Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 17

سورة العنكبوت

اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا وَّ تَخۡلُقُوۡنَ اِفۡکًا ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لَکُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ وَ اعۡبُدُوۡہُ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۷﴾

You only worship, besides Allah , idols, and you produce a falsehood. Indeed, those you worship besides Allah do not possess for you [the power of] provision. So seek from Allah provision and worship Him and be grateful to Him. To Him you will be returned."

تم تو اللہ تعا لٰی کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو سنو! جن جنکی تم اللہ تعالٰی کے سوا پوجا پاٹ کر رہے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالٰی ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لاَ يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا ... You worship besides Allah only idols, and you only invent falsehood. Verily, those whom you worship besides Allah have no power to give you provision, Allah states that the idols which they worshipped were not able to do any harm or any good, and tells them, "You made up names for them and called them gods, but they are created beings just like you." This interpretation was reported by Al-`Awfi from Ibn Abbas. It was also the view of Mujahid and As-Suddi. Al-Walibi reported from Ibn Abbas: "You invent falsehood, means, you carve idols," which do not have the power to provide for you. ... فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ ... so seek from Allah your provision, This emphasizes the idea of asking Allah Alone. This is like the Ayat: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ You (Alone) we worship, and You (Alone) we ask for help. (1:5) And His saying: رَبِّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ My Lord! Build for me, with You, a home in Paradise. (66:11) Allah says here: فَابْتَغُوا (so seek) meaning, ask for عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ (from Allah your provision), meaning, do not seek it from anyone or anything other than Him, for no one else possesses the power to do anything. ... وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ... and worship Him, and be grateful to Him. Eat from what He has provided and worship Him Alone, and give thanks to Him for the blessings He has given you. ... إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ To Him you will be brought back. means, on the Day of Resurrection, when He will reward or punish each person according to his deeds. His saying:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171اوثان وثن کی جمع ہے۔ جس طرح اصنام، صنم کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ تحلقون افکا کے معنی ہیں تکذبون کذبا، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں تعملونہا وتنحتونہا للافک، جھوٹے مقصد کے لیے انھیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انھیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے یہ بت تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں جب کہ ان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ ان میں خدائی اختیارات آگئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کر کے انھیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کرلیتے ہو۔ 172یعنی جب بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لا کر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔ 173یعنی مر کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو ؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو ؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٦] قرآن میں بتوں کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں (١) صنم (ج الاصنام) کے معنی وہ بت ہیں جو قابل انتقال اور قابل فروخت ہوں خواہ یہ پیتل یا لوہے یا چاندی کے ہوں یا لکڑی کے یا پتھر کے اور صناعہ الاصنام بمعنی بت تراشی کا فن جیسے حضرت ابراہیم کا باپ آذر بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ (٢) نصب ایسے بتوں یا مجسموں کو کہتے ہیں جنہیں کسی جگہ پوجا پاٹ کے لئے نصب کردیا گیا ہو۔ جیسے مشرکین مکہ کے بت لات و منات، عزی اور ھبل وغیرہ تھے (٣) اوثان (وثن کی جمع) ومن کا تعلق زیادہ تر مقامات سے ہوتا ہے۔ یعنی آستانے وغیرہ خواہ وہاں بت نصب ہوں یا نہ ہوں۔ بعض دفعہ بعض مخصوص مقامات پر پتھروں، درختوں، ستاروں یا دریاؤں وغیرہ سے الٰہی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی پرستش شروع کردی جاتی ہے۔ اور ایسے مقامات بسا اوقات کسی بزرگ یا ولی سے یا کسی بت سے منصوب ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم نے جو اوتانا کا ذکر کیا تو اس سے مراد قوم ابراہیم کے بت خانے ہیں جن میں بت از خود شامل ہوں۔ [ ٢٧] یعنی تم لوگ بت نہیں گھڑتے بلکہ جھوٹ کا پلندہ گھڑتے ہو۔ اور ان بتوں اور بت خانوں سے تم کئی قصے اور کہانیاں خود گھڑ کر ان سے منسوب کردیتے ہو۔ مثلاً اگر فلاں آستانے پر مہینہ میں ایک دفعہ دودھ کا چڑھاوا نہ چڑھایا جائے تو جانور بیمار پڑجاتے ہیں یا مرجائے ہیں۔ یا فلاں آستانے کی گستاخی یا توہین کا انجام اس قدر خطرناک ہوتا ہے یا فلاں بت خانے یا مزار پر حاضری دینے سے رزاق میں فراوانی ہوجاتی ہے۔ لہذا تم جو ان بتوں کو گھڑتے ہو تو ساتھ ہی جھوٹ کے پلندے بھی گھڑتے ہو۔ ورنہ صرف بت گھڑنے کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ [ ٢٨] اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم نے شرک کے ابطال پر تین دلائل قوم کے سامنے رکھے۔ ایک یہ کہ یہ بت تمہارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں۔ گویا تم اللہ کی مخلوق ہو اور یہ تمہاری مخلوق ہیں۔ اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتی اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق ہیں یہ الٰہ کیسے بن گئے ؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان بتوں کے نفع یا نقصان سے متعلق تمہیں ہی داستانیں اور قصے کہانیاں تراشنا پڑتی ہیں۔ اگر تمہارے ان قصے کہانیوں کو ان سے علیحدہ کردیا جاوے تو باقی یہ پتھر کے پتھر یا بےجان مادے ہی رہ جاتے ہیں اور ایسے مادے الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ ؟ تیسری دلیل یہ کہ یہ تمہیں رزق کیا دیں گے۔ رزق تو تم خود ان کے آگے چڑھاؤں اور نذروں نیازیوں کی صورت میں رکھتے ہو۔ چاہو تو تم ان کے آگے رزق رکھ دو چاہے اٹھا لو۔ چاہے ان کے اوپر کل دو ۔ لہذا ایسے غلط عقائد ان سے منسوب نہ کرو۔ اور رزق مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو اور جس کا کھاؤ اسی کے گنا گاؤ۔ اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر بجا لاؤ۔ [ ٢٩] یعنی بالآخر تم نے اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور تمہارا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ان بتوں کی طرف نہ تم نے پلٹنا ہے نہ تمہارا انجام ان کے ہاتھ میں ہے لہذا تمہیں عبادت تو اس کی کرنا چاہئے جو تمہاری عاقبت کو سنوار سکتا ہے۔ اور رزق بھی اس سے مانگنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا : قرآن مجید میں بتوں کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں : 1 ” صَنَمٌ“ اس کی جمع ” أَصْنَامٌ“ ہے، معنی ہے وہ بت جو قابل انتقال اور قابل فروخت ہوں، خواہ وہ پیتل یا لوہے یا چاندی کے ہوں، یا لکڑی کے یا پتھر کے اور ” صِنَاعَۃُ الْأَصْنَامِ “ کا معنی ہے بت تراشی کا فن، جیسے ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ 2 ” نَصَبٌ“ اس کی جمع ” أَنْصَابٌ“ ہے، معنی ہے ایسے بت یا مجسّمے جنھیں پوجا پاٹ کے لیے نصب کردیا گیا ہو، جیسے مشرکین مکہ کے بت لات، منات، عزیٰ اور ہبل وغیرہ تھے۔ 3 ” أَوْثَانٌ“ یہ ” وَثَنٌ“ کی جمع ہے، وثن کا تعلق زیادہ تر مقامات سے ہوتا ہے، یعنی آستانے وغیرہ، خواہ وہاں بت نصب ہوں یا نہ ہوں۔ بعض دفعہ بعض مخصوص مقامات پر پتھروں، درختوں (مثلاً پیپل وغیرہ) ، ستاروں (مثلاً قطب وغیرہ) یا دریاؤں (مثلاً گنگا وغیرہ) سے الٰہی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی پرستش شروع کردی جاتی ہے اور ایسے مقامات بسا اوقات کسی بزرگ یا کسی ولی یا کسی بت سے منسوب ہوتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو ” اوثان “ کا ذکر کیا تو اس سے مراد ان کی قوم کے بت خانے ہیں جن میں بت از خود شامل ہیں۔ (کیلانی) وہ قبریں بھی ” اوثان “ میں شامل ہیں جن کی عبادت کی جائے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَللّٰہُمَّ لاَ تَجْعَلْ قَبْرِيْ وَثَنًا یُّعْبَدُ ، لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَاءِہِمْ مَسَاجِدَ ) [ مسند أحمد : ٢؍٢٤٦، ح : ٧٣٧٦، عن أبي ہریرہ ۔ ، قال المحقق و إسنادہ قوي۔ الموطأ : ١؍١٧٢، ح : ٤١٤ ] ” اے اللہ ! میری قبر کو وثن (بت) نہ بنانا، جس کی عبادت کی جائے۔ اللہ ان لوگوں پر لعنت فرمائے جنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا۔ “ وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا : یعنی تم لوگ بت نہیں گھڑتے بلکہ جھوٹ کا پلندہ گھڑتے ہو، ان بتوں اور بت خانوں سے تم کئی قصے اور کہانیاں خود گھڑ کر ان سے منسوب کردیتے ہو۔ مثلاً اگر فلاں آستانے پر مہینے میں ایک دفعہ دودھ کا چڑھاوا نہ چڑھایا جائے تو جانور بیمار پڑجاتے ہیں یا مرجاتے ہیں، یا فلاں آستانے کی گستاخی یا توہین کا انجام اتنا خطرناک ہوتا ہے، یا فلاں بت خانے یا مزار پر حاضری دینے سے رزق میں فراوانی ہوجاتی ہے، لہٰذا تم جو ان بتوں کو گھڑتے ہو تو ساتھ ہی جھوٹ کے پلندے بھی گھڑتے ہو، ورنہ صرف بت گھڑنے کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ (کیلانی) اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) نے شرک کے ابطال پر تین دلائل قوم کے سامنے رکھے، ایک یہ کہ یہ بت تمہارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں، گویا تم اللہ کی مخلوق ہو اور یہ تمہاری مخلوق ہیں اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے باقی سب اس کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا اور یہ الٰہ تو مخلوق در مخلوق ہیں، یہ الٰہ کیسے بن گئے ؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان بتوں کے نفع یا نقصان سے متعلق تمہیں خود ہی داستانیں اور قصے کہانیاں تراشنا پڑتی ہیں۔ اگر تمہارے ان قصے کہانیوں کو ان سے علیحدہ کردیا جائے تو باقی یہ پتھر کے پتھر یا بےجان مادّے ہی رہ جاتے ہیں اور ایسے مادّے الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ تیسری دلیل یہ ہے کہ یہ تمہیں رزق کیا دیں گے، رزق تو تم خود ان کے آگے چڑھاؤوں اور نذروں نیازوں کی صورت میں رکھتے ہو، چاہو تو تم ان کے آگے رزق رکھ دو ، چاہو تو اٹھا لو اور چاہو تو ان کے اوپر مل دو ۔ لہٰذا ایسے غلط عقائد ان سے منسوب نہ کرو اور رزق مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو اور جس کا کھاؤ اسی کا گن گاؤ، اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکربجا لاؤ۔ (کیلانی) شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” اکثر خلق روزی کے پیچھے ایمان دیتی ہے، سو جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی روزی نہیں دیتا اپنی خوشی کے موافق۔ “ (موضح) اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : یعنی بالآخر تمہیں اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور تمہارا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے، ان بتوں کی طرف نہ تم نے پلٹنا ہے، نہ تمہارا انجام ان کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا تمہیں عبادت تو اس کی کرنی چاہیے جو تمہاری عاقبت کو سنوار سکتا ہے اور رزق بھی اسی سے مانگنا چاہیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا۝ ٠ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۝ ٠ ۭ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ١٧ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ وثن الوَثَن : واحد الأوثان، وهو حجارة کانت تعبد . قال تعالی: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت/ 25] وقیل : أَوْثَنْتُ فلانا : أجزلت عطيّته، وأَوْثَنْتُ من کذا : أکثرت منه . ( و ث ن ) الوثن ( بت ) اس کی جمع اوثان ہے اور اوثان ان پتھروں کو کہا گیا ہے جن کی جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت/ 25] کہ تم جو خدا کو چھوڑ کر بتوں لے بیٹھے ہو ۔ اوثنت فلان ۔ کسی کو بڑا عطیہ دینا ۔ اوثنت من کذا کسی کام کو کثرت سے کرنا ۔ خُلُقُ ( گھڑنا) وكلّ موضع استعمل الخلق في وصف الکلام فالمراد به الکذب، ومن هذا الوجه امتنع کثير من النّاس من إطلاق لفظ الخلق علی القرآن وعلی هذا قوله تعالی:إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] ، وقوله : ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص/ 7] ، اور وہ ہر مقام جہاں خلق کا لفظ کلام کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اس سے جھوٹ ہی مرا د ہے ۔ اس بنا پر الگ اکثر لوگ قرآن کے متعلق خلق کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا :۔إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] یہ تو اگلوں کے ہی طریق ہیں اور ایک قراءت میں إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] بھی ہے یعنی یہ پہلے لوگوں کی ایجاد واختراع ہو ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص/ 7] یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں ۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے ۔ خلق ۔ کا لفظ مخلوق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو ابتغاء وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہو اور ان کے متعلق جھوٹی باتیں بناتے ہو اور اللہ کے علاوہ جن کو پوجتے ہو ان کو خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو جن بتوں کی عبادت کرو اور توحید کے ذریعے سے اسی کا شکر کرو مرنے کے بعد تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے وہ تمہارے اعمال کا تمہیں بدلہ دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا ط) ” یہ جو تم نے بت اور ان کے استھان بنائے ہوئے ہیں یہ محض تمہارا افترا ہے۔ اس سب کچھ کی کہیں کوئی سند نہیں ہے ‘ نہ عقلی طور پر اور نہ ہی اللہ کی نازل کردہ کسی کتاب میں ! (اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ ) ” اللہ ہی سے رزق مانگو ‘ اسی سے مشکل کشائی کی درخواست کرو اور اسی کو حاجت روائی کے لیے پکارو۔ (وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْا لَہٗط اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ ذکر ابھی مزید جاری رہے گا مگر یہاں درمیان میں اچانک ایک طویل جملہ معترضہ آگیا ہے جس کے تحت خطاب کا رخ پھر سے اس کش مکش کی طرف موڑا جا رہا ہے جو مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشرکین کے درمیان جاری تھی۔ چناچہ اگلی آیت میں براہ راست مشرکین مکہ سے خطاب ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 That is, "You are not forging idols but a lie. These idols are in themselves a lie. Then your beliefs that they are gods and goddesses, or they are incarnation of God, or His offspring, or His favourites, or intercessors with Him, ur that someone of them is bestower of health, or giver of children or jobs, are aII lies, which you have invented from your own whims and conjecture. The fact is that they are in no way more than idols-lifeless, powerless and impotent. 29 In these few sentences the Prophet Abraham has put together aII rational arguments against idol-worship. There must necessarily be some reason for making somebody or something a deity. One such reason can be that somebody should be entitled to being a deity due to some personal excelle nce. Another, that he should be the creator of man, and man should be indebted to him for tiffs existence. Third, that he should be responsible for man's sustenance, his food and other means of life. Fourth, that man's future should be linked up with his support and bounty, and man may be afraid that annoying him would mean bringing about his own ruin. The Prophet Abraham said that none of these four things favoured idol-worship, but they all favoured and demanded pure God-worship. Saying that they are mere idols, he demolished the first argument, for a mere idol could have no excellence to entitle it to be a deity. Then, by saying that "You are their creator", be refuted the second argument, and "they have no power to give you any sustenance" destroyed the third reason. Lastly. he said, "You have to return to Allah ultimately" and not to the idols; therefore, it was not in their power to make or mar your destiny, but in the power of God alone. Thus, after a complete refutation of shirk, the Prophet Abraham made it clear to them that all the reasons for which man could regard somebody as a deity only applied to Allah, Who alone should be worshipped without associating anyone else with him.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 28 یعنی تم یہ بت نہیں گھڑ رہے ہو بلکہ ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو ۔ ان بتوں کا وجود خود ایک جھوٹ ہے ۔ اور پھر تمہارے یہ عقائد کہ یہ دیویاں اور دیوتاہیں ، یا خدا کے اوتار یا اس کی اولاد ہیں ، یا خدا کے مقرب اور اس کے ہاں شفیع ہیں ، یا یہ کہ ان میں سے کوئی شفا دینے والا اور کوئی اولاد بخشنے والا اور کوئی روزگار دلوانے والا ہے ، یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو تم لوگوں نے اپنے وہم و گمان سے تصنیف کرلی ہیں ۔ حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ محض بت ہیں بے جان ، بے اختیار اور بے اثر ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر :29 ان چند فقروں میں حضرت ابراہیم نے بت پرستی کے خلاف تمام معقول دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ہیں ۔ کسی کو معبود بنانے کے لیے لامحالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے ۔ ایک معقول وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو ۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہین منت ہو ۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق یعنی متاع زیست بہم پہنچاتا ہو ۔ چوتھی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا ۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے ۔ یہ محض بت ہیں کہہ کر انہوں نے پہلی وجہ کو ختم کردیا ، کیونکہ جو نرا بت ہو اس کو معبود ہونے کا آخر کیا ذاتی استحقاق حاصل ہوسکتا ہے ۔ پھر یہ کہہ کر کہ تم ان کے خالق ہو دوسری وجہ بھی ختم کردی ۔ اس کے بعد تیسری وجہ کو یہ فرما کر ختم کیا کہ وہ تمہیں کسی نوعیت کا کچھ بھی رزق نہیں دے سکتے ۔ اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہیں پلٹنا تو خدا کی طرف ہے نہ کہ ان بتوں کی طرف ، اس لیے تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوارنا یا بگاڑنا بھی ان کے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اختیار میں ہے ۔ اس طرح شرک کا پورا ابطال کر کے حضرت والا نے یہ بات ان پر واضح کردی کہ جتنے وجوہ سے بھی انسان کسی کو معبود قرار دے سکتا ہے وہ سب کے سب اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کے مقتضی نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:17) اوثانا۔ وثن کی جمع منصوب بوجہ مفعول ہر وہ چیز جس کی خدا کے سوائے پرستش کی جائے وثن ہے مورتی ہو یا پتھر، قبر ہو یا جھنڈا افکا۔ منصوب بوجہ مفعول۔ جھوٹ۔ بہتان۔ الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤتفکہ کہا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے والمؤتفکت بالخاطئۃ (29:9) اور الٹی ہوئی بستیوں نے (یعنی ان کے باسیوں نے) گناہ کے بڑے بڑے) کام کئے تھے۔ جھوٹ اور بہتان میں چونکہ یہ صفت بدرجہ اتم موجود ہے اس لئے ان کو بھی افک کہا گیا۔ افک یافک افک یافک (ضرب سمع) افک مصدر کسی شے کا اپنے اصلی رخ سے پھرنا۔ تخلقون افکا۔ تم جھوٹ تراشتے ہو۔ فابتغوا۔ (الرزق) ابتغوا فعل امر جمع مذکر حاضر۔ ابتغاء مصدر (باب افتعال) تم تلاش کرو۔ تم چاہو۔ الرزق میں الف لام استغراق کے لئے ہے یعنی ہر قسم کا رزق ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ جو ان بتوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہو۔ بلکہ تمہارا ان بتوں کو گھڑنا خود ایک جھوٹ گھڑنا ہے۔ 9 ۔ نہ کہ کسی اور کی طرف، لہٰذا تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوارنا بھی صرف اسی کے اختیار میں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اس سے مانگو کہ مالک رزق وہی ہے۔ 3۔ ایک تو سبب و وجوب عبادت کا یہ ہے کہ وہ مالک نفع کا ہے، اور دوسرا سبب یہ کہ وہ مالک ضرر کا بھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر کا حصہ ہے۔ فرمایا اللہ کے سوا تم جن معبودوں کو پوجتے اور پکارتے ہو وہ تو تمہاری سب سے بنیادی ضرورت ہی پوری کرنے کی قدرت نہیں رکھتے یعنی تمہاری روزی ان کے اختیار میں نہیں باقی حاجات میں وہ کیا کام آئیں گے۔ سب کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لیے روزی بھی اسی سے مانگو اور ہر قسم کی عبادت بھی اسی ہی کے لیے بجا لاؤ اور تمام حاجات و بلیات میں غائبانہ پکارو بھی اسی کو۔ اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ سب سے بڑا شکر یہ ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17۔ تم لوگ تو بس اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے ہو اور تم جھوٹی جھوٹی باتیں گھڑا کرتے ہو اور جھوٹی باتیں بناتے رہتے ہو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر تم جن کی پرستش کر رہے ہو وہ تم کو روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے سو تم لوگ اپنی روزی اور اپنا رزق اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر بجا لائو تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے اور تم سب اس کی طرف لوٹائے جائوگے۔ یعنی بت پرستی کرتے ہو اس توقع پر کہ یہ معبودان باطلہ تم کو کچھ فائدہ پہنچائیں گے حالانکہ ان کے اختیار میں کوئی نفع پہنچانا نہیں ہے حتیٰ کہ روزی جو روزمرہ کی ضرورت اور زندگی قائم رکھنے کی چیز ہے وہ بھی ان کے اختیار میں نہیں ہر قسم کی نفع رسانی تو خدا کے اختیار میں ہے اس لئے تم روزی اسی کے پاس تلاش کیا کرو اور اسی سے طلب کیا کرو اور اسی کی پرستش امور بندگی کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، کیونکہ تم سب کو اسی کی طرف واپس جانا ہے اور اسی کے روبرو اعمال کا جواب دینا ہے۔ خلاصہ۔ یہ کہ نفع کا مالک بھی وہی ہے اور ضرر کا مالک بھی وہی ہے روزی کا مالک بھی وہی ہے اسی کی پیشی میں حاضر ہونا ہے وہی اب تک تم کو روزی دیتا ہے لہٰذا ہر قسم کی عبادت اور ہر قسم کے شکر کی بجا آوری کا وہی مستحق ہے۔