Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 61

سورة العنكبوت

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۶۱﴾

If you asked them, "Who created the heavens and earth and subjected the sun and the moon?" they would surely say, " Allah ." Then how are they deluded?

اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ زمین و آسمان کا خالق اور سورج چاند کو کام میں لگانے والا کون ہے؟ تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پھر کدھر الٹے جا رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Evidences of Tawhid Allah says: وَلَيِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُوْفَكُونَ اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

توحید ربویت توحید الوہیت اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ معبود برحق صرف وہی ہے ۔ خود مشرکین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا سورج کو مسخر کرنے والا دن رات کو پے درپے لانے والا خالق رازق موت وحیات پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ غنا کے لائق کون ہے اور فقر کے لائق کون ہے؟ اپنے بندوں کی مصلحتیں اس کو پوری طرح معلوم ہیں ۔ پس جبکہ مشرکین خود مانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے سب پر قابض صرف وہی ہے پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ اور اس کے سوا دوسروں پر توکل کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ ملک کا مالک وہ تنہا ہے تو عبادتوں کے لائق بھی وہ اکیلا ہے ۔ توحید ربوبیت کو مان کر پھر توحید الوہیت سے انحراف عجیب چیز ہے قرآن کریم میں توحید ربوبیت کے ساتھ ہی توحید الوہیت کا ذکر بکثرت سے اس لئے ہے کہ توحید ربویت کے قائل مشرکین مکہ تو تھے ہی انہیں قائل معقول کرکے پھر توحید الوہیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔ مشرکین حج وعمرے میں لبیک پکارتے ہوئے بھی اللہ کے لاشریک ہونے کا اقرار کرتے تھے لبیک لاشریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وماملک یعنی یا اللہ ہم حاضر ہوئے تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسے شریک کہ جن کا مالک اور جن کے ملک کا مالک بھی توہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے ؟ تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انھیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے 612 یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] یہ خطاب صرف مہاجرین کو ہی نہیں بلکہ اس خطاب میں سب مشترک ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان اور سورج اور چاند، سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ ہے۔ اور انسان کی تمام ضروریات زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھیں ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کرکے جائیں گے۔ یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہوگا اور اللہ تمہیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے لہذا اس پر توکل کرو۔ اور اس خطاب کا روئے سخن مشرکین مکہ کی طرف سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہاری زندگی اور زندگی کا بقا کا سارا سامان تو اللہ نے مہیا کیا ہے۔ پھر تم اپنے معبودوں کو اللہ کے شریک اور مدمقابل کیسے ٹھہراتے ہو ؟ یہ کہاں سے تمہیں عقل کا پھیر لگ جاتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : یہاں سے کلام کا رخ پھر اہل مکہ کی طرف ہوگیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے معبود واحد ہونے کی دلیل کے طور پر مشرکین مکہ کے اس اعتراف کا ذکر ہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ چناچہ فرمایا، اے رسول ! یا اے مخاطب ! اگر تو ان مشرکین سے پوچھے کہ وہ کون ہے جس نے یہ سب آسمان پیدا کیے اور یہ زمین پیدا کی ؟ اور وہ کون ہے جس نے تمہارے فائدے کے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ؟ تو یقیناً وہ کسی تردّد کے بغیر کہیں گے کہ وہ ” اللہ “ ہے۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا آج تک کسی نے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ میں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اور میں نے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہے۔ اس لیے کتنا بڑے سے بڑا مشرک ہو، اسے یہ حقیقت ماننے کے بغیر چارہ نہیں۔ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ : یہ ان کی الٹی سوچ پر اور اپنے ہی قول کے خلاف عمل پر تعجب کا اظہار ہے۔ یعنی جب تم مانتے ہو کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو پیدا کرنے والا اور سورج و چاند کو مسخر کرنے والا ہے، تو عبادت میں کسی اور کو کیوں شریک کرتے ہو اور کسی اور پر بھروسا کیوں کرتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنے اکیلے رب اور مالک ہونے کو اپنے اکیلا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے، کیوں کہ مشرکین اس کا اعتراف کرتے تھے۔ 3 بعض مفسرین نے پچھلی آیت کے ساتھ اس آیت کی مناسبت یہ بیان کی ہے کہ اس آیت کے مخاطب فکر معاش کی وجہ سے ہجرت میں تردّد کرنے والے حضرات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین و آسمان، سورج اور چاند سب کو پیدا کرنے والا اور انھیں اپنے اپنے کام پر لگانے والا اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کی تمام ضروریات زندگی اسی نظام سے وابستہ ہیں۔ انھی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھانے پینے کی اور ذریعہ معاش کی ہے۔ تو مسلمان جہاں بھی ہجرت کر کے جائیں گے یہ سارا نظام وہاں بھی موجود ہوگا اور اللہ عزوجل انھیں وہاں بھی ایسے ہی روزی مہیا کرے گا جیسے یہاں کر رہا ہے، تو یہ لوگ کہاں بہکائے جارہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After stating the real source of sustenance for all, that is the bounty of Allah Ta’ ala, it is said that if you ask the infidels as to who has created the earth and the skies, or who controls the movement of the sun and the moon, or who brings in the rain, and who makes the vegetation grow; then even they will admit that it is all controlled and done by One entity, that is Allah Ta’ ala. In the next sentence it is advised to ask them as to why do they then worship any other than Allah and regard it as their mentor. From the next verse وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ (And if you ask them as to who has created the heavens and the earth - 29:61) until the end of the ruku` this subject continues. In short, the second impediment in the way of hijrah is one&s worry for sustenance, but that too is based on wrong assumptions. Provision of sustenance is not in the hands of its resources, but it is a direct gift of Allah Ta’ ala. It was He who had provided the sustenance in the first place, and it is He who would provide it at the second place. Therefore, this second assumed apprehension should also not come in the way of 11-hijrah. When does Hijrah become obligatory? The meaning and definition of Hijrah and its blessings and auspiciousness has been detailed in Surah An-Nisa& under verses 97 to 100. The changes in religious laws in respect of Hijrah were described under verse 98 in Ma&ariful Qur&an on pages No. 552 V.2 to 558. One aspect of the subject was omitted there, which is being discussed below. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) migrated from Makkah under instructions from Allah Ta’ ala, and in turn instructed all the Muslims to do the same, provided they had the means, at that time, it was obligatory for all Muslims to migrate. No man or woman was exempt from this rule. The only exemption was given to those who did not have the means to migrate. At that time migration was not just compulsory but was also regarded as a sign of being Muslim. One who did not migrate, despite having the means for it, was not considered a Muslim, and was treated like an infidel. This point has been elaborated in Surah An-Nisa& verse 89 حَتَّىٰ يُهَاجِرُ‌وا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ (unless they migrate in the way of Allah - 4:89). In those days the position of hijrah was like professing the kalimah لا إله إلا الله). As one is accepted in Islam only after recitation of this kalimah (that is after testifying that he had accepted Islam as his faith), the same way it was regarded necessary to migrate to be a Muslim if one had the means. Similarly, as those were exempt from recitation of the kalimah who could not speak, those were also exempt from migration who did not have the means for it. This is also mentioned in verse 98 of Surah An-Nisa&إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ (Except the oppressed - 4:98). As for those who stayed on in Makkah, despite having the means to migrate, they were warned very strongly of jahannam in verse 97 of Surah An-Nisa& إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْ‌ضُ اللَّـهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُ‌وا فِيهَا فَأُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ (Those whom the angels take while they had wronged themselves, (to them) the angels said, |"What were you (involved) in?|" They said, |"We were oppressed in the earth.|" They said, |"Was not the earth of Allah wide enough that you might have sought refuge in it?|" As for such, their shelter is Jahannam. And it is an evil place to return. - 4:97). After the victory of Makkah, the obligatory command for hijrah was withdrawn, because Makkah itself turned into a house of Islam. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) issued the following order: لَا ھَجرَۃَ بَعدَ الفَتحِ that is, after the victory of Makkah there is no need to migrate from there. The Divine command to migrate from Makkah and later its withdrawal is established from categorical statements of the Qur&an and Sunnah. The religious jurists have deduced the following rulings from this incident: Ruling If someone is not free to hold on to Islam in a city or in a country, and is constrained to act against its teachings or follow the infidel rites, then it becomes obligatory on him to migrate to a place or country where he can follow and practice rites and teachings of Islam, provided he has the means to do so. However, if one does not have the means to travel or there is no place available to him where he could practice the religious obligations, then he is &excused& in the religious term. Ruling If there is freedom of action to follow one&s religion in a non-Muslim country, migration from there is still preferable, though not compulsory or obligatory. For undertaking migration it is not necessary that the country is of non-Muslims, rather it becomes obligatory from a country where the commandments of Allah are flouted openly, no matter even if it is called Islamic on the basis of its Muslim rulers. Hafiz Ibn ajar in Fath al-Bari has adopted this ruling, and it is not in conflict with the principles of Hanafiyyah. A narration quoted in Musnad of Ahmad on the authority of Sayyidna Abu Yahya Maula-Az Zubair Ibn Al--` Awwam also endorses this view. The hadith narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اَلبِلَاد بِلَادُ اللہِ وَالعِبَادُ عِبَادُ اللہِ حَیثُمَا اَصَبتَ خَیراً فَاَقِم۔ ` All cities belong to Allah, and all the people are His servants. Therefore, wherever you find goodness you live there&. Ibn Jarir has reported with his own chain of narrators that Sayyidna Said Ibn Jubair (رح) had said ` leave that city where sins and obscenity are common&. And the Imam of Tafsir, ` Ata& (رض) had said that ` run away from the city where you are forced to commit sins&.

اس کے بعد کی آیات میں رزق کا اصلی ذریعہ بتلایا ہے جو حق تعالیٰ کی عطاء ہے اور فرمایا ہے کہ خود ان منکروں کافروں سے سوال کرو کہ آسمان زمین کس نے پیدا کئے ؟ اور شمس و قمر کس کے تابع فرمان چل رہے ہیں ؟ بارش کون برساتا ہے ؟ پھر اس بارش کے ذریعہ زمین سے نباتات کون اگاتا ہے ؟ تو مشرکین بھی اس کا اقرار کریں گے کہ یہ سب کام ایک ذات حق تعالیٰ ہی کا ہے۔ تو ان سے کہئے کہ پھر تم اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا پاٹ اور ان کو اپنا کار ساز کیسے سمجھتے ہو۔ اگلی آیات وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ سے آخر رکوع تک اسی کا بیان ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہجرت سے روکنے والی دوسری فکر معاش کی ہے، وہ بھی انسان کی بھول ہے۔ معاش کا مہیا کرنا اس کے یا اس کے جمع کردہ اسباب و سامان کے قبضہ میں نہیں، وہ بلاواسطہ حق تعالیٰ کی عطاء ہے۔ اسی نے اس وطن میں یہ سامان جمع فرما دیئے تھے وہ دوسری جگہ بھی سامان معاش دے سکتا ہے اور بغیر کسی سامان کے بھی ضروریات معاش فراہم کرسکتا ہے۔ اس لئے یہ دوسرا خطرہ بھی ہجرت سے مانع نہ ہونا چاہئے۔ ہجرت کب فرض یا واجب ہوتی ہے : ہجرت کے معنی اور تعریف اور اس کے فضائل و برکات سورة نساء کی آیت نمبر 97 تا 100 میں اور شرعی احکام میں تبدیلی اسی سورت کی آیت نمبر 89 کے تحت میں معارف القرآن کی جلد دوم صفحہ 525 تا 529 اور کچھ صفحہ 510 میں بیان ہوچکے ہیں ایک مضمون وہاں بیان کرنے سے رہ گیا تھا وہ یہاں لکھا جاتا ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بامر الہی مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی اور سب مسلمانوں کو بشرط قدرت ہجرت کا حکم فرمایا اس وقت مکہ معظمہ سے ہجرت کرنا فرض عین تھا جس سے کوئی مرد و عورت مستثنی نہیں تھا، بجز ان لوگوں کے جو ہجرت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اور اس زمانے میں ہجرت صرف فرض ہی نہیں، بلکہ مسلمان ہونے کی علامت اور شرط بھی سمجھی جاتی تھی، جو باوجود قدرت کے ہجرت نہ کرے، اس کو مسلمان نہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا تھا جو کفار کے ساتھ ہوتا ہے، جس کا بیان سورة نساء کی آیت نمبر 89 میں ہے، حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اس وقت ہجرت کا مقام اسلام میں وہ تھا جو کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ کا ہے، کہ یہ شہادت خود بھی فرض ہے اور مسلمان ہونے کی شرط اور علامت بھی کہ جو شخص باوجود قدرت کے زبان سے ایمان کا اقرار اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دے اگرچہ دل میں یقین اور تصدیق رکھتا ہو وہ مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ عاجز جس کو اس کلمہ کے بولنے پر قدرت نہ ہو وہ مستثنی ہے اسی طرح جن لوگوں کو ہجرت پر قدرت نہ تھی وہ مستثنی سمجھے گئے جس کا ذکر سورة نساء کی آیت نمبر 98 اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ میں آیا ہے اور جو لوگ باوجود ہجرت پر قادر ہونے کے مکہ میں مقیم رہے، ان کے لئے جہنم کی سخت و عید آیت نمبر 97 اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ (الی) ۭفَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ میں مذکور ہے۔ جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو ہجرت کا یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا کیونکہ اس وقت مکہ خود دار السلام بن گیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت حکم جاری فرما دیا۔ لا ھجرة بعد الفتح، یعنی فتح مکہ کے بعد مکہ سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں، مکہ مکرمہ سے ہجرت کا فرض ہونا پھر منسوخ ہونا قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت ہوگیا، جو ایک واقعہ جزئیہ تھا، فقہاء امت نے اس واقعہ سے یہ مسائل مستنبط کئے :۔ مسئلہ : جس شہر یا ملک میں انسان کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزدای نہ ہو، وہ کفر و شرک یا احکام شرعیہ کی خلاف ورزی پر مجبور ہو وہاں سے ہجرت کرکے کسی دوسرے شہر یا ملک میں جہاں دین پر عمل کی آزادی ہو چلا جانا بشرطیکہ قدرت ہو واجب ہے، البتہ جس کو سفر پر قدرت نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو جہاں آزادی سے دین پر عمل کرسکے وہ شرعاً معذور ہے۔ مسئلہ : جس دار الکفر میں عام احکام دینیہ پر عمل کرنے کی آزادی ہو وہاں سے ہجرت فرض و واجب تو نہیں، مگر مستحب بہرحال ہے اور اس میں دار الکفر ہونا بھی ضروری نہیں، دار الفسق جہاں احکام الہیہ کی خلاف ورزی اعلاناً ہوتی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ اگرچہ وہاں کے حکمران کے مسلمان ہونے کی بناء پر اس کو دار الاسلام کہا جاتا ہو۔ یہ تفصیل حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تحریر فرمائی ہے اور قواعد حنفیہ میں کوئی چیز اس کے منافی نہیں اور مسند احمد کی ایک روایت جو حضرت ابو یحییٰ مولی زبیر ابن عوام سے منقول ہے وہ بھی اس پر شاہد ہے، حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : البلاد بلاد اللہ والعباد عباد اللہ حیثما اصبت خیرا فاقم (ابن کثیر) |" یعنی سب شہر اللہ کے شہر ہیں اور سب بندے اللہ کے بندے ہیں، اس لئے جس جگہ تمہارے لئے اسباب خیر جمع ہوں وہاں اقامت کرو۔ |" اور ابن جریر نے اپنی مسند کے ساتھ حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شہر میں معاصی اور فواحش عام ہوں اس کو چھوڑ دو اور امام تفسیر حضرت عطاء نے فرمایا کہ جب تمہیں کسی شہر میں معاصی کے لئے مجبور کیا جائے تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہو۔ (ابن جریر طبری فی التفسیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۝ ٠ۚ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝ ٦١ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر آپ ان کفار مکہ سے دریافت کریں کہ بھلا وہ کون ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کیے اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے تو کفار مکہ جواب میں یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے اور اسی نے ان کو کام میں لگا رکھا ہے پھر کیوں اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

100 From here the discourse is again directed to the disbelievers of Makkah.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 100 یہاں سے پھر کلام کا رخ کفار مکہ کی طرف مڑتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: یعنی اس حقیقت کا اعتراف کرنے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ وہ اسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے، کسی اور کی نہیں، لیکن اس کے بعد انہیں کیا ہوجاتا ہے کہ اس منطقی تقاضے پر عمل کرنے کے بجائے شرک شروع کردیتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦١ تا ٦٩۔ اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں اپنا معبود ہونا بیان فرماتا ہے کہ اس کے سوائے کوئی لائق بندگی کے نہیں ہے کس واسطے کہ مشرک لوگ اگرچہ خدا کے سوا اوروں کو بھی پوجتے ہیں لیکن آسمان و زمین چاند سورج رات دن کا پیدا کرنے والا خدا ہی کو جانتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ بندوں کا روزی دینے والا اور مارنے والا بھی وہی اللہ ہے اور وہی کسی کو امیر اور کسی کو فقیر جیسا مناسب دیکھتا ہے اور جس کا جس کا مستحق جانتا ہے ویسا ہی کرتا ہے وہی سب کا خالق ہے یہ سب کچھ کہہ کر پھر بتوں کو اپنا معبود جانتے ہیں کی زندگی پر رکھا تھا اس لیے آگے کی آیت میں اللہ تعالیٰ دنیا کی حقارت اور آخرت کی تعریف بیان فرماتا ہے کہ دنیا کی زندگی نا پائیدار ہے جس کو بقا نہیں اور آخرت کا جینا ہمیشہ کا جینا ہے اگر یہ مشرک اس بات کو سمجھتے تو باقی کو فانی پر اختیار نہ کرتے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشرک لوگ بےبسی کی حالت میں صرف خدا ہی کو پکارتے ہیں ہر وقت اس کو نہیں پکارتے یہ ان کی نادانی ہے سورة نبی اسرائیل میں فرمایا واذا مسکم فی البحر ضل من تدعون الا ایاہ فلما نجا کم الی البر اعرضتم جس مطلب یہ ہے کہ جب تم کو دریا میں تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے بتوں کو بھول جاتے ہو اور ڈوبنے سے بچانے کی التجا خالص اللہ سے کرتے ہو پھر جب نجات دی تم کو خدا نے دریا سے طرف جنگل کی تو بچ گئے یہاں فرمایا کہ جب نجات دی تو لگے شرک کرنے دنیا کی زندگی کو لہو لعب اس واسطے فرمایا کہ جس طرح بچے کسی چیز سے دل بہلاتے ہیں اور کھیلتے ہیں اور پھر تتر بتر ہوجاتے ہیں ایسے ہی دنیا فانی ہے اور آخرت میں حیات دائمی ہے جس میں موت نہیں اور نہ کسی طرح کا غم اور بیماری ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ سمجھ رکھتے یا کچھ علم ان کو ہوتا تو دار فانیہ کو آخرت باقیہ پر پسند نہ کرتے ان کو ایمان سے روکنے والی دنیا کی زندگی ہے جب ان کو زندگی کی امید نہیں رہتی اور ڈوب جانے کا خوف ہوتا ہے تو فطرت کی طرف پھرتے ہیں سچی نیت سے اکیلے اللہ ہی کو پکارتے ہیں بتوں کو چھوڑ دیتے ہیں جانتے ہیں کہ اس شدت کے وقت اللہ کے سوا کوئی مصیبت کو دور کرنے والا نہیں جب وہ پروردگار ان کو ڈوبنے سے بچا دیتا ہے اور خشک زمین میں ان کو لے آتا ہے اور وہ بےخوف ہوجاتے ہیں تو اس وقت بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے لگتے ہیں اور غیر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں فسوف یعلمون کا مطلب یہ ہے قریب معلوم کریں گے اپنے اس کام کے نتیجہ کو اب آگے اللہ تعالیٰ قریش پر احسان جتلاتا ہے کہ ان کو حرم میں اس طرح آباد کیا کہ جو اس میں آیا اس کو امن ملا مکہ والے امن تھے اور سارے ملک میں فساد تھا ایک کو ایک لوٹتا قتل کرتا اس نعمت کا شکریہ ان لوگوں نے یہ کیا کہ خدا کے ساتھ اوروں کو شریک ٹھہرایا اور بتوں کی بندگی کی اللہ کے احسان کے بدلے میں ناشکری کی ان کو چاہئے تھا کہ خالص اللہ کی بندگی کرتے اور کسی کو اس کا شریک نہ کرتے اور اس کے رسول کی تعظیم کرتے انہوں نے بجائے تعظیم کے اللہ کے رسول کو اپنے شہر سے نکال دیا خدا تعالیٰ نے بھی اپنی نعمتیں ان سے لے لیں اور بدر میں ان کو قتل کیا پھر غلبہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو ہوگیا مکہ فتح ہوا اور ان کو اللہ نے ذلیل و خوار کیا پھر فرمایا ایسے شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر یہ جھوٹ باندھے کہ اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے اور اس پر کچھ وحق نہیں ہوئی یا جھٹلاوے دین حق کو جب اس کے پاس آوے کیا دوزخ میں منکروں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے یہ بطور دھمکی اور ڈرانے کے فرمایا جب اللہ تعالیٰ مشرکوں کا احوال فرما چکا تو اب ان کے مقابل میں اپنے نیک بندوں کا حال بیان کرتا ہے کہ جن لوگوں نے ہماری رضامندی حاصل کرنے کے لیے محنت کی ان کو ہم اپنی ہی سوجھا دیں گے مطلب یہ ہے کہ ان کو نیک راستوں کی طرف زیادہ ہدایت کریں گے اور توفیق اچھی عطا کریں گے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں فرمایا کہ جنہوں نے ہماری طاعت میں کوشش کی ہم انکو اپنے ثواب کی راہیں بتلاویں گے وان اللہ لمع المحسنین اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے دنیا میں مدد سے اور آخرت میں مغفرت سے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو وہ کبھی ذلیل و خوار نہ ہوگا۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ شیطان نے پہلے تو لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ وہ اپنے نیک بڑے بوڑھوں کی مورتیں فقط یادگاری کے لیے بناویں اور پھر کئی پشتوں کے بعد ان مورتوں کی پوجا کار واج لوگوں میں اس اعتقاد سے پھیلا دیا کہ جو کوئی ان نیک لوگوں کو مورتوں کو پوجے گا یہ نیک لوگ اللہ کے روبرو اس کی سفارش کریں گے اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر لوگوں کے دل میں شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالتا کہ یہ لوگ اپنے ہات سے پتھر کی مورتیں بنادیں اور ان مورتوں کو یا اپنے نیک بڑے بوڑھوں کو تمام جہان کا خالق اور رازق سمجھیں تو وہ ملعون شرک کے پھیلانے میں کبھی کامیاب نہ ہوتا کیونکہ یہ وسوسہ ایسا کھلم کھلا غلط تھا کہ اس کو ہرگز کوئی نہ مانتا اس لیے اس ملعون نے شرک کے پھیلانے کا وسوسہ اس ہیر پھیر سے لوگوں کے دل میں ڈالا جس کا ذکر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث میں ہے اب اس ہیر پھیر کے وسوسہ کے بعد بھی یہ اعتبقاد مشرکوں کے دلوں میں فرما کر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو یوں قائل کیا ہے کہ جو تمام جہاں کا خالق و رازق ہے تمام جہان کا معبود بھی وہی وحدہ لاشریک ہے اب رہا مشرکوں کا یہ اعتقاد کہ جو کوئی ان نیک لوگوں کو مورتوں کو پوجے گا تو یہ نیک لوگ اللہ کے روبرو اس کی سفارش کریں گے اس کا جواب سورة یونس میں گزر چکا ہے حاصل یہ ہے کہ کہ ان نیک لوگوں نے اپنے جیتے جی کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ ان کے مرنے کے بعد لوگ ان کی مورتوں کی پوجا کیا کریں اور مرنے کے بعد دنیا کے احوال کی ان نیک لوگوں کو کچھ خیر نہیں اس لیے قیامت کے دن وہ نیک لوگ ان مشرکوں سے اپنی بڑی بیزاری ظاہر کریں گے اور اللہ تعالیٰ کو اپنی بیخبر ی اور برائت کا گواہ قرار دیویں گے۔ سورة الا نعام میں گزر چکا ہے کہ مسیلمہ کذاب کہتا تھا کہ اس پر بھی آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور مشرکین مکہ قرآن کے وحی ہونے کی منکر تھے ان ہی دونوں باتوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ جو ایسے قادر مطلق کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کر رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (61 تا 64 ) ۔ سالت (تو نے پوچھا) ۔ سخر (اس نے تابع کردیا۔ مسخر کردیا) ۔ انی (کہاں ؟ ) ۔ یوفکون (الٹے پھرے جاتے ہیں) ۔ لھو (کھیل۔ کود) ۔ لعب (کھیلنا کودنا۔ اچھلنا) ۔ الحیوان (زندگی) ۔ تشریح : آیت نمبر (61 تا 64 ) ۔ ” قرآن کریم کے اولین مخاطب مکہ مکرمہ کے لوگ تھے جو اللہ کو اور بیت اللہ کو مانتے تھے مگر جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ تم ایک اللہ کی عبادت و بند گی چھوڑ کر ان تین سو ساٹھ بتوں سے امیدیں کیوں باندھتے ہو ؟ اور ان سے کیوں مانگتے ہو ؟ تو وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ ہی کو ما نتے ہیں لیکن یہ بت اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ اگر یہ ہماری سفارش نہ کریں تو اللہ بھی ہماری نہیں سے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا۔ چاند اور سورج کو انسانوں کی خدمت کے لئے کس نے مسخر اور تابع کیا تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان سے کہئے کہ پھر تم اللہ کے سوا کدھر پلٹ کر جارہے ہو ؟ کیا یہ پتھر کے بت تمہارے رازق ہیں یہ تمہیں رزق دیتے ہیں یا وہ اللہ جو جس کے لئے جتنا چاہے رزق میں کشادگی پیدا کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کے رزق کو محدود کردیتا ہے وہی تمہارا رازق ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ آپ ان سے پوچھئے کہ آسمان سے وہ پانی کون برساتا ہے اور وہی ایک ایسی زمین کو دوبارہ سر سبزو شاداب کردیتا ہے جو بارش نہ ہونے سے خشک اور بنجر نظر آتی تھی۔ فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ یقینا وہ ایک اللہ ہی ساری تعریفوں کا مستحق ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، چاند اور سورج کر گردش عطا کی، بارش کو برسایا اور زمین سے طرح طرح کے نباتات کو اگایا۔ لیکن اکثر لوگ وہ ہیں جو عقل و فکر سے کام نہیں لیتے اور دنیا کی بےحققیت زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ وہ دنیا کی محبت، مشغولیت اور انہماک میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ جیسے یہی سب کچھ ہو حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ دنیا کی زندگی محض دل کا بہلاوا اور کھیل کود سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اور اس کی لذتیں وقتی لذتیں ہیں جو ہمیشہ نہیں رہیں گی لیکن صل آخرت کی زندگی ہے جہاں کی راحتیں بھ ہمیشہ کے لئے ہوں گی۔ کاش وہ اس حقیقت پر کبھی غور و فکر کرلیتے۔ اگر غور کیا جائے تو آج ہم میں سے بھی بہت سے لوگ وہ ہیں جو کفار مکہ سے ملتے جلتے عقیدے اور ذہن و فکر رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک کسی بزرگ گا وسیلہ نہ لیا جائے تو اس وقت تک اللہ ہماری بات نہیں سنتا حالانکہ اللہ تو ہر انسان کے دل کی پکار کو بھی سنتا ہے اس کو جہاں اور جیسے پکارا جائے وہ اس کی پکار کو سن کر اس کی فریاد کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدے کی اس کمزوری سے محفوظ فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی توحید فی الالوہیة کا جو مبنی ہے یعنی توحید فی التکوین وہ تو ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم ہے، پھر جب توحید فی التکوین کو مانتے ہیں تو پھر توحید فی الاولوہیة کے بارے میں کدھر الٹے جارہے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے ہجرت کرنے والو ! اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو مشرکین سے پوچھ لو کہ رزق دینے والا کون ہے ؟ اس کے ساتھ ہی مشرکین سے مزید سوال۔ قرآن مجید لوگوں کو صرف دلائل کی بنیاد پر عقیدہ توحید اور حقائق تسلیم کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ وہ لوگوں کا ضمیر بیدار کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتا ہے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند و سورج کو کس نے تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے ؟ قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے انہی سے سوال کیا گیا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانے والوں ! بتاؤ کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور شمس و قمر کو تمہارے لیے کس نے مسخر کر رکھا ہے ؟ توحید انسان کی فطرت کی آواز ہے اور یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اس لیے مشرکین مکہ بےساختہ جواب دیتے کہ انہیں صرف ایک ” اللہ “ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اس اقرار پر انہیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ پھر ایک اللہ کو چھوڑ کر کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ وہ تمہیں کھلاتا اور پلاتا بھی ہے۔ جس طرح زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو کسی اور نے پیدا نہیں کیا اسی طرح اللہ کے سوا تمہیں کوئی رزق دینے والا نہیں۔ نہ صرف کوئی رزق دینے والا نہیں بلکہ تمہارے رزق میں کوئی ایک دانے کے برابر بھی کمی وبیشی نہیں کرسکتا۔” اللہ “ ہی اپنی حکمت کے تحت اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود مشرک اپنے رب کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نزول وحی سے پہلے نبی اکرم (رض) اسفل بلدح مقام کی نچلی جانب زید بن عمرو بن نفیل سے ملے۔ نبی کریم (رض) کو دستر خوان پر کھانا پیش کیا گیا۔ آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اور زید بن عمرو نے بھی کہا کہ میں اس چیزکو نہیں کھاؤں گا جس کو تم اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو اور نہ ہی وہ چیز کھاؤنگا جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو۔ زید بن عمرو کے الفاظ وَأَنَّ زَیْدَ بْنَ عَمْرٍو کَانَ یَعِیبُ عَلَی قُرَیْشٍ ذَبَاءِحَہُمْ ، وَیَقُول الشَّاۃُ خَلَقَہَا اللَّہُ ، وَأَنْزَلَ لَہَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ ، وَأَنْبَتَ لَہَا مِنَ الأَرْضِ ، ثُمَّ تَذْبَحُونَہَا عَلَی غَیْرِ اسْمِ اللَّہِ إِنْکَارًا لِذَلِکَ وَإِعْظَامًا لَہُ ) [ رواہ البخاری : باب حَدِیثُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ ] زید بن عمروقریش کے ذبیحوں پر تعجب کرتے اور کہتے کہ بکری کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اسی نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے نباتات اگائی ہیں۔ پھر تم اس کا انکار اور غیر اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے ان چیزوں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہو ؟ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور شمس وقمر کو مسخر فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا رزق زیادہ اور کم کرنے والا ہے۔ ٣۔ ” اللہ “ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ٤۔ حقائق تسلیم کرنے کے باوجود مشرک اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ ہی نے زمین و آسمانوں اور شمس وقمر کو پیدا فرمایا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اند ھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٩٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ (نوح : ١٦ ) ٤۔ یقیناً اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، فرمائیں پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت : ٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولئن سالتھم من خلق السموت والارض ۔۔۔۔۔۔۔۔ جھنم مثوی للکفرین (61 – 67) اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا۔ اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے ، کاش یہ لوگ جانتے۔ جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرکے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ اللہ کی دی ہوئی نجات پر ان کا کفران نعمت کریں۔ اور (حیات دنیا کے) مزے لوٹیں ۔ اچھا ، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا۔ کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ ان کے گردو پیش لوگ اچک لیے جاتے ہیں ؟ کیا پھر بھی یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا کفران کرتے ہیں ؟ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آچکا ہو ؟ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم ہی نہیں ہے ؟ “ ان آیات میں نزول اسلام سے قبل عرب عقائد کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے اصل عقائد توحید پر مبنی تھے۔ بعد کے ادوار میں ان کے عقائد اور نظریات کے اندر انحراف پیدا ہوگیا۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے کیونکہ یہ اولاد اسماعیل تھے۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں اس لیے وہ پنے عقائد کو حضرت اسماعیل و ابراہیم (علیہم السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کے دین کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ یہ دین جزیرۃ العرب کے آس پاس موجود تھے کیونکہ یہ لوگ دین ابراہیم کو برتر سمجھتے ہوئے ، اس پر فخر کرتے تھے۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھ نہ سکتے تھے کہ ان کے عقائد کے اندر اصل دین کے مقابلے میں کس قدر انحراف آگیا ہے اور عملاً وہ مشرک ہوگئے ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کا خالق کون ہے ؟ اور شمس و قمر کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ آسمانوں سے پانی کون برساتا ہے ؟ مرونی کے بعد زمین میں روئیدگی کون لاتا ہے ؟ تو یہ لوگ صاف صاف اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب کام اللہ ہی کرنے والا ہے۔ لیکن ان کے باوجود وہ اپنے بتوں کو بھی پوجتے ہیں۔ جنوں کی عبادت بھی کرتے ہیں ، ملائکہ کی پرستش بھی کرتے ہیں ، اور ان سب کو عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ جبکہ تخلیق میں ان کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ یہ عجیب تناقص تھا۔ اس تضاد کی وجہ سے ان آیات میں اللہ ان کے اس طرز فکر پر تعجب کا اظہار فرماتے ہیں : فانی یوفکون (29: 61) ” پھر یہ کدھر سے دھوکہ کھا رہے ہو “۔ یعنی کس طرح تم حق سے پھر کر ان مغلوبہ عقائد میں پھنس گئے ہو۔ بل اکثرھم لا یعقلون (29: 63) ” ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں “۔ کیونکہ جس کی عقل سلیم ہو وہ ایسے عقائد اختیار نہیں کرتا۔ خالق سماوات وارض کے بارے میں سوال ، شمس و قمر کے مسخر کرنے والے کے بارے میں دریافت اور آسمانوں سے پانی نازل کرنے والے کے بارے میں سوال اور مدہ زمین کو سرسبز کرنے والے کے بارے میں سوال کے درمیان یہ بھی قرار دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو کسی کا رزق تنگ کردیتا ہے اور کسی کا کشادہ کردیتا ہے۔ یوں تمام آثار قدرت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ رازق بھی وہی ہے اور اللہ تمام مخلوقات کو جانتا ہے۔ اور سب کو رزق پہنچاتا ہے۔ ان اللہ بکل شیئ علیم (29: 62) ” یقینا اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے “۔ آسمانوں کی گردش کے ساتھ رزق واضح طور پر مربوط ہے۔ پانی ، زندگی اور روئیدگی بھی گردش افلاک سے مربوط ہے۔ اسی طرح رزق کی کشادگی اور تنگی بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تمام مظاہر ان آیات میں واضح طور پر دکھائے گئے ہیں۔ رزق پانی سے وجود میں آتا ہے۔ نہریں اور دریا بارش سے بہتے ہیں اور ان کی وجہ سے حیات و نبات قائم ہیں۔ یہ پانی زمین کے اندر بھی ذخیرہ ہوتا ہے اور اوپر بھی بہتا ہے اور اس کی وجہ سے بحروبر کا شکار پیدا ہوتا ہے۔ غرض تمام ارزاق پانیوں سے وابستہ ہیں۔ اس کائنات کے نوامیس فطرت کے مطابق پانی پیدا ہوتے ہیں اور شمس و قمر کے سب مظاہر شمس و قمر کی تسخیر کے نتیجے میں ، اور اگر یہ نوامیس فطرت ذدہ بھر بدل جائیں تو سطح زمین کا یہ منظر ہی یکلخت بدل جائے۔ پھر زمین کے اندر کے تمام ذخائر اور قدرت وسائل بھی اللہ کے جاری کردہ نوامیس زمان و مکان کے مطابق ہیں۔ زمین کی یہ تمام بوقلمونیاں شمس و قمر کی گردش کے نتیجے میں ہیں (فی ظلال پارہ 19 میں ہم نے تفصیلات دی ہیں) ۔ قرآن کریم اس عظیم کائنات اور اس کے مشاہدہ مناظر کو بطور حجت اور برہان پیش کرتا ہے۔ جو سچائی قرآن لے کر آیا ہے اس کا نکتہ تدبر یہ عظیم کائنات ہے۔ ایک متفکر اور سوچ رکھنے والا دل اس عظیم کائنات پر ضرور غور کرتا ہے۔ وہ اس کائنات کے عجائبات کو دیکھ کر زندہ و بیدار رہتا ہے ، دست قدرت کی صنعت کاریوں کو سمجھتا ہے۔ اس وسیع کائنات کے لیے جو نہایت ہی اٹل ناموس قدرت وضع کیا گیا ہے وہ اس کا شعور رکھتا ہے۔ وہ نہایت ہی ٹھنڈے دل اور نہایت ہی سنجیدگی سے اور نہایت ہی سہولت سے اس شعور کو پالیتا ہے۔ اسے بہت گہرے غور و فکر کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور جب بھی یہ زندہ اور بیدار دل اس کائنات کی عظیم آیات میں سے کوئی نشانی پالیتا ہے تو وہ اللہ کی حمدوثنا میں رطب اللسان ہوجاتا ہے۔ قل الحمدللہ ۔۔۔۔۔ لایعقلون (29: 63) ” کہو الحمدللہ ، مگر ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں “۔ زمین کے اوپر آثار حیات اور رزق کی تنگی اور کشادگی کے حوالے سے انسانوں کے سامنے اقدار حیات کا حساس ترازو رکھ دیا جاتا ہے کہ دیکھو دنیا کی یہ زندگی اپنی تمام بوقلمونیوں اور لہو ولعب کے باوجود ایک تحصیل تماشا ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید کے دلائل جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیر اللہ کو بھی شریک کرتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ ان لوگوں سے دریافت کریں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کیا اور انہیں ایک طریقہ خاص پر کس نے کام میں لگایا تو یہ لوگ اس کا یہی جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ کیا ہے، جب اقرار بھی ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہے تو پھر کہاں الٹے پاؤں جا رہے ہیں، یعنی توحید کو چھوڑ کر شرک کو کیوں اختیار کررہے ہیں ؟ خالقیت میں جس طرح اللہ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح صفت رزاقیت میں بھی کوئی شریک نہیں، وہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے رزق وسیع کردے یعنی رزق میں فراخی دیدے اور جس کے لیے چاہے رزق تنگ کردے، بہت سے لوگ بڑی بڑی محنتیں کرتے ہیں، مشقتیں اٹھاتے ہیں مگر ان کا رزق تنگ ہی رہتا ہے، اور بہت سے لوگ کچھ بھی نہیں کرتے انہیں بہت زیادہ وسعت کے ساتھ رزق ملتا ہے، اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ رزق سے زیادہ کسی کو کچھ نہیں ملتا۔ اس کے بعد سبب رزق کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر آپ ان سے سوال کریں کہ بتاؤ آسمان سے کس نے پانی اتارا ؟ پھر اس پانی کے ذریعہ کس نے زمین کو زندہ کردیا جبکہ زمین مرچکی تھی یعنی خشک ہونے کی وجہ سے کوئی چیز اگانے کے قابل نہ تھی، تو یہی جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی نے کیا ہے۔ (قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ ) (آپ فرما دیجیے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے) پیدا بھی اسی نے فرمایا اور نعمتیں بھی اس نے دیں رزق بھی وہی دیتا ہے زمین بھی وہی زندہ فرماتا ہے جب وہی فاعل مختار ہے، خالق ومالک ہے اور رزاق بھی وہی ہے تو پھر عبادت بھی صرف اسی کی کرنا لازمی ہے، یہ ان سب باتوں کا اقرار کرتے ہیں لیکن عقل سے کام نہیں لیتے، غور و فکر نہیں کرتے، تھوڑے سے ہی افراد ہیں جو سمجھ سے کام لیتے ہیں، اسی لیے فرمایا (بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ یہ دعوی توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ جب مشرکین خود تسلیم کرتے ہیں کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور یہ سارا نظام شمسی بھی اسی کے تصرف و اختیار میں ہے تو پھر کہاں ان کی عقلیں ماری گئیں کہ اللہ کے سوا اوروں کو کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61۔ آگے پھر شرک کی کمزوری اور توحید کا اثبات ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور اے پیغمبر اگر آپ ان کافروں سے دریافت کریں اور پوچھیں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان کو اور زمین کو پیدا کیا ہے اور جس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے تو وہ لوگ یہی جواب دیں گے کہ وہ اللہ ہے پھر یہ لوگ کدھر الٹے جا رہے ہیں ۔ یعنی تکوینی امور کا نام لیتے ہیں لیکن الوہیت کا اقرار نہیں کرتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اسباب رزق کے اسی نے بنائے سب جانتے ہیں پھر اس پر بھروسہ نہیں کرتے وہی پہنچا بھی دے گا مگر جتنا وہ چاہے نہ جتنا تم چاہو یہ آگے سمجھا دیا ۔ 12