Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 49

سورة العنكبوت

بَلۡ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ ؕ وَ مَا یَجۡحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۹﴾

Rather, the Qur'an is distinct verses [preserved] within the breasts of those who have been given knowledge. And none reject Our verses except the wrongdoers.

بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ہماری آیتوں کا منکر بجز ظالموں کے اور کوئی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلْ هُوَ ايَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ... Nay, but it is (Quran), the clear Ayat, (preserved) in the breasts of those who have been given knowledge. meaning, this Qur'an is clear Ayat which indicate the truth, commands, prohibitions and stories. It is memorized by the scholars for whom Allah makes it easy to memorize, recite and interpret. This is like the Ayah, وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْءَانَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ And We have indeed made the Qur'an easy to understand and remember; then is there any one who will remember! (54:17) The Messenger of Allah said: مَا مِنْ نَبِيَ إِلاَّ وَقَدْ أُعْطِيَ مَا امَنَ عَلَى مِثْلِهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا There has never been any Prophet who was not given that which would make people believe in him. What I have been given is revelation which Allah reveals to me, and I hope that I will have the most followers among them. According to the Hadith of `Iyad bin Himar, recorded in Sahih Muslim, Allah says: إِنِّي مُبْتَلِيكَ وَمُبْتَلٍ بِكَ وَمُنْزِلٌ عَلَيْكَ كِتَابًا لاَ يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَوُهُ نَايِمًا وَيَقْظَانًا "I am testing you and testing others through you, revealing to you a Book which cannot be washed away by water, which you recite while you are asleep and while you are awake." This means, if the manuscript where it is written were to be washed with water, there is no need for that manuscript. This is because it is preserved in the hearts and is easy on the tongue (i.e., is easy to recite), and is controlling people's hearts and minds. It is miraculous in its wording and in its meanings. In the previous Scriptures this Ummah was described as carrying their holy Books in their hearts. ... وَمَا يَجْحَدُ بِأيَاتِنَا إِلاَّ الظَّالِمُونَ And none but the wrongdoers deny Our Ayat. Nobody denies it or tries to undermine its status or rejects it except the wrongdoers, i.e., the arrogant transgressors who know the truth but turn away from it, as Allah says: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word (wrath) of your Lord has been justified, will not believe. Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

491یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہوجاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] اس آیت کے دو مطلب ہیں اگر ھُوَ کی ضمیر کو قرآن کی طرف راجع قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی آیات بڑے واضح دلائل پر مشتمل ہیں۔ اور یہ آیات اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں۔ یعنی ان اہل علم ان آیات کو حفظ یا ازبر کرلیا ہے۔ اور یہ قرآن اسی طرح سینہ بہ سینہ اہل علم میں منتقل ہوتا جائے گا۔ اور یہ قرآن کی ایسی ناقابل تردید صفت ہے جو ابتدائے اسلام سے آج تک اور آئندہ بھی تاقیامت ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ہر دور میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد حافظ قرآن رہی ہے۔ اور یہی قرآن کی اعجازی حیثیت اور اس کی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قرآن کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ کتابت قرآن ہے۔ لیکن رسول اللہ حفاظت قرآن کے پہلے ذریعہ حفظ پر ہی نسبتاً زیادہ توجہ مبذول فرمائی تھی۔ (اکثر مفسرین نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے) اب قرآن کے مقابلہ میں دوسری الٰہامی کتابوں کو دیکھوے ان کا شاذ و نادر ہی آپ کو کوئی حافظ نظر آئے گا جیسے حضرت عزیر کے متعلق منقول ہے کہ وہ تورات کے حافظ تھے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ عععع ھو کی ضمیر کو رسول اللہ کی طرف راجع قرار دیا جائے اور یہ تفسیر اس لحاظ سے راجح ہے کہ ربط مضمون اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اہل علم اور اہل دانش و بینش کے لئے رسول اللہ کی رسالت کے نبوت میں ایک نہیں بلکہ بہت سے نشانیاں موجود ہیں۔ وہ اس طرح کہ دنیا میں جتنے بھی نامور شخص گزرے ہیں۔ ان کی شخصیت بنانے والے عوامل کا تاریخ سے پتہ لگایا جاسکتا ہے مگر یہاں یہ بات یکسر مفقود نظر آتی ہے۔ مثلاً تمام مخالفین اسلام یعنی قریش مکہ جانتے تھے کہ آپ لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے۔ علم ادب عربی سے یا تاریخ امم سے واقف ہونا تو دور کی بات ہے۔ لیکن آپ نے جو کلام پیش کیا۔ باربار کے چیلنج کے باوجود عرب بھر کے فعی اور بلغار اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز رہ گئے تھے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ آپ فن حرب و ضرب سے قطعاً نابلد تھے۔ نہ ہی آپ کسی جرنیل کے یا فوجی کے حتیٰ کہ سپاہی کے گھر بھی پیدا نہ ہوئے تھے لیکن جب میدان جہاد میں فوجی لشکر کی قیادت آپ نے سنبھالی تو آپ نے ایسی جنگی تدابیر اختیار کیں کہ تمام جہانوں کے جرنیلوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ غرضیکہ آپ کی زندگی کا ہر پہلو ایسے ہی حیران کن کمالات کا مجموعہ ہے۔ اور جن کے اسباب و عوامل تلاش کرنے پر دور تک کہیں نظر آتے۔ یہی وہ واضح نشانیاں ہیں جو آپ کی رسالت کا بین ثبوت ہیں۔ اور ان کا انکار کوئی کٹر متعصب ہی کرسکتا ہے۔ جبکہ اہل علم آپ کی ان خوبیوں کے دل و جان سے معترف ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ۭ : یعنی یہ قرآن پہلی کتابوں کو پڑھ کر تصنیف کی ہوئی کتاب نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ جس میں دو نمایاں اوصاف ہیں، ایک یہ کہ یہ آیات بینات ہیں، یعنی ایسا واضح معجزہ ہیں جن کا جواب نہ کوئی لاسکا ہے نہ لاسکے گا، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ ۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ٢٣ ] ” اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ “ دوسرا وصف یہ کہ پہلی تمام کتابیں کسی نہ کسی چیز میں لکھی ہوئی تھیں اور انھیں صرف لکھ کر محفوظ کیا گیا تھا، جب کہ یہ قرآن اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہے۔ اگرچہ اسے لکھا بھی گیا ہے مگر یہ لکھے ہوئے کا محتاج نہیں اور یہ قرآن مجید کی خصوصیت ہے کہ اسے لانے والا اُمّی ہے، جو لکھے ہوئے سے پڑھتا ہی نہیں، بلکہ یہ کتاب اس کے سینے میں ہے اور یہ ہر دور میں امت مسلمہ کے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتی ہے، کوئی شخص اس کے کسی لفظ یا نقطے یا زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اگر دنیا سے اس کے تمام نسخے بھی غائب کردیے جائیں، تو بھی اس کی حفاظت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ جب کہ پہلی تمام کتابوں کا دارومدار لکھے ہوئے نسخوں پر تھا اور پیغمبر یا ایک آدھ شخص کے سوا ان کا کوئی حافظ ہونا ثابت نہیں۔ اس لیے ان میں کمی بیشی اور تحریف و تصحیف ممکن تھی اور واقع بھی ہوئی، جیسا کہ بائبل میں جمع شدہ نوشتے اس کی واضح دلیل ہیں ؂ نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں وَمَا يَجْـحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ : یعنی اتنی واضح نشانیاں دیکھ کر اور ان کے حق ہونے کا علم رکھنے کے بعد ان کا انکار وہی کریں گے جو ظالم ہیں اور قرآن کو ماننے اور حق والے کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ ہُوَاٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ۝ ٠ۭ وَمَا يَجْـحَدُ بِاٰيٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ۝ ٤٩ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ط) ” سابقہ الہامی کتابوں کا علم رکھنے والے لوگ قرآن کی آیات بینات کو خوب پہچانتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89 That is, "The presentation of a Book like the Qur'an by an unlettered person, and the manifestation by him, all of a sudden, of extraordinary qualities of character while nobody ever noticed him making any preparation for these previously, are in fact the clearest Signs which serve as pointers to his Prophethood for those who are possessed of knowledge and wisdom. " If one reviews the life-story of any great historical personage, one can always discover the factors in his environment, which moulded his personality and prepared him for the excellences and qualities that emanated from him in life. There always exists a clear relationship between his environment and the component aspects of his personality. But no source whatever can be discovered in his environment of the wonderful qualities and excellences that the Holy Prophet Muhammad (may Allah's peace be upon him) displayed. In his case, neither in the contemporary Arab society nor in the society of the neighbouring countries with which Arabia had any relations can one discover those factors which could have any remote relationship with the component aspects of the Holy Prophet's personality. This is the reality on whose basis it has been asserted here that the Holy Prophet Muhammad's personality is not one Sign but a collection of many clear Signs. An ignorant person may not see any of these Signs but those who are possessed of knowledge have become convinced in their hearts by seeing these Signs that he is most certainly a true Prophet of Allah.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 89 یعنی ایک امی کا قرآن جیسی کتاب پیش کرنا اور یکایک ان غیر معمولی کمالات کا مظاہرہ کرنا جن کے لیے کسی سابقہ تیاری کے آثار کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آئے ۔ یہی دانش و بینش رکھنے والوں کی نگاہ میں اس کی پیغمبری پر دلالت کرنے والی روشن ترین نشانیاں ہیں ، دنیا کی تاریخی ہستیوں میں سے جس کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے ، آدمی اس کے اپنے ماحول میں ان اسباب کا پتہ چلا سکتا ہے جو اس کی شخصیت بنانے اور اس سے ظاہر ہونے والے کمالات کے لیے اس کو تیار کرنے میں کار فرما تھے ۔ اس کے ماحول اور اس کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ایک کھلی مناسبت پائی جاتی ہے ۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت جن حیرت انگیز کمالات کی مظہر تھی ان کا کوئی ماخذ آپ کے ماحول میں تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں نہ اس وقت کے عربی معاشرے میں اور نہ گردو پیش کے جن ممالک سے عرب کے تعلقات تھے ان کے معاشرے میں کہیں دور دراز سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایک نشانی نہیں بلکہ بہت سی روشن نشانیوں کا مجموعہ ہے ۔ جاہل آدمی کو اس میں کوئی نشانی نظر نہ آتی ہو تو نہ آئے ، مگر جو لوگ علم رکھنے والے ہیں وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنے دلوں میں قائل ہوگئے ہیں کہ یہ شان ایک پیغمبر ہی کی ہوسکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:49) بل۔ یہاں حرف اضراب ہے یعنی ماقبل کے ابطال اور مابعد کی تصحیح کے لئے بلکہ یہ روشن آیتیں ہیں۔ ایت بینت۔ موسوف و صفت۔ واضح روشن آیات۔ اوتوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب اتی یؤتی ایتاء (افعال) مصدر۔ ان کو دیا گیا۔ وہ دئیے گئے۔ ان کو ملا۔ فی صدور۔ سینوں میں (حفظ کیا ہوا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ وہ اس کو زبانی یاد کریں گے اور بن دیکھے پڑھیں گے۔ یہ قرآن کے خدائی کتاب ہونے کی واضح دلیل ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یہ وحی جو اس پر آئی ہمیشہ کو بن دیکھے جاری رہے گی سینہ بسینہ۔ اور کتابیں حفظ نہ ہوتی تھیں۔ یہ کتاب حفظ ہی سے باقی ہے لکھنا افزود (زیادہ) ہے۔ (موضح) آیت کا دوسرا مطلب ابن جریر (رح) نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونا ان لوگوں کے سینوں میں، جو اہل کتاب میں سے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا پیغمبر ہونے کی کھلی کھلی نشانیوں (میں سے) ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ مطلب زیادہ واضح ہے (نیز دیکھئے : اعراف :157)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل ھو ایت بینت ۔۔۔۔۔ بایتنا الا الظلمون (49) ” دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے ، اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں “۔ یہ قرآن اہل علم کے لیے واضح دلائل پر مشتمل ہے جن میں کوئی التباس اور پیچیدگی نہیں ہے نہ کوئی شبہ اور شک ہے۔ یہ ایسے دلائل ہیں جو لوگوں کے سینوں میں موجود ہیں ، لوگوں کے دل ان دلائل پر مطمئن ہیں اس لیے اہل علم قرآن آیات پر کوئی مزید دلیل طلب نہیں کرتے۔ وہ علم جس پر لفظ علم کا اطلاق کیا جاسکتا ہے وہ ان لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ وہ بصورت ملکہ منتقلاً وہاں بیٹھا ہے۔ وہ دلوں سے پھوٹتا ہے ، وہ دلوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سیدھا منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔ وما یجحد بایتنا الا الظلمون (29: 49) ” اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ لوگ جو ظالم ہیں “۔ جو حقیقت اور معاملات کا صحیح اندازہ نہیں کرتے اور جو صراط مستقیم کو چھوڑ کر ٹیڑھی راہوں پر چلتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا : (بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ) بلکہ بات یہ ہے کہ یہ کتاب یعنی (قرآن شریف) اگرچہ ایک کتاب ہے لیکن بہت سے معجزات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بہت بڑی دلیل ہے جو اپنی قوت و عظمت کی وجہ سے بہت سی واضح دلیلوں کا مجموعہ بنا ہوا ہے اور ان لوگوں کے دلوں میں ہے جن کو علم عطا کیا گیا ہے، (وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ ) (اور ہماری آیتوں کا انکار صرف بےانصاف لوگ ہی کرتے ہیں) باوجودیکہ قرآن معجزہ ہے اور اس کا اعجاز سب پر ظاہر ہے پھر بھی ظالم لوگ انکار پر تلے ہوئے ہیں۔ فائدہ : سورة اعراف میں خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں (اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ ) فرمایا ہے، اور یہاں یوں فرمایا ہے کہ آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اور آپ کا یہ معجزہ تھا کہ امی ہوتے ہوئے آپ نے علوم کے سمندر بہا دئیے، یہ امتیازی صفت بطور معجزہ آخر تک باقی رہی جو ایک فضل و کمال کی بات ہے۔ بعض علماء نے یوں کہا ہے کہ آخر میں آپ لکھنا پڑھنا جان گئے، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح نامہ لکھا جا رہا تھا تو اس میں آپ کے کاتب حضرت علی (رض) نے ھٰذا ما قاضیٰ علیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھ دیا مشرکین مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے یوں کہا کہ محمد رسول اللہ نہ لکھا جائے بلکہ محمد بن عبد اللہ لکھا جائے اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہوتے تو کوئی جھگڑے والی بات ہی نہ تھی نہ آپ سے قتال کرتے اور نہ آپ کو بیت اللہ سے روکتے، حضرت علی (رض) سے آپ نے فرمایا کہ محمد بن عبد اللہ لکھ دو ، اس وقت ان پر ادب کی شان غالب تھی اس لیے انہوں نے عذر کردیا، اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ہاتھ سے ورقہ لے لیا اور خود ھذا ما قاضیٰ علیہ محمد بن عبد اللہ لکھ دیا، صحیح مسلم کی بعض روایات میں اسی طرح سے ہے۔ (صحیح مسلم جلد ٢: ص ١٠٥) (یہ وہ دستاویز ہے جس پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ کیا ہے۔ ) لیکن بعض علماء نے فرمایا کہ آپ نے حضرت علی (رض) کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو لفظ محمد بن عبد اللہ لکھنے کا حکم دیا اور اس حکم فرمانے کو راوی نے اس طرح تعبیر کیا کہ آپ نے لکھ دیا۔ درحقیقت یہ تاویل نہ بھی کی جائے تب بھی آپ کی طرف کتاب کی نسبت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے امی ہونے کی صفت باقی نہیں رہی کیونکہ بطور معجزہ کوئی چیز لکھ دینا دوسری بات ہے اور باقاعدہ پوری طرح کاتب ہونا یہ دوسری بات ہے بلکہ کتاب نہ جانتے ہوئے آپ کا لکھ دینا یہ مستقل معجزہ ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ آپ بعد میں کتابت سے واقف ہوگئے تھے اس میں اس سے زیادہ فضیلت نہیں ہے کہ آپ نے امی ہوتے ہوئے بھی لکھ دیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ یہ ماقبل سے اضراب ہے۔ یعنی اس کتاب مبارک میں شک و ریب کا کیا سوال وہ تو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہوچکی ہے اور ایمان والوں نے اسے اپنے سینوں میں محفوط کر کے ہر قسم کی تحریف و تبدیل اور شک و ریب کی دسترس سے مامومن کردیا ہے۔ وما یجحد الخ، ہماری آیتیں جو سراپا نور ہدایت اور واضح دلائل وبراہین پر مشتمل ہیں ان کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو ضد اور عناد و مکابرہ میں حد سے گذر چکے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49۔ بلکہ یہ قرآن کریم صاف اور واضح آیات و دلائل کا مجموعہ ہے ان لوگوں کے سینوں اور ذہنوں میں جن کو سمجھ اور علم عطا کیا گیا ہے اور ہماری آیتوں کو ماننے سے وہی انکار کرتے ہیں جونا انصاف اور ضدی و ہٹ دھرم ہیں ۔ یعنی قرآن کریم باوجود ایک کتاب ہونے کے بیشمار دلائل واضحہ اور معجزات کا مجموعہ ہے اور ان لوگوں کے اذہان اور صدور میں محفوظ ہے جنکو سمجھ اور علم صحیح عطا ہوا ہے جس پر کسی مصنف مزاج کو شبہ کی گنجائش نہیں اور بس وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو ظالم اور ہٹ دھرم ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی پیغمبر نے کسی سے نہیں لکھا پڑھا مگر یہ وحی جو ان پر آئی ہمیشہ کو بن لکھے جاری رہے گی ۔ سینہ بسینہ اور کتابیں حفظ نہ ہوتی تھیں یہ کتاب حفظ ہی سے باقی ہے لکھنا افروز ہے۔ 12