Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 57

سورة العنكبوت

کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ۟ ثُمَّ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۵۷﴾

Every soul will taste death. Then to Us will you be returned.

ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everyone shall taste death. Then unto Us you shall be returned. meaning, `wherever you are, death with catch up with you, so always obey Allah and be where Allah commands you to be, for this is better for you. Death is inevitable and there is no escape from it, and then you will return to Allah, and whoever was obedient to Him will have the best reward.' Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

571یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آجائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مروگے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہوگے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] اس حکم کے مطابق مختلف اوقات میں تراسی افراد مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ انھیں مہاجرین کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اپنی جانوں کی فکر نہ کرو۔ یہ چند روزہ زندگی ہے۔ موت تو بہرحال آکے رہے گی یہ چند دن کی زندگی جہاں میسر آئے کاٹ لو۔ پھر ہمارے پاس آکٹھے ہوجاؤ گے۔ تمہارا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اپنا جان و مال اور گھر بار کیسے بچایا جائے بلکہ یہ ہونا چاہئے کہ اپنا ایمان کیسے بچایا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۔۔ : اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی ترغیب ہے، یعنی ہر جان خواہ اپنے وطن میں رہے یا وہاں سے ہجرت کر جائے، موت کی تلخی کو چکھنے والی ہے۔ یہ چند دن کی زندگی جہاں اور جیسے ہو سکے کاٹ لو، پھر ہمارے پاس آ اکٹھے ہو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The answer to this problem is given in the next verse: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (Every person has to taste death - 29:57) that is, no one has any escape from death anywhere in any situation. Therefore, it should not be the trait of a Muslim to be afraid of death, because despite all possible defenses one may arrange for himself, death will overcome him. And it is also part of a believer&s faith that death cannot come before the time Allah has determined. Therefore, fear of death should not be an impediment in one&s decision about his staying at a certain place or leaving it. If death comes during the course of following a command from Allah Ta’ ala, it would bring eternal blessings and comforts, which one will get in the Hereafter, as stated in the next two verses:

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ، یعنی ہر ایک جان چکھنے والی ہے مزہ موت کا جس سے کسی کو کسی جگہ کسی حال مفر نہیں اس لئے موت سے خوف اور گھبراہٹ مومن کا کام نہیں ہونا چاہئے۔ وہ تو ہر شخص کو ہر حال میں پیش آئے گی اپنی جگہ میں کیسے ہی حفاظت کے سامان کر کے رہے، پھر بھی آئے گی اور مومن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی اس لئے اپنی جگہ رہنے یا ہجرت کر کے دوسری جگہ جانے میں موت کا خوف حائل نہ ہونا چاہئے، خصوصاً جبکہ احکام الہیہ کی اطاعت کرتے ہوئے موت آجانا دائمی راحتوں اور نعمتوں کا ذریعہ ہے جو ان کو آخرت میں ملیں گی جس کا ذکر بعد کی دو آیتوں میں فرمایا ہے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۝ ٠ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۝ ٥٧ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہر شخص کو لازما موت کا مزہ چکھنا ہے اور پھر مرنے کے بعد تم سب کو ہمارے پاس آنا ہے جہاں تمہیں تمہارے اعمال کا صلہ دیا جائے گا

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِقف ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) ” دیکھو ! موت تو ایک دن آنی ہی ہے۔ اس دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ کوئی ہمیشہ رہے گا۔ فرض کرو اگر یاسر اور ان کی اہلیہ سمیہ (رض) ابوجہل کے ہاتھوں شہید نہ بھی ہوتے تو کیا ہوتا ؟ بس یہی نا کہ چند برس اور جی لیتے۔ موت تو پھر بھی انہیں آنی ہی تھی۔ راہ حق کے مسافروں کے لیے یہ بہت قیمتی نصیحت ہے۔ اگر یہ اٹل حقیقت انسان کے دل و دماغ میں مستحضر رہے تو انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں بھی اس کی ہمت قائم رہتی ہے اور وہ زندگی بچانے کے لیے حق کا ساتھ چھوڑنے اور باطل کے ساتھ مصالحت کرلینے کی سوچ جیسے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے ۔۔ اور اب پانچویں نصیحت :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

95 That is, "Do not be anxious for your life: one has to die sooner or later. No one has come to live for ever in this world. Therefore, your real problem is not how to save life, but your real problem is how to save your Faith, and fulfil the requirements of God-worship. You have ultimately to return to Us. If you lost your faith for the sake of saving your life the result in the Hereafter will be different, but if you lost your life for the sake of saving your faith the result will be just the opposite. Therefore, you should be anxious only about what you will bring when you return to Us. Will you come with a faith sacrificed for the sake of life, or a life sacrificed for the sake of the faith?"

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 95 یعنی جان کی فکر نہ کرو ۔ یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے ۔ ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے ۔ لہذا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے ۔ بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں ۔ آخر کار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے ۔ اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہوگا اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہوگا ۔ پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے ، جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

31: یعنی اگر ہجرت کرنے سے اس لئے رُکاوٹ محسوس ہو کہ اپنے عزیزوں دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا تو یہ جدائی کبھی نہ کبھی تو ہونی ہی ہے، کیونکہ ہر انسان کو موت آنی ہے، پھر جب سب ہمارے پاس واپس آجاؤگے تو پھر کبھی جدائی نہیں ہوگی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ اس میں بھی۔ اللہ کی راہ میں ہجرت اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی ترغیب ہے۔ یعنی جان کی فکر نہ کرو۔ یہ تو ایک نہ ایک دن اس بدن سے نکلنے والی ہے۔ اصل فکر اور اصل تگ ودو ایمان بچانے کی ہونی چاہیے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی اگر ہجرت میں تم کو احباب و اوطان کی مفارقت شاق معلوم ہو تو یہ سمجھ لو کہ ایک نہ ایک روز یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ضرور ہے، آخر اس وقت سب چھوٹیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہر جان کو موت چکھنی ہے اللہ تعالیٰ شانہ نے دونوں باتوں کا جواب دے دیا، اول تو یہ فرمایا (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ) کہ ہر جان کو موت چکھنی ہے کہیں بھی رہو موت اپنے مقرر وقت پر آجائے گی پھر موت سے کیا ڈرنا اور اس کے لیے ہجرت کو چھوڑنے کے کیا معنی ؟ (ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ) (پھر موت کے بعد ہمارے پاس آؤ گے) اگر ہجرت کرلی تو اس کا اجر پاؤ گے، اور اگر بالفرض ہجرت نہ کی تو سزا ملے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57۔ ہر متنفس اور ہر جاندار کا مزہ چکھنے والا ہے پھر تم سب کی بازگشت ہماری طرف سے اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جائو گے۔ یہ شاید اس لئے فرمایا کہ ترک وطن اور ہجرت کے حکم سے جو پریشانی ہو دور ہوجائے کہ آخر ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے اور دنیا ہی چھوڑنا ہے تو آج دین کی خاطر ترک وطن کرلیں تا کہ اجر بھی میسر آئے اور اللہ تعالیٰ کا حکم کی تعمیل بھی۔