Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 115

سورة آل عمران

وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾

And whatever good they do - never will it be removed from them. And Allah is Knowing of the righteous.

یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہ کی جائے گی اور اللہ تعالٰی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا يَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوْهُ ... And whatever good they do, nothing will be rejected of them; meaning, their good deeds will not be lost with Allah. Rather, He will award them the best rewards. ... وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ for Allah knows well the Muttaqin (the pious). for no deed performed by any person ever escapes His knowledge, nor is any reward for those who do good deeds ever lost with Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

115۔ 1 یعنی سارے اہل کتاب ایسے نہیں جن کی مذمت پچھلی آیات میں بیان کی گئی ہے، بلکہ ان میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام سے نوازا اور ان میں اہل ایمان وتقویٰ والی خوبیاں پائی جاتی ہیں، رضی اللہ عنھم ورضو عنہ۔ قائمۃ کے معنی ہیں، شریعت کی اطاعت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرنے والی، یسجدون کا مطلب رات کو قیام کرتے یعنی تہجد پڑھتے اور نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں۔ اس مقام پر امر بالمعروف کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔ اسی گروہ کا ذکر آگے بھی کیا گیا ہے (وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ) 003:199

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] یعنی اہل کتاب کے منصف مزاج لوگ جو اسلام لے آئے ہیں۔ ان کے اسلام لانے سے پہلے کے اچھے کاموں کا انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے دو فائدے ہیں اور وہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اسلام لانے سے پہلے نیک اعمال برقرار رکھے جاتے ہیں، یعنی دور کفر کے اچھے کاموں کا بھی انہیں ثواب عطا کیا جائے گا۔ اور کافروں کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ یعنی ان کی نیکیاں برباد اور گناہ لازم ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ ۔۔ : یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ بھی صفات مذکورہ سے متصف ہوجائیں گے انھیں صرف ان کے نیک اعمال کا ثواب ہی نہیں ملے گا بلکہ اسلام میں داخل ہونے سے قبل کی نیکیوں کا اجر بھی حاصل ہوگا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے : ” تین آدمیوں کو دوہرا اجر ملے گا، ان میں سے ایک اہل کتاب میں سے وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور پھر مجھ پر بھی، تو اسے دو اجر ملیں گے، دوسرا وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہے، اللہ کا حق ادا کرتا ہے اور اپنے مالکوں کا بھی، اس کے لیے بھی دو اجر ہیں اور تیسرا وہ آدمی جس نے اپنی لونڈی کو ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلیا تو اس کے لیے بھی دو اجر ہیں۔ “ [ بخاری، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ : ٩٧۔ مسلم : ١٥٤ ] مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة حدید (٢٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْہُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَ۝ ١١٥ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٥) عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی مذکورہ باتوں میں سے جو بھی نیکیاں یارسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کے ساتھ جو بھی احسان کریں گے اس کے ثواب سے محروم نہیں کیے جائیں گئے، بلکہ ان حضرات کو اس کا ثواب ضرور ملے گا اور جو حضرات کفر وشرک اور تمام فواحش سے بچتے ہیں جیسے حضرت عبدد اللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی تو اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:115) فلن یکفروہ۔ تو اس کار خیر سے انکار نہیں کیا جائے گا۔ یعنی اس کار خیر کا ان کو اجردیا جائے گا۔ مضارع مجہول۔ نفی تاکید بلن۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

173 ایمان لانے کے بعد وہ جو بھی نیک عمل بجا لائیں گے اس کے اجر وثواب سے وہ محروم نہیں رہیں گے بلکہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔ اور ان کا سابقہ کفر اور ان کے گذشتہ برے اعمال اس پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔ ای لن یحرموا ثوابہ البتۃ (روح ص 35 ج 4) وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ ٍ فَلَنْ تحجدو ثوابہ بل یشکر لکم وتجازون علیہ (قرطبی ص 177 ج 4) وَاللہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ ۔ پرہیز گار لوگ اللہ سے چھپے ہوئے نہیوں وہ ان کی نیکی اور پرہیز گاری کی ضرور جزاء ملے گا۔ اس میں متقین کے لیے اخروی جزا کا وعدہ ہے۔ ومعنی علیھم بھم انہ مجازیھم علی تقواھم وفی ذالک وعد للمقتین ووعید للمفرطین (بحر ص 36 ج 3) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر پوری طرح ایمان رکھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اچھے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیک کام کرنے کو کہتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے اور روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں دوڑتے اور جلدی کرتے ہیں اور ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ مذکورہ حضرات نیک اور شائستہ لوگوں میں سے ہیں اور یہ لوگ جو نیک کام بھی کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اس کے ثواب سے یہ لوگ محروم نہیں کئے جائیں گے اور اس ناقدری اور محرومی کا بھلا احتمال ہی کب ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ امت قائمہ جس کا ذکر ہم کر رہے یں یہ ایسی جماعت ہے کہ اس کے تمام افراد اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر صحیح ایمان رکھتے ہیں یعنی کامل مومن ہیں پھر دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں پھر ان کے عمل کی خود یہ حالت ہے کہ کوئی نیک کام سامنے آجائے تو اس کی طرف دوڑتے اور لپکتے ہیں یعنی کوئی نیک کام نہیں چھوڑتے جب ان کے اعتقاد اور عمل کی یہ حالت ہے تو اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔ دوسری آیت میں ان کی طاعات و عبادات کی قبولیت کا ذکر ہے اور ان کے اہل تقویٰ میں سے ہونے کا اظہار ہے۔ فلن یکفروہ کا مطلب یہ ہے کہ خدمات کا اعتراف کیا جائے گا اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عبادات و طاعات کو نظر انداز کردیا جائے کیونکہ ہم ایسے آقا نہیں ہیں کہ لوگوں کی حالت سے بیخبر ہوں یا کسی کی سعی اور محنت کے قدر دان نہ ہوں۔ جب یہ دونوں باتیں نہیں تو ان کی محنت کا پھل کس طرح ضائع ہوسکتا ہے ان کی شان تو یہ ہے وکان اللہ شاکر علیما یعنی اللہ تعالیٰ قدر دان اور جاننے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود میں پانچ سات آدمی حق پرست تھے وہ مسلمان ہوگئے ان کے سردار عبد اللہ بن سلام تھے۔ حق تعالیٰ ہر جگہ اہل کتاب کی مذمت میں سے ان کو نکال لیتا ہے یہ بھی ان ہی کا مذکور تھا (موضح القرآن) جاننا چاہئے کہ امت قائمۃ میں تمام اوصاف اور خوبیاں شامل تھیں لیکن خصوصی طور پر ان کے نیک اعمال اور اعتقاد کو علیحدہ بیان فرمایا۔ اب آگے ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو کفر پر قائم رہے اور اسلام قبول کرنے اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے بچتے اور بھاگتے رہے۔ (تسہیل)