Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 12

سورة العنكبوت

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۲﴾

And those who disbelieve say to those who believe, "Follow our way, and we will carry your sins." But they will not carry anything of their sins. Indeed, they are liars.

کافروں نے ایمان والوں سے کہا کہ تم ہماری راہ کی تابعداری کرو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والے ، یہ تو محض جھوٹے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Arrogant Claim of the Disbelievers that They would carry the Sins of Others if They would return to Disbelief Allah tells: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ امَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا ... And those who disbelieve say to those who believe: "Follow our way, Allah tells us that the disbelievers of Quraysh said to those who believed and followed the truth: leave your religion, come back to our religion, and follow our way; ... وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ ... and let us bear your sins." meaning, `if there is any sin on you, we will bear it and it will be our responsibility'. It is like a person saying: "Do this, and your sin will be on my shoulders." Allah says, proving this to be a lie: ... وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ Never will they bear anything of their sins. Surely, they are liars. in their claim that they will bear the sins of others, for no person will bear the sins of another. Allah says: وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لاَ يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى and if one heavily laden calls another to (bear) his load, nothing of it will be lifted even though he be near of kin. (35:18) وَلاَ يَسْـَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً يُبَصَّرُونَهُمْ And no friend will ask a friend (about his condition), though they shall be made to see one another. (70:10-11)

گناہ کسی کا اور سزا دوسرے کو کفار قریش مسلمانوں کو بہکانے کے لئے ان سے یہ بھی کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب پر عمل کرو اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہم پر ۔ حالانکہ یہ اصولا غلط ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی اٹھائے ۔ یہ بالکل دروغ گو ہیں ۔ کوئی اپنے قرابتداروں کے گناہ بھی اپنے اوپر نہیں لے سکتا ۔ دوست دوست کو اس دن نہ پوچھے گا ۔ ہاں یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے بوجھ بھی ان پر لادے جائیں گے مگر وہ گمراہ ہلکے نہ ہوں گے ۔ ان کا بوجھ ان پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ 25؀ۧ ) 16- النحل:25 ) یعنی یہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں بہکایا تھا ان کے بہکانے کا گناہ بھی ان پر ہوگا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جو ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے ۔ قیامت تک جو لوگ اس ہدایت پر چلیں گے ان سب کو جتنا ثواب ہوگا اتنا ہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان کے ثوابوں میں سے گھٹ کر نہیں ۔ اسی طرح جس نے برائی پھیلائی اس پر جو بھی عمل پیراہوں ان سب کو جتنا گناہ ہوگا اتناہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تمام رسالت پہنچا دی آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت والے دن اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی اور اپنے جلال کی قسم آج ایک ظالم کو بھی میں نہ چھوڑونگا ۔ پھر ایک منادیٰ ندا کرے گا کہ فلاں فلاں کہاں ہے؟ وہ آئے گا اور پہاڑ کے پہاڑ نیکیوں کے اس کے ساتھ ہونگے یہاں تک کہ اہل محشر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں گی ۔ وہ اللہ کے سامنے آکر کھڑا ہوجائے گا پھر منادیٰ ندا کرے گا کہ اس طرف سے کسی کا کوئی حق ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو وہ آجائے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ اب تو ادھر ادھر سے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور اسے گھیر کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے ان بندوں کو ان کے حق دلواؤ ۔ فرشتے کہیں گے اے اللہ کیسے دلوائیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کی نیکیاں لو اور انہیں دو چنانچہ یوں ہی کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک نیکی باقی نہیں رہے گی اور ابھی تک بعض مظلوم اور حقدار باقی رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا انہیں بھی بدلہ دو فرشتے کہیں گے اب تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں رہی ۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا ان کے گناہ اس پرلادو ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ 13۝ۧ ) 29- العنكبوت:13 ) ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قیامت کے دن مومن کی تمام کوششوں سے سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سرمے اور اس کے مٹی کے گوندھے سے بھی ۔ دیکھ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی اور تیری نیکیاں لے جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔ 122اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔ قیامت کا دن تو ایسا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٠] یہ بات مشرکین مکہ مسلمانوں سے اس لئے کہتے تھے کہ وہ خود آخرت کے قیام کے قائل ہی نہ تھے۔ نہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ آخرت میں ان سے باز پرس بھی ہونے والی ہے پھر انھیں اپنے اپنے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا۔ دوسری طرف انھیں اپنا دین مرغوب بھی تھا اور وہ اس مشرکانہ دین کو برحق بھی سمجھتے تھے۔ اسی لئے وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ اگر تم واپس ہمارے دین میں آجاؤ۔ تو تمہارے خیال کے مطابق تمہارے اس ارتداد کا گناہ قیامت کو ہم اٹھائیں گے۔ گویا اس طرح کے سمجھوتہ میں انھیں فائدہ ہی فائدہ نظر آتا تھا۔ یعنی ان کا مطالبہ ارتداد تو ابھی پورا ہوجائے۔ اور اس کے معاوضہ کا جو وعدہ کرتے تھے اس پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ [ ٢١] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اٹھاتا ہے نہ اٹھا سکتا ہے۔ لہذا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب یہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے۔ اور انھیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ تو اس وقت کبھی نہ بکیں گے کہ فلاں شخص ہمارے کہنے پر اسلام سے پھر گیا تھا لہذا اسے تو جنت میں بھیج دو اور اس کا عذاب بھی میرے عذاب میں اضافہ کردو۔ اس لحاظ سے بھی یہ جھوٹ بک رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا ۔۔ : اس آیت میں ایمان لانے والوں کی ایک اور آزمائش کا ذکر فرمایا ہے کہ کفار ہر طریقے سے انھیں بہکانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کفار نے ایمان لانے والوں سے کہا، تم ہمارے راستے پر چلو، ہماری طرح بت پرستی کرو اور من مانی زندگی بسر کرو، نہ کچھ کرنے کی پابندی نہ کسی کام سے رکنے کی پابندی اور ہم پر لازم ہے کہ تمہارے گناہ اٹھائیں۔ (” ولنحمل “ امر کا صیغہ تاکید کے لیے استعمال کیا ہے) یعنی ہم ہر صورت تمہارے گناہ اٹھائیں گے، جیسے کہا جاتا ہے، تم یہ کام کرو، تمہارا گناہ میری گردن پر۔ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں، یقیناً یہ جھوٹ بول رہے ہیں، اس وقت گناہ اٹھانا تو دور کی بات انھوں نے اپنے پیچھے چلنے والوں سے بالکل ہی لا تعلق ہوجانا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ ) [ البقرۃ : ١٦٦ ] ” جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی تھی، ان لوگوں سے بالکل بےتعلق ہوجائیں گے جنھوں نے پیروی کی اور وہ عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات بالکل منقطع ہوجائیں گے۔ “ ان کے گناہ نہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کسی صورت نہیں ہوسکتا کہ قیامت کے دن ان کے گناہ خود اٹھا کر انھیں گناہ سے بری کردیں اور کہیں کہ تم جنت میں جاؤ، تمہارے گناہوں کی سزا ہم بھگتیں گے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۭ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى) [ فاطر : ١٨ ] ” اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ سے لدی ہوئی (جان) اپنے بوجھ کی طرف بلائے گی تو اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا جائے گا، خواہ وہ قرابت دار ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا (And those who disbelieve say - 29:12). The infidels had tried all sorts of devices to mislead the Muslims and to hinder the progress of their faith. Sometimes they tried to get hold of Muslims by show of power and wealth, and at others by trying to put doubts in their minds. This verse mentions one such move made by them. They asked Muslims not to leave their ancestral religion in fear of torments in the Hereafter, because no such thing was going to happen at the first place, but even the belief of the Muslims about the Hereafter would come true, they (the infidels) were willing to undertake that they themselves would bear all the torments in the Hereafter on behalf of the Muslims, and the Muslims would not suffer at all. A similar incident is related in the last ruku& of Surah –Najm أَفَرَ‌أَيْتَ الَّذِي تَوَلَّىٰ وَأَعْطَىٰ قَلِيلًا وَأَكْدَىٰ (Have you seen the one who turned his back, and gave a little, then stopped - 53:33-34). Once some infidels hoodwinked a naive friend of theirs by saying that if he gave them some money here in this world, they would save him in the Hereafter by taking upon themselves his share of the torment. He in fact started paying them the amount, but later stopped it. His foolishness and the absurdity of his action are related in detail in Surah -Najm. A similar sort of offer made by the infidels to the Muslims is related here. In response to this offer Allah Ta’ ala has said that those who say so are liars. They would not take upon them the burden of any one else. وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ (And they are not (able) to bear the burden of their sins in the least. Indeed they are pure liars. -.29:12). It means that when they will see the severity of torment in the Hereafter, they would not dare to take upon themselves the share of anyone else. Hence their promise is false. It is also commented in Surah An-Najm that even if they were ready to take upon them the torment of others, Allah Ta’ ala will not allow it. Because it is against the code of justice that someone else is made to undergo the punishment for the crime committed by another person. The other point made by the Qur&an here is that although they will not be able to relieve others by taking on themselves the recompense for the sins others have committed, but this much is true that their effort to misguide others and to drift them away from the righteous path is by itself a big sin, which will be loaded upon them in addition to their own sins. This way they will be carrying their own sins as well as that of misguiding others. Invitation to sin is also a sin, the punishment of which is the same as that of committing it. It comes out quite clearly from this verse that the one who invites others to sin, or helps others in committing it, is as much a criminal as the one who actually commits it. A hadith quoted by Sayyidna Abu Hurairah (رض) and Anas Ibn Malik (رض) relates that once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said ` Anyone inviting people toward righteousness would be entitled to the collective blessings of all those who would act on his advice, without any reduction from the share of their reward; and anyone inviting people toward sin will also suffer the collective punishment of all those who would act upon his invitation to sin, without any reduction from the punishment of those who have committed that sin&. (Muslim, Ibn Majah, Qurtubi)

معارف و مسائل وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا، کفار کی طرف سے اسلام کا راستہ روکنے اور مسلمانوں کو بہکانے کی تدبیریں مختلف طریقوں سے ہوتی رہی ہیں، کبھی زور و زر کی نمائش سے کبھی شکوک و شبہات پیدا کرنے سے اس آیت میں بھی ان کی ایک ایسی ہی تدبیر مذکور ہے، کہ کفار مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ بلا وجہ عذاب آخرت کے خوف سے ہمارے طریقہ پر نہیں چلتے، لو ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ اگر تمہاری ہی بات سچی ہوئی کہ اس طریقہ پر چلنے کی وجہ سے آخرت میں عذاب ہوگا تو تمہارے گناہوں کا بوجھ ہم اٹھا لیں گے جو کچھ عذاب، تکلیف پہنچنے گی ہمیں پہنچنے گی تم پر آنچ نہ آئے گی۔ اسی طرح کا ایک شخص کا واقعہ سورة نجم کے آخری رکوع میں ذکر کیا گیا ہے اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ تَوَلّٰى وَاَعْطٰى قَلِيْلًا وَّاَكْدٰى جس میں مذکور ہے کہ ایک شخص کو اس کے کافر ساتھیوں نے یہ کہہ کر دھوکا دیا کہ تم ہمیں کچھ مال یہاں دے دو تو ہم قیامت اور آخرت کے دن تمہارے عذاب کو اپنے ذمہ لے کر تمہیں بچا دیں گے، اس نے کچھ دینا بھی شروع کردیا پھر بند کردیا۔ اس کی بےوقوفی اور اس کے عمل کے لغو ہونے کا بیان سورة نجم میں تفصیل سے مذکور ہے۔ اسی طرح کا ایک قول کفار کا عام مسلمانوں سے یہاں مذکور ہے، یہاں حق تعالیٰ نے ان کے جواب میں ایک تو یہ فرمایا کہ ایسا کہنے والے بالکل جھوٹے ہیں، یہ قیامت میں ان لوگوں کے گناہوں کا کوئی بوجھ نہ اٹھائیں گے۔ وَمَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ، یعنی وہاں کے ہولناک عذاب کو دیکھ کر ان کو ہمت نہ ہوگی کہ اس کے اٹھانے کے لئے تیار ہوجائیں اس لئے یہ وعدہ ان کا جھوٹا ہے اور سورة نجم میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ کچھ بوجھ اٹھانے کو تیار بھی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اس کا اختیار نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ قانون عدل کے خلاف ہے کہ ایک کے گناہ میں دوسرے کو پکڑ لیا جاے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ ان لوگوں کا یہ کہنا تو غلط اور جھوٹ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر تمہیں سبکدوش کردیں گے، البتہ یہ ضرور ہوگا کہ تمہارا بہکانا اور تمہیں راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کرنا خود ایک بڑا گناہ ہے جو ان کے اپنے اعمال کے عذاب کے علاوہ ان پر لاد دیا جائے گا۔ اس طرح ان پر اپنے اعمال کا بھی وبال ہوگا اور جن کو بہکایا تھا ان کا بھی۔ گناہ کی دعوت دینے والا بھی گناہگار ہے گناہ کرنے والے کو جو عذاب ہوگا وہی اس کو بھی ہوگا : اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی دوسرے کو گناہ میں مبتلا کرنے کی تحریک کرے یا گناہ میں اس کی مدد کرے وہ بھی ایسا ہی مجرم ہے جیسا یہ گناہ کرنے والا۔ ایک حدیث جو حضرت ابوہریرہ اور انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو جتنے لوگ اس کی دعوت کی وجہ سے ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کے عمل کا ثواب اس داعی کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر وثواب میں کوئی کمی کی جائے اور جو شخص کسی گمراہی اور گناہ کی طرف دعوت دے تو جتنے لوگ اس کے کہنے سے اس گمراہی میں مبتلا ہوں گے ان سب کا گناہ اور وبال اس شخص پر بھی پڑے گا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے وبال و عذاب میں کوئی کمی ہو (مسلم عن ابی ہریرة و ابن ماجہ عن انس، قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ۝ ٠ۭ وَمَا ہُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰہُمْ مِّنْ شَيْءٍ۝ ٠ۭ اِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝ ١٢ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ خطأ الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب : أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله، وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] . والثاني : أن يريد ما يحسن فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء/ 92] . والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان، لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا لتولّد ذلک الفعل منه ( خ ط ء ) الخطاء والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔ یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔ اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔ الخطیتۃ یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة/ 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور ابوجہل اور اس کے ساتھی حضرت علی (رض) اور حضرت سلمان (رض) سے کہتے ہیں کہ ہمارا دین اختیار کرلو قیامت کے دن تمہارے گناہوں کا بوجھ ہمارے ذمہ ہے حالانکہ یہ لوگ قیامت کے دن ان کے گناہوں میں سے ذرا بھی نہیں لے سکتے یہ بالکل جھوٹ بک رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ ط) ” اس آیت میں مکہ کے ماحول میں ایمان لانے والے نوجوانوں کے تیسرے اہم مسئلے کی نشاندہی ملتی ہے۔ یعنی رشتوں کے کٹنے اور کہیں کہیں حوصلے کی کمزوری کے اظہار کے علاوہ ایک سنجیدہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ قبیلے کے بڑے بوڑھے ناصحانہ انداز میں نوجوانوں کو سمجھانے بیٹھ جاتے تھے کہ دیکھو برخوردار ! تم نوجوان ہو ‘ باصلاحیت ہو ‘ خاندانی کاروبار کے وارث ہو ‘ ایک مثالی کیرئیر اور روشن مستقبل تمہارے سامنے ہے۔ مگر تم جذبات میں آکر ایک ایسا راستہ اپنانے جا رہے ہو جس میں مشکلات ‘ پریشانیوں اور افلاس کے سوا تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہماری طرف دیکھو ! ہم نے اس دنیا میں ایک عمر گزاری ہے ‘ ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ‘ ہم زندگی کے نشیب و فراز اور نفع و نقصان کے تمام پہلوؤں کو خوب پہچانتے ہیں۔ اس نئے دین کی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں ‘ مگر ہم ان کو سن کر جذباتی نہیں ہوئے۔ ہم نے پوری سمجھ بوجھ سے ان باتوں کا تجزیہ کیا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا فائدہ اپنے پرانے طریقے اور اپنے باپ دادا کے دین کی پیروی میں ہی ہے۔ لہٰذا تم ہماری بات مانو اور اپنے پرانے طریقے پر واپس آجاؤ۔ رہی بات آخرت کے احتساب کی تو اس کی ذمہ داری تمہاری طرف سے ہم اٹھاتے ہیں۔ وہاں اگر کوئی سزا ہوئی تو وہ تمہاری جگہ ہم بھگت لیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 What they meant to say was: "In the first place, the talk about life hereafter and Resurrection and accountability is all meaningless. But supposing there is another life in which the people will be called to account for their deeds, we take the responsibility that we shall take the punishment, etc. on our own selves. You should, therefore,- listen to us and give up this new Faith and return to your ancestral religion." According to the traditions several chiefs of the Quraish used to counsel thus the people who embraced Islam in the beginning. So, when Hadrat `Umar accepted Islam, Abu Sufyan and Harab bin Umayyah bin Khalaf met him and said these very things." 18 That is, "It is not at all possible that a person should take the responsibility for another before Allah, and thus enable the actual sinner to escape the punishment of his sin, for every person will be responsible for his own deeds there. "No bearer of a burden shall bear the burden of another." (An-Najm: 38) But if at all it be so, none will have the nerve, in face of the blazing Hell got ready to punish the disbelievers, to say to Allah, only for the sake of honouring his pledge in the world, "Lord, forgive this person and send him to Paradise: he had turned apostate on my counselling: I offer myself to suffer the punishment for my own disbelief as well as for his in Hell."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 17 ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں ۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی باز پرس بھی ہوتی ہے تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب اپنی گردن پر لے لیں گے ۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آجاؤ ، روایات میں متعدد سرداران قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتدا جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن امیہ بن خلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 18 یعنی اول تو یہی ممکن ہے کہ کوئی شخص خدا کے ہاں کسی دوسرے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور کسی کے کہنے سے گناہ کرنے والا خود اپنے گناہ کی سزا پانے سے بچ جائے ، کیونکہ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے ۔ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو جس وقت کفر و شرک کا انجام ایک دھکتی ہوئی جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا اس وقت کس کی یہ ہمت ہے کہ دنیا میں جو وعدہ اس نے کیا تھا اس کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہہہ دے کہ حضور ، میرے کہنے سے جس شخص نے ایمان کو چھوڑ ارتداد کی راہ اختیار کی تھی ، آپ اسے معاف کر کے جنت میں بھیج دیں ، اور میں جہنم میں اپنے کفر کے ساتھ اس کے کفر کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢‘ ١٣۔ تفسیر مقاتل وغیرہ میں مجاہد اور ضحاک کے قول کے موافق جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جو تھوڑے سے مسلمان لوگ رہ گئے تھے ان سے ابوسفیان اور مشرک لوگ یہ کہ کرتے تھے کہ اول تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مرنے کے بعد پھر جیویں گے اور نیکی بدی کا حساب و کتاب ہو کر جزاوسزا ہوگی اور اگر ایسا ہوا بھی تو تمہاری بدیوں کی سزا ہم اپنے ذمہ لے لیں گے تم اپنے قدیمی دین پر قائم ہوجاؤ ان کے اس قول کا جواب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے حاصل جواب کا یہ ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں جو آخرت کے مؤاخذہ کا غیروں کا بوجھ اپنے ذمہ لیتے ہیں وہاں ایسی نفسانفسی ہوگی کہ باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے دور بھاگے گا کہ ایک کا وبال دوسرے پر نہ پڑجاوے اور جتنے لوگوں کو گمراہوں نے بہکایا ہے گمراہ ہونے اور گمراہ کرنے کے دو وبال ایسے لوگوں کی گردن پر اس دن پڑیں گے اپنی خوشی سے کسی کا بوجھ ایسے گمراہ لوگ قیامت کے دن کیا اٹھاسکتے ہیں صحیح مسلم کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی ١ ؎ حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو کوئی شخص دین کے کام میں کسی کو بہکادے گا اس کی ذاتی بداعمالی کے علاوہ اس بہکانے کا وبال جدا اس کی گردن پر پڑے گا آخر کو فرمایا کہ قیامت کے دن جب ان لوگوں سے اس جھوٹ کا مؤاخذہ کیا جاوے گا تو یہ لوگ بالکل لا جواب ہوجاویں گے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ فصل اول۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:12) سبیلنا ۔ طریقتنا ۔ دیننا۔ ہمارا طریقہ۔ ہمارا دین۔ ہمارا مذہب۔ ولنحمل۔ لام۔ لام امر ہے۔ اگرچہ اس کی ذاتی حرکت کسرہ ہوتی ہے لیکن واؤ اور فاء کے بعد متحرک ہونے کے بہ نسبت ساکن زیادہ آیا کرتا ہے ۔ نحمل مضارع مجزوم (بوجہ لام امر) جمع متکلم اور ہم (تمہارے گناہوں کے بوجھ کو) اٹھالیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو پھسلانے کے لیے کفار اور منافقوں کے مختلف ہتھکنڈے، اور قیامت کے دن ان کی پوچھ کے بارے میں انتباہ کفار اور منافقوں کی ہر وقت کوشش تھی اور رہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھسلا دیا جائے۔ اسی کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں کو پھسلانے اور بہکانے کے لیے کفار اور منافقوں نے مسلمانوں کو یہ بھی کہا کہ اگر تم دین اسلام کو چھوڑ دو ۔ تو تمہارے اسلام چھوڑنے کا گناہ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ اس طرح انھوں نے مسلمانوں کو پھسلانے اور ان کے دلوں سے اسلام کی محبت کم کرنے کی کوشش کی۔ جس کا جواب دیا گیا ہے کہ کفار اور منافقوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا لہٰذا یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ ضرور اپنا اور دوسروں کا بوجھ اٹھائیں گے جنھوں نے خود گناہ کیے اور دوسروں کو گناہوں پر آمادہ کرتے رہے۔ ایسے لوگون کے جھوٹ اور گناہوں کے بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ضرور باز پرس کرے گا۔ یاد رہے کہ آخرت کے دن کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ ہاں جس شخص نے کسی کو بالواسطہ یا بلا واسطہ گمراہ یا کسی کو گناہ پر آمادہ کیا اسے اپنا اور دوسرے کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔ اس سے گناہ کرنے والے کا بوجھ ہلکا نہیں ہوگا۔ اسی اصول کی بنیاد پر قرآن مجید میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اصول کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْءًا وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلاَلَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّءَۃً وَمَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی أَوْ ضَلاَلَۃٍ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہدایت کی طرف بلایا اسے عمل کرنے والے کے اجر کے مطابق اجر ملے گا جنہوں نے اس کی تابعداری کی۔ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوگی اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا اس کو گناہ کرنے والے کے برابر گناہ ملے گا جو گمراہ شخص کی تابعداری کرتے ہوئے گمراہی کے راستے پر چلے تھے۔ اور ان کے گناہ میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ کوئی شخص دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ ٢۔ جس نے کسی کو گمراہ یا گناہ پر آمادہ کیا وہ اپنا اور دوسرے کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جھوٹ بولنے والے اور گمراہ کرنے والے کو ضرور پوچھے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی مجرم کو چھڑا سکے گا : ١۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ : ١٣٤) ٢۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٣۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر : ٤٣) ٤۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن : ٣٩) ٥۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٦۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) ٧۔ روز محشر دوست کام نہ آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤) ٨۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کے ماں باپ، قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں گے۔ (عبس : ٣٤۔ ٣٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آخر میں لوگوں کو گمراہ اور بدراہ کرنے کی آزمائش کا نمونہ آتا ہے۔ اور بتایا جاتا ہے کہ جزاء و سزا کے بارے میں اہل کفر کا تصور کسی قدر پوچ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو گمراہ کرکے اخروی ذمہ داری خود لیتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں یہ اصل الاصول ہے کہ ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کا انصاف ہے جو اسلام نے واضح طور پر قائم کیا۔ یہ عدل کا زریں اصول ہے۔ وقال الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ کانوا یفترون (12 – 13) یہ بات ، یہ لوگ اس بددیانہ اصول کے مطابق کہتے تھے جس میں جرائم کے سلسلہ میں ذمہ داری اجتماعی ہوا کرتی تھی۔ کسی جرم کا ذمہ دار اور پورا قبیلہ ہوتا تھا۔ اس غلط رواج کے تحت وہ یہ بھی زعم رکھتے تھے کہ آخرت میں شرک کی ذمہ داری بھی وہ اپنے سر لے سکتے ہیں اور اس طرح وہ ان کو جرم کی سزا سے بچالیں گے۔ یہ دراصل آخرت کی جزاء و سزا کے ساتھ مزاح کر رہے تھے۔ اتبعوا سبیلنا ولنحمل خطیکم (29: 12) ” تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے “۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اٹل جواب آج ہے کہ ہر شخص اللہ کے سامنے ضرور حاضر ہوگا۔ ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اور کوئی شخص کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ وما ھم بحملین من خطیھم من شئ (29: 12) ” حالانکہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں “۔ اور بتایا جاتا ہے کہ یہ جو لاف زنی کرتے ہیں اس میں جھوٹے ہیں۔ انھم لکذبون (29: 12) ” وہ قطعا جھوٹ کہتے ہیں “۔ ہاں یہ لوگ اپنی گمراہی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے ، شرک کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اس افترا پردازی کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا بوجھ بھی اٹھائیں گے۔ جب دوسرے گمراہ ہونے والے بھی معاف نہ ہوں گے۔ ولیحملن اثقالھم ۔۔۔۔۔ کانوا یفترون (29: 13) ” ہاں وہ ضرور اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے ، اور اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسرے بہت بوجھ بھی ، اور قیامت کے روز یقیناً ان سے ان افترا پردازویوں کی باز پرس پوگی جو وہ کرتے رہے ہیں “۔ چناچہ اس آزمائش اور فتنے کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جاتا ہے اور اعلان کردیا جاتا ہے کہ لوگوں کا حساب و کتاب جماعتی صورت میں نہ ہوگا ، فرداً فرداً ہوگا اور ہر شخص اپنے کیے کا ذمہ دار ہوگا۔ کل امری بما کسب رھین ” ہر شخص اس کمائی کا رہن ہوگا جو اس نے کمائی “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن کوئی کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا دشمنان اسلام خود تو کفر پر جمے ہوئے تھے ہی اہل ایمان کو بھی کفر پر لانے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور انہیں ترغیب دیتے رہتے تھے کہ تم ہمارے دین میں آجاؤ، ان کی ان باتوں میں سے یہاں پر ایک بات نقل فرمائی ہے اور وہ یہ کہ کافروں نے اہل ایمان سے کہا کہ تمہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر یقین آگیا ہے اور تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے پھر جاؤ گے تو قیامت کے دن عذاب میں گرفتار ہوگے اس کے بارے میں ہماری پیشکش سن لو ! تمہیں اس عذاب سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، فرض کرو اگر قیامت کا دن واقعی کوئی چیز ہے اور اس دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع نہ کرنے سے تمہارا مواخذہ ہوا اور تم دوزخ میں جانے لگے تو ہم تمہاری سب خطاؤں کو اپنے اوپر لاد لیں گے اور تمہارے بارے میں جو عذاب کا فیصلہ ہوگا اس عذاب کو ہم بھگت لیں گے بس تم ہمارے دین کا اتباع کرو اور ہمارے ساتھ رہو۔ چونکہ ان لوگوں کو قیامت کے واقع ہونے اور وہاں کی جزا سزا پر یقین نہیں تھا اس لیے ایسی بات کہہ دی، اگر قیامت کو ماننے اور قیامت کے دن کے عذاب کا اور دوزخ کا یقین رکھتے تو ایسی بات نہ کہتے۔ دنیا میں کوئی شخص ایک منٹ کے لیے بھی دنیا والی آگ ہاتھ میں رکھنے کے لیے تیار نہیں بھلا وہاں آگ کی تکلیف کیسے برداشت کرسکتا ہے جس کی حرارت دنیاوی آگ کی حرارت سے انہتر درجہ زیادہ ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔ جب قیامت کا دن ہوگا کوئی کسی کو نہ پوچھے گا نہ کوئی کسی کا عذاب اپنے سر لینے کو تیار ہوگا اسی کو سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ہے (وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی) (اور کوئی گنہگار نفس کسی دوسرے گنہگار نفس کا بوجھ نہ اٹھائے گا) اور یہاں سورة عنکبوت میں فرمایا ہے (وَمَا ھُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰھُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) (اور وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں، بلاشبہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ) اور پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کفر اختیار کرنے میں اور دوسرے گناہوں پر چلنے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور سزا دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، جو کفر کرے گا اور گنہگاری کی زندگی گزارے گا وہ اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا مستحق ہوگا، مستحق عذاب کو چھوڑ کر اس کی جگہ کسی اور کو عذاب دینا یہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں نہیں ہے۔ بالفرض اگر کوئی شخص کسی کا عذاب اپنے سر لینے کے لیے تیار ہو بھی جائے تو اس کے لیے اس کی رضا مندی بھی تو ضروری ہے جس کی نافرمانی کی ہے۔ اپنی طرف سے بات بتادینے سے گناہ کرنے والے کی جان نہیں چھوٹ سکتی۔ کفار کا یہ کہنا کہ ہم عذاب بھگت لیں گے اس میں دو جھوٹ ہیں، اول عذاب بھگتنے کا وعدہ ! حالانکہ قیامت کے دن کوئی کسی کو نہ پوچھے گا، رشتہ دار، دوست احباب سب ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے، باپ بیٹے کی طرف سے اور بیٹا باپ کی طرف سے کوئی بدلہ نہ دے سکے گا نہ بدلہ دینے کے لیے تیار ہوگا۔ اور ان کے دعوے میں دوسرا جھوٹ یہ ہے کہ ہم نے جو بات کہی ہے اللہ تعالیٰ اس کو منظور فرما لے گا اور تم عذاب سے بچ جاؤ گے۔ ان لوگوں کی تکذیب کے لیے فرمایا (اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) (بلاشبہ وہ جھوٹے ہیں) اور یہ بھی فرمایا ہے (وَ لَیُسْءَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ) (اور ضرور ضرور قیامت کے دن اس کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا جو جھوٹ وہ بناتے ہیں۔ ) یاد رہے کہ آیت کریمہ میں یہ بتلایا ہے کہ ایک شخص کے کفر اور معاصی پر دوسرے شخص کو عذاب نہ ہوگا، ہر ایک شخص اپنے کفر اور عمل بد کی خود سزا بھگتے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو گمراہ کرنے کی سزا نہیں ملے گی، گمراہ کرنے والوں کو خود اپنے کفر کی سزا ملے گی اور گمراہ کرنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں اور کفر و شرک اور گمراہی پر لگایا اس کی بھی سزا ملے گی، یہ اس وجہ سے کہ گمراہ کرنا اور کفر و شرک پر ڈالنا ان کا اپنا عمل ہے۔ اسی کو سورة نحل میں فرمایا (لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقَیٰمَۃِ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ) (تاکہ وہ اپنے گناہوں کے بوجھ پورے پورے اٹھا لیں اور ان لوگوں کے بوجھ بھی اٹھا لیں جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں، خبردار بڑا بوجھ ہے جو وہ اٹھا رہے ہیں۔ ) اور یہاں سورة عنکبوت میں فرمایا (وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِھِمْ ) (اور وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کے بوجھ بھی اٹھائیں گے) یعنی جن کے گمراہ کرنے کا سبب بنے اور ان کی گمراہی کا بھی عذاب بھگتیں گے اور ان کے گمراہ کرنے سے گمراہی اختیار کرنے والے سبکدوش نہ ہوں گے انہیں گمراہی اختیار کرنے پر مستقل عذاب ہوگا۔ اس تفسیر سے حدیث نبوی کا مفہوم بھی واضح ہوگیا، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے ان سب لوگوں کے اعمال کا بھی ثواب ملے گا جنہوں نے اس کا اتباع کیا اور ان اتباع کرنے والوں کے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی اور جس کسی شخص نے گمراہی کی دعوت دی تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جنہوں نے اس کا اتباع کیا، اور ان لوگوں کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔ (رواہ مسلم) بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اپنے ساتھ کے اٹھنے بیٹھنے والوں کو گناہ کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اپنے ماحول کی وجہ سے مجبور کرتے ہیں کہ تو ہماری طرح گنہگار ہوجا، اگر کوئی شخص یوں کہتا ہے کہ گناہ پر گرفت ہوگی اور آخرت میں عذاب ہوگا تمہارے کہنے پر گناہ کیوں کروں ؟ تو اس پر کہہ دیتے ہیں کہ اس کا جو گناہ ہے وہ ہمارے اوپر رہا اس کی سزا ہم بھگت لیں گے۔ درحقیقت اس میں وہی کا فرانہ عقیدہ پوشیدہ ہے کہ قیامت کے دن عذاب نہیں ہوگا، اگر عذاب کا یقین ہوتا تو ایسی باتیں نہ کرتے، کسی کے یوں کہہ دینے سے کہ میں تیری طرف سے عذاب بھگت لوں گا عذاب سے چھٹکارا نہ ہوگا البتہ یہ بات کہنے والا اپنی اس بات کی سزا پائے گا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ترغیب دی اور اپنی طرف سے یہ قانون بنالیا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی طرف سے عذاب بھگت لے گا اللہ کے دین میں داخل کیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ کفار پر شکوی اور تخویف اخروی ہے۔ کافروں کی سرکشی اور بیباکی ملاحظہ ہو خود کفر و شرک کرتے ہیں اور مسلمانوں سے بھی کہتے ہیں کہ وہ بھی ان کی راہ پر چلیں اور جس عذاب کا تمہیں خطرہ ہے اس کا بوجھ ہم اٹھا لیں گے۔ حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ولنحمل، اتبعوا پر معطوف ہے اور امر بمعنی خبر ہے۔ قول ابن عطیۃ قولہ ولنحمل خبر یعنی امرا ومعناہ الخبر (بحر ج 7 ص 144) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12۔ اور کافر و منکر ایمان والوں سے یوں کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریق پر چلو اور ہمارے راستے کی پیروی کرو اور تمہارے گناہ ہم اٹھائیں گے حالانکہ یہ کافروں کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں یقینا یہ کافر بالکل جھوٹ بول رہے ہیں ۔ یعنی روسائے قریش مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اول تو یہ باتیں تمہارے دین کی عقل اور سمجھ سے باہر ہیں کہ مرنے کے بعد زندہ ہوں گے اور حساب و کتاب ہوگا اس لئے ہم تم سے کہتے ہیں کہ تم اپنے آبائی دین پر قائم رہو اور جس دین پر تمہارے بزرگ تھے اسی میں واپس آ جائو اور اگر بالفرض یہ باتیں پیش بھی آئیں تو ہم تم کو یقین دلاتے ہیں کہ تمہارے تمام گناہ اٹھا لیں گے ۔ یہ بات ابو سفیان نے اور امیہ بن خلف نے حضرت عمر اور حضرت خباب (رض) سے کہی تھی حضرت حق تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ کسی کے گناہوں میں سے کچھ اٹھانے والے نہیں کوئی کسی گناہ گار کے گناہ اس طرح اپنے ذمے لیلے اور گناہ گار کو سبکدوش کر دے یہ ہونے والا نہیں جو لوگ گناہ اٹھانے اور اپنے ذمے پر لینے کو کہہ رہے ہیں ۔ یہ بالکل جھوٹ بول رہے ہیں ان کو اپنے ہی گناہوں کے بوجھ سے فرصت کہاں ہوگی جو یہ مرتد ہونیوالوں کا بوجھ اٹھائیں اس لئے یہ جھوٹے ہیں۔