Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 117

سورة آل عمران

مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتۡ حَرۡثَ قَوۡمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَاَہۡلَکَتۡہُ ؕ وَ مَا ظَلَمَہُمُ اللّٰہُ وَ لٰکِنۡ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۱۷﴾

The example of what they spend in this worldly life is like that of a wind containing frost which strikes the harvest of a people who have wronged themselves and destroys it. And Allah has not wronged them, but they wrong themselves.

یہ کفّار جو خرچ اخراجات کریں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک تند ہوا چلی جس میں پالا تھا جو ظالموں کی کھیتی پر پڑا اور اسے تہس نہس کر دیا ۔ اللہ تعالٰی نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِي هِـذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ ... The likeness of what they spend in this world is the likeness of a wind of Sir; Ibn Abbas, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Al-Hasan, Qatadah, Ad-Dahhak, Ar-Rabi bin Anas and others have said. a frigid wind. Ata said that; Sir, means, `cold and snow.' Ibn Abbas and Mujahid are also reported to have said that; Sir means, `fire'. This latter meaning does not contradict the meanings we mentioned above, because extreme cold weather, especially when accompanied by snow, burns plants and produce, and has the same effect fire has on such growth. ... أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ... It struck the harvest of a people who did wrong against themselves and destroyed it, by burning. This Ayah mentions a calamity that strikes produce that is ready to harvest, destroying it by burning and depriving its owner of it when he needs it the most. Such is the case with the disbelievers, for Allah destroys the rewards for their good deeds in this life, just as He destroyed the produce of the sinner because of his sins. Both types did not build their work on firm foundations. ... وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّهُ وَلَـكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ And Allah wronged them not, but they wronged themselves.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

117۔ 1 قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد، حتیٰ کے رفاہی اور بظاہر بھلائی کے کاموں پر جو بھی خرچ کرتے ہیں وہ بیکار جائیں گے اور ان کی مثال اس سخت پالے کی سی ہے جو ہری بھری کھیتی کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے ظالم اسی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا جب تک ایمان نہیں ہوگا، رفاہی کاموں پر رقم خرچ کرنے والوں کی چاہے دنیا میں کتنی ہی شہرت ہوجائے آخرت میں انہیں ان کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] یہ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزا ہے۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ بوئے گا وہ عالم آخرت میں کاٹے گا۔ مگر دنیا میں بوئی ہوئی کھیتی کی بار آوری کے لیے چند شرائط ہیں۔ ان شرائط کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو کھیتی کبھی بار آور نہ ہوگی اور وہ شرائط ہیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، خلوص نیت یعنی اس میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو اور جو کام کیا جائے خالص اللہ کی رضا مندی کے لیے کیا جائے اور تیسرے اتباع کتاب و سنت یعنی وہ کام یا صدقہ و خیرات جو شریعت کی بتلائی ہوئی ہدایت کے مطابق کیا جائے۔ ان میں سے اگر کوئی چیز بھی مفقود ہوگی تو آخرت میں کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اس آیت میں جن کافروں کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ ان میں یہ تینوں شرائط ہی مفقود ہوتی ہیں۔ کافر تو وہ کہلاتے ہی اس لیے ہیں کہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی اپنے آپ پر سب سے بڑا ظلم ہوتا ہے یا اگر اپنے خیال کے مطابق ایمان رکھتے بھی ہیں تو وہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں اور چونکہ ان کا روز آخرت پر ایمان نہیں ہوتا۔ لہذا وہ جو بھی خرچ کریں گے وہ محض نمائش اور اپنی واہ واہ کے لیے کریں گے اور شریعت محمدیہ کی ہدایات کی اتباع کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تو پھر آخرت میں بھلا انہیں ایسے اعمال کا کیا بدلہ مل سکتا ہے۔ ان کے نیک اعمال کی کھیتی کو ان کے کفر کی کہر نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تو اب آخرت میں انہیں کیا بدلہ ملے گا ؟ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٦٣ میں لوگوں کے دکھلاوے کی خاطر خرچ کرنے والے کی یہ مثال بیان کی گئی کہ جیسے ایک صاف چکنے پتھر پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس مٹی میں کوئی شخص بیج بو دے، پھر زور کی بارش آئے تو دانہ اور مٹی ہر چیز کو بہا کرلے جائے اور پتھر چکنے کا چکنا باقی رہ جائے اور یہاں یہ مثال بیان کی گئی ہے کہ کھیتی تو اگ آئی مگر اس پر ایسی شدید ٹھنڈی ہوا چلی جس نے اس کھیتی کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ ماحصل دونوں مثالوں کا ایک ہی ہے کہ ایسے کافروں اور ریا کاروں کو آخرت میں ان کے صدقہ و خیرات کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ کیونکہ ان کی کھیتی تو دنیا میں ہی تباہ و برباد ہوچکی اور جو کام انہوں نے آخرت کے لیے کیا ہی نہ تھا اس کی انہیں جزا کیسے مل سکتی ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ مَا يُنْفِقُوْنَ فِيْ ھٰذِہِ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْھَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ فَاَھْلَكَتْہُ۝ ٠ ۭ وَمَا ظَلَمَھُمُ اللہُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۝ ١١٧ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ صر ( الصر) بکسر الصاد : الریح الباردة، کالصّرصر . قال حاتم الطائي : أوقد فإن اللیل ليل قرّ ... والریح يا غلام ريح صر حرث الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ، يتناول الحرثین . ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٧) یہود یہودیت کے زمانہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسکی مثال سخت ٹھنڈی یا بہت گرم ہوا کی طرح ہے جو ایسے لوگوں کی کھیتی کو لگے جو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی سے غافل ہیں، پھر وہ اس کو چلا کر راکھ کردے جیسے اس طرح کی آندھی کھیتی کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح شرک تمام خرچ کیے ہوئے مال کو ہلاک کردیتا ہے۔ (یعنی ایسا مال بارگاہ الہی میں قبول نہیں ہوتا) اپنی کھیتیوں اور ظاہری صدقہ خیرات کے منافع کفر کی وجہ سے اور کھیتی میں سے اللہ کے حق کی ادائیگی نہ کرنے کی بنا پر اور مال برباد ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٧ (مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) قریش مکہ اہل ایمان کے خلاف جو جنگی تیاریاں کر رہے تھے تو اس کے لیے مال خرچ کرتے تھے۔ فوج تیار کرنی ہے تو اس کے لیے اونٹ اور دیگر سواریوں کی ضرورت ہے ‘ سامان حرب و ضرب کی ضرورت ہے ‘ تو ظاہر ہے اس کے لیے مال تو خرچ ہوگا۔ یہ اس انفاق مال کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں یا تو دین کی مخالفت کے لیے یا اپنے جی کو ذرا جھوٹی تسلی دینے کے لیے کرتے ہیں کہ ہم کچھ صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں ‘ چاہے ہمارا کردار کتنا ہی گرگیا ہو۔ تو ان کے انفاق کی مثال ایسی ہے : (کَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْہَا صِرٌّ) (اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ فَاَہْلَکَتْہُ ط) ۔ یعنی ان کی یہ نیکیاں ‘ یہ انفاق ‘ یہ جدوجہد اور دوڑ دھوپ سب کی سب بالکل ضائع ہوجانے والی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91. The term 'harvest' in this parable refers to this life which resembles a field of cultivation the harvest of which one will reap in the World to Come. The 'wind' refers to the superficial appearance of righteousness, for the sake of which unbelievers spend their wealth on philanthropic and charitable causes. The expression 'frost' indicates their lack of true faith and their failure to follow the Divine Laws, as a result of which their entire life has gone astray. By means of this parable God seeks to bring home to them that while wind is useful for the growth of cultivation if that wind turns into frost it destroys it. So it is with man's acts of charity: they can prove helpful to the growth of the harvest one will reap in the Hereafter but are liable to be destructive if mixed with unbelief. God is the Lord and Master of man as well as of all that man owns, and the world in which he lives. If a man either does not recognize the sovereignty of his Lord and unlawfully serves others or disobeys God's Laws then his actions become crimes for which he deserves to be tried; his acts of 'charity' are but the acts of a servant who unlawfully helps himself to his master's treasure and then spends it as he likes.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :91 اس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشت حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے ۔ ہوا سے مراد وہ اوپری جزبہ خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں ۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطہ خداوندی کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس تمثیل سے یہ بتانا چاہتا ہے کہ جس طرح ہوا کھیتیوں کی پرورش کے لیے مفید ہے لیکن اگر اسی ہوا میں پالا ہو تو کھیتی کو پرورش کرنے کے بجائے اسے تباہ کر ڈالتی ہے ، اسی طرح خیرات بھی اگرچہ انسان کے مزرعہ آخرت کو پرورش کرنے والی چیز ہے ، مگر جب اس کے اندر کفر کا زہر ملا ہوا ہو تو یہی خیرات مفید ہونے کے بجائے الٹی مہلک بن جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مالک اللہ ہے ، اور اس مال کا مالک بھی اللہ ہی ہے جس میں انسان تصرف کر رہا ہے ، اور یہ مملکت بھی اللہ ہی کی ہے جس کے اندر رہ کر انسان کام کر رہا ہے ۔ اب اگر اللہ یا یہ غلام اپنے مالک کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتا ، یا اس کی بندگی کے ساتھ کسی اور کی ناجائز بندگی بھی شریک کرتا ہے ، اور اللہ کے مال اور اس کی مملکت میں تصرف کرتے ہوئے اس کے قانون و ضابطہ کی اطاعت نہیں کرتا ، تو اس کے یہ تمام تصرفات از سر تا پا جرم بن جاتے ہیں ۔ اجر ملنا کیسا وہ تو اس کا مستحق ہے کہ ان تمام حرکات کے لیے اس پر فوجداری کا مقدمہ قائم کیا جائے ۔ اس کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نوکر اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس کا خزانہ کھولے اور جہاں جہاں اپنی دانست میں مناسب سمجھے خرچ کر ڈالے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

کافر لوگ جو کچھ خیرات کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا صلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں ان کے کفر کی وجہ سے، اس کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا، لہذا ان کے خیراتی اعمال کی مثال ایک کھیتی سی ہے اور ان کے کفر کی مثال اس تیز آندھی کی ہے جس میں پالا بھی ہو اور وہ اچھی خاصی کھیتی کو برباد کرڈالے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:117) صر۔ (ٹھر۔ پالا۔ سردی۔ ٹھنڈک۔ لو۔ باد سموم)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر نہ دیا آخرتے میں دیا نہ دیا برابر ہے ْ ۔ ( موضح) اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا ہے کہ ان کی ادنی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اب اس آیت میں کافر کے صدقہ و خیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بےفائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ظالم کی اس کھتی سے تشبیہ دی ہے جو دیکھنے میں سرسبز و شاداب نظر آئے لیکن یکایک سرد ہوا چلے اور اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے یہی حال کفار کے صدقہ و خیرات کا ہے۔ وہ چونکہ ایمان واخلاص کی دولت سے محروم ہیں اسے لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ و برباد ہوجائیں گے اور انہیں ان کا کچھ بھی اجر نہ ملے گا کیونکہ آخرت میں نیک اعمال کی حفاظت کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ایمان و اخلاص کا احصار یہ نہیں تو تمام اعمال بیکار ہوں گے واضح رہے کہ قرآن میں عموما ریح کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور یاح) جمع کا لفظ رحمت کے لیے اسفردات۔ 1 یعنی ان کے اعمال جو ضائع و برباد ہوگئے یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے بلک ریا کاری کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جس کے سامنے ایک ہر ابھرا کھیت ہے ‘ اس کی فصل کٹائی کے لئے تیار ہے ۔ کھیت لہلہارہا ہے ۔ اچانک تیز ہوا چلتی ہے ‘ یہ نہایت سرد برفانی ہوا ہے ‘ شدید سردی کی وجہ سے تیار فصل جل جاتی ہے ‘ یہ دیکھا گیا ہے کہ شدت برودت کی وجہ سے فصل جھلس جاتی ہے ۔ الفاظ اسی طرح استعمال ہوئے ہیں کہ گویا اس کھیت پر بڑی تیزی اور قوت کے ساتھ سنگ باری ہوتی ہے اور پورے پورے کھیت کو برباد اور خراب کردیا جاتا ہے ۔ چشم زدن میں یہ پورا عمل سر انجام پاتا ہے ۔ آناً فاناً کھیت ملیا میٹ اور خراب ہوجاتا ہے ۔ یہی مثال اس دنیا میں ان لوگوں کے انفاق کی ہے جو کافر ہیں ‘ اگرچہ وہ بظاہر کارخیر اور اچھے مقاصد میں خرچ کرتے ہیں نیز ان لوگوں کے اموال اور اولاد بھی کچھ کام نہ دیں گے ۔ قیامت میں سب کے سب بےکار ہوں گے ۔ وہ وہاں نہ کوئی حقیقی دولت ہوں گے اور نہ ان پر کوئی جزاء ہوگی اور نہ مفید بن سکیں گے ۔ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ……………” اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا ‘ وہ خود اپنے اوپر ظلم کررہے ہیں ۔ “ خود انہوں نے اس نظام زندگی سے روگردانی کی جو تمام انفرادی بھلائیوں اور اچھائیوں کو جمع کرنے والا ہے ‘ ان کو ایک خط مستقیم پر لاتا ہے اور مستحکم کرکے ایک مرکزتک پہنچاتا ہے ۔ جس کا ایک مقرر ہدف ہے ‘ ایک قابل فہم داعیہ ہے ‘ اس میں نیکی کا ایک خاص طریق کار ہے ‘ اس میں نیکی کو کسی عارضی جذبے یا کسی پوشیدہ خواہش اور یا کسی بےربط عمل کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ اس میں نیکی اور بھلائی ایک مستقل دائمی منہاج کے مطابق سر انجام دی جاتی ہے ۔ ان لوگوں نے خود اپنے لئے گمراہی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا ‘ انہوں نے اللہ کی رسی کی حفاظت سے منہ موڑا ‘ جس کی وجہ سے ان کے تمام اعمال اکارت گئے ‘ یہاں تک کہ جو مال انہوں نے بظاہر کارخیر میں صرف کئے وہ بھی ضائع ہوئے ۔ جب ان کا کھیت بھی تباہ ہوگیا ‘ تو پھر ان کا مال ان کے کس کام اور ان کی اولاد ان کے کس کام ؟ یہ ظلم انہوں نے خود اپنے آپ پر کیا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے خود نافرمانی اور روگردانی کا راستہ اپنے لئے اختیار کیا ۔ غرض یہ فیصلہ کن بات ہے کہ کوئی انفاق فی سبیل اللہ اور کوئی عمل صالح اس وقت تک مفید نہیں ہے جب اس کا رابطہ ایمانی منہاج سے نہ ہو ‘ جب تک وہ ایمانی داعیہ پر مبنی نہ ہو ۔ یہ فیصلہ اللہ کا ہے ‘ یہ اللہ کا کہنا ہے لہٰذا اس میں انسان کے لئے کچھ کہنے کا کوئی موقعہ باقی ہی نہیں رہتا ۔ اس فیصلے کو وہی لوگ چیلنج کرسکتے ہیں جو اللہ کی آیات کو چیلنج کرتے ہیں ‘ لیکن ان کا یہ چیلنج علم و دانش پر مبنی نہیں ہوتا ۔ وہ ہدایت پر مبنی ہوتا ہے ‘ نہ کتاب الٰہی کے روشن دلائل پر۔ یہ سبق جس کا آغاز اہل کتاب کے طرز عمل میں انحراف اور بگاڑ سے ہوا تھا ‘ جس میں بتایا گیا تھا کہ اہل کتاب کے جدال ومناظرے میں کیا کیا مغالطے ہیں ‘ جس میں تفصیلاًبتایا گیا کہ یہ اہل کتاب مسلمانوں کے خلاف کیا کیا سازشیں کررہے ہیں ‘ جس میں جماعت مسلمہ کو بتایا گیا تھا ‘ کہ اس کرہ ارض پر اس کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ‘ قطع نظر اس سے کہ یہ فاسق ‘ بگڑے ہوئے لوگ جو محاربہ کررہے ہیں وہ کیا کہتے ہیں ۔ اس سبق کے آخر میں جو اس پوری سورت میں طویل سبق ہے ‘ جماعت مسلمہ کو بڑی سختی سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ ہرگز ان لوگوں کے ساتھ خفیہ دوستی نہ رکھے جو اس کے قدرتی دشمن ہیں ۔ اس کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ان دشمنوں کو اپنا راز دان بنائے یا ان پر بھروسہ کرے ‘ جبکہ وہ ان تمام لوگوں کے بھی پکے دشمن ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔ اللہ کی جانب سے آئی ہوئی یہ تنبیہ اور تخویف ایک دائمی اصول ثبت ہوتی ہے اور ہم اس کا مصداق آج بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایک ایسی شکل ہے جسے قرآن کریم نے ایک زندہ جاوید صورت میں قلم بند کیا ہے لیکن قرآن کے حاملین آج اس سے غافل ہیں ۔ چناچہ ان کی اس غفلت کی وجہ سے ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور آئندہ بھی وہ یقیناً شر و فساد سے دوچار ہوں گے اور ان سے توہین آمیز سلوک کیا جائے گا ‘ اگر وہ نہ سمجھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

176 صِرٌّ کے معنی شدید سردی کے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے الصر البرد الشدید (قرطبی ص 177 ج 4، روح ص 36 ج 4، کبیر ص 51 ج 3) اور ظَلَمُوْ اَنْفُسَھُمْ میں ظلم سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے شرک اور کفر وعصیان کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اور ہلاکت و خسران کے مستحق ہوئے۔ ظلموا انفسھم بالکفر والمعاصی ومنع حق اللہ تعالیٰ فیہ (معالم و خازن ص 342 ج 1) حضرت شیخ کی تفسیر کے مطابق انفاق سے یہاں یہودیوں کے پیروں کا مریدوں پر اور مریدوں کا پیروں پر خرچ کرنا مراد ہے۔ نفقۃ الیہود علی علمائھم (جامع البیان ص 59) پہلے گذر چکا ہے کہ آخرت میں کفار کو ان کے مال ومنال سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا تو یہاں ایک شبہہ پیدا ہوسکتا تھا۔ کہ اگر کفار دنیا میں اپنی دولت نیک کاموں میں خرچ کر ڈالیں تو شاید آخرت میں اس کا انہیں ثواب مل جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہہ کا ازالہ فرمادیا کہ کافروں کا دنیا میں صدقہ و خیرات کرنا اور نیک کاموں میں اپنی دولت کو لگانا اجر آخرت کے اعتبار سے بالکل بےسود ہے آخرت میں اس کا انہیں ثواب مل جائے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس شبہہ کا ازالہ فرما دیا کہ کافروں کا دنیا میں صدقہ و خیرات کرنا اور نیک کاموں میں اپنی دولت کو لگانااجر آخرت کے اعتبار سے بالکل بےسود ہے۔ آخرت میں انہیں اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ کیونکہ اعمال صالحہ کے عند اللہ مقبول اور باعث اجر وثواب ہونے کے لیے ایمان اور اخلاص توحید شرط ہے اور کفار اس سے محروم ہیں اس لیے ان کے تمام اعمال باطل اور رائیگاں ہیں۔ کافروں کی خیرات کے بےسود ہونے کو اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی آسان، مثال کے ذریعے واضح فرمایا ہے جس طرح کافر اور مشرک قوم کی سرسبز و شاداب کھیتی ہو۔ لیکن انہوں نے اسے برف اور پالے سے محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو اور وہ اس کی شادابی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں۔ اور اس کی پیداوار کے بارے میں بہت پر امید ہوں کہ اچانک ہوا کا طوفان آجائے جس میں شدت کی سردی اور برف اور پالا ہو اور اس لہلہاتی ہوئی کھیتی کو بالکلیہ تباہ وبرباد کر کے رکھ دے اور کھیتی والے کف افسوس ملتے رہ جائیں اور ان کی اس کھیتی سے غلطہ اور دیگر منافع حاصل کرنے کی تمام امیدیں خاک میں مل جائیں بالکل یہی حال کفار کی خیرات کا ہے جس طرح ان کھیتی والوں کو اس کے نفع کی بڑی امید تھی مگر طوفان بادوبر نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اسی طرح کافر دنیا میں رفاہ عامہ کے کاموں میں اور دیگر کارہائے خیر میں اپنی دولت خرچ کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اگر واقعی قیامت آنیوالی ہے تو انہیں اس کا اجر وثواب ملے گا۔ لیکن کفر وشرک کی وجہ سے ان کے تمام اعمال باطل اور رائیگاں ہیں۔ مثل نفقۃ الکافرین فی بطلانھا وذھابہا و عدم منفع تھا کمثل زرع اصابہ ریح باردۃ او نار فاحرقتہ واھلکتہ فلم ینتفع اصحابہ بشیئ بعد ماکانوا یرجون فائدتہ ونفعہ (قرطبی ص 178 ج 4) مثال میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی کھیتی کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ کافروں کی خیرات کی ایسی چیز سے تشبیہ مقصود تھی جو بالکلیہ تباہ وبرباد ہوچکی ہو اور یہ بات صرف کافروں کی کھیتی ہی میں پائی جاسکتی ہے کیونکہ دنیا میں تو وہ اس کے منافع سے محروم ہو ہی گئے آخرت میں بھی انہیں اس کا کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ لیکن مسلمان کے دنیا میں مالی نقصان کا معاملہ اس سے جدا گانہ ہے دنیا میں مالی نقصان کی وجہ سے اگرچہ وہ اس کے فوائد ومنافع سے محروم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس نقصان کے عوض آخرت میں اجر وثواب کی صورت میں اسے اس کا صلہ ضرور ملے گا (کبیر ص 52 ج 3) ۔ 177 ان کے نفقات وصدقات کو اللہ تعالیٰ نے باطل اور مردود کر کے ان پر ظلم نہیں کیا یہ ان کی اپنی ہی بےراہ روی کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے ایمان وطاعت اور توحید خالص سے اعراض کیا۔ جو صدقات اور دیگر اعمال کے قبول ہونے کی شرط اولین ہے اور شرک و طغیان اور کفر وعیصیان کی راہ اختیار کرلی جو غضب الٰہی کی طرف لے جاتی ہے۔ لان عملھم لم یکن للہ وھم بالوحدانیۃ دائنون والمرہ متبعون ولرسلہ مصدقون بل کان ذالک منھم وھم بہ مشرکون ولامرہ مخالفون ولرسلہ مکذبون بعد تقدم منہ الیھم انہ لا یقبل عملا من عامل الا مع اخلاص التوحید لہ الخ (ابن جریر ص 37 ج 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کی روش اختیار کر رکھی ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی گرفت کے مقابلہ میں نہ ان کافروں کے مال کچھ کام آسکیں گے اور نہ ان کی اولاد کچھ کام آسکے گی اور یہ لوگ اہل دوزخ اور دوزخ میں رہنے والے ہیں اور یہ اس دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے یہ کافر جو کچھ دنیوی زندگی میں خرچ کرتے اور خیر خیرات کرتے ہیں اس کی حالت تباہ و برباد ہونے میں ایسی ہے جیسے اس ہوا کی حالت جس میں سخت پالا اور تیز سردی ہوا اور سوہ پالے والی ہوا ایک ایسی قوم کی کھیتی کو جا لگے جنہوں نے اپنے جانوں پر ظلم کا ارتکاب کیا ہو اور وہ سرد ہوا اس کھیتی کو برباد کر ڈالے اور بالکل نیست و نابود کر دے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی کفر و بدینی کے مرتکب ہو کر اپنی جانوں پر ظلم توڑ رہے تھے اور اپنے کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ (تیسیر) آیت کا تعلق بظاہر سیاق وسباق سے یہود کے ساتھ ہے لیکن اس معاملہ میں چونکہ تمام کفار مشرک ہیں اس لئے ان الذین کفروا خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا کفار مکہ ہوں بلکہ خیرات و صدقات کے ثواب سے محرومی میں تو بعض ریا کار مسلمان بھی مشرک ہیں۔ عموم کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مکہ کے بعض کافر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے سامنے اپنے مال و اولاد کی کثرت پر فخر کیا کرتے تھے۔ اور ان دونوں چیزوں کی کثرت سے اپنے معذب نہ ہونے پر استدلال کیا کرتے تھے جیسا کہ سورة سبا میں ان کا قول ذکر کیا۔ وقالوا نحن اکثرا موالا و اولادا وما نحن بمعذبین یعنی ہم مال اور اولاد میں بہت زیادہ ہیں اور ہم عذاب نہیں دیئے جاسکتے۔ اس لئے حضرت حق تعالیٰ نے عموم کے ساتھ فرمایا۔ مال کا کام نہ آنا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تو ظاہر ہی ہے کہ وہاں مال ہوگا ہی نہیں تو کام کیا آئے گا اور اگر فرض کرو کسی کے پاس ہو بھی تو فدیہ میں قبول نہیں جائے گا خواہ زمین سے بھرا ہوا سونا ہی کیوں نہ ہو رہی اولاد تو بھلا جہاں نفسی نفسی کا ہنگامہ ہو وہاں اولاد کیا نفع دے سکتی ہے۔ اس سورة میں چند رکوع پیشتر اسی مضمون کی آیت گزر چکی ہے وہاں مزید تفصیل مذکور ہے چونکہ مال و اولاد کے نافع ہونے کی نفی فرمائی تھی اس لئے خیال ہوتا تھا کہ بعض کافر طاعات میں بھی تو خرچ کرتے ہیں اس کا ثواب تو ان کو ملے گا کیونکہ کافر جو خیرات کرتے ہیں کچھ تو ایسے کاموں میں خرچ کرتے ہیں جو واقعی مسلمانوں کے نزدیک بھی اچھے ہیں مثلاً مخلوق کی خدمت کرنا غرباء کو کھانا کھلانا محتاجوں کا علاج کرنا کہ یہ کام اچھے ہیں اور بعض کام ایسے ہیں جو ان کے نقطۂ نگاہ سے اچھے ہیں مثلاً مندر بنانا اپنے مذہب کی اشاعت پر خرچ کرنا اس قسم کے انفاق پر یہ توقع ہوتی تھی کہ قیامت میں کچھ فائدہ ان کو ملے گا اس لئے آگے کی آیت میں اس قسم کی امید کا رد فرمایا کہ ان کو کسی قسم کی خیرات عذاب سے نہ بچا سکے گی کیونکہ اگر کفر کی ترویج میں خرچ کیا ہے تب تو اس کا بےکار ہونا ظاہری ہے اور محتاج و مساکین پر اگر خرچ کیا تب بھی اس کی قبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور ایمان ہے نہیں اس لئے فرمایا کہ دنیوی زندگی میں ان کے انفاق کی حالت ایسی ہے جیسے پالا ماری کھیتی جس کو پالے کی ہوا لگ جائے اور وہ جل کر خاک ہوجاتی ہے اسی طرح ان کی خیرات کا حال ہے اور قوم کے ساتھ جو یہ قید لگائی کہ انہوں نے اپنی جانوں پر کفر کر کے ظلم کر رکھا تھا یہ شاید اس لئے لگائی کہ اگر یہ لوگ کافر نہ ہوتے بلکہ مسلمان ہوتے تب بھی پالا کھیتی کو اجاڑ دیتا لیکن نقصان پر کچھ نہ کچھ اجر ضرور ملتا جیسا قاعدہ ہے کہ مسلمان کو اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض اجر دیتا ہے یا اس بندے کی خطائیں معاف کردیتا ہے لیکن پالے کی ہوا نے کھیتی بھی اجاڑی اور تھے بھی کافر اس لئے کوئی نفع مرتکب نہیں ہوا۔ جیسا کہ سورة فرقان میں ہے۔ وقد منا الی ما عملوا من عمل فجعلنا لا ھباء منشورا۔ یہاں تشبیہہ مفرد بالمفرد بھی ہوسکتی ہے مثلاً یوں کہا جائے کافر کا مال خرچ کرنا اس کے مال کو اس طرح برباد اور ختم کرتا ہے جس طرح پالے کی ہوا کھیتی کو برباد کردیتی ہے یعنی مال خرچ ہوجاتا ہے اور فائدہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (واللہ اعلم) ہم نے تشبیہہ مرکب کی صورت پر تفسیر کی ہے یعنی کافر کے اتفاق کو پورے واقعہ سے تشبیہہ ہے آخری آیت میں اولاد کے متعلق کوئی بات نہیں فرمائی یہ اس لئے کہ خیرات میں جو نفع کا احتمال تھا وہ وہاں نہیں ہے نیز یہ اولاد کا بےکار ہونا بالکل بدیہی ہے اگر اولاد مسلمان ہے تو وہ قیامت میں کافر کی سخت مخالف ہوگی اور اگر اولاد کافر ہوئی تو وہ خود ہی عذاب میں مبتلا ہوگی۔ صر کے معنی ہیں سخت تیز سردی اور ٹھنڈک۔ بعض اہل لغت نے فرمایا ہے کہ قرآن میں عام طور سے ریح کا لفظ عذاب آلود ہوا کے لئے استعمال ہوا ہے اور رحمت کے لئے ریاح بولا گیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ کی رضا پر نہ دیا آخرت میں دیا نہ دیا برابر ہے۔ (موضح القرآن) ان آیتوں میں کفار کے عموماً اور یہود کے خصوصاً احوال کا ذکر تھا اور ان کی برائیاں مذکور تھیں اب آگے مسلمانوں کو خطاب ہے کہ جب ان لوگوں کے عناد کا یہ حال ہے اور ان کے کفر و نفاق کی یہ حالت ہے تو ان سے راز دارانہ تعلقات قائم نہ کرو مبادا دوستانے میں کوئی بھید کی بات تمہارے منہ سے نکل جائے اور تمہارے دشمن اس بھید سے ناجائز فائدہ اٹھا لیں۔ (تسہیل)