Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 109

سورة آل عمران

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۱۰۹﴾٪  2

To Allah belongs whatever is in the heavens and whatever is on the earth. And to Allah will [all] matters be returned.

اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ تعالٰی ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِلّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَرْضِ ... and to Allah belongs all that is in the heavens and all that is in the Earth, they are all His servants and His property. ... وَإِلَى اللّهِ تُرْجَعُ الاُمُورُ And all matters go back to Allah. for His is the decision concerning the affairs of this life and the Hereafter, and His is the Supreme Authority in this li... fe and the Hereafter.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ۔۔ : یعنی جہاد میں خلق کی جان و مال تلف ہو تو مالک کے حکم سے ہے، ہر چیز اللہ کا مال ہے۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝ ١٠٩ ۧ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماوات... ٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٩ (وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط) (وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) قرآن حکیم میں اہم مباحث کے بعد اکثر اس طرح کی آیات آتی ہیں۔ یہ گویا concluding remarks ہوتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا : (وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) (کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور اسی کی طرف تمام امور لوٹتے ہیں) وہ مالک اور متصرف ہے اسے سب اختیار ہے اپنی مخلوق میں جیسا تصرف کرے کوئی اسے روکنے والا نہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

160 یہ توحید پر پانچویں عقلی دلیل ہے۔ اور اس میں جار مجرور کی تقدیم افاہ حصر کے لیے ہے یعنی زمین و آسمان کی ساری کائنات صرف اللہ ہی کی ہے۔ ساری کائنات کو اللہ ہی نے پیدا فرمایا اور وہی ہر چیز کا مالک ہے اور ہر چیز میں متصرف اور مختار ہے ای لہ سبحانہ وحدہ ما فیھا من المخلوقات ملکا وخلقا وتصرفا (روح ص...  27 ج 4) ۔ 161 ۔ تمام معاملات کا فیصلہ اور تمام امور کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جب زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق ومالک اور متصرف ومختار اللہ ہی ہے تو پھر وہی عبادت اور پکار کے لائق ہے اس لیے عبادت صرف اسی کی کرو اور ضرورتوں اور مصیبتوں میں صرف اسے ہی پکارو قال الشیخ۔ اس میں تشجیع علی الجھاد ہے۔ یعنی سب کچھ خدا ہی کے قبضہ میں ہے اور فتح وشکست اس کے اختیار میں ہے۔ تو پھر اس پر بھروسہ کرتے ہوئے کفار سے جہاد کرو۔ اور ہمت نہ ہارو۔ وہ ضرور تمہیں فتح دے گا۔۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور تمام مخلوقات جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب حضرت حق تعالیٰ کی مملوک اور اس کی ملک ہے اور جملہ امور اور تمام مقدمات کی بازگشت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جہاد میں خلق کی جان اور مال تلف ہو تو مالک کے حکم سے ہے سب چیز مال اللہ کا ہے۔ (موضح القرآن) ح... ضرت شاہ صاحب (رح) نے چونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تفسیر جہاد سے کی ہے اسی لئے اس کی مناسبت سے یہ شرح فرمائی ہے بہرحال جب تمام مخلوق اس کی ملک ہے تو اپنی ملک میں تصرف کرنا ہر اعتبار سے جائز ہے اس لئے وہاں ظلم کا صدور متحقق ہی نہیں ہوسکتا لہٰذا جو سزا تجویز ہوگی وہ عین انصاف ہوگا اور چونکہ وہ مالک ہے اور سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک پر اطاعت واجب ہوتی ہے لہٰذا سب پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ اور چونکہ اسی کی جانب تمام مقدمات اور تمام کاموں کا مرجع ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا صاحب اختیار نہ ہوگا۔ اس لئے جو کچھ کرو اس کے اختیار اور اس کے جاہ و جلال کا لحاظ رکھ کر کرو۔ اور اس کی گرفت کے خوف سے کرو کیونکہ ایک بااختیار حاکم کے روبرو پیش ہونا ہے ایسا حاکم جس کے اوپر کوئی حاکم نہیں اب آگے پھر اس درمیانی بحث کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک دوسرے عنوان سے تاکید فرماتے ہیں اس کے بعد پھر اہل کتاب کا بیان ہوگا جو اصل مضمون ہے اور اوپر سے مسلسل چلا آ رہا ہے۔ (تسہیل)  Show more