Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 18

سورة العنكبوت

وَ اِنۡ تُکَذِّبُوۡا فَقَدۡ کَذَّبَ اُمَمٌ مِّنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۸﴾

And if you [people] deny [the message] - already nations before you have denied. And there is not upon the Messenger except [the duty of] clear notification.

اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی جھٹلایا ہے رسول کے ذمہ تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِن تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ... And if you deny, then nations before you have denied. means, `you have heard what happened to them by way of punishment for opposing the Messengers.' ... وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلَغُ الْمُبِينُ And the duty of the Messenger is only to convey plainly. All the Messengers have to do is to convey the Message as Allah has commanded them. Allah guides whoever He wills and leaves astray whoever He wills, so strive to be among the blessed. Qatadah said concerning the Ayah: وَإِن تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِّن قَبْلِكُمْ (And if you deny, then nations before you have denied), "These are words of consolation to His Prophet, peace be upon him." This suggestion by Qatadah implies that the narrative (about Ibrahim) is interrupted here, and resumes with the words "And nothing was the answer of (Ibrahim's) people..." in Ayah 24. This was also stated by Ibn Jarir. From the context it appears that Ibrahim, peace be upon him, said all of what is in this section. Here he establishes proof against them that the Resurrection will indeed come to pass, because at the end of this passage it says: فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ ("And nothing was the answer of his people..."). (29:24) And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول بھی ہوسکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی ہلاکت و تباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔ 182اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اسکی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٠] یعنی قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود نے اپنے اپنے پیغمبروں کی دعوت کو جھٹلایا تھا پھر دیکھ لو ان کا کیا حشر ہوا تھا۔ وہی تمہارا بھی ہونے والا ہے۔ اگر تم نے نبی کی دعوت کو جھٹلایا ہے تو اس کا تمہیں ہی نقصان پہنچے گا اور نبی کے ذمہ جو کام تھا وہ اپنی ذمہ داری پوری کرچکا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ : واؤ عطف سے ظاہر ہے کہ اس سے پہلے والا جملہ، جس پر اس جملے کا عطف ہے، وہ محذوف ہے، یعنی ” فَإِنْ تُصَدِّقُوْنِيْ فَقَدْ فُزْتُمْ بِسَعَادَۃِ الدَّارَیْنِ “ ” سو اگر تم میری تصدیق کرو تو تم دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ “ ” وَاِنْ تُكَذِّبُوْا ۔۔ “ اور اگر تم مجھے جھٹلا دو تو نصیحت کے لیے تمہارا یہ بات جاننا ہی کافی ہے کہ تم سے پہلے بہت سی امتوں نے اپنے انبیاء کو جھٹلایا، مثلاً قوم نوح، عاد، ثمود وغیرہ، تو ان کا انجام کیا ہوا۔ انھوں نے پیغمبروں کا کچھ بگاڑا یا اپنا انجام ہی خراب کیا ؟ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰــغُ الْمُبِيْنُ : اور رسول کے ذمے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ کا پیغام اس طرح پہنچا دے کہ اس میں کوئی شک باقی نہ رہے، کسی کے ماننے یا نہ ماننے کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۝ ١٨ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) اور اے جماعت قریش اگر تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو جھٹلاتے ہو سو تم سے پہلے بہت سی امتیں اپنے رسولوں کو جھٹلا چکی ہیں ہم نے ان کو ہلاک کردیا اور رسول کی ذمہ داری تو ایسی زبان میں جس کو تم سمجھو احکام خداوندی کا پہنچا دینا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 That is, "If you reject my invitation to Tauhid and deny my message that you have to return to your Lord and render an account of your deeds, it will not be a new thing. In the history of mankind many Prophets-like Noah, Hud, Salih (on whom be Allah's peace) before also have brought the same teachings, and their peoples denied them likewise. Now you may judge for yourselves as to whether they harmed the Prophets or only themselves" .

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 30 یعنی اگر تم میری دعوت توحید کو اور اس خبر کو کہ تمہیں اپنے رب کی طرف پلٹنا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، جھٹلاتے ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی بہت سے نبی ( مثلا نوح ، ہود ، صالح علیہم السلام وغیرہ ) یہی تعلیم لے کر آچکے ہیں اور ان کی قوموں نے بھی ان کو اسی طرح جھٹلایا ہے ۔ اب تم خود دیکھ لو کہ انہوں نے جھٹلا کر ان نبیوں کا کچھ بگاڑا یا اپنا انجام خراب کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:18) تکذبوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ بوجہ ان شرطیہ ساقط ہوگیا۔ تکذیب (باب تفضیل) (اگر) تم لوگ (مجھے) جھٹلاتے ہو۔ اس کے بعد جملہ محذوف ہے۔ فلا تضروننی بتکذیبکم (اپنی تکذیب سے تم مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچاتے ہو۔ کیونکہ تم سے قبل بھی امتوں نے اپنے رسل کی تکذیب کی۔ (اور وہ ان رسولوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے) ۔ امم : امۃ کی جمع۔ امتیں۔ فرقے۔ جماعتیں۔ البلغ المبین۔ موصوف وصفت۔ واضح پیغام رسانی۔ پیغام الٰہی کو صاف صاف اور کھول کر واضح طور پر پہنچا دینا۔ فائدہ : اعبدوا اللہ (آیت 16) سے لے کر البلح المبین آیت 18 تک کا کلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبانی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ جیسے حضرت نوح ( علیہ السلام) ، ہود اور صالح (علیہم السلام) کی قومیں۔ مگر دیکھ لو کہ ان قوموں نے پیغمبروں کو جھٹلا کر پیغمبروں کا کچھ بگاڑا یا اپنا انجام خود خراب کیا۔ یہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا کلام ہے یا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور مخاطب کفار قریش ہوں۔ (شوکانی) 11 ۔ کسی کے ماننے یا نہ ماننے کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ یہاں سے لے کر لھم عذاب الیم تک یا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کا کلام چل رہا ہے یا یہ جملہ معترضہ ہے اور اس میںحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کا حال مذکور ہے۔ وھذہ الایات محتملۃ ان تکون من جملۃ قول ابراہیم (علیہ السلام) لقومہ وان تکون معترضہ وقعت فی شان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و شان قریش (مدارک ج 3 ص 194) ۔ یعنی اگر تم میری تکذیب کر رہے ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں تم سے پہلی امتوں نے بھی اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا۔ پیغمبروں کا کام منوانا نہیں بلکہ پیغام الٰہی پہنچانا ہی ان کے ذمہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18۔ اور اگر تم لوگ میری تکذیب کرو گے تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں اور بہت سی قومیں اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکی ہیں اور رسول پر تو سوائے صاف طور پر پیغام الٰہی کو پہنچا دینے کے اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یعنی اگر تم میری تکذیب کرو گے تو میرا کوئی نقصان نہیں آخر تم سے پہلے بھی لوگ اپنے اپنے رسول کی تکذیب کرچکے ہیں ۔ رسول کی ذمہ داری تو پیغام الٰہی کو صاف اور واضح طور پر پہنچادینا ہے اس کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری رسول پر نہیں ماننے یا نہ ماننے کے تم خود ذمہ دار ہو ۔ حضر ت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رزق جو فرمایا اکثر خلق روزی کے پیچھے ایمان دیتی ہے سو جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے روزی کوئی نہیں دیتا وہی دیتا ہے اپنی خوشی کے موافق ۔ 12