Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 2

سورة العنكبوت

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾

Do the people think that they will be left to say, "We believe" and they will not be tried?

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do people think that they will be left alone because they say: "We believe," and will not be tested. This is a rebuke in the form of a question, meaning that Allah will inevitably test His believing servants according to their level of faith, as it recorded in the authentic Hadith: أَشَدُّ النَّاسِ بَلَءً الاَْنْبِيَاءُ ثُمَّ الصَّالِحُونَ ثُمَّ الاَْمْثَلُ فَالاَْمْثَلُ يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صَلَبَةٌ زِيدَ لَهُ فِي الْبَلَء The people most severely tested are the Prophets, then the righteous, then the next best and the next best. A man will be tested in accordance with the degree of his religious commitment; the stronger his religious commitment, the stronger his test. This Ayah is like the Ayah, أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ Do you think that you will enter Paradise without Allah knowing those of you who fought (in His cause) and knowing those who are the patient. (3:142) There is a similar Ayah in Surah At-Tawbah. And Allah says: أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَأءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ Or think you that you will enter Paradise without such (trials) as came to those who passed away before you! They were afflicted with severe poverty and ailments and were so shaken that even the Messenger and those who believed along with him said, "When (will come) the help of Allah?" Yes! Certainly, the help of Allah is near! (2:214) Allah says here: وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انھیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انھیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یہ سورت اس زمانہ میں نازل ہوئی جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دل سے تو اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے تھے مگر مصائب و مشکلات سے گھبرا کر اپنے ایمان کا اعلان نہیں کرتے تھے۔ کچھ ایسے بھی مسلمان تھے جو اسلام لانے کی حد تک تو بہت مخلص تھے مگر مشکلات کے وقت گھبرا جاتے تھے اور مسلمانوں کا ایک کثیر طبقہ ایسا راسخ الایمان لوگوں کا بھی تھا جو ان مصائب کو اللہ کی رضا کی خاطر بڑی فراخدلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کر رہا تھا۔ اس آیت میں ہر طرح کے لوگوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ یہی مصائب و مشکلات ہی ان کے ایمان کی کسوٹی ہیں اور انہی سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص کس حد تک اپنے ایمان کے دعویٰ میں پختہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا ۔۔ : ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان بہت سخت حالات سے گزر رہے تھے، کفار نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ انسانی فطرت کے مطابق مسلمان کبھی کبھار مصیبتوں کی تاب نہ لا کر گھبرا جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حوصلہ دینے کے لیے فرمایا : ” کیا لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ “ یہ استفہام انکار کے لیے ہے، یعنی ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ آزمائش ضرور ہوگی، تاکہ سچے کو جھوٹے سے اور مخلص کو منافق سے جدا کردیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق آزمائش ایمان کے حساب سے ہوتی ہے، جتنا ایمان مضبوط ہو اتنی ہی آزمائش سخت ہوتی ہے۔ سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَلْأَنْبِیَاءُ ، ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ ، فَالْأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ ، یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِیْنِہِ ، فَإِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ صَلاَبَۃٌ زِیْدَ فِي بَلاَءِہِ ، وَ إِنْ کَانَ فِيْ دِیْنِہِ رِقَّۃٌ خُفِّفَ عَنْہُ ، وَمَا یَزَالُ الْبَلَاء بالْعَبْدِ حَتّٰی یَمْشِيَ عَلٰی ظَہْرِ الْأَرْضِ لَیْسَ عَلَیْہِ خَطِیْءَۃٌ ) [ مسند أحمد : ١؍١٧٢، ح : ١٤٨٥۔ ترمذي : ٢٣٩٨، و صححہ الألباني ] ”(آزمائش میں سب سے سخت) انبیاء ہوتے ہیں، پھر صالحین، پھر لوگوں میں سے جو افضل ہو، پھر جو اس کے بعد افضل ہو، آدمی کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس کی آزمائش میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو تو اس سے تخفیف کی جاتی ہے اور آدمی کی آزمائش جاری رہتی ہے، حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔ “ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (١٤٢ اور ١٧٩) ، بقرہ (٢١٤) ، توبہ (١٦) اور سورة محمد (٣١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (And will not be put to test - 29:2). It is derived from Fitnah, which means trial or test. The believers, especially the prophets and pious, have to go through many a trials in this world. However, they always come out victors in the end. These trials and tribulations sometimes come as a result of enmity of the infidels and sinners by way of afflictions, as have been experienced by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and many other prophets, and at times in the form of diseases, as was experienced by Sayyidna Ayyub (علیہ السلام) . And for others many of these trial types are combined together. Although the background under which this verse was revealed, according to many narrations, was the harassment faced by the companions of the Holy Qur’ an from the infidels at the time of hijrah, but otherwise its message is common to all times. The sense is that the pious, saints and scholars will face the trials and tribulations in all times. (Qurtubi).

معارف و مسائل وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ، فتنہ سے مشتق ہے جس کے معنی آزمائش کے ہیں، اہل ایمان خصوصا انبیاء و صلحاء کو دنیا میں مختلف قسم کی آزمائشوں سے گذرنا ہوتا ہے پھر انجام کار فتح اور کامیابی ان کی ہوتی ہے، یہ آزمائشیں مخالفین کبھی کفار و فجار کی دشمنی اور ان کی طرف سے ایذاؤں کے ذریعہ ہوتی ہیں، جیسا کہ اکثر انبیاء اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب کو اکثر پیش آیا ہے، جس کے بیشمار واقعات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مذکورہ ہیں اور کبھی یہ آزمائش امراض اور دوسری قسم کی تکلیفوں کے ذریعہ ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو پیش آیا اور بعض کے لئے یہ سب قسمیں جمع بھی کردی جاتی ہیں۔ شان نزول اس آیت کا اگرچہ ازروئے روایات وہ صحابہ ہیں جو ہجرت مدینہ کے وقت کفار کے ہاتھوں ستائے گئے، مگر مراد عام ہے ہر زمانے کے علماء و صلحاء اور اولیاء امت کو مختلف قسم کی آزمائشیں پیش آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

شان نزول : ( آیت ) ”۔ احسب الناس “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) اور شعبی (رح) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ یہ آیت چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور انہوں نے اسلام کا اقرار کرلیا تھا تو ان کی طرف اصحاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ سے لکھا کہ تم سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ ہجرت نہ کرو چناچہ یہ لوگ مدینہ منورہ کے ارادہ سے نکلے تو مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور پھر ان کو واپس لے گئے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ان کو پھر لکھا کہ تمہارے بارے میں ایسا حکم نازل ہوا ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم ضرور ہجرت کے لیے نکلیں گے اگر ہمارا کوئی تعاقب کرے گا تو ہم اس سے لڑیں گے چناچہ یہ لوگ مکہ مکرمہ سے نکلے، مشرکین مکہ نے ان کا پیچھا کیا انہوں نے ان سے قتال کیا بعض لوگ ان میں سے مارے گئے اور بعض بچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ ”۔ ثم ان ربک للذین ھاجروا “۔ (الخ) اور قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ( آیت) ” الم، احسب الناس “۔ (الخ) کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور وہاں سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کے ارادہ سے چلے، مشرکین نے ان کا سامنا کیا تو یہ واپس ہوگئے، ان کے مسلمان بھائیوں نے جو ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی تھی وہ ان کو لکھ بھیجی، چناچہ یہ وہاں سے پھر چلے تو جن کے حق میں قتل ہونا لکھا ہوا تھا وہ قتل ہوگئے اور جن کو بچنا تھا وہ بچ گئے، اس پر قرآن حکیم کی یہ آیت نازل ہوئی ”۔ والذین جاھدوا فینا “۔ (الخ) اور ابن سعد (رض) نے بواسطہ عبداللہ بن عبید ابن عمیر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ( آیت) ” الم، احسب الناس “۔ (الخ) یہ آیت حضرت عمار بن یاسر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ وہ اللہ کی راہ میں تکالیف اٹھا رہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ) ” تمہیدی کلمات میں بیان کی گئی حضرت خباب (رض) کی روایت کا مضمون ذہن میں رکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ آیت صحابہ کرام (رض) کی مذکورہ شکایت کا جواب ہے۔ اس میں خفگی کا بالکل وہی انداز پایا جاتا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کی شکایت کے جواب میں اختیار فرمایا تھا۔ اہل ایمان کا ذکر عمومی انداز میں ( ” النَّاس “ کے لفظ سے ) فرمانا بھی ایک طرح سے عتاب اور ناراضی ہی کا ایک انداز ہے۔ بہر حال دین میں تحریکی و انقلابی جدوجہد کے حوالے سے یہ بہت اہم مضمون ہے جس کی مزید وضاحت مدنی سورتوں میں ملتی ہے۔ چناچہ سورة البقرۃ میں یہی مضمون مزید واضح انداز میں بیان ہوا ہے : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ ) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تک تم پر وہ حالات و واقعات تو وارد ہوئے ہی نہیں جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں مسلط کردی گئی تھیں ‘ اور وہ ہلا مارے گئے تھے ‘ یہاں تک کہ (وقت کا) رسول ( علیہ السلام) اور اس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد ! آگاہ رہو اللہ کی مدد قریب ہی ہے “۔ اس کے بعد سورة آل عمران میں یہی بات ایک دوسرے انداز میں فرمائی گئی ہے : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ ) ” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں یونہی داخل ہوجاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون واقعتا (اللہ کی راہ میں) جہاد کرنے والے اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں “۔ اور پھر سورة التوبہ میں اس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے : (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃًط وَاللّٰہُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنََ ) ” کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے ‘ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو ظاہر کیا ہی نہیں کہ تم میں سے کون ہیں جو واقعی جہاد کرنے والے ہیں ‘ اور جو نہیں رکھتے اللہ ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان کے علاوہ کسی کے ساتھ دلی راز داری کا کوئی تعلق ‘ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “ مندرجہ بالا چاروں آیات میں یہ مضمون جس انداز میں بیان ہوا ہے اس کی مثال ایک خوبصورت پودے اور اس پر کھلنے والے خوبصورت پھول کی سی ہے۔ زیر مطالعہ مکی آیت اس پودے کی گویا جڑ ہے جبکہ مذکورہ بالا تینوں مدنی آیات اس پر کھلنے والے پھول کی تین پتیاں ہیں۔ یہاں پر جن تین آیات کا حوالہ دیا گیا ہے (البقرۃ : ٢١٤ ‘ آل عمران : ١٤٢ اور التوبۃ : ١٦) ان میں یہ عجیب مماثلت قابل توجہ ہے کہ نہ صرف ان آیات کے الفاظ میں مشابہت پائی جاتی ہے بلکہ ان میں سے ہر آیت کے نمبر شمار کا حاصل جمع ٧ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 When this thing was said, the conditions prevailing in Makkah were extremely trying. Whoever accepted Islam was made a target of tyranny and humiliation and persecution. If he was a slave or a poor person, he was beaten and subjected to unbearable tortures; if he was a shopkeeper or artisan, he was made to suffer economic hardships, even starvation; if he was a member of an influential family, his own people would tease and harass him in different ways and make life difficult for him. This had created an atmosphere of fear and fright in Makkah, due to . which most people were afraid of believing in the Holy Prophet although they acknowledged him to be a true Prophet in their hearts; and some others who believed would lose heart soon afterwards and would submit and yield to the disbelievers when they confronted dreadful persecutions. Though these trying circumstances could not shake the determination of the strong-willed Companions, naturally they also were sometimes overwhelmed by an intense feeling of anxiety and distraction. An instance of this is found in the tradition of Hadrat Khabbab bin Arat, which has been related by Bukhari, Abu Da'ud and Nasa'i. He says, "During the time when we had become sick of our persecution by the mushriks, one day I saw the Holy Prophet sitting in the shade of the wall of the Ka`bah. I wen up to him and said, `O Messenger of Allah, don't you pray for us !' Hearing this his face became red with feeling and emotion, and he said, `The believers who have gone before you had been subjected to even greater persecutions. Some one of them was made to sit in a ditch in the earth and was sawed into two pieces from head to foot. Someone's joints were rubbed with ironcombs so as to withhold him from the Faith. By God, this Mission will be accomplished and the time is not far when a person will travel without apprehension from San`a' to Hadramaut and there will be none but Allah Whom he will fear." In order to change this state of agitation into forbearance, Allah tells the believers, "Ho one can become worthy of Our promises of success in the world and the Hereafter merely by verbal profession of the Faith, but every claimant to the Faith will have to pass through trials and tribulations so as to furnish proof of The truth of his claim. Our Paradise is not so cheap, nor Our special favours in the world so low-priced, that We should bless you with all these as soon as you proclaim verbal faith in Us. The vial is a pre-requisite for them. You will have to undergo hardships for Our sake, suffer losses of life and property, face dangers, misfortunes and difficulties; you will be tried both with fear and with greed; you will have to sacrifice everything that you hold dear for Our pleasure, and bear every discomfort in Our way. Then only will it become manifest whether your claim to faith in Us was true or false. This thing has been said at every such place in the Qur'an where the Muslims have been found placed in hardships and difficulties and obsessed by fear and consternation. In the initial stage of life at Madinah, after the migration, when the Muslims were in great trouble on account of economic hardships, external dangers and internal villainy of the Jews and the hypocrites, Allah said: "Do you think that you will enter Paradise without undergoing such trials as were experienced by the believers before you? They met with adversity and affliction and were so shaken by trials that the Prophet of the time and his followers cried out, `when will Allah's help come?' (Then only they were comforted with the good tidings:) "Yes, Allah's help is near!"' (Al-Baqarah: 214). Likewise, when after the Battle of Uhud, the Muslims again confronted a period of afflictions, it was said: "Do you think that you will enter Paradise without undergoing any trial? whereas Allah has not yet tried you to see who among you are ready to lay down their lives in His way and who will show fortitude for His sake." (Al-i-`Imran: 142). Almost the same thing has been said in AI-i-'Imran: 179, Taubah: 16 and Surah Muhammad: 31. Allah in these verses has impressed on the Muslims that trial is the touchstone by which the pure and the impure are judged. The impure is turned aside by Allah and the pure is selected so that Allah may honour them with His favours which the sincere believers only deserve.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 1 جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا ، کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں ، کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی ، کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے ۔ ان حالات نے مکے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے ، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہوکر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا ، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خباب بن ارت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری ، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے ، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں ، میں نے حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے ، کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے ، خدا کی قسم یہ کام پورا ہوکر رہے گا ، یہں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضر موت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے ۔ اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالی اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں ، کوئی شخص مجرد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا ، بلکہ ہر مدعی کو لازما آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے ۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں ۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے ، ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی ، جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا ، طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی ، خطرات ، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا ، خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی ، ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو ، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے ، ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی ، تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا ۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوا ہے ، ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات ، بیرون خطرات اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہل ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا ، اس وقت فرمایا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ( البقرہ: آیت 214 ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے ( اہل ایمان ) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے ، یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، ( تب انہیں مژدہ سنایا گیا کہ ) خبردار رہو ، اللہ کی مدد قریب ہے ۔ اسی طرح جنگ احد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ۔ ( آل عمران: آیت 142 ) کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پامردی دکھانے والے کون ہیں؟ قریب قریب یہی مضمون سورہ آل عمران ، آیت 179 ، سورہ توبہ آیت 16 ، اور سورہ محمد آیت 31 میں بھی بیان ہوا ہے ۔ ان ارشادات سے اللہ تعالی نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے ، کھوٹا خودبخود اللہ تعالی کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور کھڑا چھانٹ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ کے ان انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صادق الایمان لوگوں کا ہی حصہ ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ آزمائش ضرور ہوگی تاکہ منافق کو مخلص سے اور سچے کو جھوٹے سے ممیزکر دیا جائے۔ متعدد روایات میں ہے کہ مکہ میں جب مسلمان سخت ابتلا میں تھے اور ان پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے تھے تو انہوں نے تنگ آ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں تمہیں جو تکلیفیں اذیتیں پہنچ رہی ہیں وہ بیشک سخت ہی مگر پہلے لوگوں کو تو یہاں تک تکالیف سے دوچار ہونا پڑا کہ ایک آدمی زمین میں گاڑ کر کھڑا کردیا جاتا اور پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر چیر دیا جاتا مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتا۔ الخ نیز دیکھئے بقرہ :214 ۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دعویٰ ایمان کے بعد امتحان بھی ہوتا ہے یہاں سے سورة عنکبوت شروع ہو رہی ہے، عربی زبان میں عنکبوت مکڑی کو کہا جاتا ہے اس سورة کے پانچویں رکوع میں عنکبوت یعنی مکڑی کا ذکر ہے اسی لیے یہ سورة اس نام سے مشہور ہے۔ آیت کے ابتدائی مضمون میں اول تو یوں فرمایا کہ جو لوگ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کیا انہوں نے یہ خیال کیا کہ صرف اتنا کہہ دینے سے چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کا امتحان نہ کیا جائے گا ؟ یہ استفہام انکاری ہے اور مطلب یہ ہے کہ صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ میں مومن ہوں کافی نہیں ہے، دل سے مومن ہونا لازم ہے اور جب کوئی سچا مومن ہوگا تو آزمائشوں میں ڈالا جائے گا، یہ آزمائشیں کئی طرح سے ہوں گی، عبادات میں مجاہدہ ہوگا، خواہشوں کے خلاف بھی چلنا ہوگا، مصائب پر صبر کرنا ہوگا، ان چیزوں کے ذریعہ مومن بندوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ جب امتحان ہوتا ہے اور مجاہدات اور مشقتیں سامنے آتی ہیں تو مخلص مومن اور منافق کے درمیان امتیاز ہوجاتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے (جلد ٢ ص ١٣٤) بحوالہ ابن جریر وابن ابی حاتم حضرت شعبی (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ہجرت کے بعد مکرمہ میں ہوتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) نے (جو ہجرت کرکے مدینہ منورہ آچکے تھے) ان لوگوں کو لکھا کہ جب تک ہجرت نہ کرو گے تمہارا اسلام لانا مقبول اور معتبر نہ ہوگا، اس پر وہ لوگ مدینہ منورہ کے ارادہ سے نکلے تو مشرکین ان کے پیچھے لگ گئے اور انہیں واپس لے گئے، اس پر آیت بالا نازل ہوئی، مہاجرین نے انہیں پھر لکھا کہ تمہارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اس پر انہوں نے پھر مکہ معظمہ سے نکلنے کا ارادہ کیا اور یہ طے کیا کہ اگر مشرکین آڑے آئے تو ہم ان سے جنگ کریں گے، چناچہ یہ لوگ ہجرت کے ارادہ سے نکلے اور مشرکین پھر ان کے پیچھے لگ گئے جس پر انہوں نے قتال کیا، بعض مقتول ہوگئے اور بعض نجات پاکر مدینہ منورہ پہنچ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے سورة نحل کی یہ آیت نازل فرمائی (ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَ صَبَرُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (پھر بیشک آپ کا رب ایسے لوگوں کے لیے جنہوں نے فتنہ میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی پھر جہاد کیا اور قائم رہے تو آپ کا رب اس کے بعد بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے۔ ) اس کے بعد صاحب روح المعانی نے حضرت حسن بصری (رح) کا مقولہ نقل کیا ہے کہ یہاں الناس سے منافقین مراد ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ سورت کا پہلا دعوی۔ کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اللہ رضامندی اور نعیم جنت حاصل کرنے کے لیے دعوی توحید کو صرف مان لینا ہی کافی ہے اور اس کے بعد وہ آزاد ہیں اور آزمائشوں اور تکلیفوں کی کسوٹی پر انہیں پرکھا نہیں جائے گا ؟ استفہام انکاری ہے یعنی لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں بلکہ دعوی توحید کی وجہ سے انہیں مشرکین کے ہاتھوں مصائب و مشکلات کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ ولقد فتنا الخ۔ جیسا کہ انبیاء سابقین (علیہم السلام) کو بھی ایسا کرنا پڑا۔ جب انہوں اپنی قوموں کے سامنے دعوت توحید پیش کی تو قوموں نے انہیں گوناگوں مصائب کا تختہ مشق بنایا اسی طرح ان کے متبعین کو بھی الآم ومصائب میں مبتلا کیا گیا۔ فلیعلمن اللہ الخ یہ ابتلاء و امتحان کی حکمت اور علت ہے۔ اور علم یہاں بمعنی اظہار و تبیین ہے۔ و معنی الایۃ فلیظہرن اللہ الصادقین من الکاذبین (خازن و معالم ج 5 ص 155) ۔ یعنی ہم ہجرت سے، مصائب و مشکلات سے اور اقامت فرائض و واجبات سے مسلمانوں کی آزمائش کریں گے تاکہ مخلص اور منافق، راسخ الایمان اور ضعیف الایمان میں امتیاز ہوجائے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا دی جائے انہ تعالیٰ یمتحنھم بمشاق التکالیف کالمہاجرۃ والمجاہدۃ و رفض الشھوات و وظائف الطاعات و فنون المصائب فی الانفس والاموال لیتمیز المخلص من المنافق والراسخ فی الایمان من المتزلزل فیہ فیعامل کال بما یقتضیہ ویجازیہم سبحانہ بحسب مراتب اعمالہم (روح ج 20 ص 134) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

2۔ کیا ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا اور یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا اور وہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ کئے جائیں گے۔ یعنی یہ خیال صحیح نہیں ہے ، اوپر کی سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل پر فرعونی مظالم اور اس کی زیادتیوں کا ذکر تھا۔ اس سورت میں کفار مکہ کے ان مظالم کا ذکر ہے جو وہ مسلمانوں پر کیا کرتے تھے ان مظالم کے متعلق مسلمانوں کو سمجھادیا گیا ہے اور ان کو تسلی دی گئی ہے اور ان کو بتایا کہ دعوت ایمانی کو قبول کر نیوالے ابتلا اور امتحان و آزمائش کیلئے آمادہ رہیں اور یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ایمانی دعوت کو قبول کر لیناہر قسم کی آزمائشوں اور فتنوں سے سبکدوش ہوجانا ہے نہیں کافرانہ اتدار کے دور میں یہ کہنا کہ ہم دین حق پر ایمان لے آئے اور ہم نے حق کو قبول کرلیا یہ کہنا ہی بہت سے امتحانات کو دعوت دینا ہے۔ آگے اطمینان دلایا کہ یہ کوئی نئی آزمائش نہیں ہے بلکہ پہلی امتوں کو بھی یہ حوادثات پیش آچکے ہیں ان فتنوں سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کا صبر و استقلال اور جواں مردی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔