Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 66

سورة العنكبوت

لِیَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ ۚ ۙ وَ لِیَتَمَتَّعُوۡا ٝ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۶﴾

So that they will deny what We have granted them, and they will enjoy themselves. But they are going to know.

تاکہ ہماری دی ہوئی نعمتوں سے مکرتے رہیں اور برتتے رہیں ابھی ابھی پتہ چل جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So that they become ingrate for that which We have given them, and that they take their enjoyment, but they will come to know.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

661یہ لام کئی ہے جو علت کے لیے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] یعنی اس سے زیادہ ناشکری کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی ضروریات زندگی تو سب اللہ تعالیٰ مہیا کرے اور جب جان پر بن جائے تو اس مصیبت سے نجات بھی اللہ ہی دے۔ لیکن جب آسودہ حالی کا وقت آئے تو انسان نہ صرف یہ کہ اللہ کو بھول جائے۔ بلکہ اس کے اختیارات میں دوسروں کو بھی شریک بنانے لگے۔ اس آیت میں دور نبوی کے مشرکوں کا ذکر ہے جو کم از کم آڑے وقتوں میں تو اکیلے اللہ کو پکارتے تھے۔ مگر آج کا مشرک ان مشرکوں سے بازی لے گیا ہے۔ جو عقیدہ ہی یہ رکھتا ہے کہ اس کا بیر اس کے ہر کام اور اس کے سارے احوال سے واقف ہوتا ہے اور مشکل وقت میں اس سے فریاد کرنے پر فوراً وہ مدد کو پہنچ جاتا ہے۔ اور موت سامنے کھڑی دیکھ کر بھی && یا بہاء الحق بیڑا بنے دھک && جیسے نعرے لگاتا اور اپنے پیر کو فریاد رسی کے لئے پکارتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی وجہ کے لئے سورة یونس کا حاشیہ نمبر ٣٤ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰهُمْ ۔۔ : یعنی نجات پانے کے بعد شرک کرنے سے انھیں اس کے سوا کچھ حاصل نہیں کہ ہماری عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کرتے رہیں اور صرف دنیا کی لذتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں، جبکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ سو بہت جلد وہ اپنے اس کام کا انجام جان لیں گے۔ (بغوی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِـيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰہُمْ۝ ٠ۚۙ وَلِيَتَمَتَّعُوْا۝ ٠۪ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝ ٦٦ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ آتینا [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے جع نعمت ان کو دی ہے اس کی قدر نہیں کرتے ہیں اور یہ لوگ اپنے کفر و شرک میں چند دن اور لطف اٹھا لیں پھر قریب ہی نزول عذاب پر ان کو سب خبر ہوجائے گی کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلِیَتَمَتَّعُوْاوقفۃ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) ” اس دنیا میں تو یہ لوگ اللہ کی نافرمانیاں بھی کر رہے ہیں اور مزے بھی اڑا رہے ہیں ‘ لیکن عنقریب جب آنکھ بند ہوگی تو اصل حقیقت ان کے سامنے آجائے گی : یہی اسلوب اور انداز ہمیں ” سورة التّکاثر “ میں بھی نظر آتا ہے : (اَلْہٰٹکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۔ ثُمَّ کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) ” تم لوگوں کو غافل رکھا باہم کثرت کی خواہش نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔ ہرگز نہیں ! عنقریب تم جان لوگے۔ پھر ہرگز نہیں ! عنقریب تم جان لوگے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104 For explanation, see E.N.'s 29 and 41 of Surah Al-An`am; E.N.'s 29 and 31 of Surah Yunus and E.N. 84 of Surah Bani Isra'il.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 104 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، سورہ انعام حاشیہ نمبر 29 و 41 ، سورہ یونس حاشیہ 29 و 31 ۔ سورہ بنی اسرائیل حاشیہ 84 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:66) لیکفروا بما اتینھم۔ میں لام کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) یہ لام کی ہے کے (تاکہ) کے معنی میں آیا ہے اور اس کے مرادف ہے۔ ای لکی یکفروا تاکہ وہ ناشکری کریں یا کفر کا ارتکاب کریں۔ والمعنی یعودون الی شرکہم لیکونوا بالعرد الی شرکہم کافرین بنعمۃ النجاۃ۔ وہ شرک کی طرف پلٹ آتے ہیں تاکہ اس طرح شرک کی طرف مڑ آنے سے نجات کی نعمت کی ناشکری کریں۔ گویا شرک کا ارتکاب کرکے وہ اللہ کی نجات والی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔ (2) یہ لام امر کا ہے اور اعملوا ما شئتم (کرلو جو تم چاہتے ہو) کا مرادف ہے یہاں امر کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ناشکری کریں بلکہ غصہ و غضب کا اظہار ہے اور تہدید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ وہ جیسے چاہیں ناشکری کرلیں۔ بالآخر ان سے نپٹ لیا جائے گا۔ بما میں ما موصولہ ہے ما اتینھم (جو نعمت) ہم نے ان کو دہی ہے (یعنی سمندر کے طوفان سے نجات) ولیتمتعوا۔ واؤ عاطفہ ہے لام جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے یتمتعوا مضارع مجزوم جمع مذکر غائب۔ تمتع (تفعل) مصدر۔ فائدہ حاصل کرتے رہیں۔ مزہ اڑاتے رہیں۔ فسوف یعلمون۔ وہ عنقریب جان لینگے۔ (اپنے سو اعمال کا نتیجہ۔ تہدیدا کہا گیا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ بتوں کے تھانوں پر جا کر نذر مانتے اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ آج کل کے مسلمان ان سے بھی بدتر ہیں کہ یہ مصیبت کے وقت بھی غیر اللہ کو پکارتے اور ان کے نعرے لگاتے ہیں۔ اعاذنا اللہ من ھذہ الضلالۃ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیکفروا بما ۔۔۔۔۔ یعلمون (29: 66) ۔ یہ نہایت ہی شدید ڈراوا ہے یعنی نامعلوم مصیبت کا۔ عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو بتاتے ہیں کہ دیکھو اللہ نے تم کو یہ ” حرم امن “ دیا ہے جس کے اندر تم نہایت ہی امن و سکون سے زندگی بسر کرتے ہو۔ کیا اللہ کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے۔ یوں کہ صرف اللہ کی بندگی کریں اور اسی کو پکاریں بلکہ اس کے برعکس اس حرم امن میں اہل ایمان کو تم ڈراتے اور پریشان کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ دونوں صیغوں میں لام بمعنی کَیْ ہے یعنی وہ شرک کرتے ہیں تاکہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کریں اور شرک پر اتحاد و اتفاق کا فائدہ اٹھائیں ای یشرکون لیکونوا کافرین بما اتیناھم من نعمۃ النجاۃ بسبب شرکھم ولیتمتعوا باجتماعہم علی عبادۃ الاوثان و توادھم علیہا (روح ج 21 ص 13) ۔ یا دونوں میں لام امر کا ہے قرینہ یہ ہے کہ ایک قراءت میں ولیتمتعوا کا لام ساکن ہے اور سکون لام امر ہی پر جائز ہے لام کَیْ ہے جائز نہیں اس صورت میں یہ تہدید و وعید ہوگی وقیل ھما لام امر معناہ التہدید والوعید۔ ومن قرا و لیتمتعوا باسکان اللام لم یجعلھا لام کی لان لام کی لایجوز اسکانھا (قرطبی ج 13 ص 363) ۔ فسوف یعلمون۔ اب کفرانِ نعمت اور شرک کرلیں عنقریب اس کا انجام دیکھ لیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

66۔ تا کہ جو احسان ہم نے ان پر کیا ہے اس کی نا شکری اور کفران نعمت کریں اور تا کہ یہ ہوائے نفسانی کی اتباع کر کے چند دن اور فائدہ اٹھالیں سو اب عنقریب یہ لوگ جان لیں گے اور ان کو سب معلوم ہوجائے گا کہ یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ تو گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب کی دفعہ خدا نے بچا لیا تو ہم ایمان لے آئیں گے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کو خشکی پر لے آتا ہے تب ہی شرک کرنا اور بتوں کو پکارنا شروع کردیتے ہیں جس کا انجام اور ماحصل یہ ہے کہ جو نجات ہم نے ان کو غرق سے دی تھی اس کی نا شکری کریں اور کفر پر قائم رہیں اور دنیوی زندگی کو کچھ اور دنوں برت لیں اور کچھ اور فائدہ اٹھا لیں اور من مانی کارروائیں کرتے پھریں ، بہر حال اب آگے چل کر ان کو سب معلوم ہوجائے گا۔