Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 100

سورة آل عمران

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِیۡعُوۡا فَرِیۡقًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ یَرُدُّوۡکُمۡ بَعۡدَ اِیۡمَانِکُمۡ کٰفِرِیۡنَ ﴿۱۰۰﴾

O you who have believed, if you obey a party of those who were given the Scripture, they would turn you back, after your belief, [to being] unbelievers.

اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد مُرتد کافر بنا دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning Muslims Against Imitating People of the Scriptures Allah warns; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوَاْ إِن تُطِيعُواْ فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ O you who believe! If you obey a group of those who were given the Scripture (Jews and Christians), they would (indeed) render you disbelievers after you have b... elieved! Allah warns His believing servants against obeying the People of the Book, who envy the believers for the favor that Allah gave them by sending His Messenger. Similarly, Allah said, وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِن بَعْدِ إِيمَـنِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ Many of the People of the Scripture (Jews and Christians) wish that they could turn you away as disbelievers after you have believed, out of their own envy. (2:109) In this Ayah (3:100) Allah said, إِن تُطِيعُواْ فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ (If you obey a group of those who were given the Scripture (Jews and Christians), they would (indeed) render you disbelievers after you have believed!), then said,   Show more

کامیابی کا انحصار کس پر ہے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اہل کتاب کے اس بدباطن فرقہ کی اتباع کرنے سے روک رہا ہے کیونکہ یہ حاسد ایمان کے دشمن ہیں اور عرب کی رسالت انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ودکثیر ) الخ ، یہ لوگ جل بھن رہے ہیں ۔ اور تمہیں ایمان سے ہٹانا چاہتے ہی... ں تم ان کے کھوکھلے دباؤ میں نہ آجانا ، گو کفر تم سے بہت دور ہے لیکن پھر بھی میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی آیتیں دن رات تم میں پڑھی جا رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سچا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( مالکم لا تومنون باللہ ) تم ایمان کیسے نہ لاؤ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہارے رب کی طرف بلا رہے ہیں اور تم سے عہد بھی لیا جا چکا ہے ، حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب سے پوچھا تمہارے نزدیک سب سے بڑا ایمان والا کون ہے؟ انہوں نے کہا فرشتے آپ نے فرمایا بھلا وہ ایمان کیوں نہ لاتے؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے براہ راست تعلق ہے ، صحابہ نے کہا پھر ہم ، فرمایا تم ایمان کیوں نہ لاتے تم میں تو میں خود موجود ہوں صحابہ نے کہا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی ارشاد فرمائیں فرمایا کہ تمام لوگوں سے زیادہ عجیب ایمان والے وہ ہوں گے جو تمہارے بعد آئیں گے وہ کتابوں میں لکھا پائیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے ( امام ابن کثیر نے اس حدیث کی سندوں کا اور اس کے معنی کا پورا بیان شرح صحیح بخاری میں کر دیا ہے فالحمد للہ ) پھر فرمایا کہ باوجود اس کے تمہارا مضبوطی سے اللہ کے دین کو تھام رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر پورا توکل رکھنا ہی موجب ہدایت ہے اسی سے گمراہی دور ہوتی ہے یہی شیوہ رضا کا باعث ہے اسی سے صحیح راستہ حاصل ہوتا ہے اور کامیابی اور مراد ملتی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 یہودیوں کے مکرو فریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جانا۔ اس کا پ... س منظر تفسیری روایات میں اسطرح بیان کیا گیا ہے۔ کہ انصار کے دو قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا پہلے یہ ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے اب اسلام کی برکت سے باہم شیرو شکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان ہوئی تھی انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چناچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جذبات بھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کے ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ ان کا باہم قتال بھی شروع ہوجائے کہ اتنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہیں وہ بھی نازل ہوئیں (ابن کثیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] اس آیت میں ایک گروہ سے مراد یہود مدینہ ہیں۔ جنہیں مدینہ کے انصار (قبیلہ اوس خزرج) کا آپس میں بھائیوں کی طرح مل بیٹھنا اور شیروشکر ہوجانا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کو پھر آپس میں لڑا بھڑا کر ان میں عداوت ڈال دیں۔ جنگ بدر میں جب اللہ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی تو یہود ... کے عناد میں مزید اضافہ ہوگیا، ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس کو بہت صدمہ پہنچا اس نے ایک نوجوان یہودی کو حکم دیا کہ وہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے تھے وہ پڑھ پڑھ کر سنائے، نوجوان نے جاکر یہی کارنامہ سرانجام دیا۔ بس پھر کیا تھا ؟ تو تو میں میں سے کام شروع ہوا اور نوبت بایں جارسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا کہ && اگر تم چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جوان کرکے پلٹا دیں && ہتھیار ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور مقابلہ کے لیے حرہ کا میدان بھی طے پا گیا اور لوگ اس طرح نکل کھڑے ہوئے۔ قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ اتنے میں کسی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر دی۔ آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقع پر پہنچ گئے اور جاتے ہی فرمایا &&: مسلمانو میری موجودگی میں یہ جاہلیت کی پکار ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پکار سن کر انصار کی آنکھیں کھل گئی اور وہ سمجھ گئے کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے اور اس جال میں پھنسانے والے یہی ستم گر یہود تھے۔ پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس سازش کو ناکام بنا کر مسلمانوں کو تباہی سے بچا لیا۔ (ابن ہشام، ٥٥٥-٥٥٦) [٩٠] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر تم یہودیوں کی بات ماننے لگو گے تو یہ تمہیں اسلام سے مرتد کرکے ہی دم لیں گے اور دوسرے یہ کہ تمہیں آپس میں لڑا بھڑا کر کافر بنادیں گے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑنا کفر ہے اور خطبہ حجۃ الوداع کے دوران آپ نے مسلمانوں کے عظیم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : سن لو ! تمہاری جانیں، تمہارے اموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں۔ جیسے تمہارے اس دن کی، اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرمت ہے۔ سن لو ! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی لاترجعوا بعدی کفارا۔۔ الخ)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا : اوپر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو وعید سنائی گئی، جو لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے، اب یہاں سے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی جا رہی ہے کہ ان سے ہوشیار رہیں اور گمراہی میں نہ پڑجائیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہات کا جواب دے کر مسلمانوں سے فرمای... ا کہ ان کی بات مت سنو، یہی علاج ہے، ورنہ شبہات سنتے سنتے اپنی راہ سے پھسل جاؤ گے۔ اب بھی ہر مسلمان کا فرض ہے کہ شک پیدا کرنے والوں کی بات نہ سنیں، اس میں دین کی سلامتی ہے اور بحث سے جھگڑے بڑھتے ہیں۔ “ (موضح) يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ ۔۔ : ایمان کے بعد پھر کافر بنا دینے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کا کام آپس میں لڑانا ہے۔ اگر ان کی بات مانو گے تو آپس کے اتفاق اور محبت سے محروم ہوجاؤ گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے بعد پھر کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ “ [ بخاری، المغازی، باب حجۃ الوداع : ٤٤٠٣، عن ابن عمر (رض) ] یاد رہے کہ اس کفر سے مراد اسلام میں رہ کر کفر ہے، مرتد ہونا نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دو لڑنے والے گروہوں میں سے دونوں کو مومن قرار دے کر ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة حجرات (٩، ١٠)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوْا فَرِيْقًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ يَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ كٰفِرِيْنَ۝ ١٠٠ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوص... ف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٠۔ ١٠١) یہ آیت مبارکہ حضرت عمار (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کہ یہودیوں نے ان کو اپنے دین کی دعوت دی تھی، اہل کتاب کی ایک جماعت تمہارے ایمان لانیکے بعد یہ چاہتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منکر ہوجاؤ اور تم کسیے اللہ تعالیٰ کے منکر ہوسکتے ہو حلان کہ تم پر قرآن کری... م کے اوامرو نواہی پڑھے جاتے ہیں اور تمہارے پاس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں لہٰذا جو شخص دین الہی اور اس کی کتاب پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا تو ایسا شخص ضرور راہ راست پر آتا ہے اور اس پر استقامت حاصل ہوتی ہے، یہ آیت حضرت معاذ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور پھر اس کے بعد دوبارہ قبیلہ اوس اور خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان میں سے ثعلبہ بن غنم (رض) اور سعد بن ابی زیادہ (رض) نے اپنے زمانہ جاہلیت کی قتل و غارت گری پر فخر کیا تھا۔ شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ (الخ) فریابی (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت سے لڑائی تھی ایک دن وہ سب مل کر بیٹھے اور آپس کے جھگڑے کا ذکر کرنے لگے یہاں تک کہ غصہ میں بھر گئے اور ایک دوسرے پر ہتھیار لے کر کھڑے ہوگئے اس پر (آیت) ” وکیف تکفرون “۔ اور اس کے بعد والی آیات نازل ہوئیں۔ ابن اسحاق (رح) اور ابو الشیخ (رح) نے زید بن اسلم (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ شاس بن قیس یہودی اوس اور خزرج کے پاس سے گزرا اور ان کو آپس میں باتیں کرتا ہوا دیکھ کر حسد کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ان میں کس قدر دشمنی تھی اور اب آپس میں کس قدر محبت ہے، چناچہ اس سے برداشت نہ ہوا اس نے آکر ایک یہودی نوجوان کو حکم دیا کہ اوس و خزرج کے مسلمانوں کی مجلس میں جا کر بیٹھے اور جنگ ” بعاث “ کا ذکر چھیڑے اور ان کو اور ان کو وہ وقت یاد دلائے چناچہ اس نے آکر ایسا ہی کیا اس کی یہ باتیں سن کر انہوں نے آپس میں لڑائی اور ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کیا، قبیلہ اوس سے اوس بن قیظی اور خزرج سے جبار بن جعفریہ دونوں آدمی کھڑے ہوگئے اور آپس میں گفتگو کی جس سے دونوں قبائل غصہ میں تیار ہوگئے، اس چیز کی اطلاع رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف لائے اور ان کو نصیحت کرکے آپس میں صلح کرا دی۔ ان سب حضرات نے آپ کی بات کو بسر و چشم سنا اور اطاعت وفرمانبرداری کے لیے اپنی گردنیں جھکا دی، اللہ تعالیٰ نے قبیلہ اوس و خزرج اور جو ان کے ساتھ تھے ان کے بارے میں (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ (الخ) یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور شاس بن قیس کے بارے میں (آیت) ” یا اھل الکتاب لم تصدون “۔ والی آیت نازل فرمائی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(100 ۔ 103) ۔ تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے اور تفسیر ابو الشیخ اور تاریخ ابن اسحاق میں زید بن اسلم (رض) سے روایت ہے کہ انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں اسلام سے پہلے بڑی عدوت اور صدہا برس کی لڑائی تھی۔ اسلام کے بعد ان دونوں قبیلوں میں بڑا میل جول ہوگیا۔ اور مدتوں کی آپس کی...  لڑائی بالکل جاتی رہی ایک روز ان دونوں قبیلے کے کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے بڑی محبت سے آپس میں باتیں کر رہے تھے اتنے میں ایک شخص یہودی شاش بن قیس کا ادھر سے گذر ہوا اس یہود کو یہ امر شاق ہوا کہ ان دونوں قبیلوں میں باوجود ایسی سخت عداوت کے ایسی دلی کیونکر ہوگئی اور اس یہود نے چاہا کہ ان مسلمانوں میں پھر پھوٹ پڑجائے اپن اس ارادے کے پورا کرنے کی غرض سے اس نے ایک یہودی کے لڑکے کو ان دونوں قبیلوں میں اکثر جا کر بیٹھنے اور ان دونوں قبیلوں کی پچھلی لڑائی اور عداوت کا ذکر کرنے کی پٹی پڑھا دی وہ لڑکا آ کر ان دونوں قبیلوں میں بیٹھا اور ان کو بھی غصہ آگیا اور آپس میں لڑنے کو مستعد ہوگئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ قصہ سن کر ان مسلمانوں کے پاس تشریف لائے اور ان کو سمجھایا کہ اسلام کے بعد زمانہ جاہلیت کی باتیں یاد کر کے آپس میں پھوٹ کا ڈالنا مناسب نہیں ہے آخرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سمجھانے سے یہ مسلمان آپس میں پھر مل گئے ١۔ اللہ تعالیٰ نے آخر رکوع تک یہ آیتیں مسلمانوں کو آئندہ یہود کے اس طرح کے فریب میں نہ آنے کی غرض سے نازل فرمائیں۔ اور ان آیتوں کے اوپر کے دوٹکڑے اہل کتاب کے اس طرح کے فریب سے باز رہنے کی غرض سے نازل فرمائے اور اہل کتاب کو یہ تنبیہ فرما دی کہ اللہ کے رستہ سے لوگوں کو جو تم روکتے ہو اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں ہے ایک دن اس کا خمیازہ تم بھگتنے والے ہو اور مسلمانوں کو یہ تنبیہ فرما دی کہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور آخر دم تک مسلمانی کا شیوہ اختیار کریں اور اہل کتاب میں جس طرح آپس میں پھوٹ ہے۔ اسلام میں وہ پھوٹ روانہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کی عداوت کے بعد آپس میں تمہارے دلوں کو ملادیا ہے یہ اللہ کی بڑی نعت ہے اس نعمت کی ناشکری نہیں چاہیے اور قیامت کے دن کی سرخ روئی اور منہ جو کالے ہونے کا دل میں خیال رکھنا چاہیے اور نبی وقت تم میں موجود ہیں اور روزانہ کلام اللہ تعالیٰ کا تمہارے روبرو اترتا ہے اور احکام الٰہی تمہارے سامنے پڑھے جاتے ہیں پھر تم کیوں بہکائے سکھائے سے جاہلیت کی باتیں اختیار کرنے لگ جاتے ہو ان آیات میں یہ جو فرمایا اے ” ایمان والوں ڈرو اللہ سے حق ڈرنے کا “ بعض مفسروں نے کہا ہے کہ یہ ٹکڑا آیت کا سورة تغابن کے اس آیت کے ٹکڑے فاتقو اللہ ما استطعتم سے منسوخ ہے۔ لیکن ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے اور اکثر علماء سلف نے یہ کہا ہے کہ سورة تغابن کے آیت کے ٹکڑے سے اس آیت کے ٹکڑے کی صراحت کی گئی ہے یہ ٹکڑا منسوخ نہیں ہے وجہ اختلاف کی یہی کہ اس آیت کے معنوں میں علماء کا اختلاف ہے بعض علماء مفسرین یہ کہتے ہیں کہ آیت کے معنی ہیں کہ اللہ کی شان اور عظمت کے موافق اللہ سے ڈرو اس صورت میں جب دوسری آیت میں یہ صراحت آگئی کہ ہر ایک شخص کو اپنی طاقت کے موافق اللہ سے ڈرنا کافی ہے تو یہ فرقہ علماء کا آیت اول کے حکم کو منسوخ قرار دیتا ہے اور اکثر علماء حق تقاتہ کے یہ معنی کرتے ہی کہ جس قدر اللہ سے ڈرنا آدمی سے بن پڑے اسی قدر آدمی کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ اس حالت میں سورة تغابن کی آیت اس آیت کی تفسیر ٹھہرتی ہے ناسخ نہیں ٹھہرتی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اوپر کی دو آیتوں میں اہل کتاب کو دعوت سنائی گئی جو لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے اب یہاں سے مسلمانوں ج کو نصحیت فرمائی جارہی ہے کہ ان سے ہو شیار رہیں اور گمراہی میں نہ پڑجائیں (کبیر۔ فتح القدیر) شاہ صاحب (رح) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہوں کا جواب دے کر مسلمانوں سے فرمایا کہ ان کی بات ... مت سنویہی علاج ہے نہیں تو شب ہے سنتے سنتے اپنی تازہ اپنی راہ سے پھسل جاو گے اب بھی مسلمان کا فرض ہے کہ اصحاب تشکیک کی بات نہ سنے اس میں دین کی سلامتی ہے اور بحث وجدال سے شب ہے بڑھتے ہیں۔ (وحید ی) ا انصار کے دو قبیلوں اور و خزرج کے درمیان اتحاد واتفاق پر یہود کو بہت حسد تھا ایک روز شاس بن قیس یہودی ان کی مجلس کے پاس سے گزرا اور ان کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر غصے سے جل بھن گیا اس نے ایک نوجوان یہودی کو بھیجا کہ انصار کی مجلس میں جا کر جنگ بعاث کر تذکرہ شروع کردو اور اوس و خز راج نے جو ایک دوسرے لے مقابلہ میں اشعار کہے ہیں ان کو دہرا و۔ اس نے ایسا ہی کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین کے درمیان پرانی دشمنی کے جذبات بیدا ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں اٹھالیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو مہاجرین کے لوگ فورا وہاں پہنچ گئے اور فریقین کو ٹھنڈا کیا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں اہل کتاب کو اسلام کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے۔ اب مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ اہل کتاب کی پیروی نہ کرنا یہ تمہیں گمراہ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ قرآن مجید متعدد مقامات پر مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ اگر تم اہل کتاب کو راضی کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ہرگز...  راضی نہیں ہوں گے۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ تمہیں ایمان سے منحرف کر کے کافر بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا میرے پیغمبر ! جب تک آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں گے تب تک یہ آپ پر بھی راضی نہ ہوں گے۔ [ البقرۃ : ١٢٠] اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ تم کس طرح اپنے لیے کفر کا جواز پیدا کرو گے ؟ جبکہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا عظیم رہنما اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کر کے تمہارے سامنے بہترین نمونہ پیش کرتا ہے جس سے تم براہ راست تربیت پا رہے ہو۔ لہٰذا تمہیں اہل کتاب کو راضی کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے۔ جس نے اللہ تعالیٰ سے ایمان کا رشتہ مضبوط کرلیا یقیناً وہی صراط مستقیم پائے گا۔ مسائل ١۔ ایمان داروں کو یہود و نصاریٰ کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ یہود و نصاریٰ لوگوں کو مرتد کرنا چاہتے ہیں۔ ٣۔ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے مسلمان کو کافر ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاناصراط مستقیم پرچلنا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کرہ ارض پر اس امت کو اس لئے اٹھایا گیا تھا کہ وہ اس زمین پر صرف اسلامی نظام زندگی کے برپا کرنے کے لئے اپنے لئے راہ متعین کرے ۔ یہ ایک منفرد ‘ ممتاز اور نمایاں امت ہے ۔ اس کا وجود اسلامی نظام زندگی سے پھوٹا ہے ‘ تاکہ وہ حیات انسانی کے اندر وہ رول ادا کرے جو اس کے سوا کوئی نہیں ادا کرتا ۔ یہ امت اس...  لئے برپا کی گئی ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کا اقرار کرے اور اسے عملی طور پر نافذ کرے ‘ اور اس نظام کا نشان منزل نظر آرہا ہو ۔ اس میں قرآن وسنت کی نصوص اور احکام عملاً زندگیوں میں چلتے پھرتے نظر آئیں ‘ اسلامی نصوص انسانی شعور ‘ انسانی اخلاق اور انسانی طرز عمل اور انسانی روابط عملاً نظر آئیں۔ امت مسلمہ کے برپا کرنے کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا ‘ اس کی راہ اس وقت تک متعین نہیں ہوسکتی اور وہ انسانی زندگی میں یہ چمکدار اور خوبصورت اور ممتاز عملی زندگی اس وقت تک وجود میں نہیں لاسکتی جب تک وہ تمام ہدایات اللہ جل شانہٗ سے اخذ نہ کرے اور انسانی قیادت اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے اصول تسلیم نہ کرے ۔ تمام انسانوں کی راہنمائی کا انکار نہ کردے ‘ تمام انسانی اطاعتوں کو ترک نہ کردے اور تمام انسانوں کی پیروی ترک نہ کردے ۔ اسے یا تو یہ تمام امور سرانجام دینے ہوں گے اور یا پھر اسے کفر ‘ گمراہی اور راہ راست سے انحراف قبول کرنا ہوگا۔ یہ وہ اصول ہے جس کی تاکید قرآن مجید بتکرار کرتا ہے ‘ اور مختلف مواقع پر کرتا ہے ۔ اور یہی وہ اصول ہے جس پر جماعت مسلمہ کا شعور ‘ اس کی سوچ ‘ اس کے اخلاق پروان چڑھے ہیں جہاں بھی اسے موقعہ ملے ۔ اب مواقع میں سے ایک موقعہ یہ تھا ‘ جس میں اہل کتاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مباحثہ کررہے تھے اور تحریک اسلامی کو مدینہ میں اہل کتاب کے مکروفریب ‘ خفیہ سازشوں اور عداوتوں کا مقابلہ کرنا پڑرہا تھا ۔ ہاں یہ ہدایات بہر حال مدینہ طیبہ کے ان مخصوص حالات کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ۔ یہ ہدایات امت مسلمہ کے لئے دائمی ہدایات ہیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور اور ہرنسل کے لئے یہی ہدایات ہیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور اور ہر نسل کے لئے یہی ہدایات ہیں ۔ اس لئے کہ امت مسلمہ کا یہ اصول حیات ہے اور یہی اس کا مقصد وجود ہے ۔ اس امت کو اس لئے برپا کیا گیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کی قیادت کرے ۔ اب یہ کس منطق کی رو سے جائز ہے کہ وہ جاہلیت کی پیروی کرے حالانکہ اس کا مقصد وجود ہی یہ ہے کہ وہ جاہلیت کا قلع قمع کرے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور انسانوں کا رشتہ اللہ سے جوڑے ۔ انسانوں کی قیادت اسلامی نظام زندگی کے مطابق کرے ۔ اور جب یہ امت مسلمہ قیادت کے مقام سے گرجائے تو متصور ہوگا کہ امت مسلمہ کا وجود نہیں ہے ۔ اور اگر اس کا کوئی وجود ہے تو وہ بھی بےمقصد وجود ہے ۔ اسے تو اس لئے برپا کیا گیا تھا کہ وہ ایک صحیح تصورحیات کے مطابق انسانیت کی قیادت کرے ۔ اس کا عقیدہ بالکل درست ہو ‘ اس کا شعور استوار ہو ‘ اس کے اخلاق معیاری ہوں ‘ اس کا نظام مستحکم ہو اور اس کی تنظیم مضبوط ہو ۔ صرف ایسے حالات ہی میں انسانی عقل نشو ونما پاسکتی ہے اور اس کے لئے مزید راہیں میسر ہوسکتی ہیں ۔ اور وہ اس پوری کائنات سے اچھی طرح متعارف ہوسکتی ہے ۔ وہ اس کائنات کے بھیدوں سے آگاہ ہوسکتی ہے اور وہ اس کائنات کی بھلائی کے لئے استعمال میں لانے کا حکم دیتی ہے ۔ وہ ان قوتوں ‘ اس کے ذخیروں کو مسخر کرسکتی ہے ۔ لیکن امت کی قیادت عالیہ جو تسخیر کائنات کا حکم دیتی ہے ‘ وہ ان تمام قوتوں کو انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال میں لانے کا حکم دیتی ہے ۔ وہ ان قوتوں کو مسخر کرکے انہیں اس کائنات کی تباہی اور اس کائنات کی بربادی کے لئے کام میں نہیں لاتی ۔ اور نہ وہ ان قدرتی قوتوں کو اس سے دریافت کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرے اور شہوات حیوانیہ میں گم ہوجائے ۔ تسخیر کائنات کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت اپنے ایمان باللہ کو مضبوط کرے ‘ یہ تمسخر اللہ کی ہدایات کے مطابق ہو ‘ اور اس معاملے میں وہ اللہ کے سوا کسی اور منبع سے ہدایات نہ لے ۔ اس سبق میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ وہ غیر اللہ کی اتباع کرے ۔ اور یہ بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح صحیح حالات پیدا کرسکتی ہے ۔ اور کس طرح اپنے آپ کو بچاسکتی ہے ۔ چناچہ پہلا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ امت مسلمہ اہل کتاب کی پیروی اور اطاعت نہ کرے ‘ اگر وہ ایسا کرے گی تو اہل کتاب اسے کفر کی طرف لے جائیں گے اور اس کے سوا کوئی دوسری بات نہ ہوگی ۔ اہل کتاب کی اطاعت کرنا ‘ اور ان سے ہدایات اخذ کرنا ‘ ان کے اوضاع واطوار کا نقل کرنا ‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ امت مسلمہ نے داخلی طور پر شکست قبول کرلی ہے اور اس نے اپنے اس مقام قیادت سے دست برداری کرلی ہے ۔ نیز اس سے اسلامی زندگی کی یہ صلاحیت بھی مشکوک ہوجاتی ہے کہ وہ ہمارے دور میں زندگی کی راہنمائی ‘ اس کی تنظیم ‘ اس کی ترقی اور نشوونما کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اور یہ بات دراصل کفر ‘ خفی ہے جو نفس انسانی کے اندر سرایت کرجاتا ہے ۔ یہ کفر غیر شعوری ہوتا ہے اور انسان اس کا خطرہ بھی محسوس نہیں کرتا ۔ یہ اسلام کے نقطہ نظر سے بات تھی ‘ رہی یہ بات کہ اہل کتاب کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ تو وہ دنیا میں سب سے زیادہ جس امر کے حریص ہیں وہ یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کو اپنے عقیدے سے پھیر دیں ۔ اس لئے امت مسلمہ کے لئے یہ عقیدہ صخرہ نجات ہے ۔ وہ اس کے لئے ایک دفاعی لائن ہے اور اس کی قوت اور شوکت کا اصل منبع ہے ۔ اور اس امت کے دشمنوں کو اس راز کا بخوبی علم ہے ۔ اس سے قبل بھی انہیں اس کا علم تھا اور آج بھی انہیں اس کا علم ہے ۔ اور وہ اس امت کو اپنے عقائد ونظریات سے دور کرنے کے لئے ہر مکر اور ہر حیلہ کام میں لاتے ہیں ۔ وہ اس کام میں اپنی پوری توانائی اور اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں ۔ اور جب وہ اس امت کا مقابلہ علی الاعلان نہیں کرسکتے تو وہ اس کے خلاف خفیہ مکر و فریب کام میں لاتے ہیں اور جب یہ لوگ تنہا اس کام کو سرانجام دینے کے اہل نہیں رہتے تو پھر وہ اس کام میں منافقین سے امداد لیتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ اپنی افواج منظم کرکے اسلامی قلعے کی دیواروں میں اندر سے نقب لگاتے ہیں اور لوگوں کو اسلام سے دور کرتے ہیں ۔ اور ان کی نظروں میں ان نظامہائے زندگی کو حسین بناتے ہیں جو اسلامی نظام کے خلاف ہیں ۔ ان کے لئے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں اور اس امت پر ایسی قیادت مسلط کرتے ہیں جو اسلامی قیادت نہیں ہوتی۔ جب اہل کتاب دیکھتے ہیں کہ اہل اسلام میں سے انہیں ایسے افرادمل رہے ہیں جو ان کے تابع ‘ ان کے پیروکار اور ان کی بات پر اچھی طرح کان دھرنے والے ہیں تو وہ ان لوگوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور انہیں ان مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں جن کے حصول کے لئے ان کی نیندیں حرام ہیں تو وہ ان کو مقام قیادت دیں گے اور لوگوں کو ان کے پیچھے لگادیں گے تاکہ یہ ایجنٹ پوری امت کو کفر و ضلال کے راستے پر ڈال دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ کن اور دوتوک بات آتی ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ ” اے ایمان لانے والو ! اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔ “ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اہل اسلام اس امر سے زیادہ کسی اور چیز سے نہ گھبراتے تھے کہ وہ اسلام سے پلٹ کر پھر کفر کی طرف چلے جائیں ۔ اور جنت کے مستحق ہوکر پھر جہنم کی طرف چلے جائیں ۔ اور یہی صفت ہر سچے مومن کی ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت میں یہ ڈراوا ایسا تازیانہ ہے جس سے ضمیر گرم ہوگا۔ اس سے ڈرانے والے کی مشفق آواز سننے کے لئے سامع اچھی طرح آمادہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈراوا اور یاد دہانی کے مضامین مسلسل جاری ہیں ۔ کیا برامنکر حق ہے وہ شخص جو اہل ایمان کو ایمان لانے کے بعد بدراہ کرتا ہے ۔ ایسے حالات میں کہ ان پر آیات الٰہی مسلسل پڑھی جارہی ہیں اور رسول اللہ ان میں موجود ہیں اور وہ تمام محرکات موجود ہیں جو ایمان لانے کے باعث ہیں اور دعوت اسلامی مسلسل دی جارہی ہو اور کفر و ایمان کے دورا ہے پر نور ایمان چھایا ہوا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

144 یہودیوں یہودیوں کے عالم اور پیر فقیر مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کر کے انہیں توحید اور دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں ہر وقت لگے رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراضات اور شبہات کا جواب دے کر مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ وہ ان کی چالوں ہشیار رہیں۔ اور ان کے کہنے میں نہ آئیں اور اللہ ک... ی کتاب پر عمل کریں اور اس کے رسول کا اتباع کریں اور اس قسم کے مولویوں اور گدی نشینوں سے دور رہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے ایمان والو اگر تم نے ان لوگوں میں سے کسی فرقہ کی بات مانی جن کو کتاب دی گئی ہے یعنی اہل کتاب میں سے کسی فریق کا کہنا مانا تو وہ لوگ تم کو تمہارے ایمان لانے کے پیچھے پھر کافر بنادیں گے اور کفر پر تم کو لوٹا دیں گے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے شبہوں کا جواب ... دے کہ مسلمانوں کو فرمایا کہ ان کی بات مت سنو یہی علاج ہے نہیں تو شبہے سنتے سنتے اپنی راہ سے نکل جائو گے اب بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ شبہے والوں کی بات نہ سنے اس میں دین کی تل امتی ہے اور جھگڑنے سے شبہے بڑھتے ہیں۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ کوئی پارٹی ہو خواہ شماس ابن قیس کا گروہ ہو یا کوئی اور فریق ہو تمہاری دشمنی میں سب برابر ہیں اگر کسی فریق کا کہنا مانو گے تو وہ تم کو تمہارے مسلمان ہونے کے بعد پھر کافر بنادیں گے۔ یہ کفر اعتقاداً ہو یا عملاً ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بدگمان ہو جائو اور اعتقاداً کافر بن جائو یا کسی اور کفر کے کام میں مبتلا ہو جائو جیسے ابھی باہم قتل و قتال پر آمادہ ہوگئے تھے اور زمانہ جاہلیت کا مرض عود کر آیا تھا وہ تو ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بروقت توجہ سے معاملہ ٹل گیا ورنہ ابھی آپس میں کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا تھا۔ صحابہ (رض) کا یہ فرمانا بالکل صحیح ہے کہ ہم نے کوئی دن ایسا نہیں دیکھا جس کا ابتدائی حصہ انتہائی خطرناک اور قبیح ہو اور اس کا آخری حصہ نہایت بہتر اور عمدہ ہو۔ یعنی صبح کو مسلمان شماس بن قیس کے دائو میں آگئے اور باہم جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے اور شام کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سمجھانے سے انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور آپس میں گلے مل گئے اور سب بھائی بھائی ہوگئے۔ بہرحال قرآن کریم نے اس موقع پر ایک ضابطہ مقرر کردیا اور بتادیا کہ اہل کتاب کی باتوں میں نہ آئو اور کسی فریق کا کہنا نہ مانو ورنہ یہ لوگ پھر تم کو کفر کی طرف پھیر دیں گے۔ ہم نے شان نزول کی رعایت سے کفر میں تعمیم کردی تاکہ کفر اعتقادی اور کفر عملی دونوں کو ہماری تفسیر شامل ہوجائے۔ یہ ضابطہ جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ہر موقعہ کے لئے مفید اور مشعل راہ ہے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اہل باطل اور اہل شکوک و شبہات کی باتوں سے الگ رہنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمایا ہے سلامتی اور عافیت اسی میں سے ورنہ طبعاً جب انسان بار بار ایک بات کو سنتا ہے تو اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔ آگے مسلمانوں کو تسلی اور ان پر اطمینان کا اظہار ہے۔ (تسہیل)  Show more