Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 33

سورة العنكبوت

وَ لَمَّاۤ اَنۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ ۟ اِنَّا مُنَجُّوۡکَ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا امۡرَاَتَکَ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۳۳﴾

And when Our messengers came to Lot, he was distressed for them and felt for them great discomfort. They said, "Fear not, nor grieve. Indeed, we will save you and your family, except your wife; she is to be of those who remain behind.

پھر جب ہمارے قاصد لوط ( علیہ السلام ) کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے غمگین ہوئے اور دل ہی دل میں رنج کرنے لگے قاصدوں نے کہا آپ نہ خوف کھائیے نہ آ زردہ ہوں ، ہم آپ کو مع آپ کے متعلقین کے بچا لیں گے مگر آپ کی بیوی کہ وہ عذاب کے لئے باقی رہ جانے والوں میں سے ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا أَن جَاءتْ رُسُلُنَا لُوطًا ... And when Our messengers came to Lut, Then the angels left him and visited Lut in the form of handsome young men. When he saw them like that, ... سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا ... he was grieved because of them, and felt straitened on their account. means, he was worried since if he had them as guests then he was afraid for them...  and what his people might do to them, but if he did not host them, he was still afraid of what might happen to them. At that point he did not know who they were. ... وَقَالُوا لاَ تَخَفْ وَلاَ تَحْزَنْ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلاَّ امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ إِنَّا مُنزِلُونَ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاء بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

331لوط (علیہ السلام) نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انھیں ہوگیا تو وہ زبردستی بےحیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہوگی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔ 332فرشت... وں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی اور غم ورنج کی کیفیت کو دیکھا تو انھیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٠] فرشتے وہاں حضرت ابراہیم سے رخصت ہو کر سیدھے حضرت لوط کے گھر آپہنچے۔ اب صرف انسانی شکل میں نہیں بلکہ بےریش خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ جو قوم لوط کے اوباش لوگوں کے لئے اپنے اندر کشش رکھتے تھے۔ ان کو دیکھ کر حضرت لوط کے دل میں سخت اضطراب پیدا ہوا۔ کہ اب یہ اوباش ان سے بھی وہی سلوک کرے گی ... جو مسافروں، مہمانوں اور راہ گیروں سے کیا کرتی ہے۔ فرشتوں نے حضرت لوط کے اس خوف اور خطرہ کو فوراً بھانپ لیا اور کہنے لگے۔ تمہارے ڈرنے اور غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ ہم خود ان سے نپٹ لیں گے۔ اس مقام پر کچھ تفصیلات حذف کردی گئی ہیں۔ جو دوسرے مقامات پر ذکر کی گئی ہیں۔ [ ٥١] حضرت لوط اس علاقہ کے قدیمی باشندے نہیں تھے۔ بلکہ حضرت ابراہیم کے ہمراہ بابل سے ہجرت کرکے پہلے فلسطین آئے تھے پھر حضرت ابراہیم کے حکم سے یہاں بھیجے گئے تھے۔ لیکن آپ کی بیوی اسی بدمعاش قوم کی بیٹی تھی۔ نبی کی صحبت بھی اسے اپنی قوم اور بھائی بندوں کی عصبیت سے پاک نہ کرسکی۔ وہ نبی کے بجائے اپنے بھائی بندوں کا ساتھ دیتی تھی اور اگر حضرت لوط کے ہاں کوئی مہمان آتا تو یہ فوراً ان کو مخبری کردیتی تھی۔ وہ اپنے خاوند کے بجائے اپنے بھائی بندوں کی وفادار اور انہی کی ہمراز تھی۔ فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا : آپ کی دعا قبول ہوگئی، ہم آپ کو اس ظالم قوم سے نجات دلانے کے لئے آئے ہیں۔ تم یوں کرو کہ اپنے اہل خانہ اور ایماندار ساتھیوں کو ساتھ لے کر راتوں رات یہاں سے نکل جاؤ۔ اور دیکھو تمہاری بیوی تمہارے ہمارے نہیں جائے گی۔ اور جب تم لوگ اس بستی سے نکلو تو اس طرح کہ تمہارے سب ہمراہی آگے ہوں اور تم ان کے پیچھے رہو۔ جیسے ہی انھیں چلا کر اس بستی سے اور لے جارہے ہو اور یہ بھی خیال رکھنا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی پلٹ کر پیچھے کی طرف نہ دیکھے۔ مبادا کہ عذاب کا کچھ حصہ اسے بھی پہنچ جائے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ۝ ٠ ۣ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَہْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۝ ٣٣ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُو... ا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ ضيق الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] ( ض ی ق ) الضیق والضیق کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود/ 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی رقمطراز ہیں :۔ ضاق بھم ذرعا۔ عربی محاورہ میں یہ ایسے موقعہ پر بولتے ہیں۔ جب شدت ناگواری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہو اور انسان عاجز آیا جا رہا ہو۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) چناچہ جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے وہ ان کے آنے کی اس وجہ سے مغموم اور غمزدہ ہوئے، یہ دیکھ کر جبریل امین (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ جو فرشتے تھے وہ حضرت لوط (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ آپ ہمارے بارے میں کسی بات کا اندیشہ نہ کریں اور نہ آپ پریشان ہوں ہم آپ کو اور آپ کے خاص مت... علقین کو بچا لیں گے سوائے آپ کی بیوی کے وہ عذاب میں رہ جانے والوں میں ہوگی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (وَلَمَّآ اَنْ جَآءَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا) ” حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی کی اصل وجہ یہ تھی کہ فرشتے خوبصورت لڑکوں کے روپ میں وارد ہوئے تھے اور حضرت لوط ( علیہ السلام) اپنی قوم کے اخلاق و کردار سے واقف تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 57 اس پریشانی اور دل تنگی کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے بہت خوبصورت نوخیز لڑکوں کی شکل میں آئے تھے ۔ حضرت لوط اپنی قوم کے اخلاق سے واقف تھے ، اس لیے ان کے آتے ہی وہ پریشان ہوگئے کہ میں اپنے ان مہمانوں کو ٹھہراؤں تو اس بدکردار قوم سے ان کو بچانا مشکل ہے اور نہ ٹھہراؤں تو یہ بڑی...  بے مروتی ہے جسے شرافت گوارا نہیں کرتی ۔ مزید برآں یہ اندیشہ بھی ہے کہ اگر میں ان مسافروں کو اپنی پناہ میں نہ لوں گا تو رات انہیں کہیں اور گزارنی پڑے گی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ گویا میں نے خود انہیں بھیڑیوں کے حوالہ کیا ۔ اس کے بعد کا قصہ یہاں بیان نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کی تفصیلات سورہ ہود ، الحجر اور القمر میں بیان ہوئی ہیں کہ ان لڑکوں کی آمد کی خبر سن کر شہر کے بہت سے لوگ حضرت لوط کے مکان پر ہجوم کر کے آگئے اور اصرار کرنے کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بدکاری کے لیے ان کے حوالے کردیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 58 یعنی ہمارے معاملہ میں نہ اس بات سے ڈرو کہ یہ لوگ ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس بات کے لیے فکر مند ہو کہ ہمیں ان سے کیسے بچایا جائے ۔ یہی موقع تھا جب فرشتوں نے حضرت لوط پر یہ راز فاش کیا کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جنہیں اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ سورہ ہود میں اس کی تصریح ہے کہ جب لوگ حضرت لوط کے گھر میں گھسے چلے آرہے تھے اور آپ نے محسوس کیا کہ اب آپ کسی طرح بھی اپنے مہمانوں کو ان سے نہیں بچا سکتے تو آپ پریشان ہوکر چیخ اٹھے کہ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْٓ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ ۔ کاش میرے پاس تمہیں ٹھیک کردینے کی طاقت ہوتی یا کسی زور آور کی حمایت میں پاسکتا ۔ اس وقت فرشتوں نے کہا يٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَّصِلُوْٓا اِلَيْكَ ۔ اے لوط ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں ، یہ تم تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:33) سیئ۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ سوء مصدر (باب نصر) ساء یسوء سوء (برا ہونا) رنجیدہ ہوا۔ غمگین ہوا۔ اسے برا معلوم ہوا ربھم ان کے (آنے) سے ان کی وجہ سے ۔ ان کے بارے میں۔ اور جگہ آیا ہے فلما راوہ زلفۃ سیئت وجوہ الذین کفروا (67:27) پھر جب وہ اس عذاب کو پاس آتا دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے بڑے ہو... جائیں گے۔ بگڑ جائیں گے۔ ضاق ماضی واحد مذکر غائب وہ تنگ ہوا۔ ضاق یضیق ضیق (ضرب) ضیق وضیق : سعۃ (وسعت و کشادگی) کی ضد ہے۔ ضیقۃ اک استعمال فقر، بخل، تنگی۔ غم اور اسی قسم کے معنوں میں آتا ہے۔ ضاق بھم ذرعا۔ یعنی وہ ان کے بارے میں عاجز ہوگیا۔ دل تنگ ہوا۔ اور جگہ ارشاد ہے ضاقت علیہم الارض (9:118) زمین ان پر تنگ ہوگئی اور ولاتک فی ضیق مما یمکرون ۔ (6:127) اور جو چالیں یہ چلتے ہیں ان سے تنگدل نہ ہوجئے۔ ذرعا۔ طاقت ، گنجائش۔ ہاتھ کی کشادگی۔ ضیق ذرع سے مراد طاقت کا ختم ہوجانا۔ یا گنجائش نہ رہنا۔ ضاق بھم ذرعا۔ اس نے ان کی (رہائی یا بچاؤ) کی کوئی گنجائش نہ پائی۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی رقمطراز ہیں :۔ ضاق بھم ذرعا۔ عربی محاورہ میں یہ ایسے موقعہ پر بولتے ہیں۔ جب شدت ناگواری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہو اور انسان عاجز آیا جا رہا ہو۔ منجوک۔ مضاف مضاف الیہ۔ منجوا اسم فاعل جمع مذکر منجی واحد تنجیۃ (تفعیل) مصدر اصل میں منجیون تھا نون اضافت کی وجہ سے گرگیا۔ اور ی ثقل کی وجہ سے گرگئی۔ ترجمہ : بچانے والے۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ تیرے بچانے والے۔ تجھے بچا لینے والے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ کہ یہ فرشتے خوبصورت مردوں کی شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط کو اپنی قوم کے اخلاق و عادات کا علم تھا۔ اس لئے وہ ان مہمانوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوئے کہ ان مہمانوں کو قوم کے غنڈوں سے کیونکر بچائوں گا۔ 3 ۔ یعنی اس بات سے نہ ڈرو کہ قوم کے غنڈے ہمارا کچھ بگاڑ سکیں گے اور نہ اس بات کا رنج (فکر) کرو کہ ... ہمیں ان کے قابو میں آنے سے کیونکر بچایا جائے کیونکہ ہم انسان نہیں، فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب نازل کرنے بھیجے گئے ہیں۔ اتمام حجت کے لئے ہم ان شکلوں میں آئے ہیں۔ سورة ہود میں یہ تصریح ہے کہ فرشتوں نے یہ بات اس وقت کہی جب غنڈے حضرت لوط ( علیہ السلام) کے گھر آدھمکے اور مطالبہ کرنے لگے ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کردیا جائے۔ اس وقت حضرت لوط ( علیہ السلام) پریشان ہو کر پکار اٹھے : لو ان لی بکم قوۃ اوا دی الی رکن شدید اس پر فرشتوں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا : یا لوط انا رسل ربک لن یصلوا الیک۔ اے لوط ( علیہ السلام) ، ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے۔ (ابن کثیر وغیرہ)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ وہ حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے، اور لوط (علیہ السلام) نے ان کو آدمی سمجھا، اور اپنی قوم کی نامعقول حرکت کا خیال آیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط تباہی کے دہانے پر۔ عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں قرآن مجید بتلارہا ہے کہ جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بےحیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑی ہوئی آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت...  عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بےآبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں اس مشکل ترین وقت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمہارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرکے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ بےحیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جاسکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا ہے جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں فرمانے لگے کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چناچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو ملائکہ نے اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا، پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) سورۃ القمر ٣٧ تا ٣٨ میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ دیا۔ یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی۔ البتہ ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا باقی سب کو ہم نے ہلاک کیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصّٰفٰت : ١٣٥ تا ٨ ١٣) (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ) [ ھود : ٨٢، ٨٣] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا۔ پھر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا یہ سزا ظالموں سے دور نہیں ہے۔ “ بحرمردار (میت): بحر مردار کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے البتہ عبرت کی خاطر پھر تحریر کیا جاتا ہے۔ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصر کے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ اللہ کے عذاب کی وجہ سے جب اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ “ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (کیونکہ وہ لڑکوں کی شکل میں آئے تھے) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کے کردار کی وجہ سے اپنے مہمانوں سے خوفزدہ اور پریشان ہوگئے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط اور ان کی بستی کو تباہ و برباد کردیا۔ ٤۔ قوم لوط اور ان کی بستی کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط کی تباہی کا منظر : ١۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٢۔ لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکار تھے۔ (ھود : ٧٨) ٣۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٤۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا پھر ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ اور نشان زدہ۔ (ھود : ٨٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولما ان جآءت ۔۔۔۔۔ بھم ذرعا ” پھر جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور تنگ دل ہوا “۔ یہاں ان اوباشوں کی طرف سے مہمانوں پر ہجوم کے واقعہ کو بھی مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ اس موقعہ پر حضرت لوط کے ساتھ ان کا جو مکالمہ ہوا ، اسے بھی کاٹ دیا گیا ہے ، جبکہ وہ اس وقت اس بیماری ... کے جوش میں تھے۔ یہاں بات کو انجام تک پہنچا دیا جاتا ہے اور آخری انجام کو ذکر ہوتا ہے اس لیے کہ یہ خدائی فرستادے خود بات کو کھول دیتے ہیں اور حضرت لوط کو اپنا تعارف کرا دیتے ہیں کیونکہ وہ شدید اعصابی دباؤ میں تھے اور سخت دل تنگ تھے۔ وقالوا لا تخف ۔۔۔۔۔ کانوا یفسقون (33 – 34) ” انہوں نے کہا ، نہ ڈرو اور نہ رنج کرو۔ ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچالیں گے ، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ ہم اس بستی کے لوگوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں اس فسق کی بدولت جو یہ کرتے رہے ہیں “۔ اس گاؤں کے لوگوں پر جو عذاب الٰہی ہو ، اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے کہ حضرت لوط ، ان کے اہل و عیال اور اہل ایمان کے سوا تمام لوگوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ان پر خاک آلود پتھروں کی بارش کردی گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے فرشتوں نے آتش فشانی کا عمل برپا کردیا جس کے نتیجے میں خاک آلود پتھروں کی بارش ہوا کرتی ہے۔ اور اس عذاب کے آثار کو باقی رکھا گیا تاکہ آنے والی اقوام کے اہل عقل و دانش اس سے عبرت لیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ آثار باقی ہیں۔ ولقد ترکنا ۔۔۔۔۔ یعقلون (35) ” اور ہم نے اس بستی کی ایک کھلی نشانی چھوڑ دی ہے ، ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں “۔ اور یہ انجام اس قوم کا طبیعی انجام تھا۔ کیونکہ اس کی مثال ایک خبیث درخت اور پودے کی تھی جسے زمین سے زمیندار ہمیشہ اکھاڑ پھینکتا ہے کیونکہ یہ درخت نہ پیداوار دیتا ہے اور نہ زندگی کے لیے مفید ہوتا ہے اس کے ساتھ یہی سلوک ہوسکتا ہے کہ اسے اکھاڑ کر بھوسہ بنا دیا جائے۔ اب قصہ حضرت شعیب (علیہ السلام) :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ جب فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو وہ چونکہ نہایت خوبصورت نوجوانوں کی شکلوں میں تھے اس لیے وہ انہیں پہچان نہ سکے کہ یہ فرشتے ہیں اور اپنی قوم کی عادت بد کے پیش نظر بہت غمگین ہوئے اور مہمانوں کی بےعزتی کے ڈر سے سخت آزردہ خاطر ہوئے۔ قالوا لا تخف الخ۔ فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کا اندیشہ ... بھانپ لیا اور کہا آپ مت ڈریں اور نہ غم کریں کہ ہم تو اللہ کے فرشتے ہیں۔ انا منزلون الخ اور آپ کی قوم کے فسق و فجور کی وجہ سے ان کے لیے اللہ کا عذاب لے کر آئے ہیں۔ آپ کو اور آپ کے متبعین کو بچائیں گے اور باقی ساری قوم کو آپ کی بیوی سمیت ہلاک کر ڈالیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

33۔ اور جب ہمارے وہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو لوط ان کے آنے سے غمگین اور تنگ دل ہوا ان فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں غمگین نہ ہوں ہم آپ کو اور آپکے متعلقین کو بچا لیں گے مگر ہاں آپ کی بیو ی کہ وہ رہے گی رہ جانے والوں میں یعنی ان کو خوف ہوا اپنی قوم کی بدکاری اور مسافروں کو لوٹنے سے ، چناچہ ... جب فرشتوں نے یہ حال دیکھا تو ان کو اطمینان دلادیا کہ ہم آدمی نہیں بلکہ فرشتے ہیں ہم آپ کو اور آپکے متعلقین کو بچانکالیں گے باقی آپ کی بیوی یقینا عذاب والوں میں رہ جائے گی ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ خفا ہوئے اس سے کہ ان مہمانوں کو کس طرح بچائوں گا اپنی قوم کی بدی سے 12 آگے فرشتوں کا بقیہ قول مذکور ہے۔  Show more