Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 53

سورة العنكبوت

وَ یَسۡتَعۡجِلُوۡنَکَ بِالۡعَذَابِ ؕ وَ لَوۡ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّی لَّجَآءَہُمُ الۡعَذَابُ ؕ وَ لَیَاۡتِیَنَّہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۵۳﴾

And they urge you to hasten the punishment. And if not for [the decree of] a specified term, punishment would have reached them. But it will surely come to them suddenly while they perceive not.

یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بے خبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How the Idolators asked for the Torment to be hastened on Allah says: وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلاَ أَجَلٌ مُّسَمًّى لَجَاءهُمُ الْعَذَابُ ... And they ask you to hasten on the torment, and had it not been for a term appointed, the torment would certainly have come to them. Allah tells us of the ignorance of the idolators and how they asked for the punishment of Allah to be hastened so that it would befall them quickly. This is like the Ayah, وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَأءِ أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ And when they said: "O Allah! If this is indeed the truth from You, then rain down stones on us from the sky or bring on us a painful torment." (8:32) And Allah says here: وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلاَ أَجَلٌ مُّسَمًّى لَجَاءهُمُ الْعَذَابُ (And they ask you to hasten on the torment, and had it not been for a term appointed, the torment would certainly have come to them). Were it not for the fact that Allah has decreed that the punishment should be delayed until the Day of Resurrection, the torment would have come upon them quickly as they demanded. Then Allah says: ... وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

موت کے بعد کفار کو عذاب اور مومنوں کو جنت مشرکوں کا اپنی جہالت سے عذاب الٰہی طلب کرنا بیان ہو رہا ہے یہ اللہ کے نبی سے بھی یہی کہتے تھے اور خود اللہ تعالیٰ سے بھی یہی دعائیں کرتے تھے کی جناب باری اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں اور کوئی دردناک عذاب کر ۔ یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ رب العلمین یہ بات مقرر کرچکاہے کہ ان کفار کو قیامت کے دن عذاب ہونگے اگر یہ نہ ہوتا تو انکے مانگتے ہی عذاب کے مہیب بادل ان پر برس پڑتے ۔ اب بھی یہ یقین مانیں کہ یہ عذاب آئیں گے اور ضرورآئیں گے بلکہ انکی بےخبری میں اچانک اور یک بہ یک آپڑیں گے ۔ یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور جہنم بھی انہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں یعنی یقینا انہیں عذاب ہوگا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جہنم یہی بحر اخضر ہے ستارے اسی میں جھڑیں گے اور سورج چاند اس میں بےنور کرکے ڈال دئیے جائیں گے اور یہ بھڑک اٹھے گا اور جہنہم بن جائے گا ۔ مسند احمد میں مرفوع حدیث ہے کہ سمندر ہی جہنم ہے راوی حدیث حضرت یعلی سے لوگوں نے کہا کہ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ( نَارًا ۙ اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۭ 29؀ ) 18- الكهف:29 ) یعنی وہ آگ جسے قناتیں گھیرے ہوئے ہیں تو فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں یعلی کی جان ہے کہ میں اس میں ہرگز داخل نہ ہونگا جب تک اللہ کے سامنے پیش نہ کیا جاؤنگا اور مجھے اس کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچے گا یہاں تک کہ میں اللہ کے سامنے پیش کیا جاؤں ۔ یہ تفسیر بھی بہت غریب ہے اور یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس دن انہیں نیچے سے آگ ڈھانک لے گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( لھم من جھنم مھاد ومن فوقھم غواش ) ان کے لئے جہنم میں اوڑھنا بچھونا ہے اور آیت میں ہے ( لَهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَــلٌ ۭ ذٰلِكَ يُخَــوِّفُ اللّٰهُ بِهٖ عِبَادَهٗ ۭ يٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ 16؀ ) 39- الزمر:16 ) یعنی ان کے اوپر نیچے سے آگ ہی کا فرش وسائبان ہوگا ۔ اور مقام پر ارشاد ہے ( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حِيْنَ لَا يَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُوْرِهِمْ وَلَا هُمْ يُنْــصَرُوْنَ 39؀ ) 21- الأنبياء:39 ) یعنی کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیں جبکہ نہ یہ اپنے آگے سے آگ کو ہٹاسکیں گے نہ پیچھے سے ان آیتوں سے معلوم ہوگیا کہ ہر طرف سے ان کفار کو آگ کھا رہی ہوگی آگے سے پیچھے سے اوپر سے نیچے سے دائیں سے بائیں سے ۔ اس پر اللہ عالم کی ڈانٹ ڈپٹ اور مصیبت ہوگی ۔ ادھر ہر وقت کہا جائے گا لواب عذاب کے مزے چکھو پس ایک تو وہ ظاہری جسمانی عذاب دوسرا یہ باطنی روحانی عذاب ۔ اسی کا ذکر آیت ( يَوْمَ يُسْحَبُوْنَ فِي النَّارِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ ۭ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ 48؀ ) 54- القمر:48 ) یعنی جبکہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لواب آگ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ جس دن انہیں دھکے دے دے کر جہنم میں ڈالا جائے گا اور کہا جائے گا یہ وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلاتے رہے اب بتاؤ! یہ جادو ہے؟ یاتم اندھے ہو؟ جاؤ اب جہنم میں چلے جاؤ اب تمہارا صبر کرنا یانہ کرنا یکساں ہے ۔ تمہیں اپنے اعمال کا بدلہ ضرور بھگتنا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

531یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔ 532یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقینا اس لائق ہیں کہ انھیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو ہمارا عذاب آجاتا ہے۔ 533یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آجائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] اس آیت میں جس عذاب کی جلدی کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ دنیا کا عذاب ہے۔ اور وہ اللہ کے ضابطہ کے مطابق فتح مکہ کے دن آیا تھا۔ جب کفار مکہ کو یک دم مسلمانوں کی یلغار کی خبر ہوئی اور ان میں مقابلہ کی سکت ہی نہ رہی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بالْعَذَابِ : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے اور آپ کا مذاق اڑانے کی ایک اور صورت ہے جو کفار نے اختیار کی کہ اگر ہم باطل پر ہیں تو ہم پر فوراً عذاب لے آؤ۔ جس عذاب سے تم ڈراتے ہو وہ کب آئے گا ؟ اس عذاب سے ان کی مراد دنیا میں عذاب تھی۔ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَهُمُ الْعَذَابُ : فرمایا، اگر دنیا میں ان پر آنے والے عذاب کا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر نہ کردیا ہوتا، جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، تو ان کے مطالبے کے وقت ہی عذاب آجاتا۔ وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : اس امت میں پہلی امتوں کی طرح آسمانی عذاب کے بجائے مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب دینا طے کیا گیا، جیسا کہ فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ) [ التوبۃ : ١٤ ] ” ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔ “ فرمایا، دنیا میں ان پر عذاب ضرور آئے گا مگر ان کے مطالبے پر فوراً نہیں، بلکہ مقرر وقت پر آئے گا اور اچانک آئے گا، جب ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بدر اور بعد کی جنگوں حتیٰ کہ فتح مکہ میں پورا ہوگیا۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اس امت کا عذاب یہی تھا، مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہونا، پکڑے جانا۔ سو فتح مکہ میں مکہ کے لوگ بیخبر رہے کہ حضرت کا لشکر سر پر آکھڑا ہوا۔ “ (موضح) ” اَجَلٌ مُّسَمًّى“ ( مقرر مدت) سے مراد موت اور پھر آخرت بھی ہوسکتی ہے، جس کا سلسلہ مرنے کے فوراً بعد شروع ہوجائے گا اور موت کے متعلق کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب آجائے۔ مفسر ابن جزی نے فرمایا، یہ معنی زیادہ ظاہر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ۝ ٠ۭ وَلَوْلَآ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاۗءَہُمُ الْعَذَابُ۝ ٠ۭ وَلَيَاْتِيَنَّہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ٥٣ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ کفار آپ سے وقوع عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر اس کی میعاد مقرر نہ ہوتی تو وقت سے پہلے ہی ان پر عذاب آچکا ہوتا اور وہ عذاب ان پر اچانک آئے گا کہ ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

93 That is,"They are challenging you again and again that If you are a true messenger and they are really denying the Truth, then you should not delay the torment with which you threaten them. "

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 93 یعنی بار بار چیلنج کے انداز میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر تم رسول ہو اور ہم واقعی حق کو جھٹلا رہے ہیں تو ہم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس کے ڈراوے تم ہمیں دیا کرتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:53) یستعجلونک۔ یستعجلون مضارع جمع مذکر غائب استعجال (استفعال) مصدر وہ جلدی مانگتے ہیں ۔ وہ تعجیل چاہتے ہیں (ضمیر فاعل قریش کے لئے ہے۔ عجلت مادہی۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ تجھ سے۔ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ اجل مسمی۔ موصوف وصفت اجل مدت مقررہ۔ مسمی اسم مفعول واحد مذکر تسمیۃ مصدر (باب تفعیل) بمعنی نام رکھنا۔ نام لینا۔ (اس سے کسی چیز کی تعین ہوجاتی ہے۔ اجل مسمی مدت مقررہ۔ تعیین شدہ ۔ میعاد۔ یہاں اجل مسمی سے مراد قیامت ہے۔ یا یوم بدر۔ لجاء ہم العذاب۔ (تو) ان پر عذاب ضرور آچکا ہوتا۔ جملہ جواب شرط میں ہے لام لو کے جواب میں جملہ جزائیہ پر آیا ہے۔ ولیأتینھم۔ یہ جملہ مستانفہ ہے ۔ لام تاکید کا ہے۔ یاتین مضارع تاکید بانون ثقیلہ ہے۔ صیغہ واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ وہ ضرور (اپنے وقت پر) ان پر آئے گا۔ بغتۃ۔ اچانک ۔ یک دم۔ دفعۃ۔ یکایک۔ بغۃ مصدر۔ بغت یبغت بغۃ وبغتۃ کسی چیز کا یک بارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہونا جہاں سے اس کا ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو۔ لا یشعرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب، وہ خبر بھی نہ رکھتے ہوں گے ! ان کو خبر تک نہ ہوگی۔ شعور مصدر (باب نصر)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو ہم پر عذاب کیوں نہیں لے آتے۔ (انفال :32، سورة صٓ:16) اور مطالبہ کرتے : امطر علینا حجارۃ اوئتنا بعذاب کہ ہم پر پتھر برسائو یا کوئی دوسری قسم کا عذاب لے آئو۔ (دیکھئے سورة انفال :32 و سورة ص :16) 3 ۔ مراد ہے دنیا کا کوئی عذاب، جیسا کہ کفار پر بدر کے روز آیا۔ کیونکہ وہ اپنے غرور کے سبب مسلمانوں کے غلبہ سے بالکل بیخوف تھے اور ان کے دل میں خیال تک نہ تھا کہ اس طرح ذلت کے ساتھ قتل اور قید و بند کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یا قبر اور پھر آخرت کا جس کا سلسلہ مرنے بعد فوراً شروع ہوجائے گا اور موت کے متعلق کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کب آجائے۔ (کذافی فی الوحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیگر معجزات مانگنے کے ساتھ کفار یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے رہتے ہو وہ آتا کیوں نہیں ؟ جواباً فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں لیکن انہیں بتلائیں کہ عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ وہ کسی کے جلدی کرنے سے اپنے وقت سے پہلے نازل نہیں ہوتا۔ البتہ جب نازل ہوتا ہے تو اس قدر اچانک نازل ہوتا ہے کہ کوئی بھاگنا چاہے تو بھاگ نہ سکے اور کوئی بچنا چاہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ جس عذاب کا یہ لوگ بار بار مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ ” اللہ “ چاہے گا تو وہ تمہیں دنیا میں ہی آلے گا اگر انہیں یقین نہیں آرہا تو عاد، ثمود اور قوم لوط کی بستیاں دیکھیں کہ عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کا کیا حشر ہوا ؟ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کی رسّی ڈھیلی کر رکھی ہے لیکن جہنم تو بہرحال کفار کا انتظار کر رہی ہے جو ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی اور اوپر سے جہنّم کے ملائکہ انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے یہ وہی ہے۔ لہٰذا اس کا مزہ چکھو اب اس سے کبھی نکل نہیں پاؤ گے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ جہنم کا عذاب ان سے زیادہ دور نہیں ہے۔ (لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِّنِ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ یَاعِبَادِ فَاتَّقُوْن) [ الزمر : ١٦] ” ان کے اوپر اور نیچے سے بھی آگ بھی چھائی ہوگی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے میرے بندو میرے عذاب سے بچو۔ “ (نَار اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ ) [ ہمزہ : ٦ تا ٩] ” اللہ “ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی ہے جو دلوں پر چڑھ جائے گی وہ ان پر ہر طرف سے بند کردی جائے گی اور اونچے ستونوں میں ہوگی۔ “ (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ )[ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار ] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک، بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردنوں تک پہنچی ہوگی۔ “ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو اچانک آیا کرتا ہے۔ ٣۔ جہنّم کفار کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی گرفت اور عذاب کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جو اپنے وقت سے پہلے نازل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن جہنم کے عذاب کا ایک منظر : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢٤) ٢۔ جہنم پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٣۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ : ٨١) ٥۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٦۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کی طرح بلند ہوں گے۔ ( المرسلٰت : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین اپنے کفر کو جرم نہیں سمجھتے تھے اور عذاب آجانے کی بات سنتے تھے تو اس کا یقین نہیں کرتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ عذاب آنا ہے تو جلد آجائے، اور ان کی مانگ کے مطابق فوراً عذاب نہ آنے کی وجہ سے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت میں شک کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَ لَوْ لَآ اَجَلٌ مُّسَمًّی لَّجَآءَ ھُمُ الْعَذَابُ ) (اگر اللہ کے علم میں عذاب آنے کی میعاد مقرر نہ ہوتی تو ان پر عذاب آجاتا) جب اجل مقررہ کا وقت آجائے گا ان پر عذاب دفعۃً آجائے گا جس کی انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ یہ عذاب دنیا میں بھی آسکتا ہے اور کافر کی موت کے وقت سے ہی عذاب شروع ہوجاتا ہے، موت کے وقت بھی عذاب، موت کے بعد برزخ میں بھی عذاب، قیامت کے دن بھی عذاب، دوزخ کا داخلہ وہاں عذاب اور دائمی عذاب، اوپر سے بھی عذاب اور نیچے سے بھی عذاب، دوزخ کافروں کو گھیرے گی ہر طرف سے عذاب ہی عذاب ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا کہ تم جو عمل کیا کرتے تھے اس کا مزہ چکھ لو اور سزا بھگت لو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ یہ زجر مع تخویف دنیوی و اخروی ہے یہ معاندین عذاب کے جلدی آنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن عذاب کا وقت مقرر ہے اگر اس کا وقت مقرر و معین نہ ہوتا تو اب تک وہ عذاب سے ہلاک ہوچکے ہوتے۔ عذاب کا وقت ہمارے علم میں معین ہے لیکن انہیں اس کا علم نہیں اس لیے وہ اچانک ہی اپنے وقت پر انہیں آ لے گا۔ اس سے قیامت یا جنگ بدر کا عذاب مراد ہے۔ وھو یوم القیمۃ او یوم بدر (مدارک) یستعجلونک الخ۔ یہ زجر مذکور کا اعادہ ہے۔ وہ عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ فرما دیں عذاب آئے گا یہ تمام مشرکین و کفار جہنم میں ڈالے جائیں اور جہنم کی آگ ہر طرف سے انہیں گھیرے میں لے لیگی اور اس وقت ان سے کہا جائے گا آج اپنے مشرکانہ اعمال کا خوب مزہ چکھ لو۔ یہ وہی عذاب ہے جس کے لیے تم بیتاب تھے اور بطور استہزاء ہمارے پیغمبر سے اسے جلدی لانے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53۔ اور اے پیغمبریہ دن حق کے منکر آپ سے عذاب واقع ہونے میں جلدی کرتے ہیں اور اگر عذاب کے آنے کی میعاد اور عذاب کا ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو ان پر کبھی کا عذاب آچکا ہوتا اور یقینا وہ عذاب ان پر ضرور دفعتہ اور اچانک آجائے گا اور ان کو اس عذاب کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی۔ یعنی عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اگر عذاب کا وق مقرر نہ ہوتا تو ان کے طلب کرنے پر عذاب آچکا ہوتا ہاں وہ آئے گا ضرور آئے گا بھی اچانک کہ ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی کہ کب آئے گا اور کدھر سے آئے گا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس امت کا عذاب یہی تھا مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہونا پکڑے جانا سو فتح مکہ میں مکہ والے بیخبر رہے کہ حضرت کا لشکر سر پر آکھڑا ہوا ۔ 12