Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 56

سورة العنكبوت

یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾

O My servants who have believed, indeed My earth is spacious, so worship only Me.

اے میرے ایمان والے بندو! میری زمین بہت کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Advice to migrate and the Promise of Provision and a Goodly Reward Allah commands His believing servants to migrate from a land in which they are not able to establish Islam, to the spacious earth of Allah where they can do so, by declaring Allah to be One and worshipping Him as He has commanded. Allah says: يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ امَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ O My servants who believe! Certainly, spacious is My earth. Therefore worship Me. When things became too difficult for the believers in Makkah who were in a weak position and were oppressed, they left and migrated to Ethiopia, where they were able to practice their religion. The Muslims found Ethiopia the best place for guest; where Ashamah, the Negus or king, may Allah have mercy on him, gave them refuge, helped them, supported them, and honored them in his land. Later, the Messenger of Allah and his remaining Companions migrated to Al-Madinah, formerly known as Yathrib, may Allah protect it. Then Allah says: كُلُّ نَفْسٍ ذَايِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

مہاجرین کے لیے انعامات الٰہی اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت میں ایمان والوں کو ہجرت کا حکم دیتا ہے کہ جہاں وہ دین کو قائم نہ رکھ سکتے ہوں وہاں سے اس جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین میں انہیں آزادی رہے اللہ کی زمین بہت کشادہ ہے جہاں وہ فرمان اللہ کے ماتحت اللہ کی عبادت وتوحید بجالاسکیں وہاں چلے جائیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام شہر اللہ کے شہر ہیں اور کل بندے اللہ کے غلام ہیں جہاں تو بھلائی پاسکتا ہو وہیں قیام کر چنانچہ صحابہ اکرام پر جب مکہ شریف کی رہائش مشکل ہوگئی تو وہ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تاکہ امن وامان کے ساتھ اللہ کے دین پر قیام کرسکیں وہاں کے سمجھدار دیندار بادشاہ اصحمہ نجاشی نے ان کی پوری تائید ونصرت کی اور وہاں وہ بہت عزت اور خوشی سے رہے سہے ۔ پھر اس کے بعد بااجازت الٰہی دوسرے صحابہ نے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔ بعد ازاں فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک مرنے والا اور میرے سامنے حاضر ہونے والا ہے ۔ تم خواہ کہیں ہو موت کے نیچے سے نجات نہیں پاسکتے پس تمہیں زندگی بھر اللہ کی اطاعت میں اور اس کے راضی کرنے میں رہنا چاہئے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے ہاں جاکر عذاب میں نہ پھنسو ۔ ایماندار نیک اعمال لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عدن کی بلندی وبالا منزلوں میں پہنچائے گا ۔ جن کے نیچے قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ کہیں صاف شفاف پانی کی کہیں شراب طہور کی کہیں شہد کی کہیں دودھ کی ۔ یہ چشمیں خود بخود جہاں چاہیں بہنے لگیں گے ۔ یہ وہاں رہیں گے نہ وہاں سے نکالیں جائیں نہ ہٹائے جائیں گے نہ وہ نعمتیں ختم ہونگی نہ ان میں گھاٹا آئے گا ۔ مومنوں کے نیک اعمال پر جنتی بالا خانے انہیں مبارک ہوں ۔ جنہوں نے اپنے سچے دین پر صبر کیا اور اللہ کی طرف ہجرت کی ۔ اس کے دشمنوں کو ترک کیا اپنے اقرباء اور اپنے گھر والوں کو راہ اللہ میں چھوڑا اس کی نعمتوں اور اس کے انعامات کی امید پر دنیا کے عیش وعشرت پر لات ماردی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بنائے ہیں جو کھانا کھلائیں خوش کلام نرم گو ہوں ۔ روزے نماز کے پابند ہوں اور راتوں کو جبکہ لوگ سوتے ہوئے ہوں ۔ یہ نمازیں پڑھتے ہوں اور اپنے کل احوال میں دینی ہوں یا دنیوی اپنے رب پر کامل بھروسہ رکھتے ہوں ۔ پھر فرمایا کہ رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا تقیسم کیا ہوا رزق عام ہے اور ہر جگہ جو جہاں ہو اسے وہ وہیں پہنچ جاتا ہے ۔ مہاجرین کے رزق میں ہجرت کے بعد اللہ نے وہ برکتیں دیں کہ یہ دنیا کے کناروں کے مالک ہوگئے اور بادشاہ بن گئے فرمایا کہ بہت سے جانور ہیں جو اپنے رزق کے جمع کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اللہ کے ذمہ ان کی روزیاں ہیں ۔ پروردگار انہیں ان کے رزق پہنچا دیتا ہے ۔ تمہارا رازق بھی وہی ہے وہ کسی بھی صورت اپنی مخلوق کو نہیں بھولتا ۔ چینٹیوں کو ان کے سوراخوں میں پرندوں کو آسمان وزمین کے خلا میں مچھلیوں کو پانی میں وہی رزق پہنچاتا ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č۝ ) 11-ھود:6 ) یعنی کوئی جانور روئے زمین پر ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو وہی ان کے ٹھہرنے اور رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے یہ سب اس کی روشن کتاب میں موجود ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن عمر فرماتے ہیں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا آپ مدینے کے باغات میں سے ایک باغ میں گئے ۔ اور گری پڑی ردی کھجوریں کھول کھول کر صاف کرکے کھانے لگے ۔ مجھ سے بھی کھانے کو فرمایا ۔ میں نے کہاحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تو یہ ردی کجھوریں نہیں کھائی جائیں گی ۔ آپ نے فرمایا لیکن مجھے تو یہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ چوتھے دن کی صبح ہے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا اور نہ کھانے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کھانا ملا ہی نہیں ۔ سنو اگر میں چاہتا تو اللہ سے دعا کرتا اور اللہ مجھے قیصر وکسریٰ کاملک دے دیتا ۔ اے ابن عمر تیرا کیا حال ہوگا جبکہ تو ایسے لوگوں میں ہوگا جو سال سال بھرکے غلے وغیرہ جمع کرلیاکریں گے ۔ اور ان کا یقین اور توکل بالکل بودا ہوجائے گا ۔ ہم ابھی تو وہیں اسی حالت میں تھے جو آیت ( وکاین الخ ) ، نازل ہوئی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھے دنیا کے خزانے جمع کرنے کا اور خواہشوں کے پیچھے لگ جانے کا حکم نہیں کیا جو شخص دنیا کے خزانے جمع کرے اور اس سے باقی والی زندگی چاہے وہ سمجھ لے کہ باقی رہنے والی حیات تو اللہ کے ہاتھ ہے ۔ دیکھو میں تو نہ دینار ودرہم جمع کروں نہ کل کے لئے آج روزی کا ذخیرہ جمع کر رکھوں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کاراوی ابو العطوف جزی ضعیف ہے ۔ یہ مشہور ہے کہ کوے کے بچے جب نکلتے ہیں تو ان کے پر وبال سفید ہوتے ہیں یہ دیکھ کر کوا ان سے نفرت کرکے بھاگ جاتا ہے کچھ دنوں کے بعد ان پروں کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے تب ان کے ماں باپ آتے ہیں اور انہیں دانہ وغیرہ کھلاتے ہیں ابتدائی ایام میں جبکہ ماں باپ ان چھوٹے بچوں سے متنفر ہوکر بھاگ جاتے ہیں اور ان کے پاس بھی نہیں آتے اس وقت اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے مچھر ان کے پاس بھیج دیتا ہے وہی ان کی غذا بن جاتے ہیں ۔ عرب کے شعراء نے اسے نظم بھی کیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت اور روزی پاؤ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو تاکہ صحت وغنیمت ملے ۔ اور حدیث میں ہے کہ سفر کرو نفع اٹھاؤ گے روزے رکھو تندرست رہو گے جہاد کرو غنیمت ملے گی ۔ ایک اور روایت میں ہے جد والوں اور آسانی والوں کے ساتھ سفر کرو ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتیں سننے والا اور ان کی حرکات وسکنات کو جاننے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

561اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] آیت کے الفاظ سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر اس قدر سختیاں روا رکھی تھیں کہ انھیں جینا بھی دو بھر ہوگیا تھا۔ اس کی مشکل کا حل اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس علاقہ سے ہجرت کر جاؤ اور وہاں جاکر رہو جہاں تم آزادی سے میری عبادت کرسکو۔ واضح رہے کہ اپنے وطن اور اپنے اقرباء سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن یہ حب الوطنی، وطن پرستی کی حد تک، اوراقرباء سے محبت قوم پرستی کی حد تک نہیں ہونی چاہئے۔ اصل چیز اللہ کی عبادت اور اپنے دین کی حفاظت ہے اس کے مقابلہ وطن اور قبیلہ کچھ چیز نہیں۔ اور اگر دین کا فقدان کرکے وطن اور قوم کو ترجیح دی جائے تو یہی چیز وطن پرستی اور قوم پرستی بن جائے گی اور یہ کفر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : یہ حقیقت ہے کہ ساری مخلوق ہی اللہ تعالیٰ کے عبد (غلام) ہیں۔ پھر یہ بندے دوقسم کے ہیں، مومن اور کافر۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا، مومن نے اپنی پسند چھوڑ کر رب کی پسند اختیار کی، اس کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دی، چناچہ وہ ہر چیز میں اللہ کا عبد، بندہ اور غلام بن گیا۔ جو مالک نے کہا، کیا، جس سے روک دیا اس سے رک گیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے ” يٰعِبَادِيَ “ (اے میرے بندو ! ) کے معزز اور پیار بھرے الفاظ کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ کافر بھی اگرچہ اللہ ہی کا بندہ ہے مگر اس نے اپنے رب کے سامنے سرکشی اختیار کی، اس کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی پر چلا، سو محبت کے خطاب سے محروم رہا۔ ” يٰعِبَادِيَ “ کے بعد ” الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا “ اس بات کے اظہار کے لیے ہے کہ ان لوگوں کو یہ شرف ایمان کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ : اس سورت کا مضمون ہے اہل ایمان کی آزمائش، یہ آزمائش بعض اوقات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ اپنے وطن میں رہنے کی صورت میں مومن کا ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے، کفار کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے دین پر نہ عمل کرسکتا ہے نہ اس کی دعوت دے سکتا ہے۔ سورت کے نزول کے وقت مکہ میں مسلمانوں کا یہی حال تھا۔ ایسی صورت میں انھیں ہجرت کی ترغیب دی کہ اگر مکہ کی سرزمین میں، جہاں تم اب ہو، میری بندگی بجا لانا مشکل ہو رہا ہے تو میری زمین تنگ نہیں، بہت فراخ ہے، تم اپنا وطن چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں تم آزادی سے میری بندگی کرسکو۔ ابراہیم اور لوط (علیہ السلام) کی مثالیں اسی سورت میں اس سے پہلے گزر چکی ہیں۔ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی، پھر مدینہ منورہ کی طرف اور اللہ تعالیٰ نے انھیں امن و اطمینان اور آزادی کی نعمت بھی عطا فرمائی اور فراخ رزق کی بھی۔ اب بھی یہی حکم ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی جگہ رہتا ہو جہاں برائیوں کا دور دورہ ہو اور اس کے لیے اللہ کے احکام پر عمل ممکن نہ رہے تو لازم ہے کہ اس جگہ سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آزادی سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرسکے۔ سورة نساء کی آیات (٩٧ تا ١٠٠ ) میں ہجرت کی فرضیت، اس کی فضیلت اور ہجرت نہ کرنے والوں کے بارے میں وعید بیان ہوئی ہے۔ فَاعْبُدُوْنِ : اس سے معلوم ہوا کہ ہجرت کا اصل مقصد اکیلے اللہ کی عبادت ہے، روزی کمانے یا کسی اور مقصد کے لیے کسی ملک یا شہر میں چلے جانا اصل ہجرت نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ، فَہِجْرَتُہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ، وَمَنْ ہَاجَرَ إِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُہَا أَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا، فَہِجْرَتُہُ إِلٰی مَا ہَاجَرَ إِلَیْہِ ) [ بخاري، الحیل، باب في ترک الحیل۔۔ : ٦٩٥٣، عن عمر بن الخطاب۔ ] ” تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہوئی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس نے دنیا کی کسی چیز کی طرف ہجرت کی، جسے وہ حاصل کرے یا کسی عورت کی طرف، جس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary From the very beginning of this Surah until now the enmity of the infidels toward Muslims, their rejection of the Oneness of God and prophethood of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and putting hurdles in the way of truth and believers were described. In the above verses a way out of this entanglement is suggested in order to come out of the turmoil and spread and propagate the truth, and establish justice - the common name for this action is hijrah (migration).It means to leave the hometown and land where one is forced to speak and act against the truth. Command in connection with hijrah and removal of doubts encountering in its way إِنَّ أَرْ‌ضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (Surely My earth is vast. So, Me alone you worship - 29:56). Allah Ta’ ala has made it clear that His land is very vast and no one should have the excuse that he could not observe the Oneness of Allah, and could not worship Him because in a certain city or country the infidels were in power. It is made clear in these verses that the Muslims should leave the land for the sake of Allah where they are forced to get involved in infidelity and sin, and should try to find out a place for living where they could abide by the commands of Allah Ta’ ala, and persuade others also to follow the same. This is what hijrah is all about. During the course of migration one is likely to encounter, as a rule, two types of risks, which may hold him back from migration. The first risk is to his life in that the infidels and his adversaries would come in his way, and in order to obstruct his move might take up arms to finish him. In addition, there could be a possibility of his being caught by adversaries on his way out. Hence, there is yet another risk to his life.

خلاصہ تفسیر اے میرے ایمان دار بندو (جب یہ لوگ غایت عداوت وعناد سے تم کو اقامت شرائع (اختیار دین پر ایذاء پہونچاتے ہیں تو یہاں رہنا کیا ضرور) میری زمین فراخ ہے، سو (اگر یہاں رہ کر عبادت نہیں کرسکتے تو اور کہیں چلے جاؤ اور وہاں جا کر) خالص میری ہی عبادت کرو (کیونکہ یہاں اہل شرک کا زور ہے، تو ایسی عبادت جو توحید محض پر مبنی ہو اور شرک سے خالی ہو، یہاں مشکل ہے، البتہ خدا کے ساتھ غیر خدا کی بھی عبادت ہو یہ ممکن ہے مگر وہ عبادت ہی نہیں اور اگر تم کو ہجرت میں احباب و اوطان کی مفارقت شاق معلوم ہو تو یہ سمجھ لو کہ ایک نہ ایک روز یہ تو ہونا ہی ہے، کیونکہ) ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا (ضرور) ہے (آخر اس وقت سب چھوٹیں گے اور) پھر تم سب کو ہمارے پاس آنا ہے (اور نافرمان ہو کر آنے میں خوف سزا کا ہے) اور (یہ مفارقت اگر ہماری رضا کے واسطے ہو تو ہمارے پاس پہنچنے کے بعد اس وعدہ کے مستحق ہوجاؤ اور وہ وعدہ یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے (جن پر عمل کرنا بعض اوقات ہجرت پر موقوف ہوتا ہے تو ایسے وقت میں ہجرت بھی کی) ہم ان کو جنت کے بالاخانوں میں جگہ دیں گے، جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان نیک) کام کرنے والوں کا کیا اچھا اجر ہے، جنہوں نے (واقع شدہ سختیوں پر جن میں ہجرت کی سختی بھی داخل ہوگئی) صبر کیا اور (دوسرے ملک یا شہر میں جا کر جو تکالیف کا اور گذارے کی مشکلات کا اندیشہ تھا اس میں) وہ اپنے رب پر توکل کیا کرتے تھے اور (اگر ہجرت میں تم کو یہ وسوسہ ہو کہ پردیس میں کھانے کو کہاں سے ملے گا تو یہ سمجھ لو کہ) بہت سے جانور ایسے ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے (یعنی جمع نہیں کرتے گو بعضے جمع بھی کرتے ہیں، مگر بہت سے نہیں بھی کرتے) اللہ ہی ان کو (مقدر) روزی پہنچاتا ہے اور تم کو بھی (مقدور روزی پہنچاتا ہے خواہ تم کہیں ہو پھر ایسا وسوسہ مت لاؤ، بلکہ دل قوی کر کے اللہ پر بھروسہ رکھو) اور (وہ بھرسہ کے لائق ہے کیونکہ) وہ سب کچھ سنتا سب کچھ جانتا ہے (اسی طرح دوسری صفات میں کامل ہے اور جو ایسا کامل الصفات ہو وہ ضرور بھروسہ کے قابل ہے) اور (توحید فی الالوہیت کا جو مبنی ہے یعنی توحید فی التخلیق وہ تو ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم ہے چنانچہ) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ (بھلا) وہ کون ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے، تو وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ اللہ ہے پھر (جب توحید فی التخلیق کو مانتے ہیں تو توحید فی الالوہیت کے بارے میں) کدھر الٹے چلے جا رہے ہیں (اور جیسا خالق اللہ ہی ہے اسی طرح) اللہ ہی (رازق بھی ہے چنانچہ) وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اللہ ہی سب چیز کے حال سے واقف ہے (جیسی مصلحت دیکھتا ہے ویسی ہی روزی دیتا ہے غرض رازق وہی ٹھہرا، اس لئے رزق کا اندیشہ ہجرت سے مانع نہ ہونا چاہئے) اور (جیسا کہ تخلیق کائنات میں اللہ کی توحید ان کے نزدیک بھی مسلم ہے، اسی طرح کائنات کے باقی رکھنے اور ان کا نظام چلانے میں بھی توحید کو تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ) اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو بعد اس کے کہ خشک (ناقابل نبات) پڑی تھی ترو تازہ (قابل نبات) کردیا تو (جواب میں) وہ لوگ یہی کہیں گے کہ وہ بھی اللہ ہی ہے آپ کہئے کہ الحمد اللہ (اتنا تو اقرار کیا جس سے توحید فی الالوہیت پر استدلال بھی بدیہی ہے، مگر یہ لوگ مانتے نہیں) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) ان میں اکثر سمجھتے بھی نہیں (نہ اس وجہ سے کہ عقل نہیں، بلکہ عقل سے کام نہیں لیتے اور غور نہیں کرتے، اس لئے بدیہی بھی خفی رہتا ہے۔ ) معارف و مسائل شروع سورت سے یہاں تک مسلمانوں کے ساتھ کفار کی عداوت اور توحید و رسالت سے مسلسل انکار اور حق اور اہل حق کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹوں کا بیان تھا، مذکور الصدر آیات میں مسلمانوں کے لئے ان کے شر سے بچنے اور حق کو شائع کرنے اور حق و انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کی ایک تدبیر کا بیان ہے جس کا اصطلاحی نام ہجرت ہے، یعنی وہ وطن اور ملک چھوڑ دینا جس میں انسان خلاف حق بولنے اور کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ہجرت کے احکام اور اس کی راہ میں پیش آنے والے شکوک و شبہات کا ازالہ : اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ ، حق تعالیٰ نے فرمایا کہ میری زمین بہت وسیع ہے، اس لئے کسی کا یہ عذر قابل سماعت نہیں کہ فلاں شہر یا فلاں ملک میں کفار غالب تھے، اس لئے ہم اللہ کی توحید اور اس کی عبادت سے مجبور ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس سر زمین کو جہاں وہ کفر و معصیت پر مجبور کئے جائیں اللہ کے لئے چھوڑ دیں اور کوئی ایسی جگہ تلاش کریں جہاں آزادی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرسکیں۔ اسی کا نام ہجرت ہے۔ وطن سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ جانے میں دو قسم کے خطرات انسان کو عادة پیش آیا کرتے ہیں، جو اس کو ہجرت سے روکتے ہیں۔ پہلا خطرہ اپنی جان کا ہے کہ جب اس وطن کو چھوڑ کر کہیں جائیں گے تو یہاں کے کفار اور ظالم لوگ راہ میں حائل ہوں گے اور مقابلہ و مقاتلہ کے لئے آمادہ ہوں گے۔ نیز راستہ میں ممکن ہے کہ دوسرے کفار سے بھی مقابلہ کرنا پڑے جس میں جان کا خطرہ ہے۔ اس کا جواب اگلی آت میں یہ دیا گیا کہ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَۃٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ۝ ٥٦ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبادت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراخ ہے ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے میرے ایماندار بندو یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سرزمین مدینہ امن والی ہے وہاں چلے جاؤ اور خالص میری ہی عبادت کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ ) ” قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں ایک نکتہ جو پہلے کئی بار دہرایا جا چکا ہے یہاں پھر ذہن میں تازہ کرلیں کہ مکی دور میں اہل ایمان سے براہ راست بہت کم خطاب کیا گیا ہے ‘ زیادہ تر انہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ہی مخاطب کیا گیا ہے ‘ جبکہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کی اصطلاح صرف مدنی قرآن میں ملتی ہے۔ یہاں پر یٰعِبَادِیَ کے طرز تخاطب میں بہت شفقت اور عنایت کا اظہار پایا جاتا ہے کہ اے میرے بندو ! اگر مجھ پر ایمان لانے کی پاداش میں مکہ کی سرزمین میں تمہارا قافیہ تنگ کردیا گیا ہے ‘ تمہارے لیے اگر یہاں رہنا محال ہوگیا ہے اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید ہمت تم لوگوں میں نہیں رہی تو اپنے اس شہر کو چھوڑ دو ‘ کہیں اور چلے جاؤ ‘ میری زمین بہت وسیع ہے۔ اس آیت میں ہجرت کی طرف راہنمائی ہے اور ہجرت حبشہ اسی حکم کی روشنی میں وقوع پذیر ہوئی تھی۔ اب اگلی آیت میں چوتھی ہدایت کا ذکر ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94 This is an allusion to the Hijrah, which implies this: if you feel that it is becoming difficult to worship God in Makkah, you may leave it and move to another place where you can live as the we servants of God, for God's earth is vast. You should serve Allah and not your nation and country." This shows that the real thing is not the nation and the home and the country but the worship of Allah If at some time the demands of the nation and country's love clash with the demands of Allah's worship, it is the time of trial for the believer's faith. The true believer will worship Allah and spurn the nation and the country and home. The false claimant to the Faith will abandon the Faith and remain clinging to his nation and his country and home. This verse is clearly indicative of the fact that a true worshipper of God can be a patriot but he cannot be a worshipper of the nation and the country. For him the worship of God is the dearest thing in life for the sake of which he will sacrifice everything else, but with never be prepared to sacrifice it for anything else.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 94 یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مکے میں خدا کی بندگی کرنی مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ ، خدا کی زمین تنگ نہیں ہے ۔ جہاں بھی تم خدا کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ ۔ تم کو قوم و وطن کی نہیں بلکہ اپنے خدا کی بندگی کرنی چاہیے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز قوم ، وطن اور ملک نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی ہے ۔ اگر کسی وقت قوم و وطن اور ملک کی محبت کے تقاضے اللہ کی بندگی کے تقاضوں سے ٹکرا جائیں تو وہی وقت مومن کے ایمان کی آزمائش کا ہوتا ہے ۔ جو سچا مومن ہے وہ اللہ کی بندگی کرے گا اور قوم وطن اور ملک کو لات مار دے گا ۔ جو جھوٹا مدعی ایمان ہے وہ ایمان کو چھوڑ دے گا اور اپنی قوم اور اپنے ملک و وطن سے چمٹا رہے گا ۔ یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہے کہ ایک سچا خدا پرست انسان محب قوم و وطن تو ہوسکتا ہے مگر قوم پرست نہیں ہوسکتا ۔ اس کے لیے خدا کی بندگی ہر چیز سے عزیز تر ہے جس پر دنیا کی ہر چیز کو وہ قربان کردے گا مگر اسے دنیا کی کسی چیز پر بھی قربان نہ کرے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کر رکھی تھی، اور بعض صحابۂ کرام (رض) اس صورت حال سے پریشان تھے، اس سورت کے شروع میں تو انہیں صبر واستقامت کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور اب اس آیت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر مکہ مکرمہ میں دین پر عمل کرنا مشکل ہورہا ہے تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، ہجرت کرکے کسی اور ایسی جگہ چلے جاؤ، جہاں امن وسکون کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:56) فایای واحد متکلم کی ضمیر منصوب منفصل ۔ مجھ کو۔ مجھ ہی سے۔ ف تعقیب کا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت ان کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مکہ سے ہجرت نہیں کرسکے تھے اور کفار نہیں ستا رہے تھے۔ (روح) اس میں ہجرت کی ترغیب ہے۔ یعنی اگر مکہ کی سرزمین میں جہاں تم اب ہو، میری بندگی بجالانا مشکل ہو رہا ہے تو میری زمین تنگ نہیں ہے۔ تم اپنے وطن چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلے جائو جہاں تم آزادی سے میری بندگی کرسکو۔ زجاج (رح) کہتے ہیں کہ یہ حکم عام ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ رہتا ہو جہاں برائیوں کا دور دورہ ہو اور اس کے لئے حالات کا بدل ڈالنا ممکن نہ ہو، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس جگہ سے ہجرت کر کے کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں وہ آزادی سے خدا کی بندگی کرسکتا ہو۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (56 تا 60) ۔ ارضی (میری زمین) ۔ واسعتہ (وسیع۔ پھیلی ہوئی) ۔ ذائقتہ (چکھنے والی) ۔ نبوء ن (ہم ضرور ٹھکا نا دیں گے) ۔ غرف (کمرہ۔ بالا خانہ) ۔ نعم اجر (بہترین بدلہ) ۔ کاین (کتنے ہی۔ بہت سے) ۔ دابتہ (جانور۔ جان دار) ۔ لا تحمل (نہیں اٹھاتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر (56 تا 60) ۔ ” اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ ہزاروں لاکھوں انسان ہر روز پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ انسان زندگی گذارنے کے لئے ایک گھر بنا کر اپنے بیوی، بچوں اور گھر والوں کے ساتھ رہتا بستا ہے۔ کنبہ، خاندان اور برادری کے تعلقات بنتے چلے جاتے ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی عمر گذار کر آخر کار موت کی آغوش میں جا کر سو جاتا ہے۔ رشتہ داریاں اور تعلقات اسی دنیا کی زندگی تک محدود ہوتے ہیں۔ موت کے ساتھ ہی تمام رشتے منقطع ہوجاتے ہیں۔ یہ موتو حیات کا سلسلہ ابتدائے کائنات سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ کوئی شخص اور اس کی بنائی ہوئی چیزیں ہمیشہ نہیں رہتیں۔ البتہ اس دنیا میں ہمیشہ کی زندگی صرف ان خوش نصیبوں کو ملتی ہے جو دین اسلام کی سر بلندی اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی جان اللہ کے راستے میں قربان کردیتے ہیں۔ اگرچہ وہ موت کے دروازے سے گذر کر آخرت میں پہنچتے ہیں۔ لیکن ان کی موت کو وہ عظمت حاصل ہوتی ہے جہاں ان کو ” مردہ “ تک کہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کو حیات برزخی حاصل ہوتی ہے جس میں ان کو اللہ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے اور وہ اسی میں مگن رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک مومن موت سے نہیں ڈرتا بلکہ وہ اس ہمت و جرات کا پیکر ہوتا ہے۔ جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ بیوی، بچے، خاندان، ملک، وطن اور اپنی جان سے زیادہ اس کو اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر رہتی ہے۔ وہ اپنے ایمانی تقاضوں کے سامنے دنیا کے ہر تقاضے کو قربان کرنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو ایمان، عمل صالح اور ایثار و قربانی کا پیکر ہوتے ہیں۔ اے میرے بندہ ! کہہ کر خطاب فرمایا ہے۔ ارشاد ہے کہ اے مومنو ! دین اسلام اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی وجہ سے تم پر زمین کو تمہارے لئے وسیع اور کشادہ کردیا ہے۔ وہ دنیا میں کسی بھی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں ان کے دین اور ایمان کی حفاظت ہو سکتی ہو۔ فرمایا کہ اگر تم نے اپنے ایمان کی حفاظت کے مقابلے میں اپنے گھر بار، بیوی بچوں، مال و جائیداد اور ملک و وطن کو اہمیت دی اور اس دائرہ سے نکلنے کی جدوجہد نہ کی تو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ موت کا مزہ ہر شخص کو چکھنا ہے۔ موت کے ساتھ ہی یہ تمام رشتے اور تعلق ختم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کو جنت کے اونچے اونچے مکانوں میں بسایا جائے گا۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو لوگ ایمان، عمل صالح، صبر اور اللہ پر توکل والے ہیں یہ جنتیں ان کا انعام ہوں گی۔ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرتے وقت جب ان کو سب کچھ ان سے چھوٹ جائے گا تو وہ اس کی فکر نہ کریں کہ ان کا اور ان کے بچوں کا گذر بسر کیسے ہوگا کیونکہ رزق دینے والا وہ اللہ ہے جس کے ہاتھ میں کائنات کے تمام وسائل اور ذرائع ہیں وہ ہر ایک کے رزق کا ذمہ دار ہے۔ ایک محسوس مثال سے سمجھایا ہے کہ ایسے لوگ ان چرند، پرند، درند اور کیڑے مکوڑوں کو دیکھیں کہ جب صبح کو وہ اٹھتے ہیں اور اپنے اپنے ٹھاکانوں سے روانہ ہو کر رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہ بھی شام کو پیٹ بھرے واپس لوٹتے ہیں۔ کیا وہ لوگ جو اللہ کہ راہ میں تکلیفیں اٹھاکر اپنا سب کچھ قربان کر کے اس کی راہوں میں نکلیں گے کیا وہ مہربان اللہ ان کو بھوکوں ماردے گا۔ اللہ جو سب کا رازق ہے وہ سب کا پیٹ بھرتا ہے اور کسی کو بھوکا نہیں سلاتا۔ وہ اللہ سب کی فریاد سنتا ہے اور ہر ایک کے معاملات سے اچھی طرح واقف ہے۔ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد ” صحابہ کرام (رض) “ جن کو مکہ مکرمہ میں طرح طرح کے ظلم و ستم کر کے ان پر مکہ کی سر زمین کو تنگ کردیا گیا تھا، اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے حبش کی طرف ہجرت کرنا شروع کردی تھی۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماگئے تو وہ صحابہ کرام (رض) جو ملک حبش کی طرف ہجرت کر گئے تھے آہستہ آہستہ مدینہ منورہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے ۔ اور اس طرح وہ تمام اہل ایمان جنہوں نے اللہ کی رضاو خوشنودی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا ان کو مدینہ منورہ میں ٹھکا نا مل گیا اور مدنیہ منورہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑگئی اور پھر وہی ریاست ایک ایسی عظیم سلطنت بن گئی جس کے سائے میں ساری دنیا نے امن و سکون اور محبت و اخوت کا درس سیکھا۔ یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ اس کی راہ میں ایثار و قربانی کرنے والے صحابہ کرام (رض) کو جنت میں کتنے بلند مقامات اور عظمتیں عطا کی جائیں گی لیکن تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان اہل ایمان نے قرآن و سنت پر عمل کر کے اپنے حسن اخلاق سے ساری دنیا کے اندھیرے دور کردیئے تھے۔ اور دنیا کو محبت، پیار، ایثار، قربانی اور امن و سلامتی کا جنتی نمونہ بنادیا تھا۔ آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا ۔ آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی جب یہ لوگ غایت عداوت و معاندت سے تم کو اقامت شرائع و اختیار دین پر ایذا پہنچاتے ہیں تو یہاں رہنا کیا ضروری ہے میری زمین فراخ ہے، سو اگر یہاں رہ کر عبادت نہیں کرسکتے، تو کہیں اور چالے جاو اور وہاں جاکر خالص میری ہی عبادت کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کو جہنّم کے عذاب کا نقشہ پیش کرنے کے بعد مومنوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ مومنوں دنیا کی تکلیفیں تو معمولی اور عارضی ہیں اگر جہنّم کی تکلیفوں سے بچنا چاہتے ہو تو اپنا ایمان بچا کر ہجرت کر جاؤ۔ ہجرت کرنے والوں کو یہ حکم دیتے ہوئے تسلّی دی گئی ہے کہ یہ نہ سوچو کہ گھر بار چھوڑ کر جائیں تو کدھر جائیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ” اللہ “ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ تمہاری زندگی کا مقصد ” اللہ “ کی عبادت اور اس کی غلامی کرنا ہے۔ اس لیے اپنے مقصد حیات کو سامنے رکھو اور اس کے لیے ہجرت کر جاؤ اور اپنے رب کی غلامی میں زندگی بسر کرو۔ اگر تمہیں کسی قسم کے نقصان کا خطرہ ہے تو اس بات پر غور کرو کہ بالآخر تمہاری زندگی نے بھی ایک دن ختم ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ نیک ہو یا بد اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ سب نے ہمارے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں ظالموں کو ان کے ظلم کی پوری سزا دی جائے گی اور نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں اور قربانیوں کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلِاُبَایِعَکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ) [ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین ] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ آپ پوچھتے ہیں اے عمرو ! کیا ہوا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے ؟ اسی طرح ہجرت کرنے سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور یقیناً حج سے بھی سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) ‘ قَالَ : خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب فی الامل وطولہ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ایک چوکور خط کھینچا اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ لکیریں کھینچی۔ ایک لکیر درمیان سے مربع شکل سے باہر نکلنے والی کھینچی اور فرمایا، یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو لکیر باہر نکل رہی ہے، وہ اس کی حرص ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں آفات وبیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو دوسری اسے آلے گی اگر یہ خطا کر جائے ‘ تو تیسری آفت اسے نشانہ بنالے گی۔ “ مسائل ١۔ جہاں ایمان بچانا مشکل ہو وہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے۔ ٢۔ ” اللہ “ کی زمین بہت ہی وسیع و عریض ہے۔ ٣۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ٤۔ ہر نفس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر با لقرآن ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے : ١۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٢۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٣۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٤۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٥۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٦۔ قلعہ بند ہونے والے کو بھی موت آئے گی۔ (النساء : ٧٨) ٧۔ اے نبی آپ کو بھی موت آنا ہے اور آپ کے مخالفوں نے بھی مرنا ہے۔ ( الزمر : ٣٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سب نے فنا ہونا ہے۔ (الرحمن : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعبادی الذین امنوا ۔۔۔۔۔ وھو السمیع العلیم (56 – 60) دلوں کے خالق ، دلوں کی خفیہ باتوں کے جاننے والے ، دلوں میں آنے والے خیالات کے جاننے والے ، اور دلوں میں پیدا ہونے والے وساوس ، اور دلوں میں چھپے ہوئے خدشات کو جاننے والے اور ان دلوں کے پیدا کرنے والے خالق کائنات یوں پکارتے ہیں ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو “ ان الفاظ کے ساتھ پکار کر ان کی دعوت دی جاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرو ، اس خطاب کے ذریعے پہلے ہی مرحلہ پر بتا دیا جاتا ہے کہ اس ہجرت کی حقیقت کیا ہے یہ کہ اللہ اور رب کے لیے اور مولائے کریم کی راہ میں ، میں اس کے بندوں کی یہ نقل مکانی ہے۔ یہ تو تھا پہلا نچ ، اور دوسرا احساس ان کو یہ دلایا جاتا ہے۔ ان ارضی واسعۃ (29: 56) ” میری زمین وسیع ہے “۔ تم میرے بندے ہو اور یہ میری زمین ہے اور بہت ہی وسیع ہے۔ اس قدر وسیع ہے کہ یہ تمہیں جگہ دے سکتی ہے اس لیے کیوں تم مکہ کی تنگنائیوں میں ڈٹے ہوئے ہو ، جہاں تم پر محض تمہارے دین اور عقائد و نظریات کی وجہ سے مظالم ہو رہے ہیں۔ یہاں تمہیں اس کی اجازت بھی نہیں ہے کہ تم اپنے رب اور مولائے کریم کی بندگی کرسکو۔ ان تنگیزوں کو خیرباد کہو اور اللہ کی وسیع دنیا کی طرف نکل جاؤ۔ اپنے دین کو لے کر اس ظلم سے نجات پاؤ تاکہ آزادی سے اپنے رب کی بندگی کو سکو۔ فایای فاعبدون (29: 56) ” پس تم میری ہی بندگی بجا لاؤ “۔ جب کسی کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کیا جاتا ہے تو دل میں پہلا دکھ ملک چھوڑنے کا کروٹیں لیتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قدر میٹھا انداز اختیار کیا ، میرے بندو جو ایمان لائے ہو ، الا یہ کہ میری زمین وسیع ہے ، مکہ بھی میرا اور مدینہ بھی میرا ہے۔ تمام زمین میری ہے۔ لہٰذا محبت صرف اسی زمین سے رکھو جس میں تم میری عبادت کرسکو اور جس میں تمہارے لیے وسعت ہو۔ دوسرا خیال ایسے مواقع پر ہجرت کے عمل کے خطرات اور خدشات کا آتا ہے یعنی یہ کہ اپنے گھروں سے نکلیں گے تو راستوں میں موت ہی نہ آجائے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ کفار نے مسلمانوں کو مکہ میں قید کر رکھا تھا۔ ان کو وہاں سے نکلنے کی اجازت ہی نہ دیتے تھے اس لیے مہاجرین کے لیے ہجرت کی راہ میں نکلنا بھی پر خطر تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ان کے اس خدشے کو بھی دور فرماتے ہیں کل نفس ذائقۃ الموت ثم الینا ترجعون (29: 57) ” ہر متنفس کو موت کو مزہ چکھنا ہے۔ پھر تم سب ہماری طرف پلٹا کر لائے جاؤ گے “۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے تو وہ ہر جگہ آنے والی ہے ، لہٰذا موت کی پرواہ مت کرو ، جبکہ موت کا وقت اور سبب کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ سب کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ تو ہجرت کرنے والے ہیں اور اگر نہ بھی کریں تو پھر بھی اللہ کی طرف سب کو پلٹایا جانا ہے اور تم تو اللہ کے غلام ہو ، تم کو تو دنیا و آخرت دونوں میں اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ لہٰذا اس بارے میں ڈرنا کیا یا دلوں میں خوف و خطر کو لانے کا کیا مقام ہے۔ پھر اللہ کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ تمہیں دنیا میں زمین کی وسعتیں دے گا اور تم محفوظ ہوگے بلکہ قیامت میں تمہارے لیے جو آرام گاہ تیار ہے وہ تو بہت ہی عظیم ہے۔ اب تم وطن چھوڑ رہے ہو تو دنیا میں بھی وسعت ملے گی اور گھر تم چھوڑ رہے ہو تو جنت میں تمہارے لیے محلات تیار ہیں اور وہ محلات تمہارے ان چھوٹے چھوٹے گھر وندوں سے بہت ہی بڑے اور عظیم ہیں۔ والذین امنوا ۔۔۔۔۔ خلدین فیھا (29: 58) ” جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند وبالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے “۔ اور وہاں ان کو خوش آمدید ان الفاظ میں کہا جائے گا اور ان کی جدوجہد کا تذکرہ ہوگا۔ نعم اجر العملین ۔۔۔۔۔ یتوکلون (29: 59) ” کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ، ان لوگوں کیلئے جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں “۔ چناچہ یوم اہل ایمان کو ہجرت پر آمادہ کیا جاتا ہے ، ان کے ساتھ وعدے کیے جا رہے ہیں اور اس پر پریشانی ، خدشات اور خوف کے ماحول سے ان کو ثابت قدمی اور جرات مندی اور حوصلہ سکھایا جا رہا ہے۔ قدرتی طور پر ہجرت کے وقت یہ فکر بھی لاحق ہوجاتی ہے کہ انسان کے ساتھ پیٹ تو لگا ہوا ہے۔ آخر صبح و شام کی ضروریات کا بندوبست کیا ہوگا۔ وطن چھوڑ دیں گے ، مال چھوڑ دیں گے ، روزگار ترک کرکے چلے جائیں گے۔ یہاں تو مکہ میں بہرحال ضروریات زندگی کی فراہمی کا بندوبست تو یقینی ہے۔ ہر شخص روزگار پر لگا ہے۔ چناچہ ان خدشات کا جواب بھی دے دیا جاتا ہے۔ وکاین من دآبۃ لا تحمل رزقھا اللہ یرزقھا وایاکم (29: 60) ” اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے ، اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے “۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو انسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے اور یہ واقعی صورت حالات ہم رات اور دن اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے جانور ہیں جو نہ رزق اٹھائے پھرتے ہیں ، نہ جمع کرتے ہیں ، نہ اس کا کوئی اہتمام کرتے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اس رزق کو پیدا کرنے کی کیا تدبیر کریں گے۔ نہ ذخیرہ کرنا انہیں آتا ہے۔ اس کے باوجود اللہ سب کو رزق دیتا ہے۔ کوئی جانور کبھی بھوک سے نہیں مرا۔ اسی طرح اللہ لوگوں کو بھی رزق دیتا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کو یہ زعم لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ خود اپنے لیے رزق پیدا کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وسائل رزق اللہ ہی فراہم کرتا ہے اور یہ وسائل ہی دراصل رزق ہیں۔ اگر اللہ کے یہ پیدا کردہ وسائل نہ ہوں تو انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ہجرت کی وجہ سے تم بھوک سے نہ مرو گے۔ اس کی فکر نہ کرو ، تم اللہ کے بندے ہو اور اللہ اپنے بندوں کا بندوبست کرتا ہے جہاں بھی وہ ہوں جس طرح اللہ اپنی دوسری مخلوق کا بندوبست کرتا ہے اور کسی کو بھی بھوکا مرنے نہیں دیتا۔ یہ محبت آمیز نغمے اس شعور پر آخر ختم ہوتے ہیں کہ اللہ اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ وہ ہر وقت ان پر نظر کرم رکھتا ہے ، وہ ان کی سب باتیں سنتا ہے۔ ان کے حالات کو جانتا ہے اور کبھی بھی ان کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔ وھو السمیع العلیم (29: 60) ” وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “۔ یہ دور یہاں اگر ختم ہوتا ہے ، اس حال میں اللہ نے مہاجرین کے دلوں میں پائے جانے والے تمام خدشات دور کر دئیے اور اللہ کی راہ میں نکلتے وقت دل میں کھٹکنے والے تمام خدشات دور کر دئیے اور اہل ایمان کے دلوں میں جو خدشات اور اندیشے پائے جاتے تھے اب ان کی جگہ اطمینان نے لے لی۔ قلق و پریشانیوں کی جگہ اب وہ مطمئن ہیں اور اب اہل ایمان کے دل اس قدر سکون اور ٹھہراؤ اور ثبات پا چکے ہیں کہ وہ اللہ کا قرب ، اللہ کی نگرانی اور اللہ کی پناہ میں اپنے آپ کو اب محفوظ تصور کرتے ہیں۔ کون ہے جو انسان کے خدشات کو اس انداز میں محسوس کرسکتا ہے اور ان کو اس طرح دور کرسکتا ہے ماسوائے خالق کائنات کے۔ جو ان تمام باتوں سے واقف ہوتا ہے ، جو دلوں میں گزرتی ہیں۔ مومنین کے ساتھ اس مختصر مکالمہ کے بعد روئے سخن پھر مشرکین کے باہم متضاد افکار کی طرف پھرجاتا ہے۔ ان کے تصورات اس قدر غیر معقول ہیں کہ وہ ایک طرف تو یہ اقرار کرتے ہیں کہ صرف اللہ ہی ہے جو زمینوں اور آسمانوں کا خالق ہے۔ وہی ہے جس نے شمس و قمر کر مسخر کر رکھا ہے۔ وہی ہے جو آسمانوں سے بارشیں برساتا ہے اور زمین کو مردہ ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہی ہے جو رزق کو کھلا بھی کرتا ہے اور تنگ بھی کرتا ہے۔ جب یہ لوگ انتہائی خوف کی حالت میں ہوتے ہیں تو صرف اللہ کو پکارتے ہیں۔ لیکن ان باتوں کو تسلیم کرنے کے بعد یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ۔ جو لوگ صرف اللہ وحدہ کو پکارتے ہیں اور اس کی بندگی کرتے ہیں ، یہ ان کو اذیت دیتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور بلاوجہ یہ لوگ ایسے لوگوں پر مظالم ڈھاتے ہیں۔ اللہ نے ان پر جو احسانات کیے ، ان کو یہ لوگ بھلاتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو بیت اللہ میں خوفزدہ کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہجرت کی اہمیت اور ضرورت معالم التنزیل (جلد ٣ ص ٤٧٢) میں علامہ بغوی (رض) نے لکھا ہے کہ آیت (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا) (الآیۃ) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے اسلام قبول کرلیا تھا وہاں کے مقامی حالات کی وجہ سے (جو کافروں کی طرف سے دکھ تکلیف کی صورت میں پیش آتے رہتے تھے) اپنا ایمان ظاہر کرنے سے قاصر تھے، اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ میری زمین وسیع ہے فراخ ہے یہاں سے ہجرت کر جاؤ، دشمنوں کے خوف کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرسکتے ہو تو اس شہر کو چھوڑ دو اور میری عبادت میں لگو۔ اس وقت مدینہ منورہ دارالہجرۃ تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بہت سے صحابہ مدینہ منورہ پہنچ گئے تھے اور اس سے پہلے بہت سے صحابہ حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے، کوئی شخص اللہ کے لیے وطن چھوڑ کر ہجرت کرنے کو آمادہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے اور رہنے کا ٹھکانہ ملتا ہے، جیسا کہ سورة نساء میں فرمایا : (وَ مَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً ) (اور جو شخص اللہ کے لیے وطن چھوڑے وہ زمین میں جانے کی بہت سی جگہ پائے گا اور اسے کشادگی سے جگہ ملے گی) چونکہ وطن کو مستقل طریقہ پر چھوڑ دینا دنیاوی حالات کے اعتبار سے ایک مشکل چیز ہے اس لیے بعض لوگ ہجرت کرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے ان سے فرمایا کہ میری زمین بہت وسیع ہے ہجرت کرو اور میری عبادت کرو۔ ہجرت کرنے میں دو طرح کی تکلیفیں پیش آنے کا خطرہ ہوتا ہے، اول موت کا خطرہ (کافروں کی طرف سے حملہ آور ہونے کا قوی احتمال) اور دوسرے بھوکے مرجانے کا خطرہ۔ انسان سوچتا ہے کہ یہاں اپنے گھر میں کمائی کرتا ہوں، بیٹے بھی کماتے ہیں، تجارت چالو ہے، اپنی کھیتی باڑی ہے، وطن سے باہر نکلتا ہوں تو کھانے کو کہاں سے ملے گا ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ ابتداء سورت میں کہا گیا توحید کی خاطر مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا اور ان منافقین کی طرح نہ ہونا جو معمولی تکلیف پر توحید کا نام لینا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اب یہاں فرمایا اگر مشرکین اس قدر ایذائیں دیں کہ وطن میں رہنا مشکل ہوجائے تو میری زمین فراخ ہے وطن سے ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ چلے جاؤ جہاں ت میری خالص عبادت بجا لا سکو۔ کل نفس الخ۔ یہ دنیا چند روزہ ہے آخر ہر ایک کو موت آئے گی اور تم سب میرے پاس آؤ گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56۔ آگے مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی ترغیب ہے ارشاد ہوتا ہے اے میرے بندو جنہوں نے دعوت اسلامی کو قبول کرلیا ہے اور اے میرے بندو جو اہل ایمان ہیں میری زمین فراخ اور وسیع ہے سو تم صرف میری ہی عبادت کیا کرو۔ یعنی اے میرے بندو جو ایمان لے آئو ہو اگر تم اپنے طن میں آزادی کے ساتھ میری عبادت نہیں کرسکتے اور منکر تم کو میری عبادت نہیں کرنے دیتے اور تمہاری راہ میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں تو میری زمین بہتری وسیع اور فراخ ہے تم کوئی امن کی جگہ دیکھ کر وہاں ہجرت کر کے چلے جائو اور کسی دبائو سے میری عبادت میں فرق نہ آنے دو بلکہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب کافروں نے مکہ میں بہت زور کیا تو حکم ہوا ہجرت کا اسی تراسی گھر اٹھ گئے۔ جبشے کے ایک ملک کو فرمایا کہ کوئی دن کی زندگی ہے جہاں بنے تہاں کاٹ دو پھر ہم پاس اکٹھے آئو گے تاوطن چھوڑنا دل پر مشکل نہ لگے اور حضرت سے جدا ہونا ۔ 12