Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 8

سورة العنكبوت

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسۡنًا ؕ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡہُمَا ؕ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸﴾

And We have enjoined upon man goodness to parents. But if they endeavor to make you associate with Me that of which you have no knowledge, do not obey them. To Me is your return, and I will inform you about what you used to do.

ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to be Good and Dutiful to Parents Allah's saying; وَوَصَّيْنَا الاِْنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ... And We have enjoined on man to be dutiful to his parents; Allah commands His servants to be dutiful to parents, after urging them to adhere to belief in His Tawhid, because a person's parents are the cause of his existence. So he must treat them with the utmost kindness and respect, his father for spending on him and his mother because of her compassion for him. Allah says: وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّـهُ وَبِالْوَلِدَيْنِ إِحْسَـناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَ تَقُل لَّهُمَأ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِى صَغِيرًا And your Lord has decreed that you worship none but Him. And that you be dutiful to your parents. If one of them or both of them attain old age in your life, say not to them a word of disrespect, nor shout at them, but address them in terms of honor. And lower unto them the wing of submission and humility through mercy, and say: "My Lord! Bestow on them Your mercy as they did bring me up when I was young." (17:23-24) Although Allah orders us to show kindness, mercy and respect towards them in return for their previous kindness, He says: ... وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَإ تُطِعْهُمَا ... but if they strive to make associate with Me, which you have no knowledge of, then obey them not. meaning, if they are idolators, and they try to make you follow them in their religion, then beware of them, and do not obey them in that, for you will be brought back to Me on the Day of Resurrection, and Allah will reward you for your kindness towards them and your patience in adhering to your religion. ... إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ Unto Me is your return and I shall tell you what you used to do. It is Allah Who will gather you with the group of the righteous, not with the group of your parents, even though you were the closest of people to them in the world. For a person will be gathered on the Day of Resurrection with those whom he loves, meaning, religious love. Allah says: وَالَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ

انسان کا وجود پہلے اپنی توحید پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم فرما کر اب ماں باپ کے سلوک واحسان کا حکم دیتا ہے ۔ کیونکہ انہی سے انسان کا وجود ہوتا ہے ۔ باپ خرچ کرتا ہے اور پرورش کرتا ہے ماں محبت رکھتی ہے اور پالتی ہے ۔ دوسری آیت میں فرمان ہے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23؀ ) 17- الإسراء:23 ) اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماچکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کی پوری اطاعت کرو ۔ ان دونوں یا ان میں سے ایک کا بڑھاپے کا زمانہ آجائے تو انہیں اف بھی نہ کہنا ڈانٹ ڈپٹ تو کہاں کی ؟ بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنا اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرنا کہا اے اللہ ان پر ایسا رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پر کیا کرتے تھے ۔ لیکن ہاں یہ خیال رہے کہ اگر یہ شرک کی طرف بلائیں تو ان کا کہا نہ ماننا ۔ سمجھ لو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑے ہونا ہے ۔ اس وقت میں اپنی پرستش کا اور میرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کا بدلہ دونگا ۔ اور نیک لوگوں کے ساتھ حشر کرونگا اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جو میرے احکام کے خلاف نہیں تو وہ خواہ کیسے ہی ہوں میں تمہیں ان سے الگ کر لونگا ۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہوگا جسے وہ دنیا میں چاہتا تھا ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو میں اپنے صالح بندوں میں ملادونگا ۔ حضرت سعد فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے ۔ یہ اس لئے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اے سعد! کیا اللہ کا حکم میرے ساتھ نیکی کرنے کا نہیں ؟ اگر تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار نہ کیا تو واللہ میں کھانا پینا چھوڑ دونگی چنانچہ اس نے یہی کیا یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا حلق میں پہنچا دیتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ( ترمذی وغیرہ )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انھیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقینا خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ 82یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے ' کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں '۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر انکی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٠] اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنے حقوق کے بعد متصلا |" والدین کے حقوق اور ان سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے۔ جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تفصیل کے لئے سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ کا حاشیہ ٢٥ [ ١١] یعنی تمام کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کی شریک ہوسکے۔ اور اللہ کی اپنی شہادت بھی یہی ہے کہ وہ اللہ جو کائنات کا ایک ایک چیز کا ذرہ ذرہ بھر تک علم رکھتا ہے۔ اس کے علم میں بھی کوئی چیز نہیں جو اس کی شریک ہو۔ تو پھر تجھے یا کسی دوسرے کو کیا علم ہوسکتا ہے اور اس آیت میں لَکَ کا لفظ محض تاکید مزید کے طور پر ہے اور جو لوگ بعض اشیاء یا ہستیوں کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں تو یہ محض ان کے جاہلانہ اوہام اور بےسند خیالات ہیں۔ حقیقت کی انھیں بھی کچھ خبر نہیں۔ [ ١٢] یعنی والدین بھی تجھے شرک پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی۔ چناچہ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے معصب بن سعد کہتے ہیں کہ اس کی ماں نے قسم کھائی تھی کہ وہ سعد سے کبھی بات نہ کرے گی جب تک وہ اپنا دین (اسلام) نہ چھوڑے گا، نہ ہی وہ کچھ کھائے گی اور نہ پئے گی۔ وہ سعد سے کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے والدین کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم دے رہی ہوں۔ پھر تین دن اس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ ہی سعد سے بات کی۔ تین دن کے بعد اسے غش آگیا تو اس کے ایک دوسرے بیٹے عمارہ نے اسے پانی پلایا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ سعد کے حق میں بددعا کرنے لگی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب فی فضل سعد بن ابی وقاص) اور دوسری احادیث و روایات سے جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب اسلام لائے اس وقت آپ انیس بیس برس کے نوجوان تھے اور بالکل آغاز اسلام ایمان لائے تھے وہ خود روایت کرتے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد مجھ پر سات دن ایسے گزرے ہیں کہ میں کل مسلمانوں کا تیسرا حصہ تھا (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعد) یعنی رسول اللہ کے گھرانہ کے علاوہ اس وقت تک صرف تین آزاد مرد مسلمان تھے۔ جن میں سے ایک یہی حضرت بن ابی وقاص تھے اور وہ اپنے ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ جب ان کی ماں نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی۔ تو آپ نے اپنی ماں سے کہا : ماں ! اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے نہیں پھروں گا۔ تو کھا یا نہ کھایا تجھے اختیار ہے۔ شرک تو خیر سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ شریعت نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اگر اللہ کی نافرمانی کی کوئی بھی بات ہو تو اللہ کے مقابلہ میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہوسکتی ہے۔ (متفق علیہ) خواہ حکم دینے والے والدین ہو یا بادشاہ ہو یا امیر ہو، کسی کی بھی اللہ کے مقابلہ میں اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ اس آیت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ شرک یا اللہ کی نافرمانی کے علاوہ باقی ہر طرح کے معاملات میں والدین کی اطاعت فرض ہے۔ جیسا کہ سعد بن ابی وقاص کی والدہ نے بھی جو کافر تھی یہی کچھ سمجھا تھا۔ مگر دور حاضر کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن میں اطاعت والدین کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں : && دنیا کے تمام مذاہب اور اخلاق کے دبستانوں میں && یہ چیز (اطاعت والدین) ایک مسلمہ کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے کہ && ماں باپ کی اطاعت فرض ہے && ایسے مسلمہ کی حیثیت جو کسی بھی غور و فکر، تنقید کی محتاج ہی نہیں۔ ان کے ہاں کبھی کسی نے اتنا خیال کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ بھی کوئی ایسی بات ہے جس میں دو رائیں ہوسکتی ہیں۔ لیکن قرآن کو دیکھئے۔ اس نے دنیا میں پہلی بار یہ آواز بلند کی ہے کہ جو لوگ عقل کے انحطاط کے دور میں پہنچ گئے ہوں ان کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے۔ ماں باپ حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ جب تک بچہ بچہ ہے وہ اس کے نگران اور کفیل ہیں۔ جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کے تجربوں سے مشورہ سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اسے ان کے فیصلوں کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ && (قرآنی فیصلے ص ١٣٨) اس اقتباس سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے : ١۔ اخلاق کے تمام دبستان اور دنیا کے تمام مذاہب اطاعت والدین کی فرضیت پر متفق ہیں۔ ان مذاہب میں سب اہل کتاب بھی شامل ہیں۔ جن کے انبیاء پر وحی الٰہی نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ والدین کی اطاعت سب انبیاء کی تعلیم کا حصہ رہا ہے۔ ٢۔ پھر ان مذاہب میں یا اہل کتاب میں مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں قرآن جیسی کتاب دی گئی۔ اس قرآن میں پہلی بار یہ صدا بلند کی گئی کہ اطاعت والدین ایک بےمعنی اور لغو چیز ہے۔ لیکن قرآن کی اس صدا پر مسلمانوں نے بھی کان تک نہ دھرا یا انھیں اس صدا کی سمجھ ہی نہ آسکی۔ اور وہ بھی اطاعت والدین دوسرے مذاہب کی طرح واجب ہی سمجھتے رہے تاآنکہ پرویز صاحب نے قرآن کی اس پہلی بار کی صدا کا صحیح مفہوم سمجھا اور وہ مفہوم یہ ہے کہ && والدین کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوا کرتے && ٣۔ ماں باپ اپنی اولاد سے صرف حسن سلوک اور نرم برتاؤ کے مستحق ہیں اور بس۔ گویا پرویز صاحب کے خیال کے مطابق والدین کی اطاعت کے بغیر بھی ان سے حسن سلوک اور نرم برتاؤ ممکن ہے۔ پھر اس کے بعد پرویز صاحب اپنے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ && جب تک ماں باپ زندہ ہیں ان کا لڑکی خواہ ساٹھ ستر برس کا ہی کیوں نہ ہوجائے اسے کوئی حق حاصل نہیں کہ اپنے فیصلے اپنی صوابدید کے مطابق کرے۔ اسے ان کے فیصلوں کی تعمیل کرنے ہوگی جن کی عقل کے متعلق اس کے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس عمر میں اوندھی ہوجاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کو فرض سمجھنے والی اولاد ساری عمر عقلی طور پر اپاہج اور ذہنی طور پر بچے کے بچے رہ جاتے ہیں && (ایضاص ١٢٩) اب دیکھئے اس اقتباس میں پرویز صاحب نے جو مثال پیش فرمائی ہے وہ عقل اور نقل دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ عقلی لحاظ سے اس طرح کہ جو اولاد خود ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے اس کے والدین سو سال کی لگ بھگ ہی ہوسکتے ہیں۔ اس عمر میں وہ نان شبینہ حتی کہ نقل و حرکت تک کے لئے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس حالت میں وہ کیا فیصلے دے سکتے ہیں اور اولاد کو کیسے حکم دے سکتے ہیں۔ وہ تو اس عمر میں اپنی رائے بتلانے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو اولاد ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ تو خود ارذل العمر کی حدود میں داخل ہوچکی ہے۔ اسے کیا حق ہے کہ اب وہ اپنے فیصلے آپ کرے۔ اب فیصلے کرنے کے لئے اس کی اولاد موجود ہے۔ جو کم از کم چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر عقل کی پختگی حاصل کرچکی ہے۔ لہذا ساٹھ ستر برس کی اولاد کے لئے اس واقعاتی دنیا میں اطاعت والدین کا سوال بھی کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور نقلی لحاظ سے یہ دلیل اس لئے غلط ہے کہ قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس عمر میں لوگوں کی عقل اوندھی ہوجاتی ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں : ( وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۭ اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ 68؀) 36 ۔ يس :68) اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں۔ یعنی بچے سے جوان، پھر جوان سے بوڑھا کردیتے ہیں۔ جوانی میں وہ طاقتور تھا، بڑھاپے میں کمزور ہوجاتا ہے اس کا جسم بھرا ہوا اور سڈول تھا، بڑھاپے میں وہ نحیف و نزار وہجاتا ہے اور اس کے بند ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ اس آیت میں اس کی خلقت کے اوندھا ہونے کا ذکر ہے۔ عقل کا نہیں، اس مضمون سے ملتی جلتی دوسری آیت یہ ہے : (وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــــًٔا ۝) 22 ۔ الحج :5) && اور تم میں سے کچھ ایسے ہیں جو خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور جاننے کے بعد بےعلم ہوجاتے ہیں &&۔ یعنی ان کی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے۔ وہ اپنا سابقہ حاصل کیا ہوا علم بھی بھول جاتے ہیں۔ اس آیت میں بھی عقل کے اوندھا ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ && جب بچہ بچہ ہے، والدین اس کے نگران اور کفیل ہیں، جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو اپنے لئے آپ فیصلے کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے && اب سوال یہ ہے کہ بچپن میں تو بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے ان کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا، ورنہ اس کی تعلیم و تربیت رک جاتی ہے۔ پھر وہ نابالغ ہونے کی بنا پر شرعی احکام کا مکلف بھی نہیں ہوتا۔ اطاعت والدین کا تو سوال ہی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ عاقل و بالغ ہوجائے اور یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں جوانی کا جوش، جذبات کی فراوانی اور عقل کی ناپختگی ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ دور ہوتا ہے جس میں اسے والدین کی اطاعت کرنا ضروری ہوتی تاآنکہ وہ عقل کی پختگی کی عمر یعنی چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے جب وہ عقل کی پختگی کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے فیصلے آپ کرنے کا مجاز ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں اولاد نے والدین کی خدمات کا کیا صلہ دیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب کو بھی اپنے اس گھپلے کا احساس ہوگیا۔ چناچہ بعد میں لکھتے ہیں کہ : && اس میں شبہ نہیں کہ ہماری موجودہ معاشرت (جس میں خاندانوں میں مشترکہ زندگی بسر ہوتی ہے) کی عائلی زندگی کا تقاضا ہے کہ افراد خاندان کے متفقہ فیصلوں کے ماتحت زندگی بسر کریں اور خود سر اور سرکش نہ ہوجائیں لیکن خودسری اور سرکشی اور شے ہے اور اصابت رائے اور شے && پھر اس عبارت پر حاشیہ دے کر فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ یاد رکھئے خود فیصلے کرنے کے لئے عقل کی پختگی اور رائے کی اصابت لاینفک شرط ہے۔ اس لئے بچہ جب تک اس منزل تک نہ پہنچ جائے اسے لامحالٰہ بڑوں کے فیصلہ کے مطابق چلنا ہوگا۔ (ایضا ص ١٢٩) اس اقتباس میں جواب طلب امور یہ ہیں : ١۔ کیا بڑوں میں والدین بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ یا صرف اطاعت والدین کی مخالفت میں ان بڑوں میں والدین کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا گیا ؟ ٢۔ قرآن نے جو پہلی بار صدا بلند کی تھی کہ بڑوں کے فیصلے واجب الاتباع نہیں ہوتے اس صدا کے خلاف اب آپ خود ہی کیوں نوجوانوں کو ایسے مشورے دینے لگے ؟ ٣۔ اگر چھوٹے بڑوں کے فیصلوں کے پابند ہوں گے تو اس طرح وہ عقلی لحاظ سے اپاہج بن جائیں گے اس بات کا آپ کے پاس کیا علاج ہے ؟ اب ہم قرآن ہی سے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی اطاعت فرض ہے : ١۔ سورة عنکبوت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۝) 29 ۔ العنکبوت :8) && اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا، پھر اگر وہ اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کی حقیقت کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر && اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ اطاعت والدین حسن سلوک میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ شرک کے معاملہ میں والدین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ باقی سب معاملات میں ان کی اطاعت لازم ہے۔ ٢۔ اور سورة لقمان میں بالکل ایسے ہی الفاظ آئے ہیں البتہ یہ وضاحت زیادہ ہے : ( وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا ۡ وَّاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 15؀) 31 ۔ لقمان :15) && اور دنیوی معاملات میں والدین کا اچھی طرح ساتھ دے خواہ وہ مشرک ہوں && ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 59؀ ) 4 ۔ النسآء :59) && اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے اولی الامر ہیں && یہاں اولی الامر جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صرف حکام سلطنت ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی شامل ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مثلاً والدین، استاد، محلہ کے چوہدری، خاندان کے سربراہ وغیرہ وغیرہ یعنی اور وہ مسلمان ہیں اور اللہ کی معصیت کا حکم نہیں دیتے تو ان سب کی اطاعت لازم ہے۔ آخر ان اولی الامر کے زمرہ سے والدین کو کس لحاظ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ ٤۔ حضرت یحییٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ( وَّځ ابِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا ١ 4 ۔ ) 19 ۔ مریم :14) && یحییٰ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والے تھے۔ ان پر دباؤ ڈالنے والے اور نافرمان نہیں تھے && اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے والدین کا، خواہ وہ کسی عمر میں ہوں، سرکش اور نافرمان ہو وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا۔ گویا حسن سلوک میں دو باتیں ضرور ہیں، (١) سختی کے بجائے نرمی کا سلوک اور (٢) ان کی فرمانبرداری۔ الفاظ یدگر والدین کی اطاعت کے بغیر ان سے حسن سلوک کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ٥۔ حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی تھی۔ حضرت اسماعیل جب عاقل ہوگئے تو ان سے حضرت ابراہیم نے کہا کہ : ( فَلَمَّا بَلَــغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى ۭ قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ١٠٢۔ ) 37 ۔ الصافات :102) && میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر کر رہا ہوں، تم دیکھو کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت اسماعیل نے کہا : ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے، وہی کچھ کیجئے && اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حضرت اسماعیل اس وقت عاقل و بالغ اور رائے دینے کے لئے قابل ہوچکے تھے۔ دوسرے یہ کہ یہ اللہ کا حکم خواب میں حضرت ابراہیم کو ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل کو نہیں ہوا تھا۔ باینہمہ حضرت اسماعیل نے اپنے بوڑھے والد کی اطاعت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ نہ اس واقعہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ حضرت اسماعیل نے اپنے والد کی اطاعت میں جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی انکار نہیں کیا۔ یہ نہیں سوچا کہ یہ تو خواب کی بات ہے یا یہ کہ نعوذ باللہ اب باپ بوڑھا ہوگیا ہے جو اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے یا یہ کہ باپ تو محض میری رائے پوچھ رہا ہے کوئی حکم تو نہیں دے رہا۔ یا یہ کہ اگر خواب میں حکم ہوا ہے تو میرے باپ کو ہوا ہے، مجھے تو نہیں ہوا۔ بلکہ اپنے باپ کی منشاء کے آگے (حکم کے آگے نہیں) سرتسلیم خم کردیا اور اللہ تعالیٰ نے (فَلَمَّا أسْلَمَا) کہہ کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ حضرت اسماعیل کی اپنے باپ کے منشاء کے اطاعت بھی عین اللہ کی اطاعت تھی، کیا اس سے بڑھ کر بھی بوڑھے والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں قرآن سے کوئی درکار ہے ؟ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی مندرجہ بالا تصریحات سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے ہیں : ١۔ بلوغت سے پہلے بچہ والدین کے زیر تربیت و کفالت ہونے کی وجہ سے والدین کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ اور اس بچہ کی اطاعت اس لحاظ سے بھی خارج از بحث ہے کہ اس عمر میں بچہ شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔ ٢۔ بلوغت سے لے کر چالیس سال کی عمر تک (یعنی پختگی عقل اور اصابت رائے کی عمر تک) کے عرصہ میں اولاد کو والدین کی اور بزرگوں کی اطاعت کرنا لازم ہے کیونکہ اس عمر میں جوانی کا جوش اور جذبات کی شدت انسان کی عقل پر غالب ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اپنا نفع و نقصان بھی درست طور پر سوچنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کی اپنی عافیت بھی اسی بات میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی اطاعت کرے۔ ٣۔ اندازا چالیس سال کی عمر کے بعد جب اس کی عقل پختہ ہوجاتی ہے اس وقت تک اس کے والدین کہولت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ وہ خود اولاد کے محتاج ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی حکم اپنی اولاد کے سرتھوپ نہیں سکتے۔ تاہم اس عمر میں بھی اگر اولاد اپنے والدین کی مرضی کو مقدم رکھے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اگر کہیں اختلاف واقع ہوجائے تو پھر بھی اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے بحث وجدال کرے یا ان کو دبائے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی ان کو اف تک نہ کہے۔ انھیں دبانا یا ڈانٹنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ایسی صورت میں وہ اپنی بات نرمی سے پیش کرکے دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرے اور دنیوی امور میں یعنی ان کے قیام و طعام کے سلسلہ میں دل و جان سے ان کی خدمت کرے۔ ٤۔ اگر والدین اللہ سے شرک یا دوسرے کسی معصیت کے کام پر اولاد کو مجبور کریں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے۔ بس یہی ایک صورت ہے جس میں ان کی نافرمانی کی جاسکتی ہے۔ خواہ یہ ان کی عمر کا کوئی دور ہو۔ [ ١٣] یعنی والدین ہو یا اولاد، فرمانروا ہو یا رعایا کا کوئی فرد سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہ ہر ایک معاملہ میں تمہیں بتلا دے گا کہ زیادتی کس کی تھی اور حق پر کون تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا : اللہ پر ایمان اور عمل صالح کی تلقین اور اس کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، کیونکہ انھی سے انسان کا وجود ہوتا ہے، باپ خرچ کرتا اور پرورش کرتا ہے، جبکہ ماں دودھ پلاتی اور پالتی ہے۔ قرآن مجید میں عموماً اللہ کے حق کے بعد والدین کا حق بیان ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا ) [ بني إسرائیل : ٢٣ ] ” اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر کبھی تیرے پاس دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ ہی جائیں تو ان دونوں کو ” اُف “ مت کہہ اور نہ انھیں جھڑک اور ان سے بہت کرم والی بات کہہ۔ “ بقاعی نے پچھلی آیات کے ساتھ اس آیت کا یہ ربط نکالا ہے کہ آزمائش کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کو اس کے والدین کفرو شرک پر مجبور کریں تو ایسے موقع پر اسے ثابت قدم رہنا چاہیے اور کفرو شرک کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا : یعنی اگر والدین تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان، یعنی جس کے شریک ہونے کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں، کیونکہ علم وہ ہے جس کی دلیل ہو۔ مقصد یہ ہے کہ بھلا شرک کی بھی کوئی دلیل ہوسکتی ہے، وہ تو محض توہم پرستی اور تقلید کے اندھے پن سے وجود میں آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کے کہنے پر اللہ کے ساتھ شرک کرنا کسی صورت جائز نہیں، صرف شرک ہی نہیں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی بھی نافرمانی ماں باپ یا کسی مخلوق کے کہنے پر جائز نہیں۔ علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ) [ مسند أحمد : ١؍١٣١، ح : ١٠٩٩، صحیح علٰی شرط مسلم ] ” اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ “ اور ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِیْمَا أَحَبَّ وَکَرِہَ مَا لَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ عَلَیْہِ وَ لاَ طَاعَۃَ ) [ ترمذي، الجہاد، باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق : ١٧٠٧، و صححہ الترمذي و الألباني ] ” سننا اور ماننا مسلمان آدمی پر فرض ہے ان حکموں میں جو اسے پسند ہوں یا ناپسند ہوں، جب تک اسے (اللہ کی) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، تو جب اسے (اللہ کی کسی) نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا جائز ہے نہ ماننا۔ “ 3 سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ ان کے بارے میں قرآن کی کئی آیات اتریں، (ان میں سے یہ ہے کہ) سعد کی ماں نے (ان کے مسلمان ہونے پر) قسم کھالی کہ اس سے کبھی کلام نہیں کرے گی جب تک وہ اپنے دین سے کافر نہ ہوجائے اور نہ کھائے گی نہ پیے گی۔ اس نے کہا، تم کہتے ہو کہ اللہ نے تمہیں والدین کے بارے میں وصیت کی ہے اور میں تمہاری ماں ہوں اور تمہیں یہ حکم دیتی ہوں۔ سعد نے کہا، وہ تین دن ایسے ہی رہی، حتیٰ کہ بھوک سے اس پر غشی طاری ہوگئی، تو اس کا ایک بیٹا اٹھا جس کا نام عمارہ تھا، اس نے اسے (پانی وغیرہ) پلایا تو وہ (ہوش میں آ کر) سعد پر ب دعائیں کرنے لگی، اس پر اللہ عز و جل نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی : (وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا) [ العنکبوت : ٨ ] اور یہ آیت : (وَاِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۙفَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا) [ لقمان : ١٥ ] [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب في فضل سعد بن أبي وقاص (رض) : ١٧٤٨، بعد الحدیث : ٢٤١٢ ] اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ ۔۔ : یعنی دنیا کی یہ رشتہ داریاں اور والدین کے حقوق اس دنیا کی حد تک ہیں، آخر کار ماں باپ اور اولاد سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور پلٹ کر جانا ہے، پھر اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہی پر مجبور کیا یا ناحق زیادتی کی تو وہ پکڑے جائیں گے اور اگر اولاد نے والدین کے جائز حقوق میں کوتاہی کی تو ان سے باز پرس ہوگی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ (And We have instructed man - 29:8). Wasiyyah (وَصِیَّۃ) means to call someone for some action, when the call is based on advice and well wishing. (Mazhari) بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا (to do good to his parents - 29:8). The Word Husn (حُسن) is an infinitive which means & to be good&. at is meant here is to adopt good behavior. The meaning of the sentence is quite clear that Allah Ta’ ala has advised man to treat his parents kindly. وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِ‌كَ بِي (And if they insist upon you that you should ascribe partners to Me - 29:8). It should be taken note of that the limit of kind treatment with parents should not go beyond the point where it comes in conflict with the injunctions of Allah Ta’ ala. If they force toward infidelity or associating some one with Allah, then they must not be obeyed, as advised in a hadith لَا طَاعَۃَ لِمَخلُوقِ فِی مَعصِیِّۃِ الخَالِق (A created being must not be obeyed in, disobedience of the Creator). This Hadith has been reported by Imam Ahmad and Hakim رحمۃ اللہ علیہما who has held it as Sahih). This verse was revealed in connection with Sayyidna Sa&d Ibn Abi Waqqas (رض) . He was one of the ten companions to whom the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had given the good news of being in paradise, and who are called Al-&Ashrah Al-mubashsharah. He was an extremely obedient son of his mother and was always alert to look after her comfort. When his mother, Hamnah hint Abi Sufyan, learnt that her son, Sa&d, had accepted Islam, she got very upset and warned him against that, and then swore an oath that she would neither eat nor drink unless he turned back to his ancestral religion, or she would die of thirst and hunger, and he would be blamed universally for being the killer of his mother. (Muslim, Tirmidhi). Through this Qur&anic verse Sayyidna Sa&d (رض) was commanded not to listen to his mother. Baghawi has reported in his narration that the mother of Sayyidna Sa&d (رض) did not eat and drink for a day and night, and according to some other versions, for three days and three nights, and sticking to her oath, remained hungry and thirsty. For Sayyidna Sa&d (رض) mother&s love and obedience was one thing, but Allah&s command was another, which naturally took precedence over everything else. So he went to her and said to her firmly ` Dear mother, if there were hundred spirits in your body, and they were departing one by one, I would not have deserted my religion even seeing that scenario. It is now up to you whether you eat and drink or die. In any case I cannot abandon my religion&. Having been disappointed by his firmness, she started eating food.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور (اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ) اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس (کے معبود ہونے) کی کوئی (صحیح) دلیل تیرے پاس نہیں ہے، (اور ہر چیز ایسی ہی ہے کہ کل اشیاء کے ناقابل عبادت ہونے پر دلائل قائم ہیں) تو (اس باب میں) ان کا کہنا نہ ماننا، تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے سو میں تم کو تمہارے سب کام (نیک ہوں یا بد) جتلا دوں گا اور (تم میں) جو لوگ ایمان لائے ہوں گے ہم ان کو نیک بندوں (کے درجہ) میں (جو کہ بہشت ہے داخل کردیں گے (ور اسی طرح اعمال بد پر ان کے مناسب سزا دیں گے، پس اسی بناء پر جس نے والدین کی اطاعت کو ہماری اطاعت پر مقدم رکھا ہوگا۔ وہ سزا پائے گا اور جس نے اس کا عکس کیا ہوگا نیک جزا پائے گا، حاصل یہ ہوا کہ واقعہ بالا میں ماں باپ کی نافرمانی سے وسوسہ گناہ کا نہ کیا جائے۔ معارف و مسائل وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ ، وصیت کہتے ہیں کسی شخص کو کسی عمل کی طرف بلانے کو جبکہ وہ بلانا نصیحت و خیر خواہی پر مبنی ہو (مظہری) بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا، لفظ حسن مصدر ہے بمعنی خوبی، اس جگہ خوبی والے طرز عمل کو مبالغہ کے لئے حسن سے تعبیر کیا ہے۔ مراد واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ وصیت فرمائی کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ ، یعنی والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے حکم کی اطاعت اسی حد تک کی جائے کہ وہ حکم اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف نہ ہو، وہ اگر اولاد کو کفر و شرک پر مجبور کریں تو اس میں ان کی اطاعت ہرگز نہ کی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق (رواہ احمد و الحاکم و صححہ) یعنی خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ یہ آیت حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ صحابہ کرام میں سے ان دس حضرات میں شامل ہیں جن کو آپ نے بیک وقت جنتی ہونے کی بشارت دی ہے جن کو عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے یہ اپنی والدہ کے بہت فرمانبردار اور ان کی راحت رسانی میں بڑے مستعد تھے۔ ان کی والدہ حمنہ بنت ابی سفیان کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے سعد مسلمان ہوگئے تو انہوں نے بیٹے کو تنبیہ کی اور قسم کھالی کہ میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک کہ تم پھر اپنے آبائی دین پر واپس آجاؤ یا میں اسی طرح بھوک پیاس سے مرجاؤں اور ساری دنیا میں ہمیشہ کے لئے یہ رسوائی تمہارے سر رہے کہ تم اپنی ماں کے قاتل ہو (مسلم، ترمذی) اس آیت قرآن نے حضرت سعد کو ان کی بات ماننے سے روک دیا۔ بغوی کی روایت میں ہے کہ حضرت سعد کی والدہ ایک دن رات اور بعض اقوال کے مطابق تین دن تین رات اپنی قسم کے مطابق بھوکی پیاسی رہی۔ حضرت سعد حاضر ہوئے ماں کی محبت و اطاعت اپنی جگہ تھی، مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان کے سامنے کچھ نہ تھی، اس لئے والدہ کو خطاب کر کے کہا کہ اماں جان اگر تمہارے بدن میں سو روحیں ہوتیں اور ایک ایک کر کے نکلتی رہتی ہیں اس کو دیکھ کر بھی کبھی اپنا دین نہ چھوڑتا، اب تم چاہو کھاؤ پیو یا مر جاؤ، بہرحال اپنے دین سے نہیں ہٹ سکتا، ماں نے ان کی اس گفتگو سے مایوس ہو کر کھانا کھالیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْـنًا۝ ٠ۭ وَاِنْ جَاہَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا۝ ٠ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ٨ وصی الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] وقرئ : وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء/ 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء/ 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ( و ص ی ) الوصیۃ : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة/ 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر/ 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات/ 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سورة العنکبوت مشرک والدین سے بھی حسن سلوک ہو قول باری ہے : (ووصینا الانسان بوالدیہ حسنا۔ ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ ) ابوعبیدہ نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ۔ اللہ کے رسول ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرتا۔ “ میں نے عرض کیا۔ ” پھر کون سا ؟ “ آپ نے فرمایا : ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ “ میں نے عرض کیا : ” پھر کون سا ؟ “ آپ نے فرمایا : ” والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ “ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لا یدخل الجنۃ عاق ولا مدمن خمر۔ والدین کا نافرمان اور شراب کا رسیا جنت میں نہیں جائیں گے) ۔ آیت اور روایت دونوں اس پر دلالت کرتے ہیں کہ ایک شخص کے لئے اپنے باپ کو قتل کرنا جائز نہیں ہے خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنظلہ (رض) بن عامر کو اپنے مشرک باپ کو قتل کرنے سے منع کردیا تھا۔ اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) اور ہم نے انسان یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کو اپنے والدین یعنی مالک اور حمنۃ بنت ابی سفیان کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرا کہ جس کے شریک ہونے کے بارے میں تیرے پاس کوئی دلیل نہیں اور تجھے معلوم ہے کہ میرا کوئی شریک نہیں تو اس شرک میں ان کا کہنا نہ مان، انکے والدین مشرک تھے۔ تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے میں تمہارے سب کام بتا دوں گا کفر و ایمان نیکی اور برائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط) ” مکہ کے مذکورہ حالات میں اسلام قبول کرنے والے بہت سے نوجوانوں کے لیے اپنے والدین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بھی ایک بہت سنجیدہ مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ ایک طرف قرآن کی یہ ہدایت تھی کہ انسان اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے اور ان کی نافرمانی نہ کرے۔ دوسری طرف ایمان لانے والے بہت سے نوجوان عملی طور پر اپنے والدین سے بغاوت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ چناچہ ایسے تمام نوجوان اخلاقی اور جذباتی طور پر شدید دباؤ کا شکار تھے۔ مشرک والدین کا ان سے تقاضا تھا کہ تم ہماری اولاد ہو ‘ ہم نے پال پوس کر تمہیں بڑا کیا ہے ‘ لہٰذا تم پر لازم ہے کہ ہمارا حکم مانو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلق توڑ کر اپنے مذہب پر واپس آجاؤ۔ جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا معاملہ تھا۔ آپ (رض) کے والد فوت ہوچکے تھے۔ والدہ نے انہیں بہت ناز ونعم سے پالا تھا۔ آپ (رض) بہت سلیم الفطرت اور شریف النفس نوجوان تھے اور اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ (رض) کے ایمان لانے پر آپ (رض) کی والدہ نے ” مرن برت “ رکھ لیا اور قسم کھالی کہ اگر اس کا بیٹا اپنے والد کے دین پر واپس نہ آیاتو وہ بھوکی پیاسی رہ کر خود کو ہلاک کرلے گی۔ تصور کریں کہ ماں بھوک اور پیاس سے مر رہی ہے اور بیٹا اس کی اس حالت کو بےچارگی سے دیکھ رہا ہے۔ ایک فرمانبردار بیٹے کے لیے یہ کس قدر سخت امتحان تھا ! چناچہ یہ سوال بہت اہم تھا کہ ایسے نوجوان ان حالات میں کیا کریں ؟ ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ قرآن میں متعدد مقامات پر (البقرۃ : ٨٣ ‘ النساء : ٣٦ ‘ الانعام : ١٥١ ‘ بنی اسرائیل : ٢٣ ‘ لقمان : ١٤) اللہ تعالیٰ نے اپنے حق عبادت کا ذکر کرنے کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے۔ دوسری طرف مشرک والدین کا یہ اصرار کہ ان کی اولاد ان کی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر واپس ان کے دین پر آجائے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس نازک مسئلہ کے بارے میں راہنمائی فرمائی گئی ہے : (وَاِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ط) ” نوٹ کیجیے یہاں ” جہاد “ کا لفظ مشرک والدین کی اس ” کوشش “ کے لیے استعمال ہوا ہے جو وہ اپنی اولاد کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے کرسکتے تھے۔ گویا یہاں یہ لفظ اپنے خالص لغوی معنی (جدوجہد کرنا ‘ کوشش کرنا) میں آیا ہے۔ اس آیت میں بہت واضح انداز میں اولاد کے لیے والدین کی فرمانبرداری کی ” حد “ (limit) بتادی گئی کہ والدین کے حقوق بہر حال اللہ کے حقوق کے بعد ہیں۔ یعنی اللہ کا حق ‘ اس کا حکم اور اس کے دین کا تقاضا ہر صورت میں والدین کے حقوق اور ان کی مرضی پر فائق رہے گا۔ لہٰذا کسی نوجوان کے والدین اگر اسے کفر و شرک پر مجبور کر رہے ہوں تو وہ ان کا یہ مطالبہ مت مانے۔ البتہ اس صورت میں بھی نہ تو وہ ان کے ساتھ بد تمیزی کرے اور نہ ہی سینہ تان کر جواب دے ‘ بلکہ ادب سے انہیں سمجھائے کہ ان کا یہ حکم ماننا اس کے لیے ممکن نہیں ‘ اس لیے اس کی درخواست ہے کہ وہ اس کے لیے اس پر دباؤ نہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ (سورۂ مریم ‘ آیات ٤٢ تا ٤٥) اس حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔ اس مکالمے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ( علیہ السلام) اپنے والد کو بار بار یٰاَبَتِ ‘ یٰاَبَتِ ( ابا جان ! ابا جان ! ) کے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں۔ والدین کے حقوق کے حوالے سے یہ مضمون سورة لقمان میں زیادہ وضاحت سے بیان ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 According to Muslim, Tirmidhi, Ahmad, Abu Da'ud and Nasa`i, this verse was Sent down in respect of Hadrat Sa`d bin Abi Waqqas. He was 18 or 19 years old when he embraced Islam. When his mother, Hamnah, daughter of Sufyan bin Umayyah (neice of Abu Sufyan), came to know that her son had become a Muslim, she said, "I will neither eat nor drink nor sit in shade unless you disown Muhammad. The rights of the mother are supermost even according to Allah's Command. Therefore if you disobey me, you will be disobeying Allah too." Hadrat Sa'd was perplexed and came before the Holy Prophet and told his whole story. At this, this verse was revealed. Possibly other young men who embraced Islam in the initial stage at Makkah were also confronted with similar situations. Therefore, the same theme has been repeated forcefully in Surah Luqman: 15 also. What the verse means to impress is this: The rights of the parents, among the creation of Allah, are to be held as the supreme, but even if the parents force a person to adopt shirk, they should not be obeyed. The words, "If both of them force you to associate..." imply that a lesser pressure, or a pressure by either of them, deserves to be set aside much more promptly. The next sentence, ".... whom you do not know (as such)," is also noteworthy. This gives a sound reason for not obeying the parents in this regard. The parents certainly have the right that the children should serve them, respect them, and obey them in lawful things. But they do not have the right that one should obey them blindly against one's knowledge of the reality. Therefore, there is no reason why a person should go on following his parents' religion just because it is their religion. If the children come to know that their parents are following a false religion, they should give it up and adopt the right religion. and should not follow the wrong way whose falsehood has become clear to them even if the parents use every kind of pressure for it. When this is so in the case of even the parents, it should be so with every other person, too. No one deserves to be followed and obeyed unless one is sure that the person being followed is on the right path. 12 That is, "The relationships of the world and their obligations are confined to the world. At last, the parents as well as the children have to return to their Creator, and before Him everybody will be held answerable only on the basis of his personal responsibility. If the parents have misled the children, they will be called to account . If the children have accepted deviation for the sake of the parents, they will be punished. And if the children adopted the right way, and showed no slackness in rendering the parents' lawful rights either, but the parents ill-treated them only for the reason that they did not join them in their deviation, they will not be able to escape Allah's punishment."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 11 اس آیت کے متعلق مسلم ، ترمذی ، احمد ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ وہ 18 ۔ 19 سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا ، ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ ( ابو سفیان کی بھتیجی ) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی ، نہ سائے میں بیٹھوں گی ، ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے ، تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا ۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا عرض کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے ۔ اسی لیے اس مضمون کو سورہ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو آیت 15 ) آیت کا منشا یہ ہے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں ۔ لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے ، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے ۔ پھر الفاط یہ ہیں کہ وَاِنْ جَاهَدٰكَ اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک کا زور دینا تو بدرجہ اولی رد کردینے کے لائق ہے ۔ اس کے ساتھ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ( جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا ) کا فقرہ بھی قابل غور ہے ۔ اس میں ان کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے ۔ ماں باپ کا یہ حق تو بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے ، ان کا ادب و احترام کرے ، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے ۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے ۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو ۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے ۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 12 یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں ۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے ، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے ۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے ، اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی ۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی ، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا ، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اس آیت نے یہ اصول بتا دیا ہے کہ اگر والدین کافر ہوں، تب بھی ان کے ساتھ عام برتاؤ میں نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی توہیں یا ان کو تکلیف پہنچانا مسلمان کا کام نہیں ہے لیکن اگر وہ کفر و شرک پر مجبور کریں تو ان کا کہا ماننا جائز نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ صحیح مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت سعد بنابی وقاص (رض) کی روایت ١ ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب حضرت سعد (رض) نے اسلام قبول کیا تو انکی ماں نے ان کو اسلام سے باز رکھنے کے ارادہ سے کھانا پینا چھوڑ دیا کئی روز تک کھانا نہیں کھایا اور یہی کہتی تھیں کہ جب تک سعد تم اپنا قدیمی دین اختیار نہ کرو گے میں کھانا نہ کھاؤں گی حضرت سعد (رض) نے جواب دیا کہ میری ماں اگر ہزار دفعہ بھی مر کر جیوے گی اور پھر مرے گی جب بھی میں اسلام سے ہزگز نہ پھروں گا ان ماں بیٹوں کے جھگڑے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرما دیا کہ اگرچہ ماں باپ کا حق بہت بڑا ہے لیکن جس اللہ نے ماں باپ اور اولاد سب کو پانی قدرت سے پیدا کیا ہے اس کا حق سب سے بڑا ہے اس کے حکم کے محالف ماں ہو یا باپ پیر ہو یا استاد کسی کی فرما نبرداری جائز نہیں ہے بہت سی صحیح حدیثوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے مضمون کی تفسیر فرمائی ہے چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس امر میں خدا کی نافرمانی لازم آتی ہے اس امر میں مسلمان کو کسی کی فرمانبرداری نہیں چاہیے دوسری روایت صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ٢ ؎ علی (رض) کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس امر کو شریعت جائز رکھے مخلوق کی فرما نبرداری اس امر میں ہوسکتی ہے جب خالق کی نافرمانی کسی امر میں نظر آوے تو پھر کسی مخلوق کی فرما نبرداری نہیں چاہیے اس آیت کے آگے منافقوں کا ذکر فرما کر یہ جتلایا ہے کہ خواہ ماں کی ناراضی ہو خواہ باپ کی خواہ تکلیف ہو خواہ راحت مسلمانوں کو منافقوں کی طرح دین میں ڈانواں ڈول نہیں رہنا چاہیے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ٣ ؎ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اپنے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں جو لوگ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی زیادہ گناہ گار نہیں یہ حدیث مالیس لک بہ علم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم جو انسان پر واجب ہے اس کی سند تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اب شرک میں گرفتار لوگوں کے پاس جب کوئی سند نہیں ہے تو مشرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ گار نہیں ہے آخر آیت میں فرمایا کہ ایک دن سب کو اللہ کے روبرو حاضر ہونا پڑے گا اور فرما نبرداروں کی جزا اور نافرمانوں کی سزا کا پورا پورا فیصلہ ہوجائے گا مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کا واسطہ فقط دنیا کا ہے اور اللہ تعالیٰ کا واسطہ دونوں جہاں کا اس لیے اللہ کی فرما نبرداری سب کی فرما نبرداری سے مقدم ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٠٥ ج ٣ الدر المنثور ص ١٤١ ج ٥ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٣١٩ کتاب الامارۃ والقضائ۔ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ باب الکبائر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:8) وصینا۔ ماضی جمع متکلم۔ وصی یوصی توصیۃ (تفعیل) حکم دینا۔ وصینا ای امرنا ہم نے حکم دیا۔ ہم نے ہدایت کی۔ الوصیۃ کے اصل معنی ہیں کہ واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنا۔ وصی ب ۔ کسی کام کا عہد لینا کسی کام کا اشارہ کرنا۔ وصی الی فلان کسی کو اپنے مال اور بال بچوں پر اپنے مرنے کے بعد وصی بنانا اور وصی فلان بولدہ مہربان بنانا۔ پس وصینا الانسان بوالدیہ حسنا ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ مہربان رہنے کا حکم دیا۔ والدیہ اسم فاعل تثنیہ۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ اصل میں والدین تھا نون بوجہ اضافت کے ساقط ہوگیا۔ اس کے ماں باپ۔ جاھداک۔ جاھدا ماضی تثنیہ مذکر غائب۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر (اگر) وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں۔ مجاھدۃ (مفاعلۃ) سے۔ نیز ملاحظہ ہو 29:6 فانبئکم۔ انبی مضارع واحد متکلم۔ نبا ینبی تنبئۃ (تفعیل سے) خبردار کرنا۔ اطلاع دینا۔ آگاہ کرنا۔ خبر دینا۔ ن ب ء مادہ۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ پھر میں آگاہ کروں گا تمہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی ان کی خدمت کرے اور ان سے عاجزی سے پیش آئے۔ (دیکھئے سورة اسرا آیت 23 ۔ 24) 4 ۔” یعنی جس کے شریک ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ “ بھلا شرک پر دلیل کیسے ہوسکتی ہے۔ یہ تو وہم پرستی اور اندھی تقلید سے وجود میں آیا ہے۔ 5 ۔ اس لئے کہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ ماں باپ ہوں یا کوئی اور سب کی اطاعت اس صورت میں ہے جب ان کا حکم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ہو یا کم از کم اس کے خلاف نہ ہو۔ مروی ہے کہ یہ آیت حضرت سعد (رض) بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب وہ اسلام لائے تو ان کی والدہ نے کہا : ” کیا اللہ نے تمہیں ماں سے نیک سلوک کرنے کا حکم نہیں دیا ؟ اللہ کی قسم جب تک تم محمد (ﷺ) سے انکار نہ کرو گے میں نہ کچھ کھائوں گی اور نہ پیئوں گی یہاں تک کہ مر جائوں۔ “ چناچہ اس نے مرن برت رکھ لیا۔ اس کے رشتہ دار جب اسے کھلانا چاہتے تو اس کا منہ کھول کر زبردستی کھلاتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) 6 ۔ یعنی بتلائوں گا کہ تمہارے اعمال کہاں تک نیک تھے اور کہاں تک برے ؟ پھر ہر ایک اعمال کی جزا اور بداعمال کی سزا دوں گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 8 تا 13 : وصینا ( ہم نے وصیت کی۔ ہم نے حکم دیا) جاھدا (دونوں نے کوشش کی) ‘ لاتطع ( کہنا مت مان۔ اطاعت نہ کر) انبی ( میں بتاؤں گا) اوذی ( تکلیف دی گئی) صدور (صدر) سینے ‘ نحمل ( ہم اٹھائیں گے) اثقال (ثقل) بوجھ ‘ یسئلن ( وہ ضرور سوال کئے جائیں گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 8 تا 13 : کفر ‘ شرک اور منافقت اور بدترین خصلتیں اور عادتیں ہیں جن کی بدترین سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اللہ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک کرنے والا مشرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ” بیشک اللہ اس بات کو معافر نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ اور اس کے علاوہ وہ جس گناہ کو چاہے معاف کرسکتا ہے “۔ اگر کوئی مشرک اپنے شرک سے توبہ نہ کرے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی اور اللہ اس کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ کیونکہ شرک درحقیقت اللہ کی ذات پر براہ راست حملہ ہے جسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ شرک کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ اس آیت سے بھی لگایا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ والدین جن کے ساتھ حسن سلوک جائز باتوں میں ان کی اطاعت و فرماں برداری اور بےغرض خدمت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تمام انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور اہم حق ماں باپ کا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ مومن ہیں یا کافرو مشرک ہر حال میں ان کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے۔ لیکن اگر والدین اپنی اولاد پر دبائو ڈالیں اور زور دیں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک یا گناہ کریں تو اس میں ان کی قعطاً اطاعت و فرماں برداری نہیں کی جائے گی۔ بلکہ اس کا صاف انکار کردینا لازمی اور ضروری ہے۔ کیونکہ والدین کے حقوق اس وقت تک قابل احترام ہیں جب تک خالق کے حقوق سے نہ ٹکرائیں۔ اگر خالق اور والدین کے حقوق آپس میں ٹکراجائیں تو ہر حال میں اپنے خالق ومالک اللہ کا حکم ماننا ضروری ہوگا ۔ اسی لئے صاف حکم موجود ہے کہ لا طاعتہ المخلوق فی معصیتہ الخالق خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے حضرت سعد ابن ابی وقاص ان دس خوش نصیب صحابہ (رض) میں سے ایک ہیں جن کو دنیا ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری اور بشارت دی گئی ہے۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ ان کے واقعات زندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنی والدہ غمنہ بنت ابی سفیان سے والہانہ محبت کرتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری میں ایک مثال تھے۔ جب حضرت سعد (رض) نے دین اسلام قبول کرلیا اور اس بات کی اطلاع ان کی والدہ کو ہوئی تو وہ بہت ناراض ہوئیں اور ان پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اس دین کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کے مذہب کو پھر سے اختیار کرلیں۔ انہوں نے حضرت سعد (رض) پر دبائو ڈالنے کے لئے قسم کھالی کہ جب تک وہ اس دین کو نہ چھوڑیں گے اس وقت تک وہ نہ کھائیں گی پئیں گی اور نہ سائے میں بیٹھیں گی۔ انہوں نے کہا میں اسی طرح بھوکی پیاسی مرجاؤں گی۔ انہوں نے حضرت سعد نے کہا کہ اگر اسی حالت میں مر گئی تو ساری دنیا تجھے طعنے دے گی اور کہے گی کہ تو اپنی ماں کا قاتل ہے۔ حضرت سعد (رض) کے لئے یہ بہت کڑا اور کھٹن امتحان تھا۔ ایک طرف والدہ کی اطاعت و محبت اور دوسری طرف ان کی اپنی آخرت کا مسئلہ تھا۔ آخرکار انہوں نے دین اسلام پر استقامت کا فیصلہ کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اے اماں جان ! اگر آپ کی سوجانیں بھیہوں اور وہ ایک ایک کر کے نکلتی جائیں تو اللہ کی قسم میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا انکار نہ کروں گا۔ آگے آپ کی مرضی ہے۔ آپ جو چاہے کریں۔ حضرت سعد (رض) کے اس فیصلے کو سن کر ان کی والدہ قطعاً مایوس ہوگئیں اور انہوں نے اپنی قسم توڑ ڈالی اور خاموشی اختیار کرلی۔ (مسلم ‘ ترمذی) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” ہم نے انسان کو الدین سے حسن سلوک کی وصیت (تاکید) کی ہے۔ لیکن اگر وہ (والدین) اس بات کی کوشش کریں کہ تو کسی کو میرا شریک بنالے جس کا تجھے علم بھی نہیں ہے تو ان کا کہنا مت مان۔ کیونکہ تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ پھر میں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو میں ان کو اپنے نیک بندوں میں شامل کروں گا۔ “ شرک جس طرح ایک بدترین خصلت اور عادت ہے اسی طرح منافقت بھی برائی میں شرک سے کم نہیں ہے۔ جس کی نہایت ہیبت ناک سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ فرمایا کہ بعض وہ منافق ہیں جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے۔ لیکن اگر ان پر ذرا بھی کوئی آزمائش آجاتی ہے جس سے وہ کسی مشکل یا مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اسے ایک عذاب سمجھنے لگتے ہیں۔ اور فوراً ہی بدل جاتے ہیں اور کفار کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں اور ان کو ایمان جیسی نعمت معمولی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی منافقت کا یہ حال ہے کہ اگر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو کوئی فتح و نصرت اور کامیابی مل جاتی ہے تو وہ مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ کو ان کیدلی جذبات اور ان کی تمام حرکتوں کا پوری طرح علم ہے۔ کیونکہ ایک آدمی اپنی کسی بات کو ساری دنیا سے چھپاسکتا ہے۔ لوگوں کی نظروں میں دھول جھونک کر ان کو دھوکا دے سکتا ہے لیکن وہ اپنے اندرونی جذبات کو اللہ سے نہیں چھپا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس کے دل میں ایمان ہے اور کون منافقت کررہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مشرکین اور منافقین کے ساتھ ساتھ کافروں کا ذکر بھی کیا ہے۔ جو ایمان والوں سے کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے دین اسلام کو چھوڑ کر اپنے باپ دادا کیمذہب پر پلٹ آئو تاکہ دنیا میں اور آخرت میں ہر طرح کے نقصانات اور تکلیفوں سے محفوظ ہو جائو۔ ان کا خیال یہ تھا کہ دین اسلام کو چھوڑ دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اگر آخرت میں پوچھ گچھ ہوئی تو ہم تمہارا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھالیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کیبوجھ اٹھان کے قابل کہاں ہوں گے کیونکہ ان پر تو ویسے ہی دوھرے گناہوں گے ایک بوجھ تو خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے اوروں کو گمراہ کرنے اور بھٹکانے کا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ وہاں تو ایسی نفسانفسی ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی فکر پڑی ہوگی۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو گناہ پر آمادہ کرتا ہے یا کسی برے راستے پر لگاتا ہے تو اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ دوسرے کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو ہدایت کے راستے پر لگائے گا تو اس کو بھی اجر وثواب ملے گا جس نے کسی کو سیدھے راستے پر لگایا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے ‘ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کی بات مان کر ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کا ثواب اس دعوت دینے والے کو بھی ملے گا بغیر اس کے کہ بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کی بات مان کر ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کا ثواب اس دعوت دینے والے کو بھیملے گا بغیر اس کہ عمل کرنے والوں کے اجروثواب میں کوئی کمی آئے۔ اسی طرح جو شخص کسی کو گناہ یا گمراہی کے راستے پر بلائے گا اور وہ اس گناہ میں مبتلا ہوگا تو اس کے کہنے سے جو بھی گمراہ ہوگا اس کے برے اعمال کا وبال اس گمراہ کرنے والے پر بھی ہوگا۔ اور ان کے عذاب میں کوئی کمی نہ آئے گی۔ (مسلم ‘ ابن ماجہ ‘ قرطبی)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حاصل یہ ہوا کہ واقعہ بالا میں ماں کی عصیان سے وسوسہ گناہ کا نہ کیا جاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں نیک اعمال کا ذکر ہوا۔ یہاں یہ بتلایا کہ اچھے اعمال میں بہترین عمل والدین کے ساتھ بھلائی کرنا اور شرک سے اجتناب کرنا ہے۔ صالح اعمال میں سب سے بڑا عمل۔ اللہ تعالیٰ کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک سمجھنا اور اس کی خالص عبادت کرنا ہے۔ اس کے بعد دوسرا صالح عمل والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ قرآن مجید کے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد انسان کو جو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ” احسان “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ عبادت کے بارے میں استعمال ہو تو اس کا معنی ہے کہ کامل توجہ کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا۔ جب یہ لفظ لوگوں کے بارے میں استعمال کیا جائے تو اس کا معنٰی بھلائی اور دوسرے کے ساتھ احسان کرنا۔ بالخصوص والدین کے بارے میں یہ لفظ بار بار اس لیے استعمال کیا گیا ہے۔ کہ والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے ان کی کمزوریوں کو پیش نظر رکھے بغیر ان کے ساتھ احسان کا روّیہ اختیار کرنا فرض ہے۔ انسان جب اپنے آپ کو کسی کا احسان مند سمجھتا ہے تو وہ اس کی دل و جان سے قدر اور تابعداری کرتا ہے۔ اس لیے یہاں اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ اگر والدین اولاد کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں تو اولاد شرک کرنے سے انکار کردے۔ کیونکہ شرک کی بنیاد حقیقی علم اور کسی ٹھوس دلیل پر نہیں ہے۔ جب شرک کی بنیاد حقیقی علم اور ٹھوس دلیل پر نہیں تو اس سے بچنا لازم ہے۔ بیشک والدین ہی شرک کا حکم دینے والے کیوں نہ ہوں۔ یہاں اولاد کے ساتھ مشرک والدین کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ یاد رکھو کہ بالآخر تم سب نے میری طرف ہی لوٹنا ہے۔ میں تمہیں بتلاؤں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ اولاد ہو یا ماں باپ، جو بھی سچا ایمان لائے اور صالح اعمال کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور نیک لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی بِہِنَّ وَلَوْ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ ووصینا الانسان بوالدین احسانا ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں یہ باتیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائیں اگر میں مزید پوچھتا تو آپ مجھے اور بھی بتاتے۔ “ (عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ سَعْدٍ قَالَ أُنْزِلَتْ فِیَّ أَرْبَعُ آیَاتٍ فَذَکَرَ قِصَّۃً فَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَ اللَّہُ بالْبِرِّ وَاللَّہِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّی أَمُوتَ أَوْ تَکْفُرَ قَالَ فَکَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ یُطْعِمُوہَا شَجَرُوا فاہَا فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ (وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا) الآیَۃَ ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْعَنْکَبُوتِ ] حضرت سماک بن حرب بیان کرتے ہیں میں نے مصعب بن سعد (رض) سے سنا وہ اپنے باپ سعد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئی انہوں نے اپنی والدہ کا قصہ بیان کیا سعد کی والدہ کہنے لگی کیا اللہ نے ماں کے ساتھ نیکی کا حکم نہیں دیا۔ اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیؤں گی یہاں تک کہ میں مرجاؤں یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب سعد اپنی ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو وہ اپنا منہ بند کرلیتی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ میں تمہیں بتلا دوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ ) (عِنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ رواہ فی شرح السنۃ)[ مشکوۃ المصابیح : باب کتاب الامارۃ والقضاء ] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں۔ “ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَ اللَّہَ فَلاَ یَعْصِہِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ ] ” حضرت عائشہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔ اور جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔ “ مسائل ١۔ والدین کے ساتھ اولاد کو ” احسان “ کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ٢۔ والدین اولاد کو شرک پر آمادہ کریں تو اولاد کا فرض ہے کہ وہ شرک کرنے سے انکار کردے۔ ٣۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے بارے میں بتائے گا۔ ٤۔ سچا ایمان رکھنے اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ صالح لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن والدین کے بارے میں ہدایات : ١۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ : ٨٣) ٢۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہوا۔ (مریم : ٣٢) ٣۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٤۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) ٥۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) ٦۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف : ١٠) ٨۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ (النساء : ٢٦) ٩۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔ (الانعام : ١٥١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ووصینا الانسان بوالدیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الصلحین (8 – 9) والدین ، تمام اقرباء میں سے قریب تر اور زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں ، ان کے حوالے سے اولاد کو مجسم شفقت بن جانا چاہئے اور ازروئے شریعت ان پر رحم اور ان کا احترام فرض کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ محبت کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جائے ، اور ان کی اچھی طرح کفالت اور دیکھ بھال کی جائے ، لیکن ان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ اللہ کے حقوق مار کر ان کو دئیے جائیں اور ان کی اطاعت اس طرح کی جائے کہ اللہ کی نافرمانی لازم آتی ہو یہ ہے صحیح راستہ۔ ووصینا الانسان ۔۔۔۔۔۔ فلا تطعھما (29: 8) ” ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھہرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر “۔ کیونکہ مومن کا پہلا تعلق اللہ سے ہے اور یہی تعلق اور رابطہ ناقابل شکست ہے اگر والدین مشرک و کافر ہوں تو ان کے ساتھ صرف حسن سلوک کیا جائے گا۔ احترام و رعایت ہوگی ، اتباع ان کا نہ ہوگا ، دنیا کی اس مختصر زندگی میں یہی ہوگا ، اصل تو آخرت ہے جہاں دونوں اللہ کے سامنے ہوں گے۔ الی مرجعکم فانبئکم بما کنتم تعملون (29: 8) ” میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے ، پھر تم کو بتا دوں گا کہ کہ تم کیا کرتے رہے ہو “۔ قیامت میں پھر تعلق والدین و اولاد کا نہ ہوگا۔ وہاں تو مومن باہم تعلق دار ہوں گے۔ نسب اور رشتے یہیں رہ جائیں گے۔ والذین امنوا ۔۔۔۔۔ فی الصلحین (25: 9) ” جو لوگ ایمان لائے ہوں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہوں گے ان کو ہم ضرور صالحین میں داخل کریں گے “۔ یوں اللہ والے ایک جماعت ہوں گے ، جیسا کہ حقیقتاً وہ ایک جماعت ہیں۔ اور نسب ، خون اور رشتے وہاں ختم ہوں گے۔ یہ چیزیں یہاں دنیا ہی میں رہ جائیں گی۔ یہ اس دنیا کے عارضی رشتے ہیں اور جو رشتے اس اصلی رشتے سے کٹ گئے یعنی رشتہ ایمان سے تو آخرت میں وہ نابود ہوں گے۔ امام ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت سعد ابن ابی وقاص (رض) اور ان کی ماں حمنہ بنت ابی سفیان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ اپنی ماں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کرتے تھے۔ اس نے ان سے کہا ” یہ کیا دین ہے جو تو نے اپنایا ہے ؟ خدا کی قسم میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی نہ پیئوں گی جب تک تم اس دین سے ٹوٹ نہیں جاتے یا یہاں تک کہ میں مرجاؤں۔ اسی طرح لوگ پوری زندگی تمہیں طعنہ دیتے رہیں گے اور لوگ کہیں گے ” اے ماں کے قاتل “ اس نے چوبیس گھنٹے تک یہ بھول ہڑتال کی تو حضرت سعد ان کے پاس آئے اور عرض کی ” اے ماں ، اگر تمہاری سو جانیں ہوں اور تم ایک کے بعد ایک جان دیتی چلی جاؤ تو بھی میں اپنا دین چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ اگر چاہو تو کھا پی لو اگر نہ چاہو تو بھوک ہڑتال جارہی رکھو “۔ جب وہ مایوس ہوگئی کہ یہ تو ماننے والا نہیں ہے تو اس نے کھانا پینا شروع کردیا۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ، لیکن شرک کرنے میں والدین کی اطاعت نہ کرو “۔ یوں اس واقعہ میں نسب کے قریب ترین رشتے پر ایمان غالب آگیا لیکن قرآن نے رشتہ داروں اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک جاری رکھا۔ اہل ایمان کو ہر دور میں ایسی مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔ لہٰذا یہ آیت اور حضرت سعد کی یہ حدیث ہمارے لیے نشانات راہ ہیں۔ یہی امن و نجات کی راہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے، پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے، سورة بنی اسرائیل رکوع ٣ میں اس کا طریقہ کار بھی بیان فرمایا ہے، وہاں ارشاد فرمایا : (وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا اَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا) (اور تیرے رب نے حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اف بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا اے میرے رب ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔ ) سورۂ بنی اسرائیل کی مندرجہ بالا آیات میں اول تو (وَ بالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا) فرمایا جس میں والدین کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے کا حکم دیا ہے جو حسن سلوک کرنے اور ان پر مال خرچ کرنے کو شامل ہے۔ پھر بوڑھے ماں باپ کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا کہ ان کو اف بھی نہ کہو اور ان کو مت جھڑکو اور ان سے اچھے طریقے سے بات کرو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ماں باپ کے سامنے شفقت اور رحمت کی وجہ سے انکساری کے ساتھ جھکے رہو۔ پھر ان کے لیے دعا کرنے کا حکم دیا کہ یوں دعا کرو کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں میری پرورش کی ہے۔ اس میں رحمت اور شفقت کا سبب بھی بیان فرمایا کہ کبھی تم ایسے تھے کہ ان کی شفقت کے محتاج تھے، انہوں نے تمہیں پالا پوسا تمہارے لیے تکلیفیں اٹھائیں اب وہ ضعیف ہیں تم قوی ہو تمہیں ان کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔ مزید تفصیل کے لیے سورة بنی اسرائیل کی مذکورہ آیات کی تفسیر دیکھئے وہاں ہم نے بہت سی احادیث شریفہ کا ترجمہ بھی لکھ دیا ہے جو والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنے سے متعلق ہیں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنے کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا (وَ اِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا) (اور اگر تیرے ماں باپ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے معبود ہونے کی تیرے پاس دلیل نہیں تو ان کی فرمانبرداری مت کرنا) یہ حکم سورة لقمان میں بھی ہے وہاں مزید فرمایا (وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرِوْفًا) (کہ ان کے ساتھ دنیا میں اچھے طریقے پر پیش آتے رہو) یعنی اگر وہ کفر و شرک کرنے کا حکم دیں تو اس میں ان کی اطاعت مت کرنا، اور باوجودیکہ وہ کافر ہوں حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا اور ان کی خدمت سے دریغ نہ کرنا، جیسا کہ ماں باپ کے کہنے سے کفرو شرک حرام ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی بھی نافرمانی کرنا ممنوع ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ ) (کہ خالق تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی مخلوق کی فرمانبرداری کی اجازت نہیں) ، ہاں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک میں اور مالی انفاق میں کوتاہی نہ کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح) حضرت ابو بکرصدیق (رض) کی ایک بیٹی حضرت اسماء (رض) تھیں وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھیں، ان کی والدہ مشرکہ تھیں اور وہ مکہ مکرمہ میں رہ گئی تھیں، سن ٦ ھ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین مکہ کا معاہدہ ہوا جس میں یہ بھی تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ نہ کریں گے اس زمانہ میں حضرت اسماء (رض) کی والدہ مدینہ آگئیں، حضرت اسماء (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھا کہ میری والدہ آئی ہیں اور اس وقت عاجز ہیں اور مالی مدد چاہتی ہیں کیا میں مال سے ان کی خدمت کردوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں ان کے ساتھ صلہ رحمی کا برتاؤ کرو۔ (رواہ البخاری) آجکل نوجوانوں کو اس میں بڑا ابتلا ہوتا ہے کہ ماں باپ انہیں گناہوں کی زندگی اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں، داڑھی مونڈوانے پر اصرار کرتے ہیں، رشوت لینے پر آمادہ کرتے ہیں، بینک کی نوکری اختیار کرنے اور سود لینے کا بھی حکم دیتے ہیں، بےپردگی اختیار کرنے کو کہتے ہیں، ان کے علاوہ بہت سے گناہوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ اوپر حدیث سے معلوم ہوا کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی فرمانبرداری نہیں، ماں باپ کے لیے حرام ہے کہ اولاد کو گناہوں کا حکم دیں اور اولاد کے لیے بھی حلال نہیں ہے کہ ماں باپ کے کہنے پر کوئی گناہ کریں، اللہ تعالیٰ خالق اور مالک ہے، اس نے سب کو وجود بخشا ہے اس کا حق سب سے پہلے ہے اور سب سے زیادہ، کسی مخلوق کا حق اس کے بعد میں ہے، اللہ تعالیٰ کے حق کی رعایت کرنا لازم اور فرض ہے، اس کے حکم کی خلاف ورزی کسی کے کہنے سے بھی حلال نہیں ہے۔ تفسیر روح المعانی ص ١٣٩ میں آیت بالا کا سبب نزول یوں لکھا ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے اسلام قبول کرلیا تو ان کی والدہ نے کہا کہ اے سعد میں نے سنا ہے کہ تو اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں داخل ہوگیا ہے ؟ میں اللہ کی قسم کھاتی ہوں کہ میں کسی گھر میں داخل نہ ہوں گی (یوں ہی میدان میں پڑی رہوں گی خواہ دھوپ ہو اور ہوا سے میرا کچھ نہ بنے) اور مجھ پر کھانا پینا حرام ہے جب تک کہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا انکار نہیں کرے، حضرت سعد (رض) اپنی والدہ کے سب سے زیادہ چہیتے بیٹے تھے، انہوں نے کفر اختیار کرنے سے صاف انکار کردیا اور ان کی والدہ نے اپنی قسم کی وجہ سے بغیر کھائے پیئے یوں ہی میدان میں پڑے ہوئے تین دن گزار دئیے، حضرت سعد (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ سنایا، اس پر آیت بالا اور سورة لقمان کی آیت (وَوَصَّیْنَاالْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا) نازل ہوئی۔ معالم التنزیل ص ٤٦١ میں لکھا ہے کہ حضرت سعد (رض) کی والدہ نے دو دن اور دو رات تک کچھ نہ کھایا پیا، اس کے بعد حضرت سعد (رض) والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اماں جان اگر آپ کے بدن میں سو ١٠٠ روحیں بھی ہوتیں اور ایک ایک کرکے نکلتی رہی تو میں اس کو دیکھ کر بھی کبھی اپنا دین نہ چھوڑتا، اب تم چاہو تو کھاؤ پیو یا مرجاؤ، بہرحال میں اپنے دین سے نہیں ہٹ سکتا، ماں نے اس گفتگو سے مایوس ہو کر کھانا کھالیا۔ (اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) (میری طرف تمہارا لوٹنا ہے سو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کر دوں گا جو تم کیا کرتے تھے) اس میں یہ بتادیا کہ دنیا میں کوئی شخص کیسا بھی عمل کرے بہرحال اسے قیامت کے دن حاضر ہونا ہے اور دنیا میں جو اعمال کیے تھے وہ سامنے آجائیں گے اور اعمال کے مطابق جزا سزا ملے گی۔ پھر اہل ایمان اور اعمال صالحہ والے بندوں کو خوشخبری دی اور فرمایا (وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّھُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ ) (اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ہم ضرور ضرور انہیں صالحین میں داخل کریں گے) یعنی ان کا شمار صالحین میں ہوگا اور انہیں صالحین کے مراتب اور درجات سے سرفراز کیا جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ اے ایمان والو ! مسئلہ توحید کی وجہ سے تم پر کئی آزمائشیں آئیں گی۔ یہ ایک نہایت اہم اور عظیم الشان دعوی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو ہم نے تمہیں حکم دیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور ساتھ ہی حکم دیا ہے کہ توحید پر قائم رہو۔ لیکن اگر تمہارے ماں باپ مشرک ہوں اور تمہیں شرک کرنے پر مجبور کریں اور تمہارے انکار پر تمہیں تکلیف و اذیت پہنچائیں تو اس معاملے میں ان کی اطاعت ہرگز نہ کرنا اور ہر قسم کی تکلیف و اذیت کو استقلال سے برداشت کرنا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8۔ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر وہ دونوں ماں باپ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ کسی ایسی چیز کو میرا شرک بنا اور شریک ٹھہراجس کے معبود ہو نیکی کوئی صحیح دلیل تیرے پاس نہیں ہے تو تو ان دونوں کا کہنا نہ مان اور شرک کرنے میں ان کی اطاعت نہ کر تم سب کو میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے پھر میں تم کو ان سب کاموں کی حقیقت سے آگاہ کر دوں گا اور بتلا دوں گا جو تم کیا کرتے تھے۔ حمنہ بنت ابی سفیان کے صاحبزادے سعد بن ابی وقاص کا واقعہ ہے کہ ان کے مسلمانہونے پر ان کی والدہ نے دھوپ میں بیٹھنا اختیار کیا اور کھانا پینا چھوڑ دیا اور سعد سے کہا جب تک تو اسلام کو ترک نہ کریگا تو میں اسی طرح رہوں گی یہاں تک کہ مرجائوں سعد نے کہا اے ماں اگر تیری سو جائیں ہوں اور یکے بعد دیگرے نکلتی رہے تو میں اسلام چھوڑنے والا نہیں خواہ تو کھائے پئے یا بھوک کی مرجائے ، ماں نے جب دیکھا کہ باز نہیں آئے گا تو انہوں نے کھانا پینا شروع کردیا اور دھوپ میں اٹھ کر سائے میں چلی گئیں۔ مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی خدمت کرو لیکن وہ اگر کوشش کریں اور تم پر زور ڈالیں کہ اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی پر یا کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں شریک کرنے پر آمادہ کریں جس کا تم کو صحیح علم نہیں اور تمہارے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور ہر چیز ایسی ہی ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریکہونے پر کوئی دلیل نہیں بلکہ شرک کیخلاف دلیلیں قائم ہیں ، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے شرک پر اور اس کی نافرمانی پر زور دیں تو ان کا کہنا نہ مانو آحر میں فرمایا کہ تم سب کو میرے ہی پاس آنا ہے پھر جو جو عمل تم نے کئے ہیں ان سب کی حقیقت سے تم کو با خبر کر دوں گا اور تم پر اپنے کاموں کی حقیقت ظاہرہو جائے گی۔ آیت کی شان نزول شاید سعد بن ابی وقاص (رض) اور حمنہ بنت ابی سفیان کے بارے میں ہے لیکن حکم عام ہے خالق کی نافرمانی میں مخلوق اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔