Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 64

سورة العنكبوت

وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾

And this worldly life is not but diversion and amusement. And indeed, the home of the Hereafter - that is the [eternal] life, if only they knew.

اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے کاش! یہ جانتے ہوتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says: وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ لَهْوٌ وَلَعِبٌ ... And this life of the world is only an amusement and a play! Allah tells us how insignificant and transient this world is, and how it will soon end. All that it is, is amusement and play: ... وَإِنَّ الدَّارَ الاْإخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ... Verily, the home of the Hereafter -- that is the life indeed, means, the true everlasting life that will never end, but will continue forever and ever. ... لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ if they but knew. means, they would prefer that which will last over that which will pass away. Then Allah says that at times of calamity, the idolators call upon Him alone, with no partner or associate, so why do they not do that all the time!

جب عکرمہ طوفان میں گھر گئے دنیا کی حقارت وذلت اس کے زوال وفنا کا ذکر ہو رہا ہے کہ اسے کوئی دوام نہیں اس کا کوئی ثبات نہیں یہ تو صرف لہو ولعب ہے ۔ البتہ دار آخرت کی زندگی دوام وبقاکی زندگی ہے وہ زوال وفناسے قلت وذلت سے دورہے ۔ اگر انہیں علم ہوتا تو اس بقا والی چیز پر اس فانی چیز کو ترجیح نہ دیتے ۔ پھر فرمایا کہ مشرکین بےکسی اور بےبسی کے وقت تو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کو ہی پکارنے لگتے ہیں ۔ پھر مصیبت کے ہٹ جانے اور مشکل کے ٹل جانے کے بعد اس کے ساتھ دوسروں کا نام کیوں لیتے ہیں؟ جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67؀ ) 17- الإسراء:67 ) یعنی جب سمندر میں مشکل میں پھنستے ہیں اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہیں اور جب وہاں سے نجات پاکر خشکی میں آجاتے ہیں تو فورا ہی منہ پھیر لیتے ہیں ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ ابن ابی جہل یہاں سے بھاگ نکلا اور حبشہ جانے کے ارادے سے کشتی میں بیٹھ گیا اتفاقا سخت طوفان آیا اور کشتی ادھر ادھر ہونے لگی ۔ جتنے مشرکین کشتی میں تھے سب کہنے لگے یہ موقعہ صرف اللہ کو پکارنے کاہے اٹھو اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو اس وقت نجات اسی کے ہاتھ ہے ۔ یہ سنتے ہی عکرمہ نے کہا سنو اللہ کی قسم اگر سمندر کی اس بلا سے سوائے اللہ کے کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی کی مصیبتوں کا ٹالنے والا بھی وہی ہے ۔ اللہ میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر میں یہاں سے بچ گیا تو سیدھا جاکر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دونگا اور آپ کا کلمہ پڑھ لونگا ۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری خطاؤں سے درگذر فرمالیں گے اور مجھ پر رحم وکرم فرمائیں گے چنانچہ یہی ہوا بھی آیت ( لیکفروا ) اور ( لیتمتعوا ) میں لام جو ہے اسے لام عافیت کہتے ہیں اس لئے کہ انکا قصد دراصل یہ نہیں ہوتا اور فی الواقع ان کی طرف نظریں ڈالنے سے بات بھی یہی ہے ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے تو یہ لام تعلیل ہے ۔ اس کی پوری تقریر ہم آیت ( فَالْتَقَطَهٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ۭ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَجُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـــــِٕيْنَ Ď۝ ) 28- القصص:8 ) میں کرچکے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

641یعنی جس دنیا نے انھیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب وروز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔642اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔ 643کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بےپرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧] اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں سرے سے کوئی سنجیدگی اور حقیقت ہے ہی نہیں۔ اللہ کے فرمانبرداروں اور اسے آخرت مقابلہ میں حقیر سمجھنے والوں کے لئے اس دنیا کی۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے اور وہ اس زندگی سے فائدہ اٹھا کر آخرت کماتے ہیں۔ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا آخرت کے مقابلہ میں ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا کی محبت میں مستغرق رہتے اور اللہ اور آخرت کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ انھیں واقعی یہ دنیا ایک کھیل تماشا ہی معلوم ہوگی۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بازی گر کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھاتا ہے۔ ایک بادشاہ ہوتا ہے کچھ وزیر اور کچھ دوسرے کردار ہوتے ہیں۔ اور ڈرامہ مکمل ہونے کے بعد سب لوگوں کے سامنے تماشا دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ بالکل یہی صورت حال دنیا کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کی ہوتی ہے۔ لہذا کسی شخص کو بھی دنیا کی دلفریبیوں اور رعنائیوں میں پھنس کر اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ ۔۔ : ” الدنیا “ ” اَلْأَدْنٰی “ کی مؤنث ہے، قریب، گھٹیا۔ اس کے مقابلے میں ” الاخرۃ “ ہے۔ ” لھو “ وہ چیز جو ضروری کاموں سے دل کو غافل کر دے، یعنی دل لگی، جیسے گانا بجانا وغیرہ، جیسا کہ فرمایا : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ) [ لقمان : ٦ ] ” اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو غافل کرنے والی بات خریدتا ہے، تاکہ جانے بغیر اللہ کے راستے سے گمراہ کرے۔ “ ” لَعِبٌ“ ” کھیل۔ “ اس جملے میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا بےوقعت ہونا چار طرح سے بیان ہوا ہے، سب سے پہلے ” ھذه “ کا لفظ حقارت کے اظہار کے لیے ہے، یعنی ” یہ “ دنیا کی زندگی۔ جیسا کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تحقیر کے لیے کہا تھا : ( اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ هُوَ مَهِيْنٌ ) [ الزخرف : ٥٢ ] ” بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں، وہ جو حقیر ہے۔ “ دوسرا ” الدنیا “ کا لفظ دنایت اور گھٹیا پن پر دلالت کر رہا ہے، تیسرا ” لہو “ (دل لگی) اور چوتھا ” لعب “ (کھیل) ، یعنی اس حقیر دنیا کی زندگی کی حقیقت دل لگی اور کھیل کے سوا اور کچھ نہیں، جس طرح کوئی شخص کچھ وقت کے لیے گا بجا کر اور کھیل کود کر گھر چلا جائے۔ یہاں کوئی بادشاہ ہے یا وزیر، تاجر ہے یا صنعت کار، مالک ہے یا مزدور، اگر کسی بھی ایسے کام میں مصروف ہے جو قیامت کے دن کے لیے کار آمد نہیں تو سمجھ لیجیے وہ محض دل لگی اور کھیل تماشے میں مصروف ہے اور اس کے تمام ساتھی اس کھیل تماشے کا حصہ ہیں۔ اس تماشے میں کوئی بادشاہ ہے، کوئی وزیر ہے اور کوئی کچھ اور۔ انھیں عیش و عشرت کے جتنے سامان میسر ہیں، عورتیں ہوں یا بیٹے، سونے چاندی کے خزانے ہوں یا اعلیٰ نسل کے گھوڑے، ہر قسم کے چوپائے ہوں یا کھیتیاں اور باغات، سب اس کھیل کے کھلونے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ کھیل ختم ہوجاتا ہے اور کھیل کا ہر کردار اسی بےسروسامانی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے جس کے ساتھ وہ یہاں آیا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ ان کھلونوں کے ساتھ ساٹھ یا ستر یا سو برس دل بہلا لے، آخر کار اسے یہ سب کچھ چھوڑ کر موت کے دروازے سے گزر کر اس جہاں میں پہنچنا ہے جہاں کی زندگی دائمی اور ابدی ہے۔ بڑا ہی بدنصیب ہے وہ شخص جو اس کھیل میں مصروف رہے اور اس دائمی زندگی کی فکر نہ کرے۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ : ” الدَّارَ “ موصوف ہے اور ”ۭ الْاٰخِرَةَ “ اس کی صفت، آخری گھر۔ یہاں ایک لفظ محذوف ہے، یعنی ”إِنَّ حَیَاۃَ الدَّارِ الْآخِرَۃِ لَھِيَ الْحَیَوَانُ “ ” الْحَیَوَانُ “ مصدر ہے، جس طرح ” اَلْحَیَاۃُ “ مصدر ہے۔ ” الْحَیَوَانُ “ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے ” زندگی “ کے مفہوم میں مبالغہ پایا جاتا ہے، پھر ” الْحَیَوَانُ “ پر ” الف لام “ کمال کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اس لیے ” الْحَیَوَانُ “ کا ترجمہ ” اصل زندگی “ کیا گیا ہے۔ یعنی یقیناً آخری گھر کی زندگی ہی اصل زندگی ہے، جسے کبھی زوال نہیں، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ یہاں کی چند روزہ زندگی سے زیادہ آخری زندگی کی فکر کرے، کیونکہ وہ اصل اور دائمی ہے۔ دنیا کے کھیل تماشے میں غرق ہو کر عاقبت کو بھول نہ بیٹھے، بلکہ یہاں رہ کر وہاں کی تیاری کرے۔ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : اگر وہ جانتے ہوتے تو فانی کو باقی پر ترجیح نہ دیتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ( لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء في ھوان الدنیا علی اللہ عزوجل : ٢٣٢٠، عن سھل بن سعد (رض) ، وقال الترمذي و الألباني صحیح ] ” اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر ہوتی، تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو اس میں سے پانی کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the preceding verses it was said about the infidels and disbelievers that if they were asked about the creation of the earth and skies, the solar system, the water cycle and its effect on growth of vegetation, they would reply that all this is created and controlled by Allah Ta a1a. They did not believe that any one had any involvement in their creation or control, yet in their worship they associate idols with Allah. The reason for this is أَكْثَرُ‌هُمْ لَا يَعْقِلُونَ (Most of them do not understand - 29:63). At this point the question arises that, after all, they were not insane but intelligent and sensible people. They performed many important and skillful jobs. Then, how have they lost their balance of mind? The answer to this query is given in the first of the above verses by saying that they are lost in the love of material attractions of the world, which are mortal and would disappear soon. They are totally oblivious of the life hereafter, which would last forever. The life of this world is nothing more than a pastime for amusement and fun, but the real and lasting life is that of Hereafter. وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ‌ الْآخِرَ‌ةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ (And this worldly life is nothing but an amusement and play, and the Last Abode is the real life indeed. - 29:64). Here the word Hayawan is used in the sense of hayah (life) (Qurtubi). In this verse the life of this world is held to be an amusement and play. It means that as amusements are finished and gone after a while and do not have any objective or lasting impact, the mundane attractions are also similar in nature. In the next verse, yet another bad habit of the disbelievers is pointed out. Despite believing that Allah Ta’ ala is unique and solitary in His creation, they associate idols with Him ignorantly. Then, it is all the more surprising that whenever they are hit by some calamity, they have the firm belief that none of their idols had the power to take them out of that. They know well that it is only Allah who can remove the calamity, and none of their idols could do anything. To elaborate this point a paradigm is illustrated in verse 65: ` when they are on a journey in the river and there is a risk of their drowning, they call out only Allah to get rid of it, and not any of their idols&. Allah Ta’ ala listens to their prayer, as being totally helpless at that moment, they break off temporarily all their contacts with false gods and look upon Him only. So, He brings them out of the storm safely. But soon after the wretched people reach the land safely, they forget about His grace in no time, and start calling the idols as His associates. This is the meaning of the verse فَإِذَا رَ‌كِبُوا فِي الْفُلْكِ (29:65). Note This verse tells us that when an infidel regards himself totally helpless and calls out Allah Ta’ ala for help in the belief that no one else can save him from the calamity, at that moment Allah Ta’ ala accepts the prayer of even an infidel. It is because at that time he is desperate (a mudtarr); and Allah Ta&ala has promised to accept the prayer of a mudtarr. (Qurtubi) The declaration in another verse وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (And the prayer of the disbelievers does not but go astray - 13:14) relates to the Hereafter, where no entreaty from them will be accepted when they would appeal for mercy against the torment.

خلاصہ تفسیر اور (وجہ ان کے غور نہ کرنے کی انہماک ہے مشاغل دنیا میں حالانکہ) یہ دنیوی زندگی (جس کے یہ تمام تر اشغال ہیں فی نفسہ) بجز لہو و لعب کے اور کچھ بھی نہیں اور اصل زندگی عالم آخرت (کی) ہے (چنانچہ دنیا کے فانی ہونے اور آخرت کے باقی ہونے سے یہ دونوں مضمون ظاہر ہیں پس فانی میں اس قدر انہماک کہ باقی کو بھول میں ڈال کر اس سے محروم ہوجائے خود یہ بےعقلی کی بات ہے) اگر ان کو اس کا (کافی) علم ہوتا تو ایسا نہ کرتے (کہ فانی میں منہمک ہو کر باقی کو بھلا دیتے اور اس کے لئے سامان نہ کرتے بلکہ یہ لوگ دلائل میں غور کرتے۔ اور ایمان لے آتے جیسا کہ خود ان کو یہ تسلیم ہے کہ تخلیق کائنات اور اس کے باقی رکھنے میں خدا کا کوئی شریک نہیں) پھر (جیسا کہ ان کے اس اقرار و تسلیم کا مقتضی ہے کہ خدائی اور عبادت میں اسی کو منفرد مانتے اور اس کا بھی کبھی اظہار و اقرار کرتے چنانچہ) جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور وہ کشتی زیر و زبر ہونے لگتی ہے) تو (اس وقت) خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں (کہ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ای الموحدین جس میں خدائی اختیارات اور معبودیت میں بھی توحید کا اقرار ہے، مگر یہ حالت بوجہ انہماک فی الدنیا کے دیرپا نہیں ہوتی چناچہ اس وقت تو سب قول و اقرار توحید کے ہوچکے ہیں مگر) پھر جب ان کو (اس آفت سے) نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے جو نعمت (نجات وغیرہ) ان کو دی ہے۔ اس کی ناقدری کرتے ہیں اور یہ لوگ (عقائد شرکیہ و اعمال فسقیہ میں ہوائے نفسانی کا اتباع کر کے) چندے اور حظ حاصل کرلیں پھر قریب ہی ان کو سب خبر ہوئی جاتی ہے، (اور اب اس انہماک فی الدنیا کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا، سو ایک مانع تو ان کو توحید سے یہ انہماک ہے اور دوسرا ایک اور نامعقول حیلہ مانعہ نکالا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا یعنی اگر ہم مسلمان ہوجائیں تو ہمیں عرب کے لوگ مار دیں گے۔ حالانکہ مشاہدہ سے ان کو خود لغویت اس کی معلوم ہو سکتی ہے) کیا ان لوگوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ ہم نے (ان کے شہر مکہ کو) امن والا حرم بنایا ہے اور ان کے گرد و پیش (کے مقامات) میں (جو خارج حرم ہیں) لوگوں کو (مار دھاڑ کر ان کے گھروں سے) نکالا جا رہا ہے (بخلاف ان کے کہ امن سے بیٹھے ہیں اور یہ بات خود محسوسات میں ہے تو بدیہیات سے گذر کر محسوسات میں بھی خلاف کرتے اور خوف ہلاکت کو ایمان لانے میں عذر مانع بتاتے ہیں اور) پھر (وضوح حق کے بعد اس حماقت اور ضد کا) کیا (ٹھکانا ہے کہ) یہ لوگ جھوٹے معبود (ہوں) پر تو ایمان لاتے ہیں (جس پر ایمان لانے کا کوئی مقتضی نہیں اور موانع بہت سے ہیں) اور اللہ (جس پر ایمان لانے کے بہت سے مقتضی اور دلائل صحیحہ ہیں اس کی) نعمتوں کی ناشکری (یعنی اللہ کے ساتھ شرک) کرتے ہیں (کیونکہ شرک سے بڑھ کر کوئی ناشکری نہیں کہ نعمت تخلیق و ترزیق و ابقاء و تدبیر وغیرہ تو وہ عطا فرمادے اور عبادت جو کہ ان نعمتوں کا شکر ہے دوسرے کے لئے تجویز کی جاوے) اور (واقعی بات یہ ہے کہ) اس شخص سے زیادہ کون ناانصاف ہوگا جو (بلا دلیل) اللہ پر جھوٹ افتراء کرے (کہ وہ شریک رکھتا ہے) اور جب سچی بات اس کے پاس (دلیل کے ساتھ) پہنچے وہ اس کو جھٹلا دے (بےانصافی ظاہر ہے کہ بلا دلیل بات کی تو تصدیق کرے اور دلیل والی بات کی تکذیب) کیا ایسے کافروں کا (جو اس قدر ناانصافی کریں) جہنم میں ٹھکانا نہ ہوگا (یعنی ضرور ہے کیونکہ سزا مناسب جرم کے ہوتی ہے۔ پس جیسا جرم عظیم ہے ایسی ہی سزا بھی عظیم ہے اوپر ان کا حال تھا جو اہل کفر اور نفس پرست ہوں) اور اب ان کے اضداد کا بیان ہے کہ) جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے (قرب وثواب یعنی جنت) کے راستے ضرور دکھا دیں گے (جس سے وہ جنت میں جا پہنچیں گے کقولہ تعالیٰ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا الآیتہ اور بیشک اللہ تعالیٰ (کی رضا و رحمت) ایسے خلوص والوں کے ساتھ ہے (دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ) معارف و مسائل سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کا یہ حال مذکور ہوا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش شمس و قمر کا نظام بارش نازل کرنے اور اس سے نبات اگانے کا سارا نظام یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہونے پر یقین رکھتے ہیں اس میں کسی بت وغیرہ کی شرکت نہیں مانتے مگر پھر بھی وہ خدائی میں بتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (یعنی ان میں بکثرت لوگ وہ ہیں جو سمجھتے نہیں۔ ) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ مجنوں دیوانے تو نہیں ہوشیار سمجھدار ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے کام خوب کرتے ہیں پھر ان کے بےسمجھ ہوجانے کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا جواب مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں یہ دیا گیا کہ ان کو دنیا اور اس کی مادی اور فانی لذات و خواہشات کی محبت نے آخرت اور انجام میں غور و فکر کرنے سے اندھا اور بےسمجھ بنادیا ہے حالانکہ یہ دنیا کی زندگی لہو و لعب یعنی وقت گزاری کا مشغلہ اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور اصلی زندگی جو جاودانی ہے وہ آخرت کی زندگی ہے وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ، اس جگہ حیوان کا لفظ بمعنی حیات مصدری معنی میں ہے۔ (قرطبی) اس میں حیات دنیا کو لہو و لعب فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے کھیلوں کا کوئی ثبات وقرار نہیں اور کوئی بڑا مقصد ان سے حل نہیں ہوتا، تھوڑی دیر کے بعد سب تماشہ ختم ہوجاتا ہے یہی حال اس دنیا کا ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں ان مشرکین کا ایک اور برا حال یہ بتلایا گیا کہ جیسے یہ لوگ تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کو منفرد ماننے کے باوجود اس جہالت کے شکار ہیں کہ بتوں کو خدائی کا ساجھی بتاتے ہیں۔ اس سے زیادہ عجب یہ ہے کہ جب ان پر کوئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تو اس مصیبت کے وقت بھی ان کو یہ یقین اور اقرار ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بت ہمارا مددگار نہیں بن سکتا۔ مصیبت سے رہائی صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے اس کے لئے بطور مثال کے فرمایا کہ یہ لوگ جب دریا کے سفر میں ہوتے ہیں اور ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے، تو اس خطرہ کو ٹالنے کے لئے کسی بت کو پکارنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مضطر اور بیقرار ہونے اور وقتی طور پر دنیا کے سارے سہاروں سے منقطع ہونے کی بناء پر ان کی دعا قبول کر کے ان کو دنیا کے مہلکہ سے نجات دے دیتا ہے۔ مگر یہ ظالم جب خشکی پر پہنچ کر مطمئن ہوجاتے ہیں تو پھر بتوں کو خدا کا شریک کہنے لگتے ہیں۔ آیت فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ کا یہی مطلب ہے۔ فائدہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر بھی جس وقت اپنے آپ کو بےسہارا جان کر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس وقت یہ یقین کرتا ہے کہ خدا کے سوا مجھے اس مصیبت سے کوئی نہیں چھڑا سکتا، تو اللہ تعالیٰ کافر کی بھی دعا قبول فرما لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ مضطر ہے اور اللہ تعالیٰ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ (قرطبی وغیرہ) اور ایک آیت میں جو یہ ارشاد آیا ہے وَمَا دُعٰۗـؤُا الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ، یعنی کافروں کی دعا ناقابل قبول ہے، یہ حال آخرت کا ہے کہ وہاں کافر عذاب سے رہائی کی دعا کریں گے تو قبول نہ ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 3 وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۝ ٠ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۝ ٠ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝ ٦٤ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ لهو [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] «5» . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد «6» فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا . ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم . ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد/ 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء/ 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر/ 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور/ 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج/ 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة/ 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء/ 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس دنیا کی زندگی میں جو کچھ خوش حالیاں اور زینتیں ہیں یہ سوائے وقتی اور فانی لہو ولعب کے اور کچھ بھی نہیں اور اصلی زندگی وہ جنت ہی کی ہے جہاں فنا نہیں۔ کاش یہ لوگ اس کو مانتے مگر ان کو نہ اس کا علم ہے اور نہ اس کا اقرار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (وَمَا ہٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ ط) ” دیکھو مسلمانو ! یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل جیسی ہے۔ اس کی حیثیت تمہارے ایک سٹیج ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس طرح ڈرامے کا بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں اور سٹیج پر فقیر کا کردار ادا کرنے والا شخص سچ مچ کا فقیر نہیں اسی طرح تمہاری اس زندگی کے تمام کردار بھی حقیقی نہیں۔ حقیقی کردار تو اس سٹیج سے باہر جا کر (موت کے بعد) سامنے آئیں گے۔ عین ممکن ہے یہاں کے شہنشاہ کو وہاں مجرم کی حیثیت میں اٹھایا جائے اور جو شخص یہاں زندگی بھر لوگوں کا معتوب و مغضوب رہا وہاں اسے خلعت فاخرہ سے نوازا جائے۔ چناچہ تم خاطر جمع رکھو ! نہ تو یہاں کا عیش اصل عیش ہے اور نہ آج کے مصائب حقیقی مصائب ہیں۔ یہ سب کچھ وقتی ‘ عارضی اور فانی ہے۔ (وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ ٧ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) ” اس مضمون کا مفہوم اپنے دل میں اتارنے کے لیے آخری جملے کو اپنے اوپر طاری کر کے یوں کہیں : کاش کہ ہمیں معلوم ہوتا ! یہاں یہ اہم نکتہ بھی ذہن نشین کرنے کی کوشش کیجیے کہ بعث بعد الموت کا صرف مان لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں ایسے پختہ یقین کی ضرورت ہے جس کے تحت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ حقیقت واقعی جاگزیں ہوجائے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔ آخرت کی زندگی کی حقیقت واضح کرنے کے لیے میں نے اکثر مواقع پر ایک کتاب کی تشبیہہ بیان کی ہے ‘ جس کے آغاز میں ایک دیباچہ اور آخر میں ایک ضمیمہ ہوتا ہے۔ عام طور پر ہم دنیادار یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا کی زندگی اصل کتاب ہے جبکہ آخرت کی زندگی اس کتاب کا ضمیمہ ہے ‘ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی زندگی محض ایک دیباچہ ہے اس کتاب کا جو موت کے بعد کھلنے والی ہے ‘ بلکہ اگر نسبت تناسب کے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ تشبیہہ بھی درست قرار نہیں پاتی۔ درحقیقت دنیا کی زندگی محدود ہے جبکہ آخرت کی زندگی لا محدود ہے اور حق یہ ہے کہ محدود اور لا محدود میں باہم کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی۔ بہر حال ہمیں اپنے محدود ذہن کو سمجھانے کے لیے اس مثال کا سہارا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے بعد اب خطاب کا رخ پھر مشرکین مکہّ کی طرف مڑ گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102 That is "The reality of it is no more than the children's engaging in a sport and pastime for a while, and then returning home. The one has become a king here, has not become a king in reality but is only playing the king. A time comes when his play ends, and ne leaves the royal throne as empty-handed as he was when he had entered the world. Similarly, no phase of life here is enduring and lasting. Every one is playing his part only temporarily for a limited time. Those who are charmed by the short-lived triumphs of this life and are able to collect some means of enjoyment and pleasure and of glory and grandeur by losing their conscience and faith, are only engaged in a pastime. What will these toys profit them when after amusing themselves with these for a score or three score and ten years in the world they will enter through the gate of death empty-handed into the Next World of eternal life and find their same allurements to have caused them an everlasting affliction ?" 103 That is, "If these people had known the reality that the life of this world is only a period of preparation for the test, and the real life for man, which is everlasting, is the life hereafter, they would not have wasted this preparatory period in sport and merry-making, but would instead have utilized each moment of it in works conducive to better results in the eternal life of the Hereafter.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 102 یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھاریں ۔ یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں بن گیا ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہوجاتا ہے اور اسی بے سروسامانی کے ساتھ وہ تخت شاہی سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنیا میں آیا تھا ۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدار نہیں ہے ، جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے ، اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مرے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر و ایمان کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساٹھ ستر سال دل بہلا لیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے در ماں ثابت ہو تو آخر اس طفل تسلی کا فائدہ کیا ہے؟ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 103 یعنی اگر یہ لوگ اس حقیقت کو جانتے کہ دنیا کی موجودہ زندگی صرف ایک مہلت امتحان ہے ، اور انسان کے لیے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، آخرت کی زندگی ہے تو وہ یہاں امتحان کی مدت کو اس لہو و لعب میں ضائع کرنے کے بجائے اس کا ایک ایک لمحہ ان کاموں میں استعمال کرتے جو اس ابدی زندگی میں بہتر نتائج پیدا کرنے والے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: یعنی جس طرح کھیل کود میں کچھ دیر تو مزہ آتا ہے، مگر وہ کوئی پائیدار چیز نہیں ہے، ذرا دیر گذرنے کے بعد سارا تماشا ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح دنیا کی لذتیں بھی ناپائیدار ہیں، اور کچھ ہی عرصے میں سب ختم ہوجائیں گی۔ اس کے برخلاف آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے اس کی لذتیں اور نعمتیں سدا بہار ہیں۔ اس لیے اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:64) وما۔ میں ما نافیہ ہے۔ لہی الحیوان میں لام تحقیق کا ہے ۔ ہی ضمیر واحد مؤنث غائب کو تخصیص کے لئے لایا گیا ہے۔ حیوان یہاں اپنے عام معنی میں جاندار یا ذی حیات کے مرادف نہیں بلکہ حی یحی (سمع) کا مصدر ہے۔ حیاۃ بھی اس کا مصدر ہے لیکن حیوان حیاۃ سے بھی زیادہ بلیغ و پرزور ہے کیونکہ فعلان کے وزن میں حرکت و اضطراب جو لازمہ حیات ہے موجود ہے۔ حیوان بمعنی جینا۔ زندگی۔ حیات۔ ان الدار الاخرۃ لہی الحیوان تحقیق عالم آخرت ہی اصلی و حقیقی زندگی ہے۔ حیوان اصل میں حیان تھا یائے ثانی کو خلاف قیاس واؤ میں تبدیل کردیا۔ ح ی ی مادہ۔ لوکانوا یعلمون ۔ یہ جملہ شرط ہے اور جواب شرط محذوف ہے ای لو کانوا یعلمون لم یؤثروا الحیوۃ الدنیا علیہا۔ اگر وہ جانتے ہوتے تو دنیا کی زندگی کو (آخرت کی زندگی پر) ترجیح نہ دیتے۔ یا لو تمنی کے لئے ہے اور جملہ تمنائیہ ہے کاش وہ (اس حقیقت کو) جانتے ہوتے کہ (ان الدار الاخرۃ لہی الحیوان)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی ہمیشہ باقی اور قائم رہنے والی ہے۔ 10 ۔ تو یقینا باقی کو چھوڑ کر فانی کو اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر) دنیا کی بےثباتی و بےحقیقتی کا ذکر بہت سی احادیث میں بھی مذکور ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 64 تا 69 اسرارومعارف دنیا کے لیے بعض اوقات کافر کی دعا بھی قبول ہوتی ہے : یہ جس دنیا کے لالچ میں گرفتار ہیں یہ تو محض لہو و لعب اور کھیل تماشا ہے جس میں مصروف ہونا محض وقت ضائع کرنے والی بات ہے زندگی تو آخرت کا گھر ہے کہ جسے دنیا میں رہ کر حاصل کرنا مقصد حیات ہے۔ کاش انہیں اس بات کی سمجھ ہوتی ورنہ تو جب کبھی ان پر بڑی افتاد پڑتی ہے جیسے سفر میں ان کی کشتی طوفان میں گھر جائے تو صرف اللہ ہی کو پورے خلوص اور دل کی گہرائی سے پکارتے ہیں اور جب اللہ انہیں نجات دے دیتا اور اس مصیبت سے بچا دیتا ہے کہ دنیا کے لیے تو کبھی کافر کی دعا بھی قبول ہوتی ہے اگر وہ خلوص سے مانگ رہا ہو ہاں آخرت میں اس کی درخواست نہیں سنی جائے گی۔ سو جب یہ خشکی پہ پہنچتے ہیں تو پھر اسی سابقہ روش یعنی شرک پر پلٹ جاتے ہیں۔ ایسے جاہل ہیں کہ ہماری ان نعمتوں کا انکار کرتے ہیں جن سے یہ مستفید ہو رہے ہوتے ہیں ان کرتوتوں کے انجام کی انہیں بہت جلد خبر ہوجائے گی۔ کم از کم اہل مکہ کو تو یہ عذر بھی زیب نہ دیتا تھا کہ اگر مسلمان ہوجائیں تو لوگ ہمیں تباہ کردیں گے یہ شہر تو ہم نے حرم اور جائے امن بنا دیا ہے کہ کافر و مشرک بھی اس کا احترام کرتے ہیں اگرچہ گرداگرد ہر جگہ بدامنی ہی کیوں نہ ہو تو کیا یہ جھوت موٹ کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کریم کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ تو جو کوئی جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف سے عطا کردہ دین بتائت اور اللہ کے نازل کردہ دین حق کو قبول کرنے سے انکار کرے جبکہ حق اس کے پاس بیان کیا جائے تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا ایسے بڑے ظالم کا ٹھکانہ جہنم ہی درست ہے۔ مجاہد فاتح ہوتا ہے : اور جو لوگ بھی ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ان کو ہم اپنی راہیں سمجھا دیتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے اس لیے کہ خلوس دل سے اللہ کی اطاعت میں کوشاں لوگوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے اور انہیں اس کی ذات کی معیت نصیب ہوتی ہے خواہ نفس کی اصلاح کے لیے مجاہدہ کرے تو اللہ اسے نیک لوگوں کے پاس پہنچا دیتا ہے جہاں اصلاح احوال نصیب ہو یا کفار کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے خلاف ڈٹ جائے تو شہید ہو کر بھی منزل پالیتا ہے اور فتح کرکے بھی۔ نیز جہاد بصیرت بڑھا دیتا ہے اور درست فیصلے کرنے کی استعداد سے نواز دیتا ہے۔ سورة عنکبوت مکمل ہوئی

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ کہ فانی میں منہمک ہو کر جاتی کو بھلا دیتے ہیں، اور اس کے لئے سامان نہ کرتے بلکہ یہ لوگ دلائل میں غور کرتے اور ایمان لے آتے جیسا کہ مقتضا ان کے اقرار توحید فی التکوین والا بقاء کا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما ھذہ الحیوۃ ۔۔۔۔۔ لو کانوا یعلمون (29: 64) ” ۔ یہ زندگی عمومی لحاظ سے تو ایک کھیل تماشا ہی ہے۔ خصوصاً اس وقت جب یہ اس طرح گزر رہی ہے کہ آخرت کی کوئی فکر نہ ہو اور یہی دنیا لوگوں کا مقصد اعلیٰ ہو اور اس دنیا کا سازوسامان ہی غایت زندگی ہو۔ رہی آخرت کی زندگی تو وہ حقیقی زندگی ہے اور اس میں نہایت ہی اعلیٰ معیار ہوگا۔ وہی حقیقی زندگی ہے۔ وہ بھرپور ہے اور اس میں حقیقی حیات اور نشاط ہے۔ یہ کہہ کر قرآن یہ تعلیم بھی نہیں دیتا کہ دنیا کو ترک کردیا جائے یا اس کے متاع کو دور پھینک دیا جائے یا زندگی کی سرگرمیوں سے فرار اختیار کرکے رہبانیت اختیار کی جائے۔ یہ نہ اسلام کی روح ہے اور نہ اسلام زندگی کا یہ رخ اختیار کرتا ہے بلکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اصل ہدف آخرت ہو اور حدود اللہ کا لحاظ رکھا جائے۔ اس زندگی پر سربلندی حاصل کر کے اسے اپنے قبضہ قدرت میں رکھا جائے اور انسان اس دنیا کے متاع کا اسیر نہ بن جائے۔ انسان زندگی کے فرائض پورے کرے اور اس سے فرار اخٹیار نہ کرے۔ غرض اصل مسئلہ صحیح سوچ اور صحیح قدر کا ہے۔ انسان کو اس دنیا کی بھی صحیح قدروقیمت معلوم ہونا چاہئے اور آخرت کی بھی صحیح قدروقیمت معلوم ہونی چاہئے۔ مومنین کو ان اقدار کا صحیح شعور ہونا ضروری ہے۔ اس طرح جب ایک باشعور مومن دنیا سے معاملہ کرے گا تو اس کا نقطہ نظر معتدل ہوگا کہ دنیا تو کھیل تماشا ہے مختصر وقت کے لیے ہے اور آخرت اس طرح سنجیدگی کے لائق ہے جس طرح کھیل تماشے اور میلے ٹھلے کے بعد انسان سنجیدگی سے اس دنیا کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ فکر و نظر کی اس درستگی کے بعد اب بتایا جاتا ہے کہ کفار کے فکر و نظر میں کیا کیا تضادات ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دنیا والی زندگی لہو و لعب ہے، حقیقی زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس آیت کریمہ میں دنیا کی فنا اور آخرت کی بقا کو اجمالی طور پر بیان فرمایا ہے اور مشرکین و کافرین کی ناسمجھی اور نادانی اور بےعقلی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی جتنی بھی دراز ہوجائے اور اس میں جتنی بھی نعمتیں مل جائیں سب ہیچ ہیں۔ کیونکہ انسان کی اصل ضرورت آخرت کی ضرورت ہے جہاں دوام ہے اور ابدی زندگی ہے، وہاں کی دائمی زندگی اور ابدی نعمتوں کے سامنے یہ فنا ہونے والی دنیا جو وہاں کچھ بھی کام نہ کرے گی بالکل لہو و لعب ہے، جیسے بچے آپس میں کھیلتے ہیں، ہوٹل بھی کھولتے ہیں، دکاندار بن کر بھی بیٹھتے ہیں، کھانے پینے کی چیزیں بھی بیچتے ہیں، پھر جب بھوک لگتی ہے تو اپنی ماں کے پاس آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امی جان کھانا دے دیجیے، اگر والدہ ان سے پوچھے کہ تم تو ابھی ہوٹل کھولے ہوئے تھے، روٹی سالن فروخت کر رہے تھے اسی میں سے کھالیتے، اب مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو ؟ تو بچے جواب دیں گے کہ وہ تو ایک کھیل تھا حقیقت نہیں تھی۔ اسی طرح اہل دنیا کا حال ہے کہ دنیا میں لگتے ہیں اسی کے لیے جیتے ہیں اسی کے لیے مرتے ہیں، مال بھی جمع کرتے ہیں، جائیدادیں بھی بناتے ہیں پھر موت کے وقت سب کچھ یہیں چھوڑ جاتے ہیں، اس مال و جائیداد سے جو یہاں کی تھوڑی بہت حاجت پوری ہوجاتی ہے آخرت کی حاجتوں کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں، وہاں پہنچیں گے تو یہاں کی جائیداد اور مال و اولاد کچھ بھی کام نہ آئیں گے وہاں تو ایمان اور اعمال صالحہ کی قیمت لگے گی اور یہاں وہاں کی اصل ضرورت پورا کرنے کا ذریعہ بنیں گے، وہاں کی ضرورت دوزخ سے بچنا ہے (یہ دفع مضرت ہے) اور جنت میں داخل ہونا ہے (جو جلب منفعت ہے) وہاں کی ان دونوں ضرورتوں کے لیے جب دنیاوی چیزیں کام نہ آئیں تو ساری دنیا کھیل ہی ہوئی جس سے واقعی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، اگر دوزخ کے دائمی عذاب سے بچنے کا انتظام کرکے دنیا نہ سدھارے اور خدانخواستہ وہاں عذاب میں گرفتار ہوئے تو اس وقت سمجھ میں آئے گا کہ دنیا واقعی لہو ولعب تھی، وہاں حسرت اور افسوس کے سوا کچھ نہ ہوگا جو کچھ کرنا ہے یہیں سے لے کر جانا ہے۔ دنیا کو لہو و لعب بتانے کے بعد یوں فرمایا (وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ ) (اور بلاشبہ دار آخر ہی زندگی ہے) مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو جنت کا داخلہ ملے گا، وہ ہمیشہ نعمتوں میں رہیں گے، نہ کبھی موت آئے گی نہ نعمتیں چھینی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان سے راضی رہے گا۔ درحقیقت وہی زندگی کہنے کے قابل ہے۔ کافر کی نہ دنیاوی زندگی کہنے کے قابل ہے کیونکہ فانی ہے اور مکروہات، مشکلات، مکدرات، مصائب و آلام، امراض و اسقام سے بھری ہوئی ہے، اور نہ اس کی آخرت کی زندگی زندگی ہے کیونکہ وہاں تو عذاب ہی عذاب ہے۔ سورة الاعلیٰ میں فرمایا ہے (ثُمَّ لاَ یَمُوْتُ فِیْہَا وَلاَ یَحْیٰی) (پھر وہ اس میں نہ مرے گا نہ جئے گا) دوزخ کی بھی کوئی زندگی ہے ؟ آخر میں فرمایا (لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) اگر یہ حیات دنیویہ اور دار آخرت کو جان لیتے اور دونوں میں جو فرق ہے اسے سمجھ لیتے تو دنیا کو زندگی کا مقصد نہ بناتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ دنیا کی تحقیر و تقلیل کا بیان ہے۔ مشرکین اور اہل دنیاجس دولت اور شان دنیا پر مغرور ہو کر توحید کا مغرور ہو کر توحید کا انکار کر رہے ہیں اس کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ بچوں کا ایک کھیل تماشا ہے جس سے محض چند روز دل بہلایا جاسکتا ہے یہ اصل زندگی نہیں اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگی اس لیے آخرت کے لیے توشہ تیار کرنا چاہئے۔ ای ماھی سرعۃ زوالہا عن اھلہا و موتھم الا کما یلعب الصبیان ساعۃ ثم یتفرقون (بحر ج 7 ص 158) ۔ اگر وہ اس حقیقت کو جانتے ہوتے تو دنیا کو آخرت پر کبھی ترجیح نہ دیتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64۔ آگے اس نہ سمجھنے کی وجہ کا رو ہے ارشاد ہوتا ہے اور یہ دنیا کی زندگی تو محض جی کا بہلانا اور کھیل ہے اور محض ایک لہو و لعب ہے اور بلا شبہ حقیقی زندگی تو عالم آخرت کی ہی زندگی ہے اور پچھلا گھرجو ہے سو وہی ہے جینا کاش یہ لوگ اتنی بات سمجھتے۔ یعنی یہ منکر جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر غور و فکر نہیں کرتے اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے مشاغل میں یہ ہر وقت منہمک رہتے ہیں ان کو یہی خبر نہیں کہ یہ دنیا کی زندگی تو محض لہو و لعب کے سوا اور کچھ نہیں اور محض ایک کھیل تماشا ہے ۔ زندگی تو حقیقی وہ ہے جو اس زندگی کے بعد شروع ہوتی ہے کاش یہ منکر اتنی بات سمجھ لتے تو اس عارضی دنیا کے مشاغل کو چھوڑ کر آخرت کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجاتے ۔ اسی لئے حضرت عائشہ رصی اللہ تعالیٰ عنہا نے موت کے دن کی تعبیر خوب فرمائی۔ چناچہ موت کے دن کو یوں سمجھاتی ہیں ۔ ھو اول یوم من ایام الاخرۃ واخریوم من ایام الدنیا۔ یعنی موت کا دن دنیوی زندگی کا آخری دن ہے اور آخرت کا زندگی کا پہلا دن ہے ، بہر حال موت کے دن سے جو زندگی شروع ہوتی ہے وہی اصل اور حقیقی زندگی ہے اگر کوئی اتنی بات سمجھ لے تو اس کی تمام تر توجہ آخرت کی اصلاح پر مرکوز ہوجانی چاہئے دہو دالمقود۔ ؎ بازیچہ ایست طفل قریب متاع دہر بے عقل مرد ماں کہ بدیں مبتلا شوند