کو عارضی اور چند روزہ سمجھ کر کسی نہ کسی طرح گزار دیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ لائیں۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ثواب، جو مومن کو دنیا میں ملتا ہے، تھوڑا ہو یا زیادہ، کافر کے مال و منال سے خواہ وہ کتنا زیادہ ہو، اس لیے بہتر ہے کہ مومن کو اللہ کی فرماں برداری کی خوشی کا احساس، اس کے عطا کردہ رزق پر صبرو قناعت اور اس کی وجہ سے ملنے والی سکون و اطمینان کی دولت کے مقابلے میں کافر کے اموال و اولاد اور زیب و زینت کی کوئی حقیقت ہی نہیں، جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ان کے لیے بیشمار رنج و غم اور عذاب کا باعث ہیں، جیسا کہ فرمایا : (فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ) [ التوبۃ : ٥٥ ] ” سو تجھے نہ ان کے اموال بھلے معلوم ہوں اور نہ ان کی اولاد، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ “ اور آخرت میں اللہ کا ثواب کفار کی دنیوی زینت و مال سے اس لیے کہیں بہتر ہے کہ یہ عارضی ہے اور وہ باقی، اس میں بیشمار پریشانیوں اور رنج و غم کی آمیزش ہے اور وہ ہر قسم کے رنج و غم کی آمیزش سے پاک ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ (And said those who were given knowledge - 28:80). This verse has compared the knowledgeable persons with الَّذِينَ يُرِ‌يدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (Those who are desirous of the worldly life - 28:79), which clearly indicates that it is not the trait of knowledgeable persons to aspire for the acquisition of wealth and to make it the object of life. They always keep their eyes toward the lasting benefits of the Hereafter. As for the mundane wealth, they take it only to fulfill their day-to-day needs, and stay content with that.

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ الآیتہ اس آیت میں الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ یعنی علماء کا مقابلہ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا سے کیا گیا ہے جس میں واضح اشارہ اس طرف ہے کہ متاع دنیا کا ارادہ اور اس کو مقصود بنانا اہل علم کا کام نہیں اہل علم کی نظر ہمیشہ آخرت کے دائمی فائدہ پر رہتی ہے۔ متاع دنیا کو بقدر ضرورت حاصل کرتے ہیں اور اسی پر قناعت کرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللہِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝ ٠ۚ وَلَا يُلَقّٰىہَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۝ ٨٠ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ( لقی) تلقی السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) اور جن لوگوں کو دین کی فہم یعنی زہد و توکل حاصل تھا وہ بولے تم لوگ برباد ہو اللہ تعالیٰ کے گھر یعنی جنت کا ثواب اس سے ہزار درجہ بہتر ہے جو ایسے شخص کو ملتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور نیک کام کرے اور جنت ان ہی لوگوں کو دی جاتی ہے جو احکام خداوندی اور تکالیف پر صبر کرنے والے ہیں یا یہ کہ کلمہ طیبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی توفیق ان ہی لوگوں کو ہوتی ہے جو احکام خداوندی اور تکالیف پر صبر کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ) ” جیسا کہ قبل ازیں آیت ٧٦ کے ضمن میں بھی بیان ہوچکا ہے کہ اس معاشرے میں کچھ نیک سرشت لوگ اور اصحاب علم و فہم بھی تھے جنہیں دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ اور زیب وزینت کی اصل حقیقت معلوم تھی۔ ایسے لوگوں نے قارون کے ٹھاٹھ باٹھ سے متاثر ہونے والے لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہا : (وَیْلَکُمْ ثَوَاب اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ج) ” یعنی تم خواہ مخواہ اس کی شان و شوکت کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم حقیقی ایمان اور عمل صالح کی شرائط پر پورے اترو تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں جن نعمتوں سے نوازے گا وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہوں گی۔ سورة النور کی آیت ٥٥ میں اس ضمن میں اللہ کے وعدے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ ۔۔ ) ” اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے حقیقی طور پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں کہ انہیں وہ زمین میں ضرور حکومت و خلافت سے نوازے گا۔۔ “ اس کے بعد آخرت میں ایسے لوگوں کو جو اجر وثواب ملنے والا ہے اور جنت میں ان پر جن نعمتوں کی بارش ہونے والی ہے اس کا تو اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ (وَلَا یُلَقّٰٹہَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ ) ” آخرت کا وہ اجر وثواب صرف انہی لوگوں کو حاصل ہوگا جو دنیا میں صبر و قناعت سے گزر بسر کرتے رہے اور اپنی ضروریات سے زیادہ کی ہوس سے بچتے رہے۔ اس سلسلے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (مَا قَلَّ وَ کَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی ) (١) ” جو چیز کم ہو لیکن بقدر کفایت ہو وہ اس سے بہتر ہے جو بہت زیادہ ہو لیکن غفلت میں مبتلا کر دے “۔ کیونکہ دولت کی بہتات ہوگی تو اس کے سبب انسان غفلت کا شکار ہوجائے گا۔ اس کے مقابلے میں اگر آج کا کھانا کھا کر آدمی کل کے کھانے کے لیے اللہ پر توکلّ کرے گا تو وہ اللہ کو بھول نہیں پائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

100 That is, "'This kind of character and the way of thinking and the hounty of Allah's reward falls to the lot of only those who stick firmly and steadfastly and patiently to the lawful ways in life, whether by so doing they are able to earn only a bare living, or are enabled to become millionaires, but are never inclined to follow the unlawful ways even if they promise aII the benefits and wealth of the world. In this verse, "Allah's reward" means the bounteous provision that is gained by man in the world and the Hereafter as a result of labour acrd toil undertaken within the bounds set by Allah; and "patience" means to have control over one's emotions and desires, to stick to honesty and righteousness as against greed and lust, to bear the losses that one may have to incur on account of the truth and justice, to spurn the gains that might accrue from employing unlawful devices, to remain content and satisfied with the lawful earning even if it is meagre and insufficient, to eschew feelings of envy and jealousy at the splendour of the corrupt people and avoid ;even casting a glance at it, and to be satisfied with the thought that for an honest man the colourless purity that Allah has granted him by His grace is better than the lustrous filth of evil and corruption. As for "fortune", it implies Allah's reward as well as the pure mentality by virtue of which a believing and righteous person finds it easier to suffer hunger and starvation than become a multi-millionaire by adopting dishonest and corrupt ways and means."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 100 یعنی یہ سیرت ، یہ انداز فکر اور یہ ثواب الہی کی بخشش صرف انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جن میں اتنا تحمل اور اتنی ثابت قدمی موجود ہو کہ حلال طریقے ہی اختیار کرنے پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں ، خواہ ان سے صرف چٹنی روٹی میسر ہو یا کروڑ پتی بن جانا نصیب ہوجائے ، اور حرام طریقوں کی طرف قطعا مائل نہ ہوں خواہ ان سے دنیا بھر کے فائدے سمیٹ لینے کا موقع مل رہا ہو ۔ اس آیت میں اللہ کے ثواب سے مراد ہے وہ رزق کریم جو حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے محنت و کوشش کرنے کے نتیجے میں انسان کو دنیا اور آخرت میں نصیب ہو ۔ اور صبر سے مراد ہے اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھنا ، لالچ اور حرص و آز کے مقابلے میں ایمانداری اور راستبازی پر ثابت قدم رہنا ، صداقت و دیانت سے جو نقصان بھی وہتا ہو یا جو فائدہ بھی ہاتھ سے جاتا ہو اسے برداشت کرلینا ، ناجائز تدبیروں سے جو منفعت بھی حاصل ہوسکتی ہو اسے ٹھوکر مار دینا ، حلال کی روزی خواہ بقدر سدرمق ہی ہو اس پر قانع و مطمئن رہنا ، حرام خوروں کے ٹھاٹھ دیکھ کر رشک و تمنا کے جذبات سے بے چین ہونے کے بجائے اس پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہ ڈالنا اور دل سے یہ سمجھ لینا کہ ایک ایماندار آدمی کے لیے اس چمکدار گندگی کی بہ نسبت وہ بے رونق طہارت ہی بہتر ہے جو اللہ نے اپنے فضل سے اس کو بخشی ہے ، رہا یہ ارشاد کہ یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو تو اس دولت سے مراد اللہ کا ثواب بھی ہے اور وہ پاکیزہ ذہنیت بھی جس کی بنا پر آدمی ایمان و عمل صالح کے ساتھ فاقہ کشی کرلینے کو اس سے بہتر سمجھتا ہے کہ بے ایمانی اختیار کر کے ارب پتی بن جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48:’’ صبر‘‘ قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ناجائز خواہشات پر قابو پاکر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری پر ثابت قدم رکھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:80) ویلکم مضاف مجاف الیہ۔ تمہاری ہلاکتر۔ بطور کلمہ حسرت و مدامت یا کلمہ زجر استعمال ہوتا ہے۔ ویل بمعنی ہلاکت۔ عذاب۔ دوزخ کی ایک وادی۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ حیف ہے تم پر۔ تم مرو۔ ثواب اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کا ثواب۔ ثواب۔ انعام۔ جزائ۔ بدلہ۔ یہاں مراد جنت بھی ہوسکتی ہے۔ لایلقھا : لایلقی۔ مضارع منفی مجہول ۔ واحد مذکر غائب۔ نہیں دیا جائے گا کوئی شخص وہ ثواب۔ یعنی نہیں دیا جائے وہ ثواب (مگر صبر کرنے والوں کو) ۔ لقی فلان الشیئ۔ کوئی چیز کسی کی طرف پھینکنا۔ تلقیۃ (تفعیل) مصدر۔ ثواب کو اس کے مفہوم (المثوبۃ او الجنۃ) کی رعایت سے مؤنث لایا گیا ہے۔ یہ یلقی کا مفعول ثانی ہے مطلب یہ کہ یہ جزاء اور کسی کو عطا نہیں کی جائے گی (بجز صبر کرنے والوں کے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی اپنا اصلی گھر آخرت کو سمجھتے ہیں۔ دنیا کی تکالیف کو عارضی اور چند روزہ سمجھ کر کسی نہ کسی طرح گزار دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” دنیا سے آخرت کو وہی بہتر جانتے ہیں جن سے محنت سہی جاتی ہے۔ اور بےصبر لوگ حرص کے مارے دنیا کی آرزو پر گرتے ہیں۔ نادان آدمی دنیا دار کی آسودگی کو جانتا ہے (یعنی اس کی آسودگی کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ یہ بڑا قسمت والا ہے) اس کی فکر کو اور آخر کی (یعنی آخرت کی) ذلت اور سوجائی (یعنی سو جگہ) خوشامد کرنے کو نہیں دیکھتا ہے کہ دنیا میں آرام ہے تو دس بیس برس اور مرنے کے بعد کاٹنے ہیں ہزاروں برس۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس تم لوگ ایمان کی تکمیل و عمل صالح کی تحصیل میں لگو، اور حد شرعی کے اندر دنیا حاصل کرو اس کی حرص و طمع سے صبر کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

80۔ اور جن لوگوں کو صحیح علم و فہم عطا کیا گیا تھا انہوں نے فرمایا اے دنیا کے طالبو ! تم پر افسوس ہے ، اللہ تعالیٰ کا وہ ثواب بدرجہا بہتر ہے جو اس کی بارگاہ سے ایسے شخص کو ملتا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتا رہے اور یہ مرتبہ سوائے صبر کرنیوالوں اور ثابت قدم رہنے والوں کے اور کسی کو میسر نہیں ہوا کرتا ۔ حضرت شمعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوسرے ہمراہی جو اہل علم و فہم تھے ان کو سمجھانے لگے کہ ایسی فانی چیز کی تمنا کیوں کرتے ہو ۔ اس قارون کی زینت و زیبائش سے اللہ تعالیٰ کا ثواب جو ایمان لانے والوں اور اعمال نیک کرنیوالوں کو ملتا ہے وہ ہزارہا درجے اس سے بہتر اور اچھا ہے۔ یہ کرامت اور بزرگی اور کامل ثواب ان لوگوں کو ملتا ہے جو صبر کرنے والے ہیں نیک اعمال پر اور دنیوی تنگ دستی پر حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا سے آخرت کو بہتر وہی جانتے ہیں جن سے محنت سہی جاتی ہے اور بےصبر لوگ حرص کے مارے دنیا کی آرزو پر گرتے ہیں نا دان آدمی دنیا دار کی آسودگی کو جانتا ہے کہ اس یک بڑی قسمت ہے اس کی فکر کو اور آخرت کی ذلت کو اور رسوائی و خوشامد کرنے کو نہیں دیکھتا اور یہ نہیں دیکھتا کہ دنیا میں آرام ہے تو دس بیس برس اور مرنے کے بعد کانٹے ہیں ہزاروں برس ۔ 12