Commentary In the preceding verses it was said about the infidels and disbelievers that if they were asked about the creation of the earth and skies, the solar system, the water cycle and its effect on growth of vegetation, they would reply that all this is created and controlled by Allah Ta a1a. They did not believe that any one had any involvement in their creation or control, yet in their worship they associate idols with Allah. The reason for this is أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (Most of them do not understand - 29:63). At this point the question arises that, after all, they were not insane but intelligent and sensible people. They performed many important and skillful jobs. Then, how have they lost their balance of mind? The answer to this query is given in the first of the above verses by saying that they are lost in the love of material attractions of the world, which are mortal and would disappear soon. They are totally oblivious of the life hereafter, which would last forever. The life of this world is nothing more than a pastime for amusement and fun, but the real and lasting life is that of Hereafter. وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ (And this worldly life is nothing but an amusement and play, and the Last Abode is the real life indeed. - 29:64). Here the word Hayawan is used in the sense of hayah (life) (Qurtubi). In this verse the life of this world is held to be an amusement and play. It means that as amusements are finished and gone after a while and do not have any objective or lasting impact, the mundane attractions are also similar in nature. In the next verse, yet another bad habit of the disbelievers is pointed out. Despite believing that Allah Ta’ ala is unique and solitary in His creation, they associate idols with Him ignorantly. Then, it is all the more surprising that whenever they are hit by some calamity, they have the firm belief that none of their idols had the power to take them out of that. They know well that it is only Allah who can remove the calamity, and none of their idols could do anything. To elaborate this point a paradigm is illustrated in verse 65: ` when they are on a journey in the river and there is a risk of their drowning, they call out only Allah to get rid of it, and not any of their idols&. Allah Ta’ ala listens to their prayer, as being totally helpless at that moment, they break off temporarily all their contacts with false gods and look upon Him only. So, He brings them out of the storm safely. But soon after the wretched people reach the land safely, they forget about His grace in no time, and start calling the idols as His associates. This is the meaning of the verse فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ (29:65). Note This verse tells us that when an infidel regards himself totally helpless and calls out Allah Ta’ ala for help in the belief that no one else can save him from the calamity, at that moment Allah Ta’ ala accepts the prayer of even an infidel. It is because at that time he is desperate (a mudtarr); and Allah Ta&ala has promised to accept the prayer of a mudtarr. (Qurtubi) The declaration in another verse وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ (And the prayer of the disbelievers does not but go astray - 13:14) relates to the Hereafter, where no entreaty from them will be accepted when they would appeal for mercy against the torment.
خلاصہ تفسیر اور (وجہ ان کے غور نہ کرنے کی انہماک ہے مشاغل دنیا میں حالانکہ) یہ دنیوی زندگی (جس کے یہ تمام تر اشغال ہیں فی نفسہ) بجز لہو و لعب کے اور کچھ بھی نہیں اور اصل زندگی عالم آخرت (کی) ہے (چنانچہ دنیا کے فانی ہونے اور آخرت کے باقی ہونے سے یہ دونوں مضمون ظاہر ہیں پس فانی میں اس قدر انہماک کہ باقی کو بھول میں ڈال کر اس سے محروم ہوجائے خود یہ بےعقلی کی بات ہے) اگر ان کو اس کا (کافی) علم ہوتا تو ایسا نہ کرتے (کہ فانی میں منہمک ہو کر باقی کو بھلا دیتے اور اس کے لئے سامان نہ کرتے بلکہ یہ لوگ دلائل میں غور کرتے۔ اور ایمان لے آتے جیسا کہ خود ان کو یہ تسلیم ہے کہ تخلیق کائنات اور اس کے باقی رکھنے میں خدا کا کوئی شریک نہیں) پھر (جیسا کہ ان کے اس اقرار و تسلیم کا مقتضی ہے کہ خدائی اور عبادت میں اسی کو منفرد مانتے اور اس کا بھی کبھی اظہار و اقرار کرتے چنانچہ) جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں (اور وہ کشتی زیر و زبر ہونے لگتی ہے) تو (اس وقت) خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں (کہ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ای الموحدین جس میں خدائی اختیارات اور معبودیت میں بھی توحید کا اقرار ہے، مگر یہ حالت بوجہ انہماک فی الدنیا کے دیرپا نہیں ہوتی چناچہ اس وقت تو سب قول و اقرار توحید کے ہوچکے ہیں مگر) پھر جب ان کو (اس آفت سے) نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے جو نعمت (نجات وغیرہ) ان کو دی ہے۔ اس کی ناقدری کرتے ہیں اور یہ لوگ (عقائد شرکیہ و اعمال فسقیہ میں ہوائے نفسانی کا اتباع کر کے) چندے اور حظ حاصل کرلیں پھر قریب ہی ان کو سب خبر ہوئی جاتی ہے، (اور اب اس انہماک فی الدنیا کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا، سو ایک مانع تو ان کو توحید سے یہ انہماک ہے اور دوسرا ایک اور نامعقول حیلہ مانعہ نکالا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا یعنی اگر ہم مسلمان ہوجائیں تو ہمیں عرب کے لوگ مار دیں گے۔ حالانکہ مشاہدہ سے ان کو خود لغویت اس کی معلوم ہو سکتی ہے) کیا ان لوگوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ ہم نے (ان کے شہر مکہ کو) امن والا حرم بنایا ہے اور ان کے گرد و پیش (کے مقامات) میں (جو خارج حرم ہیں) لوگوں کو (مار دھاڑ کر ان کے گھروں سے) نکالا جا رہا ہے (بخلاف ان کے کہ امن سے بیٹھے ہیں اور یہ بات خود محسوسات میں ہے تو بدیہیات سے گذر کر محسوسات میں بھی خلاف کرتے اور خوف ہلاکت کو ایمان لانے میں عذر مانع بتاتے ہیں اور) پھر (وضوح حق کے بعد اس حماقت اور ضد کا) کیا (ٹھکانا ہے کہ) یہ لوگ جھوٹے معبود (ہوں) پر تو ایمان لاتے ہیں (جس پر ایمان لانے کا کوئی مقتضی نہیں اور موانع بہت سے ہیں) اور اللہ (جس پر ایمان لانے کے بہت سے مقتضی اور دلائل صحیحہ ہیں اس کی) نعمتوں کی ناشکری (یعنی اللہ کے ساتھ شرک) کرتے ہیں (کیونکہ شرک سے بڑھ کر کوئی ناشکری نہیں کہ نعمت تخلیق و ترزیق و ابقاء و تدبیر وغیرہ تو وہ عطا فرمادے اور عبادت جو کہ ان نعمتوں کا شکر ہے دوسرے کے لئے تجویز کی جاوے) اور (واقعی بات یہ ہے کہ) اس شخص سے زیادہ کون ناانصاف ہوگا جو (بلا دلیل) اللہ پر جھوٹ افتراء کرے (کہ وہ شریک رکھتا ہے) اور جب سچی بات اس کے پاس (دلیل کے ساتھ) پہنچے وہ اس کو جھٹلا دے (بےانصافی ظاہر ہے کہ بلا دلیل بات کی تو تصدیق کرے اور دلیل والی بات کی تکذیب) کیا ایسے کافروں کا (جو اس قدر ناانصافی کریں) جہنم میں ٹھکانا نہ ہوگا (یعنی ضرور ہے کیونکہ سزا مناسب جرم کے ہوتی ہے۔ پس جیسا جرم عظیم ہے ایسی ہی سزا بھی عظیم ہے اوپر ان کا حال تھا جو اہل کفر اور نفس پرست ہوں) اور اب ان کے اضداد کا بیان ہے کہ) جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے (قرب وثواب یعنی جنت) کے راستے ضرور دکھا دیں گے (جس سے وہ جنت میں جا پہنچیں گے کقولہ تعالیٰ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا الآیتہ اور بیشک اللہ تعالیٰ (کی رضا و رحمت) ایسے خلوص والوں کے ساتھ ہے (دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ) معارف و مسائل سابقہ آیات میں کفار و مشرکین کا یہ حال مذکور ہوا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش شمس و قمر کا نظام بارش نازل کرنے اور اس سے نبات اگانے کا سارا نظام یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہونے پر یقین رکھتے ہیں اس میں کسی بت وغیرہ کی شرکت نہیں مانتے مگر پھر بھی وہ خدائی میں بتوں کو شریک ٹھہراتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (یعنی ان میں بکثرت لوگ وہ ہیں جو سمجھتے نہیں۔ ) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ مجنوں دیوانے تو نہیں ہوشیار سمجھدار ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے کام خوب کرتے ہیں پھر ان کے بےسمجھ ہوجانے کی وجہ کیا ہے ؟ اس کا جواب مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں یہ دیا گیا کہ ان کو دنیا اور اس کی مادی اور فانی لذات و خواہشات کی محبت نے آخرت اور انجام میں غور و فکر کرنے سے اندھا اور بےسمجھ بنادیا ہے حالانکہ یہ دنیا کی زندگی لہو و لعب یعنی وقت گزاری کا مشغلہ اور کھیل کے سوا کچھ نہیں اور اصلی زندگی جو جاودانی ہے وہ آخرت کی زندگی ہے وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ، اس جگہ حیوان کا لفظ بمعنی حیات مصدری معنی میں ہے۔ (قرطبی) اس میں حیات دنیا کو لہو و لعب فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے کھیلوں کا کوئی ثبات وقرار نہیں اور کوئی بڑا مقصد ان سے حل نہیں ہوتا، تھوڑی دیر کے بعد سب تماشہ ختم ہوجاتا ہے یہی حال اس دنیا کا ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں ان مشرکین کا ایک اور برا حال یہ بتلایا گیا کہ جیسے یہ لوگ تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کو منفرد ماننے کے باوجود اس جہالت کے شکار ہیں کہ بتوں کو خدائی کا ساجھی بتاتے ہیں۔ اس سے زیادہ عجب یہ ہے کہ جب ان پر کوئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تو اس مصیبت کے وقت بھی ان کو یہ یقین اور اقرار ہوتا ہے کہ اس میں کوئی بت ہمارا مددگار نہیں بن سکتا۔ مصیبت سے رہائی صرف اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے اس کے لئے بطور مثال کے فرمایا کہ یہ لوگ جب دریا کے سفر میں ہوتے ہیں اور ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے، تو اس خطرہ کو ٹالنے کے لئے کسی بت کو پکارنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے مضطر اور بیقرار ہونے اور وقتی طور پر دنیا کے سارے سہاروں سے منقطع ہونے کی بناء پر ان کی دعا قبول کر کے ان کو دنیا کے مہلکہ سے نجات دے دیتا ہے۔ مگر یہ ظالم جب خشکی پر پہنچ کر مطمئن ہوجاتے ہیں تو پھر بتوں کو خدا کا شریک کہنے لگتے ہیں۔ آیت فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ کا یہی مطلب ہے۔ فائدہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر بھی جس وقت اپنے آپ کو بےسہارا جان کر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس وقت یہ یقین کرتا ہے کہ خدا کے سوا مجھے اس مصیبت سے کوئی نہیں چھڑا سکتا، تو اللہ تعالیٰ کافر کی بھی دعا قبول فرما لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ مضطر ہے اور اللہ تعالیٰ نے مضطر کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ (قرطبی وغیرہ) اور ایک آیت میں جو یہ ارشاد آیا ہے وَمَا دُعٰۗـؤُا الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ ، یعنی کافروں کی دعا ناقابل قبول ہے، یہ حال آخرت کا ہے کہ وہاں کافر عذاب سے رہائی کی دعا کریں گے تو قبول نہ ہوگی۔