Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 41

سورة العنكبوت

مَثَلُ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡلِیَآءَ کَمَثَلِ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۖ ۚ اِتَّخَذَتۡ بَیۡتًا ؕ وَ اِنَّ اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۴۱﴾

The example of those who take allies other than Allah is like that of the spider who takes a home. And indeed, the weakest of homes is the home of the spider, if they only knew.

جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے ، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے کاش! وہ جان لیتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Likening the gods of the Idolators to the House of a Spider Allah tells: مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

مکڑی کا جالا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی پرستش اور پوجاپاٹ کرتے ہیں ان کی کمزوری اور بےعلمی کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ ان سے مدد روزی اور سختی میں کام آنے کے امیدوار رہتے ہیں ۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مکڑی کے جالے میں بارش اور دھوپ اور سردی سے پناہ چاہے ۔ اگر ان میں علم ہوتا تو یہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے امیدیں وابستہ نہ کرتے ۔ پس ان کا حال ایمانداروں کے حال کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ ایک مضبوط کڑے کو تھامے ہوئے ہیں اور یہ مکڑی کے جالے میں اپنا سرچھپائے ہوئے ہیں ۔ اس کا دل اللہ کی طرف ہے اس کا جسم اعمال صالحہ کی طرف مشغول ہے اور اس کا دل مخلوق کی طرف اور جسم اس کی پرستش کی طرف جھکا ہوا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈرا رہا ہے کہ وہ ان سے ان کے شرک سے اور ان کے جھوٹے معبودوں سے خوب آگاہ ہے ۔ انہیں ان کی شرارت کا ایسا مزہ چھکائے گا کہ یہ یاد کریں ۔ انہیں ڈھیل دینے میں بھی اس کی مصلحت وحکمت ہے ۔ نہ یہ کہ وہ علیم اللہ ان سے بےخبر ہو ۔ ہم نے تو مثالوں سے بھی مسائل سمجھا دئے ۔ لیکن اس کے سوچنے سمجھنے کا مادہ ان میں غور و فکر کرنے کی توفیق صرف باعمل علماء کو ہوتی ہے ۔ جو اپنے علم میں پورے ہیں ۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ کی بیان کردہ مثالوں کو سمجھ لینا سچے علم کی دلیل ہے ۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے ایک ہزار مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں ( مسند احمد ) اس سے آپ کی فضیلت اور آپ کی علمیت ظاہر ہے ۔ حضرت عمرو بن مروۃ فرماتے ہیں کہ کلام اللہ شریف کی جو آیت میری تلاوت میں آئے اور اس کا تفصیلی معنوں کامطلب میری سمجھ میں نہ آئے تو میرا دل دکھتا ہے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے اور میں ڈرنے لگتا ہوں کہ کہیں اللہ کے نزدیک میری گنتی جاہلوں میں تو نہیں ہوگئی کیونکہ فرمان اللہ یہی ہے کہ ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں لیکن سوائے عالموں کے انہیں دوسرے سمجھ نہیں سکتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

411یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہوجاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بےفائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انھیں نہیں بچا سکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] یعنی اوپر جن جن اقوام کا ذکر آیا ہے یہ سب ہی شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھیں۔ انھیں چیزوں کو انہوں نے اپنا مشکل کشا سمجھ رکھا تھا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ان کے سامنے قربانیاں بھی پیش کی جائیں اور نذروں و نیازوں کے چڑھاوے بھی چڑھائے جاتے تھے، اس امید پر ہمارے یہ سرپرست حضرات ہم سے خوش رہیں۔ اور مصیبت کے وقت ہمارے کام آئیں مگر ان مشرکوں کے معبودوں یا سرپرستوں کی مثال تو لکڑی کے گھر جیسی ہے جو اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ انگلی کی ایک ہلکی سی جنبش سے تار تار ہوجاتا ہے اور گرپڑتا ہے۔ اسی طرح ان مشرکوں پر جب اللہ کا عذاب آیا تو اس عذاب کی پہلی اور ہلکی سی ضرب سے ہی ان کی تمام تر توقعات کا قصر تار تار ہوگیا اور ان کے معبود جہاں تھے وہیں پڑے کے پڑے رہ گئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ ۔۔ : اللہ کے عذاب کے ساتھ ہلاک ہونے والی تمام اقوام اور تمام افراد کا اصل جرم اور اپنی جان پر ظلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور مددگار اور مشکل کشا بنا رکھے تھے، اب مکہ کے مشرکوں نے بھی انھی کی روش اپنا رکھی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مثال دے کر واضح فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی کو مددگار سمجھنے والوں کی مثال مکڑی کی ہے جو گھر بناتی ہے، گھر کا فائدہ یہ ہے کہ وہ سردی، گرمی، بارش، آندھی اور حملہ آور سے بچاتا ہے، مگر مکڑی کا گھر نہ اسے سردی سے بچاتا ہے نہ گرمی سے، نہ بارش یا طوفان سے نہ ہی کسی حملہ آور سے، بلکہ اتنا بودا اور ناپائیدار ہوتا ہے کہ ہاتھ کے معمولی سے اشارے سے نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بالکل ایسے ہی بےفائدہ ہے، کیونکہ وہ کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اللہ کے سوا تمام سہارے بیکار ہیں، اگر وہ کوئی مدد کرسکتے تو گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے، مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انھیں نہیں بچا سکے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ (And surely the weakest of houses is the house of the spider - 29:41). ` Ankabut (عَنكَبُوتِ ) is the Arabic language equivalent for spider. There are different species of spiders. Some of them live underground. Apparently those are not meant here. Instead the specie of spider meant here is the one which weaves web for itself, and stays suspended in it. It attracts and kills flies in the cobweb. Among all the known types of nests, dens and other abodes of animals, the spider&s web is the weakest. Even a mild breeze can break its threads. This verse has described those who worship and place their trust in any one other than Allah, are like the web of spider, which is extremely weak. The trust of those who depend on idols or any human is as weak and fragile as the trust of a spider on its web. Ruling Scholars have different viewpoints in the matter of killing of spiders and removing of cobwebs from the houses. Some do not like it, because at the time of hijrah the spider weaved its web at the mouth of the cave Thaur, and thus made a place of respect for itself. Khatib has reported that Sayyidna ` Ali (رض) had prohibited its killing. But Tha` labi and Ibn ` Atiyyah have quoted a narration, again from Sayyidna ` Ali رضی اللہ تعالیٰ عنہ that says طَھِّرُوا بُیُوتَکُم مِّن نَسجِ العَنکَبُوتِ فَاِنَّ ترکَہ، یُورثُ الفَقَر (Clean your homes from the web of the spider, because its retaining causes poverty.) The chain of the narrators of both these reports is not reliable, but the second narration draws credence from other narrations in which keeping of homes clean is stressed. (Ruh u1-Mani)

وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ ، عنکبوت مکڑی کو کہا جاتا ہے، اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ بعض ان میں سے زمین میں گھر بناتی ہیں، بظاہر وہ یہاں مراد نہیں، بلکہ مراد وہ مکڑی ہے جو جالا تانتی ہے اور اس میں معلق رہتی ہے اس جالے کے ذریعہ مکھی کو شکار کرتی ہے، یہ ظاہر ہے کہ جانوروں کی جتنی قسم کے گھونسلے اور گھر معروف ہیں، یہ جالے کے تار ان سب سے زیادہ کمزور ہیں کہ معمولی ہوا سے بھی ٹوٹ سکتے ہیں۔ اس آیت میں غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں اور ان پر اعتماد کرنے والوں کی مثال مکڑی کے اس جالے سے دی ہے جو کہ نہایت کمزور ہے۔ اسی طرح جو لوگ اللہ کے سوا بتوں پر یا کسی انسان وغیرہ پر بھروسہ کرتے ہیں ان کا بھروسہ ایسا ہی ہے جیسا یہ مکڑی اپنے جالے کے تاروں پر بھروسہ کرتی ہے۔ مسئلہ : مکڑی کو مارنے اور اس کے جالے صاف کردینے کے متعلق علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض حضرات اس کو پسند نہیں کرتے، کیونکہ یہ جانور بوقت ہجرت غار ثور کے دہانے پر جالا تان دینے کی وجہ سے قابل احترام ہوگیا، جیسا کہ خطیب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس کے قتل کی ممانعت نقل کی ہے۔ مگر ثعلبی نے اور ابن عطیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی سے یہ روایت نقل کی ہے طھروا بیوتکم من نسج العکنبوت فان ترکہ یورث الفقر، یعنی مکڑی کے جالوں سے اپنے مکانات کو صاف رکھا کرو، کیونکہ اس کے چھوڑ دینے سے فقرو فاقہ پیدا ہوتا ہے، سند ان دونوں روایتوں کی قابل اعتماد نہیں اور دوسری روایت کی دوسری احادیث سے تائید ہوتی ہے جن میں مکانات اور فناء دار کو صاف رکھنے کا حکم ہے۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۝ ٠ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۝ ٠ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۝ ٠ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝ ٤١ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ وهن الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي [ مریم/ 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] ، ( و ھ ن ) الوھن کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم/ 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں / فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران/ 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان/ 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء/ 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ بتوں وغیرہ میں سے اور کار ساز تجویز کر رکھے ہیں ان لوگوں کی مثال مکڑی کی سی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور کچھ شک نہیں کہ سب گھروں میں زیادہ کمزور اور پھس پھسا مکڑی کا گھر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نہ اس گھر میں گرمی کا بچاؤ ہوسکتا ہے اور نہ اس سے سردی کی حفاظت ہوسکتی ہے اسی طرح یہ جھوٹے معبود اپنے پجاریوں کو نہ دنیا ہی میں کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کے کام آسکتے ہیں کاش وہ حقیقت جانتے لیکن نہ وہ حقیقت کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق ہی کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِج اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط) ” اس تمثیل کے اعتبار سے یہ آیت سورت کے اس حصے کی بہت اہم آیت ہے۔ اس تمثیل میں اللہ کے سوا جن مددگاروں کا ذکر ہوا ہے وہ غیر مرئی بھی ہوسکتے ہیں ‘ جیسے کوئی کہے کہ مجھے فلاں دیوی کی کرپا چاہیے یا کوئی کسی ولی اللہ کی نظر کرم کے سہارے کی بات کرے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظاہری و معنوی طاقت یا مادی وسائل کی بنیاد پر کوئی شخص کسی فرد ‘ قوم یا چیز پر ایسا بھروسا کرے کہ وہ اللہ کے اختیار اور اس کی قدرت کو بھلا بیٹھے۔ جیسے ہم امریکہ کو اپنا پشت پناہ سمجھ کر اس کی جھولی میں جا بیٹھتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں ایسے تمام سہاروں کو مکڑی کے جالے سے تشبیہہ دے کر یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اصل اختیار اور قدرت و طاقت کا مالک اللہ ہے۔ اس کے سہارے اور اس کے توکلّ کو چھوڑ کر کسی اور کا سہارا ڈھونڈنا گویا مکڑی کے گھر میں پناہ لینے کے مترادف ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 All the above-mentioned nations were involved in shirk, and their belief about their deities was that they were their supporters and helpers and guardians, and had the power to make or mar their destinies; so when they will have won their goodwill by worship and. presentation of offerings they will succour them in need and protect them against calamities and afflictions. But, as shown by the historical events cited above, all their beliefs and superstitions proved to be baseless when their destruction was decreed by Allah. Then no god, and no god incarnate, and no saint or spirit, and no jinn or angel, whom they worshipped came to their rescue, and they met their destruction with the realization that their expectations and beliefs had been false and futile. After relating these events, Allah is now warning the mushriks to the effect: "The reality of the toy-house of expectations that you have built on your faith in the powerless servants and imaginary deities, apart from the real Master and Ruler of the universe, is no more than the cobweb of a spider. Just as a cobweb cannot stand the slightest interference by a finger, so will the toy-house of your expectations collapse in its first clash with the scheme of Allah. It is nothing but ignorance that you are involved in the web of superstition. Had you any knowledge of the Reality you would not have built your system of life on baseless props. The fact is that none other than the One Lord of the worlds in this universe is the Owner of power and authority, and His support is the only support which is reliable. "Now whoever rejects taghut and believes in Allah has taken a firm support that never gives way. And Allah hears everything and knows everything." (Al-Baqarah: 256).

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 73 اوپر جتنی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب شرک میں مبتلا تھیں اور اپنے معبودوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ ہمارے حامی و مددگار اور سرپرست ( Guardians ) ہیں ، ہماری قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتے ہیں ، ان کی پوجاپاٹ کر کے اور انہیں نذر و نیاز دے کر جب ہم ان کی سرپرستی حاصل کرلیں گے تو یہ ہمارے کام بنائیں گے اور ہم کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ رکھیں گے ۔ لیکن جیسا کہ اوپر کے تاریخی واقعات میں دکھایا گیا ہے ، ان کے یہ تمام عقائد و اوہام اس وقت بالکل بے بنیاد ثابت ہوئے جب اللہ تعالی کی طرف سے ان کی بربادی کا فیصلہ کردیا گیا ۔ اس وقت کوئی دیوتا ، کوئی اوتار ، کوئی ولی ، کوئی روح اور کون جن یا فرشتہ ، جسے وہ پوچتے تھے ، ان کی مدد کو نہ آیا اور اپنی باطل توقعات کی ناکامی پر کف افسوس ملتے ہوئے وہ سب پیوند خاک ہوگئے ۔ ان واقعات کو بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالی مشرکین کو متنبہ کر رہا ہے کہ کائنات کے حقیقی مالک و فرمانروا کو چھوڑ کر بالکل بے اختیار بندوں اور سراسر خیالی معبودوں کے اعتماد پر جو توقعات کا گھروندا تم نے بنا رکھا ہے اس کی حقیقت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ جس طرح مکڑی کا جالا ایک انگلی کی چوٹ بھی برداشت نہیں کرسکتا اسی طرح تمہاری توقعات کا یہ گھروندا بھی خدائی تدبیر سے پہلا تصادم ہوتے ہی پاش پاش ہوکر رہ جائے گا ۔ یہ محض جہالت کا کرشمہ ہے کہ تم اوہام کے اس چکر میں پڑے ہوئے ہو ۔ حقیقت کا کچھ بھی علم تمہیں ہوتا تو تم ان بے بنیاد سہاروں پر اپنا نظام حیات کبھی تعمیر نہ کرتے ۔ حقیقت بس یہ ہے کہ اختیارات کا مالک اس کائنات میں ایک رب العالمین کے سوا کوئی نہیں ہے اور اسی کا سہارا وہ سہارا ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ۔ ( البقرہ ۔ آیت 256 ) جو طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے وہ مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یعنی کاش یہ لوگ جانتے کہ جن جھوٹے خداؤں پر انہوں نے بھروسہ کیا ہوا ہے وہ مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہیں، اور انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١ تا ٤٣۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی کہاوت بیان فرماتا ہے جو خدا کو جھوڑ کر اوروں کو معبود ٹھہراتے ہیں اور اپنی حاجتوں میں ان کو پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے مکڑی کا گھر ہے جو نہایت بودا ہے اور گرمی جاڑے بارش کا اس میں کچھ بچاؤ نہیں اسی طرح ان جھوٹے معبودوں سے ان کے پوجنے والوں کو کچھ فائدہ نہیں ان کا دین مکڑی کے گھر کی طرح بودا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹے معبودوں کے پوجنے والوں کی مکڑی کے گھر سے مثال دی جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ آفت آجاوے گی تو ان کو اپنے جھوٹے معبودوں سے اسی طرح کچھ مدد نہ ملے گی جس طرح مکڑی کو اپنے گھر سے جاڑے گرمی میں کچھ بچاؤ کو مدد نہیں ملتی پھر اللہ تعالیٰ نے ان جھونے معبودوں کے پوجنے والوں کو دھمکایا کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں جن کو تم ہمارے سوائے پکارتے ہو ہم تم سے سمجھ لیں گے ہم زبردست حکمت والے ہیں پھر فرمایا ان کہاو توں اور مثالوں کو جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں علم والے ہی سمجھتے ہیں نوح (علیہ السلام) کی قوم سے لے کر قارون تک کے قصے کی آیتیں جو اوپر گزریں وہ سب آیتیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ یہ نافرمان لوگ اپنے جھوٹے معبودوں کی مدد کے بھروسہ پر شک میں گرفتار رہے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کی پکڑ ہوئی تو جس طرح جاڑے گرمی میں مکڑی کا گھر اس کے کچھ کام نہیں آتا اسی طرح ان مشرکوں کے جھوٹے معبود بھی ان کے کچھ کام نہ آئے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث جو گزر چکی ہے جس طرح وہ حدیث قوم ابراہیم قوم لوط اور قوم شعیب کی مہلت اور تباہی کی تفسیر ہے اسی طرح ان سب مکڑی کے گھر والوں کی مہلت اور تباہی کی بھی وہی حدیث گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ ان سب کو ان کے مکڑی کے گھروں کے بودے پنے سے واقف ہوجانے کے لیے مہلت دی گئی اور جب مہلت کے زمانہ میں یہ لوگ اپنی حالت سے باز نہ آئے تو طرح طرح کے عذابوں میں پکڑے گئے اور اس وقت ان کو اپنے مکڑی کے گھروں کا بودا پن اچھی طرح معلوم ہوگیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:41) اتخذوا۔ ماضی جمع مذکر غائب اتخاذ (افتعال) مصدر۔ انہوں نے اختیار کیا۔ انہوں نے ٹھہرالیا۔ اوھن۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے سب سے کمزور۔ سب سے ضعیف۔ وھن مصدر۔ جس کے معنی جسمانی طور پر کسی معاملہ میں کمزور ہونے یا اخلاقی کمزوری ظاہر کرنے کے ہیں۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے رب انی وھن العظم منی (19:47) اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں۔ ان اللہ یعلم ما یدعون من دونہ من شیئ۔ میں ما موصولہ ہے اور یعلم کا مفعول ہے من دونہ میں من متعلقہ یدعون ہے۔ ہ ضمیر کا مرجع اللہ ہے من شیء میں من یا تو تبیین کا ہے اور موصول کے بیان کے لئے ہے یا تبعیضیہ ہے۔ ترجمہ یوں ہوگا :۔ یہ جس کسی شے کو اللہ کے سوا پکارتے (یا پوجتے) ہیں اللہ اس کو یقینا جانتا ہے۔ یدعون مضارع جمع مذکر غائب۔ دعوۃ اور دعاء مصدر (باب نصر) وہ بلاتے ہیں وہ پکارتے ہیں۔ وہ پوجتے ہیں۔ وھو العزیز الحکیم۔ اور وہ بڑا زبردست ہے اور حکمت والا ہے یعنی نہ صرف قوت علمی میں کامل ہے (ان اللہ یعلم ما یدعون من دونہ من شیئ) بلکہ قوت عملی اور حکمت میں بھی بدرجہ اتم کامل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ اور سمجھتی ہے کہ اس گھر میں گرمی، سردی اور بارش سے محفوظ رہوں گی مگر دراصل یہ حماقت اور نادانی ہے۔ (شوکانی) 4 ۔ کہ ان کا اپنے ان دیوتائوں کو سرپرست بنانا ایسا ہی ہے جیسا مکڑی کا گھر بنانا، جس طرح مکڑی کا گھر ذرا سی چوٹ سے نیچے آرہتا ہے اسی طرح ان کے دیوتائوں کا آسرا بھی بودا ہے جو انہیں کسی مصیبت کے وقت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، انہیں پکارنا اور نہ پکارنا یکساں ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (41 تا 44) ۔ العنکبوت (مکڑی) ۔ اتخذت (بنایا) ۔ اوھن (سب سے کمزور۔ کمزور ترین) ۔ خلق (اس نے پیدا کیا) ۔ تشریح : آیت نمبر (41 تا 44) ۔ ” ابتدائے کائنات سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک جتنے بھی بیشمار انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف لائے انہوں نے عقیدہ کی گندگیوں میں ملوث لوگوں کی اصلاح کے لئے بتایا کہ اللہ ہی ساری کائنات کا پیدا کرنے والا، سب کو رزق دینے والا اور سب کی حاجتیں پوری کرنے والا ہے وہ صرف ایک اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ وہی ہر ایک کا محافظ و نگران، نفع اور نقصان کا مالک اور ہر ایک کی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے وہ اگر کسی پر اپنی رحمتوں کو نازل کرتا ہے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے اور اگر نہ دینا چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی اس کو دلوا نہیں سکتی۔ ایسا مضبوط اور پائے دار عقیدہ رکھنے والے صرف اسی ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرکے دنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں اور کسی خیر اور فلاح سے محروم نہیں رہتے۔ لیکن وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت و بندگی کرتے ہیں وہ در حقیقت مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور اور ناپائیدار چیز پر اعتماد اور بھروسہ کئے ہوئے ہیں جو دنیا اور آخرت میں کسی کام نہ آسکے گا۔ کیونکہ مکڑی جو ایک خوبصورت گھر بناتی ہے وہ مکھی اور بھنگے جیسے کیڑوں کو پکڑ کر اپنے جال میں تو پھنسا لیتی ہے لیکن وہ گھر اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ اگر ایک بچہ بھی اس کو پھونک ماردے یا ہاتھ لگا دے تو پورا جالا ٹوٹ کا اس کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ یہ گھرنہ اپنی حفاظت کرسکتا ہے اور نہ دوسروں کی۔ اسی طرح جو لوگ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کرتے ہیں وہ اس سے بھی کمزور عقیدہ اور ذہن پر چل رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف اللہ پر اعتماد اور یقین و ایمان ایک ایسی قوت و طاقت کا نام ہے کہ جب وہ کسی کے دل میں جم جاتا ہے تو پھر ساری دنیا کی طاقتیں اور ان کا ظلم و ستم بھی اس خیال اور جذبہ کو اس کے دل سے کھرچ کر نہیں نکال سکتیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) ، ان کی امتوں اور نافرمان قوموں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی عبادت و بندگی کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کو اپنا سب کچھ بنا رکھا ہے ان کی مثال اس مکڑی جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا لیکن اس حققیت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ تمام گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوا کرتا ہے۔ کاش وہ لوگ اس حققیت پر کبھی غور و فکر کرتے۔ فرمایا کہ اللہ ان سب لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ وہ اللہ زبردست حکمت رکھنے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ مثالیں جنہیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں ان پر وہی غورو فکر کرسکتے ہیں اور اس کو پوری طرح جان سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے۔ اسی پر یقین رکھنے والوں کے لئے ان میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو موجود ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ پس جیسا اس مکڑی نے اپنے زعم میں ایک اپنی پناہ بنائی ہے مگر واقع میں وہ پناہ غایت ضعف سے کالعدم ہے اسی طرح یہ شرک معبودات باطلہ کو اپنے زعم میں اپنی پناہ سمجھتے ہیں مگر واقع میں وہ پناہ لاشے محض ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والے شخص کے عقیدہ کی مثال۔ تباہ ہونے والی اقوام نے اللہ تعالیٰ کے سوا فوت شدہ بزرگوں، پتھر اور مٹی کی مورتیوں اور دنیا کے مختلف اسباب کو ” اللہ “ کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہ اقوام سمجھتی تھیں کہ ہمارے بزرگ اور اسباب ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اس لیے انہوں نے انبیاء کی دعوت کو قابل توجہ نہ جانا اس جرم کی وجہ سے ان پر رب ذوالجلال کا عذاب آیا تو ان کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے خداؤں اور بزرگوں کو مشکل کشا اور دستگیر سمجھتے تھے۔ ان کے مشرکانہ عقیدے کو مکڑی کے جالے کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے جو دنیا کے گھروں میں سب سے کمزور ترین گھر ہوتا ہے۔ جس طرح مکڑی مضبوط چھت کے نیچے جالا بن کر اپنے لیے الگ گھر تیار کرتی ہے اور اس وہم کا شکار ہوتی ہے کہ وہ اس گھر میں وہ ہر طرح سے محفوظ ہے۔ لیکن ہوا کا معمولی جھونکا یا کوئی تنکا لگنے کی وجہ سے مکڑی کا گھر ختم ہوجاتا ہے یہی حال مشرک کے عقیدے کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آتی ہے تو مشرک نے جس، جس کو سہارا بنایا ہوتا ہے وہ ” اللہ “ کی گرفت کے مقابلے میں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ ناپائیدار ثابت ہوتے ہیں جس طرح مکڑی کا گھر تباہ ہوتا ہے اور مکڑی اپنے بنائے ہوئے تانے بانے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے یہی حال مشرک کا ہے کہ اس نے بھی اپنے لیے ایک تانا بانا بنا رکھا ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مشکل کے وقت مجھے فلاں اور فلاں بچالے گا۔ باطل عقیدہ کی بنا پر جب مشرک پر ” اللہ “ کی گرفت آتی ہے تو اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اسے بہت جلد اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اس کے تصورّات اور جھوٹے عقیدہ پر مبنی خیالات کی کوئی حیثیت نہ ہے۔ باالفاظ دیگر شرک کی بنیاد کسی عقلی اور نقلی دلیل پر نہیں ہوتی۔ شرک کی بےثباتی اور ناپائیداری کے باوجود مشرک اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ وہ حقیقی علم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے شریک کی تائید کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی جب ” اللہ تعالیٰ “ نے شرک کے تائید کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اسے ثابت کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ (قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْن) [ الاعراف : ٧١] ” اس نے کہا یقیناً تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب آپڑا ہے کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خودرکھ لیے ہیں جن کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ “ مسائل ١۔ مشرکانہ عقیدہ مکڑی کے جالے کی مانند ناپائیدار ہوتا ہے۔ ٢۔ دنیا کے گھروں میں سب سے ناپائیدار ٹھکانہ مکڑی کا ہوتا ہے۔ ٣۔ مشرک حقیقی علم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ٤۔ مشرکانہ عقیدہ کی علمی اور فکری بنیاد نہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود : ٤٣) ٢۔ کافروں کے چہروں پر ذلّت و رسوائی چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ اس دن تم پیٹھیں پھیر کر بھاگو گے لیکن تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ (المومن : ٣٣) ٤۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی اللہ سے بچانے والا ہوگا۔ (الرعد : ٣٧) ٥۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں پکڑ اتو انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ (المومن : ٢١) ٦۔ فرما دیجیے کون ہے جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچائے گا اگر وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے۔ (الاحزاب : ١٧) ٧۔ اگر آپ اس کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ نے اسے معاف نہیں کرنا۔ ( التوبۃ : ٨٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مثل الذین اتخذوا ۔۔۔۔۔۔ وما یعقلھا الا العلمون (41 – 43) یہ ایک عجیب اور سچی تصویر ہے ، ان تمام قوتوں کی جو اس کائنات میں موجود ہیں۔ اس میں ایک ایسی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے جس سے لوگ بالعموم غافل رہتے ہیں اور اس غفلت کی وجہ سے پھر ان کے پیمانے اور اقدار بدل جاتی ہیں۔ پھر وہ غلط رابطے قائم کرلیتے ہیں ۔ ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ غلط سمت میں جا رہے ہیں۔ وہ صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کیا لیں اور کیا چھوڑیں۔ اس غلط سوچ کی وجہ سے وہ پھر ریاستی قوت سے بھی دھوکہ کھا جاتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ریاستی قوت ہی اصل قوت ہے اور سب کچھ ہے۔ اور ہر جگہ موثر ہے۔ اس لیے وہ اس قوت سے ڈرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے کوشاں رہے ہیں وہ اس ریاستی قوت کی اذیتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کی حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کو دولت کی قوت سے بھی دھوکہ ہوتا ہے ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی قوت ہے ، جس کے نتیجے میں زندگی کی قدریں حاصل ہوتی ہیں۔ اور تمام اقدار حیات دولت کے تابع ہوتی ہیں۔ چناچہ ایسے لوگ حصول دولت کا شوق رکھتے ہیں اور زوال دولت کا انہیں ہر وقت خوف رہتا ہے۔ اور وہ حصول دولت کے لیے ہر وقت جدوجہد کرتے ہیں تاکہ اس دولت کے ذریعہ وہ لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوں اپنے زعم کے مطابق۔ یہ لوگ سائنس کی قوت کو بھی ایک بڑی قوت سمجھتے ہیں۔ اس کو بھی یہ مالی قوت اور تمام قوتوں کی بنیاد تصور کرتے ہیں ، جن کے ذریعہ کوئی شخص گرفت کرتا ہے یا چلتا پھرتا ہے۔ سائنسی قوت کے سامنے بھی لوگ اس طرح جھکتے ہیں جس طرح سائنس کوئی معبود ہے اور لوگ اس کے بندے ہیں۔ غرض انسان کو یہ سب ظاہری قوتیں دھوکہ دیتی ہیں۔ جن افراد کے پاس یہ قوتیں ہیں جن سوسائٹیوں کے پاس یہ وسائل ہیں یا جن حکومتوں کے پاس یہ قوتیں ہیں ان سے دوسرے لوگ ڈرتے ہیں اور ان کا طواف کرتے ہیں اور ان پر لوگ اس طرح فدا ہوتے ہیں جس طرح پروانہ چراغ پر گرتا ہے۔ یا جس طرح وہ آگ میں گرتا ہے۔ ان ظاہری قوتوں سے دھوکہ کھا کر انسان اس اصلی قوت کو بھول جاتا ہے جو ان حقیر قوتوں کو پیدا کرنے والی عظیم قوت ہے۔ جو ان قوتوں کی پیدا کرنے والی ہے ، جو ان سب قوتوں کی مالک ہے ، جو کسی کو یہ قوتیں عطا کرتی ہے ، جو ان قوتوں کی تسخیر کرتی ہے اور ان کا رخ جس طرف چاہتی ہے ، پھیر دیتی ہے۔ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی ان حقیر اور ظاہری قوتوں کے پاس پناہ لینا ، خواہ قوتیں افراد کے ہاتھ میں ہوں ، چاہے کسی سوسائٹی میں ہوں ، چاہے کسی حکومت کے پاس ہوں ، اسی طرح ہے جس طرح کوئی تار عنکبوت کا سہارا لے ، یا بیت عنکبوت میں پناہ لے۔ یہ عنکبوت تو ایک کمزور ، حقیر ، اور نہایت نرم کپڑا ہے اس کی ساخت ہی کمزور ہے۔ اور اس کا گھر بھی کمزور گھر ہے۔ وہ کسی کو کیا پناہ دے سکتا ہے۔ یاد رکھو ! کہ حمایت صرف اللہ کی حمایت ہے ، پناہ صرف اللہ کی پناہ ہے جو ایک قوی پناہ دینے والا ہے۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے جو قرآن کریم مومن لوگوں کے دلوں میں بٹھاتا ہے۔ اور ایک بار جب قرآن نے اہل ایمان کے دلوں میں یہ حقیقت بٹھا دی تھی تو وہ گروہ دنیا کا ایک طاقت ور گروہ بن گیا تھا۔ اور اس نے ان تمام ظاہری قوتوں کو روند ڈالا تھا جو اس کی راہ میں کھڑی ہوگئی تھیں۔ زمین کے تمام جباروں اور قہاروں کی گردنیں مروڑ کر جھکا دی تھیں اور بڑے بڑے قلعے مسمار کرکے رکھ دئیے تھے۔ یہ حقیقت قرآن نے اس گروہ میں کس طرح بٹھا دی تھی ؟ یہ حقیقت ہر نفس میں بیٹھ گئی تھی۔ اس سے ہر دل بھر گیا تھا۔ یہ حقیقت ان کے خون میں مل گئی تھی اور یہ ان کو رگوں میں دوڑ رہی تھی۔ یہ حقیقت صرف الفاظ کی ادائیگی تک محدود نہ تھی۔ نہ یہ ایک موضوع بحث تھی جس پر سیمینار ہوتے تھے بلکہ یہ ان نفوس میں واضح طور پر نظر آتی تھی۔ اور ان کے حس و خیال میں اس کے سوا کوئی اور بات نہ تھی۔ یہ کہ اللہ کی قوت ہی واحد قوت ہے اور اللہ کی دوستی ہی واحد دوستی ہے اور اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ کمزور و ناتواں ہے۔ اگرچہ بظاہر دوسری قوتیں جس قدر بھی ظلم و استبداد کریں۔ اگرچہ انہوں نے ظلم و سرکشی کی حد کردی ہو ، اگرچہ ان کے پاس گرفت اور دست درازی کے تمام وسائل ہوں اور وہ پکڑ دھکڑ کر رہے ہوں۔ یہ سب کچھ بیت عنکبوت ہے۔ یہ تمام قوتیں اور وسائل تار عنکبوت ہیں۔ وان اوھن ۔۔۔ یعلمون (29: 41) ” اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے ، کاش کہ یہ لوگ جانتے “ وہ داعی جو فتنوں اور آزمائشوں سے دوچار ہوجاتے ہیں ، جنہیں قید و بند اور تشدد و اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، ان کو چاہئے کہ اس حقیقت پر غور کریں اور ایک لمحے بھر کے لیے بھی اسے نظروں سے اوجھل ہونے نہ دیں ، ان کو تو اس میدان میں مختلف مزاحم قوتوں سے دوچار ہونا ہے۔ یہ قوتیں ان پر وار کرتی ہیں اور ان کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں۔ بعض ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو انہیں خریدنا چاہتی ہیں۔ یہ سب قوتیں تار عنکبوت کی طرح ہوتی ہیں بشرطیکہ کسی کا ایمان و نظریہ مضبوط ہو ، اور کوئی جانتا ہو کہ اصل اور حقیقی قوت ہے کیا ۔ ان اللہ یعلم ۔۔۔۔ من شئ (29: 42) ” یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر جس چیز کو پکارتے ہیں ، اللہ اسے خوب جانتا ہے “۔ یہ لوگ اللہ کے سوا بعض دوسری چیزوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ یہ سہارے کے قابل چیزیں نہیں ہیں۔ ان کی حقیقت وہی ہے جو تمثیل سابق میں بیان کی گئی یعنی مکڑی کا جالا۔ وھو العزیز الحکیم (29: 42) ” وہی زبردست اور حکیم ہے “۔ وہی غالب ہے ، وہی قاہر ہے ، وہی حکیم ہے اور وہی اس پوری کائنات کا مدبر ہے۔ وتلک الامثال ۔۔۔۔ الا العلمون (29: 43) ” یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھتے ہیں “۔ مشرکین کے بعض لوگ ایسے تھے جن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے تھے اور ان کی عقل ماری گئی تھی ، وہ لوگ اس تمثیل کے ساتھ یہ مزاح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد کے رب مکھیوں اور مچھروں کی بات بھی کرتے ہیں اور اس تمثیل میں جو حقیقت بیان کی گئی تھی ، اس کو وہ سمجھ ہی نہ سکے تھے۔ نہ اس کا ان پر اثر ہوا۔ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ وما یعقلھا الا العلمون (29: 43) ” مگر ان چیزوں کو وہی لوگ سمجھے ہیں جو عقلمند ہیں “۔ اب آخر میں ان تمام حقائق کو اس عظیم حقیقت کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے جو اس کائنات کے نقشے میں ودیعت کردی گئی ہے ، جس طرح قرآن کریم کا خاص اسلوب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین اپنے معبودوں سے جو امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، اس کی مثال مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عبادت ہمارے لیے فائدہ مند ہوگی اور یہ ہمارے مددگار ہوں گے۔ ان لوگوں کی جہالت اور گمراہی کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کے اعتقاد کی ایسی مثال ہے جیسے مکڑی کا گھر ہو، مکڑی جالا بن کر اس میں بیٹھی رہتی ہے اور اس جال کے ذریعہ مکھی کو شکار کرتی ہے۔ جانوروں کے جتنے بھی چھوٹے بڑے گھر گھونسلہ وغیرہ کی صورت میں ہوتے ہیں مکڑی کا گھر ان میں سب سے زیادہ بودا اور کمزور ہوتا ہے، یہی حال ان لوگوں کا ہے جو غیر اللہ کی پرستش کرتے ہیں اور ان پر اعتقاد کرتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ اعتقاد اور بھروسہ کرنا مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہے جو انہیں کوئی فائدہ دینے والا نہیں ہے، اگر سمجھ رکھتے تو ایسی بیہودہ حرکت نہ کرتے اور معبود حقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش میں نہ لگتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ یہ سورت کا مرکزی دعوی ہے یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو مصائب و مشکلات میں حمایتی اور کارساز بھی وہی ہے۔ اس دعوے کو ایک نہایت ہی واضح مثال کے ساتھ سمجھایا گیا ہے۔ جو لوگ مصائب و مشکلات میں اللہ کے سوا اوروں کو حمایتی اور کارساز سمجھتے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے۔ جو نہایت ہی باریک اور کمزور تاروں سے جالا بن کر اپنے لیے گھر بناتی ہے۔ مکڑی کا یہ گھر نہایت ہی کمزور ہوتا ہے جو نہ سردی سے بچا سکتا ہے نہ گرمی سے، نہ بارش سے نہ آندھی سے۔ بعینہ یہی حال غیر اللہ کی پناہ اور معبودان باطلہ کے سہاروں کا ہے وہ بھی اس قدر کمزور ہیں کہ کسی مصیبت اور مشکل میں کام نہیں آسکتے۔ اس مثال میں مشرک کو مکڑی کے ساتھ اور غیر اللہ کی پناہ اور حمایت کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (اتخذت بیتا) لنفسہا تادی الیہ وان بیتہا فی غایۃ الضعف والوھن لا یدفع عنہا حرا ولا بردا فکذلک الاوثان لا تملک لعابدیہا نفعا ولا ضرا۔ (معالم و خازن ج 5 ص 160) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

41۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اورں کو کار ساز تجویز کر رکھا ہے ان لوگوں کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ اس مکڑی نے اپنے خیال میں ایک گھر بنا لیا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور اور بودا گھر مکڑی کا ہوتا ہے کاش وہ اتنی بات کو سمجھتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں گھر اس واسطے ہے کہ جان و مال کا بچائو ہو نہ مکڑی کا جالا کہ دامن کے جھٹکے سے ٹوٹ پڑے ویسا ہی ہے جو اللہ کے سوائے کسی کو اپنا بچائو سمجھے۔ 12 یعنی جو اللہ تعالیٰ کے سوائے دوسروں پر تکیہ اور سہارا لگائے بیٹھے ہیں وہ بدنصیب ایسے ہی ہیں جیسے مکڑی جالا تن کے بیٹھ جائے جو کسی تیز ہوا کے جھونکے یا کسی کا دامن اور ہاتھ لگ جانے سے ہوا میں اڑاتا پھرے ایسا ہی بےجان غیر اللہ کا سہارا سمجھ لیجئے کہ کس وقت پاش پاش ہوجائے۔ سہارا اور عروۃ ثقی تو اللہ تعالیٰ ہی کا سہارا اور اسی کا بچائو ہے مکڑی کا گھر تو محض ایک مضحکہ خیز گھر ہے جس میں خاک بچائو نہیں یہی حال ان بتوں کی کمزوری کا ہے کہ ان کا سہارا بالکل کمزور اور بےجان سہارا ہے کاش دین حق کے منکر اور مشرک اتنی بات کو سمجھتے اور اللہ کی توحید کو قبول کرلیتے اور ان کمزور سہاروں کو جو کچھ بھی نہیں چھوڑ دیتے۔