28 That is, "You are not forging idols but a lie. These idols are in themselves a lie. Then your beliefs that they are gods and goddesses, or they are incarnation of God, or His offspring, or His favourites, or intercessors with Him, ur that someone of them is bestower of health, or giver of children or jobs, are aII lies, which you have invented from your own whims and conjecture. The fact is that they are in no way more than idols-lifeless, powerless and impotent.
29 In these few sentences the Prophet Abraham has put together aII rational arguments against idol-worship. There must necessarily be some reason for making somebody or something a deity. One such reason can be that somebody should be entitled to being a deity due to some personal excelle nce. Another, that he should be the creator of man, and man should be indebted to him for tiffs existence. Third, that he should be responsible for man's sustenance, his food and other means of life. Fourth, that man's future should be linked up with his support and bounty, and man may be afraid that annoying him would mean bringing about his own ruin. The Prophet Abraham said that none of these four things favoured idol-worship, but they all favoured and demanded pure God-worship. Saying that they are mere idols, he demolished the first argument, for a mere idol could have no excellence to entitle it to be a deity. Then, by saying that "You are their creator", be refuted the second argument, and "they have no power to give you any sustenance" destroyed the third reason. Lastly. he said, "You have to return to Allah ultimately" and not to the idols; therefore, it was not in their power to make or mar your destiny, but in the power of God alone. Thus, after a complete refutation of shirk, the Prophet Abraham made it clear to them that all the reasons for which man could regard somebody as a deity only applied to Allah, Who alone should be worshipped without associating anyone else with him.
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 28
یعنی تم یہ بت نہیں گھڑ رہے ہو بلکہ ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو ۔ ان بتوں کا وجود خود ایک جھوٹ ہے ۔ اور پھر تمہارے یہ عقائد کہ یہ دیویاں اور دیوتاہیں ، یا خدا کے اوتار یا اس کی اولاد ہیں ، یا خدا کے مقرب اور اس کے ہاں شفیع ہیں ، یا یہ کہ ان میں سے کوئی شفا دینے والا اور کوئی اولاد بخشنے والا اور کوئی روزگار دلوانے والا ہے ، یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو تم لوگوں نے اپنے وہم و گمان سے تصنیف کرلی ہیں ۔ حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ محض بت ہیں بے جان ، بے اختیار اور بے اثر ۔
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر :29
ان چند فقروں میں حضرت ابراہیم نے بت پرستی کے خلاف تمام معقول دلائل سمیٹ کر رکھ دیے ہیں ۔ کسی کو معبود بنانے کے لیے لامحالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے ۔ ایک معقول وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو ۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہین منت ہو ۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق یعنی متاع زیست بہم پہنچاتا ہو ۔ چوتھی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا ۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے ۔ یہ محض بت ہیں کہہ کر انہوں نے پہلی وجہ کو ختم کردیا ، کیونکہ جو نرا بت ہو اس کو معبود ہونے کا آخر کیا ذاتی استحقاق حاصل ہوسکتا ہے ۔ پھر یہ کہہ کر کہ تم ان کے خالق ہو دوسری وجہ بھی ختم کردی ۔ اس کے بعد تیسری وجہ کو یہ فرما کر ختم کیا کہ وہ تمہیں کسی نوعیت کا کچھ بھی رزق نہیں دے سکتے ۔ اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہیں پلٹنا تو خدا کی طرف ہے نہ کہ ان بتوں کی طرف ، اس لیے تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوارنا یا بگاڑنا بھی ان کے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اختیار میں ہے ۔ اس طرح شرک کا پورا ابطال کر کے حضرت والا نے یہ بات ان پر واضح کردی کہ جتنے وجوہ سے بھی انسان کسی کو معبود قرار دے سکتا ہے وہ سب کے سب اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کے مقتضی نہیں ہیں ۔