Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 112

سورة آل عمران

ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٭

They have been put under humiliation [by Allah ] wherever they are overtaken, except for a covenant from Allah and a rope from the Muslims. And they have drawn upon themselves anger from Allah and have been put under destitution. That is because they disbelieved in the verses of Allah and killed the prophets without right. That is because they disobeyed and [habitually] transgressed.

ان پر ہر جگہ ذِلّت کی مار پڑی ، الّا یہ کہ اللہ تعالٰی کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں ، یہ غضبِ الٰہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر فقیری ڈال دی گئی ، یہ اس لئے کہ یہ لوگ اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کرتے تھے اور بے وجہ انبیاء کو قتل کرتے تھے ، یہ بدلہ ہے ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ... Indignity is put over them wherever they may be, except when under a covenant (of protection) from Allah, and a covenant from men; meaning, Allah has placed humiliation and disgrace on them wherever they may be, and they will never be safe, إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ (except ... when under a covenant from Allah), under the Dhimmah (covenant of protection) from Allah that requires them to pay the Jizyah (tax, to Muslims,) and makes them subservient to Islamic Law. وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (and a covenant from men); meaning, covenant from men, such as pledges of protection and safety offered to them by Muslim men and women, and even a slave, according to one of the sayings of the scholars. Ibn Abbas said that, إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (except when under a covenant from Allah, and a covenant from men); refers to a covenant of protection from Allah and a pledge of safety from people. Similar was said by Mujahid, Ikrimah, Ata, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah, As-Suddi and Ar-Rabi bin Anas. Allah's statement, ... وَبَأوُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ ... they have drawn on themselves the wrath of Allah, means, they earned Allah's anger, which they deserved. ... وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ... and destitution is put over them, meaning they deserve it by decree and legislatively. Allah said next, ... ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُواْ يَكْفُرُونَ بِأيَاتِ اللّهِ وَيَقْتُلُونَ الاَنبِيَاء بِغَيْرِ حَقٍّ ... This is because they disbelieved in the Ayat of Allah and killed the Prophets without right. meaning, what drove them to this was their arrogance, transgression and envy, earning them humiliation, degradation and disgrace throughout this life and the Hereafter. Allah said, ... ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ This is because they disobeyed and used to transgress (the limits set by Allah). meaning, what lured them to disbelieve in Allah's Ayat and kill His Messengers, is the fact that they often disobeyed Allah's commands, committed His prohibitions and transgressed His set limits. We seek refuge from this behavior, and Allah Alone is sought for each and every type of help.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 یہودیوں پر جو ذلت و مسکنت، غضب الٰہی کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے، اس سے وقتی طور پر بچاؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ یعنی اسلام قبول کرلیں یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کرلیں، دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہو 1... 12۔ 2 یہ ان کے کرتوت ہیں جنکی پادش میں ان پر ذلت مسلط کی گئی ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی ذلت و رسوائی کے اسباب بیان فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے لگے، ان گناہوں نے ان کی طبائع پر یہ اثر کیا کہ بڑے بڑے جرائم پر دلیر ہوگئے، جیسے اللہ کی آیات ہی سے انکار کردینا انہیں چھپا جانا ان میں تح... ریف کرلینا حتیٰ کہ وہ انبیاء کے قتل کے بھی مرتکب ہوئے۔ پھر جب بدبختی کی اس انتہا کو پہنچ گئے تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا جس کے نتیجہ میں ذلت و رسوائی اور محتاجی ہمیشہ کے لیے ان کے مقدر کردی گئی اور اس سے بچاؤ کی دو صورتیں بتلائی گئی ایک یہ کہ اللہ کی ذمہ داری کی پناہ میں آجائیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ کسی مسلمان حکومت کی پناہ میں رہیں اور دوسری یہ کہ غیر مسلم حکومتوں کے سایہ تلے رہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ١٩٤٧ ء تک باوجود اس کے کہ وہ دنیا کی مالدار ترین قوم تھے۔ دنیا میں دربدر پھرتے ہی رہے۔ ١٩٤٧ ء میں تین عیسائی حکومتوں، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی مدد سے انہوں نے مختصر سے خطہ پر اپنی ایک الگ حکومت قائم کرلی ہے جسے کئی ممالک نے تاحال تسلیم ہی نہیں کیا اور عیسائی حکومتوں نے مسلمانوں سے انتقام کے طور پر مسلمان ممالک کے درمیان یہ حکومت قائم کرکے مسلمانوں کے جگر میں خنجر گھونپا ہے۔ آج بھی اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے دم قدم سے یہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے، تو فوراً اس کا وجود ہی ختم ہوجائے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس طرح یہود مغضوب علیہ قوم ہے اسی طرح آج کا مسلمان بھی اللہ کی نافرمانیوں کی بنا پر مغضوب علیہ قوم بن چکا ہے۔ چناچہ مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے اسرائیل کی صورت میں عذاب نازل ہوا اور جب تک مسلمان باہمی اتفاق و اتحاد کا ثبوت نہ دیں گے اور آپس میں الجھتے اور لڑتے مرتے رہیں گے ان پر یہ عذاب مسلط ہی رہے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ ۔۔ : یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ہی ان پر ذلت بھی مسلط کردی گئی۔ [ دیکھیے البقرہ : ٦١ ] یہود کی اس ذلت سے بچاؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں، یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا ق... بول کرلیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہوجائے۔ اس کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ اسلامی مملکت کے بجائے عام مسلمان ان کو پناہ دے دیں، جیسا کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے اور اسلامی مملکت کے حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ معمولی درجے کے مسلمان حتیٰ کہ کسی عورت کی دی ہوئی پناہ کو بھی رد نہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ کسی بڑی غیر مسلم طاقت کی پشت پناہی انھیں حاصل ہوجائے، کیونکہ ” الناس “ عام ہے، اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ 2 ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : یعنی نافرمانی اور حد سے گزرنے کا اثر یہ ہوا کہ وہ کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے، پھر کفر اور قتل انبیاء کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا غضب اترا، ذلیل و محتاج ہوگئے، حکومت اور ریاست چھن گئی۔ حاصل یہ کہ ذلت و غضب اور مسکنت کی وجہ کفر اور قتل انبیاء ہے اور کفر اور قتل انبیاء کی وجہ ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے، پس ” ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا “ سے سبب کے سبب کی طرف اشارہ ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The meaning of disgrace and wrath cast on the Jews: A detailed discussion on this subject has already appeared under comments on verse 61 of Surah al-Baqarah where the text has not mentioned any exception. This can be seen in Volume I of this commentary. It also covers the exception given in the present verse - إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّـهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ Briefly, the verse m... eans that the Jews shall remain stamped with disgrace and misery except under two situations: 1. Though a Covenant of Allah. For example, a minor child or woman shall not be killed. (This exception is meant by the words &through a source from Allah& ). Through a treaty obligation, that is, بِحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (through a source from men). Such patronage may cause their disgrace and misery not to become manifest. The specific words used in the Holy Qur&an i.e., a source from men, cover all men, believers and disbelievers. The possi¬bility that they live with freedom after making a peace treaty with Muslims is included here. Also possible is the situation that they may come under the protection of other non-Muslim powers through a peace treaty (or informal collaboration strategy), a situation that prevails in the form of the present-day state of Israel. To discerning people all over the world, it is no secret that the state of Israel is really a joint encampment of the West. Behind all the facade of power they appear to have is the power of others. If the U.S., U.K., Europe, and USSR too, were daring enough to withdraw their patronage of Israel, it would not survive for a day. Allah knows best.  Show more

خلاصہ تفسیر : چھا دی گئی ہے ان پر ذلت جہاں کہیں بھی پائے جاویں گے مگر ہاں (دو ذریعوں سے وہ اس ذلت سے نجات پاسکتے ہیں) ایک تو ایسے ذریعہ کے سبب جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعہ کے سبب جو آدمیوں کی طرف سے ہے (اللہ کی طرف کا ذریعہ تو یہ ہے کہ کوئی کتابی غیر مسلم اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنے ط... ریق پر ایسا مشغول و مصروف ہو کہ مسلمانوں سے لڑتا بھڑتا نہ ہو، اس کو جہاد میں قتل نہیں کیا جاتا، اگرچہ اس کی کافرانہ عبادت آخرت میں اس کے کام نہ آئے گی، اسی طرح اللہ کی طرف کے ذریعہ میں یہ بھی آگیا کہ وہ کتابی نابالغ یا عورت ہو کہ شریعت اسلام کی رو سے ان کو بھی جہاد میں قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور آدمیوں کی طرف کے ذریعہ سے مراد معاہدہ اور صلح ہے، جو مسلمانوں کے ساتھ ہوجاوے، کیونکہ شریعت اسلام میں جس شخص سے کوئی معاہدہ صلح کا ہوجائے وہ بھی مامون ہے اس کا قتل جائز نہیں) اور مستحق ہوگئے (یہ لوگ) غضب الہی کے، اور جما دی گئی ان پر پستی (کہ ان کے طبائع میں بھی اولوا العزمی نہ رہی، نیز جزیہ و خراج مسلمانوں کو ادا کر کے رہنا بھی مسکنت اور پستی میں داخل ہے یہ (ذلت و غضب) اس وجہ سے ہوا کہ وہ لوگ منکر ہوجاتے تھے احکام الہیہ سے، اور قتل کردیا کرتے تھے پیغمبروں کو (اس طرح سے کہ وہ قتل خود ان کے نزدیک بھی) ناحق (ہوتا تھا) اور یہ ذلت و غضب اس وجہ سے بھی ہوا کہ انہوں نے اطاعت نہ کی اور دائرہ اطاعت سے نکل جاتے تھے۔ معارف مسائل : یہود پر ذلت و غضب کا مطلب موجودہ اسرائیلی حکومت سے شبہ اور جواب : یہ بحث سورة بقرہ کی آیت (٦١) میں تفصیل سے گزر چکی ہے جس میں کوئی اسثناء نہیں ہے، آیت آل عمران میں الا بحبل اللہ من اللہ وحبل من الناس کے استثناء کی تحقیق وہاں گزر چکی ہے، اس کو معارف القرآن جلد اول ص ١٧٩ تا ١٨١ میں دیکھ لیا جائے، اتنی بات یہاں مکرر قابل ذکر ہے کہ کشاف کی تفسیر کے مطابق استثناء کو متصل قرار دے کر معنی آیت کے یہ ہیں کہ یہود پر ذلت و خواری لگی ہی رہے گی، مگر صرف دو صورتوں میں وہ اس ذلت سے بچ سکتے ہیں۔ ایک اللہ کا عہد مثلا نابالغ بچہ یا عورت ہونے کی بناء پر بحکم خداوندی وہ قتل وغیرہ سے مامون ہیں۔ دوسرے بحبل من الناس، یعنی لوگوں سے معاہدہ صلح کی بناء پر ان کی ذلت و خواری کا ظہور نہ ہو، اس جگہ الفاظ قرآن بحبل من الناس ہیں، جو مومنین و کافر سب کو شامل ہیں، اس میں یہ صورت بھی داخل ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں سے معاہدہ صلح کر کے بےفکر ہوجائیں گے، اور یہ بھی محتمل ہے کہ دوسری غیر مسلم طاقتوں سے معاہدہ صلح کر کے محفوظ ہوجائیں، جیسا کہ حکومت اسرائیل کی موجودہ صورت ہے کہ کسی صاحب بصیرت پر مخفی نہیں کہ اسرائیل کی حکومت درحقیقت اہل یورپ کی ایک مشترکہ چھاؤ نی سے زیادہ نہیں، اس کی جو کچھ قوت نظر آتی ہے وہ سب غیروں کے بل بوتہ پر ہے اگر امریکہ، برطانیہ، روس وغیرہ آج اس پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیں تو وہ ایک دن اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ واللہ اعلم   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّـۃُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الْمَسْكَنَۃُ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِيَاۗءَ بِغَيْرِ حَقٍّ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِمَا...  عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۝ ١١٢ ۤ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔ أين أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن . وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله . قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک . وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ : ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته . والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان . وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم . قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین . این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔ ثقف الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔ حبل الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين : - عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» . والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة . ( ج ب ل ) الحبل ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ باءَ وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید . اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ مَسْكَنَةُ مصدر ميمي من السکون والخزي لأن المسکين قلیل الحرکة والنهوض لما به من الفقر والمسکين مفعیل مبالغة منه قالوا : ولا يوجد يهودي غني النفس . كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) یہ مغضوب قوم یہود جہاں کہیں بھی موجود ہوگی جزیہ کی ذلت ان پر جما دی گئی ہے مومنین کے مقابلہ میں یہ ایمان باللہ (یعنی قبول حق) یا جزیہ کے عہد و پیمان کے بغیر یہ ہرگز نہیں ٹھہر سکیں گے، یہ لعنت کے مستحق ہوگئے اور ان پر پستی جما دی گئی، یہ ذلت ومفلسی اسی بنا پر ہے کہ یہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و... آلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتے تھے اور یہ غصہ اور ذلت ہفتہ کے دن میں نافرمانی کرنے انبیاء کرام کے قتل کرنے اور حرام چیزوں کو حلال سمجھنے کی وجہ سے بھی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٢ (ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْآ) (اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ ) جیسے آج پوری عیسائی دنیا ان کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل اپنے بل پر نہیں ‘ بلکہ پوری عیسائی دنیا کی پشت پناہی پر قائم ہے۔ خلیج کی جنگ میں اتحادی افواج کے کمانڈر انچیف نے صاف کہہ...  دیا تھا کہ یہ ساری جنگ ہم نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے لڑی ہے۔ گویا اس قدر خونریزی سے صرف اسرائیل کا تحفظ پیش نظر تھا۔ (وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ) (وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ط) (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ) (وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ط) ۔ (ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ) ۔ یاد رہے کہ یہ آیت تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ سورة البقرۃ میں بھی گزر چکی ہے۔ (آیت ٦١)   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90. If the Jews have ever enjoyed any measure of peace and security anywhere in the world they owe it to the goodwill and benevolence of others rather than to their own power and strength. At times Muslim governments granted them refuge while at others non-Muslim powers extended protection. Similarly, if the Jews ever emerged as a power it was due not to their intrinsic strength but to the strengt... h of others.  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :90 یعنی دنیا میں اگر کہیں ان کو تھوڑا بہت امن چین نصیب بھی ہوا ہے تو وہ ان کے اپنے بل بوتے پر قائم کیا ہوا امن و چین نہیں ہے بلکہ دوسروں کی حمایت اور مہربانی کا نتیجہ ہے ۔ کہیں کسی مسلم حکومت نے ان کو خدا کے نام پر امان دے دی ، اور کہیں کسی غیر مسلم حکومت نے اپنے طو... ر پر انہیں اپنی حمایت میں لے لیا ۔ اسی طرح بسا اوقات انہیں دنیا میں کہیں زور پکڑنے کا موقع بھی مل گیا ہے ، لیکن وہ بھی اپنے زور بازو سے نہیں بلکہ محض”بپائے مردی ہمسایہ“ ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:112) ضربت۔ ڈال دی گئی۔ ماردی گئی۔ لازم کردی گئی۔ مسلط کردی گئی۔ لگا دی گئی۔ ضرب سے ماضی مجہول واحد مؤنث غائب ۔ علی کے ساتھ تاریک پہلو کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ضربت علیہم الذلۃ۔ ذلت ( اور رسوائی) ان پر لازم کردی گئی ضربت علیہم المسکنۃ۔ ذلت و رسوائی۔ محتاجی اور بےنوائی ان پر مسلط کردی ... گئی۔ ان پر لازم کردی گئی۔ ثقفوا۔ ثقف (سمع) کسی چیز کو پانا اور اس پر کامیاب ہونا۔ وہ پائے گئے۔ حبل۔ رسی۔ عہدو پیمان۔ چونکہ رگ بھی رسی سے مشابہت رکھتی ہے اس لئے قرآن حکیم میں شاہ رگ کو حبل الورید (50:16) فرمایا ہے۔ باء وا۔ انہوں نے کمایا۔ وہ پھر آتے۔ وہ لوٹے (باب نصر) بوائ۔ جس کے اصل معنی ٹھکانہ درست کرنے اور جگہ ہموار کرنے کے ہیں۔ مجازا اس کے معنی کمانے۔ لوٹنے۔ اقرار کرنے کے بھی آئے ہیں۔ ب و ء مادہ۔ مکان بوائ۔ اترنے۔ فروکش ہونے کے لئے سازگار اور موافق جگہ۔ بوأت لہ مکانا۔ میں سے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا۔ واذعذوت من اہلک تبوی المؤمنین مقاعد للقتال (3:121) اور جب تم صبح گھروں سے رخصت ہوئے اور مؤمنوں کو لڑائی کے لئے مناسب جگہ پر بٹھانے لگے۔ ضربت علیہم الذلۃ ۔۔ والمسکنۃ۔ لازم کردی گئی ان پر ذلت اور رسوائی جہاں کہیں بھی وہ ہیں۔ بجز اس کے کہ وہ کسی عہد نامہ سے اللہ سے یا دوسرے لوگوں سے پناہ حاصل کرسکیں (اللہ کی طرف سے عہد نامہ ان کا اہل کتاب ہونا اور پابند شریعت ہونا۔ اور لوگوں کی طرف سے عہدنامہ کسی سیاسی معاشرتی وجوہ کی بناء پر شرائط پناہ حاصل کرنا) اور وہ مستحق ہوگئے اللہ کے غضب کے اور مسلط کردی گئی ان پر محتاجی اور بےنوائی۔ (3:112) عصوا۔ انہوں نے نافرمانی کی۔ انہوں نے اطاعت نہ کی۔ انہوں نے کہنا نہ مانا۔ معصیۃ اور عصیان سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ عصوا اصل میں عصیوا تھا۔ یا متحرک ماقبل مفتوح اس لئے یاء کو الف سے بدلا گیا اب واؤ اور یاء دو ساکن اکٹھے ہوگئے ۔ لہٰذا الف گرگیا اور عصوا رہ گیا۔ کانوا یعتدون۔ ماضی استمراری صیغہ جمع مذکر غائب۔ اعتداء مصدر (افتعال) ع د و مادہ ۔ وہ زیادتی کرتے تھے۔ وہ حدود شرعیہ سے تجاوز کرتے تھے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ان پر ذلت بھی مسلط کردی گئی دیکھئے سورت بقرہ آیت 61 کبیر) بعض کے نزدیک اللہ کی پناہ یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور لوگوں کی پناہ یہ کہ معابد اور ذمی بن کر رہیں۔ ( خازن) مگر یہ صحیح نہیں ہے بلکہ دونوں جگہ ہی حبل سے مراد عہد ذمہ اور امان ہے اور منعی یہی ہیں کہ وہ امان میں آجائ... یں اور معا ہد اور زمنی بن کر رہیں مگر ذمی کو امان حاصل ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے ایک جزیہ کی صورت میں جس پر قرآن نے الا ان یعھو الجزیتہ عن ید وھم صاغر ون (التوبہ 29) فرماکر تنصیص کی ہے اور حبل اللہ سے یہی مراد ہے دوسری وہ جس کی شرائط و اختیارات امام اور حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں یعنی جزیہ میں کمی بیشی اسی کو آیت میں حبل من الناس سے تعبیر فرمایا ہے۔ (کبیر) حضرت شاہ صاحب نے حبل کے معنی دستاویز کے ہیں اور فائدہ میں لکھا ہے یعنی یہود کہیں اپنی اپنی حکومت سے نہیں رہتے دستاویزات اللہ کے کہ بعض رسمیں تورات کی عمل میں لاتے ہیں اور اس کے طفیل پڑے ہیں اور بغیر دستاویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت میں اس کی پناہ میں پڑے ہیں (موضح)2 یعنی نافرمانی اور اعتد کا یہ اثر ہوا کہ لگے کفر کرنے اور پیغمبروں کو مانے اور پھر کفر وقتل انبیا ( علیہ السلام) کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اترا ذلیل اور محتاج ہوگئے حکومت اور ریاست چھن گئی۔ (وحیدی) حاصل یہ کہ ذلت وغضب اور مسکنت کی علت کفر اور قتل انبیا ہے اور کفر اور قتل انبیا کی علت ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے۔ پس ذالک بما عصوا سے علت العلتہ کی طرف اشارہ ہے چناچہ امام رازی نے لکھا ہے جو شخص ترک آداب کرے گا اس سے ترک سنن کا ارتکاب ہوگا اور ترک سنن کا نتیجہ ترک فرائض کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ترک فرائض سے شریعت کی اہانت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ابانت شریعت سے انسان کفر کے گرھے میں گر جاتا ہے۔ (کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی بےامنی جان کی۔ 5۔ اللہ کی طرف کا ذریعہ یہ کہ کوئی کتابی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ایسا مشغول ہو کہ مسلمانوں سے لڑتا بھڑتا نہ ہو وہ جہاد میں قتل نہیں کیا جاتا گوعبادت اس کی آخرت میں نافع نہ ہو اور آدمیوں کی طرف کے ذریعہ سے مراد معاہدہ وصلح ہے۔ جو مسلمانوں کے ساتھ ہوجاوے چناچہ ذمی ومصالح بھی ما... مون ہے یا کسی قوم کا ان سے لڑنے کا قصد نہ کرنا جیسا بعض زمانوں میں ہوا یا ہوگا یہ امن بھی آدمیوں ہی کی جانب سے ہے باقی اور کسی کو امن نہیں۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اہل کتاب خاص کر یہودیوں کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ۔ خندق اور فتح مکہ کے بعد مسلمان اس قابل ہوگئے کہ سرزمین حجاز میں مشرک ان کے سامنے سر نگوں ہوئے ‘ یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا گیا۔ نصارٰی کی طاقت تبوک کے میدان میں ہزیمت...  کا شکار ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد یہود و نصارٰی ذمّی بن کر رہنے اور جزیہ دے کر اسلام کی قوت کے مقابلہ میں رسوا ہوئے۔ یہودیوں کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کردی گئی کہ ان پر ہمیشہ ذّلت اور مسکنت مسلط کردی گئی ہے۔ یہ جہاں کہیں بھی ہوں گے دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یا تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اس امت کا حصہ بن کر معزز ہوجائیں یا پھر دوسروں کے سیاسی گداگر بن کر زندگی بسر کریں۔ ایسی صورت میں ان پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور مال ومتاع ہونے کے باوجود ان کے دلوں سے حرص و ہوس اور غربت نہیں نکل پائے گی۔ ان کا جرم یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا ہمیشہ انکار اور انبیائے کرام کو ناحق قتل کرنے والے ہیں۔ ان جرائم میں اس لیے ملوث ہوئے کہ یہ لوگ پرلے درجے کے نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ لوگ قتل نہیں کرسکے اور آپ کے بعد تو سلسلۂ نبوت ختم ہوا پھر ان یہودیوں اور ان کے بعد آنے والوں پر یہ سزا کیوں مقرر کی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ لوگ قتل نہیں کرسکے اور نہ ہی اب کسی نبی نے آنا ہے اس کے باوجود ان پر اس سزا کا مسلط ہونا اس لیے ہے کہ یہ اپنے بڑوں کی صفائی ہی پیش نہیں کرتے بلکہ ان کے گھناؤنے جرائم کی تائید کرتے ہیں اور آج بھی مسلمانوں اور مصلحین کو قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار اور سیاسی طور پر ذلیل اور معاشی اعتبار سے ارب پتی ہونے کے باوجود یہودی کی نگاہ سیر ہوتی ہے نہ پیٹ بھرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی دنیا کی مالدار ترین قوم ہونے کے باوجود کنجوس اور دل کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہمیشہ دنیا میں در بدر پھرتے رہے ہیں۔ 1947 ء میں تین عیسائی حکومتوں برطانیہ ‘ فرانس اور امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے مختصر سے خطہ پر اپنی ایک الگ حکومت قائم کی جسے کئی ممالک نے تاحال تسلیم ہی نہیں کیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں سے انتقام کے طور پر ان کے ممالک کے درمیان یہ اسرائیلی حکومت قائم کرکے مسلمانوں کے جگر میں خنجر گھونپا ہے اور آج بھی اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے دم قدم سے یہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ ‘ برطانیہ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے تو اس کا وجود فوراً ختم ہوجائے۔ اسرائیلغیر قانونی ریاست : اسرائیل فلسطین میں اپنی ریاست کے قیام کی بنیاد جن تین بڑے ماخذوں پر تعمیر کرتا ہے : (١) انجیل میں عہد نامہ قدیم کی میراث۔ (٢) 1917 ء میں حکومت برطانیہ کا اعلان بالفور (٣) 1947 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سفارش جس میں فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ حالانکہ تاریخی لحاظ سے یہودی فلسطین کے قدیم ترین باشندے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے وہاں اتنا عرصہ حکومت کی جتنی دوسری اقوام نے کی ہے۔ جدیدماہرین آثار قدیمہ اب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں کے قدیم ترین باشندے یعنی 3000 سال قبل مسیح سے لے کر تقریبًا 1700 قبل مسیح تک کنعانی اور مصری تھے۔ جن کا ذکر قدیم کتب میں ملتا ہے۔ ان کے یکے بعد دیگرے دوسری اقوام مثلًا ہکسو، حطی اور فلسطینی آئے۔ یہودی حکومت کا عہد 875 قبل مسیح سے شروع ہو کر 1020 قبل مسیح تک رہا اس کے بعد اسرائیلیوں کو اسیرین، اہل بابل، مصریوں اور شامیوں نے روند ڈالا۔ پھر 83 قبل مسیح میں سلطنت رومانے یروشلم فتح کرکے یہودی معبدگھروں کو مسمار کرڈالا اور یہودیوں کو دوسرے علاقوں کی طرف بھگادیا۔ مجموعی طور پر فلسطین کی پانچ ہزارسالہ دستاویزی تاریخ میں قدیم یہودیوں نے اسے یا اس کے ایک بڑے حصہ کو محض چھ سو سال تک کنڑول کیا یعنی کنعانیوں، مصریوں، مسلمانوں اور رومیوں سے بہت کم امریکی ” کنگ کرین کمیشن “ کے مطابق اسرائیل کا 1919 ئ کے دو ہزار سال پیشتر قبضہ کو بنیاد بنا کر دعو ٰی ملکیت کرنا سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا۔ 14 مئی 1947 ء کو تل ابیب میں جو میٹنگ ہوئی جس میں جو ” قدرتی اور تاریخی حق “ کے طور پر اعلان آزادی کیا گیا تھا اس میں صرف یہودیوں کے 37 افراد شریک ہوئے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اس اقدام کی بین الأقوامی عالمی قانون میں کوئی مستند حیثیت نہیں بنتی کیونکہ وہ اس وقت کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ در حقیقت ان میں سے صرف ایک فلسطین کا پیدائشی شہری تھا بقیہ 35 یو رپی ممالک سے تھے اور ایک یمن کا باشندہ تھا۔ بقول ایک فلسطینی دانشور عیسیٰ نخلح کے ” یہودی اقلیت کو ایک ایسے علاقے میں اپنی آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کرنے کا کوئی حق نہیں تھا جہاں فلسطینی عرب قوم آباد تھی۔ “ امریکہ کی مالی امداد کا سہارا : ہر سال اسرائیل کو دی جانے والی امریکن امداد کسی بھی دوسرے ملک کو دی جانے والی امداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ صرف 1987 ء سے لے کر 2003 ء تک براہ راست دی جانے والی معاشی اور فوجی امداد تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں جو دوسرے مالی معاملات صرف اور صرف اسرائیل کے لیے خصوصی طور پر طے پاتے ہیں ان کو شامل کرکے یہ امداد تقریبًا پانچ ارب ڈالرسالا نہ تک جاپہنچتی ہے۔ اس میں اسرائیل کو دیے جانے والے قرضہ جات شامل نہیں ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق کسی بھی ملک کو امداد چاہے وہ اقتصادی ہو یا فوجی ! یکسر ختم کردینی چاہیے اگر وہ ملک جوہری ہتھیار بنالے یا پھر وہ ” عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہو “ امریکی حکومت کو سالہا سال سے اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے کے انبار کا اور اس کے حقوق انسانی کی لگاتار پامالی کا علم ہے لیکن کسی بھی صدر یا کانگرس نے قانون کے مطابق امداد کو ختم کرنے کے اقدامات تو کجا اس کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ [ بحوالہ اسرائیل کی دیدہ و دانستہ فریب کاریاں/پال فنڈ ] مسائل ١۔ یہودی اللہ تعالیٰ کی پناہ اور لوگوں کے سہارے کے بغیر ہر جگہ ذلیل و خوار رہیں گے۔ ٢۔ یہودی انبیاء کے قاتل، اللہ کی آیات کے منکر اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ تفسیر بالقرآن یہود ونصارٰی کی ذلّت کے اسباب : ١۔ اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہیں۔ (آل عمران : ١٨١) ٢۔ انبیاء کے گستاخ ہیں۔ (آل عمران : ٢١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکاری ہیں۔ (البقرۃ : ٦١) ٤۔ شرک کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہوئے۔ (المائدۃ : ١٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ (البقرۃ : ٨٣ تا ٨٥) ٦۔ کتاب اللہ میں تحریف کرنے کی وجہ سے خوار ہوئے۔ (النساء : ٤٦) ٧۔ سود اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کی بنا پر تباہ ہوئے۔ (النساء : ١٦١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم اس بات کا بھی انکشاف کرتا ہے کہ ان لوگوں کی قسمت میں ذلت اور خواری کیوں لکھ دی گئی ؟ اس کا سبب کیا ہے ؟ تو سبب دراصل ایک عام سبب ہے ‘ جس کے آثارونتائج ہر قوم پر منطبق ہوسکتے ہیں ۔ چاہے وہ دین کے معاملے میں جس قدر اونچے دعوے کرتی ہو۔ ان کی ذلت و خواری کا سبب اللہ کی نافرمانی اور ظلم تھا۔ ذ... َلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الأنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ ” اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا ۔ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام تھا۔ “ لہٰذا اللہ کی آیات کا سرے سے انکار کردینا اپنی زندگیوں میں انہیں نافذنہ کرنا اور ان کے مطابق اپنا نظام عدالت نہ چلانا اور انبیاء کو ناحق قتل کرنا ‘ اور ان لوگوں کو قتل کرنا جو لوگوں میں داعیان عدل ہوں جیسا کہ اس سورت کی دوسری آیت میں وارد ہے ۔ یعنی صرف نافرمانی اور ظلم کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور شکست ‘ ذلت اور خواری ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ۔ اور یہی وہ اسباب ہیں جو آج کل اس کرہ ارض پر مسلمانوں کی بگڑی ہوئی منحرف نسل کے اندر مکمل طور پر پائے جاتے ہیں ‘ وہ نسل جو اپنے اوپر لفظ اسلام کا اطلاق غلط طور پر کررہی ہے ‘ اور یہی اسباب آج وہ اللہ کے سامنے اپنے کردار کے آئینہ میں ‘ پیش کررہے ہیں ‘ اس لئے اللہ کی جانب سے بھی آج ان کے ساتھ بعینہ وہی سلوک کیا جارہا ہے جو اللہ نے ان ہی اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ کبھی کیا تھا ‘ یعنی آج شکست ‘ ذلت اور خواری ان کا مقدر بن چکی ہے ۔ جب آج ان میں سے کوئی پوچھتا کہ ہم اس کرہ ارض پر غالب کیوں نہیں ہورہے ‘ حالانکہ ہم مسلمان ہیں ؟ تو یہ سوال کرنے سے پہلے اسے معلوم ہونا چاہئے تھا کہ اسلام ہے کیا ؟ اور مسلمان ہوتے کون ہیں ؟ پھر وہ یہ سوال کرے ۔ بہرحال رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت اہل کتاب میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے ۔ اگرچہ تھوڑے تھے ‘ یہ ضروری تھا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جاتا ۔ اس لئے آیت بالا کے بیان کردہ کلیہ میں استثناء کی گئی ۔ بتایا گیا کہ وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ‘ ان میں سے اچھے مومن بھی پیدا ہوئے ہیں ۔ اور ان کا تعلق باللہ بعینہ ایک اچھے مسلمان اور صادق مسلمان کی طرح ہے۔ اس لئے جو اس جزا کے مستحق ہوں گے ‘ جس کے سچے اہل ایمان مستحق ہوئے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

167 حَبل کے معنی عہد اور ذمہ کے ہیں۔ والحبل العھد والذمۃ ( مدارک ص 137 ج 1) حَبْلٌ مِّنَ اللہِ سے مراد عقد ذمہ اور اداء جزیہ ہے اور حَبْلٌ مِّنَ النَّاسِ سے لوگوں کی طرف سے امان نفس اور حفاظت مال وغیرہ کا عہد مراد ہے۔ ای بذمۃ من اللہ وھو عقد الذمۃ لھم وضرب الجزیۃ علیھم والزامھم احکام الملۃ وحبل من ا... لناس ای امان منھم لھم کما فی المھادن والمعاھد الخ (ابن کثیر ص 396 ج 1) حاصل یہ کہ یہودیوں پر ذلت ورسوائی مسلط کردی گئی ہے۔ اور ہر جگہ ان کا مال اور ان کی جان بےوقعت ہیں اور سوائے دو صورتوں کے نہ ان کا مال وجان محفوظ ہے۔ اور نہ ہی ان کو عزت اور وقار کی زندگی نصیب ہے۔ اول یہ کہ وہ کسی مسلم حکومت کے ذمی بن کر رہیں ان کو جزیہ ادا کریں اور اس طرح وہ حقوق ذمہ حاصل کرلیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ دوم یہ کہ کسی دوسری قوم سے دوستی اور نصرت ومدد کا کوئی معاہدہ کرلیں اور اس طرح ان کو زندگی میں کچھ چین نصیب ہوجائے ان دونوں صورتوں کے سوا دنیا میں نہ ان کی کوئی خود مختار حکومت قائم کے تحت امریکہ کے سہارے جی رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے۔ اسرائیلی حکومت کا وجود مغرب کے ان سیاسی جوئے بازوں کے اپنے ذاتی مفادات کا نتیجہ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ 168 یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یعنی ان بد اعمالیوں کی وجہ سے وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوچکے ہیں اور دنیا میں ان پر غضب الٰہی کا ظہور ابدی ذلت اور رسوائی کی صورت میں ہوچکا ہے وہ جہاں کہیں بھی ہیں ذلیل و خوار اور دوسروں کے محتاج ہیں۔ مَسْکَنَة سے اکثر مفسرین نے جزیہ مراد لیا ہے جو ذلت ورسوائی کی علامت ہے۔ والاکثرون حملوا المسکنة علی الجزیۃ وھو قول الحسن الخ (کبیر ص 43 ج 3) اور بعض نے اس لفظ کو فقر اور تنگدستی پر محمول کیا ہے یہودیوں میں جو مالدار ہیں وہ معدودے چند ہیں اور ان کی اکثریت فقرا اور تنگدستی میں مبتلا ہے اور جو مالدار ہیں وہ بھی اپنا غنا ظاہر نہیں کرتے فھم فی الغالب مساکین وقلما یوجد یھودی بظھر الغنی (روح ص 29 ج 4) ۔ 169 ذَالِک سے مذکورہ سزاؤں کی طرف اشارہ ہے اور آیات سے تورات کی وہ آیتیں مراد ہیں۔ جن میں مسئلہ توحید کا بیان تھا اور جو حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر دلالت کرتی تھیں (روح ص 29 ج 4) یعنی ان کو مذکورہ سزائیں اس لیے دی گئیں کہ ایک تو وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا کرتے تھے دوم اس لیے کہ وہ اللہ کی توحید بیان کرنے والے پیغمبروں کو بیدردی سے قتل کیا کرتے تھے۔ 170 ذَالَِ سے کفر اور قتل انبیاء کی طرف اشارہ ہے مچلب یہ کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل اس لیے کیا کرتے تھے کہ خدا کی لگاتار نافرمانی اور اس کی مسلسل حدود شکنی کی وجہ سے ان کے دل سیا اور سخت ہوچکے تھے۔ کفر وعصیان ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ اور ضدوعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت ثبت ہوچکی تھی اس لیے ایمان و اطاعت کی تو ان سے توقع ہی نہیں تھی۔ ان سے اگر صادر ہوسکتے تھے۔ تو کفر وعصیان اور قتل انبیاء ایسے برے افعال اور سنگین جرائم ہی صادر ہوسکتے تھے۔ لَیْسُوْا سَوَاءً ۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ جب قوموں پر خدا کا غضب آتا ہے تو ان کا ہر ہر فرد بدکار نہیں ہوتا بلکہ ان میں بعض نیکو کار بھی ہوتے ہیں اور ان سنگریزوں کے ڈھیروں میں کوئی کوئی سچا موتی بھی ہوتا ہے یہی حال اہل کتاب کا تھا۔ جہاں ان کے عالموں، پیروں، درویشوں اور سجادہ نشینوں کی اکثریت دنیا دار، غلط کار اور حق پوش تھی وہاں ان میں خال خال خدا سے ڈرنے والے حق کہنے اور توحید بیان کرنیوالے عالم بھی موجود تھے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہود کے باطل پرست اور شرک پسند عالموں کی شرارتوں اور ان کی سزاؤں کا ذکر فرمایا اب یہاں سے یہود کے ان عالموں اور پیروں کا ذکر شروع ہوتا ہے جنہوں نے دین توحید یعنی اسلام قبول کرلیا تھا اور پھر توحید کی تبلیغ و اشاعت بھی کرتے تھے اور خود بھی توحید پر قائم تھے چناچہ فرمایا کہ اہل کتاب سب یکساں نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے قبول حق کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اور دین توحید (اسلام) کو قبول کر کے نہ صرف خود اس پر قائم ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں اور اس کی تبلیغ و اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے مسلمانو ! وہ اہل کتاب تم کو بجز معمولی اور خفیف اذیت کے کوئی بڑا نقصان ہرگز نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر کبھی وہ تم سے مقابلہ پر آمادہ ہوجائیں اور تم سے جنگ کریں تو میدان جنگ سے تم کو پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے پھر ان کی کہیں سے کوئی امداد نہیں کی جائیگی اور کسی طرف سے ان کی کوئی حمایت نہیں ہوگ... ی وہ خواہ کہیں بھی ہوں اور کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلت و بےقدری اور بےامنی لازم کردی گئی ہے مگر ہاں دو صورتوں میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا ذریعہ حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو یا کوئی ایسا ذمہ اور دستاویز حاصل کریں جو لوگوں کی طرف سے ہو اور یہ لوگ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر پستی اور مسکنت چمٹادی گئی یہ ذلت اور غضب ان پر اس وجہ سے پڑا کہ وہ احکام الٰہی کو ماننے سے انکار کرتے تھے اور یہ جانتے ہوئے کہ نبیوں کا قتل کرنا حق کے خلاف ہے پھر نبیوں کو قتل کردیا کرتے تھے اور اس دلیری و بےباکی اور جرأت علی الاثم کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ نافرمانی کے عادی اور خوگر ہوچکے تھے اور خدا کی مقررہ حدود سے آگے نکل جاتے تھے (تیسیر) بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا تعلق یہود سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ تم کو سوائے اس کے کہ برا بھلا کہہ کر اور گالیاں دے کر کچھ تکلیف پہنچائیں تو پہنچائیں باقی اور کوئی ضرر اور کوئی معتدبہ نقصان تم کو نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر کبھی ہمت کرکے مقابلہ کو نکل آئے اور میدان کارزار میں آ کھڑے ہوئے تو پیٹھ دیکر بھاگ جائیں گے کیونکہ ان میں مقابلہ کی جان نہیں ہے۔ اول تو سرمایہ دار اور عیش پرست لوگ ہیں پھر ملعون و مغضوب ہیں اس لئے ان میں جنگ کرنے اور مرنے کی ہمت نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ان کو اپنی نافرمانیوں کے باعث اپنا انجام معلوم ہے۔ نیز یہ کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل نہیں ہے جو کامیابی اور فتح کی اصل شرط ہے اس لئے سوائے اس کے کہ پیٹھ دیکر بھاگیں اور کیا کریں گے ایسی حالت میں ان کی کہیں سے کوئی مدد بھی نہیں کی جائے گی ذلت اور مسکنت کی تشریح ہم پہلے پارے میں کرچکے ہیں یہاں ذلت سے مراد یہ ہے کہ ان کی جان اور مال محفوظ نہیں اسی لئے ہم نے تیسیر میں اشارہ کردیا ہے کہ یہ لوگ جہاں بھی پائے جائیں اور جب بھی پائے جائیں ذلت ان سے وابستہ ہے اور یہ لوگ مباح الدم اور مباح المال ہیں نہ ان کی جان مامون ہے، نہ ان کا مال ہاں مامون ہونے کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ اللہ کا ذمہ ان کو حاصل ہوجائے دوسرے یہ کہ مسلمانوں سے کوئی معاہدہ ہوجائے یہاں حبل من اللہ وحبل من الناس سے مراد ذمہ ہے جس طرح رستی کو پکڑ کے انسان خطرات سے نجات حاصل کرتا ہے اسی طرح ایک کافرمعاہدے اور پناہ حاصل کر کے امان حاصل کرتا ہے اس لئے یہاں اس پناہ اور ذمہ کو جو خدا کی جانب سے اور بندوں کی جانب سے حاصل ہوجائے اس کو حبل من اللہ اور حبل من الناس سے تعبیر کردیا ہے۔ امان کی صورتیں دو ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصریح فرمائی ہو جیسے جزیہ کہ اگر یہ لوگ جزیہ دینا منظور کریں تو ان کو امن دے دو اور دوسری صورت یہ کہ امام کی رائے پر موقوف ہو اور وہ جس طرح مناسب سمجھے بعض شرائط کے ساتھ امن دے دے۔ اسی وجہ سے مفسرین نے اس موقع پر کئی طرح تفسیر کی ہے۔ مثلاً حبل من اللہ سے مراد یہ ہے کہ توریت کا نام لیتے ہیں اور کچھ بچی کھچی رسموں پر توریت کی عمل کرتے ہیں اس لئے پڑے ہیں یا یہ کہ شریعت نے ان کو مستثنیٰ کردیا ہو مثلاً کوئی راہب ہو یا کوئی عبادت گزار ہو یعنی جو لوگ لڑائی میں کوئی حصہ نہیں لیتے بلکہ ہر وقت عبادت الٰہی میں مشغول رہتے ہیں یا بڈھے اور عورتیں اور بیمار وغیرہ کہ ان کو مارنے کا حکم نہیں ہے یا یہ کہ جزیہ دینے کو تیار ہوجائیں یا یہ کہ اسلام مراد ہو کہ اگر اسلام قبول کرلیں تو مامون ہوسکتے ہیں یہ سب صورتیں حبل من اللہ کی ہیں اور حبل من الناس کا یہ مطلب ہے کہ مسلمانوں سے معاہدہ کرلیں یا مسلمانوں کی رعایا بن جائیں اور جزیہ دینا قبول کرلیں یا کسی اور طرح مسلمان ان کو امن دیدیں۔ غرض نتیجہ کے اعتبار سے اللہ کا ذمہ اور مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے لیکن بہرحال ذمۃ اللہ اور ذمۃ المسلمین دو چیزیں ہیں۔ اسی وجہ سے بعض حضرات نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ ان کو اللہ کا ذمہ یا مسلمانوں کا ذمہ ہی ذلت اور تباہی سے بچا سکتا ہے ہم نے تیسیر میں اسی طرح ترجمہ کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہود اپنی شرارتوں کے باعث ذلت و مسکنت اور غضب الٰہی کے مستحق قرار پاچکے ہیں یہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے۔ البتہ دو حالتیں مستثنیٰ ہیں کہ مسلمان ان کو پناہ دے دیں اور ان سے کوئی معاہدہ کرلیں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون ان کو مستثنیٰ کرتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الناس کا لفظ عام ہو اور مطلب یہ ہو کہ کسی حکومت کی رعیت بن کر اس کی پناہ میں آجائیں اور محفوظ رہیں۔ بہرحال حفاظت خود اختیاری سے یہ لوگ محروم کردیئے گئے اور یہ خود مختار ہو کر بغیر کسی دوسرے کا سہارا لئے مامون و محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اور اس دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت و رسوائی ہوسکتی ہے کہ کسی قوم کے پاس اپنے کو زندہ رکھنے کا سامان نہ ہو۔ مسکنت کا مطلب بھی یہی ہے کہ باوجود سرمایہ دار ہونے کے اپنے بخل اور کنجوسی کی وجہ سے ان پر مسکنت چھائی ہے اور اس سے بڑھ کر مسکین کون ہوسکتا ہے کہ جس کے پاس روپے ہوں اور اس کی قسمت میں اپنی کمائی سے فائدہ اٹھانا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ ذات سے مراد غیر مامون ہونا اور مسکنت سے مراد غلام رہنا ہو۔ چونکہ الفاظ قرآنی میں بڑی وسعت ہے اس لئے ہر شخص نے اپنے ذوق کے موافق تفسیر کی ہے ہم نے تسہیل میں تمام اقوال کی زیادہ سے زیادہ رعایت کی ہے۔ قانون الٰہی یہ ہے کہ جب کسی قوم کی شرارت اور نافرمانی اور نیک بندوں کی ایذا رسانی اور حق کو حق جان کر اس سے روگردانی یہ باتیں حد سے بڑھ جاتی ہیں اور چھوٹے بڑے سب ان باتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم کو عام طور سے گھیر لیتا ہے۔ یہود کا یہی حشر ہوا کیونکہ ان لوگوں نے نبی آخر الزمان کا انکار کیا۔ قرآن سے روگردانی کی۔ اپنے زمانے کے انبیاء کو قتل کیا اور یہ جانتے ہوئے قتل کیا کہ انبیاء کا قتل کرنا بدترین مصیبت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑا ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم ذات اور غلامی مغلوبی اور محتاجی میں مبتلا کردی گئی اور اللہ تعالیٰ کے غضب میں پوری کی پوری قوم گھر گئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سوائے دست آویز یعنی یہود دنیا میں کہیں اپنی حکومت سے نہیں رہتے۔ بغیر دست آویز اللہ کے کہ بعض رسمیں توریت کی عمل میں لاتے ہیں اس کے طفیل سے پڑے ہیں اور بغیر دست آویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت ہیں اس کی پناہ میں پڑے ہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے حبل کا ترجمہ دست آویز کیا ہے اسی کی مناسبت سے شرح فرمائی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ شاہ صاحب (رح) کی شرح مختصر اور نہایت جامع ہے اللہ تعالیٰ کی دست آویز کا یہ مطلب کہ توریت کا نام لیتے ہیں اور اس کی کچھ باتوں پر عمل کرتے ہیں اس کے صدقہ میں جی رہے ہیں اور لوگوں کی دست آویز کا یہ مطلب کہ غلام ہیں اور رعیت بن کر دوسروں کے سہارے پر پڑے ہیں اپنی کوئی مضبوط اور پائیدار حکومت نہیں۔ قرآن کی یہ ایک پیشین گوئی تھی جو پوری ہوئی۔ یہود نے جہاں جہاں مسلمانوں سے مقابلہ کیا شکست کھائی۔ جیسا کہ بنی قینقاع، بنی قریظہ، بنی نضیر اور خیبر وغیرہ میں ہوا اور جس ذلت و مسکنت اور غضب میں مبتلا ہوئے تھے اس سے آج تک نکلنا نصیب نہیں ہوا چونکہ اہل کتاب کے اوپر دو حصے فرمائے تھے ایک حصہ مسلمان اور دوسرا معاند معاندین کی اکثریت کا اظہار فرمایا تھا اکثریت سے جو خطرہ لاحق ہونا تھا اس کو دور فرما دیا کہ اگر معاندین زیادہ ہیں تو ان کی اکثریت کی کوئی فکر نہ کرو یہ تمہارے مقابلے میں جم نہیں سکتے۔ اب آگے دونوں قسموں کی تفصیل بیان فرماتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more