Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 58

سورة العنكبوت

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ غُرَفًا تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ نِعۡمَ اَجۡرُ الۡعٰمِلِیۡنَ ﴿٭ۖ۵۸﴾

And those who have believed and done righteous deeds - We will surely assign to them of Paradise [elevated] chambers beneath which rivers flow, wherein they abide eternally. Excellent is the reward of the [righteous] workers

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے انہیں ہم یقیناً جنت کے ان بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے نیک کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّيَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاْاَنْهَارُ ... And those who believe and do righteous good deeds, to them We shall surely give lofty dwellings in Paradise, underneath which rivers flow, meaning, `We shall cause them to dwell in lofty homes in Paradise under which various kinds of rivers flow -- water, wine, honey and milk -- which they can direct and cause to flow wherever they wish.' ... خَالِدِينَ فِيهَا ... to live therein forever. means, they will remain there forever, never wanting to leave. ... نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ Excellent is the reward for the workers. these rooms will be a blessed reward for the good deeds of the believers,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

581یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہونگے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہونگی، علاوہ ازیں انھیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہوجائے گا۔ 582ان کے زوال کا خطرہ ہوگا نہ انھیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھرجانے کا خوف۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] یعنی ہجرت کی صورت میں تمہارے دنیوی مفادات بھی مجروح ہوں گے اور کئی طرح کی مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔ ان کے بدلہ میں اللہ نے تمہارے لئے جو اجر تیار کر رکھا ہے۔ وہ ان سب چیزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ جن کا تمہیں فکر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔ : اس سے پہلے آیت (٥٤) اور (٥٥) میں کفار کے ٹھکانے کا ذکر فرمایا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے مومن بندوں کے لیے تیار کیے جانے والے بہترین ٹھکانے کا ذکر فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح اعمال کیے، ہم انھیں جنت کے بلند و بالا مکانوں میں جگہ دیں گے۔ (دیکھیے فرقان : ٧٥۔ زمر : ٢٠) جن کے نیچے پانی، دودھ، شراب اور شہد کی نہریں بہ رہی ہوں گی۔ (دیکھیے سورة محمد : ١٥) جس طرف ان نہروں کا رخ پھیرنا چاہیں گے پھیر لیں گے۔ (دیکھیے دہر : ٦ ) ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ (دیکھیے کہف : ٢، ٣ اور ١٠٧، ١٠٨) ۔ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ : یعنی جنت کے وہ بالا خانے ان عمل کرنے والوں کا بہت اچھا بدلا ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَ‌فًا تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا (And those who believe and do righteous deeds, We shall accommodate them in mansions of the Paradise beneath which rivers flow, where they will live forever - 29:58). The other risk involved in hijrah (migration) is about the arrangement of sustenance in the strange land. One does manage the sustenance at one&s own place through employment, trade, cultivation, or inherited land, but on migration all that is left behind. So, how would he manage the sustenance in the new environment? Answer to this apprehension is given in the next three verses by saying that you regard the mundane possessions and arrangements as the cause of your sustenance, but who has given you all this? It is your mistake to consider that you have arranged it all on your own. Without the help and will of Allah nothing could be procured. If He wills, one gets unlimited sustenance without any visible means, and if He does not, then despite all sorts of visible means, one does not get anything. For elaborating this point first it is said:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا الایة۔ دوسرا خطرہ ہجرت کی راہ میں یہ پیش آتا ہے کہ دوسرے وطن دوسرے ملک میں جا کر رزق کا کیا سامان ہوگا ؟ اپنی جگہ تو کچھ آبائی میراث سے کچھ اپنی کمائی سے آدمی کوئی زمین جائیداد یا صنعت و حرفت و تجارت وغیرہ کے سامان کئے رہتا ہے، ہجرت کے وقت یہ سب تو یہیں چھوٹ جائیں گے، آگے گذارہ کس طرح ہوگا ؟ اس کا جواب بعد کی تین آیتوں میں اس طرح دیا گیا ہے کہ تم ان حاصل کردہ سامانوں کو رزق کی علت اور کافی سبب قرار دیتے ہو یہ تمہاری بھول ہے، رزق دینے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہے وہ جب چاہتا ہے تو بغیر کسی ظاہری سامان کے بھی رزق پہنچا دیتا ہے اور وہ نہ چاہے تو سب سامان و اسباب کے ہوتے ہوئے بھی انسان رزق سے محروم ہوسکتا ہے۔ اس کے بیان کے لئے پہلے تو یہ فرمایا :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۝ ٥ ٨ۤۖ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ بَوءَ أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مكان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس/ 87] ، ( ب و ء ) البواء ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ { وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا } ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ غرف الْغَرْفُ : رفع الشیء وتناوله، يقال : غَرَفْتُ الماء والمرق، والْغُرْفَةُ : ما يُغْتَرَفُ ، والْغَرْفَةُ للمرّة، والْمِغْرَفَةُ : لما يتناول به . قال تعالی:إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة/ 249] ، ومنه استعیر : غَرَفْتُ عرف الفرس : إذا جززته «3» ، وغَرَفْتُ الشّجرةَ ، والْغَرَفُ : شجر معروف، وغَرَفَتِ الإبل : اشتکت من أكله «4» ، والْغُرْفَةُ : علّيّة من البناء، وسمّي منازل الجنّة غُرَفاً. قال تعالی: أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان/ 75] ، وقال : لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت/ 58] ، وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ/ 37] . ( غ ر ف ) الغرف ( ض) کے معنی کسی چیز کو اٹھانے اور کڑنے کے ہیں جیسے غرفت الماء لنا لمرق ہیں نے پانی یا شوربہ لیا ) اور غرفۃ کے معنی چلو پھر پانی کے ہیں اور الغرفۃ ایک مرتبہ چلو سے پانی نکالنا المخرفۃ چمچہ وغیرہ جس سے شوربہ وغیرہ نکال کر برتن میں ڈالا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة/ 249] ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو پھر پانی لے لے ( تو خیر) اسی سے ابطورہستعارہ کہاجاتا ہے غرفت عرف الفرس میں نے گھوڑے کی پیشانی کے بال کاٹ ڈالے غرفت الشجرۃ میں نے درخت کی ٹہنیوں کو کاٹ ڈالا ۔ الغرف ایک قسم کا پودا جس سے چمڑے کو دباغت دی جاتی ہے ) غرفت الابل اونٹ غرف کھا کر بیمار ہوگئے ۔ الغرفۃ بلا خانہ ( جمع غرف وغرفات قرآن میں ) جنت کے منازل اور درجات کو الغرف کہا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان/ 75] ان صفات کے لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے ۔ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت/ 58] ان کو ہم بہشت کے اونچے اونچے محلوں میں جگہ دیں گے ۔ وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ/ 37] اور وہ خاطر جمع سے بالا خانوں میں بیٹھے ہوں گے ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو حضرات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے تو ہم ان کو جنت کے بالاخانوں میں جگہ دیں گے جن کے محلات اور درختوں کے نیچے سے دودھ، شہد، شراب اور پانی کی نہریں بہتی ہوں گی وہ اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے نیک کام کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّءَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا) ” اے میرے بندو ! اگر تم نے میرے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالی ہے تو میرے اس وعدے پر بھی پختہ یقین رکھو کہ میں نے تمہارے لیے جنت اور اس کی بیشمار نعمتیں تیار کر رکھی ہیں۔ تمہارے اعمال کے بدلے میں تم لوگوں کو جنت کے بالا خانوں میں جگہ دی جائے گی ‘ جہاں تم رنگا رنگ کی نعمتوں کے درمیان عیش کی زندگی بسر کرو گے۔ جنت کے بالاخانوں کا ذکر سورة الفرقان کی اس آیت میں بھی ہوا ہے : (اُولٰٓءِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا ) ” یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر کی جزا میں بالا خانے ملیں گے ‘ ان کا استقبال کیا جائے گا اس میں دعاؤں اور سلام کے ساتھ ۔ “ (تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ ) ” اس کے بعد چھٹی ہدایت :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

96 That is, "Even if you remained deprived of all the worldly blessings because of your faith and righteousness and ended up as a total failure from the worldly point of view, you should rest assured that you will be compensated for it; and not only compensated but rewarded excellently."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 96 یعنی اگر ایمان اور نیکی کے راستہ پر چل کر بالفرض تم دنیا کی ساری نعمتوں سے محروم بھی رہ گئے اور دنیوی نقطہ نظر سے سراسر ناکام بھی مرے تو یقین رکھو کہ اس کی تلافی بہرحال ہوگی اور نری تلافی ہی نہ ہوگی بلکہ بہترین اجر نصیب ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:58) لنبوئنھم۔ لام تاکید کا۔ نبوئن مضارع تاکید بانون ثقیلہ جمع متکلم بوأ یبوا تبونہ (باب تفعیل) بوء مادہ۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ۔ ہم ان کو ضرور جگہ دیں گے۔ ہم ان کو ضرور ٹھہرائیں گے۔ ہم ان کو ضرور اتاریں گے۔ البواء کسی جگہ کے اجزاء کا مساوی۔ ہموار۔ (اور سازگار و موافق) ہونے کے ہیں۔ تبوا (باب تفعل) المکان۔ کسی جگہ اقامت اختیار کرنا۔ جیسے نتبوا من الجنۃ حیث نشاء (39:74) ہم بہشت میں جہاں چاہیں رہیں۔ الباء ۃ۔ البیئۃ ۔ المبوأ گھر، مکان۔ سرائے۔ غرفا۔ بالاخانے۔ اونچے محل۔ منصوب بوجہ مفعول ثانی نبوئنھم کا۔ مفعول اول ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ ہم ان کو بہشت میں بالاخانوں پر جگہ دیں گے۔ تجری من تحتھا الانھر : غرف کی صفت۔ نعم۔ کلمہ مدح ہے۔ نحویوں کے نزدیک نعم فعل ہے لیکن قرآن مجید میں بطور فعل نہیں آیا۔ بمعنی بہت اچھا ۔ بہت خوب۔ عمدہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم ال قرآن ربط کلام : موت کا معنٰی کلیتاً ملیا میٹ ہونا نہیں یہ تو ” اللہ “ کے حضور پیش ہونے کا ذریعہ ہے۔ وہاں نیک لوگوں کو بڑے، بڑے انعامات سے نوازا جائے گا۔ موت ہر کسی کو آنی ہے۔ لیکن جو اپنے ایمان کی خاطر کسی چیز کو خاطر میں نہ لایا اور صالح عمل کرتا رہا، اللہ تعالیٰ اسے ضرور، ضرور جنت کے محلاّت میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہو نگی۔ جنتّی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان کے لیے بہترین اجر ہوگا کیونکہ وہ دنیا کے نقصانات اور ہر قسم کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کرتے رہے۔ صبر کا معنٰی تکلیف کے وقت حوصلہ کرنا اور مستقل مزاجی کے ساتھ حق بات پر قائم رہنا ہے۔ توکل کا معنٰی ہے کہ مشکل ترین حالات میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی مدد پر بھروسہ کیا جائے۔ جنت کی ایک جھلک : (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے قیمتی ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جنم دھرتی میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ “ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف آتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ مسائل ١۔ سچا ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت عنایت فرمائے گا۔ ٢۔ نیک لوگ مشکل کے وقت صبر اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن صبر کا حکم اور اجر : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٢۔ صبر اہم کاموں میں سے اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے۔ (الزمر : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد اہل ایمان کے اجر وثواب کا تذکرہ فرمایا : (وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) (الآیۃ) (اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ضرور ضرور ہم انہیں جنت کے بالا خانوں میں ٹھکانہ دیں گے، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور اچھا اجر ہے عمل کرنے والوں کا) اتنی بڑی جنت کا چھوٹا سا گھر اور وطن مالوف چھوڑنے کے عوض مل جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ یہ ہجرت کرنے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ جو لوگ توحید پر ایمان لائے اور توحید کی خاطر تکلیفیں اٹھائیں، اپنی جائیدادیں اور مکان چھوڑے آخرت میں ہم انہیں شاندار بالا خانے عطا کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ الذین صبروا الخ یہ ان ایمان والوں کا اجر ہے جنہوں نے اپنی عملی زندگی میں توحید کا نمونہ پیش کیا اور دین حق کی خاطر مصائب برداشت کیے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد رکھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58۔ آگے نیک اعمال پر اجر مذکور ہے ارشاد ہوتا ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے اور نیک کام کرتے رہے تو ہم ان کو یقینا جنت کے ایسے بالا خانوں میں جگہ دیں گے جن کے پائیں اور نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور وہ ان بالا خانوں میں ہمیشہ رہیں گے کیا خوب اجر اور صلہ ہے عمل کرنے والوں کا۔